بسم الله الرّحمن الرّحیم
الحمدلله رب العالمین و الصلوه و السلام علی سیّدنا محمد المصطفی وعلی آله الطیبین و صحبه المنتجبین

سلام ہو خانۂ خدا کے زائروں، سرائے دوست کے میہمانوں اور اس کی دعوت پر لبیک کہنے والوں پر۔ مخصوص درود و سلام ہو ذکر خدا سے منور اور الطاف و عنایات الہی سے معمور دلوں پر جن کے استقبال کے لئے رحمت کے دروازے وا ہو جاتے ہیں۔ حج کےشب و روز اور روح بخش لمحوں میں بہت سے لوگوں نے موقع سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے خود کو دریائے روحانیت و معنویت سے سیراب کر لیا۔ توبہ و استغفار کے ذریعے دل وجان کو نورانیت بخشی اور رحمت الہی کی امواج میں جو اس وادی مقدس میں پے در پے اٹھ رہی ہیں خود کو گناہ و شرک کے زنگ سے صاف کرلیا ہے۔ اللہ کا سلام ہو پاکیزہ دلوں، نیک سرشت افراد اور صاحبان دل پر۔ تمام بہن بھائیوں کے لئے بہتر ہے کہ ان ثمرات کے بارے میں غور و فکر کریں اور ان عظيم لمحات کی قدر کریں۔ اس بات کی اجازت نہ دیں کہ اس مقدس وادی میں بھی مادی زندگي کے جھمیلے جس میں ہمیشہ ہم پھنسے رہتے ہیں ہمارے دلوں کو مشغول رکھیں بلکہ ذکر خدا، توبہ و استغفار، گریہ و زاری، صداقت و پاکیزگي، حسن کردار اور فکر صالح کے لئے عزم راسخ اور خداوند عالم کی بارگاہ میں نصرت و مدد کی التجا کے ذریعے اپنے دل بیتاب و مشتاق کو الوہیت و وحدانیت و معنویت سے معطر فضا میں پرواز کے قابل بنا لیں۔ خدا کی راہ میں استقامت اور صراط مستقیم پر ثابت قدم رہنے کے لئے ضروری اسباب و وسائل حاصل کر لیں۔ یہ حقیقی وحدانیت کا مرکز ہے، یہی وہ جگہ ہے جہاں خلیل خدا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے پارۂ جگر کو قربان گاہ میں لاکر یکتا پرستی کا بے مثال نمونہ، جو در اصل نفس پر غلبےاور حکم الہی کے سامنےسراپا تسلیم ہو جانے سے عبارت ہے، پیش کیا اور پوری تاریخ عالم میں تمام یکتا پرستوں کے لئے یادگار بنادیا، یہی وہ جگہ ہے جہاں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے زمانے کی بڑی طاقتوں اور زور و زر کے خداؤں کے سامنے توحید و وحدانیت کا پرچم لہرایا اور اللہ پر ایمان کے ساتھ ہی طاغوت سے نفرت و بیزاری کو نجات و سعادت کی شرط بنا دیا۔
فمن یکفر بالطاغوت و یومن با الله فقد استمسک بالعروه الوثقی
( اب جو شخص بھی طاغوت کا انکار کرکے اللہ پر ایمان لے آیا وہ اس کی مضبوط رسّی سے متمسک ہوگیا ہے ) حج انہی عظيم تعلیمات کے اعادے اور انہیں یاد کرنے کے معنی میں ہے، مشرکین سے برائت و بیزاری، بتوں اور بت سازوں سے نفرت کا اعلان، وہ جذبہ ہے جو مؤمنین اور صاحبان ایمان کے مناسک حج پر حکم فرما رہتا ہے۔ اعمال حج کا ہر مقام اور اس کا ہر لمحہ اللہ تعالی کے سامنے خود سپردگی، اس کی راہ میں سعی و کوشش، شیطان سے دوری و بیزاری اس کو کنکریاں مارنے اور خود سے دور کرنے اور خود کو اس کے مد مقابل کھڑا کرنے کا حقیقی مظہر ہے۔ حج کا ہر مرحلہ، قبلے کے محور پر اجتماع، اتحاد و یکجہتی، نسلی و لسانی تفریق کے انکار اور مسلمانوں کی حقیقی اخوت و دوستی کا نمونہ ہے۔ یہ وہ دروس و تعلیمات ہیں جو ہم سبھی مسلمانوں کے لئے خواہ دنیا کے کسی بھی گوشے سے ہمارا تعلق ہو، واجب العمل ہیں۔ ہمیں انہی کی بنیاد پر اپنی زندگي اور مستقبل کی منصوبہ بندی کرنی چاہئے۔ قرآن نے دشمنوں کے مقابلے میں قوت و اقتدار کے ساتھ محاذ آرائی، مؤمنین کے درمیان مہر و محبت اور خداوند عالم کے حضور خضوع و خشوع کو اسلامی معاشرے کی تین نشانیاں اور علامتیں قرار دیا ہے۔
محمد رسول الله و الذین معه اشداء علی الکفار رحماء بینهم تراحم رکعا سجدا یبتغوه فضلا من الله و رضوانا ...
