انقلاب سے پہلے امریکا کی پسند یہ تھی کہ ایران اس کا تابع فرمان رہے، امریکی اور صیہونی حکومت کے مفادات کی پاسبانی کرے۔ وہ ایران کے لیے یہ آرزو رکھتے تھے، آج بھی ان کی یہی تمنا ہے۔ کارٹر اسی امید کے ساتھ قبر میں پہنچ گئے اور یہ لوگ بھی اپنی یہ آرزو قبر میں لے کر جائیں گے۔
قم کے عوام نے 9 جنوری 1978 کو تاریخی قیام کیا جس کا ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی میں اہم کردار رہا۔ اسی مناسبت سے 8 جنوری 2025 کو اہل قم نے ہزاروں کی تعداد میں حسینیہ امام خمینی تہران میں رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات کی اور آیت اللہ خامنہ ای نے حاضرین سے خطاب کیا۔
اسلامی جمہوریہ سے اس کے کینے اور فلاں دوسرے ملک کے کینے میں فرق ہے، بہت فرق ہے۔ ہم امریکا اور دوسرے مغربی ملکوں کے درمیان جو فرق رکھتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے۔ امریکا کو ایران میں شکست ہوئي ہے اور وہ اس شکست کا بدلہ لینے کی کوشش میں ہے۔
میں ملک کے عہدیداران چوکنا رہیں، ان لوگوں کی خواہشات کے سامنے نہ جھکیں جو ایرانی قوم اور اسلامی جمہوریہ کے کٹر دشمن ہیں، ایران کو تباہ شدہ دیکھنا چاہتے ہیں اور اس کی آرزو رکھتے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے 11 دسمبر 2024 کو اپنے خطاب میں کہا کہ صیہونی حکومت نے شام کے علاقوں پر قبضہ تو کیا ہی، ساتھ ہی اس کے ٹینک دمشق کے قریب تک پہنچ گئے۔ جولان کے علاقے کے علاوہ، جو دمشق کا تھا اور برسوں سے اس کے ہاتھ میں تھا، دوسرے علاقوں پر بھی قبضہ کرنا شروع کر دیا۔ امریکا، یورپ اور وہ حکومتیں، جو دنیا کے دیگر ممالک میں ان چیزوں پر بہت حساس ہیں اور ایک میٹر اور دس میٹر پر بھی حساسیت دکھاتی ہیں، اس مسئلے میں نہ صرف یہ کہ خاموش ہیں، اعتراض نہیں کر رہی ہیں بلکہ مدد بھی کر رہی ہیں۔ یہ انہی کا کام ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ بین الاقوامی قوانین کی رو سے دوسرے ملکوں کے علاقوں پر اس طرح کے قبضے کا کیا حکم ہے اور اس سلسلے میں امریکا اور یورپ کی بے عملی کی وجہ کیا ہے؟
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے شام میں تازہ صورت حال پیش آنے کے بعد 11 دسمبر 2024 کو بڑے عوامی اجتماع سے اہم خطاب میں انتہائی اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ (1)
رہبر انقلاب کا خطاب حسب ذیل ہے:
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے بدھ 11 دسمبر 2024 کو مختلف عوامی طبقات کے ہزاروں لوگوں سے ملاقات میں شام کے حالات کی مختلف وجوہات، اس ملک میں ایران کی موجودگي کی وجہ، خطے کے آئندہ حالات اور شام کے واقعات کے دروس اور عبرتوں کی تشریح کی۔
شام کے قبضہ کیے گئے علاقے، غیور شامی جوانوں کے ہاتھوں آزاد ہوں گے، شک نہ کیجیے، یہ ہو کر رہے گا۔ امریکا کے پیر بھی مضبوط نہیں ہوں گے، اللہ کی توفیق سے، اللہ کی مدد اور طاقت سے، امریکا بھی مزاحمتی محاذ کے ہاتھوں خطے سے باہر نکالا جائے گا۔
انسانی حقوق ایک ایسا مفہوم ہے جس کے پوری دنیا میں دفاع کا امریکا ہمیشہ سے سب سے بڑا دعویدار رہا ہے اور پچھلے عشروں میں اس نے اسے اپنے تسلط کے فروغ اور دوسری حکومتوں پر تنقید کے لیے ایک حربے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ کتنے سارے ممالک ہیں جن پر پچھلے عشروں میں امریکا کی مختلف حکومتوں کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گيا اور کتنے علاقے ہیں جن پر امریکا نے جمہوریت کے قیام اور انسانی حقوق کی حفاظت کے نام پر چڑھائي کی۔ مگر مختلف رپورٹیں اور تحقیقات اس حقیقت کی گواہ ہیں کہ آج امریکا ہی پوری دنیا میں انسانی حقوق کو سب سے زیادہ پامال کرتا ہے۔
دو دسمبر کو بردہ داری کے خاتمے کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کوشش کی جاتی ہے کہ ہیومن ٹریفکنگ، لوگوں کے جنسی استحصال، چائلڈ لیبر، بچوں کی جبری شادی اور جنگوں میں ان کے استعمال جیسی جدید دور کی بردہ داری کی شکلوں پر توجہ مرکوز کی جائے تاکہ ان چیزوں کے خلاف عالمی تحریک شروع ہو سکے۔ اس بات میں کوئي شک نہیں ہے کہ مذکورہ بالا جرائم، انسانوں کے سلسلے میں ہونے والے سب سے زیادہ گھناؤنے جرائم میں شامل ہیں لیکن کیا کسی کام کے لیے انسانوں کو مجبور کیا جانا صرف بردہ داری کی شکل میں ہی ہوتا ہے؟ کیا فکری، معاشی اور ثقافتی زنجیریں، انسانوں کو غلامی میں نہیں جکڑ سکتیں؟
رہبر انقلاب اسلامی نے سامراج کے خلاف جدوجہد کے قومی دن کی مناسبت سے سنیچر 2 نومبر 2024 کی صبح ملک کے اسکولوں اور یونیورسٹیوں کے ہزاروں اسٹوڈنٹس سے ملاقات کی۔
