بسم‌اللّہ‌الرّحمن‌الرّحیم

الحمدللّہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاہرین، سیّما بقیۃاللّہ فی الارضین۔

مجھے بہت خوشی ہے کہ بحمد اللہ اس سال بھی یہ ملاقات انجام پائي۔ گزشتہ سال ہمیں یہ توفیق حاصل نہیں ہو سکی۔ البتہ پچھلے برسوں میں ہم ہر سال الیٹس سے ملاقات کرتے تھے اور آج کی نشست بھی میرے لیے مفید تھی۔ یعنی دوستوں اور ہمارے عزیزوں، لڑکوں لڑکیوں نے جو باتیں یہاں بیان کیں، وہ حقیقی معنی میں میرے لئے مفید تھیں۔ ان باتوں کی گہرائي، واقعیت اور باریکیوں کے بارے میں فیصلہ کرنا ایک الگ مسئلہ ہے۔ آپ لوگوں نے جو چیزیں کہی ہیں، ان کا زیادہ غور سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے لیکن فی الحال میں نے جو باتیں یہاں سنی ہیں، وہ میرے لیے قابل استفادہ تھیں اور میں ان سے بہرہ مند ہوا۔ ان دوستوں کا میں بہت شکر گزار ہوں جنھوں نے زحمت کی اور یہاں اپنی باتیں پیش کیں۔ میں آپ سے غیر معمولی صلاحیتوں اور غیر معمولی صلاحیت کے حامل افراد (الیٹس) کے بارے میں کچھ باتیں اور کچھ نکات عرض کروں گا۔ اگر گنجائش رہی اور وقت رہا تو اپنے معروضات کے آخر میں کچھ باتیں نالج بیسڈ کمپنیوں کے بارے میں بھی عرض کروں گا۔

پہلی بات یہ ہے کہ میرے عزیزو! غیر معمولی صلاحیت ایک خدائي نعمت ہے، ایک تحفۂ الہی ہے۔ خدا کی نعمت کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ آپ کے ذہن میں جو چیز سب سے پہلے آنی چاہیے وہ یہ ہو کہ اس نعمت کا شکریہ ادا کریں۔ واشکروا نعمۃ اللہ ان کنتم ایاہ تعبدون(2) سورہ نحل میں ہے۔ قرآن مجید میں کئي دیگر مقامات پر بھی 'و اشکروا نعمۃ اللہ' آيا ہے۔ یہ ایک دائمی فریضہ ہے۔ شکر کی کیفیت کے بارے میں بعد میں عرض کروں گا۔ تو یہ پہلا نکتہ ہوا۔ غیر معمولی صلاحیت کی نعمت پر شکر کی ادائيگي کے بارے میں سوچیں۔ اس الہی تحفے کا شکر ادا کریں۔

دوسری بات؛ جو چیز، الیٹ کو 'الیٹ' بناتی ہے وہ صرف ذہنی استعداد اور صلاحیت نہیں ہے۔ بہت سے لوگوں کے پاس صلاحیت ہے، ذہنی توانائی ہے لیکن یہ ضائع ہو جاتی ہے۔ باہر آ ہی نہیں پاتی یا اس سے کوئي صحیح اور مناسب استفادہ ہو ہی نہیں پاتا اور وہ شخص الیٹ میں تبدیل نہیں ہو پاتا۔ جو چیز الیٹ کو الیٹ بناتی ہے وہ ذہنی صلاحیت اور استعداد کے علاوہ اس حقیقت اور اس نعمت کی قدر کو سمجھنا ہے۔ اس کی قدر، سمجھنی چاہیے اور اس کی بنیاد پر کام اور کوشش ہونی چاہیے۔ اگر ایک باصلاحیت اور استعداد والا انسان، اپنے ذہن سے کام نہ لے، اس صلاحیت سے فائدہ نہ اٹھائے، تساہلی، بے رغبتی، بے توجہی اور غفلت میں پڑا رہے تو یقینی طور پر وہ الیٹ نہیں بنے گا۔ الیٹ وہ ہے جو قدر سمجھتا ہے، استعداد کی قدر جانتا ہے، اسے استعمال کرتا ہے اور بلند حوصلے کے ساتھ زحمتیں اٹھا کر اور جدوجہد کر کے اپنے آپ کو ایک الیٹ میں بدل دیتا ہے۔ یہ قدر شناسی سب سے پہلے تو خود اس کی ذمہ داری ہے، پھر اطراف والوں کی ذمہ داری ہے۔ اطراف والے یعنی حکومتی افراد، عہدیداران، کسی وقت میں والدین، کسی وقت میں ٹیچر یا پروفیسر؛ انھیں قدردانی کرنی چاہیے لیکن اصل قدرشناسی خود الیٹ کے ذریعے انجام پانی چاہیے۔

