انا للہ و انا الیہ راجعون
بے شک ہم سب خدا کی طرف سے ہیں اور اسی کی جانب لوٹنے والے ہیں۔ (سورۂ بقرہ، آيت 156)
امام جمیل الامین(1) جو کبھی مرد انصاف(2) کہلاتے تھے، آخرکار ایسے شخص میں تبدیل ہو گئے جس نے انصاف کے لیے اپنی جان دے دی۔ آزادی کی راہ کا یہ مجاہد، یہ روحانی اور سامراج مخالف لیڈر، 23 سال امریکی جیلوں میں قید رہنے کے بعد خدا کی طرف لوٹ گیا۔ وہ ایک جنگی قیدی تھے، اس جنگ کے قیدی جو امریکا نے سیاہ فام امریکی برادری کے خلاف چھیڑی تھی۔
بارہ روزہ جنگ میں ایرانی قوم نے امریکا کو بھی دھول چٹائی اور صیہونیوں کو بھی شکست دی، اس میں کوئی شک نہیں۔ انھوں نے شیطنت کی، مار کھائی اور خالی ہاتھ لوٹ گئے۔ یہ حقیقی معنی میں شکست ہے۔
امریکی تیل اور زیر زمین ذخائر کی خاطر دنیا میں کہیں بھی جنگ کی آگ بھڑکانے کو تیار ہیں اور جنگ کی یہ آگ لاطینی امریکا تک پہنچ گئی ہے۔
امام خامنہ ای
27 نومبر 2025
ایک نظریے کے مطابق صیہونی حکومت نے اس جنگ کے لیے بیس برس تک منصوبہ بندی اور تیاری کی تھی۔ بیس سال سے منصوبہ بندی اس لیے کہ ایران میں جنگ چھیڑی جائے، عوام کو بھڑکایا جائے کہ وہ اسلامی نظام کے خلاف محاذ آرا ہو جائیں مگر نتیجہ اس کے برعکس نکلا اور وہ پوری طرح ناکام ہو گئی۔
امام خامنہ ای
27 نومبر 2025
امریکی تو اپنے دوستوں سے بھی غداری کرتے ہیں یعنی جو لوگ ان کے دوست ہیں، ان سے بھی غداری کرتے ہیں۔ تیل اور زیر زمین ذخائر کی خاطر وہ دنیا میں کہیں بھی جنگ کی آگ بھڑکانے کو تیار ہیں۔
دنیا کے مختلف علاقوں میں امریکا کی مداخلت ان اسباب میں سے ایک ہے جو روز بروز امریکا کو دنیا میں مزید الگ تھلگ کر رہے ہیں، چاہے بعض ملکوں کے سربراہ اس کی خوشامد کریں لیکن یہ چیز اقوام کے درمیان امریکا کو روز بروز زیادہ نفرت انگیز بنا رہی ہے۔
غزہ کے المیے میں صیہونی حکومت بری طرح رسوا اور بدنام ہو گئی اور امریکا بھی اس بدنامی اور رسوائی میں اس غاصب اور ظالم حکومت کے ساتھ کھڑا ہوا وہ بھی رسوا ہو گیا اسے بھی شدید نقصان پہنچا۔
اس بارہ روزہ جنگ میں امریکا کو شدید نقصان ہوا، زبردست نقصان ہوا۔ امریکا کے مقابلے میں ایرانی قوم کا اتحاد مزید بڑھ گيا اور ایرانی قوم حقیقی معنی میں فریق مقابل کو ناکام کرنے میں کامیاب رہی۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے ہفتۂ بسیج (ہفتۂ رضاکار فورس) کے موقع پر ملک، علاقے اور عالمی حالات کے بارے میں قوم سے خطاب کرتے ہوئے بسیج جیسے ادارے کو ہر ملک کے لیے مفید اور راہ کشا بتایا اور کہا ہے کہ ایران جیسے ملک کو، جو عالمی غنڈوں اور شر پسندوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہے، دوسرے سبھی ملکوں سے زیادہ بسیج کی ضرورت ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے 27 نومبر 2025 کو ٹیلی ویزن سے نشر ہونے والے اپنے خطاب میں ہفتہ بسیج (رضاکار فورس) اور ایران و مغربی ایشیا کے مسائل کے سلسلے میں کلیدی نکات بیان کیے۔
خطاب حسب ذیل ہے:
