بسم‌ اللّه‌ الرّحمن‌ الرّحیم

و الحمد للّه ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین سیّما بقیّة اللّه فی الارضین.

آپ سبھی خواہران و براداران گرامی کا خیر مقدم کرتا ہوں جو نیشاپور اور سبزوار سے  طویل مسافت طے کرکے یہاں تشریف لائے اور اس امام بارگاہ کو مہر و محبت سے مملو اپنے قلوب اور وجود سے روشن اور منور کیا۔

شہر سبزوار و نیشاپور کی سپاہ پاسداران کے ان دوعزیز کمانڈروں کی تقریروں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ دونوں حضرات نے بہت اچھی تقریر کی اور اس طرح کی نشستوں میں جن باتوں پر توجہ ضروری ہوتی ہے، انہیں بیان کیا۔ خوشی ہوئی کہ الحمد للہ ان دونوں برادران میں ان باتوں کا احاطہ کرنے کی  فکری اور ذہنی صلاحیت موجود ہے۔  میں نے دو تین باتیں نوٹ کی ہیں جنہیں عرض کروں گا۔   

  شہیدوں کی یاد میں کانفرنسوں کا انعقاد، یاد کربلا کو زندہ رکھنے کی سعی

پہلی بات، اس قابل قدر کانفرنس کے منتظمین کا شکریہ ہے۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ میری نظر میں، یہ کام جو آپ کر رہے ہیں، یعنی ان کانفرنسوں کا انعقاد، یہ خود جہاد عظیم ہے۔ یہ کام جو آپ کر رہے ہیں، جہاد ہے۔ اس کام کی قدر کو جانیں۔

یہ وہی جہاد ہے جس نے کربلا میں بہائے جانے والے مقدس خون کو پامال نہیں ہونے دیا۔ یہ وہی جہاد ہے جس نے بزرگان اسلام، بزرگان دین اور بزرگان تشیع  کی ایک ہزار سالہ خدمات کو آج تک زندہ رکھا ہے اور اگر آپ جیسے افراد  کوشش نہ کرتے تو ایسے لوگ تھے جو ان خدمات کو تاریخ سے محو کرنے کا ارادہ رکھتے تھے، جو  چاہتے تھے کہ معنوی عظمت کی نشانیاں اقوام میں زندہ نہ رہیں، جو ان کو کمرنگ اور ختم کرنا چاہتے تھے۔ آپ نے بارہا سنا ہے کہ "کوشش کی ہے کہ کربلا ختم ہو جائے، زمین نہ رہے، قتل گاہ نہ رہے، شہیدوں کی یاد نہ رہے۔" یہ لوگ اب بھی ہیں۔ آج بھی کچھ لوگوں کا مفاد اور مصلحت اس میں ہے کہ مجاہدتوں کی یاد باقی نہ رہے، ان کوششوں کی یاد باقی نہ رہے، جو پاکیزہ خون بہایا گیا، اس کی یاد باقی نہ رہے۔ آج سامراجی طاقتیں نہیں چاہتی ہیں کہ ہمارے شہیدوں کی یاد اور ہمارے شہیدوں کے نام اس ملک کے پر افتخار پرچموں پر رہیں۔

آپ اس شیطانی اور خبیثانہ کوششوں کے خلاف کوشش کر رہے ہیں۔ یہ ہوا جہاد۔ جو لوگ راہ حق میں سعی و کوشش کرتے ہیں، ان کے اولین دشمن وہ ہوتے ہیں جو باطل کے سرخیل ہوتے ہیں۔ جو انہیں کامیاب نہیں ہونے دینا چاہتے۔ وہ نہیں چاہتے کہ ان کی یاد اور ان کا نام باقی رہے۔   

دلوں کو اپنی جانب کھینچنا شہادت کی خاصیت ہے۔ ایک غیر مذہب کے نوجوان کو اس کے دوست کی شہادت مجبور کرتی ہے کہ وہ آقائے علوی مرحوم (1) کی خدمت میں جاکر مسلمان ہو جائے، شیعہ ہو جائے اور پھر محاذ پر جاکر خود بھی شہید ہو جائے۔ یہ شہادت کا ہنر ہے۔ ایک نوجوان کی شہادت، ایک دوست کی شہادت، ایک ساتھی کی شہادت فضا کو نور شہادت سے منور کر دیتی ہے، دلوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ یہ سامراجیوں کی مصلحت کے خلاف ہے۔ اہل باطل کی مصلحت کے خلاف ہے۔ لہذا اس کے خلاف کام کرتے ہیں۔ کچھ لوگ  اندرون ملک بھی یہ کام کرتے ہیں۔ آپ جہاد کر رہے ہیں (اس لئے) ان کے مقابلے پر ڈٹ گئے ہیں۔   