البتہ یہ بات خود الیٹ کے سلسلے میں ہے؛ ملک کے کلیدی امور کے بارے میں بھی ایسا ہی ہے۔ ہمارا ملک ذہنی صلاحیتوں کے لحاظ سے دنیا کی اوسط سطح سے اوپر ہے۔ یہ دعوی نہیں ہے بلکہ یہ ایک ثابت شدہ اور مسلمہ بات ہے۔ مطلب یہ کہ ہماری قوم قدرتی طور پر الیٹ ہے۔ سامراجیوں کی سافٹ وار کا ایک اہم حصہ، آج بھی اور ہمیشہ سے، آج بھی ہے، ماضی میں زیادہ تھا، یہ رہا ہے کہ ہماری قوم کو یا کسی بھی قوم کو جو باصلاحیت ہے، اس کی استعداد سے غافل کر دیں، اسے اس استعداد کے تعلق سے لاپرواہ بنا دیں، یہاں تک کہ اسے ایسی پوزیشن میں پہنچا دیں کہ وہ خود ہی اپنی استعداد کا انکار کرنے لگے، 'تم نہیں کر سکتے، تم نہیں کر سکتے، تم نہیں کر سکتے' کی اتنی گردان کرتے ہیں کہ اس قوم کو پورا یقین ہو جاتا ہے کہ واقعی وہ کچھ نہیں کر سکتی اور وہ خود کہہ دیتی ہے کہ میں نہیں کر سکتی، یہ ان کاموں میں سے ایک ہے جو رائج تھے۔ ملکوں میں گھستے ہی سامراج نے جو کام سب سے پہلے کیے ان میں سے ایک یہی تھا۔ افریقا میں عظیم تمدن موجود تھے، افریقا کے ایک حصے میں، مغربی افریقا میں اور دوسری جگہوں پر، جو پوری طرح سے نابود ہو گئے، ختم ہو گئے۔ نہرو اپنی کتاب 'عالمی تاریخ پر ایک نظر' میں کہتے ہیں کہ ہندوستان میں انگریزوں کے پہنچنے سے پہلے، ہندوستان اپنی داخلی صنعتوں کے لحاظ سے، اس وقت کی صنعتوں یعنی انیسویں صدی کے اوائل کی صنعتوں کے لحاظ سے ایک خودکفیل ملک تھا؛ جب انگریز وہاں پہنچے، پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی اور پھر برطانوی حکومت، تو انھوں نے ایسے حالات پیدا کر دیے کہ ہندوستانی محسوس کرتے تھے کہ برطانوی اور غیر ملکی مصنوعات کے بغیر زندگي گزارنا ممکن ہی نہیں ہے؛ ایک قوم کی صلاحیتوں کا انکار! خود ہمارے ملک میں بھی ایسا ہی ہے۔ ہم اسلامی انقلاب سے پہلے دو سو سال سے زیادہ عرصے تک اس مصیبت میں گرفتار رہے ہیں۔ آپ نے سنا ہی ہوگا کہ جب تیل کو قومیانے کی بات سامنے آئی اور کہا گيا کہ ایرانیوں کے پاس تیل ہے، وہ خود ہی اپنے تیل کا انتظام چلا سکتے ہیں وغیرہ وغیرہ تو طاغوت کے زمانے کا وزیر اعظم، اس سوچ پر تنقید کرتے ہوئے کہتا تھا کہ ایرانی جا کر مٹی کا لوٹا بنائيں!(4) مٹی کے لوٹے آپ نے نہیں دیکھیں ہیں۔ یہ لوہے کے پترے سے بھی نہیں بلکہ صرف مٹی سے بنایا جاتا ہے۔ پرانے زمانے میں، جب ہم بچے تھے تو مٹی کے لوٹے پائے جاتے تھے۔ وہ کہتا تھا کہ ایرانی جا کر مٹی کے لوٹے بنائيں! یعنی ایک قوم کو اس حد تک گرا دیتے  ہیں۔

جب اپنی صلاحیت کے تعلق سے کسی قوم پر غفلت طاری ہو جاتی ہے تو اس قوم کو لوٹنا آسان ہو جاتا ہے۔ دیکھیے، غفلت اور لوٹ مار ایک دوسرے کی تکمیل کرنے والے ہیں۔ غفلت، لوٹ مار  کی تمہید ہے اور لوٹ مار، غفلت کو بڑھانے والی ہے۔ غفلت اور لوٹ مار میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اس کا مصداق وہ ملک ہیں جو براہ راست سامراج کے قبضے میں تھے، ہمارے ملک کی طرح وہ ملک بھی اس کا مصداق ہیں جو براہ راست سامراج کی نوآبادی نہیں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ہم غافل رہیں۔ قرآن مجید میں، غفلت کی بحث بڑی دلچسپ ہے؛ پوری صراحت کے ساتھ غفلت کا مسئلہ بیان کیا گيا ہے۔ اس سلسلے میں صلاۃ الخوف (آئی ہے کہ) " وَدَّ الَّذینَ کَفَروا لَو تَغفُلونَ عَن اَسلِحَتِکُم وَ اَمتِعَتِکُم فَیَمیلونَ عَلَیکُم مَیلَۃً واحِدَۃ "(5) دشمن چاہتا ہے کہ آپ اپنے ہتھیاروں اور اثاثوں کی طرف سے غافل ہو جائيں۔ ڈرون، میزائل اور اس طرح کی چیزوں کی بحث کو آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ کس قدر ان دنوں دنیا میں ایک بنیادی اور اہم مسئلے کے طور پر پیش کی جا رہی ہے۔ دشمن چاہتا ہے کہ آپ ان چیزوں کے بارے میں غفلت برتیں، اس صلاحیت کو نظر انداز کر دیں تاکہ وہ آسانی سے آپ پر حملہ کر سکے۔ یہ اس معاملے سے جڑی ہوئي بات ہے، خیر میزائل کا موضوع ہمیں الیٹس کے مسئلے سے دور نہ کر دے۔

