"اسلامی جمہوریہ ایران، دنیا میں دہشت گردی کے سب سے بڑے شکاروں میں سے ایک ہے۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی سے لے کر اب تک سترہ ہزار سے زیادہ ایرانیوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جا چکا ہے جن میں عام لوگ بھی ہیں جنھیں منافقین (ایم کے او) کے دہشت گردوں نے صرف ظاہری مذہبی شکل و صورت کی بنیاد پر سڑکوں پر گولیوں سے بھون دیا ہے اور جنرل قاسم سلیمانی جیسے کمانڈر بھی ہیں جنھیں امریکی صدر کے براہ راست حکم پر شہید کیا گیا۔ ایران کے خلاف دہشت گردی مختلف شکل و صورت میں سامنے آئی ہے: انتہا پسندانہ دہشت گردی، جو مذہبی تعالیم کی غلط سمجھ کا نتیجہ تھی اور "فرقان" جیسے گروہوں میں ظاہر ہوئی اور فیلڈ مارشل محمد ولی قرنی اور آیت اللہ مرتضیٰ مطہری جیسی عظیم شخصیات کی شہادت کا باعث بنی۔"
"اس جنگ کے اہم نکات میں سے ایک رہبر معظم کی تدابیر تھیں۔ انھوں نے پہلے دن سے ہی بہت غور سے امور پر نظر رکھی، تدبیر کی، کمانڈروں کو مقرر کیا، جنگی امور کی انجام دہی کی اور عوام سے بات کی۔ لہٰذا ان حالات میں، اس رہنما اور اس رہبر کی مکمل حمایت کی جانی چاہیے، البتہ اس بات کا عقلی پہلو بھی بہت مضبوط ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ سیاسی معاملات میں لوگوں کی مختلف آراء ہوں لیکن جب ہم ایک بڑے بحران میں ہوں تو ہمیں ضرور اس شخص کی بھرپور حمایت کرنی چاہیے جو رہبر ہے اور درحقیقت جنگ کی قیادت کر رہا ہے۔ میرے خیال میں یہ زمانے کے حالات کی سمجھ کا ایک اہم حصہ ہے۔"
جب امریکی دباؤ ڈالتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا نظریہ "طاقت کے بل پر امن و صلح" ہے، تو طاقت کے بل پر امن و صلح کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے سرینڈر ہو جانا۔ یا تو سرینڈر یا پھر جنگ۔ کون غیرت مند انسان اس سرینڈر ہونے کو تسلیم کرے گا؟
ان واقعات میں ہمارے دشمن جس نتیجے پر پہنچے، وہ یہ ہے کہ ایران کو جنگ اور فوجی حملے سے نہیں جھکا سکتے۔ تو سوچا کہ اس کے لیے اندرونی اختلاف پیدا کریں۔ نفاق و تفرقہ ڈالنے کی کوشش کریں۔
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ آپ امریکا سے براہ راست مذاکرات کیوں نہیں کرتے؟ وہ صرف ظاہر کو دیکھتے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ نہیں ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ امریکا چاہتا ہے کہ ایران، امریکا کا تابعدار بن جائے۔
ایرانی قوم پر صیہونی حکومت کی جانب سے مسلط کی گئی حالیہ بارہ روزہ جنگ کے شہیدوں کے چہلم کی مناسبت سے منگل 29 جولائی 2025 کو رہبر انقلاب اسلامی کی جانب سے ان شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کا ایک پروگرام منعقد ہوا جس میں شہیدوں کے اہل خانہ، بعض سول اور عسکری عہدیداروں اور عوامی طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے شرکت کی۔
23 جون 2025 کی شام اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح فورسز نے امریکا کی جانب سے ایران کی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنائے جانے کے جواب میں "بشارت فتح" آپریشن کے تحت امریکا کے العدید بیس کو میزائیلوں سے نشانہ بنایا۔
