بسم ‌اللّہ ‌الرّحمن‌الرّحیم

الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاھرین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین. السّلام علی امیرالمؤمنین و امام المتّقین و افضل الوصیّین و حجۃ ربّ العالمین و رحمۃ اللّہ و برکاتہ.

ضیافت الہی کے ایام اور کسب رضائے پروردگار کے لئے خود کو آمادہ کرنے کی ضرورت

ماہ رمضان کا نقطہ ارتقاء مبارک ایام و شبہائے قدر ہیں۔ ہم اس چوٹی تک پہنچ چکے ہیں۔ توسل، تضرع، دعا اور پروردگار عالم سے طلب کے اس بے نظیر موقع سے بھرپور استفادہ کریں۔ یہ ضیافت الہی کا مہینہ ہے اور اس مہمانی کے اعلی ترین لمحات یہی مبارک ایام ہیں۔ یہ دعا جو آپ پڑھتے ہیں، یہ توسل جو آپ کرتے ہیں، یہ آنسو جو آنکھوں سے جاری ہوتے ہیں، یہی سب ضیافت پروردگار ہے جو آپ کو نصیب ہوئی ہے۔ اس کی قدر کیجئے۔ اپنے لئے اور اپنے دینی بھائیوں کے لئے، اپنے ملک کے لئے اور اپنے سماج کے لئے دعا کیجئے۔ اللہ سے طلب کیجئے، التجا کیجئے اور قبولیت کا یقین رکھئے۔ روایت میں ہے کہ جب آپ دعا کیجئے تو یہ یقین رکھئے کہ دعا قبول ہوگی۔ اللہ کی طرف سے تو کوئی کمی نہیں ہے، وہ تو مطلق کرم ہے۔ البتہ کبھی یہ ہوتا ہے کہ ہمارا ظرف آمادہ نہیں ہے لطف و رحمت الہی کے حصول کے لئے۔ ہماری یہ کوشش ہو کہ استغفار سے، زیادہ توجہ اور تضرع کے ذریعے خود کو رحمت خداوندی کے حصول کے لئے آمادہ کریں۔ شبہائے قدر میں سے دو راتیں ہنوز باقی ہیں۔ ان کی اہمیت کو سمجھئے۔ میں بھی آپ  تمام عزیزوں سے جو (ہماری یہ گفتگو) دیکھ رہے ہیں، سن رہے ہیں دعا کی گزارش کرتا ہوں۔

امیر المومنین علیہ السلام کی امامت کا روحانی مرتبہ

امیر المومنین علیہ السلام کے سلسلے میں اور اس عظیم ہستی کے تعارف کے سلسلے میں ایک مرحلہ تو امامت کا مرحلہ ہے۔ حضرت کی امامت کا موضوع ہے۔ امامت دین و دنیا  کی قیادت وغیرہ جیسی باتیں جو ہم امامت کے بارے میں بیان کرتے ہیں، وہ مد نظر نہیں ہے، بلکہ وہ امامت مراد ہے جو اللہ  تعالی نے حضرت ابراہیم کو عطا فرمائی اور ارشاد ہوا: «إِنِّي جاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِماما» (1) یہ بات حضرت ابراہیم سے کس وقت کہی گئی؟  یقینا یہ حضرت ابراہیم کے بڑھاپے کی بات ہے۔ کیونکہ اللہ کے اس ارشاد پر حضرت ابراہیم کہتے ہیں: «وَ مِنْ ذُرِّيَّتی»(2) ظاہر ہے کہ ان کی ذریت اور اولاد موجود تھی۔ حضرت  ابراہیم کو بڑھاپے میں اولاد عطا ہوئی: «الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذي وَهَبَ لي‏ عَلَى الْكِبَرِ إِسْماعيلَ وَ إِسْحاقَ» (3) نوجوانی کے دور میں اور ادھیڑ پن کے زمانے میں یہاں تک کہ بڑھاپے کے آغاز میں بھی حضرت ابراہیم کے یہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی۔ بچے کی پیدائش آخر میں ہوئی۔ یعنی یہ امامت حضرت ابراہیم کی زندگی کے آخری دور کی بات ہے۔ حالانکہ حضرت ابراہیم اس سے دسیوں سال قبل پیغمبر تھے اور پیغمبر دین و دنیا کے سربراہ ہوتے ہیں۔ اس میں تو کوئی شک نہیں ہے۔ اللہ تعالی نے اس کے بعد انھیں امامت عطا کی۔ یعنی یہ امامت ایک الگ ہی مرتبہ و مقام ہے۔ ایک بالاتر درجہ ہے۔ ایک روحانی حقیقت ہے۔ ہمارے ان عام  پیمانوں اور ترازو سے مسئلہ امامت کی قدر و منزلت کا اندازہ لگا  پانا ممکن نہیں ہے۔ یہ وہی چیز ہے جس کے بارے میں امام جعفر صادق علیہ السلام نے میدان منی میں لوگوں کے جم غفیر میں بلند آواز سے کہا  تھا: "«انّ رسول اللّه کان هو الامام»" (4) پیغمبر امام تھے۔ امام کے یہ معنی ہیں۔

ظاہر ہے یہ تو بہت بلند مرتبہ و منزلت ہے جو ہمارے فہم و ادراک کی پہنچ سے باہر ہے۔ واقعی خود ائمہ معصومین علیہم السلام کے علاوہ کچھ برگزیدہ ہستیاں گزری ہیں جنھیں امامت کے اعلی مفاہیم کا علم حاصل ہوا۔ خود ہمارے زمانے میں بھی ممکن ہے کہ بعض ایسی ہستیاں موجود ہوں۔ ہم سے پہلے بھی تھیں۔ کچھ ہستیاں تھیں جن کا نام ہم نے بھی سنا ہے، یا ان کی تحریر ہم نے دیکھی ہے۔ آقائے میرزا جواد آقائے ملکی تبریزی مرحوم جو تقریبا سو سال قبل اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ آپ اپنی کتاب مراقبات میں اسی امامت کی منزلت کے بارے میں کچھ باتیں بیان کرتے ہیں۔ ان مفاہیم کی حقیقت تک تو ہماری رسائی نہیں ہے۔

