عید قربان سے لیکر عید غدیر تک کا وقت در اصل ایک ایسا دورانیہ ہے جو امامت کے مسئلے سے جڑا ہوا ہے۔ خداوند عالم نے قرآن مجید میں فرمایا ہے: «و اذ ابتلى ابراهيم ربّه بكلمات فأتمّهنّ قال انّى جاعلك للنّاس اماما» (اور جب ابراہیم کا ان کے پروردگار نے کچھ کلمات کے ذریعے امتحان لیا اور انہوں نے اس آزمائش کو مکمل کیا تو ان سے کہا: میں تمہيں لوگوں کا امام بنانے والا ہوں-بقرہ 124) ابراہیم کو خداوند عالم نے امامت کے منصب پر فائز کیا۔ کیوں؟ کیونکہ انہوں نے سخت امتحان کامیابی سے مکمل کیا تھا۔ اس کی ابتداء، عید الاضحی کے دن کو قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہاں تک کہ غدیر کا دن آن پہنچا کہ جو امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ آلاف التحیۃ و الثناء کی امامت کا دن ہے۔ یہ بھی سخت امتحانات کے بعد ممکن ہوا ہے۔ امیر المومنین علیہ السلام نے اپنی پوری با برکت زندگی امتحانوں میں گزاری ہے اور ان سب امتحانوں میں کامیاب رہے ہيں۔ تیرہ یا پندرہ برس کی عمر سے، نبوت کی تصدیق سے لیکر، لیلۃ المبیت تک کہ جب آپ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خاطر اپنی جان کی قربانی پیش کرنے کے لئے تیار ہو گئے اور قربانی کے اس جذبے کی عملی شکل آپ نے پیغمبر اعظم کی ہجرت کے موقع پر پیش کی اور اس کے بعد بدر و احد و حنین و خیبر اور دیگر مواقع پر آپ نے بڑے بڑے مراحلے سر کئے۔ یہ عظيم عہدہ، انہی امتحانوں میں کامیابی کا نتیجہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عید الاضحی اور عید غدیر کے درمیان ایک قسم کا رابطہ سا محسوس ہوتا ہے۔ کچھ لوگ اسے عشرہ امامت کا نام دیتے ہيں اور یہ مناسب بھی ہے۔

امام خامنہ ای

25 نومبر 2009