بسم اللہ الرحمن الرحیم
والحمد للہ ربّ العالمین والصّلاۃ والسّلام علی سّیدنا ونبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الطیّبین الطّاھرین المعصومین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین۔
'بسیج فورس' کے محترم اراکین، خواہران و برادران عزیز! خوش آمدید۔ دوسرے شہروں میں عوامی رضا کار فورس 'بسیج' کے اجتماعات میں شریک یہ تقریر سننے والوں کا بھی میں خیر مقدم کرتا ہوں۔ میں انہیں (ٹی وی اسکرین پر) دیکھ رہا ہوں۔
بسیج کے بارے میں کہنے کے لئے بہت کچھ ہے۔ اختصار کے ساتھ عرض کروں گا کہ بسیج ملک کے لئے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی گراں بہا یادگار ہے۔ بسیج کی تخلیق امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے کی تھی وہی پدر بسیج ہیں۔ خود آپ فرماتے ہیں کہ "مجھے اس بات پر فخر ہے کہ ایک بسیجی ہوں۔" (2) بسیج کی شان یہ ہے۔ بسیج کے بارے میں امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے فرمودات کے تعلق سے میں چند نکات بیان کروں گا۔
نکتہ اول یہ ہے کہ بسیج کا فلسفہ دھمکیوں اور خطرات کے مقابلے میں ملک کو زیادہ سے زیادہ محفوظ و محکم بنانا ہے۔ یہ ہے بسیج کی تشکیل کا فلسفہ۔
امام (خمینی رضوان اللہ علیہ) نے اپنی دوراندیشی سے یہ تشخیص دیا کہ ملک و قوم اور انقلاب کو مضبوط بنانے کے لئے ایک وسیع اور عظیم عوامی فورس کی اشد ضرورت ہے۔ چونکہ انقلاب عوام کا ہے، ملک عوام کا ہے اس لئے اپنے انقلاب اور اپنے ملک کے دفاع کے لئے عوام سب سے بہتر ذریعہ ہیں۔ بس شرط یہ ہے کہ انہیں راہ دفاع دکھائی جائے اور امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے تشخیص دیا کہ یہ راہ بسیج کی تشکیل ہے۔ یہ ہے بسیج کی تشکیل کا فلسفہ۔ بنابریں بسیج ہر خطرے کے مقابلے میں ملک کو زیادہ سے زیادہ محکم بنانے کے لئے ہے۔
یہ بسیج کی تشکیل کی اصل وجہ تھی۔ آج بھی یہ علت اور یہ فلسفہ موجود ہے۔ آج بھی بسیج ضروری ہے۔ اس سلسلے میں تفصیل بہت ہے، میں اختصار کے ساتھ عرض کروں گا۔ عوام کے مفادات، ملک کی سیکورٹی اور قومی تشخص کے ہمہ گیر معنوی اور مادی دفاع کے لئے (بسیج کی ضرورت ہے)۔ گزشتہ چالیس سال سے کچھ اوپر کے اس عرصے میں بسیج کے کارناموں نے اس ہدف کی تصدیق اور امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی دوراندیشی اور بصیرت کی نشاندہی کی ہے۔
میرے عزیزو! ملک میں بعض مواقع ایسے آئے ہیں کہ بسیج کا وجود فیصلہ کن ثابت ہوا۔ اس کا ایک نمونہ دفاع مقدس ہے۔ یقینا اگر عوامی رضاکار فورس بسیج نہ ہوتی تو نتیجہ اس سے مختلف ہوتا جو ہوا ہے۔ دفاع مقدس کا ماجرا بسیج فورس کی شکل میں اس ملک کے عوام کی طاقت و توانائی کی عظیم نمائش ہے۔ اس کے علاوہ دیگر نمونے بھی ہیں جن کی تفصیل میں اس وقت نہیں جانا چاہتا۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے بسیج کی مختلف تعریفیں پیش کی ہیں۔ میں نے دو تعریفیں منتخب کی ہیں جو آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔
ایک جگہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) فرماتے ہیں کہ "بسیج خدا کا مخلص لشکر ہے۔" (3) لشکر مخلص خدا! الفاظ پرغور فرمائيں۔
دوسری جگہ فرماتے ہیں: "بسیج مدرسہ عشق ہے۔" (4)
یہ دونوں تعریفیں ایک ساتھ رکھیں، "لشکر مخلص خدا" یہ تعریف ظاہر کرتی ہے کہ بسیجی جنگجو ہے۔ رزم اور جنگ کے لئے ایک لشکر ہے۔ جنگجو ہونے کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ جسمانی اور مادی طاقت بھی ہو، باطنی شجاعت اور ارادہ بھی ہو اور جنگی تدابیر اور حکمت عملی بھی ہو۔
اس کا ایک نمونہ امیر المومنین (علیہ السلام) کی ذات گرامی ہے۔ عمرو بن عبدود کے مقابلے میں آپ جسمانی قوت کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں، شجاعت اور دلیری بھی دکھاتے ہیں اور جنگی تدابیر سے بھی کام لیتے ہیں۔ عمرو بن عبدود سے فرماتے ہیں کہ "ہم اور تم جنگ کریں گے یہ کون ہیں؟" وہ جیسے ہے پیچھے مڑتا ہے آپ اس پر وار کر دیتے ہیں۔ یہ جنگی تدبیر ہے۔ بنابریں جنگجو ہونے کا مطلب ہے مادی توانائی، روحانی طاقت اور فکری قوت۔