بارہ روزہ جنگ میں ایرانی قوم نے امریکا کو بھی دھول چٹائی اور صیہونیوں کو بھی شکست دی، اس میں کوئی شک نہیں۔ انھوں نے شیطنت کی، مار کھائی اور خالی ہاتھ لوٹ گئے۔ یہ حقیقی معنی میں شکست ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے جمعرات 27 نومبر 2025 کی رات ٹیلی ویژن پر ملک، علاقے اور عالمی حالات کے بارے میں ٹی وی پر قوم سے اہم خطاب کیا۔
امریکا اور مغرب، تسلط پسندی کے خواہاں ہیں ورنہ آپ سے کیا مطلب ہے کہ آپ ایران کے میزائیلوں کے بارے میں اظہار خیال کریں؟ کیا آپ یہ بات تسلیم کریں گے کہ ہم کہیں کہ جب تک یورپ کے پاس میزائيل اور ایٹمی ہتھیار ہے، وہ ہم سے جنگ کے لیے تیار رہے؟
رہبر انقلاب کے افکار و نظریات کے تناظر میں "ہم اور مغرب" نامی کانفرنس کی اختتامی تقریب اسلامی جمہوریہ ایران کے نشریاتی ادارے کے کانفرنس سینٹر میں پیر 10 نومبر 2025 کو ملک کے بعض پروفیسرز، مفکرین اور اہم علمی و سیاسی شخصیات کی شرکت سے منعقد ہوئی۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 13 آبان مطابق 4 نومبر عالمی سامراج کے خلاف مجاہدت کے قومی دن کی مناسبت سے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبا وطالبات سے 3 نومبر 2025 کو اپنے خطاب میں اس تاریخی دن کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ آپ نے امریکہ اور اسلامی جمہوریہ کے تعلقات کے ماضی، حال اور مستقبل کے سلسلے میں تجزیاتی گفتگو کی۔
خطاب حسب ذیل ہے:
امریکی سفارت خانے کا معاملہ یہ تھا کہ وہ انقلاب کے خلاف سازش کا مرکز تھا۔ لوگوں سے ملیں، لوگوں کو ورغلائيں، گروہ بنائيں، پچھلی حکومت کی ناخوش باقیات کو استعمال کریں اور اگر ممکن ہو تو فوج کو ایک ساتھ اکٹھا کریں اور انقلاب کے خلاف کارروائي کریں۔
امریکا کی سامراجی فطرت اور انقلاب کی خود مختارانہ فطرت آپس میں میل نہیں کھاتی تھی۔ اسلامی جمہوریہ اور ایران کا اختلاف ایک ٹیکٹکل اختلاف نہیں ہے، ایک جزوی اختلاف نہیں ہے، بلکہ ایک بنیادی اختلاف ہے۔
پوچھا جاتا ہے کہ کیا ہم امریکہ سے ہمیشہ تعلقات منقطع رکھیں گے؟ امریکہ کا استکباری مزاج سرینڈر کے سوا کسی اور چیز کو قبول ہی نہیں کرتا۔ امریکہ کے موجودہ صدر نے یہ زبان سے کہہ کر درحقیقت امریکہ کی حقیقت بے نقاب کی ہے۔ ایران جیسی عظیم قوم کے لیے سرینڈر ہونے کا کیا مطلب ہے؟
بعض لوگ پوچھتے ہیں کہ ہم امریکا کے سامنے نہیں جھکے لیکن کیا امریکا سے ہمارے تعلقات بھی ابد تک نہیں ہوں گے؟ جواب یہ ہے کہ اول تو امریکا کی سامراجی ماہیت، سرینڈر کے علاوہ کسی بات کو تسلیم نہیں کرتی۔
یوم طلبہ اور سامراج کے خلاف جدوجہد کے قومی دن کی مناسبت سے رہبر انقلاب اسلامی نے پیر 3 نومبر 2025 کی صبح ملک کے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اسٹوڈنٹس اور اسی طرح مسلط کردہ بارہ روز جنگ کے کچھ شہیدوں کے اہل خانہ سے ملاقات کی۔
اگر امریکا پوری طرح سے صیہونی حکومت کی پشت پناہی ختم کر دے، اس علاقے سے اپنی فوجی اڈوں کو ختم کر دے، اس خطے میں مداخلت بند کر دے تب اس مسئلے کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔
امریکی صدر کہتے ہیں کہ ہم دہشت گردی سے لڑ رہے ہیں۔ چار سالہ، پانچ سالہ بچے، نوزائیدہ بچے، بیس ہزار ایسے بچوں کو آپ نے مارا ہے! کیا یہ دہشت گرد تھے؟ دہشت گرد تو تم ہو!
