یہ الفاظ اس نوجوان کے ہیں جس نے ایک طویل عرصے تک غرب اردن میں صیہونی حکومت کے سیکورٹی اور فوجی ایجنٹوں کی نیند حرام کر رکھی تھی۔ اس نوجوان نے، جس کی عمر تیس سال سے بھی کم تھی، ایک وحشی فوج کو، جو جدید ہتھیاروں اور نگرانی کے آلات سے از سر تا پا لیس تھی، ذلیل و رسوا کر دیا تھا۔ سیکورٹی فورسز کی جانب سے بارہا کوششیں کی گئیں کہ اسے قتل یا گرفتار کیا جائے لیکن ساری کوششیں ناکام رہیں۔ تاہم اہم سوال یہ ہے کہ مغربی کنارے اور مزاحمت کی صفوں میں ابوشجاع جیسے نوجوانوں کے اُبھرنے کی وجہ کیا ہے؟ اور اس جیسے نوجوان کس سہارے سے اس دہشت گرد گینگ کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں اور اسے کاری چوٹیں پہنچاتے ہیں؟

جولائی کے مہینے میں اور طوفان الاقصیٰ کی لڑائی کو دس مہینے گزر جانے کے بعد، فلسطینی انتظامیہ کی سیکورٹی فورسز، ابوشجاع کو گرفتار کرنے کی آخری کوششوں کے تحت طولکرم کے ایک ہسپتال میں داخل ہوئیں لیکن عین اسی لمحے ڈاکٹر، نرسیں اور عوام ان فورسز سے ٹکرا گئے اور انھیں ابوشجاع کو گرفتار کرنے نہیں دیا۔ کچھ لوگوں نے اسے اپنے ساتھ لیا اور بحفاظت نور شمس کیمپ تک پہنچایا۔(2) یہی مغربی کنارے کے عوام، جن میں سے طوفان الاقصیٰ کے آغاز سے اب تک دس ہزار سے زیادہ کو صیہونی حکومت کی سیکیورٹی فورسز گرفتار کر چکی ہیں،(3) مزاحمت کی حمایت کی بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں۔ وہ طوفان الاقصیٰ سے پہلے بھی روزانہ اسرائیلی حکومت کی بڑھتی ہوئی قابضانہ کارروائیوں اور کھلے ظلم کے خلاف مزاحمت کر رہے تھے اور اسرائیل کی ریاست کے وجود کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن چکے تھے۔

مزاحمت کے وسیع و عریض علاقے کے ایک دوسرے حصے میں، مقبوضہ فلسطین کی سرحد سے ملحق لبنان کے ایک گاؤں میں، جہاں بمباریوں کے باعث گاؤں کو شدید نقصان پہنچا ہے اور بڑی تعداد میں گھر تباہ ہو چکے ہیں، زندگی جاری ہے۔ دکانیں کھلی ہیں، گاؤں میں آمد و رفت معمول کے مطابق ہو رہی ہے اور بھیڑوں کے ریوڑ کی آواز بھی سنائی دے رہی ہے۔ ایک دوست، جو ان مناظر کو دیکھ رہا تھا، کہتا ہے کہ میں نے گاؤں کے ایک بزرگ سے پوچھا، "جناب! سرحد کے اُس پار دیکھیے، صیہونیوں نے اپنے تمام گاؤں اور بستیاں خالی کر دی ہیں اور فرار ہو گئے ہیں تاکہ حزب اللہ کے حملوں سے محفوظ رہ سکیں۔ تو آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟ آپ لوگ بھی صیہونیوں کی طرح کیوں نہیں گاؤں خالی کر دیتے؟" بوڑھے نے جواب دیا: "اگرچہ صیہونیوں نے گاؤں کو تقریباً پوری طرح سے تباہ کر دیا ہے لیکن میں یہاں رہوں گا؛ میں یہاں رہوں گا تاکہ حزب اللہ کے مجاہدین کی آمد و رفت میرے اور میرے خاندان کی آمد و رفت میں چھپ جائے۔ میرے پاس لڑنے کی طاقت نہیں ہے لیکن یہ وہ کم ترین کام ہے جو  حزب اللہ کی مدد کے لیے مجھ سے ہو سکتا ہے۔"(4)

