حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ایک حقیقی رہبر کے کردار میں نظر آتی ہیں۔ جیسا کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اگر فاطمہ زہرا مرد ہوتیں تو یقیناً پیغمبر ہوتیں۔ ایسا جملہ امام خمینی جیسی شخصیت کے علاوہ جو عالم بھی تھے، فقیہ بھی تھے، عارف بھی تھے، کسی اور کے منہ سے ادا نہیں ہو سکتا۔
"ممکن ہے کہ میں اس تاریکی کو ختم نہ کر پاؤں لیکن میں اپنی اسی چھوٹی سی روشنی سے نور و ظلمت اور حق و باطل کا فرق دکھاؤں گا اور جو نور کا متلاشی ہے، یہ نور چاہے جتنا بھی چھوٹا ہو، اس کے دل میں بڑا ہوگا۔" یہ جملہ ان کی اہلیہ غادہ نے ان کے حوالے سے نقل کیا ہے۔ غادہ نے کہا تھا کہ وہ یہ جملے ایک پینٹنگ کے نچلے حصے میں پڑھ کر، جو پوری طرح سیاہ تھی اور اس کے بیچ میں ایک چھوٹی سی شمع جل رہی تھی اور اس کا نور بہت چھوٹا دکھائي دے رہا تھا، ان پر اور زندگي کے سلسلے میں ان کے نظریے پر فریفتہ ہو گئي تھیں۔ شاید ہی کسی کو اس بات پر یقین آئے کہ ایک فوجی کمانڈو، جو ہمیشہ ہی بہت ٹھوس اور مقتدرانہ طریقے سے میدان میں آتا ہے، اس طرح کے لطیف جذبات اور نرم دلی کا حامل ہوگا لیکن اس کی شخصیت اضداد کا مجموعہ تھی، ایک سدابہار مرد؛ ڈاکٹر مصطفیٰ چمران۔
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی پینتیسویں برسی کے پروگرام میں اپنے خطاب کے ایک حصے میں مسئلۂ فلسطین کو امام خمینی کے ایک سب سے نمایاں درس اور نظریے کے طور پر موضوع گفتگو قرار دیا اور طوفان الاقصیٰ کے حالیہ واقعات اور مسئلۂ فلسطین پر اس کے حیرت انگیز اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے صیہونی حکومت کی موجودہ ابتر صورتحال پر بعض مغربی اور صیہونی ماہرین کے بیانوں کے حوالے سے روشنی ڈالی۔
اس رپورٹ میں KHAMENEI.IRویب سائٹ رہبر انقلاب کی جانب سے نقل کیے گئے ان اقوال کا جائزہ لیا کہ یہ کن تجزیہ نگاروں اور ماہرین کے ہیں۔
طوفان الاقصی نے پورے مغربی ایشیا کی سیاست اور اقتصاد پر کنٹرول حاصل کرنے کے صیہونی حکومت کے جامع منصوبے کو ختم کر دیا اور یہ امید ہی مٹا دی کہ اس منصوبے کا وہ دوبارہ احیا کر پائے گی۔
امام خامنہ ای
طوفان الاقصیٰ آپریشن صیہونی حکومت پر ایک فیصلہ کن وار تھا، ایک ایسا وار جس کا کوئي علاج نہیں ہے۔ صیہونی حکومت کو اس وار سے ایسے نقصانات پہنچے ہیں جن سے وہ کبھی نجات حاصل نہیں کر پائے گي۔
امام خامنہ ای
صیہونی حکومت کے اعلی رتبہ حکام اور عہدیداران کے اندر بدحواسی اور سراسیمگی پھیلی ہوئی ہے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ کیا کریں۔
امام خامنہ ای
3 جون 2024
عزیز صدر نے ایران کو دنیا کی سیاسی شخصیات کی نظر میں زیادہ بڑا اور زیادہ نمایاں کر دیا۔ اسی لیے آج سیاسی شخصیات جو ان کے بارے میں بات کرتی ہیں، انھیں ایک نمایاں شخصیت بتاتی ہیں۔
امام خامنہ ای
امام خمینی کا یہ نظریہ تھا کہ خود فلسطینی عوام اپنا حق لیں اور دنیا کی اقوام اور مسلم قومیں ان کی حمایت کریں، اگر ایسا ہو گیا تو صیہونی حکومت پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہو جائے گی۔
3 جون 2024
امام خمینی کا ماننا تھا کہ خود فلسطینی عوام کو دشمن کو یعنی صیہونی حکومت کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دینا چاہیے، اسے کمزور بنا دینا چاہیے۔ آج یہ کام ہو گيا ہے۔