  گوناگوں طریقوں اور سلیقوں نیز ہمت سے شہیدوں کی پرورش کرنے والوں کی یاد

شہید کی یاد کا تحفظ جہاد ہے۔ شہید کی پرورش کرنے والوں  کی یاد کا تحفظ بھی جہاد ہے۔ شہید کی پرورش کرنے والے کون ہیں؟ ماں، باپ، معلم، شریک حیات، اچھا دوست۔ یہ شہید کی پرورش کرنے والے ہیں، ان کی یاد منانا بھی جہاد ہے۔ جن لوگوں نے مقدس دفاع کے دوران اور اس کے بعد آج تک اس کی حمایت کی ہے، ان کی یاد بھی جہاد ہے۔ اس خاتون کی یاد بھی جہاد ہے جو 'صد خرو' یا کسی اور جگہ اپنے گھر کے اندر دس تنور نصب کرتی ہے تاکہ محاذ جنگ  کے مجاہدین  کے لئے، روٹی پکائے، اس کی یاد کو زندہ رکھنا  بذات خود جہاد ہے۔ ان کو باقی رکھنا چاہئے۔

ان یادوں کی حفاظت کرنا چاہئے۔ کس وسیلے سے حفاظت کی جائے؟ بعض دوستوں نے کہا کہ کتاب، تحریر اور دیواروں پر لکھی جانے والی عبارتوں جیسے کاموں سے۔ یہ سبھی کام اچھے ہیں۔ لیکن کوشش کریں کہ یہ کام ہوں، کوشش کریں کہ آرٹ اور فن کو اس مہم میں استعمال کریں۔ یہ واقعات مصوری، افسانہ نویسی، شاعری، پر کشش فلموں اور عوام کے لئے اسٹیج کئے جانے والے ڈراموں کا موضوع بن سکتے ہیں۔ آرٹ اور فن کے مختلف شعبوں میں ان سے کام لیا جا سکتا ہے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جنہیں ہونا چاہئے۔ یہ اہم کام ہیں۔ آپ نے ان دو شہروں میں جو یہ کانفرنس تشکیل دی ہے، اس سلسلے کو جاری رکھئے۔ یعنی اس جہاد کو ادھورا نہ رہنے دیں۔ یہ عظیم کام ہے۔  یہ ہماری پہلی بات ہے کہ آپ خود اپنے اس کام کی قدر کو پہچانیں اور جہاں تک ممکن ہو، پوری قوت اور سلیقے سے، ہمت سے، سعی مسلسل سے اور اتحاد کے ساتھ، ان شاء اللہ انہیں انجام دیں۔

 

  نیشاپور اور سبزوار، اسلامی تمدن کے خزانے

دوسری بات جو میں نے عرض کرنے کے  لئے نوٹ کی ہے، نیشاپور اور سبزوار کی تعریف ہے۔ ہمارا ایک بڑا فریضہ  یہ ہے کہ اپنے شہروں کی خصوصیات سے جو ان کی شناخت ہیں، اپنے نوجوانوں کو آگاہ کریں۔ یہ کام جس طرح ہونا چاہئے، اس طرح انجام نہیں دیا جا رہا ہے۔ انقلاب سے پہلے تو یہ کام صفر، تقریبا صفر کے مساوی تھا۔

میں بارہا سبزوار اور نیشاپور آیا ہوں، تقریریں کی ہیں، لوگوں سے ملتا رہا ہوں۔ اس زمانے میں یہ باتیں نہیں تھیں اور ان شہروں کے عظیم اور پرشکوہ ماضی کو اہمیت نہیں دی جاتی تھی۔ نیشاپور اور سبزوار دو گنجینے ہیں۔ تاریخ اسلام، ہمارے اسلامی تمدن اور ایرانی تمدن کے گنجینے۔ ان دونوں گنجینوں کی حفاظت ضروری ہے۔ ان کو پہچنوانے کی ضرورت ہے۔