اگر اسرائیل کی کمر ٹوٹ نہ گئی ہوتی تو وہ اس طرح امریکا سے مدد نہ مانگتی۔ خود امریکا کی بھی یہی حالت ہوئی۔ جب امریکا نے حملہ کیا تو امریکا پر ہمارا جوابی حملہ بہت سیریئس تھا۔
ہم جنگ میں مضبوطی سے اترے، اس کا ثبوت یہ ہے کہ جنگ میں ہماری فریق مقابل صیہونی حکومت امریکا کا سہارا لینے پر مجبور ہو گئی۔ اگراس کی کمر ٹوٹ نہ گئی ہوتی، اگر وہ گر نہ گئی ہوتی، اگر لاچار نہ ہو گئی ہوتی، اگرپنا دفاع کرنے پر قادر ہوتی تو اس طرح امریکا سے مدد نہ مانگتی۔
امام خامنہ ای
16 جولائی 2025
امریکہ نے ایران پر حملہ کیا تو امریکا پر ہمارا جوابی حملہ بہت حساس قسم کا تھا۔ جب ان شاء اللہ سینسرشپ ختم ہوگی، تب واضح ہوگا کہ ایران نے کیا کارنامہ انجام دیا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 16 جولائی 2025 کو عدلیہ کے سربراہ اور عہدیداران سے ملاقات میں اس شعبے کی اہمیت اور ذمہ داریوں کے بارے میں گفتگو کی۔ آپ نے صیہونی حکومت کی جارحیت اور اس کے بعد ایران کی تاریخی جوابی کارروائی کے پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔
خطاب حسب ذیل ہے۔
یہ کہ اسلامی جمہوریہ کو خطے میں امریکا کے اہم مراکز تک دسترسی حاصل ہو اور وہ جب بھی ضروری سمجھے ان کے خلاف کارروائي کرے، یہ کوئي معمولی واقعہ نہیں ہے یہ ایک بڑا واقعہ ہے۔
صیہونی حکومت کے حملے اور اس پر اسلامی جمہوریہ کی فتح کے بعد جمعرات 26 جون 2025 کو رہبر انقلاب اسلامی نے ٹیلی ویژن سے نشر ہونے والے اپنے تیسرے پیغام میں قوم کو مخاطب کیا۔ انھوں نے اس فتح پر قوم کو مبارکباد پیش کی اور بڑے اہم نکات کی طرف اشارہ کیا۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے بدھ 18 جون 2025 کو اپنے ایک ٹی وی پیغام میں صیہونی دشمن کے حالیہ احمقانہ اور خباثت آمیز حملے کے سلسلے میں ایرانی قوم کے باوقار، شجاعانہ اور وقت شناسی پر مبنی رویے کو سراہتے ہوئے اسے قوم کے رشد و نمو اور عقل و معنویت کے استحکام کی نشانی بتایا۔ انھوں نے کہا کہ ایرانی قوم، مسلط کردہ جنگ کے مقابلے میں مضبوطی سے ڈٹ جاتی ہے جس طرح سے کہ وہ مسلط کردہ صلح کے خلاف بھی ڈٹ جائے گي اور یہ قوم، اپنے فیصلے مسلط کرنے والوں میں سے کسی کے بھی سامنے نہیں جھکے گی۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 4 جون 2025 کو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی چھتیسویں برسی کے اجتماع سے خطاب میں بانی انقلاب کی شخصیت پر گفتگو کی۔ آپ نے غزہ اور فلسطین کے حالات اور ایران کے نیوکلیئر مسئلے پر بھی اہم نکات بیان کئے۔ (1)
خطاب حسب ذیل ہے:
ایٹمی مسئلے میں امریکی اور دوسرے فریقوں سے جو بات ہم سب سے پہلے کہتے ہیں وہ یہ ہے کہ آپ ہیں کون؟ آپ کیوں مداخلت کر رہے ہیں کہ ایران یورینیم کی افزودگی کرے یا نہ کرے؟ آپ سے کیا مطلب؟
دشمنوں نے یورینیم افزودگی کو ہی نشانہ بنایا ہے۔ اگر افزودگی کی صلاحیت نہ ہو تو جوہری صنعت بے کار ہے کیونکہ پھر ہمیں اپنے پلانٹس کے ایندھن کے لیے دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانا پڑے گا۔
