بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابیالقاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین.
آپ سب کا خیر مقدم ہے۔ اس طرح کی محافل کا آغاز تو ہمارے ہاتھ میں ہوتا ہے، اختتام اللہ کے ہاتھ میں۔(2) آج کی محفل بہت اچھی تھی، واقعی ہم بہرہ مند ہوئے۔ حضرت فاطمہ زہرا، سیدۃ النساء، صدیقۂ کبری سلام اللہ علیہا کے مبارک وجود کے انوار اور فیوض پورے ماحول میں پھیلے ہوئے ہیں، خدا کا شکر ہے! حضرت زہرا سے آپ کے پاکیزہ دلوں کی محبت، ارادت اور عقیدت یقینی طور پر ان تمام امور میں جو زندگي میں ہمارے سامنے ہیں، ذاتی امور میں، عمومی امور میں، ملک کے مستقبل میں بنیادی اثرات کی حامل ہوگي۔ میں، آپ شاعروں، ذاکروں اور اہلبیت کے مداحوں کے سامنے، جنھیں ان عظیم ہستیوں کا مداح ہونے کا افتخار حاصل ہے - کہ "مادح خورشید مدّاح خود است"(3) - سب سے پہلے تو آپ کے اس بڑے افتخار کی یاد دہانی کرانا چاہتا ہوں، اس خصوصیت پر فخر کیجیے اور کوشش کیجیے کہ ان انوار مقدسہ کی مداحی کی جو شرطیں ہیں، انھیں زیادہ سے زیادہ فراہم کیجیے، اپنے اندر بھی اور اپنے سامعین کے اندر بھی۔
آج میں اہلبیت کی مداحی کے سلسلے میں اختصار سے کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ اہلبیت کی مداحی، ہمارا ورثہ ہے، شیعوں کا ورثہ ہے۔ ہاں یہ تو نہیں معلوم ہے کہ کمیت، دعبل اور سید حمیری لَے اور دُھن میں پڑھتے تھے یا نہیں لیکن یقینا وہ شعر کہتے تھے، شعر پڑھتے تھے، اہلبیت کی تعلیمات کو پھیلاتے تھے۔ آپ نے اسے ایک جامع فن (composite art) بنا دیا ہے۔ مداحی، آج ایک جامع فن ہے۔ آرٹ ہے یعنی زیبائي ہے، آرٹ زیبائي ہی تو ہے، زیبائي بھی ہے اور زیبا سازی بھی ہے۔ آپ نے کئي آرٹس کو اکٹھا کر دیا ہے جن کا مجموعہ 'مداحی' کہلاتا ہے۔ سب سے پہلا فن اچھی آواز، خوش الحانی۔ پھر شعر کے لحاظ سے اچھے اشعار، یہ دوسرا فن۔ پھر اچھا آہنگ، لَے اور دُھن، یہ تیسرا آرٹ۔ البتہ ان میں سے ہر ایک کی کچھ خصوصیات، شرطیں اور حدود ہیں، جن میں سے بعض پر میں روشنی ڈالوں گا۔ اس کے بعد اچھا مضمون، کیونکہ اچھا شعر ایک الگ چیز ہے، اچھا مضمون ایک دوسری چیز ہے۔ ممکن ہے کہ کوئي شعر بہت اچھا ہے لیکن اس کا مضمون بہت اعلی نہ ہو یا مناسب نہ ہو، مطلب یہ کہ مضمون قابل اعتراض ہو۔ میں نے صائب کا ایک شعر نوٹ کیا تھا، وہ کہتے ہیں:
نسازد لن ترانی چون کلیم از طور مایوسم
(لن ترانی مجھے موسی کی طرح طور سے مایوس نہیں کر سکتی)
نمک پروردۂ عشقم زبانِ ناز میدانم
(میں عشق کا نمک کھا کر بڑا ہوا ہوں اور ناز کی زبان سمجھتا ہوں)
جب حضرت موسی سے خدا نے فرمایا کہ لَن تَرانی(4) تو پھر انھوں نے اپنا مطالبہ واپس لے لیا، یہ کہتے ہیں کہ میں مایوس نہیں ہوں گا۔ خوبصورت بات تھی لیکن غلط تھی، یعنی خداوند عالم کی ذات اقدس نے ناز میں کہا تھا لَن تَرانی؟! نہیں، لَن تَرانی تو لَن تَرانی ہی ہے، اللہ کے کلام میں مبالغہ نہیں ہوتا۔ تو دیکھیے کہ شعر کتنا خوبصورت ہے لیکن اس کا مضمون، غلط ہے۔ تو یہاں ہمارے پاس دو چیزیں ہیں: ایک اچھا شعر اور ایک اچھا مضمون اور آپ کو ان سب کو مد نظر رکھنا چاہیے۔