امام خامنہ ای
3
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے پیر کی صبح امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی پینتیسویں برسی کے پروگرام میں ایک عظیم عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے امام خمینی کے افکار و نظریات میں مسئلۂ فلسطین کی اہمیت کی تشریح کی اور کہا کہ فلسطین کے بارے میں امام خمینی کی پچاس سال پہلے کی پیشگوئی رفتہ رفتہ عملی جامہ پہن رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ معجزے جیسے طوفان الاقصیٰ آپریشن نے خطے اور عالم اسلام پر تسلط کی دشمن کی بڑی سازش کو ناکام بناتے ہوئے صیہونی حکومت کو زوال کے راستے پر ڈال دیا ہے اور غزہ کے عوام کی ایمانی اور قابل تحسین مزاحمت کے سائے میں، صیہونی حکومت دنیا والوں کی نظروں کے سامنے پگھلتی جا رہی ہے۔
انھوں نے اسی طرح شہید صدر رئیسی کی خصوصیات اور خدمات کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اور شہیدان خدمت کے جلوس جنازہ میں قوم کی زبردست اور معنی خیز شرکت کی قدردانی کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ کے انتہائی اہم الیکشن میں عوام کی بھرپور شرکت، شہیدان خدمت کو الوداع کہنے کے قوم کے بے مثال کارنامے کا تتمہ ہوگی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے پہلے حصے میں امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے افکار و نظریات میں مسئلۂ فلسطین کی اہمیت کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے اسلامی تحریک کے آغاز کے پہلے دن سے ہی مسئلۂ فلسطین کو اہمیت دی اور دقت نظر اور مستقبل پر گہری نگاہ کی بنیاد پر فلسطینی قوم کے سامنے ایک راستے کی تجویز رکھی اور امام خمینی کا یہ انتہائی اہم نظریہ رفتہ رفتہ عملی جامہ پہن رہا ہے۔
انھوں نے اسلامی تحریک کے آغاز میں ہی ایران کی ظالم و جابر طاغوتی حکومت کی سرنگونی اور اسی طرح سوویت حکومت کی حکمرانی اور دبدبے کے دور میں کمیونسٹ حکومت کے خاتمے کی پیشگوئی کو امام خمینی کی بصیرت کے دو دوسرے نمونے قرار دیا۔
آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے صیہونی حکومت سے مفاہمت کے مذاکرات سے کوئی امید نہ رکھنے، میدان عمل میں فلسطینی قوم کے اترنے، اپنا حق حاصل کرنے اور تمام اقوام بالخصوص مسلم اقوام کی جانب سے فلسطینیوں کی حمایت کو، فلسطینی قوم کی فتحیابی کے لیے امام خمینی کے نظریات کا خلاصہ قرار دیا اور کہا کہ یہ عظیم واقعہ بھی اس وقت عملی جامہ پہن رہا ہے۔
انھوں نے طوفان الاقصیٰ آپریشن کی وجہ سے صیہونی حکومت کے میدان کے گوشے میں پھنس جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ امریکا اور بہت سی مغربی حکومتیں بدستور اس حکومت کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن وہ بھی جانتی ہیں کہ غاصب حکومت کی نجات کا کوئی راستہ نہیں ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے خطے کی اہم ضرورت کی تکمیل اور مجرم حکومت پر کاری ضرب کو طوفان الاقصیٰ آپریشن کی دو اہم خصوصیات بتایا اور کہا کہ امریکا، عالمی صیہونزم کے ایجنٹوں اور بعض علاقائی حکومتوں نے خطے کے حالات اور روابط کو بدلنے کے لیے ایک بڑی اور دقیق سازش تیار کر رکھی تھی تاکہ صیہونی حکومت اور خطے کی حکومتوں کے درمیان اپنے مدنظر روابط قائم کروا کر مغربی ایشیا اور پورے عالم اسلام کی سیاست اور معیشت پر منحوس حکومت کے تسلط کی راہ ہموار کر دیں۔