کھیلوں کے بین الاقوامی مقابلوں اور عالمی سائنسی اولمپیاڈ میں تغمے لانے والے ایرانی نوجوانوں نے 20 اکتوبر 2025 کو رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔ اس موقع پر اپنے خطاب میں آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسلامی جمہوریہ ایران کی الگ الگ اقسام کی توانائیوں کے بارے میں گفتگو کی۔ خطاب حسب ذیل ہے:
رہبر انقلاب نے 23 ستمبر 2025 کو ٹی وی پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا: "جب ہم کہتے ہیں کہ (امریکا سے مذاکرات) ہمارے فائدے میں نہیں ہیں، ہمارے لیے سود مند نہیں ہیں، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکی فریق مذاکرات کے نتائج پہلے ہی سے طے کر چکا ہے، یعنی اس نے واضح کر دیا ہے کہ وہ صرف ان مذاکرات کو قبول کرتا ہے اور وہ ایسے مذاکرات چاہتا ہے جن کا نتیجہ ایران میں جوہری سرگرمیوں اور یورینیم کی افزودگی کا خاتمہ ہو۔ یعنی ہم امریکا کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھیں اور اس سے ہونے والی گفتگو کا نتیجہ وہی بات ہو جو اس نے کہی ہے کہ "یہ ہونا چاہیے!" یہ پھر مذاکرات نہیں رہے، یہ ڈکٹیشن ہے، یہ زبردستی ہے۔"
اسی مناسبت سے KHAMENEI.IR نے ایران کی خارجہ تعلقات کی اسٹریٹیجک کونسل کے سربراہ اور سابق وزیر خارجہ ڈاکٹر کمال خرازی سے ان کے ماضی کے تجربات کے پیش نظر اسلامی جمہوریہ ایران کی خارجہ پالیسی کے اصولوں اور اسی طرح بارہ روزہ جنگ سے ملنے والے سبق اور عبرتوں کے بارے میں گفتگو کی ہے۔
ایران کے ہاتھ اس قدر بندھے اور خالی ہوں کہ اگر اس پر حملہ بھی کیا جائے، تو وہ عراق میں یا فلاں مقام پر موجود امریکی اڈے پر بھی جوابی حملہ نہ کر سکے؛ ہم مذاکرات کریں تاکہ یہ نتیجہ برآمد ہو!