البتہ میرے خیال میں چالیس سال سے یہ محفل ہو رہی ہے، آج جب میں دیکھتا ہوں تو پچھلے برسوں کی نسبت مدح خوانی اور پڑھے جانے والے اشعار میں بہت زیادہ بہتری اور پیشرفت آئي ہے، اس میں کوئي شک نہیں ہے لیکن میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ان چیزوں پر توجہ دیجیے۔ تو یہ ایک جامع آرٹ ہوا، آپ کا کام ایک جامع ہنر ہے اور ہنر، زیبائي ہے۔ یہ چیز ہمارے مذہبی متون اور مآخذ میں بھی ہے، ہمارے مذہبی متون یعنی قرآن مجید، نہج البلاغہ، صحیفۂ سجادیہ اور دیگر بہت سی دعائيں۔ قرآن مجید کے بارے میں فرمایا گيا ہے: "ظاھرہ انیق"، انیق کا مطلب خوبصورت نہیں ہے بلکہ متحیر کر دینے والی خوبصورتی ہے۔ ظاھرہ انیق، قرآن اس طرح کا ہے، زیبائي اور ہنر کے لحاظ سے اس کی کوئي مثال نہیں ہے۔ عربی زبان کے تقریبا سبھی بہترین اشعار، سب سے شیریں، سب سے خوبصورت اور سب سے فصیح اشعار، جاہلیت کے دور کے اور مخضرمین(5) کے زمانے کے ہیں۔ یہ لوگ قرآن کے نزول کے زمانے میں تھے، زندہ تھے لیکن ان میں سے کوئي بھی ذرہ برابر بھی اعتراض نہیں کر سکا یا یہ نہیں کہہ سکا کہ ہم بھی ایسا کلام کہہ سکتے ہیں۔ قرآن نے کئي بار کہا ہے: "فَاتوا بِسورَۃٍ مِن مِثلِہ"(6) وہ ایک آيت بھی نہیں لا سکے۔ نہج البلاغہ بھی انتہائي بے نظیر، ٹھوس اور خوبصورت ہے، صحیفۂ سجادیہ بھی اسی طرح ہے، دعائے ابو حمزہ ثمالی، امام حسین کی دعائے عرفہ اور دوسری مختلف دعائیں، انتہائي خوبصورت ہیں۔ آپ کا یہ آرٹ، اُس ہنر کا تسلسل ہے۔ اس آرٹ کا جامع ہونا اس چیز پر مبنی ہے کہ اس کے تمام اجزاء خوبصورت ہوں، صرف ظاہری خوبصورتی کافی نہیں، مضمون بھی زیبا ہونا چاہیے، جیسا کہ فرمایا گيا ہے: "ظاھِرُہُ اَنیقٌ وَ باطِنُہُ عَمیق"(7) قرآن کا باطن، عمیق اور مضامین سے لبریز ہے۔ اب ہمیں خود سے یا آپ لوگوں سے یہ توقع نہیں ہے کہ اتنی جرات کریں اور مثال کے طور پر کہیں کہ ہاں ہم بھی یہ کر سکتے ہیں، نہیں، یہ کام کا طریقہ ہے، یعنی ظاہر، خوبصورت اور باطن ٹھوس اور مضامین سے بھرا ہوا۔
آہنگ اور لَے بھی اسی طرح ہے۔ میں نے یہ بات خاص طور پر نوٹ کر رکھی تھی، یعنی اپنے حافظے کے سپرد کر رکھی تھی کہ آپ عزیز شاعروں، مدح خوانوں اور ذاکروں سے کہوں گا۔ دُھن، لَے اور آہنگ کا ایک مفہوم ہوتا ہے، وہ مفہوم کو پہنچاتا ہے، مطلب یہ کہ اگر آپ کوئي دھن پیش کریں جس میں الفاظ بھی نہ ہوں - مثال کے طور پر کچھ لوگ اپنے گلے سے دھن نکالتے ہیں یا بعض لوگ، کچھ آلات سے دھن تیار کرتے ہیں - اس میں زبان نہیں ہے لیکن معنی ہیں، مفہوم ہے، یہ ایک معنی و مفہوم کو منتقل کرتی ہے، دھن اس طرح کی ہوتی ہے۔ ایک دھن ہے جو شجاعت کا مفہوم پہنچاتی ہے، یہ ترانہ جو یہ(8) پڑھتے ہیں "ای لشکر صاحب زمان آمادہ باش، آمادہ باش" اگر یہ ان الفاظ کو نہ بھی پڑھیں تب بھی یہ دھن لوگوں کو آمادہ کرنے والی ہے۔ کوئي دھن ایسی ہوتی ہے جو افسردگي پیدا کرتی ہے، انسان کو افسردہ اور مایوس بناتی ہے، ان میں فرق ہے۔ کوئي دھن ایسی ہوتی ہے جو انسان کو گناہ کی طرف بلاتی ہے، بہت سی دھنیں جنھیں پہلے موسیقی کے سازوں کے نغموں میں شامل کیا گيا تھا، اسی طرح کی ہیں۔ موسیقی کی ان مشہور دستگاہوں میں سے ہر ایک کے پیچھے ایک نغمہ ہے اور یہ دھن اس نغمے کو گانے والے کی طرف ذہن کو پہنچاتی ہے، یہ نغمے زیادہ تر نامناسب ہیں۔ ہمیں اس بات کی طرف سے چوکنا رہنا چاہیے کہ - ہم جو شعر پڑھ رہے ہیں، جو دھن استعمال کر رہے ہیں، جس لَے میں پڑھ رہے ہیں، چاہے وہ مصائب ہوں، سینہ زنی کے لیے نوحہ ہو یا مدح خوانی ہو - ان میں گڈمڈ نہ ہو جائے۔ یہ ایک اہم نکتہ ہے، میری تاکید ہے کہ اس پر ضرور توجہ دیں۔
