تشریح و بیان کے جہاد کا مطلب، دین کی حقیقت کو سمجھنے اور دشمن اور اس کی سازشوں سے مقابلے کے لیے علمی و تحقیقی کام کے ذریعے باتوں کو واضح کرنا ہے۔ جب دشمن جھوٹ اور تحریف کا سہارا لے کر، حقائق پر پردہ ڈال کر اور شکوک و شبہات پیدا کر کے ماحول کو خراب کر دے اور دین و اسلامی انقلاب کی غلط شبیہ پیش کر کے ذہنوں کو کشمکش میں ڈال دے تو صرف تشریح و بیان ہی کے ذریعے باطل سے حق کو جدا کیا جا سکتا ہے اور شکوک و شبہات کی گرد کو دور کر کے حق کی راہ کو نظروں کے سامنے لایا جا سکتا ہے۔ خاص طور سے آج کے زمانے میں اور مغرب اور عالمی سامراج کی جانب سے میڈیا پر اپنی اجارہ داری کے سبب اسلام اور اسلامی انقلاب پر کی جانے والی یلغار کے دور میں بلاشبہہ اس سافٹ وار میں مقابلے اور فتح کی واحد راہ، تشریح و بیان کا جہاد ہے۔
البتہ رہبر انقلاب اسلامی کی رائے میں تشریح و بیان کا جہاد، کوئي آج ہی کی بات نہیں ہے اور نہ ہی صرف آج کے دور کی ضرورت ہے۔ وہ نہج البلاغہ کے پہلے خطبے کے حوالے سے، انبیائے الہی کو تشریح و بیان کے جہاد کا بانی بتاتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ تشریح و بیان، انبیاء علیہم السلام کی سب سے اہم ذمہ داری تھی۔ آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای کی نظر میں پیغمبر ختمی مرتبت نے بھی، دعوت اسلام کے ابتدائي دور میں بے شمار دشواریوں کے باوجود ہمیشہ دین اور کلام خدا کی حقیقت کی تشریح فرمائي۔ رہبر انقلاب کا کہنا ہے کہ نہج البلاغہ کے خطبوں کے مطابق امیر المومنین علیہ السلام کی حکومت کی ایک خصوصیت، تشریح اور حقائق کا بیان ہے اور اس جہاد کا سلسلہ ائمہ علیہم السلام کے تقریباً ڈھائي سو سالہ دور میں، مختلف شکلوں میں مسلسل جاری رہا ہے۔ معصومین کے اس جہاد کا مقصد، سچے اور صحیح اسلام کو لوگوں کے سامنے لانا اور قرآن مجید کی صحیح تفسیر پیش کرنا تھا۔ وہ اسی طرح کوفہ و شام میں عاشوراء کے حقائق بیان کرنے میں حضرت زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا کی مجاہدت جیسے ایک دوسرے آئيڈیل کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ عمار یاسر جیسے اصحاب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی جنگ صفین میں حقائق کی تشریح و بیان کا جہاد کیا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی دور حاضر میں ائمۂ معصومین علیہم السلام کی سیرت کو آگے بڑھانے میں خاص طور پر امام خمینی رحمت اللہ علیہ کو تشریح و بیان کے جہاد کے علمبرداروں میں سے ایک بتاتے ہیں۔
آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای تشریح و بیان کے جہاد میں امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے کردار کے بارے میں کہتے ہیں: "ہمارے زمانے میں، تشریح و بیان کا جہاد کرنے والی سب سے عظیم ہستی امام خمینی کی تھی اور تشریح و بیان کے جہاد کے ذریعے جو سب سے عظیم کام انجام پایا، وہ امام خمینی نے انجام دیا۔ انھوں نے تشریح و بیان کے جہاد کے ذریعے وہ کام کیا جو دوسرے لوگ کسی بھی فکری و عملی وسیلے سے نہ تو کر سکتے تھے اور نہ وہ کام کرنے کی امید رکھتے تھے۔ امام خمینی نے زبان اور استدلال سے یہ کام کیا، تشریح و بیان کا جہاد یہ ہے۔ امام خمینی نے تحریک کے پہلے دن سے بیان کا سلسلہ شروع کیا، اس دن تک جب وہ (تہران کے قبرستان) بہشت زہرا آئے اور کہا کہ میں اس حکومت کا منہ توڑ دوں گا اور میں حکومت تشکیل دوں گا۔ یہ سب کچھ تشریح و بیان کے جہاد کے ذریعے ہوا۔ تشریح و بیان کے جہاد کے ذریعے انھوں نے کیا کام کیا؟ تشریح و بیان کے جہاد کے ذریعے انھوں نے دیرینہ بدعنوان اور فاسد آمرانہ اور استبدادی موروثی سلطنتی حکومت کو ختم کر دیا اور اسلامی و دینی جمہوری حکومت کو اقتدار میں لائے۔ تشریح و بیان کا جہاد ایسا ہوتا ہے۔ اس کی اتنی اہمیت ہے۔"
اسلامی جمہوریہ کے بانی امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے ظالم شہنشاہی نظام کے خلاف اپنی جدوجہد کے آغاز سے ہی تشریح و بیان کے جہاد کو اپنی تمام سرگرمیوں کا سرلوحۂ عمل قرار دیا۔ انھوں نے افراط و تفریط سے کام لے کر مسلحانہ جدوجہد کی روش اختیار کرنے والے یا بدعنوان پہلوی حکومت کی اصلاح کا طریقہ اختیار کرنے والے بعض گروہوں یا دھڑوں کے برخلاف، اپنا مشن، قوم کے سامنے حقائق پیش کرنا اور اسے بیدار کرنا بنایا اور اسی روش سے انھوں نے عظیم تغیرات پیدا کر دیے۔
امام خمینی کے تشریح و بیان کے جہاد کی کچھ خصوصیات بالکل بے نظیر ہیں۔ ان کے تمام پہلوؤں اور خصوصیات کے بارے میں بات کرنے کے لیے ایک وسیع و عمیق تحقیق کی ضرورت ہے لیکن ہم اس تحریر میں ان کے بعض گوشوں کی طرف اشارہ کرنے کی کوشش کریں گے۔
اللہ پر ایمان اور توحید کے محور پر رہ کر کام کرنا
تشریح و بیان کے جہاد میں رہبر کبیر انقلاب اسلامی کی شاید سب سے بڑی خصوصیت، خداوند متعال پر مکمل ایمان و یقین اور ان کے تمام افکار و اعمال میں اس ایمان کا نمایاں کردار ہے۔ امام خمینی کی جانب سے شروع کی گئي جدوجہد کی پہلی دستاویز سے لے کر ان کی آخری یادگار دستاویز یعنی ان کی سیاسی و الہی وصیت نامے تک میں اس ہدف پر تاکید کی گئي ہے کہ قیام، اللہ کے لیے ہونا چاہیے۔ انھوں نے پہلی دستاویز میں "ان تَقومُوا لِلّہِ مَثنَیٰ و فُرٰدیٰ" (تم دو، دو اور ایک ایک ہو کر خدا کے لیے کھڑے ہو جاؤ۔ سورۂ سبا، آيت 46) کی آیت کو انسانیت کی اصلاح کے لیے اللہ کی سب سے بڑی نصیحت کے طور پر پیش کیا اور آخری وصیت میں "ثقلین" کا سہارا لیا ہے کہ جو وہ سب سے گرانقدر چیز ہے جو پیغمبر اکرم نے مسلمانوں کے لیے چھوڑی ہے۔ خدا کے لیے تمام امور کی انجام دہی، فرض کی ادائيگي اور اللہ کی مدد و نصرت پر بھروسہ، ایسے اصول تھے جن پر امام خمینی رحمت اللہ علیہ اپنی پوری مبارک زندگي میں عمل پیرا رہے اور دوسروں کو بھی سدا ان اصولوں پر عمل کی نصیحت کرتے رہے۔ رہبر انقلاب اسلامی اس سلسلے میں کہتے ہیں: "امام خمینی، اللہ کی مدد پر بھروسہ کرتے تھے، وہ اپنی پوری کوشش کرتے تھے، پورے وجود سے میدان میں آتے تھے لیکن ان کی امید، اللہ کی مدد اور اللہ کی طاقت پر ہوتی تھی اور وہ اللہ کی طاقت پر بھروسہ کرتے تھے۔ امام خمینی حقیقت میں اِحدی الحسنَیَین (دو میں سے ایک خوبی) پر یقین رکھتے تھے اور ان کا ماننا تھا کہ اگر ہم کوئي کام خدا کے لیے کریں تو نقصان کا دروازہ بند ہوتا ہے، اگر کوئي کام خدا کے لیے انجام پائے تو کسی بھی قسم کا نقصان نہیں ہوگا، یا تو ہم پیشرفت کریں گے اور اگر پیشرفت نہ بھی ہوئي تو ہم نے وہ کام کر دیا ہے جو ہمارا فریضہ تھا اور ہم اللہ کے سامنے سر بلند ہیں۔