مزاحمت کی روح کو اس کے ہر ہر رکن میں دیکھا جا سکتا ہے۔ جیسے کہ نصرالدین عامر یمنی نے، امریکی افواج کے ہاتھوں یمن پر ہوئي بمباری کے بعد ایک فلسطینی کے جواب میں، جس نے اس سے کہا کہ "ہم نہیں چاہتے تھے کہ یمن ہماری حمایت کی وجہ سے بمباری کا نشانہ بنے۔" کہا کہ "اب جب ہم پر بھی غزہ کی طرح بمباری ہو رہی ہے تو سکون محسوس کر رہے ہیں۔ ہم فلسطینی عوام سے شرمندہ تھے کہ وہ بمباری کا سامنا کرتے ہیں اور ہم پر بمباری نہیں ہوتی۔"

ہاں، یہی وہ چیز ہے جو میدان جنگ میں مجاہدین کو حوصلہ دیتی ہے۔ یہ مزاحمت کرنے والے معاشرے کی طاقت ہے جو ابوشجاع جیسے بیٹے پیدا کرتا ہے اور پھر ابوشجاعوں کی اپنے بچوں کی طرح، فلسطینی بچوں کی طرح، حفاظت کرتا ہے۔ یہ وہ مزاحمت ہے جو معاشرے کے دل سے نکلتی ہے اور خود مجاہدین کی پشت پناہ ہوتی ہے۔ مزاحمت ایک ایسا ہدف ہے جو نسل در نسل جوانوں میں منتقل ہوتا ہے اور معاشرے کو تشکیل دیتا ہے۔ صیہونی بھی بخوبی جانتے ہیں کہ ہدف سے جنگ نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی ہدف کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ یہ وہ ہدف ہے جو عقیدے کی راہ میں موت اور ظلم کے خلاف لڑائی کو مقدس بتاتا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ وہ اپنے خون سے حیات ابدی کو یقینی بنا سکتا ہے۔ یہ وہ معاشرہ ہے جس نے دنیا کے سامنے حسینی محاذ کو مجسم اور قابل لمس بنا دیا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے بھی بعض شہداء کے اہل خانہ سے ملاقات میں فلسطینی عوام اور غزہ کے لوگوں کی مزاحمت کے بارے میں کہا: " پتہ چل گيا کہ اسلامی ایمان وہ عنصر ہے جو اس طرح طاقت و استقامت کو وجود عطا کرتا ہے کہ بمباری تلے لوگوں نے مزاحمت کی، گھٹنے نہیں ٹیکے، دشمن کے سامنے اپنے ہاتھ کھڑے نہیں کیے، دشمنوں کے اتنے زیادہ جرائم کے باوجود انھوں نے دنیا کے سامنے اسلام کا تعارف کرایا، اسلام یہ ہے، اسلامی ایمان یہ ہے۔"(5) یعنی، رہبر انقلاب اس عوامی مزاحمت کو دنیا کے سامنے اور بالخصوص امت مسلمہ کے لیے اسلام کے سب سے بڑے اور عظیم ترین پرچم کے آئیڈیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

دوسری طرف کا معاملہ بالکل الٹا ہے۔ وہاں ہمارا سامنا ایک معاشرے سے نہیں بلکہ ایک بھیڑ اور ایک اجتماع سے ہے جو چھوٹے سے بحران کے وقوع پذیر ہوتے ہی فرار کے لیے تل ابیب کے بن گورین ہوائی اڈے پر لمبی لمبی قطاریں لگا لیتا ہے اور غزہ اور لبنان کے قریب واقع ان کی غاصبانہ بستیوں کی روشنیاں بجھ جاتی ہیں، جیسے وہاں کبھی کسی ذی نفس نے زندگی گزاری ہی نہیں۔ جنگ کے طویل ہو جانے اور بے وطنی جیسی حالت پر ان لوگوں کی آوازیں ہمیشہ بلند ہوتی ہیں اور وہ صیہونی حکومت سے مکمل حمایت کی توقع رکھتے ہیں۔ یہ سب ایسے عالم میں ہے کہ صیہونی حکومت ان بے گھر افراد کو مقبوضہ علاقوں کے ہوٹلوں میں مفت ٹھہرا رہی ہے اور ان کو پوری دنیا حتیٰ کہ خطے کے مسلمان ممالک کی بھی حمایت حاصل ہے۔

ایک بھیڑ جس کی سب سے اہم مشکل ہمیشہ اس کی جنگوں کے لیے افرادی قوت کی کمی رہی ہے اور جو اب بڑی خفت کے ساتھ حریدیوں کو جنگ میں شامل کرنے اور فوجی خدمات کے لیے بھیجنے پر مجبور ہو چکی ہے، یہاں تک کہ حکومت کی ممکنہ تباہی کے رسک کے باوجود، اس نے جنگ میں شمولیت پر حریدیوں کو مجبور کرنے کے لیے قانون سازی کی ہے۔(6)

