بشر کو اس انتظار کی ضرورت ہے اور امت اسلامیہ کو تو بدرجہ اولی اس کی احتیاج ہے۔ یہ انتظار انسان کے دوش پر کچھ ‏فرائض ڈال دیتا ہے۔ جب انسان کو یقین کامل ہے کہ اس طرح کا مستقبل آنے والا ہے، چنانچہ قرآن کی آیات میں بھی اس کا ‏ذکر ہے "و لقدكتبنا فى الزّبور من بعد الذّكر انّ الارض يرثھا عبادى الصّالحون. انّ فى ھذا لبلاغا لقوم عابدين" (اور ہم نے ذکر کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا کہ زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے۔ بےشک اس میں عبادت گزار لوگوں کے لیے بڑا انعام ہے۔ سورۂ ‎انبيا، آيات  105 و ‏‏106) جو لوگ بندگی پروردگار سے مانوس ہیں، سمجھتے ہیں انہیں چاہیے کہ خود کو آمادہ کریں، منتظر رہیں اور نظر ‏رکھیں۔ انتظار کا لازمہ ہے خود کو آمادہ کرنا۔ اگر ہمیں علم ہے کہ کوئی بڑا واقعہ رونما ہونے والا ہے اور ہم اس کے منتظر ‏ہیں تو کبھی ہم یہ نہیں کہیں گے کہ ابھی تو بڑا طویل عرصہ باقی ہے اس واقعے کے رونما ہونے میں اور نہ ہی ہم یہ کہیں ‏گے کہ یہ واقعہ بالکل نزدیک ہے اورعنقریب رونما ہونے والا ہے۔ ہمیں ہمیشہ منتظر رہنا ہوگا، ہمیشہ نظر رکھنی ہوگی۔ ‏انتظار کا تقاضا یہ ہے کہ انسان خود کو اسی وضع قطع میں ڈھالے اور وہی اخلاق و انداز اختیار کرے جو اس زمانے کے ‏لئے مناسب ہے جس کا اسے انتظار ہے۔ یہ انتظار کا لازمہ ہے۔ جب اس زمانے میں عدل و انصاف کی بالادستی قائم ہونے ‏والی ہے، حق کا بول بالا ہونے والا ہے، توحید و اخلاص و عبودیت پروردگار کا پرچم لہرانے والا ہے، ان خصوصیات کا ‏حامل دور آنے والا ہے اور ہم جو اس کے انتظار کی گھڑیاں گن رہے ہیں تو خود کو ان صفات سے متصف کرنے کی کوشش ‏کریں۔ ہمیں چاہئے کو عدل و انصاف کے حامی بنیں، خود کو انصاف کے لئے تیار کریں، خود کو حقانیت تسلیم کرنے کے ‏لئے آمادہ کریں۔ انتظار اس طرح کی حالت پیدا کر دیتا ہے۔

امام خامنہ ای

‎2011/07/09‎