دنیوی معیارات کے مطابق بھی امیر المومنین کی زندگی بے نظیر

لیکن اس بہت عظیم اور اعلی روحانی مقام و منزلت کے علاوہ امیر المومنین علیہ السلام دنیوی و انسانی معیارات کے مطابق بھی عدیم المثال شخصیت کے مالک ہیں۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد شاید کوئی بھی شخصیت ایسی پیش نہیں کی جا سکتی جس کے اندر امیر المومنین جیسے اوصاف ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ دیکھتے ہیں کہ امیر المومنین سے آپ کے پیروکار بھی اور وہ بھی جو پیروکار نہیں ہیں عقیدت رکھتے ہیں، آپ سے محبت کرتے ہیں۔ غیر شیعہ، غیر مسلم، وہ افراد بھی جو کسی بھی دین کو نہیں مانتے آپ سے محبت کرتے ہیں۔ بہت سے افراد، ایسے لوگ جنہیں آپ کی شناخت ہو گئی ہے اور اس برگزیدہ ہستی کے بارے میں کچھ باتوں سے واقفیت رکھتے ہیں، انھیں آپ سے عقیدت ہے، آپ سے محبت ہے ان خصوصیات کی وجہ سے جو اس عظیم ہستی میں پائی جاتی تھیں۔ البتہ وہ خصوصیات جو بہت نمایاں ہیں ان میں سب سے پہلے تو آپ کا عدل و انصاف ہے۔ وہ انصاف جس میں ذرہ برابر چشم پوشی نہیں ہے، اس کا دائرہ بہت وسیع ہے اور اس میں کوئی رعایت نہیں ہے۔ یہ عجیب و غریب عدل جس کی مثالوں کے بارے میں سن کر انسان حیرت میں پڑ جاتا ہے۔ یا وہ زہد اور دنیا سے بے رغبتی اپنی ذات کی حد تک۔ بے شک آپ نے دنیا کو آباد بھی کیا اور عوام الناس کو مادی و روحانی ارتقاء کی منزلیں طے کروائیں۔ لیکن آپ اپنے لئے کبھی کچھ نہیں چاہتے تھے۔ آپ کے بارے میں جو روایتیں منقول ہیں وہ واقعی حیرت انگیز ہیں۔ یا آپ کی شجاعت ہے، بیکس اور بے نوا افراد کے سلسلے میں آپ کی شفقت، جابر و ستمگر و مستکبر عناصر کے سلسلے میں آپ کا فولادی عزم، راہ حق میں آپ کا جذبہ ایثار، اس طرح کی چیزیں جو آپ کے وجود میں تھیں، آپ کا متلاطم بحر حکمت، آپ کا کلام حکیمانہ باتوں کا متلاطم دریا ہے، آپ کا طرز عمل کہسار ہے۔ واقعی اس برگزیدہ ہستی کے وجود میں حیرت انگیز چیزیں ہیں۔ یہ حیرت انگیز صفات آپ کے اندر جمع ہو گئیں، یہاں تک کہ خود دشمن بھی اس کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوئے۔ البتہ اس وقت دامن وقت میں گنجائش نہیں ہے کہ ان چیزوں کو بیان کروں۔ عروہ ابن زبیر نے اپنے بیٹے سے جس نے حضرت کے بارے میں بدکلامی کی تھی، ایک جملہ کہا جو بہت حیرت انگیز ہے۔ کہا تھا کہ انھیں اللہ نے بزرگی عطا کی۔ لوگ جو چاہیں کر لیں، ان کی رفعت میں اضافہ ہی ہوگا۔ جبکہ زبیر کا خاندان بالخصوص عبد اللہ ابن زبیر کی اولاد امیر المومنین کے خلاف تھی۔ تو یہ حضرت کی خصوصیات ہیں اور ان خصوصیات میں آپ نقطہ کمال پر فائز ہیں۔ یعنی آپ کے وجود میں یہ خصوصیات اپنے نقطہ اوج پر اور درخشاں ترین شکل میں موجود ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ انھیں نمونہ عمل قرار دیں۔ 

امیر المومنین علیہ السلام کی ذاتی خصوصیات کی پیروی کی کوشش
البتہ اس میدان میں ہم بہت پیچھے ہیں۔ ذاتی اعتبار سے بھی ان خصوصیات کے سلسلے میں ہمیں حضرت کے نقش قدم پر چلنا چاہئے اور ان کی پیروی کرنا چاہئے، اسی طرح طرز حکومت کے سلسلے میں بھی پیروی کرنا چاہئے۔ آج اقتدار امیر المومنین کے پیروکاروں کے ہاتھ میں ہے۔ ہمیں چاہئے کہ اسی روش کو، اسی طرز عمل کو، اسی عدل کو، اسی شجاعت اور اسی زہد کو اپنے عمل میں اتاریں، اپنے طرز عمل میں اتاریں۔ البتہ ہم ابھی بہت پیچھے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ محنت کریں اور ان میدانوں میں خود کو آگے لے جائیں۔ 

امیر المومنین علیہ السلام کا شوق شہادت

چونکہ آج 19ویں (رمضان) ہے، حضرت کو ضربت لگنے کا دن اس لئے چند جملے حضرت کے جذبہ فداکاری اور شوق شہادت کے ‏بارے میں بھی عرض کرتا چلوں۔ یہ نہج البلاغہ میں ہے۔ نہج البلاغہ کے خطبہ نمبر 156‏ میں حضرت فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت «احسب النّاس ان یترکوا ‏ان یقولوا امنّا و هم لایفتنون»‏ (5) نازل ہوئی  تو آ‌زمائش کی بحث شروع ہو گئي۔ ‏میں سمجھ گیا کہ جب تک پیغمبر ہمارے درمیان ہیں۔ اس وقت تک یہ آزمائش نہیں ہوگی۔ پیغمبر کے بعد یہ آزمائش ‏ہوگی۔ میں نے پیغمبر سے بات کی، آپ سے سوال کیا۔ اس خطبے ‏میں پیغمبر اکرم کے فرمودات کا بھی ذکر ہے۔ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے ممتاز شاگرد ‏کے لئے ان حقائق کو ‏بیان کر رہے ہیں تو ظاہر ہے کہ جذبہ شوق  اور احساس ذمہ ‏داری و فرض شناسی حضرت کے وجود میں متلاطم ہوگا۔ آپ پیغمبر سے تھوڑی سی گفتگو کرتے ہیں جو میں آپ کے ‏سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں۔ ‏«فقلت یا رسول الله! أ و لیس قد قلت لی یوم احد حین استشهد ‏من استشهد من المسلمین و جیزت عنّی الشّهاده فشقّ ذلک علیّ فقلت لی ابشر فانّ ‏الشّهاده من وراءک»‏ فرماتے ہیں کہ میں نے پیغمبر سے عرض کیا، ہم اپنی زبان ‏میں کہیں تو اس طرح کہ یا رسول اللہ! آپ کو یاد نہیں ہے کہ احد کے دن جب حضرت حمزہ شہید ہو گئے، ہمارے کچھ ‏احباب شہید ہو گئے۔ لیکن میں اتنے سارے زخموں کے باوجود جو میرے جسم پر ‏لگے شہید نہیں ہوا اور یہ میرے لئے بہت شاق تھا ‏کہ میں پیچھے رہ جاؤں اور شہادت سے محروم رہوں۔ آپ ‏متوجہ ہو گئے اور آپ نے مجھ سے فرمایا تھا کہ علی!‏ خوش خبری ہے! تم بھی شہید ہوگے! آپ کو یہ یاد ہے؟ ‏پیغمبر نے فرمایا: فقال لی فشقّ ذلک علیّ فقلت لی ابشر فانّ الشّهاده من وراءک. اس دن ‏آپ نے مجھ سے فرمایا تھا کہ بشارت ہو اے علی! شہادت آپ کی تلاش میں ہے۔ آپ شہید ‏ہوں گے۔

اب گویا مولائے متقیان یہی سوال پوچھ رہے ہیں کہ اب تو ‏کئی سال گزر گئے۔ میں اب تک کیوں شہید نہیں ہوا؟ فقال لی انّ ذلک کذلک. اس کے جواب میں پیغمبر نے فرمایا ‏کہ اے علی! یہ بات درست ہے، تم شہید ہوگے۔ اس کے بعد فرمایا: فکیف صبرک اذاً؟ جب ‏تمہارا انجام شہادت ہے تو شہادت پر تمہارا صبر کیسا ہوگا؟ یہ صبر اس بات کی ‏نشانی ہے کہ میدان جنگ میں شہید ہو جانا بہت دشوار نہیں ہے۔ انسان اس زمانے میں مثلا نیزے کا ایک ‏وار، تلوار کا ایک وار کھاتا تھا، آج کے دور میں ایک گولی کھاتا ہے اور شہید ہو جاتا ہے۔ یہ ‏بڑی چیز نہیں۔ سخت جدوجہد کے میدانوں میں شہادت جہاں انسان بہت زیادہ سختیاں برداشت کرتا ہے، وہ بہت اہم ‏ہے۔ امیر المومنین علیہ السلام کو بہت سخت دور کے بعد شہادت نصیب ہوئی وہ بھی اس دشوار کیفیت میں، محراب ‏عبادت کے اندر۔ اسی لئے پیغمبر نے فرمایا تھا فکیف صبرک اذاً؟ تم کو جب شہادت نصیب ہوگی تو تم اس ‏شہادت پر کیسے صبر کروگے؟ فقلت یا رسول الله! لیس هذا من مواطن الصبر. یہ صبر کا ‏مقام نہیں ہے۔ صبر تو تلخ شئے پر کیا جاتا ہے۔ جب کوئی ناپسندیدہ چیز درپیش ہو تب انسان صبر کرتا ہے۔ و ‏لکن من مواطن البشری و الشکر۔ یہ تو ان چیزوں میں ہے جس کے لئے انسان کو خوشی منانا ‏چاہئے، اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ یہ شوق شہادت امیر المومنین علیہ السلام کی خصوصیت ہے۔ حضرت گزشتہ شب کے مثل ایک شب میں اپنے اس مقصود تک پہنچے اور ایک آواز گونجی تهدّمت والله ارکان الهدی و قتل علی المرتضی۔ (6) وہ ضربت جس کے نتیجے میں امیر المومنین علیہ السلام شہید ہو گئے، گزشتہ شب آپ کو لگی۔ (صلوات الله علیه).