بہت فرق ہے اس معاشرے میں، جو ہر چیز، زندہ رہنے کے لیے چاہتا ہے اور دنیا کو اپنی آخری منزل سمجھتا ہے اور اس معاشرے میں، جو عقیدے اور نظریے کو دنیا کی عارضی زندگی پر ترجیح دیتا ہے۔ بہت فرق ہے اس معاشرے میں جو اپنی وطن واپسی کے لیے جنگ کر رہا ہے اور اس بھیڑ میں، جو زندہ رہنے کے لیے دنیا کے کسی بھی گوشے میں جانے اور حتیٰ کہ بڑے پیمانے پر جرائم اور نسل کشی پر آمادہ ہے۔

اسرائیلی فوج کے انٹیلیجنس ڈائریکٹوریٹ کے سابقہ چیف اور اسرائیل کے اہم ترین سیکیورٹی اور فوجی تجزیہ نگاروں میں سے ایک آموس یادلین نے، جو جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے زبردست حامی ہیں، قیدیوں کے تبادلے اور اس کی ضرورت کے بارے میں کچھ سلسلے وار ٹویٹس اور صہیونی میڈیا کے ساتھ ایک علیحدہ انٹرویو میں تفصیل سے وضاحت کی ہے۔ ان ٹویٹس کے ایک بہت ہی اہم جملے میں، وہ کہتے ہیں:

"قیدیوں کی واپسی کے بغیر، کوئی فتح نہیں ہے۔ ہم ایسی قوم ہیں جو موت کو نہیں، زندگی کو مقدس سمجھتی ہے۔ ہمیشہ سے ایسا ہی رہا ہے اور ایسا ہی جاری رہنا چاہیے..."(7)

اور اس جملے کی گہرائی ہی شاید ہمیں مزاحمت کے معاشرے اور قابض بھیڑ کے درمیان پائے جانے والے ان تمام فرقوں کی وجہ سے آشنا کر سکے۔ وہ طاقت جو اپنی دنیوی زندگی کے لیے سب کچھ چاہتی ہے اور اسے مقدس تک سمجھتی ہے، اور یہ سوچتی ہے کہ مزاحمتی قوم بھی دنیا کو اسی طرح سے دیکھتی ہے۔ وہ یہ نہیں جانتی کہ مزاحمت اس کے ارکان کی شناخت بن چکی ہے اور اسے توقع ہے کہ وہ اپنی وحشیانہ کارروائیوں اور حملوں سے مزاحمت کو معاشرے میں کمزور کر دے گی لیکن ہر بار اسے الٹا نتیجہ ملتا ہے اور وہ اپنے جرائم کے اثرات کا نتیجہ پورے فلسطین میں اور صرف فلسطین میں ہی نہیں بلکہ لبنان، یمن، عراق، شام اور پورے علاقے میں مزاحمت کی طاقت اور پھیلاؤ میں اضافے کی صورت میں دیکھتی ہے۔

یہ بے وجہ نہیں کہ سید مزاحمت سید حسن نصر اللہ نے اپنے ایک تاریخی خطاب میں کہا ہے: "وہ قوم جو شہادت رکھتی ہے، شکست نہیں کھاتی۔" یقینی مستقبل ان لوگوں کا ہے جو غیر مساوی جنگ میں اپنے ہدف کے لیے قیمت ادا کرنا سیکھ چکے ہیں اور اسے سینہ بہ سینہ اپنی اگلی نسل کو منتقل کرتے ہیں؛ اپنے جہاد کے ذریعے اور اپنا خون دے کر۔

 

[1] شہید کمانڈر ابو شجاع کا ایک جملہ

2 https://www.wattan.net/ar/news/440797.html

3 http https://www.wattan.net/ar/news/440797.html s://palinfo.com/news/2024/08/04/904402/

4 لبنان میں موجود تجزیہ نگار اور صحافی ڈاکٹر ہادی زارع سے انٹرویو

5 https://urdu.khamenei.ir/news/7140

6 https://edition.cnn.com/2024/07/01/middleeast/ultra-orthodox-in-israel-defy-orders-to-serve-in-military-mime-intl/index.html

7 https://x.com/YadlinAmos/status/1793804406372159607