غیر معمولی صلاحیت اور الیٹس کے بارے میں اگلی بات، الیٹس کے احساس ذمہ داری کے بارے میں ہے۔ ملک کی الیٹ کی صورتحال کے بارے میں ملک کی سرکاری مشینری کی اہم ذمہ داریاں  ہیں، اس بات میں کوئي دو رائے نہیں ہے اور ہمیں امید ہے کہ ملکی حکام، خود میں اور دوسرے افراد، اپنی اس ذمہ داری پر احسن طریقے سے عمل کریں گے لیکن خود الیٹ کو اور نوجوان الیٹ کو بھی ملک کے مسائل کے سلسلے میں ذمہ داری محسوس کرنی چاہیے اور کبھی کبھی ضروری ہے کہ غیر معمولی صلاحیت کا حامل یہ شخص، سختیاں بھی برداشت کرے۔ یہ ان انتہائي اہم اخلاقی نکات میں سے ایک ہے جن پر توجہ دی جانی چاہیے۔ یہ سوچ ٹھیک نہیں ہے کہ ہر چیز تیار ہو اور اپنی جگہ پر ہو تاکہ الیٹ کام کر سکے۔ کبھی آپ کو رکاوٹوں سے لڑنا بھی ہوگا اور یہ بات، بعض دوستوں نے بیان بھی کی۔ البتہ سرد مہری بھی دیکھی جاتی ہے، ملک کی انتظامیہ اور مختلف حکومتی اداروں میں کبھی کبھی الیٹس کے سلسلے میں سرد مہری اور ناملائمت ہوتی ہے، اسے ہم جانتے ہیں، ہمیں خبر ہے لیکن یہ چیز غیر معمولی صلاحیت کے شخص کو اپنی راہ، اپنی سرگرمیاں اور اپنی کوشش جاری رکھنے سے نہ روکے۔ اسے ہرگز مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ "جناب! ہم فلاں ادارے میں گئے، فلاں یونیورسٹی میں گئے، ہمارے ساتھ ایسا رویہ اختیار کیا گيا۔" یہ چیزیں الیٹس کو مایوس نہ کریں، اسے ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے، کوشش کرے، جدوجہد کرے۔ یہ وہی شکر ہے جس کی طرف میں نے اشارہ کیا۔ غیر معمولی استعداد کی نعمت کا ایک شکر یہی ہے۔ شکر ادا کرنا چاہیے؛ عملی شکر یہ ہے کہ وہ کوشش کرے، فعالیت جاری رکھے۔ شکر کا ایک دوسرا حصہ یہ ہے کہ وہ اس بات پر توجہ رکھے کہ غیر معمولی صلاحیت کی یہ نعمت خداوند عالم نے اسے عطا کی ہے اور اس سے جو بھی نتیجہ نکلتا ہے اسے خدا کے ارادے اور خدا کی مرضی کی راہ میں ہونا چاہیے اور یہ بہت اہم ہے اور اس سے الیٹ کی راہ کو سمت ملتی ہے۔

الیٹس کے سلسلے میں ایک اور نکتہ یہ ہے کہ علمی و سائنسی لحاظ سے غیر معمولی صلاحیت والے شخص کو -اس وقت ہماری بحث ایسے ہی افراد کے بارے میں ہے- ملک میں علم و دانش کے لیے جس افق اور جس مستقبل کا خاکہ تیار کیا گيا ہے، اس پر گہری نظر اور توجہ رکھنی چاہیے۔ ہم نے کہا کہ ہمیں اس طرح سے آگے بڑھنا چاہیے کہ ایک معقول وقت میں -کچھ سال پہلے(6) میں نے کہا تھا کہ پچاس سال بعد- ایران دنیا میں علم کا سرچشمہ شمار ہونے لگے؛ مطلب یہ کہ اگر کچھ لوگ جدید ترین سائنسی انکشافات تک دسترسی حاصل کرنا چاہیں تو وہ فارسی سیکھنے پر مجبور ہوں۔ یہ ایک ممکنہ صورت حال ہے۔ اس پر تعجب نہ کیجیے۔ ایک زمانے میں دنیا میں ایسا ہی تھا۔ کسی زمانے میں، تاریخ کے ایک دور میں ہمارے دانشور، دنیا میں علم و دانش کی چوٹی پر تھے۔ ان کی کتابوں پر دنیا کی تمام یونیورسٹیوں میں، مغرب کی یونیورسٹیوں میں اور مشرق کی یونیورسٹیوں میں یعنی ہندوستان اور چین وغیرہ میں جہاں اس وقت علم و دانش موجود تھا، توجہ دی جاتی تھی، ان کا حوالہ دیا تھا۔ ہمیں اس افق کو مد نظر رکھنا چاہیے۔