"لشکرمخلص خدا" کا اور کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ طاقت و توانائی کا یہ عظیم ذخیرہ ذاتی اقتدار کے لئے نہیں ہے۔
دنیا کے لشکر کس لئے کام کرتے ہیں؟ کس راہ میں آگے بڑھتے ہیں اور جںگ کرتے ہیں؟ بسیج خدا کے لئے جنگ کرتی ہے، وہ بھی اخلاص کے ساتھ۔ بسیج صرف خدا کے لئے ہے۔ بنابریں یہ بسیج کی جنگ اور اس کی طاقت ہے۔ "اشدّاء" (5) کا ثبوت پیش کرتی ہے۔
دوسری طرف مدرسہ عشق ہے۔ بسیجی عاشق ہے۔ دلدادہ ہے۔ لیکن یہ عاشقی اور شیدائیت معمولی اور غلط راستے پر نہیں ہے۔ اس عشق میں ایک مدرسہ کی ظرفیت اور گنجائش پائی جاتی ہے۔ یہ عشق منظم اور بامقصد ہے۔ اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ عشق خدا سے ہے۔ یہ عشق روحانیت سے ہے، عوام سے ہے اور اس راہ اور سمت سے عشق ہے جس پر وہ چل رہا ہے۔ وہ عاشقانہ انداز میں آگے بڑھتا ہے۔ مدرسہ عشق کا مطلب یہ ہے۔ آپ یہ نہیں فرماتے کہ بسیج عاشق ہے، بلکہ فرماتے ہیں کہ بسیج مدرسہ عشق ہے۔ اس عشق کی تعلیم ایک خاص سمت دیتی ہے۔
یہ تعریفیں صرف لفاظی نہیں تھیں، صرف ایک تصور نہیں تھا، سب نے ان مفاہیم کی حقیقت کو دیکھا ہے، میدان جنگ میں بھی اور میدان محبت میں بھی۔ سب نے آنکھوں سے دیکھا ہے کہ بسیج کیا کرتی ہے۔ میدان جنگ میں دسیوں ہزار بسیجی، جن میں اکثر بالکل گمنام ہیں، کارنامے انجام دیتے ہيں۔ عظیم کام کر جاتے ہیں۔ فیصلہ کن نقش چھوڑ جاتے ہیں۔
میرے عزیزو! آپ کو جنگ کا زمانہ یاد نہیں ہے، لیکن جنگ سے متعلق بعض کتابیں چھپ چکی ہیں، انہیں پڑھیں، دیکھیں کہ کیا کیا، کس طرح یہ دور گزارا، کس نیت کے ساتھ میدان میں آئے، کس عزم کے ساتھ قدم اٹھایا، کس طرح آگے بڑھے اور فیصلہ کن کارنامے انجام دیے۔
البتہ ان میں وہ ہستیاں بھی تھیں جو عظیم چوٹیوں کی حیثیت رکھتی تھیں۔ بسیج کی ایک چوٹی سلیمانی ہیں، ایک چوٹی صیاد شیرازی ہیں، شہید ہمت ہیں، شہید بابائی ہیں، شہید شیرودی ہیں، شہید ہمدانی ہیں اور ایسی ہی سیکڑوں ہستیاں ہیں جن کی مثال دنیا کے بنائے ہوئے (عسکری) اداروں میں نہیں مل سکتی۔ وہ اخلاص، وہ فداکاری، وہ شجاعت۔
یہ میدان جنگ ہے۔ اس کو سب نے دیکھا، یہ سب کی آنکھوں نے دیکھا۔ دفاع مقدس میں آپ بسیج کی جنگ کا مشاہدہ کریں۔ جو تھے انہوں نے قریب سے دیکھا ہے۔ اس کے بعد دوسرے میدانوں میں بھی۔ آپ نے دفاع مقدس نہیں دیکھا ہے، لیکن دفاع حرم کا دور دیکھا ہے۔ دوسرے میدان بھی ہیں۔ انہیں دیکھا اور ان کا مشاہدہ کیا ہے کہ بسیج کیا کرتی ہے۔ عوامی محبت کے میدان میں، خدمت کے میدان میں، سبھی میدانوں میں، تعمیر کے میدان میں، صحت کے میدان میں، قدرتی آفات کے مقابلے کے میدان میں، علم و تحقیق کے میدان میں۔ شہید فخری زادہ (6) جن کی شہادت کی برسی ہے، ایک بسیجی تھے۔ مرحوم کاظمی آشتیانی (7) بسیجی تھے۔ سائنس کے میدان میں۔ انہوں نے علم و دانش کی سرحدیں پار کر لیں۔ علم و دانش کے میدان میں ان میں سے بعض نے معمول کی عالمی سرحدیں عبور کر لیں۔ نئی حقیقتیں سامنے لانے اور بصیرتیں پیدا کرنے میں اہم کارنامے انجام دیے۔ بنابریں یہ جو امام نے 'لشکرمخلص خدا' اور 'مدرسہ عشق' فرمایا، ہم نے میدان عمل میں، زمین پر اس کے نمونے واضح اور اشکارا طور پر دیکھے۔
تیسرا نکتہ یہ ہے کہ بسیج ایک تنظیم سے پہلے ایک ثقافت اور تہذیب ہے۔ ایک فکر ہے۔ بنابریں وہ سبھی لوگ، جنہوں نے اس ثقافت کو تسلیم کیا ہے، اس راہ میں چلے ہیں، اس فکر کو اپنی راہ قرار دیا ہے، وہ چاہے اس تنظیم میں ہوں یا نہ ہوں، بسیجی ہیں۔ اس دائرے میں ایرانی قوم کا بہت بڑا حصہ آتا ہے۔ جبکہ بسیج کی تنظیم میں نہ ان کا نام ہے اور نہ رجسٹریشن۔ یہ ثقافت کیا ہے؟ یہ بسیجی ثقافت در حقیقت عوامی ہونا ہے، پابند عہد ہونا ہے، ذمہ داری کا احساس کرنا ہے، ملک کے معاملات میں موثر ہونا اور ملک کے مستقبل سے لاتعلق نہ رہنا ہے۔ بسیجی ثقافت انقلابی ہونا ہے، انقلاب کی قدر کرنا ہے، انقلاب کے معنی و مفہوم کو جاننا ہے۔ بسیجی ثقافت قانون سے نہ بھاگنا ہے، نظم و ضبط کا منکر نہ ہونا ہے، اصولوں کی مخالفت نہ کرنا ہے۔ یہ ہے بسیجی ثقافت۔