عصر حاضر میں امیر المومنین علیہ السلام کی اقتدا کرنے والوں کی مثالیں

اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے زمانے میں قربانی کا جذبہ رکھنے والے افراد ہیں اور موجود تھے۔ ہم نے ایسے بہت سے افراد کو دیکھا جنہوں نے اس میدان میں امیر المومنین علیہ السلام کی اقتدا کی، آپ کے نقش قدم پر چلے، شہادت کے شیدائی تھے، شہادت کی فکر میں رہتے تھے، شہادت کی آرزو رکھتے تھے اور اللہ تعالی نے شہادت ان کے نصیب میں لکھی۔ شہید سلیمانی کو دشمنوں نے دھمکی دی تھی کہ تمہیں قتل کر دیں گے۔ شہید نے اپنے احباب سے کہا تھا کہ یہ لوگ مجھے ایسی چیز کی دھمکی دے رہے ہیں جس کی تلاش میں میں پہاڑوں، بیابانوں اور نشیب و فراز ہر جگہ کی خاک چھان رہا ہوں۔ مجھے اس چیز کی دھمکی دیتے ہیں! اللہ تعالی ان شاء اللہ ہمیں اس راہ کا مسافر قرار دے۔ ہمیں ان شاء اللہ اس عظیم خصوصیت سے بہرہ مند فرمائے۔

شہید مطہری کی نمایاں اور اہم خصوصیات: 1- فکری مسائل پر مکمل عبور کے ساتھ افکار کی نشر و اشاعت

اور اب یوم استاد۔ اسلامی جمہوریہ میں یوم استاد عظیم معلم شہید مرتضی مطہری مرحوم رضوان اللہ علیہ کے یوم شہادت پر منایا جاتا ہے۔ شہید مطہری کی کچھ ایسی  خصوصیات ہیں جنہیں تمام اساتذہ کو، خواہ دینی درسگاہ کے اساتذہ ہوں، یونیورسٹیوں کے اساتذہ ہوں یا اسکولوں اور کالجوں کے اساتذہ ہوں، واقعی انھیں اپنا نمونہ عمل قرار دینا چاہئے۔ یہ ان کے لئے آئیڈیل ہونا چاہئے۔ شہید مطہری مرحوم دانشور انسان تھے، مفکر انسان تھے، حقیقی عالم تھے، فلسفی تھے، فقیہ تھے۔ فکری مسائل پر مکمل عبور رکھتے تھے۔ مرحوم میں یہ ساری خصوصیات تھیں لیکن آپ کی ایک خاص صفت یہ تھی کہ نئے افکار و نظریات کی تخلیق بھی کرتے تھے اور ان کی ترویج بھی کرتے تھے۔ افکار کی ترویج بہت اہم چیز ہے۔ مرحوم کبھی بیکار نہیں بیٹھتے تھے۔ انھیں چین نہیں تھا۔ ہم نے دیکھا تھا۔ آپ ہمیشہ فکر میں ڈوبے رہتے تھے۔ ہمیشہ فکرمند رہتے تھے کہ درست افکار اور محکم و عمیق نظریات کو اپنے مخاطب افراد کے درمیان پھیلائیں۔ برسوں تک آپ نے حقیقی معنی میں فکری جہاد اور سافٹ وار کا محاذ سنبھالے رکھا۔ حملہ آور لہریں اٹھتی تھیں، ان کا سامنا کرتے تھے، ان سے روبرو ہوتے تھے، مقابلہ کرتے تھے، ان پر غلبہ حاصل کرتے تھے۔ ان کی لڑائی صرف مارکسسٹ اور مشرقی نظریات سے نہیں تھی بلکہ مشرقی و مغربی نظریات، مارکسسٹ نظریات، مغرب میں رائج لبرل نظریات، ان سب کا وہ سامنا کرتے تھے۔ انسان ان کی کتابوں کو دیکھے تو یہ چیزیں نظر آتی ہیں۔ ہم نے ان کی سرگرمیوں کا قریب سے بھی مشاہدہ کیا تھا۔

2- مخاطب افراد کی رہنمائی، فکری و علمی توانائیوں کو معاشرے کی احتیاج کے مطابق بروئے کار لانا

وہ اپنے مخاطب افراد کی رہنمائی کرتے تھے۔ درست طرز فکر کی راہ میں اپنے مخاطب افراد کو ذہنی اطمینان و سکون فراہم کر دیتے تھے۔ شہید مطہری فرض شناس انسان  تھے، ذمہ دار انسان تھے، واقعی انھیں اپنے فرائض کی فکر لاحق رہتی تھی۔ کبھی بے کار نہیں بیٹھتے تھے۔ پیشرؤوں کا علمی ورثہ ان کے پاس تھا اور خود انھوں نے بھی اس ذخیرے میں کافی اضافہ کیا۔ وہ یہ سارا اثاثہ اپنے مخاطب افراد کے سامنے رکھ دیتے تھے۔ کلاسوں میں بھی، یونیورسٹی میں بھی، ایک زمانے میں دینی درسگاہ میں۔ قم کی دینی درسگاہ میں جایا کرتے تھے، قم کی دینی درسگاہ میں ان کی کلاسیں ہوتی تھیں۔ اسی طرح اپنی تحریروں میں، یونیورسٹیوں میں اپنے پروگراموں اور طلبہ کے درمیان اپنی مسلسل تقریروں، دیگر ملاقاتوں میں وہ اظہار خیال کرتے تھے۔ بہرحال ان کی فکری اور عملی صورت حال یہ تھی۔ وہ اس سرمائے کو اپنے بعد والی نسل کو منتقل کرتے رہے۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ اپنی تمام تر فکری توانائیوں اور اپنی علمی سطح کو ضرورت کے مطابق، معاشرے کی احتیاج کے مطابق ڈھال لیتے تھے۔ یعنی ان کی کوششوں کا مرکز معاشرے کی ضرورتیں تھیں۔ وہ دیکھتے رہتے تھے کہ معاشرے کی فکری احتیاج کیا ہے۔ انھیں بہت اچھی شناخت بھی تھی۔ وہ واقعی بڑی درستگی سے محسوس کر لیتے تھے اور اپنی تمام فکری توانائیوں کو انھیں ترجیحات کی سمت میں مرکوز کر دیتے تھے۔

علمی سرمائے کی آئندہ نسلوں کو منتقلی، مخاطب افراد کے طرز فکر کی حفاظت، اساتذہ کی بڑی  اہم ذمہ داری 

ہمارے عزیز اساتذہ کی گراں قدر صنف کو چاہئے کہ اسے اپنی کاوشوں کا فریم ورک قرار دے۔ استاد کا کام بشر کے علمی ذخیرے اور علمی ورثے کو آئندہ نسل کو منتقل کرنا ہے۔ اسے پوری دیانتداری سے، پوری محنت اور مہارت سے نسل کو، آئندہ نسل کو منتقل کرے۔ اپنے مخاطب افراد کو، اپنے شاگردوں کو آمادہ کرے کہ وہ اہل فکر اور مفکر بنیں اور موجودہ علمی اثاثوں میں اضافے کر سکیں۔ یہ استاد کے کام کا حصہ ہے۔ یہ بھاری ذمہ داری ہے جس کے لئے بہت زیادہ احساس ذمہ داری کی ضرورت ہے۔ استاد کی فکرمندی یہی ہونا چاہئے۔ اسی طرح اساتذہ پوری توجہ رکھیں، یہ بھی اساتذہ کی ذمہ داریوں میں شامل ہے کہ پوری توجہ رکھیں اور اپنے مخاطب افراد، طلبہ، اسکولی بچوں، نوجوانوں، دینی طلبہ وغیرہ کے افکار کی پاسبانی کریں۔ چنانچہ شہید مطہری نے بھی یہ کام انجام دیا۔