تمام تغیرات میں عوام کو محور و مرکز ماننا
تشریح و بیان کے جہاد کی بحث میں رہبر کبیر انقلاب اسلامی امام خمینی رحمت اللہ علیہ کا سب سے اہم موقف عوام سے رابطہ اور عوام پر اعتماد تھا۔ تحریک کے آغاز سے ہی انھوں نے عوام سے گفتگو کو اپنی بنیاد قرار دیا اور وہ بھی کسی خاص گروہ یا طبقے سے نہیں بلکہ عام لوگوں سے۔ حقائق بیان کرنے اور باتیں واضح کرنے میں ان کی صداقت اور اپنائيت ایسی تھی کہ وہ لوگوں کو حرکت میں لے آتے تھے اور اسی چیز نے طاغوتی حکومت کی سرنگونی اور اسلامی جمہوریہ کے مقدس نظام کی تشکیل کی راہ ہموار کی۔ رہبر انقلاب اسلامی کے بقول: " امام خمینی کی تحریک شروع ہونے سے پہلے بھی ایران میں کچھ جد و جہد کی گئي تھی، ایران میں سیاسی جد و جہد موجود تھی، دسیوں سال سے مختلف گروہ جد و جہد کر رہے تھے لیکن ان کے کام زیادہ سے زیادہ مثال کے طور پر کچھ طلباء تک محدود تھے، فرض کیجیے کہ یہ لوگ 100 طلباء یا 150 طلباء پر اثر انداز ہو سکتے تھے، کسی پروگرام میں انھیں شامل کر سکتے تھے لیکن امام خمینی کی تحریک ایک محدود گروہ یا ایک محدود اجتماع یا ایک معین پیشے تک محدود نہیں تھی بلکہ پوری ایرانی قوم پر محیط تھی۔ قوم، ایک بحر اعظم کی طرح ہے اور بحر اعظم میں طوفان لانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ ایک سوئمنگ پول کو متلاطم کیا جا سکتا ہے لیکن کسی سمندر کو متلاطم کرنا، ایک بہت عظیم کام ہے۔ قوم ایک بحر اعظم ہے اور امام خمینی نے یہ کام کیا۔"
وہ نہ صرف یہ کہ خود میدان میں موجود تھے بلکہ دیگر مراجع تقلید، علمائے دین اور ذاکرین کو بھی ہمیشہ لوگوں سے رابطے، ان کے درمیان موجود رہنے اور سماج کے حالات کی تشریح کرنے، پہلوی نظام کے دوسروں پر انحصار، آمریت اور بدعنوانی اور اس کے ذریعے قوم پر کیے جانے والے مظالم کو بیان کرنے کی نصیحت کرتے تھے۔ وہ ان سے کہتے تھے کہ خود میدان میں آئیں اور لوگوں کو بھی میدان میں آنے کی دعوت دیں۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب مراجع کرام، بہت ہی اہم امور میں، فتویٰ جاری کرنے یا زیادہ سے زیادہ شاہ اور دیگر حکام کو ٹیلیگرام بھیجنے پر اکتفا کیا کرتے تھے۔ رہبر انقلاب اسلامی تحریک کے آغاز اور عوام کے درمیان امام خمینی کی مؤثر موجودگي کے ذریعے حقائق کو برملا کیے جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: "سنہ 1962 اور 1963 میں امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اپنے عمل سے، اپنی باتوں سے، منطق سے اور استدلال سے یہ چیز ایرانی قوم کو دکھائي۔ انھیں سمجھایا کہ اگر وہ لوگ آگے بڑھنا چاہتے ہیں، اچھے نتائج تک پہنچنا چاہتے ہیں، تو میدان میں موجود رہیں۔ پیچھے ہٹنا، اِس پر اور اُس پر بھروسہ کرنا اور گوشہ نشینی اختیار کرنا بے فائدہ ہے۔ میدان کے بیچ میں آئيں۔ آپ خود بھی میدان کے بیچ میں آئے، امام خمینی پارٹیوں اور گروہوں، سیاسی تحریکوں اور اس وقت کے (بڑے بڑے) دعوے کرنے والے معروف سیاستدانوں کے ساتھ نشست و برخاست کے بجائے عوام کے درمیان آ کے بیٹھے۔"