طوفان الاقصیٰ آپریشن اور سات اکتوبر کو ایک سال مکمل ہونے کے بعد آج عالم یہ ہے کہ غزہ نے 42 ہزار سے زیادہ شہیدوں اور 95 ہزار زخمیوں کے ساتھ، جن میں 70 فیصد خواتین اور بچے ہیں(1) انسانی تاریخ کے سب سے بڑے نسلی تصفیوں میں سے ایک کا سامنا کیا ہے۔ یہ نسل کشی، جسے صیہونی حکومت نے امریکا کی مکمل اور قطعی شراکت سے انجام دیا، اور امریکی اور اسرائیلی حکام کے اعتراف کے بموجب ایک سال تک اس کا تسلسل صرف امریکی حمایت سے ممکن تھا۔ امریکی کانگریس میں صیہونی حکومت کی مدد کے لیے مالی پیکجز کی منظوری، اسرائيل کو اسمارٹ بموں اور دفاعی سسٹموں کی فراہمی اور مقبوضہ علاقوں کے قریب امریکی بحری بیڑوں کی تعیناتی جیسی مختلف اسلحہ جاتی امداد، عالمی فورمز میں جنگ بندی کی قراردادوں کو ویٹو کرنا، اعلیٰ امریکی عہدیداروں کے تل ابیب کے مختلف دورے، اسرائیل میں امریکی فوجی افسران اور فوجیوں کی موجودگی اور پورے امریکا میں فلسطین کی حمایت میں ہونے والے احتجاجات کی سرکوبی، غزہ میں صیہونی حکومت کے جرائم کا ساتھ دینے میں گزشتہ ایک سال میں امریکا کی سیاہ کارکردگي کا ایک چھوٹا سا نمونہ ہے۔
تاہم صیہونی حکومت کے جرائم میں امریکا کی شراکت یہیں ختم نہیں ہو جاتی۔ حالیہ دنوں میں دنیا نے اس "جرائم پیشہ گینگ" کے ساتھ امریکا کی شراکت کا ایک نیا پہلو دیکھا ہے۔ یہ جرم 17 ستمبر کو پورے لبنان میں بیک وقت سینکڑوں پیجرز اور وائرلیس سیٹوں کے دھماکوں سے شروع ہوا۔ ان دہشت گردانہ دھماکوں کے نتیجے میں 12 افراد، جن میں دو بچے اور دو میڈیکل اسٹاف شامل تھے، جاں بحق اور 2800 افراد زخمی بھی ہوئے۔(2) یہ جرم بین الاقوامی اداروں اور حتیٰ کہ مغربی حکام کی نظر میں بھی ایک واضح "دہشت گردانہ عمل" تھا۔ مثال کے طور پر، سی آئی اے کے سابق سربراہ لیون پنیٹا نے چند دن قبل ایک انٹرویو میں اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا: "ایک جدید ٹیکنالوجی میں، جو آج کل بہت زیادہ رائج ہے، دھماکہ خیز مواد رکھنا اور اسے دہشت گردانہ جنگ میں تبدیل کر دینا، واقعی ایک دہشت گردانہ جنگ، ایک نئی چیز ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ اس میں کوئی شک ہے کہ یہ ایک قسم کی دہشت گردی ہے۔"(3) اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے بھی ایک رپورٹ میں لبنان میں صیہونی حکومت کے اس دہشت گردانہ عمل کو بین الاقوامی قوانین کی کھلی اور خوفناک خلاف ورزی قرار دیا۔(4)
اسی طرح حالیہ کچھ دنوں میں صیہونی حکومت کے فضائی حملوں کے نتیجے میں لبنان کے مختلف علاقوں میں اب تک 2 ہزار سے زائد افراد شہید اور ہزاروں دیگر زخمی ہو چکے ہیں۔ البتہ ان صیہونی جرائم کے ایک اہم شکار ہمیشہ کی طرح اس بار بھی بچے ہیں اور صرف پچھلے کچھ ہی دنوں میں سیکڑوں لبنانی بچے شہید ہو چکے ہیں۔(5)
بلاشبہ صیہونی حکومت کی یہ دہشت گردانہ کارروائی ہمیشہ کی طرح امریکا کی حمایت اور تائيد سے ہی ہوئی ہے۔ اگرچہ امریکی حکام سرکاری بیانات میں خود کو ان جرائم سے بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن عالمی رائے عامہ بخوبی واقف ہے کہ چاہے امریکا کو پیشگی اطلاع ہو یا نہ ہو، اسرائیل جو بھی کارروائی کرتا ہے، امریکا اس کی حمایت کرتا ہی ہے۔ کچھ ماہ قبل بین الاقوامی تعلقات کے مشہور پروفیسر جان مرشائیمر نے اس موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا: "اسرائیل کی لابی نے امریکی کانگریس پر قبضہ کر رکھا ہے اور وہ جو چاہتی ہے اسے حاصل کر ہی لیتی ہے۔"(6)
گزشتہ چند دہائیوں کا عالمی تجربہ بھی یہ ثابت کرتا ہے کہ امریکا کی طرف سے صیہونیوں کے تمام وحشیانہ اقدامات کے لیے ایک دائمی اور مستقل گرین سگنل موجود رہتا ہے۔ مثال کے طور پر شہید ہنیہ کے قتل کے معاملے کو ہی لیجیے، امریکی حکومت کی جانب سے اس قتل کی باضابطہ حمایت نہ کیے جانے کے باوجود، مزاحمتی محور کے ممکنہ ردعمل کے پیش نظر اس نے فوراً USS لنکن جیسے اپنے کئی بحری جنگي جہاز اسرائیل کی حمایت میں علاقے میں تعینات کر دیے۔ اس کے علاوہ، صیہونی حکومت کی حمایت کے لیے سینٹکام کے کمانڈر کی علاقے میں موجودگی کی کئي خبریں بھی گردش کرتی رہیں۔(7) اس کے علاوہ امریکی حکومت کی مالی اور اسلحہ جاتی امداد بھی ہے جو صیہونیوں کی ہر کارروائي کے بعد ان کی غیر قانونی حیات کو برقرار رکھنے کے لیے ہمیشہ ان کے کام آئی ہے۔ اس کی آخری مثال اگست میں شہید ہنیہ کے قتل کے بعد صیہونی حکومت کے لیے امریکا کی فوجی امداد ہے جو شہید ہنیہ کے قتل کے بعد صیہونی حکومت کو دی گئی تھی۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ اسرائیلی حکام بخوبی جانتے ہیں کہ وہ علاقے میں جو بھی اقدام کریں گے، چاہے اس اقدام سے پہلے واشنگٹن اس کا مخالف ہی کیوں نہ ہو، آخرکار انھیں امریکا کی دونوں جماعتوں کی حمایت حاصل ہوگی ہی۔ یہ وہ مستقل اور دائمی گرین سگنل ہے جو امریکا کی طرف سے اسرائیل کی کارروائيوں کے لیے ہمیشہ آن رہتا ہے۔
