رہبر انقلاب اسلامی نے پیر 22 فروری 2021 کو ماہرین اسمبلی کے ارکان سے ملاقات میں فرمایا کہ ہم ملک کی ضرورت کے مطابق ایٹمی توانائیاں حاصل کرنے کا پختہ ارادہ رکھتے ہیں، اس لئے یورینیم افزودگی کی سطح 20 فیصدی تک محدود نہیں رہے گی بلکہ جتنی ضرورت ہوگی اور جو بھی ملک کی احتیاج ہوگي اس کے مطابق اقدام کیا جائے گا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ مثال کے طور پر نیوکلیئر پروپلجن یا دوسرے کاموں کے لئے ممکن ہے کہ یورینیم افزودگی کی سطح ہم ساٹھ فیصد تک بڑھائیں۔

آیت اللہ خامنہ ای نے ایٹمی ڈیل کے کمٹمنٹس میں تخفیف سے متعلق پارلیمنٹ سے پاس ہونے والے بل کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ پارلیمنٹ نے ایک قانون پاس کیا جس کا حکومت نے بھی خیر مقدم کیا اور کل تک جو ضروری اقدامات تھے انجام بھی دے دئے گئے، ان شاء اللہ کل بھی اسی سلسلے کا ایک اہم اقدام انجام دیا جائے گا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ حکومت خود کو قانون پر عملدرآمد کا پابند سمجھتی ہے اور اس قانون پر جو بہت اچھا بھی ہے، باریک بینی سے عمل ہونا چاہئے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے ایٹمی ڈیل کے تحت اپنی کمٹمنٹس کم کرنے کے ایران کے اقدام پر امریکہ اور تین یورپی ممالک ک بیان بازی کو مستکبرانہ، تحکمانہ، غیر منصفانہ اور نامناسب قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ نے روز اول سے طویل عرصے تک اسلام کی تعلیمات کے مطابق اپنے وعدوں پر عمل کیا لیکن وہ فریق جس نے روز اول سے ہی اپنے کمٹمنٹس پر عمل آوری سے گریز کیا، وہ انھیں چار ملکوں پر مشتمل ہے، لہذا ان سے بازپرس ہونی چاہئے اور تادیبی کارروائی کی جانی چاہئے۔

آپ نے فرمایا کہ جب امریکہ ایٹمی ڈیل سے نکلا اور دوسروں نے بھی اس کا ساتھ دینا شروع کر دیا تو ایسے میں قرآن کا فرمان یہ ہے کہ آپ بھی اپنے عہد سے پیچھے ہٹ جائیے، لیکن ہماری حکومت نے پھر بھی عہد پر عمل آوری ترک نہیں کی بلکہ بتدریج اس میں تخفیف کی اور اگر انھوں نے اپنے فرائض پر عمل شروع کیا تو ایران بھی اپنے رخ سے پیچھے ہٹ سکتا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی کے مطابق مستکبرانہ لب و لہجے کی وجہ سے مغربی حکومتوں سے ایران کے عوام کی نفرت مزید بڑھ رہی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اس درمیان وہ بین الاقوامی صیہونی مسخرہ  کہتا ہے کہ ہم ایران کو ایٹمی ہتھیار نہین بنانے دیں گے، جبکہ اسے یہ سمجھانا چاہئے کہ اگر اسلامی جمہوریہ نے ایٹمی ہتھیار بنانے کا فیصلہ کر لیا ہوتا تو اس کی کیا بساط اس کے بڑے بھی روک نہ پاتے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ ایٹمی ہتھیار بنانے میں ایران کے سامنے جو رکاوٹ ہے وہ اسلامی فکر اور اصول ہیں جن کے مطابق عام انسانوں کے قتل عام کا سبب بننے والے ایٹمی اور کیمیکل ہتھیار بنانا ممنوع ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے امریکہ کے ایٹمی حملے میں دو لاکھ بیس ہزار افراد کے قتل عام کے المئے، یمن کے مظلوم عوام کے محاصرے اور مغربی ممالک میں بننے والے طیاروں کے ذریعے بازاروں، اسپتالوں اور اسکولوں پر کی جانے والی بمباری کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ بے گناہ عوام اور عام شہریوں کا قتل عام امریکیوں اور مغربی حکومتوں کی کرتوت ہیں، اسلامی جمہوریہ ایران کو یہ طریقہ پسند نہیں ہے، اسی لئے وہ ایٹمی ہتھیار کے بارے میں نہیں سوچتا۔

رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ بے شک ایک چند سال کی میعاد کا ایک معاہدہ ہے جس پر فریق مقابل اگر عمل کرے گا تو ہم بھی اتنی ہی مدت اس پر عمل کریں گے، مگر خود مغرب والے بھی بخوبی جانتے ہیں کہ ہم ایٹمی ہتھیار بنانے کے بارے میں نہیں سوچ رہے ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ ایٹمی ہتھیاروں کا موضوع تو بس بہانہ ہے ان کی تو مرضی یہ ہے کہ ہمارے پاس عام روایتی ہتھیار بھی نہ ہوں کیونکہ وہ ایران کے قوت و طاقت کے عناصر سے محروم کر دینا چاہتے ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اس اہم حقیقت کی جانب بھی اشارہ کیا کہ مستقبل قریب میں ایٹمی بجلی گھر صحتمند، صاف اور سستی انرجی کے سب سے اہم ذرائع بن جائيں گے، لہذا یورینیم افزودگی کی صرورت ملک کی ایک حتمی ضرورت ہے۔ آپ نے فرمایا کہ وہ دور آ جانے کے بعد یورینیم افزودگی کا آغاز کرنا مناسب نہیں ہوگا بلکہ ابھی سے اس مرحلے کے لئے آمادہ ہونے کی ضرورت ہے۔

آیت اللہ خامنہ ای کا کہنا تھا کہ مغربی ممالک کی خواہش یہ ہے کہ جب ایران کو ایٹمی انرجی کی احتیاج پش آئے تو اس وقت وہ مغربی ملکوں کا محتاج رہے اور اس احتیاج کو وہ ایران پر اپنی مرضی مسلط کرنے کے ذریعے کے طور پر استعمال کریں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ دیگر معاملات کی طرح ایٹمی مسئلے میں بھی اسلامی جمہوریہ ایران اپنے موقف پر ثابت قدم رہے گا اور ملک کے حال و مستقبل کے لئے جو بھی ضروری ہوگا اسے بھرپور خود اعتمادی کے ساتھ انجام دے گا۔