ایک بسیجی ممکن ہے کہ کسی بات پر کسی پر معترض ہو۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن بسیجی قانون شکنی نہیں کرتا۔ میں نے پہلے بھی کہا ہے (8) کہ دشمن کے ساتھ مشترکہ راستے پر نہیں چلتا۔
بسیجی ثقافت نمائشی اور دکھاوے کے کاموں سے پرہیز کرتی ہے۔ کھوکھلا کام صرف دکھاوے کے لئے اچھا ہوتا ہے۔ (بسیجی) اگر شو روم میں کچھ رکھتا بھی ہے تو اس کا کوئی مفہوم ہوتا ہے، اس کی کوئی حقیقت ہوتی ہے۔ وہ جس چیز کی نمائش کرتا ہے، اس میں معنی و مفہوم ہوتا ہے، حقیقت ہوتی ہے۔
بسیجی دکھاوے کا کام نہیں کرتا۔ حقیقی کام کے لئے اٹھتا ہے، حقیقی اقدام کرتا ہے۔ پتہ نہیں آپ نے اس رپورٹ پر توجہ دی اور اس پر غور کیا یا نہیں جو بسیج کے محترم کمانڈر نے پیش کی ہے۔ اس میں بہت اہم باتیں کہی گئی ہیں۔ (9) یہ حقیقت ہے۔ یہ کام حقیقی ہیں۔
بسیجی ثقافت میں کمزور پر رحم اور ظالم کے مقابلے میں شدت ہے۔ خدمت سب کے لئے عام ہے، سب کے لئے۔ جہاں سیلاب آیا وہاں بسیجی زانو تک کیچڑ میں چلا گیا تاکہ سیلاب زدہ گھر کو صاف کرے۔ گھر کے مالک سے اس کا نام نہیں پوچھتا، اس کا دین اور مسلک نہیں پوچھتا، اس کی قومیت نہیں پوچھتا، اس کا سیاسی نظریہ نہیں پوچھتا۔ یہ باتیں نہیں پوچھتا۔ جاکے خدمت کرتا ہے، وہ چاہے جو بھی ہو۔ یہ اہم ہے۔
بسیجی ثقافت میں تکبر اور غرور کی گنجائش نہیں ہے۔ یہ بسیجی ثقافت ہے۔ بعض اوقات اپنی پوزیشن کے لحاظ سے لوگوں کو حیثیت اور عزت مل جاتی ہے۔ اب اگر ہم اپنے آپ کو دیکھیں کہ ہمارا احترام ہے، ہمارے لئے نعرے لگائے جا رہے ہیں، ہمیں آگے بڑھایا جا رہا ہے، ہماری تعریف کی جا رہی ہے، تو ہم مغرور ہو جائيں، ہمارے اندر تکبر آ جائے، خود کو برتر اور اعلی سمجھنے لگیں! یہ بسیجی ثقافت کے خلاف ہے۔
امام سجاد (علیہ السلام) صحیفہ سجادیہ میں، دعائے مکارم اخلاق میں ہمیں سکھاتے ہیں کہ "لا ترفعنی فی النّاس درجۃ الا حططتنی عند نفسی" (10) کہ لوگوں میں تمہارا قد جتنا بلند ہو خود کو اتنا ہی چھوٹا کر لو، غرور میں مبتلا نہ ہو۔
بسیجی ثقافت میں حق جتانے سے اجتناب ہے۔ ہم انقلاب، ملک، حکومت، عوام ، پڑوسی اور دوست آشنا سب پر حق جتائيں اور اپنے اوپر کسی کا کوئی حق نہ سمجھیں، یہ بسیجی ثقافت نہیں ہے۔
بسیجی حق نہیں جتاتا بلکہ اپنے فرائض مد نظر رکھتا ہے، اپنے فریضے کو اہمیت دیتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے۔ بسیجی تنظیمی توانائیوں کو اپنے فائدے کے لئے استعمال نہیں کرتا۔ بسیجی اس توانائی کو جو تنظیم سے اس کو ملتی ہے، اپنے پاس امانت سمجھتا ہے اور عزت و آبرو کے ساتھ اس کی حفاظت کرتا ہے۔ بسیجی امین ہوتا ہے۔
یہ باتیں ہمارے لئے درس ہیں۔ امام جو فرماتے تھے کہ مجھے فخر ہے کہ بسیجی ہوں، ان کے اندر یہ سبھی خصوصیات موجود تھیں۔ یہ باتیں جو میں نے ابھی کہی ہیں، امام کے وجود میں مجسم تھیں۔ آپ ہمیشہ خود پر دوسروں کا حق سمجھتے تھے۔ ہمیشہ خود کو کمزور سمجھتے تھے، ہمیشہ عوام کو اپنے آپ سے برتر سمجھتے تھے۔ وہی نوجوان جو آتے تھے، آپ کا ہاتھ چومتے تھے، آنسو بہاتے تھے، امام انہیں خود سے بالاتر سمجھتے تھے۔ جہاں تک ہم نے امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کو پہچانا۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کو ہم نے نزدیک سے دیکھا ہے، امام اپنی عمر میں ایک لمحہ بھی اپنی ذات، اپنے آپ، اپنی مرجعیت اور اپنے اقتدار کی فکر میں نہیں رہے۔