اس کے کچھ مراحل ہیں۔ پہلا مرحلہ یہ ہے کہ ہم آج دنیا کے علم و دانش کی سرحد سے اپنے فاصلے کو ختم کریں، ابھی ہم اس حد سے دور ہیں۔ البتہ ہم اپنے اعداد و شمار میں، جو عالمی اعداد و شمار پر مبنی ہیں، اپنی علمی و سائنسی پیشرفت کو سراہتے ہیں، یہ قابل ستائش ہے بھی اور واقعی ہم نے پیشرفت کی ہے لیکن ابھی دنیا میں علم و سائنس کی فرنٹ لائن سے ہمارا فاصلہ زیادہ ہے۔ دو سو سال تک ہمیں پيچھے روکے رکھا گیا۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد کچھ کام انجام پایا، تقریبا دو عشرے پہلے سے کچھ تیز رفتار حرکت شروع ہوئي اور ہم نے اچھی پیشرفت کی ہے لیکن اب بھی فاصلہ زیادہ ہے۔ پہلا مرحلہ یہ ہے کہ اس فاصلے کو بھر دیا جائے۔ دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ ہم، علم و دانش کے عالمی خطوط اور سرحدوں کو عبور کر جائيں یعنی ہم نئي سائنسی خدمات اور نئے سائنسی انکشافات دنیا کے سامنے پیش کر سکیں اور میں اس سلسلے میں بھی بعد میں ایک نکتہ عرض کروں گا۔ اگلا مرحلہ یہ ہے کہ ہم نئے اسلامی تمدن کے لیے کوشاں رہیں۔ یقینی طور پر کسی بھی تمدن کا ایک اہم اور بنیادی ستون علم ہے، فائدہ مند علم اور ہم جو یہ بار بار کہتے ہیں 'نیا اسلامی تمدن'(7) تو یقینی طور پر اس کا ایک بنیادی ستون علمی پیشرفت ہے، جس کے لیے ہمیں خود کو تیار کرنا چاہیے۔ ایک الیٹ کی حیثیت سے اگر آپ کی نظر اس افق پر ہوگي تو پھر یقینا آپ کی علمی حرکت کی سمت بھی صحیح ہوگي اور یہی مسائل کہ جن کے بارے میں کبھی کبھی کہا جاتا ہے -مقالے وغیرہ کی بات، جس کا ذکر دوستوں نے کیا ہے- یہ سب ختم ہو جائيں گے، یعنی صحیح سمت کا تعین ہو جائے گا اور صحیح پیشرفت نمایاں ہو جائے گي۔

اور وہ بات جس کی طرف میں نے اشارہ کرنے کے لیے کہا، وہ سائنسی خلاقیت کی بات ہے؛ یہ بہت اہم ہے۔ آج ملک میں بہت زیادہ علمی و سائنسی کام ہو رہے ہیں لیکن یہ کام زیادہ تر دوسروں کی علمی خلاقیت کی فروعات ہیں۔ فرض کیجیے کہ ایٹمی انرجی کا کسی نے انکشاف کیا ہے، آج ہم اس پر کام کر رہے ہیں۔ جس چیز کی ضرورت ہے اور جسے انجام پانا چاہیے وہ سائنسی خلاقیت ہے؛ آپ کو خلاقیت کا مظاہرہ کرنا چاہیے، علم پیدا کرنا چاہیے جو زیادہ تر فطرت میں کسی طاقت کے انکشاف سے وجود میں آتا ہے۔ مطلب یہ کہ سائنس میں خلاقیت کا منبع یہ ہے کہ فطرت میں کوئي پوشیدہ بات، کوئي قانون موجود ہے اور آج تک اس کا انکشاف نہیں ہوا ہے، آپ اسے منکشف کرتے ہیں، اس کی بنیاد پر علم کی پیداوار ہوتی ہے، اس کی اساس پر متعدد تکنیکیں وجود میں آتی ہیں۔ آپ اس چیز کی کوشش کیجیے۔ یعنی ہمارا نوجوان الیٹ اس بات کی کوشش کرے: سائنس میں خلاقیت۔ فرض کیجیے کہ قوت کشش ثقل موجود تھی - اس کی پرانی مثالیں یہی سب ہیں، پرانے زمانے سے ہم یہی مثالیں دیتے آ رہے ہیں- کسی نے اس کا انکشاف کیا اور اس کی بنیاد پر بہت سے علم وجود میں آئے۔ فطرت میں الیکٹریسٹی کی قوت موجود تھی، کوئي اسے پہچانتا نہیں تھا، کسی نے اسے منکشف کیا، اس کی بنیاد پر سائنس و ٹیکنالوجی کا یہ عظیم میدان وجود میں آ گيا۔ یا پھر بعد کے میدانوں اور جدید مسائل میں، نینو اسی طرح کا ہے، اسٹیم سیلز کا مسئلہ اسی طرح کا ہے، ایٹمی توانائي کا معاملہ اسی طرح کا ہے۔ فطرت میں پائی جانے والی ایک حقیقت کا انکشاف، ایک قانون کا انکشاف، ایک پوشیدہ چیز کا انکشاف، فطرت الہی میں ایک عنصر اور صنعت الہی کا انکشاف اس بات کا موجب بنتا ہے کہ آپ پر ایک علمی و سائنسی نکتہ روشن ہو جائے، وہ نکتہ علم ہوگا، اس کی تدوین ہوگی، وہ پھیلے گا اور پھر ٹیکنالوجی بن جائے گا وغیرہ وغیرہ۔