تو مضمون اچھا ہونا چاہیے، شعر کا ڈھانچہ بھی اچھا ہونا چاہیے، شعر کا مضمون، شعر کا پیرایا اور شعر کا ظاہر اچھا ہونا چاہیے، یہ چیز سامع کی فکری سطح کو اوپر لے جاتی ہے۔ اگر آپ بہترین مضامین کو ڈھیلے اشعار میں انڈیل دیں اور پیش کریں تو اس کا اثر بہت کم ہو جائے گا۔ سامعین کے ذہن کو اس بات کا عادی بنائيے کہ وہ اچھے شعر و ادب سے مانوس ہو، یہ سماج کی فکری بالیدگي میں معاون ہے۔ میں نے کچھ سال پہلے، اسی محفل میں صائب کی کچھ غزلوں کی طرف اشارہ کیا تھا(9) جو عشقیہ غزلیں نہیں ہیں، فلسفیانہ غزلیں ہیں، حکمت سے پُر ہیں، اشعار بھی بڑے ٹھوس اور خوبصورت ہیں۔ بہتر ہے کہ انسان اس طرح کے اشعار تلاش کر کے پڑھے۔ بحمد اللہ کئي شعراء ہیں جو اس سلسلے میں بہت اچھے شعر کہتے ہیں۔
اہلبیت کی مداحی میں، عرفان و معرفت کی تعلیم کے علاوہ جذبات کو ابھارنا بھی شامل ہے، یہ بھی اہم نکتہ ہے۔ شعر میں اہلبیت کے فضائل یا مصائب بیان کرنا، معرفت کی تعلیم بھی ہے، مطلب یہ کہ آپ جو شعر پڑھتے ہیں، اس سے سبق پڑھاتے ہیں۔ بہت سی چیزیں اور بہت سی باتیں ہم ذاکروں، شاعروں اور مدح خوانوں سے سیکھتے ہیں جنھیں پہلے ہم خود کئي بار عام زبان میں دوسروں سے کہہ چکے ہیں لیکن اب جب شاعر یا ذاکر اسی بات اور اسی مضمون کو اچھی آواز اور اچھی دھن میں پڑھ رہا ہے تو ایسا لگتا ہے گویا ہم ایک نئي چیز سن رہے ہیں، سمجھ رہے ہیں اور سیکھ رہے ہیں۔ یہ، معرفت کی تعلیم دیتی ہے، البتہ خطابت کے ساتھ کیونکہ مداحی، خطابت نہیں ہے، ایک دوسری چیز ہے، ایک دوسری حقیقت ہے، یہ بھی ہے اور جذبات ابھارنے والی بھی ہے۔ جذبات کے مسئلے کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے۔ ہم شیعوں کی خصوصیت یہ ہے کہ ہماری تعلیمات میں اور معرفت کی تعلیم میں شروع سے لے کر آخر تک، جذبات پائے جاتے ہیں، جذبات سے پُر ہیں، دوسروں کے یہاں ایسا کم ہے۔ ہمارے مصائب میں جذبات ہیں، ہمارے فضائل میں جذبات ہیں، ہماری دعا میں جذبات ہیں، ہماری زیارت میں جذبات ہیں، جذبات کو مہمیز کر دیتی ہیں۔ البتہ اگر جذبات، عقل سے عاری ہوں تو ان کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ شیعہ متون و مآخذ کی معرفت کی تعلیم کا حسن یہ ہے کہ جذبات کو ابھارنے کے ساتھ ہی وہ انسان کو معرفت کی گہرائي بھی عطا کرتے ہیں، یہ وہ خصوصیت ہے جو مجھے شیعوں کے علاوہ کہیں اور نظر نہیں آئي، یعنی جہاں تک میری معلومات ہے، البتہ ان تمام مختلف ادیان و مذاہب میں، چاہے وہ اسلامی ہوں یا غیر اسلامی، کچھ چیزیں پائي جاتی ہیں لیکن جو عروج ہے، وہ شیعوں کے یہاں ہے۔ ایک بار میں غیر شیعہ مسلمانوں کے یہاں رائج دعاؤں کو دیکھ رہا تھا -زمخشری نے اپنی ایک کتاب میں دعاؤں کو تفصیل سے بیان کیا ہے- میں نے دیکھا کہ اگر مثال کے طور پر ہم امام حسین کی دعائے عرفہ یا صحیفۂ سجادیہ کی سینتالیسویں دعا کی دس سطریں ان دعاؤں کے ساتھ رکھیں تو ان دس سطروں میں ان سب دعاؤں سے زیادہ مضامین ہیں، زیادہ روح پائي جاتی ہے۔
