انھوں نے نئے عالمی نظام میں ایران مخالف محاذ کی کمزوری کی علامتیں بیان کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں ایران کے سب سے اہم مخالفوں میں سے ایک امریکا ہے اور حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ اوباما کا امریکا، بش کے امریکا سے اور ٹرمپ کا امریکا اوباما کے امریکا سے اور ان صاحب کا امریکا، ٹرمپ کے امریکا سے زیادہ کمزور ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے اسی سلسلے میں کہا کہ امریکا میں دو تین سال پہلے کے الیکشن میں جو دو الگ الگ محور پیدا ہوئے تھے وہ اب بھی پوری شدت کے ساتھ موجود ہیں، امریکا، صیہونی حکومت کے بحران کو حل نہیں کر سکا ہے، امریکا نے اعلان کیا تھا کہ وہ ایران کے خلاف متحدہ عرب محاذ تشکیل دینے کا ارادہ رکھتا ہے لیکن جو کچھ وہ چاہتا تھا آج اس کے برخلاف باتیں سامنے آئي ہیں اور عرب ملکوں کے ساتھ ایران کے روابط بڑھتے جا رہے ہیں۔ اسی طرح امریکا سیاسی دباؤ اور پابندیوں کے ذریعے ایٹمی مسئلے کو اپنے پروگرام کے مطابق ختم کرنا چاہتا تھا لیکن وہ یہ بھی نہیں کر سکا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے امریکا کی کمزوری کی جانب بڑھنے کی مثالیں پیش کرتے ہوئے کہا کہ امریکا نے یوکرین کی جنگ شروع کرائي لیکن یہ جنگ اس کے اور اس کے یورپی اتحادیوں کے درمیان خلیج پیدا ہونے کا سبب بن گئی کیونکہ اس جنگ میں مار انھیں کھانی پر رہی ہے جبکہ فائدہ امریکا اٹھا رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ امریکا، لاطینی امریکا کو اپنا گھر آنگن سمجھتا ہے لیکن وہاں کئي امریکا مخالف حکومتیں اقتدار میں آئي ہیں۔ امریکا، وینیزوئیلا میں مکمل تبدیلی لانا چاہتا تھا یہاں تک کہ اس ملک کے لیے پیسوں، ہتھیاروں اور فوجی طاقت سے جعلی صدر بھی تیار کر دیا لیکن وہ ناکام رہا۔
امریکی ڈالر کی ایسی کمزوری کہ بعض ملک ایک دوسرے کی قومی کرنسی میں تجارت کر رہے ہیں، ایک دوسری مثال تھی جس کا حوالہ دیتے ہوئے رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ ان باتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکا، جو اسلامی نظام کے دشمنوں میں سرفہرست ہے، مسلسل کمزور ہو رہا ہے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسلامی جمہوریہ کے دوسرے دشمن یعنی صیہونی حکومت کے بارے میں کہا کہ اپنی پچھتر سالہ عمر میں اس حکومت کو کبھی بھی آج جیسی ہولناک مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ انھوں نے صیہونی حکومت کی آشفتگی اور شیرازہ بکھرنے کی صورتحال کے کچھ مصادیق بیان کیے۔
انھوں نے کہا کہ صیہونی حکومت میں سیاسی زلزلہ آيا ہوا ہے اور پچھلے چار سال میں چار وزیر اعظم بدلے گئے، وہاں جماعتی اتحاد تشکیل پاتے ہی بکھر جاتا ہے، پوری جعلی صیہونی حکومت میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے جس کی ایک علامت بعض شہروں میں لاکھوں لوگوں کی شرکت سے ہونے والے مظاہرے ہیں اور صیہونی، کچھ میزائل فائر کر کے ان کمزوریوں کی تلافی کرنا چاہیں تو یہ ممکن نہیں ہے۔
انھوں نے عنقریب ہی اس حکومت کا شیرازہ بکھرنے کے سلسلے میں صیہونی حکام کے مسلسل انتباہات کو صیہونیوں کی کمزوری کی ایک اور نشانی بتایا اور اپنی ایک پیشن گوئي کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے کہا تھا کہ وہ اگلے پچیس سال نہیں دیکھ پائیں گے لیکن لگتا ہے کہ ان کو تو (مٹ جانے کی) کچھ زیادہ ہی جلدی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فلسطینی گروہوں کی طاقت دسیوں گنا بڑھ جانے اور اوسلو اور یاسر عرفات کی فضیحت والے فلسطین کے مزاحمتی شیروں والے فلسطین (عرین الاسود) کو ایران مخالف محاذ کی کمزوری اور مزاحمتی محاذ کی مضبوطی کی ایک دوسری علامت بتایا۔