الیٹس کے سلسلے میں جو ایک اور نکتہ ہے اور میں پہلے بھی کبھی اس کی طرف اشارہ کر چکا ہوں،(8) یہ ہے کہ ملک کی اسکالر صنف کا ایک ہدف -صرف الیٹس کا نہیں بلکہ سبھی علمی حلقوں کا، البتہ اس کی ضرورت الیٹس کے سلسلے میں زیادہ ہے- یہ ہے کہ ملک کے مسائل کے بارے میں سوچیں، ہر ایک مسئلے کو بنیاد بنا کر کام کریں۔ مشکلات کو محور بنا کر کام کرنا اہم ہے۔ ملک کے کچھ بنیادی مسائل ہیں۔ ان پر توجہ دی جانی چاہیے، انھیں علمی طریقے اور علمی روش سے حل کیا جانا چاہیے۔ ابھی یہیں پر ہمارے دوستوں نے ان میں سے بعض مسائل کو پیش کیا اور ان کے حل کا بھی ذکر کیا۔ البتہ میں نے عرض کیا کہ جو راہ حل پیش کیے گئے ہیں ان پر مزید غور و خوض کی ضرورت ہے لیکن ملک کی تمام مشکلات کے لیے علمی راہ حل تلاش کی جا سکتی ہے اور پورے اطمینان کے ساتھ مسئلے اور مشکل کو حل کیا جا سکتا ہے۔

مثال کے طور پر آج ملک کو جو اہم مسائل درپیش ہیں، ان میں سے ایک پانی کا مسئلہ ہے؛ یہ کافی اہم مسئلہ ہے۔ ملک کا مسئلہ، پانی کا مسئلہ ہے اور پانی کا مسئلہ مستقبل قریب میں، عالمی سطح کے کافی اہم مسئلے میں تبدیل ہو جائے گا۔ تو اس کے لیے علم و سائنس سے حل نکالا جانا چاہیے۔ یا ماحولیات کا مسئلہ ہے بلکہ ٹریفک تک کا مسئلہ ہے؛ ٹریفک کا مسئلہ، زندگي میں ایک مشکل ہے۔ آپ تہران کے ایک حصے سے دوسرے حصے کی طرف جاتے ہیں، آپ کو ان مسائل کے ساتھ ایک گھنٹے، سوا گھنٹے گاڑی میں بیٹھنا ہوگا، اس کی راہ حل ہے، سائنسی طریقے سے اس کی راہ حل کو تلاش کرنا ہوگا۔ سماجی مسائل، منشیات کی لت کا مسئلہ، طلاق کا مسئلہ، فٹ پاتھ پر سونے کا مسئلہ، دیہاتوں سے شہروں کی طرف ہجرت اور دیہاتوں کی تباہی کا مسئلہ، ان سب مسائل کا حل موجود ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی ہمدرد اور خیرخواہ عہدیدار نہیں ہے، وہ ان مسائل پر نظر ہی نہیں ڈالنا چاہتا، اس پر ہم بحث نہیں کر رہے ہیں۔ لیکن جب یہ مانا جائے کہ عہدیداران، مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے علمی راہ حل تلاش کرنی چاہیے اور یقینی طور پر راہ حل موجود ہے۔ یا ملک کے مینیجمنٹ کے مسائل، مانیٹری، مالی و مالیاتی نظام کی مشکلات، بینکوں کی مشکلات، پیداوار کی پیشرفت میں رکاوٹیں، کہ ہم نے اس سال کہا 'رکاوٹوں کا ازالہ' (9)، اس کے لئے علمی راہ حل موجود ہے؛ انھیں علم کے ذریعے واضح کیا جانا چاہیے -میں بعد میں اس کی طرف بھی ایک اشارہ کروں گا- اور دسیوں دیگر مسائل؛ مطلب یہ کہ مسئلے کے بارے میں سوچیں۔

مجھے ایک رپورٹ دی گئي اور کہا گيا کہ دنیا کے بعض پیشرفتہ ممالک میں اکثر یونیورسٹیاں غیر سرکاری ہیں، پرائیویٹ یونیورسٹیاں ہیں لیکن یہی غیر سرکاری یونیورسٹیاں، حکومتوں سے بہت زیادہ بجٹ لیتی ہیں؛ کس طرح؟ ایسا نہیں ہے کہ یوںہی جا کر اس یونیورسٹی کو بے تحاشا پیسے دے دیں، نہیں، اس یونیورسٹی کے سامنے کوئي پرابلم رکھتے ہیں اور اس سے اس کا حل چاہتے ہیں۔ وہ یونیورسٹی ان کے مسئلے کا جس حد تک حل پیش کر دیتی ہے، اسی مقدار میں اسے حکومت اور حکمرانوں کی طرف سے آمدنی ہوتی ہے۔ تو یہ بہت اچھی بات ہے؛ یعنی علمی و سائنسی کاموں اور الیٹس کے کاموں کے سلسلے میں مسائل و مشکلات کو محور بنانا، یہ بہت اہم اور ضروری چیز ہے۔

