دکھوں کا سامنا

دکھ، انسانیت کے سب سے عالمی موضوعات میں سے ایک ہے۔ ہم اپنی سعادت کو، اپنی زندگي میں اٹھائے گئے دکھوں کی کسوٹی پر تولتے ہیں۔ کبھی یہ دکھ اور تکلیف، جسمانی ہوتی ہے اور کوئي بیماری یا کوئي زخم ہمیں تکلیف دیتا ہے، کبھی یہ دکھ روحانی ہوتا ہے اور کسی عزیز کا بچھڑ جانا، کسی اثاثے کا ہاتھ سے نکل جانا یا کسی مقصد کو حاصل نہ کر پانا ہمیں دکھ پہنچاتا ہے۔ کبھی ہمیں بے روزگاری سے تکلیف ہوتی ہے، کبھی کام کا بوجھ ہمیں رنجیدہ کر دیتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ہمیں اپنی زندگي میں کبھی پانی کی قلت سے تکلیف ہو اور کبھی سیلاب ہمیں تکلیف سے دوچار کر دے۔

ہم اپنی زندگي کے کسی نہ کسی دور میں عام طور پر مذکورہ بالا باتوں میں بعض تکلیفوں کا سامنا کرتے ہیں لیکن آج کل غزہ کے عوام کو ان سبھی مصائب و آلام کا سامنا ہے جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا۔ کچھ بچے جن کے جسم کا کوئي حصہ کٹ گيا ہے یا وہ بری طرح جل گئے ہیں، اسپتالوں میں ایسے ڈاکٹر کے آنے کے انتظار میں ہیں جس کے لیے فرصت اور آرام کے اوقات بے معنی ہو چکے ہیں اور وہ ہر دن جہاں تک اس میں جاگتے رہنے کی سکت ہوتی ہے، کام کرتا ہے۔ خیموں میں کچھ عورتیں اور بچے جن کے سر پیاس کی وجہ سے پیدا ہونے والے درد سے پھٹے جا رہے ہیں اور جو کیچڑ آلود سیلاب کے پانی کو دیکھ رہے ہیں جو خیمے کے اندر ان کی اس سخت زندگي کو بھی تباہ کر دینا چاہتا ہے۔ غزہ کا جوان جس نے محاصرہ شدہ اس شہر میں اپنی پیدائش کے وقت سے ہی باہر کی زندگي نہیں دیکھی ہے، اپنی سرزمین کی آزادی کی راہ میں کوئي قدم اٹھانے کے لیے، اسی غزہ شہر تک کو دیکھنے سے بھی خود کو محروم کر لیتا ہے اور مہینوں سے زیر زمین سرنگ میں غاصب صیہونی فوج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ دکھ سہنا اور تکلیف اٹھانا، ایک طرح سے اس دنیا میں زندگی کا گوہر ہے لیکن خود اس سے بھی زیادہ اہم، ان دکھوں کا سامنا کرنے کا ہمارا طریقہ ہے۔

فلسطینی عوام کو پہچانا نہیں گيا ہے

صیہونی حکام، غزہ کے عوام پر اس طرح کا تشدد کرتے ہی رہے ہیں اور اس بار بھی وہ بڑی اچھی طرح جانتے ہیں کہ عام شہریوں پر اس طرح کی جنون آمیز بمباری انھیں کتنی تکلیف پہنچائے گي لیکن اس بار کے حملوں میں صیہونی حکومت کے جرائم کی شدت یہ دکھاتی ہے کہ غاصب صیہونیوں کے ذہن میں 7 اکتوبر کو مارے گئے لوگوں کا انتقام لینے سے ہٹ کر کوئي مقصد ہے۔ جنگ کے بالکل ابتدائي دنوں میں ہی یہ بات گردش کرنے لگی تھی کہ صیہونی حکومت غزہ کے لوگوں کو بالجبر مصر کے صحرائے سینا میں پہنچانے کا ارادہ رکھتی ہے۔(1) صیہونی حکام نے اپنی باتوں میں کھل کر کہا کہ وہ غزہ میں حماس اور استقامت کو پوری طرح ختم کرنا چاہتے ہیں۔(2) بات یہاں تک پہنچ گئي کہ بعض لوگوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اسرائيل، غزہ کو کسی بھی طرح کی زندہ مخلوق سے عاری ایک ویرانے میں بدلنا چاہتا ہے۔(3)

مگر اس انتہائي گھٹیا اور پست سوچ کے مقابلے میں غزہ میں ایک بلند چوٹی نے سر ابھارا۔ غزہ کے عوام پر جنگ کا دباؤ جتنا بڑھتا جاتا ہے، اتنا ہی خداوند عالم پر ان کے ایمان اور مصائب و مشکلات پر ان کے صبر کے زیبا مناظر سامنے آتے جاتے ہیں۔