یہی جذبات کی کیفیت، ملک کے حساس معرکوں میں اس کے کام آئي، ایک تو مقدس دفاع ہی ہے، مقدس دفاع میں یہ ذاکر، نوحہ خواں اور اہلبیت کی مدح کرنے والے ہی تھے، یہ شعر کہنے والے ہی تھے اور یہی اچھے شعراء تھے جنھوں نے حقیقی معنی میں اس عظیم معرکے کے لیے ماحول تیار کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ میں نے اس سلسلے میں اس شعر کو بارہا دوہرایا ہے:
عشّاق را بہ تیغ زبان گرم میکنیم
(ہم عاشقوں کو اپنی زبان کی تیغ سے گرم کرتے ہیں)
چون شمع، تازیانۂ پروانہ ایم ما(10)
(ہم شمع کی طرح، پروانے کے لیے تازیانہ ہیں)
یہ شعر آپ کی عکاسی کرتا ہے: "چون شمع، تازیانۂ پروانہ ایم ما" رضاکاروں اور دوسروں کو محاذ پر بھیجنے کے پروگراموں میں، آپریشن کی راتوں میں، فوجیوں کے صبح کے پروگراموں میں، شہیدوں کے جلوس جنازہ میں، شہیدوں کے ایصال ثواب کے پروگراموں میں، مسجد میں، امام بارگاہ میں، میدان جنگ میں، ہر جگہ ذاکری و مداحی اپنا بڑا کردار ادا کرتی تھی، دلوں کو آمادہ کرتی تھی، ماحول کو روحانی بناتی تھی۔ ہمارے مقدس دفاع کے علاقے میں جو نورانیت تھی - جس کی مثال، صدر اسلام کو چھوڑ کر دنیا کی کسی بھی جگہ اور تاریخ میں کہیں بھی نہیں ہے - اس کا اہم حصہ، اسی مداحی سے متعلق تھا، ایک حصہ، کچھ دوسرے عناصر سے متعلق تھا۔ جنگ کے بعد کے برسوں سے لے کر آج تک ایسا ہی ہے، مختلف واقعات میں مداحی نے اپنا کردار ادا کیا ہے، سنہ 2009 کے فتنے میں، 30 دسمبر کے واقعے میں، دوسرے مختلف واقعات میں مداحی نے کردار ادا کیا ہے۔
یہ جو میں دوہراتا ہوں اور آپ سے باربار کہتا ہوں، وہ اس لیے ہے کہ آپ کو ذاکر اور مداح کی حیثیت سے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کہاں کھڑے ہیں، کیا کر رہے ہیں اور کیا کر سکتے ہیں، میرا مقصد یہ ہے۔ بحمد اللہ تعداد بھی زیادہ ہے۔ جب شروعات میں ہم یہ محفل کرتے تھے تو سو یا دو سو لوگوں کے ساتھ یہ محفل منعقد ہوتی تھی، آج پورے ملک میں ہزاروں لوگ، سامعین کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی مختلف روشوں پر عبور کے ساتھ مداحی کے کام میں مصروف ہیں۔ یہ ملک میں ایک بڑی پیشرفت ہے، یہ معمولی چیز نہیں ہے، اس سے استفادہ کرنا چاہیے۔ اس سے کون استفادہ کرے؟ سرکاری حکام، فلاں، فلاں، بندۂ حقیر اور دوسروں کا استفادہ مقصود نہیں ہے، مقصود ملک، نظام اور انقلاب کی جانب سے استفادہ ہے۔ انقلاب استفادہ کرے، انقلاب کو پیشرفت کی ضرورت ہے، روز بروز تغیر کی ضرورت ہے، آپ اس سلسلے میں کردار ادا کر سکتے ہیں، میں یہ کہنا چاہتا ہوں۔
آپ پورے ملک میں طاغوت، ظالم، سامراج اور بدعنوانی کے خلاف جدوجہد کے ماحول کو فروغ دیجیے۔ بہت سی جگہوں پر ہمارے یہاں یہ خرابی ہے کہ ہم حکم دیتے ہیں، نصیحت کرتے ہیں، دلیل اور منطق پیش کرتے ہیں لیکن اثر نہیں ہوتا، کیوں؟ اس لیے کہ عمومی ماحول ویسا نہیں ہے جیسا ہم نے چاہا ہے۔ میں نے بارہا ثقافت سازی کے لفظ کو دوہرایا ہے۔ ثقافت سازی کا مطلب یہی کام ہے جو آپ کر سکتے ہیں۔ کبھی ضروری ہوتا ہے کہ ملک کا ماحول، دشمن کے مقابلے میں استقامت کا ماحول ہو، کبھی ضروری ہوتا ہے کہ دشمن پر حملے کا ماحول ہو، کبھی علم و دانش کی پیروی کا ماحول ہو، کبھی ضروری ہوتا ہے کہ تدبر اور غوروفکر کا ماحول ہو، ماحول تیار کیا جانا چاہیے۔ میں نے خانوادے کے بارے میں آپ سے کہا، افزائش نسل کے بارے میں آپ سے کہا، اس سلسلے میں آپ جو کردار ادا کر سکتے ہیں وہ وزارت صحت وغیرہ سے کہیں بڑا ہے۔ آپ ماحول تیار کر سکتے ہیں، آپ بصیرت پیدا کر سکتے ہیں، آپ امید آفرینی کر سکتے ہیں۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ آج دشمن کا ایک اہم ترین حربہ، مایوسی پھیلانا ہے۔ کہاں؟ ملک کے سب سے اہم حصے یعنی نوجوانوں کے اندر، یعنی انھیں مختلف طریقوں، راستوں اور حربوں سے مایوس کرنا۔ آپ اس کے بالکل برعکس کام کر سکتے ہیں، امید پیدا کیجیے، آپ فکر و عمل میں ہدایت کر سکتے ہیں لیکن اس کی کچھ شرطیں ہیں۔
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کو یہ کامیابی حاصل ہو تو اس کی پہلی اور لازمی شرط یہ ہے کہ آپ کو لوگوں کی ہدایت کی فکرمندی ہونی چاہیے۔ ذاکر، نوحہ خواں اور مداح کی فکرمندی یہ ہونی چاہیے کہ اپنے سامعین کی ہدایت کرے، پیسے، شہرت، سماجی مقام وغیرہ کی فکر نہیں ہونی چاہیے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ صرف اور صرف ایسا ہی ہونا چاہیے، ہم اس طرح کے نہیں ہیں، ہم کمزور لوگ ہیں، پوری طرح سے اپنے آپ کو کنارے نہیں کر سکتے لیکن ان چیزوں کی حیثیت ثانوی ہونی چاہیے، اصل فکر، لوگوں کی ہدایت کی ہونی چاہیے۔ جب آپ شعر یاد کر رہے ہوتے ہیں یا پڑھنے کے لیے کاغذ پر لکھ رہے ہوتے ہیں، جب مجلس یا محفل کی دعوت قبول کرتے ہیں، یا جب منبر پر جا کر بیٹھتے ہیں تو آپ کی ساری فکر یہی ہونی چاہیے کہ اپنے سامعین کی ہدایت کریں گے۔ یہ پہلی شرط ہے۔
دوسری شرط معرفت میں اضافہ کرتے رہنا ہے۔
ذات نایافتہ از ہستی بخش
(جس کا خود اپنا وجود خالق کا عطا کردہ ہو)
کِی تواند کہ شود ھستی بخش(11)
(بھلا وہ کیسے کسی کو وجود عطا کر سکتا ہے)
اگر انسان کے اندر معرفت کی مستحکم بنیادیں نہ ہوں تو بعید ہے کہ وہ دوسروں میں معرفت پیدا کر سکے۔ ہمیں اپنی تقویت کرنی چاہیے۔ آپ جوان ہیں، آپ میں ہمت اور حوصلہ ہے، آپ کے پاس وقت ہے، مطالعہ کیجیے، کتابیں پڑھیے، نظم کی بھی اور نثر کی بھی، شہید مطہری کی کتابیں پڑھیے، اخلاق کی کتابیں پڑھیے، حدیث کی کتابیں پڑھیے، تفسیر پڑھیے۔ ہمارے یہاں اچھی تفاسیر ہیں، اگر عربی پر عبور نہیں ہے تو آج فارسی کی بہت اچھی تفسیریں سب کی دسترس میں ہیں۔
ایک دوسری شرط یہ ہے کہ اپ ٹو ڈیٹ رہیے۔ دنیا کے حالات روز بروز بدل رہے ہیں۔ اپ ٹو ڈیٹ رہیے، واقعات کے تجزیے کو اپنے ذہن میں اور اپنی فکر میں تیار رکھیے۔ میرے عزیزو! یا میں یہ کہوں کہ آج ہمارے سامنے تاریخ کا ایک اہم موڑ ہے، یا ہم تاریخ کے ایک اہم موڑ کے مرکز میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ شاید یہ دوسرا جملہ زیادہ صحیح ہو۔ دنیا میں تبدیلیاں آ رہی ہیں، وہ بھی بنیادی تبدیلیاں۔ بنیادی اور بڑی تبدیلیوں کو ایک ہفتے، ایک مہینے یا ایک سال میں نہیں سمجھا جا سکتا۔ یہ تدریجی طور پر سامنے آتی ہیں۔ آپ کو پوری طرح چوکنا رہنا چاہیے کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے؟ ملک میں کیا ہو رہا ہے؟