اساتذہ ملک کی پیشرفت کی فوج کے کمانڈر ہیں اور اس رول پر خود ان کا باور ضروری ہے

خوش قسمتی سے آج ہمارے ملک میں وسیع تعلیمی وسائل فراہم ہیں۔ ماضی میں قطعا پورے ملک میں نوجوانوں، بچوں اور نونہالوں کے لئے تعلیم کے وسائل اس پیمانے پر فراہم نہیں تھے۔ آج اسلامی انقلاب کی برکت سے، اسلامی جمہوریہ کی  برکت سے یہ امکانات مہیا ہیں۔ یہ وسائل اساتذہ کے ہاتھ میں ہیں۔ خود اساتذہ بھی انھیں وسائل کا ایک حصہ ہیں۔ یعنی واقعی اساتذہ کی تعداد، ان کی علمی لیاقت کی اعلی سطح اور ان کی آمادگی سے بحمد اللہ خود انحصاری کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ چنانچہ ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اساتذہ ملک کی پیشرفت کے ضامن لشکر کے کمانڈر ہیں۔ اگر ہم ملکی پیشرفت کے پورے عمل کو ایک لشکر کی پیش قدمی کے عمل سے تشبیہ دینا چاہیں تو اس مجموعے کے نوجوان افسران، عزیز اساتذہ ہیں۔ خود انھیں اپنے اس رول کو باور کرنے کی ضرورت ہے۔ میں نے نوجوان اساتذہ کی بات کی اس لئے کہ ہمارے اساتذہ کی بڑی تعداد آج نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ورنہ سن رسیدہ، محنتی اور تجربہ کار اساتذہ کی بھی بڑی تعداد موجود ہے جو برسوں سے محنت کر رہے ہیں اور تدریس سے خود کو الگ نہیں کرتے۔ تدریس کے پیشے کی اہمیت کا انھیں اس قدر احساس ہے کہ اس سے خود کو الگ نہیں کر پاتے، مسلسل اپنے کام میں مصروف ہیں، یہاں تک کہ ایام پیری میں بھی۔ بہرحال خود اساتذہ کو اپنے اس حیاتی اور کلیدی رول کا یقین ہونا ضروری ہے۔ جب انھیں یقین ہوگا تو اسی اعتبار سے ان کے اندر احساس ذمہ داری ہوگا۔

نوجوانوں پر دشمن کی ثقافتی یلغار کے مقابلے میں اساتذہ کا دائمی اور مستقل جہاد لازمی ہے

اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ایسا بہت کم ہوا ہے کہ آج کے دور کی طرح نوجوان اور بچے فکری و اخلاقیاتی یلغار اور خطرات کی زد  پر رہے ہوں۔ البتہ پہلوی حکومت کے دور میں یہ حملہ خود ملک کے عہدیداران کی جانب سے ہوتا تھا۔ آج یہ یلغار اغیار کی جانب سے ہے، دشمنوں کی طرف سے ہے، گمراہ افراد کی طرف سے یہ حملہ ہو رہا ہے۔ ہمارے اساتذہ کے پاس ایک طرف وہ عظیم صلاحیتیں موجود ہیں اور دوسری طرف وہ اس ہمہ جہتی یلغار سے روبرو ہیں۔ ان دونوں چیزوں کے بیچ میں اساتذہ کو چاہئے کہ حقیقی اور دائمی جہاد کی کمان سنبھالیں اور حقیقی معنی میں جہاد انجام دیں۔ اتنی محنت کریں کہ ٹوٹ کر گر جانے والے پتوں کی تعداد صفر اور نئی کونپلوں کی تعداد حد اکثر پیمانے تک پہنچ جائے۔

اساتذہ اور ان کی اہمیت کی تشریح مختلف اداروں کی ذمہ داری

البتہ اساتذہ کی صنف کے تعلق سے دوسروں کے بھی کچھ فرائض ہیں۔ اساتذہ کی صنف کے سلسلے میں سب کی ذمہ داری ہے، بہت سنگین ذمہ داری ہے۔ سب سے بنیادی مسئلہ استاد کی شان و منزلت بڑھانا ہے۔ میں نے مختلف تقاریر میں اس نکتے پر خاص تاکید کی ہے، ایک بار پھر دوہراتا ہوں کہ استاد کی شان منزلت بہت بلند ہے۔ یہ بات ہمیں سب کو سمجھانا ضروری ہے۔ یہ عام کلچر بن جانا چاہئے۔ محنت کش طبقے کے سلسلے میں بھی یہی چیز ہے جو میں ابھی عرض کروں گا۔ استاد کی شان و منزلت کا ادراک ہونا چاہئے۔ تدریس بہت بڑا، بہت اہم اور بڑا قیمتی کام ہے۔ خود تعلیم و تربیت کا ڈیپارٹمنٹ اپنا رول ادا کرے۔ ذرائع ابلاغ اپنے حصے کا کام انجام دیں، ثقافتی ادارے، تشہیراتی ادارے اپنا کام کریں اور سب کا مشترکہ ہدف عوام الناس کو اساتذہ کی اونچی شان و منزلت سے آگاہ کرنا ہو۔ البتہ معیشتی مشکلات کا ازالہ بھی بہت ضروری اور اہم کام ہے جو انجام پانا چاہئے۔ اس کی ذمہ داری بنیادی طور پر حکومت اور پارلیمنٹ کے دوش پر ہے۔

میں اس موضوع پر اپنے معروضات کے آخری حصے میں موجودہ دور میں، ہمہ گیر آزمائش کے دور میں، ہمہ گیر بیماری کے دور میں اساتذہ کے تحسین آمیز کردار کی قدردانی کرنا چاہوں گا کہ انھوں نے تعلیمی سرگرمیاں بند نہیں کیں، بلکہ فاصلے سے بھی بہترین خدمات پیش کیں بلکہ بعض اوقات تو اساتذہ کی زحمت دگنی ہو گئی۔ یعنی انھوں نے اس روش کی سختیوں کو، چونکہ اس روش کی اپنی کچھ دشواریاں ہیں، انھوں نے تحمل کیا۔ ان کا شکریہ ادا کرنا چاہئے۔ گھر والوں نے بھی واقعی بڑا تعاون کیا، خاص طور پر ماؤوں نے۔ میں طلبہ کی ماؤوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ یہ کچھ باتیں اساتذہ کے سلسلے میں تھیں۔

اب کچھ باتیں یوم محنت کشاں کے بارے میں۔ سال گزشتہ یوم محنت کشاں پر بڑا اچھا پروگرام ہوا تھا۔ فاصلے سے پروگرام ہوئے تھے لیکن متعدد کارخانوں اور مزدوروں کے مراکز سے ویڈیو کانفرنسگ سے رابطہ ہوا تھا۔ مزدوروں سے بھی اور مالکان سے بھی بات ہوئی تھی۔ ان کی باتیں سنیں اور اپنی باتیں عرض کی تھیں۔ ہماری گزشتہ سال کی ملاقات بہت اچھی اور یادگار ملاقات تھی۔ اس سال اس منحوس وائرس کی وبا کی حالیہ شدت کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہو سکا۔ یعنی یہ ممکن نہیں ہو سکا کہ مزدور طبقے کے افراد کسی جگہ جمع ہوں اور دور سے ہی سہی ان سے گفتگو کا موقع ملے۔ یہ ممکن نہیں ہو سکا۔ وائرس کی برطانوی قسم کے بارے میں جیسا کہ بتاتے ہیں بظاہر اس کا خطرہ بقیہ قسموں سے زیادہ ہے۔