اس کے علاوہ، اس بات پر بھی توجہ ضروری ہے کہ حالیہ دنوں میں لبنان میں صیہونی حکومت کے ہاتھوں کیے جانے والے بہت سے قتل براہ راست امریکا کے گرین سگنل پر بھی ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر حزب اللہ کے کئی اعلیٰ کمانڈروں کو قتل کرنے کے لیے، جو حال ہی میں شہید کیے گئے، کئی سال پہلے خود امریکیوں نے دسیوں لاکھ ڈالر کا انعام مقرر کیا تھا۔(8) صیہونی حکومت کے جرائم کے لیے امریکا کا جدید ترین گرین سگنل نیویارک اور اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں دکھایا گيا اور فوراً ہی اس پر عمل کیا گيا۔ صیہونی وزیر اعظم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کے دوران مزاحمت کے بارے میں جھوٹے دعوے پیش کر کے رہائشی علاقوں کو نشانہ بنانے کی کارروائي کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی اور اس تقریر کے کچھ ہی منٹ بعد بیروت کے جنوب میں واقع ضاحیہ کی چھے رہائشی عمارتوں پر امریکا کے دو ہزار پونڈ کے بموں سے بمباری کی گئي اور اس کے بعد صبح تک شہر کے رہائشی علاقوں پر چالیس سے زیادہ حملے کیے گئے۔ اس وحشیانہ بمباری کے دوران ہی امریکی وزیر خارجہ بلنکن نے صیہونی حکومت کے خلاف کسی طرح کا منفی ردعمل ظاہر کیے بغیر، تنازعات کو حل کرنے کے لیے سفارتکاری کی ضرورت کے بارے میں بات کی!
آخر میں؛ رہبر انقلاب اسلامی نے 25 ستمبر 2024 کے اپنے حکمت آمیز خطاب میں امریکا کی جانب سے صیہونی حکومت کی ہمہ گير اور مستقل حمایت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: "اس جنگ میں بھی کافر اور خبیث دشمن سب سے زیادہ اسلحوں سے لیس ہے۔ امریکا اس کی پشت پر ہے۔ امریکی کہتے ہیں کہ ہمارا کوئي دخل نہیں ہے، ہمیں خبر نہیں ہے، وہ جھوٹ بولتے ہیں! انھیں خبر بھی ہے، وہ دخل بھی دے رہے ہیں اور انھیں صیہونی حکومت کی جیت کی ضرورت بھی ہے۔"
https://www.aljazeera.com/news/longform/2023/10/9/israel-hamas-war-in-maps-and-charts-live-tracker
https://www.hrw.org/news/2024/09/18/lebanon-exploding-pagers-harmed-hezbollah-civilians
https://thehill.com/policy/international/4893900-leon-panetta-lebanon-explosions-terrorism/
https://www.ohchr.org/en/press-releases/2024/09/exploding-pagers-and-radios-terrifying-violation-international-law-say-un
https://www.aljazeera.com/news/liveblog/2024/9/24/israel-attacks-lebanon-live-global-calls-for-restraint-as-492-killed
https://www.youtube.com/live/f4opzJiXAz0?si=he5WGEdmVuNfxAoy
https://www.aa.com.tr/en/politics/with-possible-iranian-attack-looming-us-central-command-chief-visits-middle-east/3294678
https://www.france24.com/en/live-news/20240920-ibrahim-aqil-the-hezbollah-elite-unit-commander-wanted-by-the-us
ہمارے اس علاقے میں اُس مشکل کی جڑ، جو ٹکراؤ، جنگوں، تشویشوں، عداوتوں وغیرہ کو وجود میں لاتی ہے، ان لوگوں کی موجودگي ہے جو خطے کے امن و امان کا دم بھرتے ہیں۔
(لبنان اور فلسطین کی) اس جنگ میں بھی کافر اور خبیث (صیہونی) دشمن سب سے زیادہ اسلحوں سے لیس ہے۔ امریکا اس کی پشت پر ہے۔ امریکی کہتے ہیں کہ ہمارا کوئي دخل نہیں ہے، ہمیں خبر نہیں ہے، وہ جھوٹ بولتے ہیں۔ انھیں خبر بھی ہے اور وہ دخل بھی دے رہے ہیں۔
25 ستمبر 2024
امت مسلمہ کی اندرونی طاقت، صیہونی حکومت کو، کینسر کے اس خبیث پھوڑے کو اسلامی معاشرے کے دل یعنی فلسطین سے دور کر سکتی ہے، زائل کر سکتی ہے اور اس خطے میں امریکا کے رسوخ، تسلط اور منہ زوری والی مداخلت کو ختم کر سکتی ہے۔
