1948 سے پہلے یعنی صیہونی حکومت کے وجود میں آنے سے پہلے، اسے وجود میں لانے کے مقدمات فراہم کرنے میں 50 سال لگے؛ یورپی، امریکی اور عرب ملکوں کے دارالحکومتوں میں صیہونی سیاستدانوں  کی بے وقفہ کوششوں کے نتیجے میں بالفور اعلانیہ صادر ہوا۔

بالکل واضح تھا کہ اس منصوبے کو برطانیہ لیڈ کر رہا ہے اور حقیقت میں برطانیہ نے بالفور اعلانیہ صادر کرکے، یہودیوں کے لئے ایک وطن کے قیام اعلان کیا اور دنیا کے عوام اور حکومتوں کی توجہ اس عمل کی طرف مبذول کرائی۔ برطانیہ نے سنہ 1917 میں بالفور اعلانیہ صادر اور سنہ 1922 میں فلسطین میں لیگ آف نیشنز کے مینڈیٹ کے ذریعہ اپنی حکومت قائم کرکے، ایک جعلی حکومت کی تشکیل کا ستون تیار کر دیا جس نے 30 سال کی مدّت میں صیہونی حکومت کی تشکیل کی راہ ہموار کی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ برطانیہ نے اقتصادی، فوجی، سیاسی اور آبادی کے لحاظ سے اس جعلی حکومت کے ستون کی بنیاد رکھی، اسے مضبوط کیا اور ساری چیزیں آمادہ کر دیں تاکہ سنہ 1948 میں صیہونی سیاستداں 14 مئی کو دنیا کے سامنے صیہونی حکومت کے وجود کا اعلان کر دیں۔ اس تاریخ کے بعد سے صیہونی حکومت کے دفاع اور اسے مکمل کرنے کا ذمہ امریکہ نے اپنے کاندھوں پر لیا۔ صیہونی حکومت کے اپنے وجود کا اعلان کرنے کے صرف 11 منٹ بعد امریکہ نے صیہونی حکومت کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔

1948 سے 1978 تک 30 سال مقبوضہ فلسطین، یورپی ملکوں اور امریکہ میں صیہونی سیاستدانوں کی ساری کوشش اس بات پر مرکوز رہی کہ مغرب کی مدد سے صیہونی مخالف ہر داخلی و بیرونی کوششوں، جنگوں اور اعتراضات کا مقابلہ کریں۔ اس دور کو استحکام کا دور کہا جاتا ہے۔ صیہونی حکومت نے 1948، 1956، 1967 اور 1973 کی جنگوں میں عرب اور اسلامی ملکوں اور اپنے مخالفیں کو یہ دکھا دیا کہ وہ حملوں کے مقابلے میں اپنی حفاظت کر سکتی ہے۔ سنہ 1978 کے موسم گرما میں مصر اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے کیمپ ڈیوڈ سمجھوتے سے یہ عندیہ ملنا شروع ہوا تھا کی اس جعلی حکومت کو قانونی حیثیت دینے کا دور شروع ہو گیا ہے۔ حقیقت میں اس تاریخ کے بعد سے صیہونی حکومت اس کوشش میں لگی ہوئي تھی کہ عرب، اسلامی اور دوسرے ملکوں کو جنہوں نے اس وقت تک تل ابیب کو تسلیم نہیں کیا تھا، یہ پیغام دے کہ ان میں صیہونی حکومت کو ختم کرنے کی طاقت نہیں ہے اور صیہونیت اپنے وجود کی حفاظت کرنے کی قدرت رکھتی ہے، اس لئے وہ تل ابیب کے ساتھ مذاکرات اور صلح نامہ پر دستخط کریں۔