بعد کا نکتہ جو چوتھا اور بہت اہم نکتہ ہے، بسیج کا وہ پہلو ہے جو ملّیت اور سرحدوں سے ماورا ہے۔ یہ بھی امام کے فرمودات میں ہے۔ آپ نے ملاحظہ فرمایا ہے کہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) "مزاحمت کے عالمی مراکز " کی اصطلاح استعمال فرمایا کرتے تھے۔(11) یہ وہی بسیج ہے، ہماری بسیج فورس نہیں ان کی اپنی بسیج ہے، لیکن ثقافت وہی ہے۔ استقامت کے عالمی مراکز کی تشکیل نے عملی شکل اختیار کر لی ہے۔ یعنی اس کے نمونے آپ خود اپنے علاقے میں مشاہدہ کر رہے ہیں۔
اب "باش تا صبح دولتش بدمد کاین ہنوز از نتایج سحر است (12)
(یعنی اس کا خورشید اقتدار طلوع ہونے دو، تب دیکھنا ابھی تو یہ صرف وقت سحر کے اثرات ہیں۔)
آپ اس علاقے میں دیکھیں! وہی استقامت کے مراکز جس کی نوید اور بشارت امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے دی تھی، آج علاقے کے مستقبل کا فیصلہ کر رہے ہیں۔ ہمارے اس علاقے کے مستقبل کا فیصلہ استقامت کے مراکز کر رہے ہیں۔ اس کا ایک نمونہ یہی آپریشن طوفان الاقصی ہے جس کے بارے میں، میں عرض کروں گا۔
چند سال قبل لبنان کے معاملے میں امریکیوں نے کہا کہ وہ نیا مشرق وسطی تشکیل دے رہے ہیں۔ (13) مشرق وسطی یعنی یہی مغربی ایشیا۔ مغرب والے، یورپ والے اور ان کے پیچھے چلنے والے، ہر چیز کو یورپ کے نقطہ نظر سے دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ جو یورپ سے نزدیک ہے، وہ مشرق قریب ہے، جو وسط میں ہے وہ مشرق وسطی ہے اور جو یورپ سے دور ہے وہ مشرق بعید ہے۔ یعنی پرکھنے کا محور یورپ ہے۔ یہ وہ غلط نام ہیں جو انھوں نے رکھے ہیں، دوسروں نے بھی انہیں کو یاد کیا اور زبان پر لاتے ہیں۔ (مشرق وسطی یعنی) مغربی ایشیا۔ انھوں نے کہا کہ وہ اس علاقے کو جس کو انہوں نے "مشرق وسطی" کا نام دیا ہے، نیے نقشے میں ڈھالنا چاہتے ہیں۔ یعنی اسے ایک نیا جغرافیائی نقشہ دینا چاہتے ہیں۔ کس بنیاد پر؟ امریکا کے ناجائز مفادات اور ضروریات کی بنیاد پر۔ وہ جو چاہتے تھے اور جس کی کوشش کی، وہ نہ ہو سکا۔
انھوں نے حزب اللہ کو ختم کرنا چاہا۔ ان کے نئے نقشے میں ایک ہدف یہ تھا، حزب اللہ کی نابودی۔ تینتیس روزہ جنگ کے بعد حزب اللہ پہلے سے دس گنا زیادہ قوی اور محکم ہو گئی۔ یہ جو میں دس گنا کہہ رہا ہوں تو یہ احتیاط سے کام لے رہا ہوں، حقیقت میں اس سے بھی زیادہ مضبوط ہوئی ہے۔ انھوں نے عراق کو نگل جانے کی کوشش کی، نہ کر سکے۔
عراق کا ماجرا عجیب ماجرا ہے۔ امریکیوں نے عراق پر امریکی حکومت مسلط کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایک امریکی جنرل (14) کو بر سراقتدار لائے۔ بعد میں جب دیکھا کہ امریکی جنرل سے کام آگے نہیں بڑھ رہا ہے تو اس کو ہٹا کے ایک غیر فوجی امریکی حاکم کو اقتدار میں لائے کہ وہ عراق کا سربراہ ہو۔(15) کوشش کی کہ عراق کا صدر یا سلطان ایک امریکی ہو، دیکھا کہ یہ بھی نہیں ہو سکتا تو امریکہ کے اشارے کے پابند ایک عراقی کو (16) اقتدار میں لائے۔ وہ بھی نہ ہو سکا اور آج تک ان کا مشن آگے نہیں بڑھ پایا۔
آج عراق میں مزاحمت کے مراکز، فلسطین کے معاملے میں مداخلت کر رہے ہیں اور حکومت عراق پوری قوت سے ٹھوس موقف اختیار کر رہی ہے۔ یعنی وہ چیز جس کا نام امریکیوں نے نیا مشرق وسطی رکھا تھا، وہ آج جو ہو رہا ہے، وہ اس سے ایک سو اسّی درجہ مختلف ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ پورے عراق کو ایک ساتھ ہڑپ کرجائیں، نہ کرسکے، نہ ہوا۔ وہ چاہتے تھے کہ شام پر قبضہ کر لیں، داعش اور جبہۃ النصرہ کے نام سے اپنے 'پراکسی عناصر' کو شام کی حکومت کے خلاف میدان میں اتارا، مسلسل ان کی تقویت کی، پشت پناہی کی، پیسے دیے، وسائل دیے، لیکن نہ ہو سکا۔ ناکام رہے۔ وہ نیا مشرق وسطی تشکیل دینے میں جو وہ چاہتے تھے پوری طرح ناکام رہے۔ اس مشرق وسطی کا ایک اہم پہلو یہ تھا کہ مسئلہ فلسطین کو غاصب صیہونی حکومت کے مفاد کے مطابق نمٹا دیں اور فلسطین نام کی کوئی چیز باقی نہ رہے۔ وہ خیانت آمیز دو ریاستی نظریہ جو انہوں نے پاس کیا تھا، اس کو بھی اندر اندر ختم کر دیا لیکن اپنے مقصد میں ناکام رہے۔
اب آپ دیکھیں کہ فلسطین کی پوزیشن بیس سال پہلے کے مقابلے میں کتنی مختلف ہو گئی ہے؟!
