بسم اللہ الرحمن الرحیم
اب جب کہ پارلیمنٹ مجلس شورای اسلامی کا آٹھواں دور شروع ہو رہا ہے اور قادر مطلق کی نصرت و اعانت سے، اسلامی جمہوریت کے مظہر اس مضبوط سلسلے کی نئی کڑی وجود میں آ رہی ہے، بارگاہ احدیت میں سجدہ شکر بجا لاتا ہوں اور قدردانی و امید کے جذبات سے سرشار دل سے ملت ایران پر درود بھیجتا ہوں۔ یہ ایک افتخار ہے جسے اسلام پر ایمان اور ایران سے عقیدت رکھنے والوں کو چاہئے کہ اپنے لئے الہی عطیہ تصور کریں اور قدرشناسی کا ثبوت دیتے ہوئے اس کی حفاظت کریں۔
اس دنیا کی طوفانی لہروں کے بیچ، جس میں تسلط پسند طاقتیں اپنے جارحانہ غلبے سے قوموں کی خود مختاری اور تشخص نابود کر دینے کی کوشش کر رہی ہیں اور جہاں تک ان سے بن پڑا ہے انہوںنے قوموں کے عزم و ارادے کو کچل دیا ہے، ملت ایران نے آہنی ارادے کے ساتھ دشمنوں کے پیچیدہ ہتھکنڈوں پر غلبہ حاصل کیا ہے اور وہ اسلام و قرآن کی قیادت میں عزت و حریت پسندی کی راہ پر چلتے ہوئے دشوار گزار منزلوں کو ایک ایک کرکے سر کرتی جا رہی ہے۔ باایمان، آزاد، شجاع اور مدبرانہ صلاحیتوں کی حامل پارلیمنٹ اس جمہوریت کی پائداری و ثبات کا مظہر ہے جسے اسلامی انقلاب نے دنیا میں متعارف کرایا اور عظیم ملت ایران نے خدا کی ذات پر توکل اور عزم راسخ کے ذریعے اسے پائدار بنا دیا ہے۔
میں ملت ایران کا شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھتا ہوں جس نے اس قومی آزمائش ( پارلیمانی انتخابات) کو اپنے جوش و خروش اور سنجیدہ کوششوں سے اختتام تک پہنچایا اور دشمنوں کو ایک بار پھر بتا دیا کہ وہ پوری طرح بیدار ہے۔ میں وزارت داخلہ اور نگہبان کونسل کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے فرض شناسی اور تحمل کا ثبوت دیتے ہوئے انتخابات کو منزل مقصود تک پہنچایا۔ اس عمل میں مدد کرنے والے اداروں بالخصوص قومی ذرائع ابلاغ اور سکیورٹی اہلکاروں اسی طرح دینی و سیاسی شخصیات اور جماعتوں کا بھی شکر گزار ہوں جنہوں نے اپنی کوششوں سے عوام کے جوش و خروش میں اضافہ کیا۔ میں ایسے تمام افراد کی کوششوں کی قدردانی کرتا ہوں جنہوں نے اس عظیم شجاعانہ کارنامے کی انجام دہی میں اپنی رفتار و گفتار سے مدد کی۔
انصاف اور قدر شناسی کا تقاضہ یہ بھی ہے کہ ساتویں پارلیمنٹ کے اراکین اور بالخصوص محنتی اور مایہ افتخار اسپیکر جناب ڈاکٹر حداد عادل اور پارلیمنٹ کی صدارتی کمیٹی کی بھی قدردانی کی جائے۔ ساتویں دور کی پارلیمنٹ نے عالمی اور قومی مسائل کے حل اور اغیار کے مقابلے میں قوم کے حقوق کے دفاع کے سلسلے میں اقدار کی پابندی کے ساتھ شجاعانہ طرز عمل اور عوامی مسائل کے حل کے لئے کوششوں، سیاسی فضا کے نظم و نسق کی پاسداری اور ہنگاموں سے پرہیز کرتے ہوئے قابل تعریف کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔
زبردست مقابلہ آرائی، عوام کی بھر پور شرکت اور قانونی معیارات سے پوری مطابقت رکھنے والے انتخابات میں عوام کے واضح فیصلے کے نتیجے میں آٹھویں پارلیمنٹ معرض وجود میں آ چکی ہے۔ عوام کے قابل اعتماد نمائندے عظیم مقام کی حامل پارلیمنٹ میں داخل ہو چکے ہیں انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ گزشتہ سو سال کے عرصے میں ہمیشہ وہ پارلیمنٹ جو عوامی تعاون سے وجود میں آئے اور واضح اور شفاف قوانین کے پیرائے میں انتظامی امور، نظارتی عمل اور اسلام کے اہداف اور ضوابط پر عملدرآمد کو یقینی بنائے، ایرانی قوم اور اس کے مذہبی اور قومی رہنماؤں کی قیمتی اور دشوار جد و جہد کا نصب العین رہی ہے اور اس پارلیمنٹ کی تشکیل کے لئے پاکیزہ خون اور قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا گیا ہے جو ملک کی پیش رفت و ترقی، قومی مفادات کی حفاظت اور اسلام کی سربلند کی راہ میں اجتماعی عقلی توانائيوں اور مشاورت کا استعمال کرے۔
شیخ فضل اللہ، بہبہانی اور مدرس سے لیکر گزشتہ تیس برسوں کے انقلاب کے شہدا اور مجلس شورای اسلامی کے شہیدوں تک، سب کا ہم پر حق ہے۔ ہر ایک رکن پارلیمنٹ پر بھاری اخلاقی اور قانونی فریضہ ہے اور یہ شرعی امانت جو آج سے لیکر چار برسوں تک آپ جیسے قوم کے معتمدین کے سپرد ہے وطن عزیز ایران کی سیاسی زندگی کی تاریخ میں یادگار اور با شکوہ موقع ثابت ہو سکتی ہے۔ اسی کے پیش نظر چند نکات کی یاد دہانی کی جا رہی ہے۔
1: پارلیمنٹ میں رکنیت کی نعمت کا شکر اس طرح ادا ہو سکتا ہے کہ اس کی قدر کی جائے اور رکن پارلیمنٹ پوری مدت کے دوران اپنی تمام تر صلاحیتوں اور توانائیوں کو اس کی خدمت میں صرف کرے۔ ایسے کسی بھی معاملے میں الجھنا نا جائز اور ناشکری کے مترادف ہوگا جو فریضے کی ادائگی میں خلل ایجاد کرے۔ پارلیمنٹ کے تمام خصوصی اور عمومی اجلاسوں میں شرکت، فرض شناسی کا لازمہ ہے۔
2: آپ مومن، شجاع اور عزم راسخ کی مالک قوم کے نمائندے ہیں۔ ان خصوصیات والی قوم نے دشوار گزار منزلیں طے کی ہیں اور متعدد فطری یا دشمنوں کی جانب سے ایجاد کردہ رکاوٹوں کو عبور کیا ہے، آپ کی فکر و کارکردگی اسی سمت میں ہونی چاہئے۔ کینہ توز اور تسلط پسند دشمن متعدد محاذوں پر ملت ایران کے ہاتھوں شکست کھا چکے ہیں اور قوم نے ان کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی خود مختاری و پائداری اور اقتدار و قوت کو چار چاند لگائے ہیں۔ آج خود وہ (دشمن) بھی اس کے معترف ہیں۔ آپ کو چاہئے کہ با ایمان اور انقلابی حکومت کے شانہ بشانہ اس مدبرانہ اور شجاعانہ سفر کو جاری رکھیں۔ دنیا کے سامنے آپ ایک آواز رہیں اور دنیا آپ کے بات اور آپ کے عمل میں قومی عزم و ارادے کے جلوے دیکھے۔
3: پارلیمنٹ کا یہ دور انقلاب کے، چوتھے عشرے میں داخلے کے موقع پر شروع ہو رہا ہے۔ اس عشرے میں انقلاب کا بنیادی نعرہ، پیش رفت و مساوات ہے۔ تمام اقتصادی، اخلاقی اور ثقافتی شعبوں میں پیش رفت اور مواقع اور مادی و معنوی وسائل کی تقسیم میں مساوات۔ پیش رفت کے نعرے سے ہماری توجہ قوم میں پائی جانے والی بے پناہ صلاحیتوں کی جانب مرکوز ہونی چاہئے اور تمام شعبوں میں گوناگوں توانائیاں اور خلاقیت و پیداواری صلاحیتیں ہماری نظروں میں نمایاں ہونی چاہئیں جبکہ مساوات کے نعرے کے پیش نظر ملک کی توانائیوں اور مواقع سے محروم افراد کو ان الہی عطیات سے بہرہ مند بنایا جانا چاہئے۔ پارلیمنٹ جو ملک کو ترقی کی راہ میں گامزن رکھنے والی مشینری ہے ایک لمحے کے لئے بھی اپنے فریضے سے غفلت نہ برتے۔