مزدور طبقہ، ملکی معیشت اور پیداوار کا ستون

مزدور کے سلسلے میں ایک چیز تو یہ دیکھنا ہے کہ مزدور کی شان و منزلت کیا ہے۔ ایک موضوع یہ ہے کہ ہمیں مزدوروں کی حمایت کے سلسلے میں کچھ باتیں عرض کرنا ہیں۔ ایک مسئلہ نئے کام شروع کرنے اور روزگارکے مواقع پیدا کرنے کے تعلق سے ہے۔ ان میں ہر موضوع کے بارے میں چند جملے عرض کرنا چاہتا ہوں۔ مزدور کے بلند مرتبے کی دلیل کے طور پر یہی کافی ہے کہ اللہ تعالی اور اس کے رسول مزدور کے ہاتھ کو پسند کرتے ہیں۔ پیغمبر خدا نے مزدور کے ہاتھ کا بوسہ لیا۔ مزدور کی قدر و منزلت کو واضح کرنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے۔ محنت کش طبقے کا پورے معاشرے پر بڑا احسان ہے۔ کیونکہ ایک خود مختار معیشت میں جس کا محور پیداوار ہے اور وہ اپنے پیر پر کھڑا ہونے کی کوشش کر رہا ہے، ہر کس و ناکس پر منحصر نہیں ہے، معیشت کے بنیادی امور کے سلسلے میں بیرونی ممالک پر انحصار نہیں ہے، ایسی معیشت میں محنت کشر طبقے کا رول بہت اہم اور کلیدی ہے۔ اس اعتبار سے محنت کش طبقہ اصلی ستون ہے۔ یہ کردار بھی ایسا ہی ہے جس پر عوام الناس کو خاص توجہ دینا چاہئے۔ اس طرز فکر کو عمومی کلچر میں تبدیل کر دینا  چاہئے۔ اس معاملے میں بھی، جیسا کہ ہم نے اساتذہ کے تعلق سے عرض کیا، ذرائع ابلاغ، ثقافتی اداروں اور تشہیراتی اداروں کو چاہئے کہ اس میدان میں کام کریں۔

اسلامی جمہوریہ میں مزدور طبقے کا بڑا احسان

اسلامی جمہوریہ میں مزدور طبقے کا حق دوسری جگہوں سے زیادہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نظام کی تشکیل کے فورا بعد سے ہی دشمنوں نے، اغیار نے، بد خواہوں نے مزدور طبقے کو اسلامی جمہوریہ کے مد مقابل لاکر کھڑا کر دینے کی کوشش کی۔ بہت ورغلایا لیکن مزدوروں کی صنف بڑی مضبوطی سے اٹھ کھڑی ہوئی ہے، اسلامی نظام کی حمایت میں اٹھ کھڑی ہوئی، اسلامی نظام کی پشتپناہی کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی۔ مقدس دفاع میں حقیقی معنی اس نے بڑھ بڑھ کر حصہ لیا۔ اسلامی جمہوریہ پر اس طبقے کا احسان ہے۔ ہمارے عزیز محنت کش طبقے کے افراد نے اپنی جانیں قربان کیں۔

مزدور طبقے کی حمایت اور اس کے ثمرات و برکات

مزدوروں کی حمایت کا مسئلہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس نکتے پر میں نے مزدوروں کے بارے میں جب گفتگو کی تو ہمیشہ خاص تاکید کی ہے اور آج بھی تاکید کر رہا ہوں۔ ہمارا اس سال کا نعرہ  تھا پیداوار، حمایت اور رکاوٹوں کا ازالہ (7)۔ پروڈکشن کی حمایت کا ایک اہم ترین پہلو محنت کش طبقے کی حمایت ہے، مزدوروں کی پشت پناہی ہے، مزدوروں کی حمایت ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ پیداوار کی، ملک کی داخلی پیداوار کی، قومی پیداوار کی حمایت کریں تو ہمیں چاہئے کہ مزدور طبقے کی حمایت کریں۔ یہ پشت پناہی سے ایک قدم آگے کی چیز ہے۔ البتہ ہمیں یہ توجہ بھی رکھنا چاہئے کہ مزدور کی حمایت در حقیقت قومی ثروت کی حمایت ہے۔ یعنی اگر کسی ملک کا مزدور طبقہ فعال ہو، جوش و جذبے سے بھرا ہوا ہو، خوش اسلوبی سے کام کرے تو اس ملک کو قومی ثروت حاصل ہوگی۔ یہ قومی ثروت اسے عزت دلائے گی، طاقت بھی دلائے گی۔ اس اعتبار سے محنت کش طبقہ ملک کو خود مختاری بھی دلاتا ہے، طاقت بھی دیتا ہے، عزت بھی دلاتا ہے بشرطیکہ آپ مزدور طبقے کی حمایت کریں۔ یہ مزدور کی حمایت کی برکتیں اور ثمرات ہیں۔

مزدور طبقات کی حمایت کے طریقے:

-1 ٹریننگ

البتہ جب ہم مزدور کی حمایت کی بات کرتے ہیں تو مراد صرف یہ نہیں ہے کہ ہر سال یا ہر دو سال میں ایک بار افراط زر کی شرح کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کی تنخواہ بڑھا دی جائے۔ یہ حمایت کی ایک قسم ہے۔ لیکن حمایت کی دوسری قسمیں بھی موجود ہیں۔ ان پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ان میں سے ایک مزدوروں کو مہارت سکھانا ہے۔ بہت وسیع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنے مزدوروں کو خواہ وہ صنعتی شعبے کے مزدور ہوں، زرعی شعبے کے مزدور ہوں، مہارت سکھائیں، ان کی مہارت کی سطح کو بہتر کریں، ان کی فنی مہارت میں مسلسل اضافہ کریں۔ یہ خود ان کے لئے بھی غیر معمولی طور پر منفعت بخش ہے اور اس سے کام کی کوالٹی بھی بڑھے گی۔ حمایت کی ایک قسم یہ بھی ہے۔

-2 بیمہ کور اور معالجاتی سہولیات

بیمہ اور علاج کی سہولیات۔ یہ بھی اہم مسئلہ ہے۔ مزدور کی حمایت کے مسئلے میں ان کو میڈیکل بیمہ کور ملنا ضروری ہے۔ البتہ بعض اداروں میں اس چیز کا بخوبی خیال رکھا جاتا ہے اور یہ ہونا بھی چاہئے۔ مزدوروں کے معاملے میں یہ ایک بنیادی مسئلہ تصور کیا جانا چاہئے۔

-3 روزگار کی سیکورٹی

روزگار کی سیکورٹی کا مسئلہ، نوکری کی حفاظت کا مسئلہ بھی مزدوروں کی حمایت کے  پہلو سے اہم مسئلہ ہے۔ یعنی محنت کش طبقے کو اس فکرمندی سے نجات ہونی چاہئے کہ اس کی نوکری بچے گي یا چلے جائے گی؟ کیا ہوگا؟ یہ بہت اہم چیز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم کارخانوں کے بند ہونے کے سلسلے میں بہت زیادہ حساس ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ یہ افراد، البتہ میں ابھی اس موضوع پر چند جملے عرض کروں گا، روزگار کی سیکورٹی کی طرف سے مطمئن  ہونے چاہئیں۔ مزدور کو آسودہ خاطر ہونا چاہئے کہ اس کی نوکری محفوظ ہے۔

4- مکان

ایک اور اہم مسئلہ مزدوروں کے مکان کا ہے جو اہم ہے۔ آج مزدور طبقے کی آمدنی کا بڑا حصہ گھر کے کرائے پر صرف ہو جاتا ہے۔ مزدوروں کے مکان کے مسئلے پر توجہ دینا ضروری ہے۔ اس کے بنیادی حل کے بارے میں سوچنا چاہئے۔ میں نے سنا ہے کہ اس سال کے بجٹ میں پارلیمنٹ نے اس چیز کو شامل کیا ہے۔ اگر واقعی ایسا ہوا ہے اور اس پر بخوبی عمل بھی ہو جائے، اسے عملی جامہ پہنایا جائے تو یہ بہت بڑی مدد ہوگی۔

-5 آجر و اجیر اور حکومت کے درمیان منطقی و منصفانہ رابطے کی ضرورت

ایک اور حمایت آجر و اجیر کے ما بین  اور آجر و حکومت کے ما بین منطقی و منصفانہ رابطہ قائم ہونا ہے۔ یہ بھی محنت کش طبقے کی حمایت کا ایک طریقہ ہے۔ البتہ یہ وزارت محنت کی ذمہ داری ہے کہ ان پہلؤوں پر کام کرے۔