بیس سال پہلے فلسطین کیا تھا اور آج کیا ہے۔ حماس 20 سال پہلے کیا تھی اور آج کیا ہے۔ جی ہاں علاقے کے سیاسی جغرافیے میں بنیادی تبدیلی آ رہی ہے، لیکن امریکا کے فائدے میں نہیں بلکہ مزاحمتی محاذ کے حق میں۔ جی ہاں مغربی ایشیا کا سیاسی جغرافیا بدل گیا لیکن استقامتی تحریک کے حق میں۔ استقامتی تحریک کامیاب ہوئی ہے۔ امام نے صحیح سمجھا تھا، صحیح تشخیص دی تھی۔ استقامت کے مراکز نے ہوا کا رخ اپنے حق میں تبدیل کر دیا۔
اس نئے نقشے کی کچھ خصوصیات ہیں۔ میں ان میں سے بعض خصوصیات بیان کرتا ہوں۔ یہ نیا نقشہ جو تدریجی طور پر علاقے میں نافذ ہو رہا ہے، چند خصوصیات رکھتا ہے۔
اس کی پہلی خصوصیت 'ڈی امیریکنائیزیشن' ہے۔ یعنی کیا؟ یعنی علاقے پر امریکی تسلط کی نفی۔ اس کا مطلب امریکا سے سیاسی رابطے کا خاتمہ ہے۔ اب ہمیں یہ توقع نہیں رکھنا چاہئے کہ علاقے کی حکومتیں امریکا سے سیاسی رابطہ ختم کر لیں گی۔ نہیں ان کے سیاسی اور اقتصادی روابط سب سے ہیں، امریکا سے بھی ہیں، رکھیں! لیکن اب امریکی تسلط روز بروز کمزور سے کمزور تر ہو رہا ہے۔ یہ جو سلسلہ تھا کہ امریکہ فلاں ملک میں فلاں تبدیلی چاہتا تھا، تیل سے متعلق، اسلحے سے متعلق، مختلف قسم کے رابطوں سے متعلق، اب آہستہ آہستہ زائل ہو رہا ہے، بہت زیادہ زائل ہو چکا ہے۔ کافی حد تک زائل ہو چکا ہے۔
امریکا نے برسوں پہلے علاقے پر تسلط جمانے کی پالیسی شروع کی تھی، اس پالیسی کا اہم وسیلہ صیہونی حکومت کی حمایت تھی کہ جتنا ہو سکے اس کی طاقت بڑھائے، اس کے ہاتھ پیر کھولے، دوسروں کو اس کے ساتھ روابط قائم کرنے کے لئے تیار کرے۔ البتہ یہ اس کی پرانی پالیسی ہے۔ دس سال قبل، ایک دو عشرے پہلے، اس نے اس سیاست میں شدت پیدا کی۔ افغانستان گئے، عراق گئے، ان ملکوں پر قبضہ کرکے تسلط جمانا چاہتے تھے (لیکن) نہ کر سکے۔ آج اس علاقے میں امریکہ کو ہٹانے کی سیاست اور رجحان پایا جاتا ہے۔
آج اس علاقے میں آپ کے سامنے اس کی ایک واضح اور آشکارا علامت، یہی آپریشن طوفان الاقصی ہے۔ یہ آپریشن صیہونی حکومت کے خلاف ہے لیکن اس کا ہدف امریکا کو ہٹانا ہے۔ یہ تاریخ ساز واقعہ ہے۔ اس نے علاقے میں امریکی پالیسی کا نقشہ درہم برہم کر دیا اور ان شاء اللہ (اگر) یہ طوفان الاقصی جاری رہا تو اس علاقے میں امریکی پالیسیوں کے نقشے کا جڑ سے خاتمہ ہو جائے گا۔
تو اس علاقے میں جیوپولیٹکس کا نقشہ تبدیل ہونے کی ایک خصوصیت تو یہ ہے کہ امریکی چھاپ کو مٹانے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ بعض ممالک جو سو فیصد امریکا کے تابع تھے، انھوں نے بھی امریکا سے دوری بنانا شروع کر دیا ہے، یہ تو آپ دیکھ رہے ہیں اور سن رہے ہیں۔ اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
ایک دوسری خصوصیت یہ ہے کہ انھوں نے اس علاقے میں جعلی اختلاف مسلط کر رکھا تھا، اختلاف کی یہ دیوار گر گئی۔ عرب اور غیرعرب کا اختلاف، شیعہ اور سنی کا اختلاف، ہلال شیعہ کا افسانہ، علاقے میں شیعیت پھیلنے کے خطرے کی افواہ، جتنی بھی بے سر پیر کی باتیں انھوں نے پھیلا رکھی تھیں وہ سب ختم ہو گئيں۔
اسی آپریشن طوفان الاقصی میں اور اس سے پہلے فلسطینیوں کی زیادہ مدد کس نے کی؟ شیعوں نے کی۔ شیعہ لبنان، شیعہ عراق عرب اور غیر عرب شیعہ۔ یہ اختلافات ختم ہو گئے اور اب ان مسلط کردہ اختلافات کی جگہ علاقے میں نئی دھڑے بندی نے لے لی ہی، استقامتی دھڑے اور سرتسلیم خم کرنے والوں کے دھڑے نے۔
استقامت کا مطلب کیا ہے؟ استقامت یعنی امریکا کی زور زبردستی، تلسط پسندی اور مداخلتوں کو تسلیم نہ کرنا۔ یہ استقامت ہے۔ بعض سو فیصد استقامت رکھتے ہیں اور بعض اسّی فیصد اور بعض پچاس فیصد۔ لیکن آج علاقے میں استقامت کی تحریک واضح اور آشکارا ہے۔ اس کے مقابلے میں سر تسلیم خم کر دینا ہے، جھک جانا ہے جو ذلت آمیز ہے اور اقوام اور حکومتوں کو ذلیل کرنے والا راستہ ہے۔
ہمارے علاقے کے نئے نقشے کی ایک اور خصوصیت مسئلہ فلسطین کا حل ہے۔ خدا کی توفیق سے مسئلہ فلسطین حل کی طرف بڑھ رہا ہے۔