انھوں نے کہا کہ یہ منحوس چال عملی جامہ پہننے کے بالکل قریب پہنچ چکی تھی کہ الاقصیٰ کا معجزاتی طوفان شروع ہو گیا اور اس نے امریکا، صیہونزم اور ان کے پٹھوؤں کے تمام تاروپود بکھیرے دیے، اس طرح سے کہ پچھلے آٹھ مہینے کے واقعات کے بعد اس سازش کی بحالی کا کوئی امکان نہیں ہے۔
آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے ظالم حکومت کے عدیم المثال جرائم اور حد سے زیادہ شقاوت و سفاکیت اور امریکی حکومت کی جانب سے اس درندگی کی حمایت کو، خطے پر صیہونی حکومت کو مسلط کرنے کی بڑی عالمی سازش کے نقش بر آب ہو جانے پر بوکھلاہٹ اور تلملاہٹ والا ردعمل قرار دیا۔
انھوں نے طوفان الاقصیٰ آپریشن کی دوسری خصوصیت یعنی صیہونی حکومت پر کاری اور ناقابل تلافی ضرب لگانے کی تشریح کرتے ہوئے امریکی و یورپی تجزیہ نگاروں اور ماہرین یہاں تک کہ خود منحوس حکومت کے پٹھوؤں کے اعترافات کا حوالہ دیا اور کہا کہ وہ بھی تسلیم کر رہے ہیں کہ غاصب حکومت اپنے بڑے بڑے دعوؤں کے باوجود ایک مزاحمتی گروہ سے بری طرح شکست کھا چکی ہے اور آٹھ مہینے کے بعد بھی اپنے کسی کم ترین ہدف کو بھی حاصل نہیں کر سکی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اکیسویں صدی کو بدلنے کے لیے طوفان الاقصیٰ آپریشن کی طاقت کے بارے میں ایک مغربی تجزیہ نگار کے تبصرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دوسرے تجزیہ نگاروں اور مؤرخین نے بھی صیہونی حکومت کی سراسیمگی اور بدحواسی، الٹی ہجرت کی لہر، مقبوضہ علاقوں میں رہنے والوں کی حفاظت میں ناتوانی اور صیہونیت کے پروجیکٹ کے آخری سانسیں لینے کی طرف اشارہ کیا ہے اور زور دے کر کہا کہ دنیا، صیہونی حکومت کے خاتمے کے شروعاتی مرحلے میں ہے۔
انھوں نے مقبوضہ فلسطین سے الٹی ہجرت کی لہر کے سنجیدہ ہونے کے بارے میں ایک صیہونی سیکورٹی تجزیہ نگار کے تبصرے کی طرف اشارہ کرتے کہا کہ اس صیہونی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ اگر اسرائیلی حکام کی بحثوں اور ان کے درمیان اختلافات کی باتیں میڈیا میں آ جائیں تو چالیس لاکھ لوگ اسرائیل سے چلے جائیں گے۔
آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے مسئلۂ فلسطین کے دنیا کے پہلے مسئلے میں بدل جانے اور لندن اور پیرس میں اور امریکی یونیورسٹیوں میں صیہونیت مخالف مظاہروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکی و صیہونی میڈیا اور پروپیگنڈہ مراکز نے برسوں تک مسئلۂ فلسطین کو بھلا دیے جانے کے لیے کوشش کی لیکن طوفان الاقصیٰ اور غزہ کے عوام کی مزاحمت کے سائے میں آج فلسطین، دنیا کا پہلا مسئلہ ہے۔
انھوں نے چالیس ہزار لوگوں کی شہادت اور پندرہ ہزار بچوں اور نومولود و شیر خوار بچوں کی شہادت سمیت غزہ کے لوگوں کے مصائب کو صیہونیوں کے چنگل سے نجات کی راہ میں فلسطینی قوم کے ذریعے ادا کی جانے والی بھاری قیمت بتایا اور کہا کہ غزہ کے لوگ، ایمان اسلامی اور قرآنی آیات پر عقیدے کی برکت سے بدستور مصائب برداشت کر رہے ہیں اور حیرت انگیز استقامت کے ساتھ مزاحمت کے مجاہدین کا دفاع کر رہے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مزاحمت کے عظیم محاذ کی توانائیوں کے بارے میں صیہونی حکومت کے غلط اندازے کو، اس حکومت کے ڈیڈ اینڈ کورویڈور میں پہنچ جانے کا سبب بتایا جو اسے لگاتار شکستوں سے رو بہ رو کرا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اللہ کی مدد و نصرت سے اس بندگلی سے نکلنے کی اس کے پاس کوئی راہ نہیں ہوگی۔