اس وقت جیسے یہی حالیہ واقعات۔ میں ان حالیہ واقعات کے بارے میں ایک بات عرض کروں۔ ان حالیہ واقعات میں دشمن کی سازش ایک مکمل سازش تھی، لیکن اس کا اندازہ، ایک غلط اندازہ تھا۔ یہ اہم بات ہے۔ دشمن کی سازش میں کوئي نقص اور عیب نہیں تھا لیکن اس سازش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اس نے جو اندازے لگائے تھے وہ غلط تھے۔ یہ جو ہم کہہ رہے ہیں کہ دشمن کی سازش ایک مکمل سازش تھی، اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئي طاقت کسی ملک میں تخریب کاری کرنے اور اسے ٹھپ کر دینے کے لیے جتنے بھی طاقتور عناصر کو استعمال کر سکتی ہے، دشمن ان سب کو بروئے کار لایا۔ معاشی عنصر موجود تھا، البتہ ملک کی معاشی حالت ٹھیک نہیں تھی اور اب بھی اچھی نہیں ہے اور عوام کی معاشی مشکلات، دشمنوں کے لیے ایک اچھے موقع کی طرح تھیں جس سے وہ فائدہ اٹھا سکتے تھے۔ سیکورٹی، دراندازی اور ہر طرف سے جاسوسی کا عنصر۔ پوری دنیا میں ایرانوفوبیا کا شور، کئي مہینے پہلے سے مختلف شکلوں میں دشمن، امریکا، صیہونزم اور مجموعی طور پر سامراج کی پروپیگنڈہ مشینری کی جانب سے ایرانوفوبیا کا پرچار شروع ہو گيا تھا۔ یہ بھی کسی ملک کو نقصان پہنچانے کا ایک اہم عنصر ہے۔ بعض داخلی عناصر کو اپنے ساتھ ملانا، یہ کام بھی کچھ عرصے پہلے ہی شروع ہو گيا تھا اور یہ بھی ایک اہم عنصر ہے۔ ملک میں کسی کو مختلف محرکات سے، قومی محرک، مذہبی محرک، سیاسی محرک، ذاتی محرکات جیسے میرے سلام کا ٹھیک سے جواب کیوں نہیں دیا؟ مجھے فلاں پوسٹ پر کیوں نہیں رکھا؟ اس طرح کے محرکات سے فریب دیں اور پھر ان سے فائدہ اٹھائيں، انھیں اپنا ساتھ دینے کے لیے تیار کریں۔ ہمہ گير پروپیگنڈے کا عنصر، ٹی وی چینل، سیٹلائٹ چينل، سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ۔ یہ وہ عناصر ہیں جنھیں دشمن نے پوری طرح سے تیار اور استعمال کیا۔ ان مسائل کو دیکھنے والے، ان پر نظر رکھنے والے اور انھیں سمجھنے والے ایک انسان کی حیثیت سے میں نے اپنے دل میں دشمن کی اچھی تیاری کو سراہا! اس نے اچھی تیاری کی تھی، ہر چیز کو اس کی جگہ پر، صحیح مقدار میں تیار کیا تھا۔ وہ کامیاب کیوں نہیں ہوا؟ کیونکہ اس کا ایک سرا، یعنی اندازہ غلط تھا۔ جی ہاں یہ کام، سب کے سب اہم ہیں، مؤثر کام ہیں، کچھ ملکوں میں اپنا اثر بھی چھوڑتے ہیں لیکن یہاں ایسا نہیں ہوا کیونکہ دشمن نے اسلامی ایران کے سلسلے میں جو اندازہ لگایا تھا، وہ صحیح اندازہ نہیں تھا۔ میں دشمن کے اندازوں کے غلط ہونے کی دو تین مثالوں کا ذکر کرتا ہوں، میں نے پہلے بھی ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا ہے۔(12)
دشمن سوچ رہا تھا کہ ایرانی قوم، معاشی مشکلات کی وجہ سے -کہ جو موجود ہیں- تختہ پلٹنے اور ملک کو توڑنے کی دشمن کی سازش کا ساتھ دے گي، یہ ایک اندازہ ہی تو ہے، یہ ایک غلط اندازہ تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ گالیاں دے کر، برا بھلا کہہ کر اور اہانت کر کے ملک کے عہدیداروں کو میدان سے باہر کر دے گا، پسپا کر دے گا۔ جب برا بھلا کہا جاتا ہے، گالیاں دی جاتی ہیں تو کچھ لوگ پسپا ہو ہی جاتے ہیں۔ یہ بھی غلط اندازہ تھا۔ دشمنوں نے سوچا کہ بہکا کر اور ہنگامہ مچا کر ملک کے اعلی رتبہ عہدیداروں میں اختلاف پیدا کر دیں گے، کوئي کہے کہ یہ کام کیا جائے، کوئي کہے کہ نہ کیا جائے، ان کے درمیان پھوٹ پڑ جائے، یہ وہی مشکل ہے جو اس وقت خود امریکا میں ہے، صیہونی حکومت میں ہے، بعض دیگر ممالک میں ہے۔ یہ اختلافات بڑے کام نہیں ہونے دیتے، وہ سوچ رہے تھے کہ ایسا ہی اختلاف پیدا کر دیں گے۔ انھوں نے اندازہ لگایا تھا لیکن یہ ایک غلط اندازہ تھا۔ وہ سوچ رہے تھے کہ امریکا کے پٹھو فلاں ملک کے پیٹرو ڈالرز سے اسلامی جمہوریہ کے عزم کو متزلزل کر دیں گے۔ یہ ان کی غلط فہمی تھی۔ اسلامی جمہوریہ کا مضبوط عزم و ارادہ، ان کی طاقت کے ان سبھی عناصر سے زیادہ مضبوط نکلا، ان کا ارادہ پکا تھا لیکن ان کا اندازہ، ایک غلط اندازہ تھا۔ وہ سوچ رہے تھے کہ کچھ خود فروش عناصر کو یہ ترغیب دلانے سے کہ وہ اِس ملک میں یا اُس ملک میں جا کر پناہ حاصل کر لیں اور اپنے ملک کے خلاف زہر اگلیں، ہمارے نوجوان مایوس ہو جائيں گے، یہ بھی ان کی غلط فہمی تھی، کچھ لوگ گئے اور پناہ گزیں بھی ہوئے اور انھوں نے زہر بھی اگلا لیکن کسی نے انھیں توجہ کے لائق ہی نہیں سمجھا۔ یہ دشمن کے اندازے تھے، غلط اندازے تھے۔ چالیس سال سے دشمن مختلف طریقوں سے اسلامی جمہوریہ کے خلاف سرتوڑ کوشش کر رہا ہے لیکن چونکہ اس کے اندازے غلط تھے اور اب بھی غلط ہیں اس لیے اب تک وہ شکست کھاتا رہا ہے اور اس معاملے میں بھی اسے شکست ہوئي، مستقبل میں بھی وہ جب بھی کوئي اقدام کرے گا، اسے شکست ہی کھانی پڑے گي۔
خیر یہ تو دشمن کی بات تھی لیکن ہمیں خود چوکنا رہنا چاہیے! ہمیں بھی مغرور نہیں ہونا چاہیے، ہمیں بھی غفلت نہیں کرنی چاہیے، غافل نہیں ہونا چاہیے اور یہ نہیں کہنا چاہیے کہ سارے معاملے ختم ہو گئے، ہمیں میدان سے نہیں ہٹنا چاہیے، میدان میں ڈٹے رہنا چاہیے۔ ہمیں بھی جان لینا چاہیے کہ جو چیز قوم کو محفوظ رکھتی ہے وہ امید اور لوگوں کے درمیان اتحاد ہے۔ ہاں پسند مختلف ہو سکتی ہے، مختلف مسائل میں اختلاف نظر ہو سکتا ہے لیکن اسلام کے بارے میں، نظام کے بارے میں، انقلاب کے بارے میں، لوگوں کے درمیان اتحاد رائے ہے۔ اس اتحاد کو ختم نہیں ہونے دینا چاہیے۔ اختلافات میں مدد نہیں کرنی چاہیے، قومیتی و مذہبی اختلافات اور ایک گروہ کے خلاف دوسرے گروہ کے جذبات کو بھڑکانے میں مدد نہیں کرنی چاہیے۔ جو بھی قوم کے اتحاد کو نقصان پہنچانے کے لیے کوئي کام کرے گا، وہ دشمن کے لیے کام کرے گا، دشمن کی سازش کا حصہ بنے گا، دشمن کی جانب سے کھیلے گا، اس پر سبھی کو توجہ دینی چاہیے۔ چاہے وہ ذاکر ہو، مدح خواں ہو، عالم دین ہو، یونیورسٹی والا ہو، مصنف ہو، شاعر ہو، جو بھی ہو۔ ہمیں دشمن کو کم نہیں سمجھنا چاہیے، وہ دشمن ہے۔ جس دن آپ اتنے مضبوط ہو جائيں کہ دشمن مایوس ہو جائے، اس دن آپ آسودہ خاطر ہو سکتے ہیں۔ ہمیں مضبوط ہونے کی کوشش کرنی چاہیے، میں جو اتنی زیادہ تاکید کرتا ہوں، اصرار کرتا ہوں اور دوہراتا رہتا ہوں کہ ملک کو مضبوط ہونا چاہیے، وہ اسی وجہ سے ہے۔ دشمن کو مایوس کر دینا چاہیے۔ بحمد اللہ قوم، روحانیت کے ساتھ، اللہ کی مدد سے، ہدایت الہی کے ساتھ، انقلاب کی خدمت میں ہے، انقلاب کی پشت پناہ ہے، نظام کی پشت پناہ ہے، مدد کرتی ہے۔ ہمارے عناصر اچھے ہیں، بڑے مؤثر اور مفید ادارے ہیں، انقلاب کی برکتیں روز بروز، ملک کی سرحدوں سے باہر ظاہر ہوتی جا رہی ہیں۔