ابھی 4 مہینے بھی نہیں گذرے تھے کہ ایران میں اسلامی انقلاب کامیاب ہو گیا جس سے صیہونیوں اور ان کے مغربی اور مشرقی حامیوں کے سارے خواب چکناچور ہو گئے۔ اسلامی انقلاب نے آغاز سے ہی صیہونی سفارتخانے کو اپنے کنٹرول میں لینے اور وہاں پی ال او کے نمائندہ کو بٹھا کر یہ ظاہر کر دیا کہ اسے صیہونی حکومت کا وجود برداشت نہیں ہے اور اسی وقت سے اس نے یہ موقف اپنا کر اپنی ساری کوشش اس بات پر مرکوز کی کہ اسرائیل کو قانونی درجہ دینے کا دور شروع نہ ہونے پائے۔ ایک طرح سے اسلامی انقلاب نے صیہونی حکومت کو دفاعی پوزیشن میں دھکیل دیا جسے استحکام کا دور کہا جاتا ہے۔ یہ کیسے ہوا؟ ابھی اسلامی انقلاب کو 4 سال بھی نہیں گذرے تھے کہ لبنان کی جنگ چھڑ گئی اور اس جنگ کے نتیجے میں حزب اللہ وجود میں آئی؛ وہ حزب اللہ جس نے اسرائیل کے ناقابل شکست ہونے کے افسانے کو مٹا دیا اور پھر مسلسل جدوجہد کے ذریعہ 18 سال بعد سنہ 2000 میں اسے لبنان سے مار بھگایا۔ اسی سال سرزمین فلسطین پر تحریک انتفاضہ، تحریک جہاد اسلامی اور تحریک حماس، مغرب اور صیہونیت کی تل ابیب کو قانونی درجہ دلانے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ چلتی رہی اور دشمن یہ کوشش بھی کرتے رہے کہ استقامتی محاذ کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرکے سازباز کے عمل کو نتیجہ خیز بنائیں۔ ان سبھی کوششوں اور اوسلو سمجھوتے سمیت دوسرے سمجھوتوں کے باوجود، یہ منصوبہ اور عمل کسی نتیجے پر نہیں پہنچا۔

سنہ 2006 میں 33 دن تک چلنے والی جنگ شروع ہوئی۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سن 2006 میں حزب اللہ نے 33 روزہ جنگ میں کامیابی حاصل کرکے، صیہونی حکومت کے مقابلے میں طاقت کا توازن قائم کیا اور اپنے لئے ایک طرح کی ڈیٹرنس حاصل کر لی۔ سن 2007 میں آناپولیس کانفرنس منعقد ہوئی جس میں مغربی ممالک، امریکہ اور پٹّھو عرب ملک شامل ہوئے۔ اس کانفرنس میں، اس بات کو مانا گیا کہ صیہونی محاذ اور استقامتی محاذ کے درمیان طاقت کا توازن قائم ہو گیا ہے۔ اس وقت سے یہ کوشش ہونے لگی کہ فلسطین، لبنان اور دوسرے ملکوں میں استقامتی محاذ کے ارکان پر، جو وقت کے ساتھ اسقتامتی محاذ میں شامل ہوتے گئے، مختلف طرح کے دباؤ ڈالے جائیں، ان پر جنگ تھوپی جائے، ان پر پابندیاں لگائی جائیں وغیرہ وغیرہ اور اس طرح انہیں کمزور کیا جائے تاکہ وہ استقامتی محاذ سے نکل جائیں۔ یہ وہی سال ہے جب غزہ میں حماس مضبوط ہوئی اور غزہ کا محاصرہ شروع ہوا۔ سنہ 2008، 2009، 2012، 2018 اور 2021 میں جنگ ہوئی تاکہ حماس سمیت غزہ میں دوسرے استقامتی محاذ شکست کو مان لیں لیکن ایسا ہوا نہیں۔