انھوں نے کہا کہ مغرب کے پروپیگنڈوں کے باوجود صیہونی حکومت، دنیا کے لوگوں کی نظروں کے سامنے پگھلتی اور ختم ہوتی جا رہی ہے اور اقوام کے ساتھ ہی دنیا کی بہت سی سیاسی شخصیات یہاں تک کہ صیہونی بھی اس حقیقت کو سمجھ چکے ہیں۔
آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے اپنے خطاب کے دوسرے حصے میں عزیز اور محنتی صدر اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کے جانگداز سانحے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ صدر کے ساتھیوں میں سے ہر ایک شخص، اپنے آپ میں ایک گرانقدر شخصیت تھا۔
انھوں نے شہید رئیسی کی نمایاں اور ممتاز خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سبھی نے اعتراف کیا کہ کام، عمل، خدمت اور صداقت والے انسان تھے اور انھوں نے عوام کی خدمت کا ایک نیا نصاب تیار کیا تھا۔ آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ اتنی زیادہ، اتنی مقدار میں، اس سطح کی خدمت اور ایسی صداقت و محنت ملک کے خادموں کے درمیان نہیں رہی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ خارجہ پالیسی میں بہت زیادہ اور بابرکت فعالیت، مواقع کا بہترین استعمال اور دنیا کی اہم سیاسی شخصیات کی نظر میں ایران کو نمایاں کرنا، شہید رئیسی کی کچھ دوسری خصوصیات تھیں۔ انھوں نے دشمنوں اور انقلاب کے مخالفوں کے درمیان واضح حدبندی اور دشمن کی مسکراہٹ پر بھروسہ نہ کرنے کو شہید رئیسی کی دیگر سبق آموز خصوصیات بتایا۔
انھوں نے اسی طرح شہید امیر عبداللہیان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے انھیں ایک فعال، محنتی اور جدت عمل والا وزیر خارجہ اور مضبوط، ذہین اور اصولوں کا پابندہ مذاکرات کار بتایا۔
آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے شہیدان خدمت کے جلوس جنازہ میں عوام کی دسیوں لاکھ کی تعداد میں شرکت کو ایک نمایاں اور قابل تجزیہ کارنامہ بتایا اور اسے انقلاب کی تاریخ میں تلخ اور سخت حوادث کے مقابل ایرانی قوم کے تاریخ رقم کرنے والے کارناموں کا ایک نمونہ قرار دیا۔
انھوں نے کہا کہ اس کارنامے نے دکھا دیا کہ ایرانی قوم، ایک پرعزم، ثابت قدم اور زندہ قوم ہے جو مصیبت سے نہیں ہارتی بلکہ اس کی استقامت اور جوش و جذبے میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے عوام کی زبردست شرکت کا ایک اور پیغام، انقلاب کے نعروں کی طرفداری بتایا اور کہا کہ مرحوم رئیسی صراحت کے ساتھ انقلاب کے نعروں کو بیان کرتے تھے اور وہ خود انقلاب کے نعروں کا مظہر تھے۔
انھوں نے اپنے خطاب کے ایک دوسرے حصے میں آئندہ الیکشن کو ایک بڑا اور اہم نتائج والا کام بتایا اور کہا کہ اگر یہ الیکشن اچھی طرح اور پرشکوہ طریقے سے منعقد ہو جائے تو ایرانی قوم کے لیے ایک بڑا کارنامہ ہوگا اور دنیا میں اسے غیر معمولی اہمیت حاصل ہوگی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخر میں الیکشن میں عوام کی بھرپور شرکت کو شہیدان خدمت کو الوداع کہنے کے قوم کے بے مثال کارنامے کا تتمہ قرار دیا اور کہا کہ ایرانی قوم کو پیچیدہ بین الاقوامی معامالات میں اپنے مفادات کے تحفظ اور اپنی اسٹریٹیجک گہرائی کے استحکام کے لیے ایک فعال، آگاہ اور انقلاب کی بنیادوں پر ایمان رکھنے والے صدر کی ضرورت ہے۔