محنت کش طبقے کے تعلق سے ایک اور اہم موضوع روزگار کے مواقع پیدا کرنا اور نوکریاں پیدا کرنا ہے۔ یہ بھی بہت اہم موضوع ہے۔ اگر حکومتیں روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے سلسلے میں اچھے منصوبے تیار کریں اور منظم طریقے سے اس پر کام بھی کریں، ملکی وسائل کو اس مقصد کے لئے استعمال کریں، نجی سیکٹر کے وسائل و توانائيوں کو روزگار پیدا کرنے کے لئے استعمال کریں تو میرے خیال میں یہ چیز ملکی معیشت اور ملک کی پیشرفت کے سلسلے میں بہت بڑی مدد ہوگی۔ ملکی معیشت کی صحتمندی اور معیشت کا نمو اس سے وابستہ ہے۔

روزگار ایجاد کرنے کے اقتصادی، سماجی و سیاسی ثمرات اور بے روزگاری کے عواقب

میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ روزگار کے مواقع پیدا ہونے سے صرف اقتصادی فائدہ نہیں ملتا بلکہ روزگار کے مواقع پیدا ہونے کے سماجی ثمرات بھی ہیں اور سیاسی ثمرات بھی ہیں۔ خود عوام بالخصوص نوجوانوں کے لئے کام اور نوکری فعالیت و تحرک، شوق و جوش و جذبے کا موجب ہے۔ آپ دیکھئے کہ جو آجر یا اجیر کام کر رہا ہے، محنت کر رہا ہے اور اس کا پیشہ کامیابی سے آگے بڑھ رہا ہے تو آپ دیکھئے کہ وہ کس قدر ہشاش بشاش رہتا ہے۔ اس کے برخلاف بے روزگاری برائیوں کی جڑ ہے۔ بے روزگاری بدگمانی اور بدکلامی کا سبب ہے، نشے کی لت کی ایک وجہ یہی ہے، فکری انحراف کی بھی ایک وجہ یہی ہے۔ یہاں تک کہ سیکورٹی کے شعبے میں بھی بعض انحرافات اسی بے روزگاری کی وجہ سے پیدا ہو جاتے ہیں۔ لہذا روزگار کا مسئلہ صرف اقتصادیات سے مربوط نہیں ہے۔ روزگار کے مواقع کی ایجاد کثیر الجہتی اور کئی پہلوؤں پر مشتمل اقدام ہے اور بہت اہم ہے۔ حکومتوں کو چاہئے کہ اپنا ایک اہم پروگرام اسی کو قرار دیں کہ روزگار کے مواقع کیسے پیدا کئے جائیں۔ ان کے پاس اس کا پروگرام ہونا چاہئے۔ اقتصادی مسائل میں اس چیز کی توقع رکھی جاتی ہے۔

کارخانوں کو بند کر دینا پیداوار پر ضرب اور ملکی خود مختاری سے خیانت

یہیں میں ان لوگوں کو ایک انتباہ دینا چاہتا ہوں جو کارخانوں کے بند ہو جانے کا سبب بنے۔ افسوس کی بات ہے کہ بہت سارے کارخانے بند ہو گئے۔ ان میں بعض کی رپورٹیں ہم نے پہلے ہی دیکھی تھیں اور بعض کی رپورٹیں اب زیادہ تفصیلات کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ جو لوگ اپنے ذاتی مفادات کے لئے کسی طریقے سے کارخانہ حاصل کر لیتے ہیں۔ اس کے بعد کارخانے کی زمین اپنے استعمال میں لینے کے لئے مزدوروں کو کسی طرح نکال دیتے ہیں، کارخانے کی مشینوں اور آلات کو فروخت کرکے پیسے حاصل کر لیتے ہیں اور زمین کو روکے رکھتے ہیں کہ بعد میں کسی مناسب موقع پر وہاں بلڈنگ کھڑی کر لیں اور باطل و حرام طریقے سے اپنے لئے ایڈڈ ویلیو کا انتظام کرتے ہیں، وہ جانتے ہوں یا نہ جانتے ہیں لیکن یہ خیانت ہے۔ بعض لوگوں کی خیانت کی نیت نہیں ہوتی، صرف ذاتی مفادات پر ان کی نظر ہوتی ہے لیکن یہ در اصل خیانت ہے۔ ملکی خود مختاری کے ساتھ خیانت، ملکی معیشت کے ساتھ خیانت، عوام الناس کے ساتھ خیانت، مزدور طبقے کے ساتھ خیانت۔ یہ پروڈکشن پر لگنے والی ضرب ہے۔ جب مزدور نوکری سے محروم ہو جاتا ہے، کارخانہ بند ہو جاتا ہے، اس کارخانے کی مصنوعات کو بیرون ملک سے درآمد کرنا پڑتا ہے تو وہی مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں جو آج درآمدات کے سلسلے میں ہمیں در پیش ہیں۔ ملک کا مالیاتی ذخیرہ بھی ملک سے باہر جاتا ہے اور اس کے ساتھ ہی پابندیوں وغیرہ جیسی مشکلات کا بھی ہمیں سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک کا اصلی سرمایہ پیداوار ہے اور کچھ لوگ پیداوار روک دیتے ہیں۔

مزدوروں کی بے روزگاری بر سر روزگار افراد پر بھی ظلم

اس کے علاوہ جب مزدوروں کی بڑی  تعداد بے روزگار ہو جاتی ہے تو جن لوگوں کے پاس کام ہوتا ہے ان پر بھی ظلم ہونے لگتا ہے۔ اس لئے کہ نوکری کے متلاشی افراد کی تعداد زیادہ ہو جاتی ہے تو محنت مزدوری اور مزدور کی قیمت فطری طور پر کم ہو جاتی ہے۔ جب بے کار افراد کی تعداد زیادہ ہو جائے تو جو بر سر روزگار ہے وہ بھی اس روزگار سے کما حقہ استفادہ نہیں کر پاتا۔ لہذا یہ بڑا اہم مسئلہ ہے۔ متعلقہ اداروں کو چاہئے کہ سنجیدگی سے اس پر غور کریں۔ حکومت کے اندر اس قضیئے سے متعلق اداروں میں وزارت صنعت ہے، وزارت زراعت ہے، یہی وزاررتیں پیداوار کے شعبے میں کام کرتی ہے۔ یہی ہیں، انھیں چاہئے کہ کام کریں۔ البتہ اس موضوع کا دائرہ اس سے بھی وسیع تر ہے۔ میں نے اختصار سے بیان کر دیا کہ وہ بیٹھ کر غور کریں۔ ملکی معیشت کا ایک بنیادی  پروگرام یہی ہے۔ جو لوگ موجودہ کارخانوں کے کسی نہ کسی طرح بند پڑ جانے کا سبب بنتے ہیں ان کے خلاف واقعی کارروائی کریں۔ ایک چیز جس کی گزارش میں پہلے بھی کر چکا ہوں، البتہ یہ ماہرین اقتصادیات کی رائے ہے، ہم نے انھیں سے سنی ہے، انھیں سے سیکھا ہے، یہ ہے کہ ملک میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کارخانوں کو متحرک کیا جائے۔ البتہ ملک کے لئے بڑے کارخانوں کی بھی اہمیت ہے۔ لیکن چھوٹے اور اوسط درجے کے کارخانے ہر جگہ کے لئے اور ہر کسی کے لئے منافع بخش ہیں۔ اس سے سب کے لئے ثروت پیدا ہوتی ہے، متوسط طبقے کے لئے بھی، کمزور طبقے کے لئے بھی، ملک کے ہر علاقے میں اور ہر گوشہ و کنار میں روزگار بھی پیدا ہوتا ہے۔ ان کو دوبارہ شروع کیا جانا چاہئے۔