(حضرت محمّد (ص) اللہ کے رسول اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں کافروں کے خلاف سخت آپس میں رحم دل ہیں آپ انہیں دیکھیں گے کہ رکوع اور سجدہ کررہے ہیں اللہ کے فضل و کرم اور رضا و خوشنودی کی کوشش میں رہتے ہیں ) امت اسلامیہ کے باشکوہ اور پر وقار پیکر و پرچم کے یہ تین بنیادی ستون ہیں۔ تمام مسلمان اس حقیقت کو مد نظر رکھ کر عالم اسلام کے موجودہ مسائل و مشکلات کو صحیح طریقے سے پہچان سکتے ہیں۔ آج امت اسلامیہ کے سب سے بڑے دشمن وہ استکباری عناصر اور توسیع پسند اور جارح طاقتیں ہیں جو اسلامی بیداری کو اپنے ناجائز مفادات اور عالم اسلام پر اپنے ظالمانہ تسلّط کے لئے ایک بڑا خطرہ سمجھتی ہیں۔ تمام مسلمانوں اور خاصوصا سیاستدانوں، علماء و دانشوروں، روشن فکر افراد اور مختلف ملکوں کے سربراہوں کا فریضہ ہے کہ اس جارح دشمن کے خلاف زیادہ سے زیادہ قوت و استحکام کے ساتھ ایک متحد اسلامی محاذ تشکیل دیں۔ اپنی اندرونی توانائیوں کو منظم کریں اور امت اسلامیہ کو حقیقی معنی میں طاقتور اور با اثر بنائیں۔ علم و معرفت، دانشمندی و ہوشیاری، احساس ذمہ داری، سچی دینداری، الہی وعدوں پرایقان وایمان، فریضے کی ادائیگي اور رضائے خدا کے حصول کے لئے حقیر و ناچیز خواہشات سے چشم پوشی یہ سب امت مسلمہ کی قوت و اقتدار کی بنیادی شرطیں ہیں جو اس کو عزت و وقار، خود مختاری و آزادی اور مادی و معنوی ترقی سے ہم کنار کر سکتی ہیں، دشمن کو اسلامی ملکوں میں دست درازی توسیع پسندی اور ریشہ دوانیوں میں ناکام بناسکتی ہیں ۔ مؤمنین کے درمیان صلح و آشتی، امت مسلمہ کی ایک اور پسندیدہ صفت ہے۔ امت مسلمہ کے مختلف فرقوں اور مکاتب فکر کے مابین اختلاف و تفرقہ، خطرناک بیماری ہے جس کا پوری توانائي کے ساتھ فوری علاج کرنا چاہئے۔ ہمارے دشمنوں نے اس میدان میں بھی عرصہ دراز سے وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے اور آج جب اسلامی بیداری نے ان کو وحشت میں مبتلا کر دیا ہے تو انہوں نے اپنی کوششیں اور تیز کردی ہیں۔ تمام ہمدردوں کا کہنا یہ ہے کہ تفاوت و فرق کو کینہ توزی و دشمنی کا باعث نہیں بننے دینا چاہئے، رنگ و نسل کا تنوع جنگ و جدل پر منتج نہیں ہونا چاہئے۔ اس سال کو ملت ایران نے قومی اتحاد و اسلامی یکجہتی کے سال کا نام دیا ہے۔ مسلمان بھائیوں کے درمیان اختلاف پیدا کرنے والی سازشوں کی شدت کا ادراک کرتے ہوئے اس سال کو اس نام سے موسوم کیا گیا۔ فلسطین، لبنان، عراق، پاکستان اور افغانستان میں دشمنوں کی یہ سازشیں کامیاب ہوئیں اور ایک ہی مسلمان ملک کے کچھ لوگ اسی ملک کے کچھ دوسرے لوگوں کے خلاف قتل و غارت کےلئے کمربستہ ہو گئے۔ ایک دوسرے کا خون بہایا۔ ان تمام تلخ اور افسوسناک واقعات میں دشمنوں کی سازشیں بالکل عیاں تھیں اور باریک بیں نگاہوں نے ( ان حادثات میں ) دشمن کا ہاتھ دیکھا ہے۔ قرآن کریم میں رحماء بینہم کا حکم اسی طرح کی جنگوں اور لڑائیوں کی بیخ کنی کے لئے ہے۔ آپ ان پرشکوہ ایّام اور حج کے گوناگوں مناسک میں دنیا کے مختلف مقامات اور مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو دیکھ رہے ہیں جو ایک گھر کا طواف کررہے ہیں، ایک ہی کعبے کی جانب رخ کرکے نماز ادا کررہے ہیں۔ شیطان رجیم کی علامت (جمرات) کو ایک ساتھ ملکر پتھر ماررہے ہیں اور نفسانی خواہشات اور ہوا و ہوس کی قربانی کی علامت کے طور پر یکساں عمل انجام دے رہے ہیں اور عرفات و مشعر میں ٹھہرنے کے دوران ایک ساتھ مل کر ( خدا کے حضور ) گریہ و زاری کر رہے ہیں۔ اسلامی فرقے اپنے بنیادی عقائد اور بیش تر اعمال و احکام میں ایک دوسرے کے قریب ہیں اور ان میں یکسانیت ہے۔ ان تمام مشترکات کے ہوتے ہوئے بھی تعصب اور تنگ نظری ان کے درمیان اختلاف کی آگ کیوں کر بھڑکاتی ہے اور خائن و غدار دشمن کو اس خطرناک آگ کو ہوا دینے کا موقع کیسے مل جاتا ہے؟ آج جو لوگ تنگ نظری و نادانی کی وجہ سے بے بنیاد مسائل کے بہانے مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت و فرقے کو مشرک گردانتے ہیں اور حتی ان کا خون بہانے کو روا جانتے ہیں، یہ لوگ در حقیقت، دانستہ یا ندانستہ طور پر شرک و کفر اور سامراج کی خدمت کررہے ہیں۔ کیا معلوم کہ جن لوگوں نے پیغمبر اعظم (ص) اولیائے کرام اور ائمہ معصومین علیہم السلام کے روضوں کی زیارت و تکریم کو جو دینداری کا مظہر ہے شرک و کفر قراردیا کہیں وہ خود کافروں اور ظالموں کے دربار کی تکریم میں مصروف تو نہیں ہیں، کہیں وہ ان کے ناپاک عزائم کو پائے تکمیل تک پہنچانے میں ممد و معاون تو ثابت نہیں ہورہے ہیں؟! سچے علماء، دینی جذبے سے روشن دماغوں اور مخلص حکمرانوں کو چاہئے کہ اس طرح کی خطرناک لعنتوں اور اقدامات کا مقابلہ کریں۔ آج اسلامی اتحاد و یکجہتی ایک لازمی ہدف ہے جو دانشمندوں اور قومی ہمدردی کے جذبے سے سرشار افراد کے محنت و مشقت سے حاصل کیا جا سکتا ہے اور اس عظیم مقصد کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے۔ عزت و سربلندی کے یہ دونوں ستون، یعنی ایک طرف استکبار کے مقابلے میں مضبوط صف آرائي اور مستحکم محاذ کی تشکیل اور دوسری طرف مسلمانوں کے درمیان اخوت و محبت و مہربانی جب تیسرے ستون یعنی پروردگار کے حضور خشوع و تعبّد و بندگي کے ساتھ مل جائیں گے توامت اسلامیہ دوبارہ اسی راستے پر چل پڑےگی جس پر چل کر صدر اسلام کے مسلمانوں کو عزت و عظمت ملی تھی۔ اس کے نتیجے میں مسلمان قومیں اس ذلت آمیز پسماندگی سے جو حالیہ صدیوں کے دوران ان پر مسلّط کر دی گئی ہے نجات و چھٹکارہ حاصل کرلیں گی۔ اس عظیم تحرک کا آغاز ہوچکا ہے اور پورے عالم اسلام میں بیداری کی لہریں ہر جگہ ارتعاش پیدا کر رہی ہیں۔ دشمنوں کے ذرائع ابلاغ، ان کی پروپیگنڈہ مہم اور ان کے ایجنٹوں کی کوشش ہے کہ عالم اسلام کے کسی بھی گوشہ میں عدل و انصاف کے مطالبے اور حریت پسندی کی جو بھی تحریک اٹھے اسے ایران یا پھر شیعیت سے منسوب کردیں اور اسلامی ملک ایران کو جو اسلامی بیداری کا کامیاب علمبردار ہے ان کاری ضربوں کا ذمہ دار قرار دیں جو میدان سیاست و ثقافت میں مسلمان ملکوں کے غیور عوام کی جانب سے ان پر لگائی جاتی ہیں۔ وہ تینتیس روزہ جنگ میں حزب اللہ کے بے مثال کارناموں، عراقی عوام کی مدبرانہ استقامت کو جو غاصبوں کی مرضی کے برخلاف پارلیمنٹ اور (عوامی ) حکومت کی تشکیل پر منتج ہوئي، فلسطین کی قانونی حکومت اور وہاں کے جاں نثار عوام کی حیران کن مزاحمت و پائمردی، مسلمان ملکوں میں مذہبی بیداری اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی دیگر بہت سی علامتوں اورنشانیوں کو ایرانیت اور شیعیت کے دائرے میں محدود کرنے کی کوشش کرتے ہیں تا کہ اس بیداری کے لئے عالم اسلام کی ہمہ گير حمایت کو معمولی اور غیر اہم ظاہر کر سکیں، لیکن یہ ہتھکنڈہ سنت الہی کے مقابلے میں جو مجاہدین فی سبیل اللہ اور دین خدا کی مدد کرنے والوں کی کامیابی ہے نہیں ٹھہر سکے گا۔ آنے والا دور امت اسلامیہ کا دور ہوگا اور ہم میں سے ہر ایک اپنی اپنی طاقت و توانائي، صلاحیت اور ذمہ داری کے لحاظ سے اس نئے دور کی جانب پیش قدمی کے عمل کو سرعت بخش سکتا ہے۔ حج کے مناسک آپ جیسے خوش قسمت حاجیوں کے لئے ایک بڑا اور بہترین موقع ہے کہ خود کو پہلے سے زیادہ اپنے اوپر عائد اس فریضے کی ادائیگي کے لئے آمادہ کریں۔ امید ہے کہ توفیق الہی اور حضرت مہدی موعود عجل اللہ لہ الفرج کی دعا اس عظیم مقصد تک پہنچنے میں آپ کی مدد کرے گی ۔

و السلام علیکم و رحمه الله و برکاته
السید علی الحسینی الخامنه ای
4 ذی الحجه 1428 هجری قمری12 دسمبر 2007