4- قوم کا نمائندہ قوم ہی کا حصہ ہے۔ آپ لوگ بلند و بالا محلوں اور شاہی خاندانوں سے نہیں بلکہ عوام کے درمیان سے، دینی مدارس، یونیورسٹیوں اور کام کے میدانوں سے پارلمینٹ میں بھیجے گئے ہیں۔ اس رابطے اور اس خو کا احترام کیجیے اور اسے محفوظ رکھیے۔ عیاشی کی عادت، فضول خرچی کا رجحان اور اس ذمہ داری کو ترنوالہ سمجھنا، ایک بڑی بلا ہے جس سے ممکنہ طور پر شریف اور نجیب ماضی رکھنے والے افراد بھی بچ نہ سکیں۔ سبھی کو اس بات کی جانب سے بہت زیادہ چوکنا رہنا چاہیے اور پارلمینٹ کی رکنیت کی اپنی ذمہ داری کو ابدی برائی کے بجائے دائمی نیکی میں تبدیل کر دینا چاہیے۔ اس مشکل کام میں خداوند رحیم و قدیر سے گڑگڑا کر مدد چاہنا اور اپنا دامن بچائے رکھنا، سب سے بڑی مدد ہو سکتی ہے۔
5- قانون کی تدوین اور قانون سازی سب سے بڑی نمائندگی ہے۔ قانون کو کارآمد، رواں، شفاف اور موجودہ حالات کے مطابق ہونا چاہیے اور ساتھ ہی دراز مدت نظر کے ساتھ اس میں زیادہ سے زیادہ وسیع اور دائمی ہونے کی صفت ہونی چاہیے اور اسے عوامی ضروریات اور عوامی مفادات کا حامل ہونا چاہیے۔ قانون سازی کے سلسلے میں جزوی، ذاتی اور خدانخواستہ ضدی نظریہ لاحاصل اور کبھی کبھی نقصان دہ ہوتا ہے۔ ترجیحات کو فوقیت دی جانی چاہیے، قوانین میں تضاد اور تکرار کو ختم کیا جانا چاہیے اور قوانین کی تدوین میں اجتماعی اور ماہرانہ رائے سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کیا جانا چاہیے۔
6- دیگر شعبوں کے ساتھ کام کرنے میں نگرانی اور گہرے تعاون جیسے دو عوامل کو ایک دوسرے کا جزو لاینفک ہونا چاہیے۔ پارلمینٹ کی نگرانی کی ذمہ داری کے سلسلے میں کبھی بھی تساہلی نہیں برتی جانی چاہیے لیکن اسی کے ساتھ پارلمینٹ کی نگرانی کو حکومت کے ساتھ رقابت اور اس کی ضروریات اور مسائل سے چشم پوشی کے معنی میں بھی نہیں ہونا چاہیے۔ ملک میں کام کا محور اور اسلامی جمہوری نظام کا داخلی اور خارجی مظہر بنیادی طور پر انتظامیہ ہے۔ سب کو اس کی مدد کرنی چاہیے اور جب کبھی کوئی حکومت زیادہ اشتیاق، زیادہ حوصلے اور مضبوط اقدار کے ساتھ میدان میں ہو تو اس مدد کو دوگنا ہو جانا چاہیے۔ اس کے مقابل حکومت کو چاہیے کہ وہ پارلمینٹ کو اپنے امور کا رہنما سمجھے، اس کے قوانین کی مکمل طور پر پابندی کرے اور ان کی خلاف ورزی نہ کرے۔ اس وقت کہ جب بحمد اللہ حکومت اور پارلمینٹ، مومن، انقلابی اور اسلامی اقدار و اصول کے وفادار لوگوں سے مملو ہے تو یہ برادرانہ تعاون دونوں جانب سے قانونی حقوق کی رعایت کے ساتھ پہلے سے زیادہ نظر آنا چاہیے۔
عزیزو! پارلمینٹ کی رکنیت کا زمانہ مختصر اور آپ کی ذمہ داریاں سنگین ہیں۔ آپ کا ہر کام، بات اور خاموشی اللہ کے یہاں لکھی اور درج کی جا رہی ہے جہاں وہ ہمیشہ باقی رہے گی۔ حلف کو، جسے بڑی سنجیدگی اور پورے عزم کے ساتھ اٹھایا جانا چاہیے، ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھیے اور اپنے آپ کو اس کے مطابق ڈھالیے۔ اس طرح آپ صحیفۂ الہی میں اپنے لیے ایک دائمی نیکی رقم کر سکیں گے۔
میں اپنی بات پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ديگر انبیا و ائمہ معصومین علیھم السلام خصوصا حضرت مہدی ارواحنا فداہ نیز شہدا کی پاک ارواح اور حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی روح مطہر پر سلام کے ساتھ ختم کرتا ہوں اور آپ سب کے لیے خداوند عالم سے توفیقات میں اضافے کی دعا کرتا ہوں۔
سید علی خامنہ ای