میں نے مسئلے کو محور بنانے کے پوائنٹ کے ذیل میں اتفاق سے آرٹیفیشیل انٹیلیجنس کے مسئلے کو بھی لکھا ہے جس کے بارے میں آج کسی نے بات بھی کی؛ میری تجویز یہ ہے کہ ان چیزوں میں سے ایک جن پر بہت زیادہ توجہ اور دقت نظر سے کام کرنے کی ضرورت ہے، آرٹیفیشیل انٹیلیجنس کا مسئلہ ہے جس کا دنیا کے مستقبل کے مینجمنٹ میں کردار ہوگا۔ اب یا تو صدر کے شعبۂ سائنس و ٹیکنالوجی میں یا پھر یونیورسٹی میں ہمیں ایسا کام کرنا چاہیے کہ ہم آرٹیفیشیل انٹیلیجنس کے میدان میں دنیا کے دس برتر ملکوں کی فہرست میں شامل ہو جائيں جس میں آج ہم نہیں ہیں۔ آج وہ ممالک جو آرٹیفیشیل انٹیلیجنس کے معاملے میں اول درجے میں ہیں، امریکا اور چین وغیرہ کو چھوڑ کر جو سب سے آگے ہیں، کچھ ایشیائي ممالک بھی ہیں، کچھ یورپی ممالک بھی ہیں لیکن ہم نہیں ہیں۔ البتہ ایشیائي ممالک کی تعداد بظاہر زیادہ ہے۔ سب سے اوپری رینکنگ میں ایشیائي ملکوں کی تعداد زیادہ ہے۔ ہم ایسا کام کریں کہ اس میدان میں کم سے کم دنیا کے دس برتر ملکوں میں شامل ہو جائيں۔

الیٹس کے معاملے میں ایک دوسرا نکتہ جو پایا جاتا ہے، وہ ہجرت کا ہے، جس کی طرف آج بھی کسی نے اشارہ کیا۔ دیکھیے کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئي اسٹوڈنٹ اپنی ضرورتوں کی بنیاد پر، اپنی فکری ضروریات کی بنیاد پر یا پھر گھر والوں کی وجہ سے کسی ملک میں جا کر پڑھنا چاہتا ہے، اس میں کوئي قباحت نہیں ہے؛ میں نے بارہا کہا ہے کہ اس میں کوئي رکاوٹ نہیں ہے؛ اصل چیز یہ ہے کہ وہ یہ فراموش نہ کرے کہ وہ اپنے ملک کا مقروض ہے۔ پڑھائي کریں اور واپس لوٹ آئيں؛ جس چیز میں قباحت ہے وہ ہجرت ہے۔ مجھے رپورٹ دی گئي ہے، جو آج کی نہیں ہے، کافی عرصے سے یہ چیز موجود ہے، کہ بعض یونیورسٹیوں میں کچھ افراد ہیں جو نوجوان الیٹس کو ترک وطن کی ترغیب دلاتے ہیں؛ میں صاف الفاظ میں کہتا ہوں کہ یہ غداری ہے، یہ ملک سے دشمنی ہے، یہ اس نوجوان سے بھی ہمدردی کی مثال نہیں ہے۔ آج ہمارے ملک میں نوجوان الیٹس، پیشرفت کر سکتے ہیں اور کسی وقت جا کر ایک دوسرے ملک سے بھی استفادہ کر کے لوٹ سکتے ہیں لیکن ایک نوجوان کو ملک کے مستقبل کی طرف سے ناامید کرنا، اس کے حوصلے پست کرنا، اسے مستقبل تاریک دکھانا تاکہ وہ چلا جائے اور ہجرت کر جائے، اسے میں واقعی غداری سمجھتا ہوں اور اسے روکا جانا چاہیے۔

پیداوار کی رکاوٹوں کو دور کرنے کے مسئلے میں -جس کے بارے میں میں نے کہا کہ اشارہ کروں گا اور یہ اس سال کا نعرہ بھی ہے- میں نے جو چیز یہاں نوٹ کی ہے وہ یہ ہے کہ پیداوار کی سب سے بڑی رکاوٹیں، مادی، آپریشنل اور اسی طرح کی دوسری رکاوٹوں سے زیادہ، ثقافتی رکاوٹیں ہیں؛ یعنی ناامیدی کااحساس، ناتوانی کا احساس، تاریک مستقبل کا خوف، تساہلی، بے رغبتی، نقصان دہ سرگرمیاں، یہ وہ چیزیں ہیں جو حقیقت میں پیداوار کے کام کی پیشرفت میں رکاوٹ ہیں۔ مطلب یہ کہ ہمارا نوجوان جو بالفرض ایک نالج بیسڈ کمپنی بنا سکتا ہے اور کام کے ایک اہم حصے کو انجام دے سکتا ہے، خود بھی آمدنی حاصل کر سکتا ہے اور ملک کو بھی فائدہ پہنچا سکتا ہے، وہ کام، کوشش اور محنت وغیرہ کے بجائے فضول سرگرمیوں میں مصروف ہو جائے، بہت سے لوگ کمپیوٹر وغیرہ میں لگے رہتے ہیں؛ اس وقت غالبا رات سے صبح تک یا صبح سے رات تک جہاں تک ان سے ممکن ہوتا ہے انٹرنیٹ پر یوںہی، فضول میں، بغیر کسی مقصد کے سرگرداں رہتے ہیں، بغیر اس کے کہ انھیں کچھ فائدہ حاصل ہو۔ آرام پسندی، حوصلے کی کمی، رسک نہ لینا، یہ وہ چیزیں ہیں جو پیداوار کی راہ میں اصل رکاوٹ ہیں۔

