Skip to main content
  • English
  • Français
  • Español
  • Русский
  • हिंदी
  • Azəri
  • العربية
  • اردو
  • فارسی
  • پہلا صفحہ
  • خبریں
  • خطاب
  • ملٹی میڈیا
  • سوانح زندگی
  • فکر و نظر
  • نگارش
  • استفتائات و جوابات

اسلامی جمہوریہ جب بھی ضروری سمجھے گي امریکا کو تھپڑ رسید کرے گی

یہ کہ اسلامی جمہوریہ کو خطے میں امریکا کے اہم مراکز تک دسترسی حاصل ہو اور وہ جب بھی ضروری سمجھے ان کے خلاف کارروائي کرے، یہ کوئي معمولی واقعہ نہیں ہے یہ ایک بڑا واقعہ ہے۔
2025/06/28

جنگ میں براہ راست شامل ہونے سے امریکا کو کچھ حاصل نہیں ہوا

امریکی حکومت، جنگ میں، براہ راست جنگ میں شامل ہو گئی تاکہ اسرائیل کو نجات دے لیکن اسے اس جنگ سے کچھ بھی حاصل نہ ہوا۔
2025/06/28

امریکی صدر کے منہ سے باعظمت ایران کے سرینڈر ہونے کی بات، چھوٹا منہ بڑی بات ہے، صیہونی حکومت ایران کی ضرب سے کچل دی گئي

صیہونی حکومت کے حملے اور اس پر اسلامی جمہوریہ کی فتح کے بعد جمعرات 26 جون 2025 کو رہبر انقلاب اسلامی نے  ٹیلی ویژن سے نشر ہونے والے اپنے تیسرے پیغام میں قوم کو مخاطب کیا۔ انھوں نے اس فتح پر قوم کو مبارکباد پیش کی اور بڑے اہم نکات کی طرف اشارہ کیا۔
2025/06/26

اگر امریکا نے فوجی مداخلت کی تو اس کا نقصان ناقابل تلافی ہوگا۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے بدھ 18 جون 2025 کو اپنے ایک ٹی وی پیغام میں  صیہونی دشمن کے حالیہ احمقانہ اور خباثت  آمیز حملے کے سلسلے میں ایرانی قوم کے باوقار، شجاعانہ اور وقت شناسی پر مبنی رویے کو سراہتے ہوئے اسے قوم کے رشد و نمو اور عقل و معنویت کے استحکام کی نشانی بتایا۔ انھوں نے کہا کہ ایرانی قوم، مسلط کردہ جنگ کے مقابلے میں مضبوطی سے ڈٹ جاتی ہے جس طرح سے کہ وہ مسلط کردہ صلح کے خلاف بھی ڈٹ جائے گي اور یہ قوم، اپنے فیصلے مسلط کرنے والوں میں سے کسی کے بھی سامنے نہیں جھکے گی۔
2025/06/18

امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی چھتیسویں برسی کے اجتماع سے خطاب

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 4 جون 2025 کو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی چھتیسویں برسی کے اجتماع سے خطاب میں بانی انقلاب کی شخصیت پر گفتگو کی۔ آپ نے غزہ اور فلسطین کے حالات اور ایران کے نیوکلیئر مسئلے پر بھی اہم نکات بیان کئے۔  (1) خطاب حسب ذیل ہے:
2025/06/04

ایران یورنینیم کی افزودگی کرے یا نہ کرے، آپ سے کیا مطلب! آپ ہیں کون؟

ایٹمی مسئلے میں امریکی اور دوسرے فریقوں سے جو بات ہم سب سے پہلے کہتے ہیں وہ یہ ہے کہ آپ ہیں کون؟ آپ کیوں مداخلت کر رہے ہیں کہ ایران یورینیم کی افزودگی کرے یا نہ کرے؟ آپ سے کیا مطلب؟
2025/06/04

دشمنوں نے یورینیم افزودگی کو ہی نشانہ بنایا ہے۔

دشمنوں نے یورینیم افزودگی کو ہی نشانہ بنایا ہے۔ اگر افزودگی کی صلاحیت نہ ہو تو جوہری صنعت بے کار ہے کیونکہ پھر ہمیں اپنے پلانٹس کے ایندھن کے لیے دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانا پڑے گا۔ امام خامنہ ای 4 جون 2025
2025/06/04

انسانی حقوق کے دعویدار مغرب والے ہی غزہ میں بچوں کے قتل عام کے حامی ہیں

رہبر انقلاب اسلامی نے منگل 20 مئی 2025 کی صبح شہید رئیسی اور دیگر 'شہدائے خدمت' کے اہل خانہ، بعض اعلی حکام، اور شہداء کے اہل خانہ سے ملاقات میں، شہید آل ہاشم، شہید امیر عبداللہیان، ہیلی کاپٹر کے عملے کے شہداء صوبۂ مشرقی آذربائیجان کے شہید گورنر اور شہید سیکورٹی کمانڈر کو، جو شہید رئیسی کے ساتھ جاں بحق ہوئے تھے، خراج عقیدت پیش کیا۔
2025/05/20

ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ امن کے لیے طاقت کا استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ وہ جھوٹ بول رہے ہیں۔

ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ امن کے لیے طاقت کا استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ وہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ امریکا نے کب، امن کے لیے طاقت کا استعمال کیا ہے؟ امام خامنہ ای 17 مئی 2025
2025/05/18