امام خامنہ ای
4 جون 2025
رہبر انقلاب اسلامی نے منگل 20 مئی 2025 کی صبح شہید رئیسی اور دیگر 'شہدائے خدمت' کے اہل خانہ، بعض اعلی حکام، اور شہداء کے اہل خانہ سے ملاقات میں، شہید آل ہاشم، شہید امیر عبداللہیان، ہیلی کاپٹر کے عملے کے شہداء صوبۂ مشرقی آذربائیجان کے شہید گورنر اور شہید سیکورٹی کمانڈر کو، جو شہید رئیسی کے ساتھ جاں بحق ہوئے تھے، خراج عقیدت پیش کیا۔
ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ امن کے لیے طاقت کا استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ وہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ امریکا نے کب، امن کے لیے طاقت کا استعمال کیا ہے؟
امام خامنہ ای
17 مئی 2025
1404 ہجری شمسی سال کے پہلے دن 21 مارچ 2025 کو عوام کے مختلف طبقات کے اجتماع سے خطاب میں رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای نے سال نو کے آغاز، ماہ رمضان المبارک کی روحانیت اور نئے سال کے نعرے کے سلسلے میں بات کی۔ آیت اللہ خامنہ ای نے امریکی دھمکیوں کا دنداں شکن جواب دیا۔(1)
خطاب حسب ذیل ہے:
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے بدھ 19 فروری 2025 کی شام امیر قطر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی اور ان کے ہمراہ آئے وفد سے ملاقات کی۔
اتنے سارے نقائص والے اسی معاہدے کو بھی فریق مقابل نے تباہ کر دیا، خلاف ورزی کی، پھاڑ دیا۔ اس طرح کی حکومت سے مذاکرات نہیں کرنے چاہیے، اس سے مذاکرات کرنا عقلمندی نہیں ہے۔
انقلاب سے پہلے امریکا کی پسند یہ تھی کہ ایران اس کا تابع فرمان رہے، امریکی اور صیہونی حکومت کے مفادات کی پاسبانی کرے۔ وہ ایران کے لیے یہ آرزو رکھتے تھے، آج بھی ان کی یہی تمنا ہے۔ کارٹر اسی امید کے ساتھ قبر میں پہنچ گئے اور یہ لوگ بھی اپنی یہ آرزو قبر میں لے کر جائیں گے۔
قم کے عوام نے 9 جنوری 1978 کو تاریخی قیام کیا جس کا ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی میں اہم کردار رہا۔ اسی مناسبت سے 8 جنوری 2025 کو اہل قم نے ہزاروں کی تعداد میں حسینیہ امام خمینی تہران میں رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات کی اور آیت اللہ خامنہ ای نے حاضرین سے خطاب کیا۔
اسلامی جمہوریہ سے اس کے کینے اور فلاں دوسرے ملک کے کینے میں فرق ہے، بہت فرق ہے۔ ہم امریکا اور دوسرے مغربی ملکوں کے درمیان جو فرق رکھتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے۔ امریکا کو ایران میں شکست ہوئي ہے اور وہ اس شکست کا بدلہ لینے کی کوشش میں ہے۔
میں ملک کے عہدیداران چوکنا رہیں، ان لوگوں کی خواہشات کے سامنے نہ جھکیں جو ایرانی قوم اور اسلامی جمہوریہ کے کٹر دشمن ہیں، ایران کو تباہ شدہ دیکھنا چاہتے ہیں اور اس کی آرزو رکھتے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے 11 دسمبر 2024 کو اپنے خطاب میں کہا کہ صیہونی حکومت نے شام کے علاقوں پر قبضہ تو کیا ہی، ساتھ ہی اس کے ٹینک دمشق کے قریب تک پہنچ گئے۔ جولان کے علاقے کے علاوہ، جو دمشق کا تھا اور برسوں سے اس کے ہاتھ میں تھا، دوسرے علاقوں پر بھی قبضہ کرنا شروع کر دیا۔ امریکا، یورپ اور وہ حکومتیں، جو دنیا کے دیگر ممالک میں ان چیزوں پر بہت حساس ہیں اور ایک میٹر اور دس میٹر پر بھی حساسیت دکھاتی ہیں، اس مسئلے میں نہ صرف یہ کہ خاموش ہیں، اعتراض نہیں کر رہی ہیں بلکہ مدد بھی کر رہی ہیں۔ یہ انہی کا کام ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ بین الاقوامی قوانین کی رو سے دوسرے ملکوں کے علاقوں پر اس طرح کے قبضے کا کیا حکم ہے اور اس سلسلے میں امریکا اور یورپ کی بے عملی کی وجہ کیا ہے؟
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے شام میں تازہ صورت حال پیش آنے کے بعد 11 دسمبر 2024 کو بڑے عوامی اجتماع سے اہم خطاب میں انتہائی اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ (1)
رہبر انقلاب کا خطاب حسب ذیل ہے:
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے بدھ 11 دسمبر 2024 کو مختلف عوامی طبقات کے ہزاروں لوگوں سے ملاقات میں شام کے حالات کی مختلف وجوہات، اس ملک میں ایران کی موجودگي کی وجہ، خطے کے آئندہ حالات اور شام کے واقعات کے دروس اور عبرتوں کی تشریح کی۔
شام کے قبضہ کیے گئے علاقے، غیور شامی جوانوں کے ہاتھوں آزاد ہوں گے، شک نہ کیجیے، یہ ہو کر رہے گا۔ امریکا کے پیر بھی مضبوط نہیں ہوں گے، اللہ کی توفیق سے، اللہ کی مدد اور طاقت سے، امریکا بھی مزاحمتی محاذ کے ہاتھوں خطے سے باہر نکالا جائے گا۔
انسانی حقوق ایک ایسا مفہوم ہے جس کے پوری دنیا میں دفاع کا امریکا ہمیشہ سے سب سے بڑا دعویدار رہا ہے اور پچھلے عشروں میں اس نے اسے اپنے تسلط کے فروغ اور دوسری حکومتوں پر تنقید کے لیے ایک حربے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ کتنے سارے ممالک ہیں جن پر پچھلے عشروں میں امریکا کی مختلف حکومتوں کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گيا اور کتنے علاقے ہیں جن پر امریکا نے جمہوریت کے قیام اور انسانی حقوق کی حفاظت کے نام پر چڑھائي کی۔ مگر مختلف رپورٹیں اور تحقیقات اس حقیقت کی گواہ ہیں کہ آج امریکا ہی پوری دنیا میں انسانی حقوق کو سب سے زیادہ پامال کرتا ہے۔
دو دسمبر کو بردہ داری کے خاتمے کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کوشش کی جاتی ہے کہ ہیومن ٹریفکنگ، لوگوں کے جنسی استحصال، چائلڈ لیبر، بچوں کی جبری شادی اور جنگوں میں ان کے استعمال جیسی جدید دور کی بردہ داری کی شکلوں پر توجہ مرکوز کی جائے تاکہ ان چیزوں کے خلاف عالمی تحریک شروع ہو سکے۔ اس بات میں کوئي شک نہیں ہے کہ مذکورہ بالا جرائم، انسانوں کے سلسلے میں ہونے والے سب سے زیادہ گھناؤنے جرائم میں شامل ہیں لیکن کیا کسی کام کے لیے انسانوں کو مجبور کیا جانا صرف بردہ داری کی شکل میں ہی ہوتا ہے؟ کیا فکری، معاشی اور ثقافتی زنجیریں، انسانوں کو غلامی میں نہیں جکڑ سکتیں؟
رہبر انقلاب اسلامی نے سامراج کے خلاف جدوجہد کے قومی دن کی مناسبت سے سنیچر 2 نومبر 2024 کی صبح ملک کے اسکولوں اور یونیورسٹیوں کے ہزاروں اسٹوڈنٹس سے ملاقات کی۔