   حضرات نے جو رپورٹیں پیش کی ہیں، ان میں کہا گیا ہے کہ ان شہروں پر تھیسس (تحقیقی مقالہ) لکھے جانے کی ضرورت ہے۔ ہاں، ہونا چاہئے، انہیں پہچاننے کی ضرورت ہے۔ نیشاپور اور سبزوار کے نوجوانوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ وہ کن حقائق، کن خوبصورتیوں اور معنوی، علمی اور تاریخی لحاظ سے  کن عظمتوں اور شکوہ کے وارث ہیں۔ یہ ان نوجوانوں کو معلوم ہونا چاہئے تاکہ انہیں اپنے تشخص کا احساس ہو۔ اپنی حیثیت کا احساس ہو۔

ہمیں ان دونوں شہروں کو دو قدیمی بستیوں، یا دو پرانے اور تاریخی شہروں کی حیثیت سے ہی نہیں دیکھنا چاہئے۔ نہیں بلکہ یہ، نیشاپور بھی اور سبزوار بھی،  ہمارے اسلامی تمدن کے دو سچے اور عینی راوی ہیں۔ تمدن کے راوی ہیں، ثقافت کے راوی ہیں اور وہ بھی زبانی نہیں بلکہ عینی راوی ہیں جو محسوس بھی ہوتے ہیں اور مشہود بھی ہیں۔

فضل ابن شاذان نیشاپوری سے لیکر، ہزار سال بعد، یعنی ملاہادی سبزواری کے دور تک، دیکھیں کہ یہ ہزار برس پر مشتمل زمانہ چمکتے ستاروں سے مملو ہے۔  اس دور کو دیکھتے ہیں کہ یادگار واقعات سے بھرا پڑا ہے۔ عظیم اور تمدن سے متعلق یاد گار واقعات۔ فضل ابن شاذان اور حاجی ملاہادی اور عطار نیشاپوری اور حمید سبزواری کے درمیان یہ توازن اور تناسب کتنا خوبصورت ہے۔ ان دونوں ہستیوں کے درمیان تقریبا سات سو برس کا فاصلہ ہے۔ دونوں نے اسلام کے لئے کام کیا، دین کے لئے کام کیا، قوم کے لئے کام کیا، ایرانی قوم کے فکری مفاہیم کے نمو کے لئے کام  اور سعی و کوشش کی۔

 

 شہیدوں اور  شہروں کی قابل فخر ہستیوں کو پہچنوانے کی ضرورت 

میں دو چار لوگوں کا نام لوں گا ( لیکن) ان دونوں شہروں کی تاریخ میں ایسی سیکڑوں بلکہ ہزاروں ہستیاں موجود ہیں۔ انہیں پہچاننے کی ضرورت ہے، انہیں پہچنوانے کی ضرورت ہے۔ دوسروں کے پاس تاریخ نہیں ہے، اپنے لئے تاریخ گڑھتے ہیں۔ حقیقت کے برعکس تاریخ لکھتے ہیں۔ آپ ملاحظہ فرمائيں، حتی ہمارے ٹیلیویژن پردکھاتے ہیں کہ فلاں ملک جس کی  کوئی پرشکوہ اور اہم تاریخ نہیں ہے، سو اور ڈیڑھ سو قسطوں پر مشتمل سیریئل تیار کرتا ہے۔ اپنے لئے تاریخ گڑھتا ہے،  اپنے لئے فلسفہ گڑھ کر پیش کرتا ہے، اپنے لئے حکومت بناتے ہیں۔ ہمارے پاس ہے (لیکن) ہمیں یاد نہیں ہے۔

شرح لمعہ دمشقیہ، آج ہمارے دینی طلبا کے کورس کی کتاب ہے۔ خود لمعہ کتاب، سبزواریوں کی درخواست پر لکھی گئی تھی۔ سبزواریوں نے، "سر بہ داران" کے زمانے میں شام میں شہید اول (3) کے نام خط میں لکھا :جناب ہم نے حکومت تشکیل دی ہے آپ یہاں آکر رہیں۔ شہید نے لکھا کہ  میں نہیں آ سکتا لیکن یہ کتاب آپ کے لئے بھیج رہا ہوں۔ لمعہ در اصل خراسانیوں نے تخلیق کی ہے۔ آج اس کتاب کی شرح پانچ سو چھے سو سال بعد، ہمارے کورس کی کتابوں میں ہے۔ یہ معمولی باتیں ہیں؟ یہ چھوٹی باتیں ہیں؟ یہ آپ کے شہر کی شناخت ہیں۔ ان شناختوں سے ہمارے نوجواںوں کو واقف ہونا چاہئے۔ یہ آپ کے شہروں کے بارے میں کچھ باتیں تھیں۔ 