نئے ہجری شمسی سال 1404 کے آغاز پر خطاب

1404 ہجری شمسی سال کے پہلے دن 21 مارچ 2025 کو عوام کے مختلف طبقات کے اجتماع سے خطاب  میں رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای نے سال نو کے آغاز، ماہ رمضان المبارک کی روحانیت اور نئے سال کے نعرے کے سلسلے میں بات کی۔ آیت اللہ خامنہ ای نے امریکی دھمکیوں کا دنداں شکن جواب دیا۔(1) خطاب حسب ذیل ہے:
2025/03/21

ہمسایہ ممالک سے تعلقات میں فروغ اسلامی جمہوریہ ایران کی قطعی پالیسی ہے

رہبر انقلاب اسلامی‎ ‎آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے بدھ 19 فروری 2025 کی شام امیر قطر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی اور ان کے ہمراہ آئے وفد سے ملاقات کی۔
2025/02/19

امریکا سے مذاکرات سے ملک کی کوئي مشکل حل نہیں ہوگي

اتنے سارے نقائص والے اسی معاہدے کو بھی فریق مقابل نے تباہ کر دیا، خلاف ورزی کی، پھاڑ دیا۔ اس طرح کی حکومت سے مذاکرات نہیں کرنے چاہیے، اس سے مذاکرات کرنا عقلمندی نہیں ہے۔
2025/02/07

غزہ نے امریکا کو مغلوب کر دیا

غزہ اللہ کے حکم سے صیہونی حکومت اور امریکی حکومت پر غلبہ حاصل کر لیتا ہے۔ یہ ناممکنات میں سے ہے لیکن اللہ کے حکم سے یہ کام ممکن ہو جاتا ہے۔
2025/02/02

امریکی حکام ایران کو تابع فرمان بنانے کی آرزو قبر میں لے کر جائيں گے

انقلاب سے پہلے امریکا کی پسند یہ تھی کہ ایران اس کا تابع فرمان رہے، امریکی اور صیہونی حکومت کے مفادات کی پاسبانی کرے۔ وہ ایران کے لیے یہ آرزو رکھتے تھے، آج بھی ان کی یہی تمنا ہے۔ کارٹر اسی امید کے ساتھ قبر میں پہنچ گئے اور یہ لوگ بھی اپنی یہ آرزو قبر میں لے کر جائیں گے۔
2025/01/11

اہل قم کے تاریخی قیام کی سالگرہ کے موقع پر خطاب

قم کے عوام نے 9 جنوری 1978 کو تاریخی قیام کیا جس کا ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی میں اہم کردار رہا۔ اسی مناسبت سے 8 جنوری 2025 کو اہل قم نے ہزاروں کی تعداد میں حسینیہ امام خمینی تہران میں رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات کی اور آیت اللہ خامنہ ای نے حاضرین سے خطاب کیا۔
2025/01/08

ہم امریکا سے مذاکرات کیوں نہیں کرتے؟

اسلامی جمہوریہ سے اس کے کینے اور فلاں دوسرے ملک کے کینے میں فرق ہے، بہت فرق ہے۔ ہم امریکا اور دوسرے مغربی ملکوں کے درمیان جو فرق رکھتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے۔ امریکا کو ایران میں شکست ہوئي ہے اور وہ اس شکست کا بدلہ لینے کی کوشش میں ہے۔
2025/01/08

امریکی اور صیہونی موقف کا عہدیداران بالکل لحاظ نہ کریں

میں ملک کے عہدیداران چوکنا رہیں، ان لوگوں کی خواہشات کے سامنے نہ جھکیں جو ایرانی قوم اور اسلامی جمہوریہ کے کٹر دشمن ہیں، ایران کو تباہ شدہ دیکھنا چاہتے ہیں اور اس کی آرزو رکھتے ہیں۔
2025/01/08

دیگر ممالک کے علاقوں پر قبضے کے سلسلے میں امریکا کا دوہرا معیار

رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے 11 دسمبر 2024 کو اپنے خطاب میں کہا کہ صیہونی حکومت نے شام کے علاقوں پر قبضہ تو کیا ہی، ساتھ ہی اس کے ٹینک دمشق کے قریب تک پہنچ گئے۔ جولان کے علاقے کے علاوہ، جو دمشق کا تھا اور برسوں سے اس کے ہاتھ میں تھا، دوسرے علاقوں پر بھی قبضہ کرنا شروع کر دیا۔ امریکا، یورپ اور وہ حکومتیں، جو دنیا کے دیگر ممالک میں ان چیزوں پر بہت حساس ہیں اور ایک میٹر اور دس میٹر پر بھی حساسیت دکھاتی ہیں، اس مسئلے میں نہ صرف یہ کہ خاموش ہیں، اعتراض نہیں کر رہی ہیں بلکہ مدد بھی کر رہی ہیں۔ یہ انہی کا کام ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ بین الاقوامی قوانین کی رو سے دوسرے ملکوں کے علاقوں پر اس طرح کے قبضے کا کیا حکم ہے اور اس سلسلے میں امریکا اور یورپ کی بے عملی کی وجہ کیا ہے؟
2024/12/23