"زیادہ تر لوگ غلطی سے (تہران کے قبرستان) بہشت زہرا میں امام خمینی کی تقریر کو پندرہ سال کی جلاوطنی سے وطن واپسی کے بعد ان کی پہلی تقریر سمجھتے ہیں لیکن رہبر کبیر انقلاب نے پہلی تقریر مہرآباد ائيرپورٹ پر ان کا استقبال کرنے آئے لوگوں کے درمیان کی تھی۔ شروع میں ایک نوجوان قاری نے قرآن مجید کی کچھ آیتوں کی تلاوت کی، پھر ایک گروپ نے "خمینی اے امام" نامی جاوداں ترانہ پڑھا اور اس کے بعد امام خمینی نے ایک مختصر سا خطاب کیا اور کہا جا سکتا کہ اس مختصر تقریر کا سب سے اہم نکتہ اتحاد کی اہمیت اور تفرقہ پھیلانے کی سازش کی طرف سے انتباہ ہے۔ انھوں نے اس تقریر میں دو بار واضح الفاظ میں "وحدت کلمہ" یا اتحاد کو اسلامی انقلاب کی کامیابی کا سبب بتایا اور کہا کہ ہمیں قوم کے سبھی طبقوں کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ یہاں تک یہ کامیابی اتحاد کے ذریعے ہی رہی ہے۔ تمام مسلمانوں کا اتحاد، مسلمانوں سے تمام مذہبی اقلیتوں کا اتحاد، دینی مدارس سے یونیورسٹیوں کا اتحاد، سیاسی دھڑوں سے علمائے دین کا اتحاد۔ ہم سبھی کو یہ بات سمجھ جانا چاہیے کہ اتحاد، کامیابی کا راز ہے اور ہمیں کامیابی کے اس راز کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے اور خدانخواستہ شیطان، آپ کی صفوں میں تقرفہ نہ ڈال دیں۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای نے 3 جون 2024 کو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی 35ویں برسی پر امام خمنیی کے مزار پر عظیم اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے بانی انقلاب اسلامی کے مکتب فکر اور ان کے دروس کا جائزہ لیا۔ (1)
حالیہ برسوں میں رہبر انقلاب اسلامی کی جانب سے تشریح و جہاد کے بیان پر مسلسل زور دیا جانا، اس موضوع کی خصوصی اہمیت کی عکاسی کرتا ہے جو آج اسلامی انقلاب کی کلیدی بحثوں میں شامل ہو چکا ہے۔
امام خمینی ہمیشہ عوام کو اپنے آپ سے برتر سمجھتے تھے۔ وہی نوجوان جو آتے تھے، آپ کا ہاتھ چومتے تھے، آنسو بہاتے تھے، امام انہیں خود سے بالاتر سمجھتے تھے۔
امام خامنہ ای
" اسلامی جمہوریہ، اس وقت حقیقت میں اسلامی جمہوریہ ہے، جب وہ امام (خمینی) کے مضبوط و مستحکم اصولوں کو، جو ان کی حیات مبارکہ میں رائج تھے، اپنا شعار بنائے اور پوری سنجیدگی کے ساتھ اس پر آگے بڑھنے کی کوشش کرے۔ جہاں کہیں بھی ہم نے ان نعروں کے ساتھ قدم بڑھایا ترقی و کامرانی نے ہمارے قدم چومے ہیں، کامیابی ہمارا حصہ رہی ہے، عزت ہمارے ہاتھ آئی ہے اور دنیوی فوائد بھی ہم کو نصیب ہوئے ہیں لیکن جب بھی اور جہاں بھی جب ہم نے ان اصولوں سے پسپائی اختیار کی، سستی سے کام لیا، میدان، دشمن کے لئے خالی چھوڑا ہے، کمزوری کا شکار ہوئے ہیں، تو ہمیں پیچھے پلٹنا پڑا ہے اور ہم عزت سے محروم ہوئے ہیں، دشمن زیادہ جری ہو گیا ہے اور اس نے اپنے ہاتھ دراز کئے ہیں اور مادی لحاظ سے بھی ہم نے نقصان اٹھایا ہے۔ اسلامی نظام کو اپنے حقیقی معنی میں اسلامی ہونا چاہئے اور روز بروز اسلامی اصولوں سے اور زیادہ قریب ہوتے جانا چاہیے۔ یہ وہ چیز ہے جو عقدہ کشا ہے اور مشکلات کو حل کرتی ہے۔ یہی چیز معاشرے کو عزت و اقتدار سے ہم کنار کرتی ہے۔