مسئلہ فلسطین کے حل کا مطلب کیا ہے؟ یعنی پوری سرزمین (فلسطین) پر فلسطینی حکمرانی۔ ہم نے اپنا فارمولا پیش کر دیا ہے۔ فلسطین میں ریفرنڈم۔ غاصبوں کو اس میں شرکت کا حق نہیں ہے۔ لیکن خود فلسطینی، چاہے وہ سرزمین فلسطین میں ہوں، یا فلسطین کے پڑوسی ملکوں میں پناہ گزیں کیمپوں میں ہوں، یا دوسری جگہوں پر، جہاں بھی ہوں، کئی ملین فلسطینی ہیں، انہیں حق رائے دہی حاصل ہے۔ (ریفرنڈم) دنیا کی پسندیدہ، قابل قبول اور فلسطین کو چلانے کی متمدن منطق ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ "آپ جو کہتے ہیں اس کو صیہونی حکومت قبول نہیں کرتی، وہ اس کو تسلیم نہیں کرے گی۔" ہم جانتے ہیں کہ وہ اس کو تسلیم نہیں کرے گی۔ لیکن اس کا ماننا اس کے اختیار میں نہیں ہے۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کوئی ملک یا کوئی حکومت کسی بات کو پسند نہیں کرتی لیکن اس کو مجبور کر دیا جاتا ہے اس کو ماننا ہی پڑتا ہے۔ اگر اس پر عمل کیا جائے اور ان شاء اللہ عمل ہوگا، اگر یہی استقامت کے مراکز اپنے ارادے اور عزم راسخ سے اپنے مطالبات پورے کرنے کے لئے سنجیدگی سے کام کریں تو یہ ہوکر رہے گا، اس میں شک نہیں۔
بنابریں مسئلہ فلسطین کا حل بھی اس کی ایک خصوصیت ہے جو ان شاء اللہ نیا مغربی ایشیا دیکھے گا۔
دنیا کے بعض ترجمان علاقے کے بارے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے نظریے کے بارے میں جھوٹ بولتے ہیں کہ "ایران کہتا ہے کہ یہودیوں یا صیہونیوں کو سمندر میں بہا دینا چاہئے۔" ہرگز نہیں۔ یہ بات بہت پہلے دوسروں نے یا عربوں میں سے کچھ لوگوں نے کہی تھی۔ ہم نے یہ کبھی نہیں کہا۔ ہم کسی کو بھی سمندر میں نہیں بہائيں گے۔ ہم کہتے ہیں کہ ہماری رائے وہی ہے جو عوام کی رائے ہے۔ جو حکومت، فلسطینی عوام کے ووٹوں سے بر سر اقتدار آئے، پھر جو لوگ وہاں ہیں اور دوسرے ملکوں سے آئے ہوئے ہیں، ممکن ہے کہ ان سب سے کہے کہ فلسطین میں ہی رہیں، جیسا کہ بعض افریقی ملکوں میں جہاں اپنے دورصدارت میں، میں گیا ہوں، لوگوں نے جدوجہد کی، کامیاب ہوئے۔ وہاں انگریز حاکم تھے، مقامی لوگوں نے انگریزوں پر غلبہ حاصل کیا، لیکن انہی انگریزوں کو اپنے پاس روک لیا۔ مصلحت اس میں سمجھی کہ انہیں رہنے دیا جائے۔ ممکن ہے کہ فلسطینی بھی انہیں رہنے دیں۔ یا کہیں کہ بعض جائيں اور بعض رہ جائيں یا سب جائيں۔ یہ اختیار انہیں ہے۔ ہم کبھی بھی اس بارے میں کوئی رائے نہیں دیں گے۔ یہ (چند نکات) اس مسئلے میں۔
ایک بات آپریشن طوفان الاقصی کے بارے میں عرض کروں گا۔ یہ طوفان الاقصی اہم اور بے نظیر واقعہ ہے جس نے اہداف کو نزدیک کر دیا ہے، اہداف تک پہنچنے کا راستہ مختصر کر دیا ہے، آسان بنا دیا ہے اور بہت بڑا کام کیا ہے۔
صیہونی حکومت کے ہوش و حواس اڑ گئے۔ اس نے اسپتالوں، اسکولوں اور عوام کی آبادیوں پر بمباری کرکے، اور بچوں کو قتل کرکے، اس طوفان کو روک دینے کی کوشش کی لیکن نہ روک سکی اور روک بھی نہیں پائے گی۔ یہ طوفان ان جرائم سے رکنے والا نہیں ہے۔
آپ اخبارات اور جرائد وغیرہ میں پڑھ رہے ہیں، میں تکرار نہیں کرنا چاہتا، صیہونی حکومت اپنا کوئی بھی ہدف حاصل نہ کر سکی۔ غصے میں آکر عوام کی جان کو آ گئی، مگر اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا اور نہ ہوگا بلکہ اس سے اس کی زیادہ رسوائی ہوئی۔
یہ وحشیانہ اقدام جو صیہونی حکومت نے کیا، یہ بے رحمانہ کام جو اس نے کیا، اس نے نہ صرف یہ کہ اس حکومت کو رسوا کر دیا بلکہ امریکا کی عزت بھی خاک میں ملا دی۔ امریکا کی آبرو ختم کر دی۔ چند مشہور یورپی ملکوں کی آبرو بھی ختم کر دی۔ مغربی تہذیب و تمدن کو بھی خاک میں ملا دیا۔ مغربی تہذیب و تمدن تو یہ ہے کہ جب وہ فاسفورس بمباری کرتے ہیں اور پانچ ہزار بچوں کو شہید کر دیتے ہیں تو ایک (مغربی) ملک کا سربراہ کھڑے ہوکر کہتا ہے کہ اسرائیل اپنا دفاع کر رہا ہے۔ یہ اپنا دفاع ہے؟! مغربی تمدن یہ ہے۔ اس معاملے میں یہ مغربی تہذیب بھی رسوا ہو گئی۔