لبنان میں حزب اللہ پر طرح طرح کے سیاسی، اقتصادی، فوجی اور سکورٹی کے لحاظ سے دباؤ ڈالے گئے تاکہ وہ استقامتی محاذ سے نکل جائے، لیکن ایسا ہرگز نہیں ہوا۔ اسی طرح ایران کو طرح طرح کے دباؤ، پابندیوں اور ٹارگٹ کلنگ وغیرہ کا نشانہ بناکر اسے حاشیہ پر دھکیلنے کی کوشش کی گئی تاکہ تہران جو استقامتی محاذ کا قائد ہے، گھٹنے ٹیک دے لیکن یہ ھدف بھی پورا نہیں ہوا اور استقامتی محاذ عسکری، میزائل، ڈرون، سایبر اسپیس کے میدان میں جو طاقت اس نےحاصل کی تھی اس کے ذریعہ صیہونیوں کے مقابلے میں اپنی ڈیٹرنس کو محفوظ رکھ سکا۔ 7 اکتوبر سنہ 2023 کو آپریشن طوفان الاقصیٰ نے دکھا دیا کہ استقامتی محاذ نہ صرف یہ کہ اپنا دفاع کر سکتا ہے بلکہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ جارحانہ انداز میں ہائیبرڈ آپریشن کا منصوبہ بنا سکتا ہے اور اسے عملی جامہ پہنا کر اور صیہونیوں کو زبردست نقصان پہونچا کر اسرائیل کے وجود پر سوالیہ نشان لگا سکتا ہے۔ یہ غزہ سے صیہونی حکومت پر لگنے والا بڑا وار تھا اور یہی وجہ ہے کہ صیہونی حکومت اس حملے سے ہونے والے نقصان کی بھرپائی کی طاقت نہیں رکھتی۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ صیہونی حکومت نے اپنی ڈیٹرنس سے بھی بلند چیز جو اس کی ہیبت تھی، وہ بھی آپریشن طوفان الاقصیٰ میں کھو دی اور اس نے ڈیٹرنس واپس حاصل کرنے کے بہانے نہتے لوگوں پر وحشیانہ حملے کے ذریعہ اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو پھر سے زندہ کرنے کی کوشش کی۔

اس وقت حزب اللہ کے تعلق سے بھی صیہونی حکومت نے یہی رویہ اپنایا ہے جبکہ مفکرین اور سیاستدانوں سمیت مقبوضہ فلسطین کے اندر اور بیرونی دنیا میں میڈیا کا یہ ماننا ہے کہ اسقتامت کی سوچ کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ جیسا کہ غزہ، لبنان، عراق، شام اور یمن میں استقامتی محاذ اور اس کے ارکان باقی ہیں اور وہ نہ صرف یہ کہ صیہونی حکومت کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ اس کے وجود کو چیلنج کر رہے ہیں، اتنا ہی نہیں، اس کی بنیاد کو ہی کمزور کر رہے ہیں۔

استقامتی محاذ نے صیہونی سیاستدانوں کے سامنے ایسے حالات کھڑے کر دیے ہیں کہ وہ اب یہ مان رہے ہیں کہ اگر وہ موجودہ چیلنج کو نمٹ نہ سکے اور غزہ میں اپنے ھدف تک نہ پہنچ سکے تو صیہونی حکومت کو زوال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسی وجہ سے وہ اس جنگ کو اپنے وجود کے ل‍ئے فیصلہ کن سمجھتے ہیں۔ وہ اپنے ان اصولوں کے برخلاف جسے انہوں نے اپنے لئے طے کیا تھا کہ جنگ کم مدت کی ہو، گذشتہ ایک سال سے ایک دراز مدت اور تھکا دینے والی نیز بہت ہی خرچیلی جنگ میں پھنس گئے ہیں اور وہ یہ بات جانتے ہیں کہ اگر اس جنگ میں کامیاب نہ ہوئے تو ان کا وجود ہی خطرے میں پڑ جائے گا اور پھر صیہونی حکومت کی بقا کے تعلق سے کوئی بات کرنا بے فائدہ ہوگا۔ حقیقیت میں صیہونی حکومت کے 70 سال پیچھے چلے جانے کا نظریہ، اس بات کے مدںظر ہے کہ استقامتی محاذ نے برتری حاصل کر لی ہے اور اب وہ نہ صرف یہ کہ دفاع کے میدان میں جارحانہ پوزیشن میں ہے بلکہ صیہونیوں پر اپنا فیصلہ مسلط کر سکتا ہے۔