علاقائی حالات اور خاص طور پر شام کی صورت حال پر رہبر انقلاب اسلامی کا رہنما خطاب

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے شام میں تازہ صورت حال پیش آنے کے بعد 11 دسمبر 2024 کو بڑے عوامی اجتماع سے اہم خطاب میں انتہائی اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ (1) رہبر انقلاب کا خطاب حسب ذیل ہے:
2024/12/11

جو کچھ شام میں ہوا وہ امریکی و صیہونی سازش کا نتیجہ ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے بدھ 11 دسمبر 2024 کو مختلف عوامی طبقات کے ہزاروں لوگوں سے ملاقات میں شام کے حالات کی مختلف وجوہات، اس ملک میں ایران کی موجودگي کی وجہ، خطے کے آئندہ حالات اور شام کے واقعات کے دروس اور عبرتوں کی تشریح کی۔
2024/12/11

امریکا، مزاحمتی محاذ کے ہاتھوں خطے سے باہر نکالا جائے گا

شام کے قبضہ کیے گئے علاقے، غیور شامی جوانوں کے ہاتھوں آزاد ہوں گے، شک نہ کیجیے، یہ ہو کر رہے گا۔ امریکا کے پیر بھی مضبوط نہیں ہوں گے، اللہ کی توفیق سے، اللہ کی مدد اور طاقت سے، امریکا بھی مزاحمتی محاذ کے ہاتھوں خطے سے باہر نکالا جائے گا۔
2024/12/11

انسانی حقوق کا علمبردار یا دشمن؟

انسانی حقوق ایک ایسا مفہوم ہے جس کے پوری دنیا میں دفاع کا امریکا ہمیشہ سے سب سے بڑا دعویدار رہا ہے اور پچھلے عشروں میں اس نے اسے اپنے تسلط کے فروغ اور دوسری حکومتوں پر تنقید کے لیے ایک حربے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ کتنے سارے ممالک ہیں جن پر پچھلے عشروں میں امریکا کی مختلف حکومتوں کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گيا اور کتنے علاقے ہیں جن پر امریکا نے جمہوریت کے قیام اور انسانی حقوق کی حفاظت کے نام پر چڑھائي کی۔ مگر مختلف رپورٹیں اور تحقیقات اس حقیقت کی گواہ ہیں کہ آج امریکا ہی پوری دنیا میں انسانی حقوق کو سب سے زیادہ پامال کرتا ہے۔
2024/12/10

امریکا میں غلامی کی رسم کا خاتمہ ہوا ہی نہیں

دو دسمبر کو بردہ داری کے خاتمے کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کوشش کی جاتی ہے کہ ہیومن ٹریفکنگ، لوگوں کے جنسی استحصال، چائلڈ لیبر، بچوں کی جبری شادی اور جنگوں میں ان کے استعمال جیسی جدید دور کی بردہ داری کی شکلوں پر توجہ مرکوز کی جائے تاکہ ان چیزوں کے خلاف عالمی تحریک شروع ہو سکے۔ اس بات میں کوئي شک نہیں ہے کہ مذکورہ بالا جرائم، انسانوں کے سلسلے میں ہونے والے سب سے زیادہ گھناؤنے جرائم میں شامل ہیں لیکن کیا کسی کام کے لیے انسانوں کو مجبور کیا جانا صرف بردہ داری کی شکل میں ہی ہوتا ہے؟ کیا فکری، معاشی اور ثقافتی زنجیریں، انسانوں کو غلامی میں نہیں جکڑ سکتیں؟
2024/12/02

امریکا اور صیہونی حکومت کو، جو کچھ وہ ایران اور مزاحمتی محاذ کے خلاف کر رہے ہیں، اس کا دنداں شکن جواب ملے گا

رہبر انقلاب اسلامی نے سامراج کے خلاف جدوجہد کے قومی دن کی مناسبت سے سنیچر 2 نومبر 2024 کی صبح ملک کے اسکولوں اور یونیورسٹیوں کے ہزاروں اسٹوڈنٹس سے ملاقات کی۔
2024/11/02

غزہ کی نسل کشی سے لے کر لبنان میں جرائم تک، تل ابیب کے دہشت گرد گینگ کو امریکا کا دائمی گرین سگنل