طوفان الاقصیٰ آپریشن اور سات اکتوبر کو ایک سال مکمل ہونے کے بعد آج عالم یہ ہے کہ غزہ نے 42 ہزار سے زیادہ شہیدوں اور 95 ہزار زخمیوں کے ساتھ، جن میں 70 فیصد خواتین اور بچے ہیں(1) انسانی تاریخ کے سب سے بڑے نسلی تصفیوں میں سے ایک کا سامنا کیا ہے۔ یہ نسل کشی، جسے صیہونی حکومت نے امریکا کی مکمل اور قطعی شراکت سے انجام دیا، اور امریکی اور اسرائیلی حکام کے اعتراف کے بموجب ایک سال تک اس کا تسلسل صرف امریکی حمایت سے ممکن تھا۔ امریکی کانگریس میں صیہونی حکومت کی مدد کے لیے مالی پیکجز کی منظوری، اسرائيل کو اسمارٹ بموں اور دفاعی سسٹموں کی فراہمی اور مقبوضہ علاقوں کے قریب امریکی بحری بیڑوں کی تعیناتی جیسی مختلف اسلحہ جاتی امداد، عالمی فورمز میں جنگ بندی کی قراردادوں کو ویٹو کرنا، اعلیٰ امریکی عہدیداروں کے تل ابیب کے مختلف دورے، اسرائیل میں امریکی فوجی افسران اور فوجیوں کی موجودگی اور پورے امریکا میں فلسطین کی حمایت میں ہونے والے احتجاجات کی سرکوبی، غزہ میں صیہونی حکومت کے جرائم کا ساتھ دینے میں گزشتہ ایک سال میں امریکا کی سیاہ کارکردگي کا ایک چھوٹا سا نمونہ ہے۔
تاہم صیہونی حکومت کے جرائم میں امریکا کی شراکت یہیں ختم نہیں ہو جاتی۔ حالیہ دنوں میں دنیا نے اس "جرائم پیشہ گینگ" کے ساتھ امریکا کی شراکت کا ایک نیا پہلو دیکھا ہے۔ یہ جرم 17 ستمبر کو پورے لبنان میں بیک وقت سینکڑوں پیجرز اور وائرلیس سیٹوں کے دھماکوں سے شروع ہوا۔ ان دہشت گردانہ دھماکوں کے نتیجے میں 12 افراد، جن میں دو بچے اور دو میڈیکل اسٹاف شامل تھے، جاں بحق اور 2800 افراد زخمی بھی ہوئے۔(2) یہ جرم بین الاقوامی اداروں اور حتیٰ کہ مغربی حکام کی نظر میں بھی ایک واضح "دہشت گردانہ عمل" تھا۔ مثال کے طور پر، سی آئی اے کے سابق سربراہ لیون پنیٹا نے چند دن قبل ایک انٹرویو میں اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا: "ایک جدید ٹیکنالوجی میں، جو آج کل بہت زیادہ رائج ہے، دھماکہ خیز مواد رکھنا اور اسے دہشت گردانہ جنگ میں تبدیل کر دینا، واقعی ایک دہشت گردانہ جنگ، ایک نئی چیز ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ اس میں کوئی شک ہے کہ یہ ایک قسم کی دہشت گردی ہے۔"(3) اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے بھی ایک رپورٹ میں لبنان میں صیہونی حکومت کے اس دہشت گردانہ عمل کو بین الاقوامی قوانین کی کھلی اور خوفناک خلاف ورزی قرار دیا۔(4)
اسی طرح حالیہ کچھ دنوں میں صیہونی حکومت کے فضائی حملوں کے نتیجے میں لبنان کے مختلف علاقوں میں اب تک 2 ہزار سے زائد افراد شہید اور ہزاروں دیگر زخمی ہو چکے ہیں۔ البتہ ان صیہونی جرائم کے ایک اہم شکار ہمیشہ کی طرح اس بار بھی بچے ہیں اور صرف پچھلے کچھ ہی دنوں میں سیکڑوں لبنانی بچے شہید ہو چکے ہیں۔(5)
بلاشبہ صیہونی حکومت کی یہ دہشت گردانہ کارروائی ہمیشہ کی طرح امریکا کی حمایت اور تائيد سے ہی ہوئی ہے۔ اگرچہ امریکی حکام سرکاری بیانات میں خود کو ان جرائم سے بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن عالمی رائے عامہ بخوبی واقف ہے کہ چاہے امریکا کو پیشگی اطلاع ہو یا نہ ہو، اسرائیل جو بھی کارروائی کرتا ہے، امریکا اس کی حمایت کرتا ہی ہے۔ کچھ ماہ قبل بین الاقوامی تعلقات کے مشہور پروفیسر جان مرشائیمر نے اس موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا: "اسرائیل کی لابی نے امریکی کانگریس پر قبضہ کر رکھا ہے اور وہ جو چاہتی ہے اسے حاصل کر ہی لیتی ہے۔"(6)