  میں نے ان دو شہروں کے بارے میں بات کی ہے، ایران کے بقیہ شہربھی پورا ملک، کم وبیش اسی طرح ہے۔ البتہ  اکثر شہر، سبھی نہیں۔ یہ ماضی، یہی افتخارات، اور یہی قابل قدر تاریخ ہمارے ملک کے بہت سے شہروں کی ہے۔ اب چونکہ میں خود خراسانی ہوں، ان دونوں شہروں سے واقف ہوں، ان کا ذکرکیا، ورنہ ہر جگہ ایسا ہی ہے۔ یہی بات ہے۔ انہیں زندہ رکھیں۔ یہ آپ کے شہروں کی  شناخت ہیں۔

 شہیدوں کی عظمت اور اعلی رتبہ

اس کے بعد شہیدوں کی تعریف جس سے واقعی ہماری زبان قاصر ہے۔ واقعی اگر انسان شہیدوں کے بارے میں بولنا چاہے تو اس کی زبان شہیدوں کی عظمت اور اہمیت کے بیان سے قاصر ہے۔ ان کی باتیں، ان کا راستہ، ان کی روش، ان کی وصیت، یہ سب درس ہے۔ ان کے وصیت نامے واقعی درس ہیں۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے عوام کے درمیان اپنی تقریروں میں سفارش کی ہے کہ جاکے شہیدوں کے وصیتنامے پڑھیں۔ (4) واقعی پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک وصیتنامہ  مومن، پرجوش اور جانباز نوجوان، شہید ناصر باغانی(5) کا ہے۔ اس شہید کی عمر تقریبا بیس سال تھی۔ اس شہید کا وصیتنامہ ایسا ہے کہ اس کو  دس بار پڑھیں! بیس بار پڑھیں! میں نے اس کو مکرر پڑھا ہے۔ وہ   نوجوان تھے۔ شہید نورعلی شوستری(6) ادھیڑ عمر کے شہید ہیں۔ انھوں نے خدا کی راہ میں جہاد، مجاہدت اور فداکاری  میں عمر گزار دی، ان کا وصیتنامہ حکمت سے پر ہے۔ اس وصیتنامے کی  چند سطریں پڑھیں تو حکمت کامل نظر آتی ہے۔  میں شہید شوستری کو قریب سے جانتا تھا۔ عام ملاقاتوں سے یہ احساس نہیں ہوتا کہ ان کی شخصیت میں اتنی گہرائی ہے، لیکن ہے۔

 شہید نمونہ عمل

یہ وصیتنامے درس ہیں، یہ آئیڈیل ہیں۔ مجھ جیسے انسان کے لئے شہیدوں کی توصیف واقعی ممکن نہیں ہے، (یعنی) یہ اس سے کہیں زیادہ برتر، اعلی، لطیف اور نورانی ہیں کہ ہم ان کی توصیف  کر سکیں، لیکن ہمیں چاہئے کہ ہم انہیں اپنے لئے آئیڈیل بنائيں۔  یہ سب آئیڈیل ہیں۔ شہید آئیڈیل ہیں۔

شہید شوستری ایک طرح سے، شہید برونسی (7) ایک طرح سے، شہید باغانی ایک طرح سے، شہید حمیدرضا الداغی(8)- جن کی شہادت نے ملک کی رائے عامہ کو ہلا کر رکھ دیا، ایک اور طرح سے۔ یہ سب آئيڈیل ہیں۔ ان میں سے ہر ایک، کسی نہ کسی طرح، ایک رخ سے، ایک جہت سے ہمارے لئے آئیڈیل بن سکتا ہے۔ میں نے تین چار شہیدوں کا نام لیا ہے۔ نیشاپور اور سبزوار میں مجموعی طور پر ساڑھے چار ہزار شہید ہیں، جن میں سے ہر ایک برونسی اور باغانی سمجھا جا سکتا ہے۔ ہر ایک کی کہانی الگ ہے، ہر ایک کا مسئلہ الگ ہے، ان کے نام لینا چاہے تو انسان کو شرمندگی ہوتی ہے (یعنی ان کی تعداد بہت زیادہ ہے)۔