طوفان الاقصیٰ آپریشن اور سات اکتوبر کو ایک سال مکمل ہونے کے بعد آج عالم یہ ہے کہ غزہ نے 42 ہزار سے زیادہ شہیدوں اور 95 ہزار زخمیوں کے ساتھ، جن میں 70 فیصد خواتین اور بچے ہیں(1) انسانی تاریخ کے سب سے بڑے نسلی تصفیوں میں سے ایک کا سامنا کیا ہے۔ یہ نسل کشی، جسے صیہونی حکومت نے امریکا کی مکمل اور قطعی شراکت سے انجام دیا، اور امریکی اور اسرائیلی حکام کے اعتراف کے بموجب ایک سال تک اس کا تسلسل صرف امریکی حمایت سے ممکن تھا۔ امریکی کانگریس میں صیہونی حکومت کی مدد کے لیے مالی پیکجز کی منظوری، اسرائيل کو اسمارٹ بموں اور دفاعی سسٹموں کی فراہمی اور مقبوضہ علاقوں کے قریب امریکی بحری بیڑوں کی تعیناتی جیسی مختلف اسلحہ جاتی امداد، عالمی فورمز میں جنگ بندی کی قراردادوں کو ویٹو کرنا، اعلیٰ امریکی عہدیداروں کے تل ابیب کے مختلف دورے، اسرائیل میں امریکی فوجی افسران اور فوجیوں کی موجودگی اور پورے امریکا میں فلسطین کی حمایت میں ہونے والے احتجاجات کی سرکوبی، غزہ میں صیہونی حکومت کے جرائم کا ساتھ دینے میں گزشتہ ایک سال میں امریکا کی سیاہ کارکردگي کا ایک چھوٹا سا نمونہ ہے۔ تاہم صیہونی حکومت کے جرائم میں امریکا کی شراکت یہیں ختم نہیں ہو جاتی۔ حالیہ دنوں میں دنیا نے اس "جرائم پیشہ گینگ" کے ساتھ امریکا کی شراکت کا ایک نیا پہلو دیکھا ہے۔ یہ جرم 17 ستمبر کو پورے لبنان میں بیک وقت سینکڑوں پیجرز اور وائرلیس سیٹوں کے دھماکوں سے شروع ہوا۔ ان دہشت گردانہ دھماکوں کے نتیجے میں 12 افراد، جن میں دو بچے اور دو میڈیکل اسٹاف شامل تھے، جاں بحق اور 2800 افراد زخمی بھی ہوئے۔(2) یہ جرم بین الاقوامی اداروں اور حتیٰ کہ مغربی حکام کی نظر میں بھی ایک واضح "دہشت گردانہ عمل" تھا۔ مثال کے طور پر، سی آئی اے کے سابق سربراہ لیون پنیٹا نے چند دن قبل ایک انٹرویو میں اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا: "ایک جدید ٹیکنالوجی میں، جو آج کل بہت زیادہ رائج ہے، دھماکہ خیز مواد رکھنا اور اسے دہشت گردانہ جنگ میں تبدیل کر دینا، واقعی ایک دہشت گردانہ جنگ، ایک نئی چیز ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ اس میں کوئی شک ہے کہ یہ ایک قسم کی دہشت گردی ہے۔"(3) اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے بھی ایک رپورٹ میں لبنان میں صیہونی حکومت کے اس دہشت گردانہ عمل کو بین الاقوامی قوانین کی کھلی اور خوفناک خلاف ورزی قرار دیا۔(4) اسی طرح حالیہ کچھ دنوں میں صیہونی حکومت کے فضائی حملوں کے نتیجے میں لبنان کے مختلف علاقوں میں اب تک 2 ہزار سے زائد افراد شہید اور ہزاروں دیگر  زخمی ہو چکے ہیں۔ البتہ ان صیہونی جرائم کے ایک اہم شکار ہمیشہ کی طرح اس بار بھی بچے ہیں اور صرف پچھلے کچھ ہی دنوں میں سیکڑوں لبنانی بچے شہید ہو چکے ہیں۔(5) بلاشبہ صیہونی حکومت کی یہ دہشت گردانہ کارروائی ہمیشہ کی طرح امریکا کی حمایت اور تائيد سے ہی ہوئی ہے۔ اگرچہ امریکی حکام سرکاری بیانات میں خود کو ان جرائم سے بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن عالمی رائے عامہ بخوبی واقف ہے کہ چاہے امریکا کو پیشگی اطلاع ہو یا نہ ہو، اسرائیل جو بھی کارروائی کرتا ہے، امریکا اس کی حمایت کرتا ہی ہے۔ کچھ ماہ قبل بین الاقوامی تعلقات کے مشہور پروفیسر جان مرشائیمر نے اس موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا: "اسرائیل کی لابی نے امریکی کانگریس پر قبضہ کر رکھا ہے اور وہ جو چاہتی ہے اسے حاصل کر ہی لیتی ہے۔"(6) گزشتہ چند دہائیوں کا عالمی تجربہ بھی یہ ثابت کرتا ہے کہ امریکا کی طرف سے صیہونیوں کے تمام وحشیانہ اقدامات کے لیے ایک دائمی اور مستقل گرین سگنل موجود رہتا ہے۔ مثال کے طور پر شہید ہنیہ کے قتل کے معاملے کو ہی لیجیے، امریکی حکومت کی جانب سے اس قتل کی باضابطہ حمایت نہ کیے جانے کے باوجود، مزاحمتی محور کے ممکنہ ردعمل کے پیش نظر اس نے فوراً USS  لنکن جیسے اپنے کئی بحری جنگي جہاز اسرائیل کی حمایت میں علاقے میں تعینات کر دیے۔ اس کے علاوہ، صیہونی حکومت کی حمایت کے لیے سینٹکام کے کمانڈر کی علاقے میں موجودگی کی کئي خبریں بھی گردش کرتی رہیں۔(7) اس کے علاوہ امریکی حکومت کی مالی اور اسلحہ جاتی امداد بھی ہے جو صیہونیوں کی ہر کارروائي کے بعد ان کی غیر قانونی حیات کو برقرار رکھنے کے لیے ہمیشہ ان کے کام آئی ہے۔ اس کی آخری مثال اگست میں شہید ہنیہ کے قتل کے بعد صیہونی حکومت کے لیے امریکا کی فوجی امداد ہے جو شہید ہنیہ کے قتل کے بعد صیہونی حکومت کو دی گئی تھی۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ اسرائیلی حکام بخوبی جانتے ہیں کہ وہ علاقے میں جو بھی اقدام کریں گے، چاہے اس اقدام سے پہلے واشنگٹن اس کا مخالف ہی کیوں نہ ہو، آخرکار انھیں امریکا کی دونوں جماعتوں کی حمایت حاصل ہوگی ہی۔ یہ وہ مستقل اور دائمی گرین سگنل ہے جو امریکا کی طرف سے اسرائیل کی کارروائيوں کے لیے ہمیشہ آن رہتا ہے۔ اس کے علاوہ، اس بات پر بھی توجہ ضروری ہے کہ حالیہ دنوں میں لبنان میں صیہونی حکومت کے ہاتھوں کیے جانے والے بہت سے قتل براہ راست امریکا کے گرین سگنل پر بھی ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر حزب اللہ کے کئی اعلیٰ کمانڈروں کو قتل کرنے کے لیے، جو حال ہی میں شہید کیے گئے، کئی سال پہلے خود امریکیوں نے دسیوں لاکھ ڈالر کا انعام مقرر کیا تھا۔(8) صیہونی حکومت کے جرائم کے لیے امریکا کا جدید ترین گرین سگنل نیویارک اور اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں دکھایا گيا اور فوراً ہی اس پر عمل کیا گيا۔ صیہونی وزیر اعظم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کے دوران مزاحمت کے بارے میں جھوٹے دعوے پیش کر کے رہائشی علاقوں کو نشانہ بنانے کی کارروائي کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی اور اس تقریر کے کچھ ہی منٹ بعد بیروت کے جنوب میں واقع ضاحیہ کی چھے رہائشی عمارتوں پر امریکا کے دو ہزار پونڈ کے بموں سے بمباری کی گئي اور اس کے بعد صبح تک شہر کے رہائشی علاقوں پر چالیس سے زیادہ حملے کیے گئے۔ اس وحشیانہ بمباری کے دوران ہی امریکی وزیر خارجہ بلنکن نے صیہونی حکومت کے خلاف کسی طرح کا منفی ردعمل ظاہر کیے بغیر، تنازعات کو حل کرنے کے لیے سفارتکاری کی ضرورت کے بارے میں بات کی! آخر میں؛ رہبر انقلاب اسلامی نے 25 ستمبر 2024 کے اپنے حکمت آمیز خطاب میں امریکا کی جانب سے صیہونی حکومت کی ہمہ گير اور مستقل حمایت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: "اس جنگ میں بھی کافر اور خبیث دشمن سب سے زیادہ اسلحوں سے لیس ہے۔ امریکا اس کی پشت پر ہے۔ امریکی کہتے ہیں کہ ہمارا کوئي دخل نہیں ہے، ہمیں خبر نہیں ہے، وہ جھوٹ بولتے ہیں! انھیں خبر بھی ہے، وہ دخل بھی دے رہے ہیں اور انھیں صیہونی حکومت کی جیت کی ضرورت بھی ہے۔"   https://www.aljazeera.com/news/longform/2023/10/9/israel-hamas-war-in-maps-and-charts-live-tracker https://www.hrw.org/news/2024/09/18/lebanon-exploding-pagers-harmed-hezbollah-civilians https://thehill.com/policy/international/4893900-leon-panetta-lebanon-explosions-terrorism/ https://www.ohchr.org/en/press-releases/2024/09/exploding-pagers-and-radios-terrifying-violation-international-law-say-un https://www.aljazeera.com/news/liveblog/2024/9/24/israel-attacks-lebanon-live-global-calls-for-restraint-as-492-killed https://www.youtube.com/live/f4opzJiXAz0?si=he5WGEdmVuNfxAoy https://www.aa.com.tr/en/politics/with-possible-iranian-attack-looming-us-central-command-chief-visits-middle-east/3294678 https://www.france24.com/en/live-news/20240920-ibrahim-aqil-the-hezbollah-elite-unit-commander-wanted-by-the-us
2024/10/21