گزشتہ چند دہائیوں کا عالمی تجربہ بھی یہ ثابت کرتا ہے کہ امریکا کی طرف سے صیہونیوں کے تمام وحشیانہ اقدامات کے لیے ایک دائمی اور مستقل گرین سگنل موجود رہتا ہے۔ مثال کے طور پر شہید ہنیہ کے قتل کے معاملے کو ہی لیجیے، امریکی حکومت کی جانب سے اس قتل کی باضابطہ حمایت نہ کیے جانے کے باوجود، مزاحمتی محور کے ممکنہ ردعمل کے پیش نظر اس نے فوراً USS لنکن جیسے اپنے کئی بحری جنگي جہاز اسرائیل کی حمایت میں علاقے میں تعینات کر دیے۔ اس کے علاوہ، صیہونی حکومت کی حمایت کے لیے سینٹکام کے کمانڈر کی علاقے میں موجودگی کی کئي خبریں بھی گردش کرتی رہیں۔(7) اس کے علاوہ امریکی حکومت کی مالی اور اسلحہ جاتی امداد بھی ہے جو صیہونیوں کی ہر کارروائي کے بعد ان کی غیر قانونی حیات کو برقرار رکھنے کے لیے ہمیشہ ان کے کام آئی ہے۔ اس کی آخری مثال اگست میں شہید ہنیہ کے قتل کے بعد صیہونی حکومت کے لیے امریکا کی فوجی امداد ہے جو شہید ہنیہ کے قتل کے بعد صیہونی حکومت کو دی گئی تھی۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ اسرائیلی حکام بخوبی جانتے ہیں کہ وہ علاقے میں جو بھی اقدام کریں گے، چاہے اس اقدام سے پہلے واشنگٹن اس کا مخالف ہی کیوں نہ ہو، آخرکار انھیں امریکا کی دونوں جماعتوں کی حمایت حاصل ہوگی ہی۔ یہ وہ مستقل اور دائمی گرین سگنل ہے جو امریکا کی طرف سے اسرائیل کی کارروائيوں کے لیے ہمیشہ آن رہتا ہے۔
اس کے علاوہ، اس بات پر بھی توجہ ضروری ہے کہ حالیہ دنوں میں لبنان میں صیہونی حکومت کے ہاتھوں کیے جانے والے بہت سے قتل براہ راست امریکا کے گرین سگنل پر بھی ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر حزب اللہ کے کئی اعلیٰ کمانڈروں کو قتل کرنے کے لیے، جو حال ہی میں شہید کیے گئے، کئی سال پہلے خود امریکیوں نے دسیوں لاکھ ڈالر کا انعام مقرر کیا تھا۔(8) صیہونی حکومت کے جرائم کے لیے امریکا کا جدید ترین گرین سگنل نیویارک اور اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں دکھایا گيا اور فوراً ہی اس پر عمل کیا گيا۔ صیہونی وزیر اعظم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کے دوران مزاحمت کے بارے میں جھوٹے دعوے پیش کر کے رہائشی علاقوں کو نشانہ بنانے کی کارروائي کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی اور اس تقریر کے کچھ ہی منٹ بعد بیروت کے جنوب میں واقع ضاحیہ کی چھے رہائشی عمارتوں پر امریکا کے دو ہزار پونڈ کے بموں سے بمباری کی گئي اور اس کے بعد صبح تک شہر کے رہائشی علاقوں پر چالیس سے زیادہ حملے کیے گئے۔ اس وحشیانہ بمباری کے دوران ہی امریکی وزیر خارجہ بلنکن نے صیہونی حکومت کے خلاف کسی طرح کا منفی ردعمل ظاہر کیے بغیر، تنازعات کو حل کرنے کے لیے سفارتکاری کی ضرورت کے بارے میں بات کی!