امام خامنہ ای
11 ستمبر 2009
ہمیں بہت محتاط رہنا چاہئے، دشمن کی شناخت میں غلطی نہ ہو۔ امام خمینی نے اپنی نگاہ بصیرت کی روشنی میں کہا تھا کہ جتنا غصہ نکالنا ہے امریکہ پر نکالیے۔
امام خامنہ ای
17 اگست 2023
جس چیز نے امام خمینی کو ملک کی سطح پر، امت کی سطح پر اور عالمی سطح پر، رہتی دنیا تک کے لیے یہ عظیم تبدیلیاں لانے کی قوت دی، وہ ان کا 'ایمان' اور ان کی 'امید' ہے۔
امام خامنہ ای
انھوں نے ایسی پلاننگ کی تھی کہ سوچ رہے تھے کہ اسلامی جمہوریہ کا کام تمام ہو گیا، سوچ رہے تھے کہ اب ایرانی قوم کو اپنا مطیع بنالیں گے۔ احمقوں نے پھر غلطی کر دی! وہ پھر ایرانی قوم کو سمجھ نہ سکے۔
امام خامنہ ای
امام خمینی نے روحانیت کی فضا اور روحانیت کی طرف توجہ کو دنیا میں زندہ کر دیا، یہاں تک کہ غیر مسلم ممالک میں بھی۔ مادہ پرستی اور روحانیت مخالف پالیسیوں کے پیروں تلے کچل کر روحانیت کا خاتمہ ہو چکا تھا۔ امام خمینی کی تحریک نے دنیا میں روحانیت کے رنگ کو پھر سے نکھارا۔
امام خامنہ ای
امام خمینی نے تین بڑے، عظیم اور تاریخی کام کیے۔ ایران کی سطح پر اسلامی انقلاب کو وجود عطا کیا، امت مسلمہ کی سطح پر اسلامی بیداری کی تحریک شروع کی اور عالمی سطح پر روحانیت کے ماحول کو دنیا میں زندہ کیا۔
امام خامنہ ای
فلسطین کا مسئلہ، صیہونیوں اور ان کے پشت پناہوں کی اس خام خیالی کے بعد کہ یہ مسئلہ ختم ہو چکا تھا اور فلسطین کا مسئلہ آئندہ کبھی اٹھنے والا نہیں تھا، امام خمینی کی تحریک اور امت مسلمہ کی سطح پر ان کی لائی تبدیلیوں کی وجہ سے عالم اسلام کے سب سے اہم مسئلے میں بدل گيا۔
امام خامنہ ای
اس انقلاب نے اغیار کی دست نگر قوم کو، سب کچھ کرنے پر قادر طاقت میں بدل دیا۔ یہ سب اس عظیم انقلاب کے معجزے ہیں، یہ وہ عظیم تبدیلی ہے جو عظیم الشان امام خمینی نے ملکی سطح پر پیدا کی۔
امام خامنہ ای
رہبر انقلاب اسلامی نے سنیچر کی صبح امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی چونتیسویں برسی کے موقع پر ایران کے قدر شناس اور وفادار عوام کے ایک پرشکوہ، عظیم اور زبردست اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے امام خمینی کو ایران کی تاريخ کی سب سے سربرآوردہ شخصیات میں سے ایک قرار دیا۔ انھوں نے امام خمینی کے ذریعے ملک، امت مسلمہ اور دنیا کی سطح پر پیدا کی جانے والی تین بڑی عظیم تبدیلیوں کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ایمان اور امید، یہ عظیم تاريخی تبدیلیاں پیدا کرنے والا سافٹ پاور تھا اور جو بھی ایران، قومی مفادات، معاشی حالات کی بہتری، ملک کی ترقی اور قومی اقتدار کا خواہاں ہے، اسے عوام اور معاشرے کے ایمان اور امید کی تقویت کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔
اسلامی انقلاب کے بانی اور اسلامی جمہوریہ کے معمار امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی چونتیسویں برسی عقیدت و احترام سے منائی گئی۔ 4 جون 2023 کو اس مناسبت سے رہبر انقلاب اسلامی نے امام خمینی کے روضے میں عقیدتمندوں کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب میں امام خمینی کو پوری تاریخ ایران کی سب سے عظیم شخصیت قرار دیا اور آپ کے ذریعے ایران، عالم اسلام اور دنیا کی سطح پر پیدا کی جانے والی تبدیلیوں کی تشریح کی۔ آپ نے ایمان اور امید کو امام خمینی کی سب سے بڑی طاقت قرار دیا۔ (1)