مشکل کی جڑ اُن عناصر کا وجود ہے جو خطے کے امن و امان کا دم بھرتے ہیں

ہمارے اس علاقے میں اُس مشکل کی جڑ، جو ٹکراؤ، جنگوں، تشویشوں، عداوتوں وغیرہ کو وجود میں لاتی ہے، ان لوگوں کی موجودگي ہے جو خطے کے امن و امان کا دم بھرتے ہیں۔
2024/10/03

ہمیں کوئي خبر نہیں ہے، ہمارا کوئي رول نہیں ہے۔

(لبنان اور فلسطین کی) اس جنگ میں بھی کافر اور خبیث (صیہونی) دشمن سب سے زیادہ اسلحوں سے لیس ہے۔ امریکا اس کی پشت پر ہے۔ امریکی کہتے ہیں کہ ہمارا کوئي دخل نہیں ہے، ہمیں خبر نہیں ہے، وہ جھوٹ بولتے ہیں۔ انھیں خبر بھی ہے اور وہ دخل بھی دے رہے ہیں۔ 25 ستمبر 2024
2024/09/27

امت مسلمہ کی طاقت صیہونی حکومت کو اکھاڑ سکتی ہے

امت مسلمہ کی اندرونی طاقت، صیہونی حکومت کو، کینسر کے اس خبیث پھوڑے کو اسلامی معاشرے کے دل یعنی فلسطین سے دور کر سکتی ہے، زائل کر سکتی ہے اور اس خطے میں امریکا کے رسوخ، تسلط اور منہ زوری والی مداخلت کو ختم کر سکتی ہے۔
2024/09/21