الحمد للہ ملک میں شہیدوں کے حالات لکھنے کی روش چل پڑی ہے، اس کی تقویت ہونی چاہئے۔ ان کے حالات زیادہ سے زیادہ لیکن بہتر اور پوری طرج  فنکارانہ انداز میں لکھے جائیں، نوجوان ان کتابوں کو پڑھیں، سبھی پڑھیں اور ان شاء اللہ استفادہ کریں۔

 ہماری دعا ہے کہ ان شاء اللہ خداوند عالم ہمیں ان کے ساتھ محشور کرے، ہمیں ان کا پیرو قرار دے، ہمیں ان کی شفاعت سے محروم نہ کرے۔ ان شہیدوں کی ارواح طیبہ کو ہم سے راضی کرے اور ہمارے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی روح کو جنہوں نے اس تحریک کو وجود بخشا، ان شاء اللہ، پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ محشور فرمائے۔

میں آپ سب کا یہاں تشریف آوری اور ان کانفرنسوں کے انعقاد پر تہہ دل سے  شکریہ ادا کرتا ہوں۔ آپ سبھی کے لئے، خداوند عالم سے توفیقات طلب کرتا ہوں اور آپ کے توسط سے سبزوار اور نیشاپور کے عوام کی خدمت میں پرخلوص سلام عرض کرتا ہوں۔  

 والسّلام علیکم و رحمةاللّه و برکاته

1۔ اس ملاقات کے  شروع میں، سبزوار کی بسیج استقامت کے کمانڈر اور کانفرنس کے جنرل سیکریٹری کرنل ہادی موحدی نیا اور نیشاپور کی بسیج استقامت کے کمانڈر اور کانفرنس کے جنرل سیکریٹری کرنل علی نیک نیا نے، رپورٹیں پیش کیں۔ 

2۔ حجت الاسلام والمسلمین سید محمد حسن علوی سبزواری

3۔ شیخ شمس الدین محمد بنمگی، المعروف بہ شہید اول، مصنف لمعہ دمشقیہ

4۔ صحیفہ امام، جلد 14، صفحہ 491، عوام کے مختلف طبقات کے درمیان تقریر

(22-6-1981)۔ "۔۔۔ یہ وصیتنامے جو ان عزیزوں نے لکھے ہیں، ان کا مطالعہ کریں۔ پچاس سال عبادت کی، خدا قبول فرمائے، ایک دن  ان وصیتناموں کو اٹھاکے پڑھیں اور فکر کریں۔۔۔"

 5۔  شہید ناصر الدین باغانی امام صادق یونیورسٹی کے  طالب علم تھے جو مقدس دفاع کے دوران محاذ پر گئے اور یکم مارچ 1986 کو آپریشن کربلا پانچ میں شہید ہوئے۔ 

 6۔ شہید بریگیڈیئر  نورعلی شوستری ( سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے قدس ہیڈکوارٹر کے کمانڈر) 18 اکتوبر سن دو ہزار نو کو "سیستان و بلوچستان کی اقوام کی وحدت کانفرنس" میں جو پشین کے بلوچ قبائل کی شرکت سے جاری تھی، دہشت گردوں کے خودکش بم دھماکے میں، سپاہ پاسداران کے چند دیگر کمانڈروں کے ہمراہ شہید ہوگئے۔  

 7۔  شہید عبدالحسین برونسی، مقدس دفاع کے دوران، اٹھارہ جواد الآئمہ بریگیڈ کے کمانڈر تھے اور 13 مارچ 1985 کو بدرآپریشن میں شہید ہوئے۔

8۔  شہید حمید رضا الداغی، غیور سبزواری نوجوان تھے  جو رواں سال کی 28 اپریل کو ملک کی ناموس کے دفاع کے لئے، شر پسندوں کے مقابلے میں اترے اور چاقووں کے وار سے شہید ہو گئے۔