یہ المیہ جو تقریبا پچاس دن میں رونما ہوا، ان جرائم کا خلاصہ ہے جو صیہونی حکومت پچھتر سال سے فلسطین میں انجام دے رہی ہے۔ اب ان کا نچوڑ پیش کیا ہے۔ ورنہ اس نے ان برسوں کے دوران ہمیشہ اسی طرح کے کام کئے ہیں۔ عوام کو قتل کرتی ہے، ان کو گھروں سے باہر نکالتی ہے، ان کے گھروں کو مسمار کرتی ہے۔ یہی کالونیاں جو بنائی گئی ہیں، کہاں بنائی گئی ہیں؟ یہ صیہونی کالونیاں کس جگہ بنائی گئی ہیں؟ عوام کے گھروں کو مسمار کیا، ان کی کھیتیوں کو تباہ کیا اور پھر ان پر صیہونی کالونیاں بنائيں۔ کسی نے مزاحمت کی تو اس کو مار دیا، بچہ سامنے آیا تو اس کو بھی قتل کر دیا۔ بچوں کو قتل کیا، عورتوں کو قتل کیا۔ یہ وہ کام ہیں جو صیہونی پچھتر سال سے کر رہے ہیں۔ میری نظر میں طوفان الاقصی رکنے والا نہیں ہے۔ ان شاء اللہ، جان لیں کہ خدا کی قوت اور نصرت الہی سے جاری رہے گا۔
میرے معروضات ختم ہوئے لیکن بسیج سے چند سفارشات اور نصیحتیں کرنا چاہتا ہوں۔ یہ سفارشات بسیج کے ادارے کے لئے بھی ہیں اور ان میں سے بعض سبھی بسیجیوں کے لئے بھی ہیں۔
میری پہلی نصیحت بصیرت بڑھانے کے بارے میں ہے۔ اپنے اندر بھی اور دوسروں کے اندر بھی۔ بصیرت کا مسئلہ بہت اہم ہے۔
دوسری نصیحت یہ ہے کہ اہم معاملات میں اقدام کا اختیار آپ کے پاس ہونا چاہئے۔ دشمن کی کورٹ میں نہ کھیلیں۔ اگر بصیرت ہو تو سمجھ لیں گے کہ اس معاملے میں دشمن کا منصوبہ کیا ہے۔ دشمن کے منصوبے کے مطابق عمل نہ کریں اور آج کی اصطلاح میں دشمن کی کورٹ میں نہ کھیلیں۔
ایک نصیحت یہ ہے کہ مستقبل کی امید ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ وسوسوں کو اپنے قریب نہ آنے دیں۔
اس بات کی واضح دلیل کہ آج نوجوانوں کو ہمیشہ پر امید رہنا چاہئے، یہ ہے کہ گزشتہ چالیس سے کچھ زائد برسوں کے دوران ہمیشہ پابندی رہی ہے، ہمیشہ اقتصادی محاصرہ رہا ہے، (اس کے باوجود) اتنی پیشرفت ہوئی ہے۔ صرف اسلحے کے (شعبے) میں نہیں جو ٹیلیویژن پر دکھائی گئی اور سب نے دیکھا، (بلکہ) ملک کے مختلف شعبوں میں، (عوام کے لئے) خدمات کے شعبے میں، مختلف شعبوں میں عوام کو رفاہ و اسائش فراہم کرنے میں، مواصلات کے شعبے میں، سائنس میں، ٹیکنالوجی میں، پیداوار میں، غیر معمولی پیشرفت ہوئی ہے۔ یہ پیشرفت ایسی حالت میں ہوئی ہے کہ دشمن نے اپنے خیال میں ہمارے لئے ترقی کے سارے راستے بند کر دیے تھے۔ تجارت پر پابندی تھی، برآمدات پر پابندی تھی، بہت سی چیزوں کی درآمدات پر پابندی تھی، ان حالات میں ملک نے ترقی کی۔ تو پھر اس ملک میں جو اس طرح ترقی کر رہا ہے، ناامیدی کی کوئی جگہ ہے؟ آپ ہر کام کر سکتے ہیں۔ اگر میدان میں رہیں، کوشش کریں، اگر کام کریں تو اب تک جتنی پیشرفت ہوئی ہے، اس کی سوگنا ترقی کر سکتے ہیں۔
ایک نصیحت یہ ہے کہ غرور سے پرہیز کریں۔ جیسا کہ ہم نے عرض کیا، مغرور نہ ہوں۔ اس بات پر کہ ہم اتنے اچھے ہیں، ہماری اتنی عزت ہے، ہم اتنے بسیجی ہیں، ہماری اتنی تعریف ہوتی ہے، امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے یہ کہا ہے، دوسرے لوگوں نے بھی یہ کہا ہے، (اس پر) آپ مغرور نہ ہوں۔ خدا کا شکر ادا کریں کہ آپ کو یہ توفیق ملی، خدا نے آپ کو توفیق دی کہ بسیجی ہوں۔ خدا کا شکر ادا کریں اور خدا سے دعا کریں کہ یہ نعمت آپ سے واپس نہ لے۔
ایک نصیحت یہ بھی ہے کہ بڑے کاموں میں عاجزی اور ناتوانی کا احساس نہ کریں۔ اگر ہمارے سامنے کوئی ایسا کام ہو، جس کو انجام نہ دے پائيں تو اگر ہمت کریں، تحمل سے کام لیں اور کوشش کریں تو یقینا یہ کام ہوگا۔ جن کاموں میں فوری طور پر ہمیں ایسا لگے کہ نہیں ہو سکے گا، ان میں راستہ یہ ہے کہ ہمت کریں، ضروری تحمل سے کام لیں، جلدبازی نہ کریں اور کوشش جاری رکھیں۔ یقینا ہم ہر بڑا کام کر سکتے ہیں۔ عاجزی کا احساس کبھی نہ کریں۔
ایک نصیحت یہ ہے (جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا) نمائشی اور دکھاوے کے کھوکھلے کاموں سے پرہیز کریں۔ شو روم میں کچھ چیزیں نمائش کے لئے رکھی جا سکتی ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، کبھی ضروری ہوتا ہے، اس وقت جب وہ چیز اہم ہو۔
اگلی نصیحت یہ ہے کہ یہ صفت اور عہدہ جو آپ کو عطا ہوا ہے، یعنی بسیجی صفت اور بسیج کا عہدہ، یہ آپ کے پاس خدا کی امانت ہے۔ اس امانت کی قدر کریں، امین رہیں اور اس امانت کی اچھی طرح حفاظت کریں۔