دہشت گردی کے خلاف دو عشرے کی جنگ؛ خطے اور خود اپنے عوام کے لیے امریکا نے کیا حاصل کیا؟

11 ستمبر کے واقعے کو 23 سال ہو گئے۔ اس واقعے کے بہانے امریکا نے مغربی ایشیا کے علاقے میں سنجیدگي کے ساتھ اپنی موجودگي شروع کی اور خطے کے مختلف ملکوں کے خلاف اپنے فوجی حملے شروع کیے۔ اس واقعے کے بعد کے بالکل ابتدائي دنوں میں اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے کانگریس کے مشترکہ اجلاس میں اپنی تقریر میں، جو ٹی وی چینلوں سے براہ راست نشر ہوئي، کہا: "دہشت گردی کے خلاف القاعدہ سے ہماری جنگ شروع ہو رہی ہے لیکن وہ یہیں پر ختم نہیں ہوگي۔ جب تک پوری دنیا میں کسی بھی دہشت گرد گروہ کو روکا اور ختم نہیں کیا جاتا، یہ جنگ ختم نہیں ہوگي۔"(1) اسی تقریر کے بعد مغربی ایشیا پر امریکا کے غیر قانونی حملے "دہشت گردی کے خلاف جنگ" کے نام سے پہچانے گئے۔ دو سال بعد جارج ڈبلیو بش نے صدام کے سقوط اور عراق پر قبضے کے بعد اپنی تقریر میں دنیا سے ایک بڑا وعدہ کیا اور کہا: "عراقی ڈیموکریسی کامیاب ہوگي اور اس کامیابی کی خبر دمشق سے تہران تک بھیجی جائے گي۔ یہ آزادی مستقبل میں ہر قوم کی ہو سکتی ہے۔ مشرق وسطی کے مرکز میں ایک آزاد عراق کا سیاسی اور قانونی ڈھانچہ، عالمی ڈیموکریٹک انقلاب میں ایک نیا موڑ ثابت ہوگا۔" یہ ایسا وعدہ تھا جو ہمیشہ تشنۂ تکمیل رہا اور مغربی ایشیا کے علاقے میں امریکا کی دو عشرے سے زیادہ کی موجودگي کا پھل ڈیموکریسی اور عمومی رفاہ نہیں بلکہ تباہی اور غربت کی صورت میں سامنے آيا۔ براؤن یونیورسٹی کی تازہ ترین تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ 11 ستمبر کے بعد امریکا کی جنگوں میں اب تک براہ راست نو لاکھ چالیس ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے ہیں۔ اسی طرح اس یونیورسٹی کے تخمینے کے مطابق پچھلے 23 برس میں ان جنگوں کی وجہ سے 36 لاکھ سے 38 لاکھ لوگ بالواسطہ طور پر مارے گئے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں امریکی حکومت کی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ اب تک 45 لاکھ سے زیادہ لوگوں کی جان لے چکی ہے۔ دوسری جانب یہ جنگيں اب تک 3 کروڑ 80 لاکھ لوگوں کو بڑی بے رحمی سے بے گھر کر چکی ہیں اور دسیوں لاکھ بے قصور لوگوں کے گھر مسمار یا تباہ ہو چکے ہیں۔(2) صرف افغانستان میں امریکی فوج کی بیس سال تک جاری رہنے والی فوجی کارروائيوں میں 30 ہزار سے زیادہ عام شہریوں سمیت 1 لاکھ 74 ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے ہیں۔ دسمبر 2021 میں نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ عراق، شام اور افغانستان پر امریکا کے 50 ہزار سے زیادہ فضائي حملوں نے دسیوں ہزار عام شہریوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔(3) امریکی فوج کے وحشیانہ قتل عام کی ایک تازہ مثال، افغانستان سے انخلاء کے وقت اس کی جانب سے افغان شہریوں پر ڈرون حملہ ہے جس میں سات بچوں سمیت کم از کم 10 افغان شہری مارے گئے جن میں سب سے چھوٹے کی عمر 2 سال تھی۔(4) اس کے علاوہ آج کل دنیا نیویارکر میگزین میں شائع ہونے والی ان تازہ تصاویر اور تفصیلات سے حیرت زدہ ہے جن میں حدیثہ کے قتل عام میں امریکی فوج کی قلعی کھولی گئي ہے۔(5) اس مجرمانہ کارروائي کے تحت امریکی میرینز کے ایک گروپ نے سنہ 2005 میں حدیثہ شہر میں عراق کے 24 عام شہریوں کا قتل عام کر دیا تھا جن میں بچے، عورتیں اور مرد شامل تھے۔(6) امریکی فوجیوں نے اس وقت بہت سی تصویریں کھینچ کر اپنے جرائم کے ثبوت اکٹھا کر لیے تھے تاہم امریکی فوج اب سے کچھ ہفتے پہلے تک ان تصویروں کو عام لوگوں کی نظروں سے دور رکھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ البتہ بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ امریکی عوام بھی اپنی بے رحم حکومت کی جنگي مشین کی ایک بڑی قربانی ہیں۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ نے اب تک امریکا پر 9 ٹریلین ڈالر کا مالی بوجھ لاد دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا کے ٹیکس دہندگان آج تک ہر گھنٹے اوسطاً 9 کروڑ تیس لاکھ ڈالر امریکا کی جنگ افروزی کے لیے ادا کرتے رہے ہیں۔(7) اسی طرح امریکی فوج کو ہونے والا جانی نقصان عراق اور افغانستان کی جنگ کے بعد بھی بدستور جاری ہے۔ چنانچہ 11 ستمبر کی جنگوں کے بعد خود کشی کر کے مرنے والے امریکا کے فوجی اسٹاف کے موجودہ اور سابق کارکنوں کی تعداد میدان جنگ میں مرنے والے فوجیوں سے کم از کم چار گنا زیادہ ہے۔(8) اس کے علاوہ عراق اور افغانستان کی جنگ میں شرکت کرنے والے امریکی فوجیوں کے درمیان وسیع پیمانے پر جنسی جارحیتوں کی رپورٹیں بھی سامنے آئی ہیں۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ سنہ 2001 سے 2021 تک جاری رہنے والی افغانستان کی جنگ میں امریکا کی 24 فیصد خواتین فوجیوں اور 1.9 فیصد مرد فوجیوں کو جنسی جارحیت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔(9) اب نائن الیون کے واقعے اور خطے پر امریکا کے فوجی حملے کے آغاز کو 23 سال سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد سبھی کے لیے یہ بات پہلے سے زیادہ عیاں ہو چکی ہے کہ یہ ساری بے حساب مالی، فوجی اور انسانی قیمت صرف امریکا اور اس ملک کے مجرم حکام کی عسکری صنعت کے کامپلکس کی خوشنودی کے لیے چکائي گئي تھی۔ بش، اوباما، ٹرمپ اور بائيڈن جیسے افراد نے امریکی عوام کے مفادات پر اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دے کر لاکھوں بے قصور لوگوں کو دہشت گردی سے جنگ کے بے بنیاد بہانے کی بھینٹ چڑھا دیا اور علاقائي اقوام کے درمیان بہت زیادہ غیظ اور نفرت پیدا کر کے ہمیشہ کے لیے، مغربی ایشیا سے امریکی حکومت کو نکال باہر کیے جانے کا سبب بنے۔ یہ وہ بات ہے جس کی طرف رہبر انقلاب اسلامی نے کئي سال پہلے بڑے حکیمانہ انداز میں اشارہ کیا تھا۔ انھوں نے کہا تھا: "اس علاقے کے عوام امریکیوں سے نفرت کرتے ہیں۔ اس بات کو امریکی سمجھتے کیوں نہیں؟ تم امریکیوں نے عراق میں جرائم کا ارتکاب کیا، افغانستان میں جرائم کا ارتکاب کیا اور لوگوں کو قتل کیا۔ امریکیوں نے صدام کے زوال کے بعد، بلیک واٹر جیسی خبیث سیکورٹی ایجنسیوں کے ذریعے غالباً عراق کے ایک ہزار سے زائد سائنسدانوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا اور قتل کیا، لوگوں کے گھروں پر حملہ کیا، گھر کے مرد کو، اس کی زوجہ اور بچوں کے سامنے زمین پر گرایا اور اپنے بوٹوں سے اس کے چہرے کو کچلا۔ تم نے یہ کام کیے۔ تم امریکیوں نے افغانستان میں بارات پر بمباری کر دی ۔ ایک بار اور دو بار نہیں بلکہ دسیوں بار تم نے اس طرح کی بمباری کی۔ سوگ کے اجتماعات پر بمباری کی۔ تم نے جرائم کا ارتکاب کیا۔ لوگ تم سے نفرت کرتے ہیں۔ افغانستان کے عوام، عراق کے عوام ، شام کے عوام اور دوسرے علاقوں کے عوام۔"(10)   محمد مہدی عباسی، امریکی مسائل کے تجزیہ نگار   1 https://edition.cnn.com/2001/US/09/20/gen.bush.transcript/ 2 https://watson.brown.edu/costsofwar/figures 3 https://www.vox.com/22654167/cost-deaths-war-on-terror-afghanistan-iraq-911 4 https://en.wikipedia.org/wiki/August_2021_Kabul_drone_strike 5 https://www.newyorker.com/podcast/in-the-dark/the-haditha-massacre-photos-that-the-military-didnt-want-the-world-to-see 6 https://en.wikipedia.org/wiki/Haditha_massacre 7 https://www.nationalpriorities.org/cost-of/war/ 8 https://watson.brown.edu/costsofwar/papers/2021/Suicides 9https://watson.brown.edu/costsofwar/costs/human/veterans#:~:text=Amongst%20active%2Dduty%20service%20members,assault%20prevalence%20in%20the%20military. 10 https://urdu.khamenei.ir/news/2465
2024/09/11