انھوں نے اپنی تقریر کے ایک دوسرے حصے میں ملک کے اندر دشمنوں کی سازش پر روشنی ڈالی اور کہا کہ ایران کے اندرونی حالات کے لیے کچھ سازشیں تھیں اور رہیں گي اور عورت کے مسئلے کو بہانہ بنا کر اور مغرب والوں کی خفیہ ایجنسیوں کی مدد سے گزشتہ (ہجری شمسی) سال میں جو ہنگامے ہوئے تھے، وہ انھیں سازشوں کی مثال ہیں۔
آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے مغربی ملکوں میں خواتین کی افسوسناک اور غیر محفوظ صورتحال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ممالک، جن میں سے بعض میں خود ان کے اعتراف کے مطابق خواتین سڑکوں پر یا فوجی کیمپوں اور چھاؤنیوں تک میں محفوظ نہیں ہیں اور مثال کے طور پر ایک پردہ دار مسلمان خاتون کو، جو شکایت لے کر عدالت میں گئي ہے، مجرم کے وار سے قتل اور شہید ہو جاتی ہے، اسلامی جمہوریہ پر، جو عورت کو برترین درجہ عطا کرتی ہے، سوالیہ نشان کھڑے کرتے ہیں۔
انھوں نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ عورت کا مسئلہ صرف پہناوا نہیں ہے، تعلیم، روزگار، سیاسی و سماجی سرگرمیوں کے میدانوں اور اہم عہدوں پر ایرانی عورتوں اور لڑکیوں کی بھرپور موجودگي اور انقلاب سے پہلے کی جدوجہد، مقدس دفاع اور اس کے بعد کے دور میں عورتوں کی سرگرم موجودگي کی طرف اشارہ کیا۔
آيت اللہ خامنہ ای نے اسی سلسلے میں حجاب کی شرعی اور قانونی پابندی کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ پہناوے کے مسئلے میں حجاب ایک سرکاری نہیں بلکہ شرعی اور قانونی پابندی ہے اور حجاب نہ کرنا شرعی لحاظ سے بھی حرام ہے اور سیاسی لحاظ سے بھی۔
انھوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ایسی بہت سی عورتیں جو پردہ نہیں کرتیں، اس کام کے پس پردہ ہاتھوں یعنی دشمن کی خفیہ ایجنسیوں سے باخبر نہیں ہیں، کہا کہ اگر وہ جان لیں کہ حجاب نہ کرنے اور پردے کی مخالفت کی ترغیب دلانے کے پیچھے کون لوگ اور کون سی ایجنسیاں ہیں تو وہ یہ کام نہیں کریں گي۔ البتہ جس طرح دشمن نے منصوبے اور سازش کے ساتھ یہ کام شروع کیا ہے، عہدیداروں کے پاس بھی منصوبہ اور پروگرام ہونا چاہیے، جو ان کے پاس ہے اور غیر اصولی اور بغیر پروگرام والے کاموں سے گریز کیا جانا چاہیے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی تقریر میں رواں ہجری شمسی سال کے آخر (فروری-مارچ 2024) میں ہونے والے پارلیمنٹ اور ماہرین اسمبلی کے الیکشن کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ انتخابات، قومی طاقت کے مظہر ہو سکتے ہیں اور اگر ان کا صحیح طریقے سے انعقاد نہ ہوا تو اس سے ملک، قوم اور عہدیداروں کی کمزوری کا پتہ چلتا ہے اور ہم جتنے کمزور ہوں گے، دشمنوں کا حملہ اور دباؤ بھی اتنا ہی زیادہ ہوتا جائے گا۔
انھوں نے اسی طرح تمام عہدیداروں اور اداروں کی جانب سے سال بھر افراط زر پر کنٹرول اور پروڈکشن میں پیشرفت پر توجہ مرکوز کیے جانے اور اس سلسلے میں عزم و ارادے سے کام لیے جانے کی ضرورت پر تاکید کی اور سال کے نعرے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کچھ ضروری باتوں اور کچھ اہم معاشی ہدایات کا بھی ذکر کیا۔
اس ملاقات کے آغاز میں صدر مملکت حجت الاسلام والمسلمین سید ابراہیم رئيسی نے حکومت کے کاموں اور پروگراموں کی ایک رپورٹ پیش کی اور کہا کہ سنہ 1401 ہجری شمسی کی ہیرو، عظیم ایرانی قوم تھی جس نے اپنی استقامت اور ہائبرڈ جنگ میں دشمنوں کو ناکام بنا کر عظیم کارنامہ انجام دیا۔