11 ستمبر کے واقعے کو 23 سال ہو گئے۔ اس واقعے کے بہانے امریکا نے مغربی ایشیا کے علاقے میں سنجیدگي کے ساتھ اپنی موجودگي شروع کی اور خطے کے مختلف ملکوں کے خلاف اپنے فوجی حملے شروع کیے۔ اس واقعے کے بعد کے بالکل ابتدائي دنوں میں اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے کانگریس کے مشترکہ اجلاس میں اپنی تقریر میں، جو ٹی وی چینلوں سے براہ راست نشر ہوئي، کہا: "دہشت گردی کے خلاف القاعدہ سے ہماری جنگ شروع ہو رہی ہے لیکن وہ یہیں پر ختم نہیں ہوگي۔ جب تک پوری دنیا میں کسی بھی دہشت گرد گروہ کو روکا اور ختم نہیں کیا جاتا، یہ جنگ ختم نہیں ہوگي۔"(1) اسی تقریر کے بعد مغربی ایشیا پر امریکا کے غیر قانونی حملے "دہشت گردی کے خلاف جنگ" کے نام سے پہچانے گئے۔ دو سال بعد جارج ڈبلیو بش نے صدام کے سقوط اور عراق پر قبضے کے بعد اپنی تقریر میں دنیا سے ایک بڑا وعدہ کیا اور کہا: "عراقی ڈیموکریسی کامیاب ہوگي اور اس کامیابی کی خبر دمشق سے تہران تک بھیجی جائے گي۔ یہ آزادی مستقبل میں ہر قوم کی ہو سکتی ہے۔ مشرق وسطی کے مرکز میں ایک آزاد عراق کا سیاسی اور قانونی ڈھانچہ، عالمی ڈیموکریٹک انقلاب میں ایک نیا موڑ ثابت ہوگا۔" یہ ایسا وعدہ تھا جو ہمیشہ تشنۂ تکمیل رہا اور مغربی ایشیا کے علاقے میں امریکا کی دو عشرے سے زیادہ کی موجودگي کا پھل ڈیموکریسی اور عمومی رفاہ نہیں بلکہ تباہی اور غربت کی صورت میں سامنے آيا۔
براؤن یونیورسٹی کی تازہ ترین تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ 11 ستمبر کے بعد امریکا کی جنگوں میں اب تک براہ راست نو لاکھ چالیس ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے ہیں۔ اسی طرح اس یونیورسٹی کے تخمینے کے مطابق پچھلے 23 برس میں ان جنگوں کی وجہ سے 36 لاکھ سے 38 لاکھ لوگ بالواسطہ طور پر مارے گئے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں امریکی حکومت کی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ اب تک 45 لاکھ سے زیادہ لوگوں کی جان لے چکی ہے۔ دوسری جانب یہ جنگيں اب تک 3 کروڑ 80 لاکھ لوگوں کو بڑی بے رحمی سے بے گھر کر چکی ہیں اور دسیوں لاکھ بے قصور لوگوں کے گھر مسمار یا تباہ ہو چکے ہیں۔(2)
صرف افغانستان میں امریکی فوج کی بیس سال تک جاری رہنے والی فوجی کارروائيوں میں 30 ہزار سے زیادہ عام شہریوں سمیت 1 لاکھ 74 ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے ہیں۔ دسمبر 2021 میں نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ عراق، شام اور افغانستان پر امریکا کے 50 ہزار سے زیادہ فضائي حملوں نے دسیوں ہزار عام شہریوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔(3) امریکی فوج کے وحشیانہ قتل عام کی ایک تازہ مثال، افغانستان سے انخلاء کے وقت اس کی جانب سے افغان شہریوں پر ڈرون حملہ ہے جس میں سات بچوں سمیت کم از کم 10 افغان شہری مارے گئے جن میں سب سے چھوٹے کی عمر 2 سال تھی۔(4)
اس کے علاوہ آج کل دنیا نیویارکر میگزین میں شائع ہونے والی ان تازہ تصاویر اور تفصیلات سے حیرت زدہ ہے جن میں حدیثہ کے قتل عام میں امریکی فوج کی قلعی کھولی گئي ہے۔(5) اس مجرمانہ کارروائي کے تحت امریکی میرینز کے ایک گروپ نے سنہ 2005 میں حدیثہ شہر میں عراق کے 24 عام شہریوں کا قتل عام کر دیا تھا جن میں بچے، عورتیں اور مرد شامل تھے۔(6) امریکی فوجیوں نے اس وقت بہت سی تصویریں کھینچ کر اپنے جرائم کے ثبوت اکٹھا کر لیے تھے تاہم امریکی فوج اب سے کچھ ہفتے پہلے تک ان تصویروں کو عام لوگوں کی نظروں سے دور رکھنے کی کوشش کر رہی تھی۔
البتہ بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ امریکی عوام بھی اپنی بے رحم حکومت کی جنگي مشین کی ایک بڑی قربانی ہیں۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ نے اب تک امریکا پر 9 ٹریلین ڈالر کا مالی بوجھ لاد دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا کے ٹیکس دہندگان آج تک ہر گھنٹے اوسطاً 9 کروڑ تیس لاکھ ڈالر امریکا کی جنگ افروزی کے لیے ادا کرتے رہے ہیں۔(7) اسی طرح امریکی فوج کو ہونے والا جانی نقصان عراق اور افغانستان کی جنگ کے بعد بھی بدستور جاری ہے۔ چنانچہ 11 ستمبر کی جنگوں کے بعد خود کشی کر کے مرنے والے امریکا کے فوجی اسٹاف کے موجودہ اور سابق کارکنوں کی تعداد میدان جنگ میں مرنے والے فوجیوں سے کم از کم چار گنا زیادہ ہے۔(8)
اس کے علاوہ عراق اور افغانستان کی جنگ میں شرکت کرنے والے امریکی فوجیوں کے درمیان وسیع پیمانے پر جنسی جارحیتوں کی رپورٹیں بھی سامنے آئی ہیں۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ سنہ 2001 سے 2021 تک جاری رہنے والی افغانستان کی جنگ میں امریکا کی 24 فیصد خواتین فوجیوں اور 1.9 فیصد مرد فوجیوں کو جنسی جارحیت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔(9)