جہاں تک نالج بیسڈ کمپنیوں کی بات ہے تو بحمد اللہ ان میں کافی پیشرفت ہوئي ہے۔ میرے ذہن میں جو اعداد و شمار تھے وہ تقریبا چھے ہزار تھے لیکن آج ڈاکٹر ستاری(10) نے کہا کہ سات ہزار کمپنیاں۔ بہت اچھی بات ہے، بحمد اللہ یہ بہت اہم کام ہے جو انجام پایا ہے، اس میں اضافہ بھی ہونا چاہیے لیکن اضافے کے اصولوں کے بارے میں شاید میں نے پہلے اسی نشست میں کہا تھا کہ نالج بیسڈ ہونے کے اصولوں کی پابندی میں سختی ہونی چاہیے(11)؛ یعنی ایسا نہ ہو کہ بڑی آسانی سے ہم تعداد بڑھا دیں اور کام کی کوالٹی اور معیار پر توجہ نہ دیں؛ نالج بیسڈ ہونے کے کچھ اصول و قوانین ہیں، جن کی پابندی ہونی چاہیے۔

البتہ ملک میں ہماری بڑی صنعتیں نالج بیسڈ نہیں ہیں، یہ ایک بڑا عیب ہے۔ کچھ افراد نے جو بظاہر باصلاحیت ہیں، مجھ سے کہا کہ یہ چھوٹی نالج بیسڈ کمپنیاں اثر ڈال سکتی  ہیں اور آٹوموبائل انڈسٹری وغیرہ جیسی بڑی صنعتوں کو بھی نالج بیسڈ کر سکتی ہیں؛ اگر یہ کام ممکن ہو تو اسے ضرور انجام دیا جانا چاہیے۔

نالج بیسڈ کمپنیوں کی پیشرفت اور تقویت کے لیے ایک ضروری شرط یہ ہے کہ ہم ان کی مصنوعات کو ملک کے اندر رائج کر سکیں - دیگر ممالک اور برآمدات کی بات میں بعد میں عرض کروں گا - اور ان کی تیار کردہ چیزیں خود ملک کے اندر استعمال ہوں؛ اس کا راستہ یہ ہے کہ جو چیز وہ کمپنی تیار کر رہی ہے، اسے درآمد نہ کیا جائے۔ پھر کچھ لوگ گھریلو استعمال کی اشیاء کی طرح ہنگامہ نہ مچائیں کہ آپ نے کیوں کہا کہ مثال کے طور پر فلاں ملک کی گھریلو استعمال کی چیزیں درآمد نہ کی جائيں! نہیں، ملکی کمپنیوں کی پیشرفت اور ان کی تقویت کا لازمہ یہ ہے کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑی ہوں اور اس کے لیے ہمیں ان کمپنیوں کی خاطر ملک کے اندر بازار تیار کرنا ہوگا۔ داخلی بازار، کوئي چھوٹا بازار نہیں ہے؛ اس بازار کو ملکی مصنوعات کے اختیار میں دیا جانا چاہیے۔ خاص طور پر حکومتیں اور بڑے ادارے جو ان کے سب سے بڑے گاہک ہیں۔ حکومتیں جو صنعتوں، صنعتی پیداواروں وغیرہ کی سب سے بڑی صارف ہیں، ان چیزوں کو ان نالج بیسڈ کمپنیوں سے لیں اور ملکی مصنوعات کو استعمال کریں تاکہ درآمدات کی وجہ سے ان کی کمر نہ ٹوٹ جائے۔ البتہ جب ہم کہتے ہیں کہ درآمدات کو روکا جائے تو درحقیقت ہم داخلی کارخانے اور ملکی کمپنی کی مدد کے لیے بول رہے ہوتے ہیں؛ اس ملکی کمپنی کی بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں، وہ بھی قیمتیں بڑھاتی نہ رہیں، کوالٹی نہ گرائيں کہ جو سفارش کی گئي ہے وہ پوری طرح سے بے اثر ہو جائے۔

بنابریں ایک مسئلہ، داخلی بازاروں کا مسئلہ ہے، دوسرا مسئلہ برآمدات کا ہے؛ اگر برآمدات نہ ہوں گي تو پیشرفت ویسی نہیں ہوگي جیسی ہونی چاہیے۔ برآمدات کے سلسلے میں بھی خود وہ کمپنیاں کام کر سکتی ہیں اور ان سے زیادہ حکومتیں کام کر سکتی ہیں؛ وزارت خارجہ، وزارت صنعت و تجارت اور دیگر سرکاری ادارے اس سلسلے میں مدد کر سکتے ہیں اور غیر ملکی منڈیاں تلاش کر سکتے ہیں۔ ریڈیو اور ٹی وی کا ادارہ مدد کر سکتا ہے، بعض ممالک ہیں جن کی ایران سے بڑی اچھی یادیں وابستہ ہیں لیکن اگر کہا جائے کہ دو ایرانی مصنوعات کا نام بتائيں تو وہ نہیں بتا سکتے۔ ریڈیو اور ٹی وی کا ادارہ غیر ملکی شعبے میں ان مصنوعات کی تشہیر کرے۔ یہ بھی ایک اہم بات ہے۔

ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ مجھے جناب ڈاکٹر ستاری کے حوالے سے بتایا گيا کہ ناخالص قومی پیداوار میں نالج بیسڈ کمپنیوں کا حصہ ایک فیصد سے کم ہے؛ یہ کافی کم ہے۔ داخلی پیداوار سے اس حصے کو ضرور بڑھایا جانا چاہیے۔ تین سال میں، چار سال میں کم از کم پانچ فیصد تک پہنچ جانا چاہیے؛ اس کام کا عزم کیجیے کہ ان شاء اللہ یہ انجام پا جائے۔ امید ہے خداوند عالم آپ سب کی مدد کرے گا۔ (اذان کا وقت ہونے والا ہے اور میں اپنی باتیں ختم کرتا ہوں۔)