 

 

یہ بزرگ فلسطینی، بمباری سے تباہ اپنے گھر کے پاس قرآن مجید کے اس فقرے کی تلاوت کر رہا ہے کہ "اللہ ہمارے لیے کافی ہے اور وہ سب سے اچھا پشت پناہ ہے۔" یہ بوڑھا فلسطینی، مزاحمتی گروہوں کی حمایت کا اعلان کر رہا ہے۔

 

 

 

ایک باپ، جس نے جنگ میں اپنے تین بچوں کو کھویا ہے، خدا کا شکر ادا کر رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ اس نے اللہ اور اس کے پیغمبر کی راہ میں تین شہیدوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔

 

 

 

یہ وہ ماں ہے جس کا بیٹا شہید ہو گيا ہے اور وہ بلند آواز سے کہہ رہی ہے کہ میرے بیٹے بیت المقدس پر قربان۔

 

 

ایک زخمی جوان جو گہرے زخموں کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہے اور پرسکون ہو جاتا ہے۔

 

 

اور ایک بچہ جب یہ دیکھتا ہے کہ اس کا بھائي موت کی آغوش میں جانے والا ہے تو کوشش کرتا ہے کہ اسے کلمہ (اشہد ان لا الہ الا اللہ و اشہد ان محمد رسول اللہ) یاد دلائے تاکہ وہ کلمہ پڑھتے ہوئے اس دنیا سے جائے۔

ان سارے مناظر نے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ایک ایسی مزاحمت کو جنم دیا ہے جو آج اور جنگ کو تقریبا 80 دن گزر جانے کے بعد صیہونی حکومت پر روز بروز سیاسی(4) معاشی، یہاں تک کہ عسکری دباؤ بڑھاتی جا رہی ہے اور بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ امریکی حکام تک غزہ میں جنگ کی شدت کو کم کرنے کی بات کرنے لگے ہیں۔(5)

اس استقامت و مزاحمت کا سرچشمہ کیا ہے؟

جس طرح سے غزہ کی حالیہ جنگ نے صیہونی حکومت کی نسل پرستی اور حیوانیت کے سلسلے میں دنیا کے لوگوں کی آنکھیں پہلے سے زیادہ کھول دی ہیں، اسی طرح دنیا نے غزہ کے لوگوں کا ایک ایسا جذبہ دیکھا ہے جو ان کے لیے بے مثال ہے۔ غزہ کے لوگوں کا یہ غیر معمولی صبر، دنیا کے دیگر لوگوں کے لیے حیرت انگیز اور ساتھ ہی قابل داد تھا۔ جنگ شروع ہونے کے کچھ ہی عرصے اور سوشل میڈیا پر ان ویڈیوز کے وائرل ہو جانے کے بعد، غیر مسلم ممالک میں لوگوں کے ذہن میں غزہ کے لوگوں کی استقامت اور دین اسلام کے بارے میں تجسس پیدا ہو گیا۔(6) ان میں سے بہت سے لوگوں نے اپنے عزیزوں کی لاشوں کے قریب یا بمباری سے تباہ ہو چکے اپنے گھروں کے نزدیک غزہ کے عوام کے قرآن پڑھنے کے مناظر دیکھ کر قرآن مجید خریدنے کی کوشش کی(7) اور سوشل میڈیا کے بہت سے چینلز اور گروپس پر قرآن کے مطالعے کے گروپ بنا دیے گئے۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اس طرح کے غم رسیدہ افراد اپنے عزیز ترین لوگوں کے مارے جانے کے بعد بھی خدا کا شکر ادا کریں اور بدستور استقامت جاری رکھیں؟(8)