ایک نکتہ جو میں بیان کرنا چاہ رہا تھا اور ابھی مجھے یاد آیا، وہ مداحی کو ترانے سے ملانے کی روش ہے جو حال ہی میں شروع ہوئي ہے اور یہ بہت اچھا کام ہے۔ بڑے اچھے ترانے لکھے جاتے ہیں۔ یہی "سلام فرماندہ" ترانہ، بہت اچھا تھا۔ آپ نے دیکھا کہ دوسری جگہوں پر بھی اس ترانے کا ترجمہ کیا گيا، نئے طریقے سے دوبارہ پڑھا گيا، بعض ملکوں میں – اس کی خبریں سامنے نہیں آئيں لیکن ہمیں اطلاع دی گئي – وہ چیز جو یہاں بچوں نے پڑھی تھی، اسی فارسی زبان میں دوسرے ملکوں میں دوہرائي گئي جبکہ وہ لوگ فارسی زبان سے آشنا بھی نہیں تھے لیکن انھوں نے اسی کو دوہرایا۔ یہ وہ عناصر ہیں جو اس ملک کی طاقت میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔
البتہ جب آپ اس میدان میں آ گئے – بحمد اللہ آپ سبھی اس میدان میں ہیں – تو کچھ لوگ آپ سے محبت کرتے ہیں لیکن کچھ لوگ آپ کے دشمن بھی بن جاتے ہیں۔ سامراج آپ کا دشمن بن جاتا ہے، سامراجی ایجنٹ آپ کے دشمن بن جاتے ہیں، آپ کے خلاف کام کرتے ہیں، آپ کے خلاف اقدامات کرتے ہیں، کرنے دیجیے، یہ دشمنی ایک ایسی چیز ہے جو پائي جاتی ہے۔ جو چیز آپ کے جوہر کو عیاں کرتی ہے اور حتمی ذمہ داری کو پورا کر سکتی ہے وہ آپ کی استقامت ہے، آپ کی مزاحمت ہے، آپ کا توکل ہے۔ شاعر نے کہا ہے:
گرم است بہ ہم پشت رقیبان پِی قتلم
(میرے قتل کے لیے رقیبوں کو ایک دوسرے کا سہارا ہے)
ای عشق دل افروز دل من بہ تو گرم است(13)
(لیکن مجھے تو تیرا ہی سہارا ہے اے عشق دل افروز)
خیر، ظہر کا وقت ہو گيا، ان شاء اللہ، خداوند عالم آپ سب کو کامیاب کرے، میں آپ کے لیے ضرور دعا کروں گا، آپ بھی ہمارے لیے دعا کیجیے۔(14)
اے پروردگار! محمد و آل محمد کے طفیل، حضرت فاطمہ زہرا کے مبارک نام کی برکت سے اپنی برکتیں حاضرین محفل اور اس قوم پر نازل فرما۔
و السّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
(1) اس ملاقات کی ابتداء میں کچھ شاعروں، ذاکروں اور مدح خوانوں نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے فضائل و مناقب بیان کیے اور ان کی شان میں اشعار پیش کیے۔
(2) حاضرین کی ہنسی
(3) مثنوی مولوی کا ایک شعر: مادح خورشید مدّاح خود است / کہ دو چشمم روشن و نامُرمَد است (سورج کی مدح کرنے والا خود اپنا مداح ہے / کہ میری دو آنکھیں روشن اور بے عیب ہیں۔)
(4) سورۂ اعراف، آيت 143، اے موسی تم مجھے ہرگز نہیں دیکھ پاؤگے۔
(5) وہ لوگ جنھوں نے اسلام اور جاہلیت کا زمانہ دیکھا تھا لیکن پیغمبر سے نہیں ملے تھے۔
(6) منجملہ سورۂ بقرہ، آیت 23، تو اس کے جیسا ایک ہی سورہ لے آؤ۔
(7) نہج البلاغہ، خطبہ 18، اس کا ظاہر حد درجہ خوبصورت اور باطن انتہائي عمیق ہے۔
(8) جناب صادق آہنگران
(9) مدّاحان اہل بیت علیہم السلام سے ملاقات میں خطاب، 27/7/2005
(10) دیوان صائب تبریزی کی ایک غزل کا شعر جس کا مطلع ہے: "عمری است حلقۂ درِ میخانہ ایم ما / در حلقۂ تصرّفِ پیمانہ ایم ما"
(11) جامی، ہفتاورنگ، سبحۃ الابرار، باب نمبر 19
(12) پورے ملک سے آئے ہوئے بسیجیوں (رضاکاروں سے خطاب، 26/11/2022
(13) دیوان فصیحی ہروی کی ایک غزل کا شعر جس کا مطلع ہے: "ای گل نہ ھمین معرکۂ من بہ تو گرم است / ہنگامۂ صد سوختہ خرمن بہ تو گرم است"
(14) رہبر معظم نے محفل میں موجود خواتین کی جانب سے لگائے گئے نعرے "ہدیۂ روز زنم / دعای خیر رہبرم"(یوم خواتین کا میرا تحفہ / میرے رہبر کی جانب سے دعائے خیر) کے جواب میں یہ دعائيہ کلمات کہے۔