خطاب حسب ذیل ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی طرف سے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی برسی کا پروگرام حضرت معصومہ قم کے روضے میں منعقد ہو رہا ہے۔
اسلامی جمہوریہ اور اسلامی انقلاب کے بانی امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی برسی اور15 خرداد (برابر 5 جون سنہ 1963) کی زندہ جاوید تحریک کی یاد نیز اس تحریک کے گرانقدر شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کا پروگرام، رہبر انقلاب آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی طرف سے بروز سنیچر قم میں حضرت معصومہ کے روضے کے امام خمینی شبستان میں نماز مغربین کے بعد منعقد ہوگا۔
تہران میں یہ پرشکوہ پروگرام اتوار کو صبح 8 بجے امام خمینی کے روضے میں منعقد ہوگا جس میں ہمیشہ کی طرح اس سال بھی مؤمن و انقلابی عوام کی بھرپور موجودگی متوقع ہے اور اس پروگرام میں رہبر انقلاب آیت اللہ العظمی خامنہ ای تقریر کریں گے۔
سالہا سال کی مسلسل شخصی اور استبدادی حکومتوں نے ہماری قوم کو ایک لات زبوں حال اور نکمی قوم میں تبدیل کردیا تھا۔ وہ قوم جو خداداد صلاحیتوں اور ممتاز قسم کی غیر معمولی اجتماعی عادتوں کی حامل ہے، ایک ایسی قوم جس کو اسلام کے بعد تاریخ کے طویل دور میں اس قدر سیاسی افتخارات کے ساتھ اس قدر علمی افتخارات حاصل رہے، ایک کمزور و ناتواں رسوا قوم میں تبدیل ہوگئی، بیرونی طاقتوں نے ایک مدت تک انگریزوں نے، ایک مدت روسیوں نے اور ایک مدت امریکیوں نے اور بعض مقامات ان کے گوشہ ؤ کنار میں بعض دوسری یورپی حکومتوں نے ہماری قوم کو ذلیل و خوار کر رکھا تھا۔۔۔ ہمارے عزیز ( و ناقابل شکست) امام (خمینی) رضوان اللہ تعالی علیہ نے ملت ایران کی خوابیدہ غیرت اور قومی غرور و افتخار کو بیدار کردیا۔۔۔، ہمارے عوام اب محسوس کرتے ہیں کہ وہ اتنی قوت و توانائی رکھتے ہیں کہ مشرق و مغرب کی مسلط کردہ پالیسیوں اور زبردستیوں کے مقابلے میں کھڑے رہ سکتے ہیں، یہ عزت و خود اعتمادی کی روح، قومی غرور، حقیقی اور اصلی افتخارات کی روح ہمارے امام نے ہماری ملت کے اندر بیدار کردی ہے۔
امام خامنہ ای (دام ظلہ)
14/ جولائی /1989
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے کہا کہ ایٹمی توانائي کا حصول ایرانی قوم خواہش اور تمام قوموں کا مسلمہ حق ہے۔ بانی انقلاب اسلامی ایران امام خمینی (رہ) کی انیسویں برسی کے موقع پر جنوبی تہران میں واقع امام خمینی کے مزار پر آج بہت بڑے عوامی اجتماع سے خطاب میں قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ایٹمی مسئلے میں عالمی سامراجی طاقتوں بالخصوص امریکہ کی جانب سے ایران کی مخالفت کا سبب ان ممالک سے علمی اور سائنسی میدان میں بے نیازی اور خود مختاری کی ایران کی کوشش ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایران کے اسلامی انقلاب کے دشمنوں کے پاس مہیا وسیع تشہیراتی، مالی، افرادی اور اطلاعاتی وسائل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ عدم توازن کے باوجود جب بھی بڑی طاقتوں اور اسلامی انقلاب کے درمیان مقابلے کی صورت پیدا ہوئی ہے، کامیابی اسلامی جمہوریہ ایران کا مقدر بنی ہے اور یہ سلسلہ گزشتہ تیس برسوں سے جاری ہے۔