اس سوال کا سب سے بہتر جواب شاید صیہونی حکومت کے ریٹائرڈ کرنل اور مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر ڈاکٹر مردخائي کیدار نے اسرائيل کے ٹی وی چینل 14 کے پروگرام میں دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے دیگر صیہونی حکام کے برخلاف مزاحمت کے ناقابل یقین پہلوؤں کی حقیقت سمجھ لی ہے۔ انھوں نے اس پروگرام میں کہا: میں نے بارہا کہا ہے کہ اگر حماس کا صرف ایک رکن  ہی باقی بچا ہو اور اس کا ایک ہاتھ اور ایک پیر بھی کٹ گیا ہو اور اس کے دوسرے ہاتھ میں صرف دو انگلیاں ہی باقی بچی ہوں تو وہ ایک تباہ شدہ مسجد کے اوپر کھڑا ہو جائے گا اور فاتح کی طرح اپنی ان دو انگلیوں کو فتح کی علامت کے طور پر اوپر کر دے گا۔ کیوں؟ اس لیے کہ اس کے بچے اور اس کے پوتے اور نواسے اس کا راستہ جاری رکھیں گے۔" انھوں نے اس کے بعد اس ناقابل شکست جذبے کا سبب بیان کرتے ہوئے کہا: "قرآن میں ایک آیت ہے جو کہتی ہے کہ خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے، "ان اللہ مع الصابرین" خدا ان لوگوں کے ساتھ ہے جو طویل عرصے تک صبر کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ صبر کا مطلب یہ ہے کہ سرنگوں میں دو یا تین مہینے تک رہو، دن کی روشنی کو نہ دیکھو اور تمھیں کھانا بھی بڑی مشکل سے ملے، پھر  اپنی کلاشنکوف کے ساتھ باہر نکلو اور ایک یہودی کو قتل کر دو، کیوں؟ اس لیے کہ اس میں طویل مدت تک صبر کرنے کی طاقت ہے ... وہ لوگ خدا کے لیے زندگي گزارتے ہیں اور خدا ان کے ساتھ ہے۔ وہ لوگ خدا کے لیے جہاد کرتے ہیں اور ہم آزادی کے لیے جنگ کرتے ہیں۔ ہماری جنگ مقدس نہیں ہے ... اسلام میں اگر ہم یہ نہ کہیں کہ واحد کھلاڑی خدا ہے تو کم از کم اصل کھلاڑی تو خدا ہی ہے لیکن ہمارے نزديک اگر خدا کھیل کے میدان میں ہو بھی تو وہ قطعی طور پر بینچ پر بیٹھا ہوگا۔ یہ وہ بات ہے جو انھیں نفسیاتی توانائي حتیٰ جسمانی طاقت بھی عطا کرتی ہے۔"

مجرّب صبر

شہید الحاج قاسم سلیمانی نے، اس انٹرویو میں جس میں وہ صیہونی حکومت کے ساتھ حزب اللہ لبنان کی 33 روزہ جنگ کے مختلف پہلوؤں کی تشریح کر رہے تھے، امام خامنہ ای کی ایک عرفانی پیشگوئي کا ذکر کیا تھا اور کہا تھا کہ جنگ کے شروعاتی دنوں میں مشہد مقدس میں رہبر انقلاب اسلامی سے ان کی ایک ملاقات ہوئي تھی جس میں انھوں نے اس جنگ میں حزب اللہ کی فتح کی نوید دی تھی۔ اس جنگ میں بھی امام خامنہ ای نے اپنے 25 اکتوبر کے خطاب میں ان دکھوں اور مصائب پر صبر کے نتیجے میں فلسطینیوں کی فتح کی نوید دی ہے۔ انھوں نے کہا: "ان لوگوں نے واقعی بڑے صبر کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس کے کچھ مناظر عالمی میڈیا اور ہمارے ملک کے ذرائع ابلاغ نے دکھائے۔ اس کا بیٹا شہید ہو جاتا ہے، پروردگار کی حمد و ثنا کرتا ہے۔ اس کا بیٹا شہید ہوتا ہے، وہ کہتا ہے فلسطین پر قربان! زخمی حالت میں بچہ، اللہ کا شکر بجا لاتا ہے اور قرآن کی آیتیں پڑھتا ہے۔ ان لوگوں کا یہ صبر بہت اہم ہے۔ دشمن چاہتا تھا ان لوگوں کو جھکنے پر، ہاتھ اوپر کرنے پر مجبور کر دے، وہ جھکے نہیں، انھوں نے ہاتھ اوپر نہیں اٹھایا۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ یہی توکل اور صبر ان کی مدد کرے گا، یہی ان کی فتح کا راستہ ہموار کرے گا اور آخرکار یہی فاتح میدان ہوں گے۔"

1 https://www.france24.com/en/middle-east/20231031-israeli-ministry-drafted-concept-proposal-for-transfer-of-gaza-civilians-to-egypt

2 https://time.com/6322897/israel-leaders-vow-destroy-hamas-gaza-war/

3 https://www.aljazeera.com/opinions/2023/12/19/israels-plan-b-for-the-gaza-strip

4 https://www.thehindu.com/news/international/biden-says-israel-is-losing-international-support-because-of-the-indiscriminate-bombing-in-gaza/article67632222.ece

5 https://www.nytimes.com/2023/12/15/us/politics/israel-gaza-war-biden-arm-sales.html

6 https://thinkmarketingmagazine.com/how-the-genocide-in-gaza-made-the-holy-quran-a-trending-topic/

7 https://t.me/kriyaassess/1574

8 https://www.theguardian.com/books/2023/nov/20/palestine-quran-islam-americans-tiktok