آخر میں؛ رہبر انقلاب اسلامی نے 25 ستمبر 2024 کے اپنے حکمت آمیز خطاب میں امریکا کی جانب سے صیہونی حکومت کی ہمہ گير اور مستقل حمایت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: "اس جنگ میں بھی کافر اور خبیث دشمن سب سے زیادہ اسلحوں سے لیس ہے۔ امریکا اس کی پشت پر ہے۔ امریکی کہتے ہیں کہ ہمارا کوئي دخل نہیں ہے، ہمیں خبر نہیں ہے، وہ جھوٹ بولتے ہیں! انھیں خبر بھی ہے، وہ دخل بھی دے رہے ہیں اور انھیں صیہونی حکومت کی جیت کی ضرورت بھی ہے۔"
https://www.aljazeera.com/news/longform/2023/10/9/israel-hamas-war-in-maps-and-charts-live-tracker
https://www.hrw.org/news/2024/09/18/lebanon-exploding-pagers-harmed-hezbollah-civilians
https://thehill.com/policy/international/4893900-leon-panetta-lebanon-explosions-terrorism/
https://www.ohchr.org/en/press-releases/2024/09/exploding-pagers-and-radios-terrifying-violation-international-law-say-un
https://www.aljazeera.com/news/liveblog/2024/9/24/israel-attacks-lebanon-live-global-calls-for-restraint-as-492-killed
https://www.youtube.com/live/f4opzJiXAz0?si=he5WGEdmVuNfxAoy
https://www.aa.com.tr/en/politics/with-possible-iranian-attack-looming-us-central-command-chief-visits-middle-east/3294678
https://www.france24.com/en/live-news/20240920-ibrahim-aqil-the-hezbollah-elite-unit-commander-wanted-by-the-us
ہمارے اس علاقے میں اُس مشکل کی جڑ، جو ٹکراؤ، جنگوں، تشویشوں، عداوتوں وغیرہ کو وجود میں لاتی ہے، ان لوگوں کی موجودگي ہے جو خطے کے امن و امان کا دم بھرتے ہیں۔
(لبنان اور فلسطین کی) اس جنگ میں بھی کافر اور خبیث (صیہونی) دشمن سب سے زیادہ اسلحوں سے لیس ہے۔ امریکا اس کی پشت پر ہے۔ امریکی کہتے ہیں کہ ہمارا کوئي دخل نہیں ہے، ہمیں خبر نہیں ہے، وہ جھوٹ بولتے ہیں۔ انھیں خبر بھی ہے اور وہ دخل بھی دے رہے ہیں۔
25 ستمبر 2024
امت مسلمہ کی اندرونی طاقت، صیہونی حکومت کو، کینسر کے اس خبیث پھوڑے کو اسلامی معاشرے کے دل یعنی فلسطین سے دور کر سکتی ہے، زائل کر سکتی ہے اور اس خطے میں امریکا کے رسوخ، تسلط اور منہ زوری والی مداخلت کو ختم کر سکتی ہے۔