اب نائن الیون کے واقعے اور خطے پر امریکا کے فوجی حملے کے آغاز کو 23 سال سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد سبھی کے لیے یہ بات پہلے سے زیادہ عیاں ہو چکی ہے کہ یہ ساری بے حساب مالی، فوجی اور انسانی قیمت صرف امریکا اور اس ملک کے مجرم حکام کی عسکری صنعت کے کامپلکس کی خوشنودی کے لیے چکائي گئي تھی۔ بش، اوباما، ٹرمپ اور بائيڈن جیسے افراد نے امریکی عوام کے مفادات پر اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دے کر لاکھوں بے قصور لوگوں کو دہشت گردی سے جنگ کے بے بنیاد بہانے کی بھینٹ چڑھا دیا اور علاقائي اقوام کے درمیان بہت زیادہ غیظ اور نفرت پیدا کر کے ہمیشہ کے لیے، مغربی ایشیا سے امریکی حکومت کو نکال باہر کیے جانے کا سبب بنے۔
یہ وہ بات ہے جس کی طرف رہبر انقلاب اسلامی نے کئي سال پہلے بڑے حکیمانہ انداز میں اشارہ کیا تھا۔ انھوں نے کہا تھا: "اس علاقے کے عوام امریکیوں سے نفرت کرتے ہیں۔ اس بات کو امریکی سمجھتے کیوں نہیں؟ تم امریکیوں نے عراق میں جرائم کا ارتکاب کیا، افغانستان میں جرائم کا ارتکاب کیا اور لوگوں کو قتل کیا۔ امریکیوں نے صدام کے زوال کے بعد، بلیک واٹر جیسی خبیث سیکورٹی ایجنسیوں کے ذریعے غالباً عراق کے ایک ہزار سے زائد سائنسدانوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا اور قتل کیا، لوگوں کے گھروں پر حملہ کیا، گھر کے مرد کو، اس کی زوجہ اور بچوں کے سامنے زمین پر گرایا اور اپنے بوٹوں سے اس کے چہرے کو کچلا۔ تم نے یہ کام کیے۔ تم امریکیوں نے افغانستان میں بارات پر بمباری کر دی ۔ ایک بار اور دو بار نہیں بلکہ دسیوں بار تم نے اس طرح کی بمباری کی۔ سوگ کے اجتماعات پر بمباری کی۔ تم نے جرائم کا ارتکاب کیا۔ لوگ تم سے نفرت کرتے ہیں۔ افغانستان کے عوام، عراق کے عوام ، شام کے عوام اور دوسرے علاقوں کے عوام۔"(10)
محمد مہدی عباسی، امریکی مسائل کے تجزیہ نگار
1 https://edition.cnn.com/2001/US/09/20/gen.bush.transcript/
2 https://watson.brown.edu/costsofwar/figures
3 https://www.vox.com/22654167/cost-deaths-war-on-terror-afghanistan-iraq-911
4 https://en.wikipedia.org/wiki/August_2021_Kabul_drone_strike
5 https://www.newyorker.com/podcast/in-the-dark/the-haditha-massacre-photos-that-the-military-didnt-want-the-world-to-see
6 https://en.wikipedia.org/wiki/Haditha_massacre
7 https://www.nationalpriorities.org/cost-of/war/
8 https://watson.brown.edu/costsofwar/papers/2021/Suicides
9https://watson.brown.edu/costsofwar/costs/human/veterans#:~:text=Amongst%20active%2Dduty%20service%20members,assault%20prevalence%20in%20the%20military.
10 https://urdu.khamenei.ir/news/2465
امریکیوں نے انسانی حقوق کا پرچم بلند کر رکھا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ہم انسانی حقوق کے پابند ہیں اور وہ بھی صرف اپنے ہی ملک میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں! یہ تو صرف ایک دعویٰ ہے، وہ عملی طور پر کیا کر رہے ہیں؟ عملی طور پر انسانی حقوق کو سب سے زیادہ چوٹ یہی پہنچا رہے ہیں اور مختلف ملکوں میں انسانی حقوق کی سب سے زیادہ توہین کر رہے ہیں۔
امام خامنہ ای
16 فروری 2013
عالمی برادری کو، جو ہمیشہ مختلف معاملوں میں انسانی حقوق کی حمایت کے امریکا کے نعرے سنتی رہی ہے، جن پر وہ فخر بھی کرتا تھا، فلسطین کے آئينے میں امریکی پالیسیوں کے حقیقی کریہہ چہرے کو ضرور دیکھنا چاہیے۔
امام خامنہ ای
15 دسمبر 2000
امریکا، انسانی حقوق کا پرچم اٹھاتا ہے اور ان کی حمایت کا دعویٰ کرتا ہے لیکن ہر کچھ دن بعد امریکی شہروں کی سڑکوں پر کوئي بے گناہ، کوئي نہتا، امریکی پولیس کے ہاتھوں خاک و خون میں غلطاں ہو جاتا ہے۔
امام خامنہ ای
9 ستمبر 2015
ریاستہائے متحدہ امریکا کے عزیز اسٹوڈنٹس! یہ آپ سے ہماری ہمدلی اور یکجہتی کا پیغام ہے۔ اس وقت آپ تاریخ کی صحیح سمت میں، جو اپنا ورق پلٹ رہی ہے، کھڑے ہوئے ہیں۔
امریکا کے یونیورسٹی اسٹوڈنٹس کے نام رہبر انقلاب کے خط سے ایک اقتباس
25 مئي 2024
انسانی حقوق کی حمایت کا دعویٰ جو بھی کرے لیکن اپنے نامۂ اعمال میں انسانی حقوق کے سلسلے میں اتنی زیادہ رسوائيوں کے ساتھ امریکی حکام کو تو یہ دعویٰ ہرگز نہیں کرنا چاہیے۔
امام خامنہ ای
17 فروری 2014
امریکیوں نے انسانی حقوق کا پرچم اٹھا رکھا ہے لیکن انسانی حقوق کے خلاف بدترین کام امریکی حمایت سے انجام پا رہے ہیں اور امریکی نہ صرف یہ کہ اس کا مقابلہ نہیں کر رہے ہیں بلکہ حمایت کر رہے ہیں!
