بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
قٰالَ اللہ تَعالیٰ : فَاذَا قَضَیتُم مَناسکَکُم فَاذکُرُوا اللہَ کَذ کرکُم آبائَکُم اَو اَشَدَّ ذکرا´

مسلمان بھائیو اوربہنو!
حج کے ایام امید و نوید کے دن ہیں ۔ ایک طرف خانۂ توحید کے مسافروں کے درمیان یکجہتی کی شان و شوکت، دلوں میں امید پیدا کرتی ہے اور دوسری طرف ذکر الہی کی برکت سے دل و جان کو ملنے والی طراوت باب رحمت کھلنے کی خوشخبری دیتی ہے۔ حجاج، حج کے رمز و اسرار سے لبریز مناسک اداکرنے کے بعد جو خود ذکر الہی اور خشوع و خضوع سے پر ہیں ایک بار پھر ذکر خدا کے لئے بلائے جاتے ہیں، یہ تاکید اس وجہ سے ہے کہ یاد الہی افسردہ دلوں کو جلا دیتی ہے اور ان میں ایمان و امید کی روشنی پیدا کرتی ہے اور دل جب پر امید اور باایمان ہوتا ہے تو آدمی کو زندگی کے پر پیچ و خم راستوں کو طے کرنے اور مادی و روحانی کمال کی چوٹیوں تک پہونچنے کی قدرت و طاقت عطا کرتا ہے۔ حج کی معنویت و روحانیت اسی ذکر الہی میں ہے کہ جو روح کی مانند حج کے ایک ایک عمل میں رچی بسی ہے۔ یہ مبارک سرچشمہ زمانۂ حج کے بعد بھی پھوٹتا رہے اور اس کے ثمرات جاری رہیں۔ انسان زندگي کے مختلف میدانوں میں اپنی غفلت کا شکار ہے۔ جہاں بھی غفلت ہے وہاں اخلاقی انحطاط، فکری کجروی اور نفسیاتی ہزيمت بھی ہے اور یہی تباہیاں انسان کی شخصیت کے اضمحلال کے علاوہ قوموں کی شکست اور تہذیبوں کے بکھرنے کا باعث ہوتی ہیں۔ غفلت کو دور کرنے کے لئے اسلام کی ایک بڑي تدبیر حج ہے۔ حج کا بین الاقوامی ہونا یہ پیغام دیتا ہے کہ امت مسلمہ اپنے اجتماعی تشخص میں بھی ہر مسلمان کی انفرادی ذمے داری سے ہٹ کر خود سے غفلت کو دور کرنے کی ذمے دار ہے۔ عبادتیں اور مناسک حج یہ موقع فراہم کرتے ہیں کہ ہم لذت پسندی، ہوا و ہوس اور آرام طلبی سے اپنی غافلانہ وابستگي اور اسیری سے خود کو آزاد کریں۔ احرام، طواف، نماز اور سعی و وقوف ہمیں یاد خدا سے سرشار اور حریم الہی سے قریب کرتے ہیں اور ہمارے کام و دہن میں خدا سے انس کی لذت پیدا کرتے ہیں۔ دوسری جانب اس بے مثال اجتماع کارعب و جلال، ہمیں عظیم امت مسلمہ کی حقیقت سے جو قوم ونسل اور رنگ و لسان کے تفرقوں سے بڑھ کر ہے آشنا کرتا ہے۔ یہ متحد و ہماہنگ اجتماع، یہ زبانیں جو سب کی سب ایک ہی کلمے کا ورد کررہی ہیں، یہ جسم ودل جوایک ہی قبلے کی جانب متوجہ ہیں، یہ انسان جو دسیوں ممالک اور اقوام کی نمائندگي کر رہے ہیں، سب ایک ہی اکائی اور ایک عظیم مجموعے سے متعلق ہیں اور وہ امت مسلمہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امت مسلمہ غفلت کے ایک طویل دور سے گذری ہے۔ آج کی سائنسی اورعملی پسماندگی اور سیاست و صنعت اور اقتصاد کےمیدانوں میں پچھڑاپن ان غفلتوں کا تلخ ماحصل ہے۔ اس وقت دنیا میں جو حیرت انگيز تبدیلی آئی ہے، یا آرہی ہے اس کے ذریعے امت مسلمہ کو چاہیے کہ اپنی ماضي کی غفلتوں کی تلافی کرے اور خوش قسمتی سے موجودہ دور کے بعض مسائل اس تلافی کی تحریک کے آغاز کی نوید دیتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سامراجی دنیا، مسلمانوں کی بیداری، اتحاد اسلامی اور علم و دانش اور سیاست و ایجادات کے میدانوں میں ہماری قوم کی پیشرفت کو اپنے عالمی غلبہ و تسلط کے لئے سب سے بڑا مانع شمار کرتی ہے اور پوری طاقت کے ساتھ اس سے بر سر پیکار ہے۔ ہم مسلمان قوموں کے سامنے سامراج اورجدید سامراج کے دور کے تجربے موجود ہیں۔ آج جدید سامراج کے دور میں ہمیں تجربوں سے درس حاصل کرنا چاہیے۔ ہمیں چاہئے کہ ایک بار پھر طویل عرصے کے لئے دشمن کواپنی تقدیر پر مسلط نہ کریں، ان تلخ و تاریک زمانوں میں مسلط مغربی طاقتوں نے مسلمان قوموں اور ملکوں کو کمزور کرنے کےلئے تمام فوجی، سیاسی، معاشی اور ثقافتی ہتھکنڈوں کا استعمال کیا۔ ان پر تفرقہ و اختلاف، جہالت اور غربت کو مسلط کردیا۔ ہمارے بہت سے ثقافتی دانشوروں کی فرائض سے دوری اوربہت سی سیاسی شخصیتوں کی کمزوری، کاہلی اورغفلت نے ان کی مدد کی اور اس کا نتیجہ ہماری دولت و ثروت کی لوٹ کھسوٹ، توہین اور حتی ہمارے قومی تشخص کے انکار اور ہماری خود مختاری کی نابودی کی صورت میں نکلا۔ مسلمان قومیں روز بروز کمزور ہوئیں اور تسلط پسند اور لالچی لٹیرے روز بروز مزيد مضبوط ہوتے گئے۔ اس وقت جب مجاہدین کی فداکاری اور دنیائے اسلام کے بعض حصوں میں قائدین کی شجاعت و اخلاص سےاسلامی بیداری نے اپنی لہروں کو وسعت دی اور نوجوانوں، دانشوروں اور عوام کو بہت سے اسلامی ملکوں کومیدان میں اتارا اور بہت سے مسلمان حکام اور سیاستدانوں کے سامنے تسلط پسندوں کی غدار شبیہ آشکار ہوگئی ہے، عالمی سامراج کے سرغنے ایک بارپھر دنیائے اسلام پر اپنا تسلط مضبوط کرنے اوراسے جاری رکھنے کے لئے جدید ہتھکنڈوں کی فکر میں پڑ گئے ہیں، جمہوریت پسندی اور انسانی حقوق کا نعرہ ان ہتھکنڈوں میں سے ایک ہے۔ آج شیطان اعظم ( امریکہ ) جو خود انسانیت کے خلاف برائیوں اور سنگدلی کا مظہر ہے، انسانی حقوق کی حمایت کا علمبردار بنا ہوا ہے اور مشرق وسطی کی اقوام کو جمہوریت کی دعوت دے رہا ہے۔ امریکہ کے نقطۂ نگاہ سے ان ممالک میں جمہوریت سے مراد یہ ہے کہ ایسے پٹھو اور کٹھ پتلی عناصر سازش، رشوت، اوچھے ہتھکنڈوں اور پروپیگنڈوں کے ذریعے ظاہرا´ عوامی اور دراصل امریکی انتخابات کے بل بوتے پر بر سر اقتدار آئیں جو ناپاک سامراجی عزائم کی تکمیل کے لئے امریکہ کا آلۂ کار بن سکیں۔ ان مقاصد میں سر فہرست اسلام پسندی کی لہروں کو ختم کرنا اور ایک بار پھر اعلی اسلامی اقدار کو پس منظر میں ڈالنا ہے۔ امریکہ اور دیگر تسلط طلب طاقتیں آج اسلامی بیداری کی تحریک کو روکنے اور اگر ہوسکے تو اس کو کچلنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں۔ مسلم اقوام کو چاہیے کہ وہ آج پوری طرح آگاہ و ہوشیار ہو جائیں۔ علمائے کرام اور مذہبی رہنماؤں، روشن فکر دانشوروں، ادیبوں اور شاعروں، فن کاروں، نوجوانوں اور معاشرے کے ممتاز افراد پر فرض ہے کہ سب مل کر ہوشیاری اور بر وقت اقدام کے ذریعے عالمی لٹیرے امریکہ کو اس بات کی اجازت نہ دیں کہ وہ عالم اسلام میں سامراجی تسلّط کے ایک نئے دور کا آغاز کرسکے۔ ان قابض طاقتوں کی جمہوریت پسندی کے نعرے قابل قبول نہیں ہیں جو برسوں تک ایشیا، افریقہ اور براعظم امریکہ میں آمروجابر حکومتوں کی حامی رہی ہیں۔ ان لوگوں کی طرف سے تشدّد اور دہشت گردی کے خلاف جد و جہد کے دعوے نفرت انگیز ہیں جو خود صیہونی دہشت گردی کا پر چار کرتے ہیں اور عراق وافغانستان میں پر تشدّد خونی واقعات کے مرتکب ہورہے ہیں۔ ان شیطانوں کی طرف سے شہری حقوق کی حمایت ایک نفرت انگیز فریب کے سوا کچھ نہیں جنہوں نے فلسطین کے مظلوم عوام پر شیرون جیسے خون آشام دہشت گرد کے جرائم کی تعریف و تمجید کے ساتھ ساتھ اس کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ گوانتانامو بے اور ابوغریب اسی طرح یورپ کی خفیہ جیلوں میں جرائم کے مرتکب ہونے والوں، عراقی و فلسطینی قوموں کی تحقیر کرنے والوں اور افغانستان و عراق میں اسلام کے نام پر مسلمانوں کے خون بہانے کو جائز سمجھنے والے گروہوں کی تربیت کرنے والوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ انسانی حقوق کی بات کریں۔ امریکہ و برطانیہ کی حکومتوں کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو شہری حقوق کی محافظ قرار دیں۔ کیوں کہ وہ ملزمین کی ایذارسانی و آزار، نیز سڑکوں پر ان کاخون بہانے کو جائز سمجھتی ہیں، یہاں تک کہ وہ بغیر کسی عدالتی حکم کے اپنے ہی شہریوں کی ٹیلیفون کال سننے کو جائز سمجھتی ہیں۔ وہ حکومتیں جنہوں نے ایٹمی اور کیمیاوی ہتھیار تیار اور استعمال کرنے کے ذریعے عصر حاضر کی تاریخ میں ایک سیاہ باب رقم کیا ہے وہ جوہری ٹیکنالوجی کے عدم پھیلاؤ کی علمبردار نہیں بن سکتیں۔
مسلمان بہنو اور بھائیو! آج دنیا خاص طور پر عالم اسلام ایک حساس دور سے گذررہا ہے۔ ایک طرف سے بیداری کی لہر نے عالم اسلام کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور دوسری طرف سے امریکہ اور دیگر مستکبروں کے مکارانہ چہروں سے فریب و ریا کے پردے اترگئے ہیں ۔ ادھر تشخص اور کھوتی ہوئی شان و شوکت کی بازیابی کے لئے عالم اسلام کے بعض مقامات پرتحریک اٹھ رہی ہے اورعظیم مملکت اسلامی ایران میں آزاد اور مقامی سائنس و ٹیکنالوجی کے ثمرات حاصل ہونے لگے ہیں اور جو خود اعتمادی سیاسی اور معاشرتی میدانوں میں انقلابی دگرگونیوں کاباعث بنی تھی، سائنس اور تعمیر و ترقی کے میدانوں میں بھی اس کی جھلک نظر آنے لگی ہے، تو دوسری طرف دشمنوں کی سیاسی و عسکری صفوں میں ضعف و اضمحلال پیدا ہوا ہے۔ آج ایک طرف سے عراق، دوسری طرف سے فلسطین و لبنان میں طاقت کے بلند بانگ دعوؤں کے باوجود امریکہ اور صیہونیوں کی ناتوانی کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ امریکہ کی مشرق وسطی کی پالیسی میں ابتدا ہی میں بڑی رکاوٹیں پیدا ہوگئی ہیں اور اس پالیسی میں اس کی ناکامی، اس کے نظر یہ پردازوں کے لئے سوہان روح بنی ہوئي ہے۔ وقت ہوا ہے کہ مسلم قومیں اورحکومتیں حالات کو اپنے قابو میں لاکر ایک عظیم کارنامہ انجام دے سکیں۔ مظلوم فلسطینی قوم کی مدد، عراق کی آگاہ قوم کی حمایت اور شام و لبنان اور علاقے کے دیگر ممالک کے استحکام کی حفاظت ایک اجتماعی فریضہ ہے۔ اس سلسلے میں ممتاز سیاسی، دینی اور ثقافتی شخصیات ، اکابرین قوم، نوجوانوں اور دانشوروں کی ذمہ داریاں دوسرے طبقات سے زیادہ بھاری ہیں ۔ اسلامی فرقوں کے درمیان وحدت و یکجہتی اور فرقہ وارانہ و قومی اختلافات سے پرہیز ان ممتاز افراد کا نصب العین ہونا چاہیے۔ سائنسی پیشرفت، سیاسی ترقی اور ثقافتی جد و جہد اور ان بنیادی میدانوں میں تمام قوتوں کوبروئے کار لانا ان کی دعوت کی بنیاد ہونی چاہیے۔ عالم اسلام کوعوامی اقتدار اور انسانی حقوق کے لئے مغرب کے بار بار پامال ہونے والے غلط نسخے کی ضرورت نہیں ہے۔ عوامی اقتدار اسلامی تعلیمات کا حصہ ہے اور انسانی حقوق اعلی ترین اسلامی پیغام میں شامل ہیں۔ علم کو اس کے جاننے والوں سے جہاں سے اور جس سے ممکن ہو سیکھنا چاہیے ، لیکن عالم اسلام کو ہمت کی کمر باندھنا پڑےگی کہ وہ ہمیشہ طالب علم نہ رہے بلکہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے نت نئی ایجادات، سائنسی تخلیق اور انکشافات کے لئے سعی و کوشش کرے۔ مغربی اقدار جو مغربی ملکوں میں اخلاقی گراوٹ، نفسانی خواہشات اور تشدد کی ترویج نیز ہم جنس پرستی اور اسی طرح کی دیگر برائیوں کو قانونی شکل دینے پر منتج ہوئے ہیں، قابل تقلید اور مثالی اقدار نہیں ہیں۔ اسلام اپنے اعلی اقدار کے ساتھ، انسانوں کی فلاح و نجات کا اعلی سرچشمہ ہے اور قوموں کے ممتاز لوگوں پر ان اقدار کے احیاء اوران کو فروغ دینے کی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اندھی اور وحشیانہ دہشت گردی جسے آج عراق پرقابض طاقتیں اسلام اور مسلمانوں پرحملے کاوسیلہ بنائے ہوئے ہیں اور جو اس اسلامی ملک پر فوجی قبضہ جاری رکھنے کا بہانہ ہے، اسلامی تعلیمات کی رو سے قابل مذمت ہے۔ ان مجرمانہ واقعات کے اصل ملزم امریکی فوجی اور امریکہ اور اسرائیل کے ادارے ہیں۔ عراق میں حکومت کی تشکیل کے عمل پر اثر انداز ہونا ان کے ان اہم ناپاک منصوبوں میں سے ایک ہے ۔
مسلمان بھائیو اوربہنو !
اللہ پر توکل، قرآن مجید کےحتمی یقینی وعدے پر اعتماد اوراسلامی اتحاد کے استحکام میں ہی امت مسلمہ کے تمام بڑے مقاصد کی ضمانت ہے اور فریضۂ حج ذکر اللہ کے کارساز اور مالامال سرمائے کے ساتھ اوراس کے مناسک میں مسلمانوں کا عظیم اجتماع اس وسیع تحریک کا نقطۂ آغاز اور پہلا قدم ہوگا اور اس فریضے میں استکبار اور کفر کے سرغنوں سےقول و فعل کے ذریعے بیزاری اس راہ میں پہلا قدم ہوگا۔ ہم آپ حجاج کےلئے نیک خواہشات کے خواہاں اور تمام مسلمانوں کے لئے امام زمانہ حضرت امام مہدی (عج ) کی دعا کے طالب ہیں ۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ
سید علی خامنہ ای
ذی الحجّہ 1426 ہج ، مطابق 9 جنوری 2006 ع