ایک نصیحت یہ بھی ہے کہ جھوٹی دھڑے بندی سے پرہیز کریں۔ ملک میں مستقل طور پر دو دھڑے بنا رہے ہیں۔ زید و عمرو کی طرفداری، اس نظرئے کی طرفداری، اس کی طرفداری، یہ کیسی باتیں ہیں؟! جو لوگ آپ کی بنیادوں کو، آپ کے اصولوں کو، آپ کے دین کو، آپ کے انقلاب کو اور ولایت فقیہ کو، ان باتوں کو قبول کریں وہ آپ کے بھائی ہیں۔ ممکن ہے کہ پسند میں آپ سے اختلاف ہو۔
ایک بات جس کا واقعی شکوہ اور گلہ کرنا چاہئے، سوشل میڈیا پر جاری ہونے والے بعض بیانات ہیں۔ بلا وجہ کی باتوں میں یہ اس پرحملہ کرتا ہے وہ اس پر حملہ کرتا ہے! اس سے پرہیز کریں۔ آپ تو بسیجی ہیں، آپ (یہ کام) نہ کریں۔
آخری نصیحت یہ ہے کہ آپریشنل (میدان میں رہنے والے) افراد کے ساتھ ہی پلاننگ کرنے والے افراد کو بھی اس ادارے میں لائيں۔ تدبیر، فکر اور پلاننگ کی ضرورت، شجاعت اور دلیری سے پہلے ہے۔ تدبیر کے ساتھ آگے بڑھیں۔
اور میری آخری سفارش یہ ہے کہ خدا پر توکل کریں۔ من یتوکل علی اللہ فھو حسبہ (17) خداوند عالم ان شاء اللہ آپ سب کی حفاظت فرمائے۔
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
1۔ رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے پہلے، بسیج مستضفین کے سربراہ جنرل غلام رضا سلیمانی نے رپورٹ پیش کی۔
2۔ صحیفہ امام، جلد 21 صفحہ 194 ہفتہ بسیج کی مناسبت سے 23-11-1988 کو ایرانی عوام اور بسیجی جوانوں کے لئے پیغام
3۔ صحیفہ امام، جلد 21 صفحہ 194 ہفتہ بسیج کی مناسبت سے 23-11-1988 کو ایرانی عوام اور بسیجی جوانوں کے نام پیغام
4۔ صحیفہ امام، جلد 21 صفحہ 194 ہفتہ بسیج کی مناسبت سے 23-11-1988 کو ایرانی عوام اور بسیجی جوانوں کے نام پیغام
5۔ سورہ فتح کی آیت نمبر 29 کی طرف اشارہ۔ " اشداء علی الکفار رحماء بینھم "
6۔ ایران کے ایٹمی اور دفاعی سائنسداں، شہید محسن فخری زادہ 27 نومبر 2020 کو تہران کے مضافاتی علاقے دماوند میں شہید کر دئے گئے تھے۔
7۔ سعید کاظمی آشتیانی، اسلامی انقلاب کے طرفدار ممتاز سائنسداں تھے جنہوں نے بیالوجی میں کافی تحقیقات و ایجادات کی ہیں اور یونیورسٹی جہاد کمیٹی کے رویان ریسرچ سینٹر کے سربراہ تھے۔ جب وہ اس تحقیقاتی ادارے کے سربراہ تھے تو ایران نے، بانجھ پن کے علاج اور جینیاتی اسٹم سیلز کو فریز کرنے نیز حیوانات کی کلوننگ کے میدان میں کافی پیشرفت کی۔
8۔ یونیورسٹی طلبا سے خطاب 26-4-2022
9۔ بسیج مستضعفین کے سربراہ جنرل غلام رضا سلیمانی نے اپنی رپورٹ میں ثقافتی، سماجی، سیکورٹی اور سائنس کے میدانوں میں نیز حقائق کے بیان کے جہاد، عوام کی خدمت کے جہاد لوگوں میں امیدیں بڑھانے کے جہاد میں اس ادارے کے اقدامات بیان کئے اور ملک کو لاحق ہر قسم کے خطرات نیز صیہونی حکومت کے جرائم کے مقابلے کے لئے مکمل آمادگی کا اعلان کیا۔
10۔ دسویں دعا
11۔ صحیفہ امام، جلد 21 صفحہ 195۔ ہفتہ بسیج کی مناسبت سے 23-11-1988 کو ایرانی عوام اور بسیجی جوانوں کے نام پیغام
12۔ انوری۔ دیوان کلام، قصائد ( تھوڑے سے فرق کے ساتھ)
13۔ رالف پیٹرز (امریکا کی نیشنل وار اکیڈمی کے ریٹائرڈ کرنل) نے خونی سرحدوں کے زیر عنوان ایک مقالے میں، جو جون 2006 میں ایک امریکی جریدے میں شائع ہوا، نئے مشرق وسطی کے نام سے مغربی ایشیا میں نئی سرحدوں کا نیا نقشہ پیش کیا اور اس علاقے میں تغیرات کی دشواریوں کو عوام کے امن و آشتی تک پہنچنے کے لئے ضروری درد سے تعبیر کیا ہے۔ یہ عبارت اس وقت گریٹر مشرق وسطی کی جگہ لوگوں کی زبانوں پر رائج ہوئی جب امریکا کی اس وقت کی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس نے تینتیس روزہ جنگ کے دوران اکیس جولائی 2006 کو تل ابیب میں بات کرتے ہوئے، لبنان پر صیہونی حکومت کے حملے کو نئے مشرق وسطی کی پیدائش کے درد زہ سے تعبیر کیا اور کہا کہ ہمارے ہر کام کا مقصد نئے مشرق وسطی کے لئے دباؤ بڑھانا ہے نہ کہ پرانے مشرق وسطی کی واپسی کے لئے۔
14۔ جے گارنر
15۔ پال بریمر
16۔ غازی مشعل عجیل الیاور
17۔ سورہ طلاق، آیت نمبر3 "۔۔۔۔۔ اور جو بھی خدا پر اعتماد کرے، اس کے لئے وہ کافی ہے۔