امام خمینی رحمت اللہ علیہ نہ صرف انقلاب کے دوران بلکہ اسلامی جمہوری نظام کے قیام کے بعد بھی تمام مرحلوں میں عوام کے مؤثر اور فیصلہ کن کردار پر خاص تاکید کیا کرتے تھے بلکہ ملک چلانے کے معاملے میں۔ جیسا کہ رہبر انقلاب اسلامی کہتے ہیں: "امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے جو اصول اور جو نعرے متعارف کرائے ان میں سے ایک عوامی بالادستی تھی۔ یعنی ملکی اقتدار عوام کے ہاتھوں میں رہے؛ عوام انتخاب کریں، وہ اپنی مرضی سے طے کریں، زندگی کے تمام شعبوں میں عوام اپنے ارادے کے مطابق عمل کریں۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک نعرہ ملت کی خود اعتمادی کا تھا۔ یعنی وہ عوام کو تلقین کرتے تھے اور بار بار دوہراتے تھے کہ آپ کے اندر توانائی ہے، آپ کے اندر صلاحیت ہے۔"
تمام وسائل اور ذرائع ابلاغ سے استفاده
امام خمینی رحمت اللہ علیہ حقائق بیان کرنے کے لیے تمام موجودہ وسائل اور ذرائع سے استفادہ کرتے تھے۔ وہ خطاب اور تقریر بھی کرتے تھے اور قلم سے بھی استفادہ کرتے تھے اور تحریری پلیٹ فارمز کو استعمال کرتے تھے۔ وہ ریڈیو اور ٹی وی سے بھی فائدہ اٹھاتے تھے۔ وہ شعر بھی کہتے تھے اور کتاب بھی لکھتے تھے۔ حقائق بیان کرنے کے لیے خطوط بھی لکھتے تھے اور انھیں بھیجےگئے بے شمار خطوط کا جواب بھی دیتے تھے۔ انھوں نے بہت سارے بیان بھی دیے اور بڑی تعداد میں پیغام بھی جاری کیے۔ جلاوطنی کے زمانے میں، جب ان پر کڑی نگرانی رکھی جاتی تھی، وہ کیسٹوں کے ذریعے زبانی طور پر اپنے پیغاموں اور بیانوں کو لوگوں تک پہنچاتے تھے۔ اتمام حجت کے لیے وہ شاہ اور وزرائے اعظم کو ٹیلیگرام بھیجنے تک سے دریغ نہیں کرتے تھے۔ وہ بہت سارے لوگوں سے ملتے تھے اور بہت ساری اہم شخصیات سے ملاقات کرتے تھے۔ ان کی عمومی ملاقاتوں کی تعداد کافی زیادہ تھی جن میں وہ لوگوں کے سامنے تقریر کرتے تھے اور اسی طرح ان کی ایسی ملاقاتیں بھی ہوتی تھیں جن میں وہ صرف عوام کو حوصلہ اور امید عطا کرتے تھے۔ وہ اپنی کلاسوں میں بھی باتیں کرتے تھے اور مسجدوں میں بھی۔ عوام کو آگہی عطا کرنے کے لیے وہ ہر وسیلے سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ ٹیلی فونی رابطہ بھی کرتے تھے اور اپنے نمائندے بھی بھیجا کرتے تھے۔ دھیمی آواز میں اور سرگوشیوں میں بھی نصیحت کرتے تھے اور بلند آواز سے بھی اپنی بات کہتے تھے۔ امام خمینی لوگوں کو آگاہ کرنے اور حقائق کو برملا کرنے کے لیے ہر پلیٹ فارم سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ امام خمینی کا تشریح اور بیان کا جہاد بغیر کسی وقفے کے جاری رہنے والا مسلسل جہاد تھا اور کسی خاص زمانے سے مختص نہیں تھا۔ وہ محرم و عاشورا، معصومین کی شہادت اور ولادت کے ایام جیسی مناسبتوں سے بھرپور فائد اٹھاتے تھے لیکن کبھی کبھی بغیر کسی مناسبت کے بھی اقدام کرتے تھے۔ شاید وہ اپنا زیادہ وقت تشریح اور بیان میں گزارتے تھے۔ وہ اپنا زیادہ تر وقت عمومی خطاب اور تقاریر میں گزارتے تھے لیکن اسی کے ساتھ وہ خصوصی ملاقاتوں اور انٹرویو کے لیے بھی کافی وقت نکالتے تھے۔ امام خمینی رحمت اللہ علیہ تشریح اور حقائق کے بیان کے لیے، جب بھی ضرورت ہوتی تھی، اپنے فریضے کو ادا کرتے تھے۔ اس کے لیے وہ کسی خاص جگہ کو بھی مدنظر نہیں رکھتے تھے۔ ان کے لیے ایران، عراق، ترکی اور پیرس میں کوئي فرق نہیں تھا۔ جلاوطنی، نظر بندی، جیل اور حراست سے ان کے کام میں رکاوٹ نہیں آتی تھی۔ ان کے لیے گھر اور سفر میں بھی کوئي فرق نہیں تھا۔ کلاس اور مسجد دونوں ہی تشریح اور حقائق کے بیان کے لیے مناسب جگہیں تھیں۔ بہشت زہرا، تہران، مدرسہ رفاہ اور جماران امامبارگاہ اور قم اور اعلی دینی تعلیمی مرکز میں کوئي زیادہ فرق نہیں تھا۔ زیادہ اہم بات، تشریح اور حقائق سامنے لانے کی ذمہ داری کی ادائیگي تھی۔
صداقت و اپنائیت کے ساتھ عالمانہ اور حکیمانہ انداز میں تشریح اور حقائق کا بیان
تشریح اور حقائق کے بیان میں امام خمینی کا ایک دوسری خصوصیت، علم و آگہی سے معمور ہونا تھا۔ وہ اتنے عالمانہ اور آگاہانہ طریقے سے حقائق بیان کرتے تھے کہ کوئي بھی ان کی باتوں میں کمی نہیں نکال سکتا تھا۔ کیونکہ حقائق کا بیان اگر صحیح اور کافی معلومات کی بنیاد پر نہ ہو تو ہدایت و انکشاف کی جگہ گمراہی اور بہکاوے کا راستہ کھول دیتا ہے۔ اسی لیے پورے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ کبھی بھی کوئي بھی ان کے بیانوں سے غلطی میں مبتلا نہیں ہوا۔ ان جیسے حکیم سے، حکمت آمیز باتوں کے علاوہ کسی اور چیز کی توقع نہیں تھی۔ وہ ہر بات کو برموقع، صحیح مقدار میں اور صحیح وقت پر بیان کرتے تھے لیکن ہر بات، ہر کسی سے نہیں کہتے تھے اور ان کا ماننا تھا کہ ہر بات، ہر شخص سے نہیں کہی جا سکتی۔ ان کی باتیں، سادگي اور ہمہ گيریت کے ساتھ ہی گہری اور قرآن کے بلند معانی کے ہمراہ ہوا کرتی تھیں۔ بقول رہبر انقلاب اسلامی: "امام خمینی، حکیم تھے، وہ قرآن کے الفاظ میں حکیم تھے۔ حکیم اس شخص کو کہتے ہیں جو ان حقائق کا مشاہدہ کرتا ہے جو دوسروں کی آنکھوں سے اوجھل رہتے ہیں، پوشیدہ رہتے ہیں۔ ان کے الفاظ، شاید سادہ نظر آئيں لیکن ان پر آپ جتنا زیادہ غور و خوض کیجیے، اتنا ہی زیادہ آپ پائيں گے کہ ان کی باتیں بڑی گہری اور پرت در پرت ہیں، وہ اس طرح کے تھے۔"
جب امام خمینی لوگوں سے بات کرتے تھے تو سبھی کو یہ یقین ہوتا تھا کہ وہ امام خمینی کے بھروسے مند ہیں۔ وہ اتنا سچائي اور اپنائيت سے مسائل پیش کرتے تھے کہ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اب کہنے کے لیے کچھ باقی بچا ہی نہیں ہے۔ وہ کبھی دوغلی پالیسی اختیار نہیں کرتے تھے اور کسی کو بھی ان کی سچائي میں شک نہیں ہوتا تھا۔ لوگوں کے سامنے جو کچھ بھی بیان کرنا ضروری ہوتا تھا، وہ بیان کرتے تھے۔
شجاعت اور اخلاق
امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی ایک اہم خصوصیت تشریح اور بیان کے جہاد میں ان کی بے نظیر شجاعت تھی۔ وہ اپنے فریضے کی ادائیگي میں ذرہ برابر بھی خائف نہیں ہوتے تھے۔ جس زمانے میں سبھی لوگوں پر خاموشی طاری تھی، وہ خود شاہ کو ٹیلیگرام بھیج کر چیلنج کرتے تھے۔ شہنشاہی گھٹن کے عروج کے زمانے میں وہ ملک کے ڈکٹیٹر کو وارننگ دیتے تھے۔ انھوں نے ایسے وقت میں کہا تھا کہ امریکا کچھ بگاڑ نہیں سکتا، جب دنیا کی بہت سی سیاسی شخصیات، یہاں تک کہ طاقتور ممالک میں بھی اس جملے کو دوہرانے کی ہمت نہیں تھی۔ وہ عمومی تقریروں میں تنقید بھی کرتے تھے اور حکمرانوں کو نصیحت بھی کرتے تھے۔ کسی کا بھی لحاظ کیے بغیر، اہم مسائل کو بیان کرتے تھے۔ انھوں نے پوری شجاعت کے ساتھ عالمی سامراج کے پٹھو سلمان رشدی کے مرتد ہونے کا فتویٰ جاری کیا جبکہ شاید بعض لوگ ان کے اس اقدام کو مصلحت کے خلاف سمجھ رہے تھے۔ انھوں نے اس وقت کی دو بڑی سپر طاقتوں میں سے ایک، سوویت یونین کے سربراہ میخائيل گورباچوف کو خط لکھا اور کمیونزم کے زوال کے سلسلے میں انتباہ دیتے ہوئے انھیں اسلام کی دعوت دی۔ رہبر انقلاب اسلامی کے بقول شجاعت، امام خمینی کے عظیم کارناموں کا ایک سبب تھی: میرے خیال میں ایک چیز جو امام خمینی کی گوناگوں فتوحات پر منتج ہوئی، ان کی شجاعت تھی۔ اسی شجاعت نے علمی فتوحات، معنوی فتوحات، سیاسی فتوحات، سماجی فتوحات، ان کی طرف دلوں کے مائل ہونے جیسی باتوں کو وجود عطا کیا کہ جو واقعی بہت عجیب چیز تھی۔ ان کی شجاعت یہ تھی کہ وہ کبھی بھی گھبراتے نہیں تھے۔
امام خمینی کی تشریح اور حقائق کے بیان کی روش میں بداخلاقی، جھوٹ اور الزام تراشی کی کوئي جگہ نہیں تھی کیونکہ ان کا ہدف، اخلاق اور روحانیت کی ترویج تھا۔ وہ حقائق کو سامنے لاتے تھے لیکن کسی کی عزت پامال نہیں کرتے تھے۔ ٹھوس طریقے سے بات کرتے تھے لیکن بے انصافی نہیں کرتے تھے۔ لوگوں میں جوش بھرتے تھے لیکن جذباتی نہیں ہوتے تھے۔ فکر اور تشویش پیدا کرتے تھے لیکن خوف و ہراس پیدا نہیں ہونے دیتے تھے۔ قیام اور انقلاب کی دعوت دیتے تھے لیکن نراج کی حمایت نہیں کرتے تھے۔ ایران اور بعض یورپی ملکوں میں طاغوتی قوانین کو تسلیم نہیں کرتے تھے لیکن سبھی کو قوانین پر عملدرآمد کی دعوت دیتے تھے۔
المختصر یہ کہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ، تشریح حقائق کے بیان کو ایک الہی فریضہ سمجھتے تھے اور اس کی ادائيگي میں کوئي کسر نہیں چھوڑتے تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ آج کی انسانیت جہالت میں مبتلا ہے اور اس کی نجات کا واحد راستہ حقائق کا برملا ہونا اور بیداری ہے۔ اسی لیے وہ تشریح اور حقائق کے بیان کو سبھی کی دائمی ذمہ داری سمجھتے تھے اور اس کے نتیجے میں انھیں ذرہ برابر بھی پس و پیش نہیں ہوتا تھا۔ وہ انقلاب کی کامیابی کا راز بھی اسی کو سمجھتے تھے اور اس کی بقاء و پائيداری کا راز بھی اسی کو جانتے تھے۔ وہ مشکلات اور رکاوٹوں کے بارے میں بات کرتے تھے لیکن کبھی کسی کو مایوس نہیں کرتے تھے۔ وہ تاریکی کے قلب میں نور دیکھتے تھے اور مشکلات اور مایوسی کے اوج پر بھی، فتح کا یقین رکھتے تھے۔