قومی پیداوار کی حقیقی معنی میں تقویت پابندیوں کو ناکام بنانے کا موثر راستہ

مزدور طبقے سے متعلق مسائل میں آخری چیز، چونکہ ان دنوں پابندیوں وغیرہ کا ذکر بہت زیادہ ہے، البتہ ایک عرصے سے، کئی سال سے پابندیوں کے موضوع پر بات ہو رہی ہے اور آجکل پھر اس پر بحث ہو رہی ہے، میرے خیال میں پابندیوں کو بے اثر بنانے کا سب سے اچھا اور سب سے کامیاب طریقہ قومی پیداوار کو تقویت پہنچانے کے لئے حقیقی کوشش و محنت ہے صرف نعرے بازی نہیں بلکہ حقیقی محنت۔ اگر ہم قومی پیداوار کو حقیقت میں مستحکم بنانے میں کامیاب ہو گئے، حقیقی معنی میں ہم نے تقویت پہنچائی، اس پر کام کیا، منصوبہ بندی کی، لگن سے اس پر کام کیا تو یقین رکھئے کہ پابندیاں پہلے بے اثر ہوں گی اور اس کے بعد ہٹا دی جائیں گی۔ یعنی فریق مقابل جب دیکھے گا کہ پابندیوں سے ملک کو نقصان نہیں پہنچا بلکہ اور بھی مضبوط ہو گیا، اندرونی فعالیت اور زیادہ بڑھ گئی تو اس کے لئے پابندیاں ہٹانا ناگزیر ہو جائے گا۔ خیر یہ گفتگو ختم ہوئی۔

انتخابات ملک  کی بنیادوں کو مستحکم کرنے کا بے مثال موقع

چند جملے انتخابات اور اس سے متعلق موضوعات کے بارے میں عرض کر دوں۔ دو باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ ایک تو یہ کہ انتخابات حقیقی معنی میں بڑا اہم موقع ہے۔ عوام الناس کو انتخابات کی طرف سے مایوس نہیں کرنا چاہئے۔ یہ پہلی بات ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ عبث باتوں اور بے بنیاد پرکشش وعدوں سے انتخابات کو خراب نہیں کرنا چاہئے۔ جو لوگ حقیقت میں اس میدان کارزار میں قدم رکھنا چاہتے ہیں، غور کریں اور حقیقی معنی میں اپنا پروگرام عوام کے سامنے پیش کریں۔

پہلے نکتے کے بارے میں بات کی جائے تو انتخابات واقعی بے مثال موقع ہے۔ یعنی ایک بے نظیر موقع ہے۔ ملک کے تعلق سے اور ملک کی توانائی کی بنیادوں کے استحکام کے تعلق سے کوئي بھی چیز انتخابات کی جگہ نہیں لے سکتی۔ اس لئے جو لوگ انتخابات میں شرکت کر رہے ہیں وہ در حقیقت اپنے ملک کی طاقت کے لئے، ملک کی حفاظت کے لئے، اپنی اور ملک کے مستقبل کی سلامتی کے لئے کام کر رہے ہیں۔

اسلامی جمہوری کی پوری تاریخ میں صحتمند اور شفاف انتخابات کا انعقاد

کچھ لوگ انتخابات کے بارے میں غلط فہمی پیدا کرتے ہیں، انتخابات کے انعقاد کے ذمہ داران کی کردار کشی کرتے ہیں، خواہ وہ محترم گارجین کونسل ہو یا دیگر ادارے ہوں، ان کی کردار کشی کرتے ہیں، یہ غلط ہے۔ ابتدائے انقلاب سے اب  تک ہمارے یہاں بہت سارے انتخابات ہوئے، درجنوں انتخابات ہوئے۔ یہ سارے انتخابات آزادانہ ہوئے۔ ممکن ہے کہ گوشہ و کنار میں کہیں چھوٹی موٹی کوئی بدعنوانی ہوئی ہو، بعض مواقع پر ایسا ہوا لیکن اس نے انتخابات کے نتیجے کو متاثر نہیں کیا۔ کیونکہ میں نے اس مسئلے کی نگرانی کی۔ کچھ معاملات میں شکایت ملی اور ہم نے مسائل کی نگرانی کی۔ یعنی کچھ جگہوں کے بارے میں شکایت ہوئی کہ وہاں بد عنوانی ہوئی ہے، ہم نے اس کی  تحقیقات کیں، جائزہ لیا، سنجیدگی سے قریب سے جانچ کی، کبھی کوئی ایسی بدعنوانی نظر نہیں آئي جو دیانتداری کے خلاف ہو یا انتخابات کے نتیجے کو متاثر کرنے والی ہو۔ ہمارے انتخابات میں ایسا کبھی بھی نہیں ہوا۔ ہمارے انتخابات ہمیشہ صحیح و سالم اور شفاف رہے ہیں۔ یہ پہلی بات ہے۔

انتخابات کے انعقاد کے سلسلے میں ناانصافی سے پرہیز

البتہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو انتخابات کا نتیجہ اپنی مرضی کے مطابق ہو تو اسے خوشی سے قبول کرتے ہیں۔ اگر انتخابات کا وہی نتیجہ آیا جو انھیں پسند تھا تب تو وہ انتخابات کو صحیح و سالم مانتے ہیں اور قبول کرتے ہیں لیکن اگر ان کی مرضی کا نتیجہ نہ ہو تو انتخابات کے سلسلے میں اور انتخابات کروانے والے عہدیداروں کے سلسلے میں خواہ وہ کسی بھی محکمے سے تعلق رکھتے ہوں، الزام تراشی کرنے لگتے ہیں۔ کبھی تو 2009 کی طرح آشوب برپا کر دیتے ہیں۔ البتہ الزام تراشی تو حرام ہے لیکن فتنہ و آشوب برپا کرنا جرم ہے۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں۔ یہ غلط ہے۔ یعنی یہ کام نہیں کرنا چاہئے۔ ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے۔

امیدواروں کی طرف سے اپنا پروگرام پیش کئے جانے کی ضرورت اور بے بنیاد بیان دینے سے اجتناب

ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے والے بعض افراد ایسے بیان دیتے ہیں جو اچھے نہیں ہیں۔ فریب دینے والی باتیں ہیں، ایسی باتیں ہیں جن کے پیچھے تفکر اور منصوبہ نہیں ہے۔ بس یونہی دعوی کر دیا گيا ہے، کچھ بھی کہہ دیتے ہیں ملکی وسائل و امکانات کو مد نظر رکھے بغیر بلکہ ان کے بارے میں اطلاعات کے بغیر۔ بہت سے برادران جو اس میدان میں قدم رکھتے ہیں، ملک کی صلاحیتوں اور توانائیوں سے زیادہ آگاہ بھی نہیں ہوتے۔ صحیح حساب کتاب کئے بغیر ایک چیز کہہ دیتے ہیں، بیان دے دیتے ہیں، وعدہ کر لیتے ہیں۔ یہ اچھا نہیں ہے۔ حقیقی معنی میں پروگرام پیش کیا جانا چاہئے۔ منصوبہ ایسا ہونا چاہئے کہ جب ماہرین امیدوار کی بات سنیں، عوام سے اس کی گفتگو کو دیکھیں تو وہ دل سے تصدیق کریں کہ یہ پختہ اور اچھی بات ہے۔

امیدواروں کے لئے آئین کی پابندی کی ضرورت

بعض اوقات کچھ لوگ ایسی باتیں بھی کرتے ہیں جن سے محسوس ہوتا ہے کہ گویا وہ آئین کو نہیں مانتے۔ جو شخص صدارتی انتخابات میں شرکت کر رہا ہے اور عہدہ صدارت سنبھالنے کا امیدوار ہے اس کا اسلام پر عقیدہ ہونا چاہئے، عوام کے ووٹوں پر اس کا اعتقاد ہونا چاہئے، آئین پر اس کا اعتقاد ہونا چاہئے۔ ان چیزوں پر اعتقاد ہونا چاہئے۔ اگر یہ اعتقاد نہ ہو تو وہ اس کے لئے موزوں نہیں ہے۔ بعض اوقات ایسی باتیں سنائی دیتی ہیں جو اس اہم فریضے سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ ہماری درخواست ہے اور پرزور مطالبہ ہے کہ ان چیزوں کو ملحوظ رکھا جائے۔

دشمن کی باتیں دہرانے سے اجتناب کریں عہدیداران

ان دنوں ملک کے بعض حکام سے ایسی باتیں سنائی دیں جو تعجب خیز اور افسوسناک ہیں۔ ہم نے سنا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے دشمن اور مخالف ذرائع ابلاغ نے بھی ان باتوں کو نشر کیا۔ جب اس قسم کی باتیں سننے کو ملتی ہیں تو واقعی افسوس ہوتا ہے۔ ان میں کچھ باتیں تو ہمارے دشمنوں کی معاندانہ باتیں ہیں۔ امریکہ کی باتوں کا اعادہ کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر علاقے میں اسلامی جمہوریہ کے گہرے اثر و رسوخ کی وجہ سے امریکی برسوں سے سخت پریشان اور ناراض ہیں۔ قدس فورس سے اسی لئے ناراض تھے، شہید سلیمانی سے اسی وجہ سے ناراض تھے۔ شہید سلیمانی کو اسی وجہ سے شہید کیا۔ جو چیز بھی علاقے میں اسلامی جمہوریہ کے اثر و رسوخ کو بڑھانے والی ہو وہ ان کی نظر میں بری ہے۔ ہمیں ایسی بات تو نہیں کرنا چاہئے کہ محسوس ہونے لگے کہ ہم بھی انھیں کی بات دہرا رہے ہیں۔ خواہ وہ قدس فورس کے بارے میں ہو یا خود شہید سلیمانی کے بارے میں ہو۔ ملکی سیاست گوناگوں اقتصادی، عسکری، سماجی، علمی و ثقافتی  پروگراموں پر استوار ہوتی ہے، اسی میں سفارتی روابط اور خارجہ تعلقات بھی شامل ہوتے ہیں۔ یہ ساری چیزیں مل کر کسی ملک کی سیاست کو تشکیل دیتی ہیں۔ سب کو مل کر ایک ساتھ محنت کرنا ہوتی ہے۔ سب کو آگے بڑھنا ہوتا ہے۔ اب اگر کوئی شعبہ دوسرے کی نفی کرنا شروع کر دے اور دوسرا اس پہلے شعبے کی نفی کرے تو یہ بالکل بے معنی ہے۔ یہ بہت بڑی غلطی ہے جو اسلامی جمہوریہ کے عہدیدار سے، اسلامی جمہوریہ کے عہدیداران سے سرزد نہیں ہونی چاہئے۔

قدس فورس علاقے میں اسلامی جمہوریہ کی باوقار سیاست کو عملی جامہ پہنانے کی ضامن

قدس فورس واقعی مغربی ایشیا میں معذرت خواہانہ سفارت کاری کا سلسلہ روکنے والا موثر عنصر ہے۔ قدس فورس نے مغربی ایشیا کے علاقے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی خود مختار پالیسی کو اور اسلامی جمہوریہ کی پروقار پالیسی کو وجود عطا کیا۔

اسلامی جمہوریہ کی پسپائی اور مغرب کے اتباع پر مغربی حکومتوں کا اصرار اور ہماری خود مختار خارجہ پالیسی

مغربی ممالک بضد ہیں کہ ملک کی خارجہ پالیسی کا جھکاؤ ان کی جانب ہو اور ان کے پرچم تلے آگے بڑھے، وہ بھی اطاعت کی شکل میں۔ مغربی حکومتوں کی یہ خواہش ہے۔ کیونکہ برسوں تک یہی سلسلہ تھا۔ قاجاریہ دور کے اواخر میں بھی اور پہلوی حکومت کی پوری مدت میں بھی ایران مغرب کی پالیسیوں کے زیر تسلط تھا۔ اسلامی انقلاب آیا تو اس نے ایران کو اس تسلط سے باہر نکال لیا۔ ان پورے چالیس برسوں میں مغربی ممالک کی، امریکہ کی بھی اور یورپ کی بھی یہی کوشش رہی کہ اس ملک پر وہی سابقہ تسلط پھر سے بحال ہو جائے۔ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران اگر چین سے روابط قائم کرتا ہے تو وہ ناراض ہونے لگتے ہیں۔ روس سے سیاسی یا اقتصادی تعلقات قائم کرتا ہے تو وہ پریشان ہو جاتے ہیں، سیخ پا ہو جاتے ہیں۔ ہمسایہ ممالک سے ہم اپنے رشتے بڑھانا چاہتے ہیں تب بھی وہ بیچ میں کود پڑتے ہیں۔ ہمارے بیچارے کمزور پڑوسیوں پر دباؤ ڈالتے ہیں اور انھیں منع کر دیتے ہیں۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جن کا ہم مشاہدہ کرتے رہے ہیں۔ مجھے عرب ممالک اور ہمسایہ ملکوں کے تعلق سے کئی مثالیں یاد ہیں کہ ان کا کوئی اعلی رتبہ عہدیدار ایران کا دورہ کرنا چاہتا تھا۔ لیکن امریکیوں نے وہاں جاکر روک دیا کہ یہ دورہ انجام نہ پائے۔ یعنی وہ ہماری ہر طرح کی سفارتی سرگرمیوں کے بھی مخالف ہیں۔ تو ہم ان کی اس خواہش کے سامنے ہتھیار تو نہیں ڈال سکتے۔ ہمیں آزادانہ اور پروقار انداز میں، پوری محنت اور بھرپور توانائی سے کام کرنا ہے۔ علاقے میں بعض نے یہی کیا ہے اور بحمد اللہ نتیجہ بھی حاصل کیا۔

تمام ممالک کی خارجہ پالیسی وزارت خارجہ نہیں بلکہ بالاتر اداروں میں وضع کی جاتی ہے

یہ بھی سب جان لیں کہ دنیا میں کہیں بھی خارجہ پالیسی وزارت خارجہ کے اندر وضع نہیں کی جاتی۔ خارجہ پالیسی دنیا میں ہر جگہ وزارت خارجہ سے بالاتر اداروں کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ ملک کے بالاتر ادارے اور اعلی رتبہ حکام خارجہ پالیسی کے خدو خال معین کرتے ہیں۔ البتہ اس عمل میں وزارت خارجہ بھی شریک رہتی ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ فیصلے وزارت خارجہ کے تابع ہوں۔ نہیں۔ وزارت خارجہ کے ذمے اجرا کا کام ہے۔ وہ خارجہ پالیسی کو نافذ کرتی ہے۔ ہمارے ملک میں بھی یہی صورت حال ہے۔ قومی سلامتی کی سپریم کونسل میں جہاں تمام عہدیداران موجود ہوتے ہیں فیصلے کئے جاتے ہیں۔ وزارت خارجہ کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ اپنے خاص انداز میں انھیں عملی جامہ پہنائے اور آگے لے جائے۔ بہرحال ہمیں ایسی باتیں نہیں کرنا چاہئے کہ گویا ہم ملک کی پالیسیوں پر یقین نہیں رکھتے اور انھیں تسلیم نہیں کرتے۔ ہمیں محتاط رہنا چاہئے۔ محتاط رہنا چاہئے کہ کہیں دشمن کو نہ خوش کرنے لگیں۔ واقعی یہ نہیں ہونا چاہئے کہ ہم دشمن کی مسرت کا سامان فراہم کرنے لگیں۔

میں امید کرتا ہوں کہ ان شاء اللہ خداوند عالم ملک کے تمام عہدیداران کو جو اسلامی جمہوری نظام، اپنے ملک، اپنے وطن اور اپنے عوام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں، یہ توفیق دے کہ وہ یہ کام بنحو احسن انجام دے سکیں۔

و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

1) سوره‌ بقره، آیت نمبر ۱۲۴ کا ایک حصہ؛ «...ہم نے تم کو لوگوں کا  امام قرار دیا‌ ...»

2) سوره‌ بقره، آیت نمبر ۱۲۴ کا ایک حصہ؛ «... اور میری اولاد میں سے؟ ...»

3) سوره ابراهیم ، آیت نمبر ۳۹ کا ایک حصہ؛ « شکر ہے اس اللہ کا جس نے سن پیری کے باوجود مجھے اسماعیل اور اسحاق کو عطا فرمایا۔..»

4) کافی، جلد ۴، صفحہ ۴۶۶

5) سوره‌ عنکبوت،آیت ۲؛ « کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ ان کے (زبانی) کہنے سے کہ ہم ایمان لے آئے ہیں چھوڑ دیئے جائیں گے اور ان کی آزمائش نہیں کی جائیگی؟»

6) بحارالانوار، جلد۴۲، صفحہ ۲۸۲

7) نئے ہجری شمسی سال کے آغاز پر خطاب 20 مارچ 2021