امام خامنہ ای
31 اکتوبر 2021
اگر امریکا کی مدد نہ ہوتی تو کیا صیہونی حکومت میں اتنی طاقت اور جراَت تھی کہ غزہ کے محدود علاقے میں مسلمان عوام، عورتوں، مردوں اور بچوں کے ساتھ اس طرح وحشیانہ سلوک کرتی؟
امریکی کچھ باتوں کو امریکی اصول کے طور پر پیش کرتے ہیں...یہ اصول انسانی کرامت، انسانی حقوق اور ان جیسی چیزیں ہیں۔ یہ امریکی اصول ہیں؟! کیا یہ وہی حکومت نہیں ہے جس نے امریکی سرزمین کے اصل باشندوں کا قتل عام کیا؟... انہیں دنوں آج کل ہر دن فلسطینی عوام کا ان کے گھروں میں، غاصبوں کے ہاتھوں علی الاعلان قتل ہو رہا ہے۔
امام خامنہ ای
18 مارچ 2002
انسان سمجھ سکتا ہے کہ امریکی کانگریس نے اپنی کتنی بڑی رسوائي کرائي کہ وہ اس مجرم کی باتیں سننے کے لیے بیٹھی اور اس کی باتیں سنیں۔ یہ بہت بڑی رسوائي ہے۔
دنیا کو غزہ کے مسئلے میں زیادہ سنجیدگي سے فیصلہ کرنا چاہیے۔ حکومتوں کو، اقوام کو، مختلف میدانوں میں فکری و سیاسی شخصیات کو پوری سنجیدگي سے فیصلہ کرنا چاہیے۔ پھر اس سوچ کے ساتھ انسان سمجھ سکتا ہے کہ امریکی کانگریس نے پرسوں اپنی کتنی بڑی رسوائي کرائي کہ وہ اس مجرم کی باتیں سننے کے لیے بیٹھی اور اس کی باتیں سنیں۔ یہ بہت بڑی رسوائي ہے۔
امام خامنہ ای
28 جولائی 2024
ان لوگوں نے جو کام کیا ہے وہ اتنا بڑا ہے کہ یہ لوگ دکھاوے کو کنارے رکھنے پر مجبور ہو گئے ہیں اور میدان میں آ گئے ہیں۔ دنیا میں ان کی فضیحت ہو گئی ہے، ان کی باتوں کو جھٹلایا جا رہا ہے، یہ سب بڑے اہم واقعات ہیں۔
(غزہ کے) اس مسئلے میں امریکا یقینی طور پر مجرمین کا شریک جرم ہے، یعنی اس جرم میں امریکا کا ہاتھ کہنیوں تک مظلوموں اور بچوں کے خون میں ڈوبا ہوا ہے، دراصل امریکا ہی (اس جرم کو) مینیج کر رہا ہے۔
امام خامنہ ای
25 اکتوبر 2023
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے پیر کی صبح امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی پینتیسویں برسی کے پروگرام میں ایک عظیم عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے امام خمینی کے افکار و نظریات میں مسئلۂ فلسطین کی اہمیت کی تشریح کی اور کہا کہ فلسطین کے بارے میں امام خمینی کی پچاس سال پہلے کی پیشگوئی رفتہ رفتہ عملی جامہ پہن رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ معجزے جیسے طوفان الاقصیٰ آپریشن نے خطے اور عالم اسلام پر تسلط کی دشمن کی بڑی سازش کو ناکام بناتے ہوئے صیہونی حکومت کو زوال کے راستے پر ڈال دیا ہے اور غزہ کے عوام کی ایمانی اور قابل تحسین مزاحمت کے سائے میں، صیہونی حکومت دنیا والوں کی نظروں کے سامنے پگھلتی جا رہی ہے۔
انھوں نے اسی طرح شہید صدر رئیسی کی خصوصیات اور خدمات کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اور شہیدان خدمت کے جلوس جنازہ میں قوم کی زبردست اور معنی خیز شرکت کی قدردانی کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ کے انتہائی اہم الیکشن میں عوام کی بھرپور شرکت، شہیدان خدمت کو الوداع کہنے کے قوم کے بے مثال کارنامے کا تتمہ ہوگی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے پہلے حصے میں امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے افکار و نظریات میں مسئلۂ فلسطین کی اہمیت کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے اسلامی تحریک کے آغاز کے پہلے دن سے ہی مسئلۂ فلسطین کو اہمیت دی اور دقت نظر اور مستقبل پر گہری نگاہ کی بنیاد پر فلسطینی قوم کے سامنے ایک راستے کی تجویز رکھی اور امام خمینی کا یہ انتہائی اہم نظریہ رفتہ رفتہ عملی جامہ پہن رہا ہے۔
انھوں نے اسلامی تحریک کے آغاز میں ہی ایران کی ظالم و جابر طاغوتی حکومت کی سرنگونی اور اسی طرح سوویت حکومت کی حکمرانی اور دبدبے کے دور میں کمیونسٹ حکومت کے خاتمے کی پیشگوئی کو امام خمینی کی بصیرت کے دو دوسرے نمونے قرار دیا۔
آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے صیہونی حکومت سے مفاہمت کے مذاکرات سے کوئی امید نہ رکھنے، میدان عمل میں فلسطینی قوم کے اترنے، اپنا حق حاصل کرنے اور تمام اقوام بالخصوص مسلم اقوام کی جانب سے فلسطینیوں کی حمایت کو، فلسطینی قوم کی فتحیابی کے لیے امام خمینی کے نظریات کا خلاصہ قرار دیا اور کہا کہ یہ عظیم واقعہ بھی اس وقت عملی جامہ پہن رہا ہے۔
انھوں نے طوفان الاقصیٰ آپریشن کی وجہ سے صیہونی حکومت کے میدان کے گوشے میں پھنس جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ امریکا اور بہت سی مغربی حکومتیں بدستور اس حکومت کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن وہ بھی جانتی ہیں کہ غاصب حکومت کی نجات کا کوئی راستہ نہیں ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے خطے کی اہم ضرورت کی تکمیل اور مجرم حکومت پر کاری ضرب کو طوفان الاقصیٰ آپریشن کی دو اہم خصوصیات بتایا اور کہا کہ امریکا، عالمی صیہونزم کے ایجنٹوں اور بعض علاقائی حکومتوں نے خطے کے حالات اور روابط کو بدلنے کے لیے ایک بڑی اور دقیق سازش تیار کر رکھی تھی تاکہ صیہونی حکومت اور خطے کی حکومتوں کے درمیان اپنے مدنظر روابط قائم کروا کر مغربی ایشیا اور پورے عالم اسلام کی سیاست اور معیشت پر منحوس حکومت کے تسلط کی راہ ہموار کر دیں۔