امید ہے خداوند متعال آپ سب کو توفیق عطا کرے۔ مستقبل آپ کا ہے؛ یہ جان لیجیے۔ یہ ملک آپ کا ہے؛ آپ ہیں جو اس ملک کا مستقبل تعمیر کریں گے، ملک کے کل کے منتظم آپ ہیں۔ اپنے آپ کو تیار کیجیے اور ملک کو بھی تیار کیجیے؛ آپ کر سکتے ہیں۔ نوجوان الیٹس سے استفادے کے لیے میں عہدیداروں اور وزیروں کو نصیحت کرتا ہوں، میں نے پچھلی حکومت کو بھی بہت تاکید کی تھی - اور وہ ایک دم بے اثر بھی نہیں رہی تھی- اس حکومت کو بھی میں یہی تاکید کرتا ہوں کہ مینیجمنٹ کے مختلف میدانوں میں، اوسط اور نچلی سطح کے انتظامی عہدوں کے لیے نوجوانوں سے فائدہ اٹھائیے، یہی بات ایک دوست نے بھی یہاں پر کہی۔ یہاں تک کہ اعلی عہدوں کے لئے بھی نوجوانوں سے استفادہ کیا جائے۔ میں تاکید کر رہا ہوں اور ان شاء اللہ یہ کام عملی جامہ پہنے گا لیکن آپ بھی خود کو تیار کیجیے، اپنی جگہ تلاش کیجیے، اپنے آپ کو تلاش کیجیے کہ ملک کی پیشرفت میں آپ کیا کردار ادا سکتے ہیں۔ آپ کی غیر معمولی صلاحیت یہاں بھی سامنے آنی چاہیے کہ آپ یہ طے کیجیے کہ آپ کی پوزیشن کہاں ہونی چاہیے؛ اسی پوزیشن پر پہنچ جائيے اور کوشش کیجیے، کام کیجیے۔

امید ہے کہ خداوند عالم آپ سب کو محفوظ رکھے گا، آپ ملک اور قوم کی آنکھوں کا نور اور قوم کے عزیز سپوت ہیں؛ ان شاء اللہ خداوند متعال آپ کو اس ملک کے لیے باقی رکھے۔ ان شاء اللہ ہمارے عزیز شہیدوں کی پاکیزہ ارواح اور امام خمینی کی روح مطہر ہم سے راضی رہے اور آپ سب اور ہم بھی حضرت بقیۃ اللہ، امام زمانہ ارواحنا فداہ کی پاکیزہ دعاؤں میں شامل رہیں۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

(1) اس ملاقات کے آغاز میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے امور کے نائب صدر جناب سورنا ستاری نے ایک رپورٹ پیش کی۔ اسی طرح چھے الیٹس نے بھی اپنے نظریات اور خیالات پیش کیے۔

(2) سورۂ نحل، آیت 114، اور خدا کی نعمت کا شکر ادا کرو اگر تم صرف اسی کی عبادت کرتے ہو۔

(3) ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم اور اس ملک کی تحریک آزادی کے لیڈروں میں سے ایک، جواہر لال نہرو۔

(4) پہلوی حکومت کے اس وقت کے وزیر اعظم فیلڈ مارشل حاج علی رزم آرا نے، جو جولائي 1950 میں اس عہدے پر پہنچا تھا، اراکین پارلیمنٹ کے ساتھ انتہائي آمرانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے، تیل کی صنعت کو قومیائے جانے کے ان کے مطالبے کے جواب میں، اپنے تیل کے ذخائر کے مینیجمنٹ میں ایرانی قوم کی عدم صلاحیت کو ثابت کرنے کے لیے چلا کر کہا تھا: "جو قوم مٹی کا لوٹا بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتی وہ تیل کی صنعت کو کیسے چلا سکتی ہے؟"

(5) سورۂ نساء، آيت 102، کفار اس تاک میں ہیں کہ تم اپنے ہتھیاروں اور اپنے سامان کی طرف سے ذرا غافل ہو تو وہ تم پر یکبارگی ٹوٹ پڑیں۔

(6) منجملہ، پورے ملک کے بعض طلباء اور الیٹس سے ملاقات میں کی گئي تقریر، 25 ستمبر 2005

(7) منجملہ، اسلامی انقلاب کی کامیابی کی چالیسویں سالگرہ کی مناسبت سے قوم کے نام پیغام، 11 فروری 2019

(8) منجملہ، یونیورسٹیوں کے بعض پروفیسروں، الیٹس اور محققین سے ملاقات میں کی گئي تقریر، 10 جون 2018

(9) سنہ 1400 ہجری شمسی کے نعرے، 'پیداوار، حمایت اور رکاوٹوں کا ازالہ' کی طرف اشارہ

(10) سائنس اور ٹیکنالوجی کے امور کے نائب صدر

(11) منجملہ، غیر معمولی صلاحیت کے حامل بعض افراد اور الیٹس سے ملاقات میں کی گئي تقریر، 18 اکتوبر 2017