امریکی فریق کہتا ہے کہ آپ کو یورینیم افزودگی بالکل نہیں کرنی چاہیے۔ مطلب؟ اس کا مطلب ہے کہ اس عظیم کامیابی کو جو ہمارے ملک نے اتنی محنت سے حاصل کی ہے، تم اسے تباہ کر دو! ایرانی قوم ایسی بات کہنے والے کے منہ پر طمانچہ مارے گی اور اس بات کو قبول نہیں کرے گی۔
یہ مذاکرات امریکا کے موجودہ صدر کے لیے فائدہ مند ہیں۔ وہ اور پھول جائے گا، کہے گا کہ میں نے ایران کو دھمکی دی اور میں نے اسے مذاکرات کی میز پر بٹھایا۔ تاہم ہمارے لیے یہ پوری طرح نقصان ہے اور اس میں ہمارے لیے کوئي فائدہ نہیں ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے منگل 23 ستمبر 2025 کی رات عوام سے ٹی وی پر خطاب کرتے ہوئے بارہ روزہ جنگ میں ایرانی قوم کی وحدت و یکجہتی، یورینیم کی افزودگي کی اہمیت، امریکا کی دھمکیوں کے مقابلے میں ایرانی قوم اور نظام کے مضبوط اور عاقلانہ موقف جیسے اہم موضوعات پر روشنی ڈالی۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 23 ستمبر 2025 مطابق 1 مہر 1404 کو نئے ایرانی تعلیمی سال کے آغاز کے موقع پر ملت ایران سے ٹیلی وائزڈ خطاب کیا۔ آپ نے ایرانی بچوں اور نوجوانوں کی استعداد کا ذکر کرتے ہوئے تعلیم پر خاص توجہ دینے پر تاکید کی۔ آپ نے قومی اتحاد، نیوکلیئر پروگرام اور امریکا سے مذاکرات کے سلسلے میں دو ٹوک انداز میں اپنا موقف بیان کیا۔
خطاب حسب ذیل ہے:
"اسلامی جمہوریہ ایران، دنیا میں دہشت گردی کے سب سے بڑے شکاروں میں سے ایک ہے۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی سے لے کر اب تک سترہ ہزار سے زیادہ ایرانیوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جا چکا ہے جن میں عام لوگ بھی ہیں جنھیں منافقین (ایم کے او) کے دہشت گردوں نے صرف ظاہری مذہبی شکل و صورت کی بنیاد پر سڑکوں پر گولیوں سے بھون دیا ہے اور جنرل قاسم سلیمانی جیسے کمانڈر بھی ہیں جنھیں امریکی صدر کے براہ راست حکم پر شہید کیا گیا۔ ایران کے خلاف دہشت گردی مختلف شکل و صورت میں سامنے آئی ہے: انتہا پسندانہ دہشت گردی، جو مذہبی تعالیم کی غلط سمجھ کا نتیجہ تھی اور "فرقان" جیسے گروہوں میں ظاہر ہوئی اور فیلڈ مارشل محمد ولی قرنی اور آیت اللہ مرتضیٰ مطہری جیسی عظیم شخصیات کی شہادت کا باعث بنی۔"
"اس جنگ کے اہم نکات میں سے ایک رہبر معظم کی تدابیر تھیں۔ انھوں نے پہلے دن سے ہی بہت غور سے امور پر نظر رکھی، تدبیر کی، کمانڈروں کو مقرر کیا، جنگی امور کی انجام دہی کی اور عوام سے بات کی۔ لہٰذا ان حالات میں، اس رہنما اور اس رہبر کی مکمل حمایت کی جانی چاہیے، البتہ اس بات کا عقلی پہلو بھی بہت مضبوط ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ سیاسی معاملات میں لوگوں کی مختلف آراء ہوں لیکن جب ہم ایک بڑے بحران میں ہوں تو ہمیں ضرور اس شخص کی بھرپور حمایت کرنی چاہیے جو رہبر ہے اور درحقیقت جنگ کی قیادت کر رہا ہے۔ میرے خیال میں یہ زمانے کے حالات کی سمجھ کا ایک اہم حصہ ہے۔"
جب امریکی دباؤ ڈالتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا نظریہ "طاقت کے بل پر امن و صلح" ہے، تو طاقت کے بل پر امن و صلح کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے سرینڈر ہو جانا۔ یا تو سرینڈر یا پھر جنگ۔ کون غیرت مند انسان اس سرینڈر ہونے کو تسلیم کرے گا؟
ان واقعات میں ہمارے دشمن جس نتیجے پر پہنچے، وہ یہ ہے کہ ایران کو جنگ اور فوجی حملے سے نہیں جھکا سکتے۔ تو سوچا کہ اس کے لیے اندرونی اختلاف پیدا کریں۔ نفاق و تفرقہ ڈالنے کی کوشش کریں۔