انھوں نے کہا کہ یہ منحوس چال عملی جامہ پہننے کے بالکل قریب پہنچ چکی تھی کہ الاقصیٰ کا معجزاتی طوفان شروع ہو گیا اور اس نے امریکا، صیہونزم اور ان کے پٹھوؤں کے تمام تاروپود بکھیرے دیے، اس طرح سے کہ پچھلے آٹھ مہینے کے واقعات کے بعد اس سازش کی بحالی کا کوئی امکان نہیں ہے۔
آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے ظالم حکومت کے عدیم المثال جرائم اور حد سے زیادہ شقاوت و سفاکیت اور امریکی حکومت کی جانب سے اس درندگی کی حمایت کو، خطے پر صیہونی حکومت کو مسلط کرنے کی بڑی عالمی سازش کے نقش بر آب ہو جانے پر بوکھلاہٹ اور تلملاہٹ والا ردعمل قرار دیا۔
انھوں نے طوفان الاقصیٰ آپریشن کی دوسری خصوصیت یعنی صیہونی حکومت پر کاری اور ناقابل تلافی ضرب لگانے کی تشریح کرتے ہوئے امریکی و یورپی تجزیہ نگاروں اور ماہرین یہاں تک کہ خود منحوس حکومت کے پٹھوؤں کے اعترافات کا حوالہ دیا اور کہا کہ وہ بھی تسلیم کر رہے ہیں کہ غاصب حکومت اپنے بڑے بڑے دعوؤں کے باوجود ایک مزاحمتی گروہ سے بری طرح شکست کھا چکی ہے اور آٹھ مہینے کے بعد بھی اپنے کسی کم ترین ہدف کو بھی حاصل نہیں کر سکی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اکیسویں صدی کو بدلنے کے لیے طوفان الاقصیٰ آپریشن کی طاقت کے بارے میں ایک مغربی تجزیہ نگار کے تبصرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دوسرے تجزیہ نگاروں اور مؤرخین نے بھی صیہونی حکومت کی سراسیمگی اور بدحواسی، الٹی ہجرت کی لہر، مقبوضہ علاقوں میں رہنے والوں کی حفاظت میں ناتوانی اور صیہونیت کے پروجیکٹ کے آخری سانسیں لینے کی طرف اشارہ کیا ہے اور زور دے کر کہا کہ دنیا، صیہونی حکومت کے خاتمے کے شروعاتی مرحلے میں ہے۔
انھوں نے مقبوضہ فلسطین سے الٹی ہجرت کی لہر کے سنجیدہ ہونے کے بارے میں ایک صیہونی سیکورٹی تجزیہ نگار کے تبصرے کی طرف اشارہ کرتے کہا کہ اس صیہونی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ اگر اسرائیلی حکام کی بحثوں اور ان کے درمیان اختلافات کی باتیں میڈیا میں آ جائیں تو چالیس لاکھ لوگ اسرائیل سے چلے جائیں گے۔
آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے مسئلۂ فلسطین کے دنیا کے پہلے مسئلے میں بدل جانے اور لندن اور پیرس میں اور امریکی یونیورسٹیوں میں صیہونیت مخالف مظاہروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکی و صیہونی میڈیا اور پروپیگنڈہ مراکز نے برسوں تک مسئلۂ فلسطین کو بھلا دیے جانے کے لیے کوشش کی لیکن طوفان الاقصیٰ اور غزہ کے عوام کی مزاحمت کے سائے میں آج فلسطین، دنیا کا پہلا مسئلہ ہے۔
انھوں نے چالیس ہزار لوگوں کی شہادت اور پندرہ ہزار بچوں اور نومولود و شیر خوار بچوں کی شہادت سمیت غزہ کے لوگوں کے مصائب کو صیہونیوں کے چنگل سے نجات کی راہ میں فلسطینی قوم کے ذریعے ادا کی جانے والی بھاری قیمت بتایا اور کہا کہ غزہ کے لوگ، ایمان اسلامی اور قرآنی آیات پر عقیدے کی برکت سے بدستور مصائب برداشت کر رہے ہیں اور حیرت انگیز استقامت کے ساتھ مزاحمت کے مجاہدین کا دفاع کر رہے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مزاحمت کے عظیم محاذ کی توانائیوں کے بارے میں صیہونی حکومت کے غلط اندازے کو، اس حکومت کے ڈیڈ اینڈ کورویڈور میں پہنچ جانے کا سبب بتایا جو اسے لگاتار شکستوں سے رو بہ رو کرا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اللہ کی مدد و نصرت سے اس بندگلی سے نکلنے کی اس کے پاس کوئی راہ نہیں ہوگی۔
انھوں نے کہا کہ مغرب کے پروپیگنڈوں کے باوجود صیہونی حکومت، دنیا کے لوگوں کی نظروں کے سامنے پگھلتی اور ختم ہوتی جا رہی ہے اور اقوام کے ساتھ ہی دنیا کی بہت سی سیاسی شخصیات یہاں تک کہ صیہونی بھی اس حقیقت کو سمجھ چکے ہیں۔
آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے اپنے خطاب کے دوسرے حصے میں عزیز اور محنتی صدر اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کے جانگداز سانحے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ صدر کے ساتھیوں میں سے ہر ایک شخص، اپنے آپ میں ایک گرانقدر شخصیت تھا۔
انھوں نے شہید رئیسی کی نمایاں اور ممتاز خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سبھی نے اعتراف کیا کہ کام، عمل، خدمت اور صداقت والے انسان تھے اور انھوں نے عوام کی خدمت کا ایک نیا نصاب تیار کیا تھا۔ آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ اتنی زیادہ، اتنی مقدار میں، اس سطح کی خدمت اور ایسی صداقت و محنت ملک کے خادموں کے درمیان نہیں رہی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ خارجہ پالیسی میں بہت زیادہ اور بابرکت فعالیت، مواقع کا بہترین استعمال اور دنیا کی اہم سیاسی شخصیات کی نظر میں ایران کو نمایاں کرنا، شہید رئیسی کی کچھ دوسری خصوصیات تھیں۔ انھوں نے دشمنوں اور انقلاب کے مخالفوں کے درمیان واضح حدبندی اور دشمن کی مسکراہٹ پر بھروسہ نہ کرنے کو شہید رئیسی کی دیگر سبق آموز خصوصیات بتایا۔