انسانی حقوق اور امریکا کی سراپا ریاکاری

امریکا مجرموں کا یقینی شریک کار ہے۔ امریکا کے ہاتھ کہنیوں تک بچوں، کے خون میں ڈوبے ہوئے اور آلودہ ہیں۔
2024/09/09

امریکی انسانی حقوق کی اصلیت

امریکیوں نے انسانی حقوق کا پرچم بلند کر رکھا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ہم انسانی حقوق کے پابند ہیں اور وہ بھی صرف اپنے ہی ملک میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں! یہ تو صرف ایک دعویٰ ہے، وہ عملی طور پر کیا کر رہے ہیں؟ عملی طور پر انسانی حقوق کو سب سے زیادہ چوٹ یہی پہنچا رہے ہیں اور مختلف ملکوں میں انسانی حقوق کی سب سے زیادہ توہین کر رہے ہیں۔ امام خامنہ ای 16 فروری 2013
2024/09/06

امریکی انسانی حقوق کی اصلیت

آج دنیا میں کوئي بھی اس بات کو نہیں مانتا کہ امریکا انسانی حقوق کی حفاظت کا خواہاں ہے۔ امام خامنہ ای 24 جولائي 2012
2024/09/05

امریکی انسانی حقوق کی اصلیت

عالمی برادری کو، جو ہمیشہ مختلف معاملوں میں انسانی حقوق کی حمایت کے امریکا کے نعرے سنتی رہی ہے، جن پر وہ فخر بھی کرتا تھا، فلسطین کے آئينے میں امریکی پالیسیوں کے حقیقی کریہہ چہرے کو ضرور دیکھنا چاہیے۔ امام خامنہ ای 15 دسمبر 2000
2024/09/04

امریکی انسانی حقوق کی اصلیت

امریکا، انسانی حقوق کا پرچم اٹھاتا ہے اور ان کی حمایت کا دعویٰ کرتا ہے لیکن ہر کچھ دن بعد امریکی شہروں کی سڑکوں پر کوئي بے گناہ، کوئي نہتا، امریکی پولیس کے ہاتھوں خاک و خون میں غلطاں ہو جاتا ہے۔ امام خامنہ ای 9 ستمبر 2015
2024/09/03

آپ تاریخ کی صحیح سمت میں کھڑے ہیں

ریاستہائے متحدہ امریکا کے عزیز اسٹوڈنٹس! یہ آپ سے ہماری ہمدلی اور یکجہتی کا پیغام ہے۔ اس وقت آپ تاریخ کی صحیح سمت میں، جو اپنا ورق پلٹ رہی ہے، کھڑے ہوئے ہیں۔ امریکا کے یونیورسٹی اسٹوڈنٹس کے نام رہبر انقلاب کے خط سے ایک اقتباس 25 مئي 2024
2024/09/02

امریکی انسانی حقوق کی اصلیت

انسانی حقوق کی حمایت کا دعویٰ جو بھی کرے لیکن اپنے نامۂ اعمال میں انسانی حقوق کے سلسلے میں اتنی زیادہ رسوائيوں کے ساتھ امریکی حکام کو تو یہ دعویٰ ہرگز نہیں کرنا چاہیے۔ امام خامنہ ای 17 فروری 2014
2024/09/02

امریکی انسانی حقوق کی اصلیت

امریکیوں نے انسانی حقوق کا پرچم اٹھا رکھا ہے لیکن انسانی حقوق کے خلاف بدترین کام امریکی حمایت سے انجام پا رہے ہیں اور امریکی نہ صرف یہ کہ اس کا مقابلہ نہیں کر رہے ہیں بلکہ حمایت کر رہے ہیں! امام خامنہ ای 31 اکتوبر 2021
2024/09/01

نسل کشی میں پوری طرح شریک

اگر امریکا کی مدد نہ ہوتی تو کیا صیہونی حکومت میں اتنی طاقت اور جراَت تھی کہ غزہ کے محدود علاقے میں مسلمان عوام، عورتوں، مردوں اور بچوں کے ساتھ اس طرح وحشیانہ سلوک کرتی؟
2024/08/17

مشترک دشمن کے خلاف متحد

امریکی کچھ باتوں کو امریکی اصول کے طور پر پیش کرتے ہیں...یہ اصول انسانی کرامت، انسانی حقوق اور ان جیسی چیزیں ہیں۔ یہ امریکی اصول ہیں؟! کیا یہ وہی حکومت نہیں ہے جس نے امریکی سرزمین کے اصل باشندوں کا قتل عام کیا؟... انہیں دنوں آج کل ہر دن فلسطینی عوام کا ان کے گھروں میں، غاصبوں کے ہاتھوں علی الاعلان قتل ہو رہا ہے۔ امام خامنہ ای 18 مارچ 2002
2024/08/10

امریکی کانگریس مجرم کی باتیں سننے کے لیے بیٹھی!

انسان سمجھ سکتا ہے کہ امریکی کانگریس نے اپنی کتنی بڑی رسوائي کرائي کہ وہ اس مجرم کی باتیں سننے کے لیے بیٹھی اور اس کی باتیں سنیں۔ یہ بہت بڑی رسوائي ہے۔
2024/07/29
  • 1
  • 2
  • اگلا>
  • آخری »

آخری فتح جو زیادہ دور نہیں، فلسطینی عوام اور فلسطین کی ہوگی۔

2023/11/03
خطاب
  • تقاریر
  • فرمان
  • خطوط و پیغامات
ملٹی میڈیا
  • ویڈیو
  • تصاویر
  • پوسٹر
  • موشن گراف
سوانح زندگی
  • سوانح زندگی
  • ماضی کی یاد
فورم
  • فیچرز
  • مقالات
  • انٹرویو
نگارش
  • کتب
  • مقالات
مزيد
  • خبریں
  • فکر و نظر
  • امام خمینی
  • استفتائات و جوابات
All Content by Khamenei.ir is licensed under a Creative Commons Attribution 4.0 International License.