انھوں نے اسی طرح شہید امیر عبداللہیان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے انھیں ایک فعال، محنتی اور جدت عمل والا وزیر خارجہ اور مضبوط، ذہین اور اصولوں کا پابندہ مذاکرات کار بتایا۔
آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے شہیدان خدمت کے جلوس جنازہ میں عوام کی دسیوں لاکھ کی تعداد میں شرکت کو ایک نمایاں اور قابل تجزیہ کارنامہ بتایا اور اسے انقلاب کی تاریخ میں تلخ اور سخت حوادث کے مقابل ایرانی قوم کے تاریخ رقم کرنے والے کارناموں کا ایک نمونہ قرار دیا۔
انھوں نے کہا کہ اس کارنامے نے دکھا دیا کہ ایرانی قوم، ایک پرعزم، ثابت قدم اور زندہ قوم ہے جو مصیبت سے نہیں ہارتی بلکہ اس کی استقامت اور جوش و جذبے میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے عوام کی زبردست شرکت کا ایک اور پیغام، انقلاب کے نعروں کی طرفداری بتایا اور کہا کہ مرحوم رئیسی صراحت کے ساتھ انقلاب کے نعروں کو بیان کرتے تھے اور وہ خود انقلاب کے نعروں کا مظہر تھے۔
انھوں نے اپنے خطاب کے ایک دوسرے حصے میں آئندہ الیکشن کو ایک بڑا اور اہم نتائج والا کام بتایا اور کہا کہ اگر یہ الیکشن اچھی طرح اور پرشکوہ طریقے سے منعقد ہو جائے تو ایرانی قوم کے لیے ایک بڑا کارنامہ ہوگا اور دنیا میں اسے غیر معمولی اہمیت حاصل ہوگی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخر میں الیکشن میں عوام کی بھرپور شرکت کو شہیدان خدمت کو الوداع کہنے کے قوم کے بے مثال کارنامے کا تتمہ قرار دیا اور کہا کہ ایرانی قوم کو پیچیدہ بین الاقوامی معامالات میں اپنے مفادات کے تحفظ اور اپنی اسٹریٹیجک گہرائی کے استحکام کے لیے ایک فعال، آگاہ اور انقلاب کی بنیادوں پر ایمان رکھنے والے صدر کی ضرورت ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای نے 3 جون 2024 کو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی 35ویں برسی پر امام خمنیی کے مزار پر عظیم اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے بانی انقلاب اسلامی کے مکتب فکر اور ان کے دروس کا جائزہ لیا۔ (1)
میں یہ خط ان جوانوں کو لکھ رہا ہوں جن کے بیدار ضمیر نے انھیں غزہ کے مظلوم بچوں اور عورتوں کے دفاع کی ترغیب دلائي ہے۔
ریاستہائے متحدہ امریکا کے جوانوں اور اسٹوڈنٹس کے نام
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای کے خط سے اقتباس
25/05/2024
ریاستہائے متحدہ امریکا کے عزیز نوجوان اسٹوڈنٹس! آج آپ نے عظیم مزاحمتی محاذ کا ایک حصہ تشکیل دیا ہے، مزاحمت کا بڑا محاذ آپ سے دور ایک علاقے میں، آپ کے آج کے انہی احساسات و جذبات کے ساتھ، برسوں سے جدوجہد کر رہا ہے۔
ریاستہائے متحدہ امریکا کے جوانوں اور اسٹوڈنٹس کے نام
امام خامنہ ای کے خط سے اقتباس
25/05/2024
اگر بڑی طاقتوں کا بس چلے تو وہ سمندروں کو بھی اپنے نام لکھوا لیں تاکہ دوسروں کو روک سکیں۔ انسانیت سے متعلق عمومی امور کو اپنے ذاتی تسلط میں لینا بڑی طاقتوں کی فطرت میں شامل ہے، امریکا کی فطرت میں شامل ہے؛ آپ نے اسے توڑ دیا۔ آپ کے کام (دنیا کا چکر لگانے کے ایرانی فوج کے فلوٹیلا کے مشن) کا ایک واضح نتیجہ یہ تھا کہ آپ نے دکھا دیا کہ آزاد سمندروں کا تعلق سب سے ہے اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ "ہم بحری جہاز کو فلاں خلیج سے عبور کرنے نہیں دیں گے" صرف بڑبولاپن ہے۔
امام خامنہ ای
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 15 مئی 2024 کو صوبہ تہران کے شہدا پر کانفرنس کے منتظمین سے ملاقات میں اپنے خطاب میں شہر تہران اور صوبہ تہران کی قربانیوں کا تذکرہ کیا۔ (1)
خطاب حسب ذیل ہے:
ملاحظہ فرمائيے کہ امریکی اسرائيل کی زبانی مخالفت پر کیا کارروائی کر رہے ہیں! امریکی اسٹوڈنٹس کے ساتھ اس طرح کا سلوک کیا جا رہا ہے، یہ واقعہ عملی طور پر یہ دکھاتا ہے کہ غزہ میں نسل کشی کے بڑے جرم میں امریکا، صیہونی حکومت کا شریک جرم ہے۔
امام خامنہ ای
ابراہیم علیہ السلام کا ان کفار کے بارے میں جو معاندانہ برتاؤ نہیں کرتے یہ نظریہ ہے کہ ان سے اچھا سلوک کیا جائے مگر ایک جگہ وہ ان لوگوں سے اعلان بیزاری کرتے ہیں جو قاتل ہیں اور لوگوں کو ان کے گھر اور وطن سے بے دخل کر دیتے ہیں۔ اس کا مصداق آج کون ہے؟ صیہونی، امریکا اور ان کے مددگار۔
امام خامنہ ای
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے حج کے لیے قافلوں کی روانگي سے کچھ روز قبل پیر کی صبح امور حج کے منتظمین اور خانۂ خدا کے بعض زائرین سے ملاقات کی۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 6 مئی 2024 کو ادارہ حج و زیارات کے عہدیداران و کارکنان اور حج کے لئے جانے والوں سے خطاب میں فریضہ حج اور مناسک حج کے پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ رہبر انقلاب نے غزہ کے تعلق سے عالم اسلام کی ذمہ داریوں کا بھی ذکر کیا۔ (1)
خطاب حسب ذیل ہے: