بسم‌ الله‌ الرّحمن‌ الرّحیم

و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و آلہ الطّاھرین المعصومین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین.

آپ کو عید کی مبارکباد، یوم مسلح افواج کی مبارکباد، سال نو کی مبارکباد، ستائیس رجب کی عید بعثت پیغمبر کی مبارکباد اور تیرہ رجب کی عید میلاد مولائے کائنات کی مبارکباد، آپ کو بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور آپ کے اہل خانہ، بچوں، بیویوں سب کو مبارک ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ کے اہل خانہ اور آپ کی ازواج بھی زندگی کے دشوار میدانوں میں آپ کے شانہ بشانہ جد و جہد کرنے والی سپاہی ہیں۔ ایک سپاہی کی زندگی واقعی بڑی سختیوں، دشواریوں، شدید دباؤ اور جدوجہد سے پر ہوتی ہے۔ ایسے حالات میں آپ کا ساتھ دینے والی اور آپ کا غم بانٹنے والی آپ کی ازواج اور آپ کے بچے بھی واقعی آپ کے ہمراہ محاذ جنگ پر موجود سپاہیوں کی مانند ہیں۔

ہمارے عظیم قائد امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک انتہائی دانشمندانہ اور بہرین ابتکار عمل یہ رہا کہ آپ نے اس دن کو یوم مسلح افواج قرار دیا۔ اس ابتکار عمل سے خود فوج کی بنیادیں بھی مضبوط ہوئی ہیں اور ساتھ ہی اس سرزمین کے اندر فوج کی جڑیں اور بھی گہری ہو گئیں، اس کے نتیجے میں بہت سے سازشی حلقوں پر مایوسی چھا گئی، انھوں نے تو کچھ اور ہی منصوبے بنا رکھے تھے۔ امام خمینی کی جانب سے یوم مسلح افواج کے اعلان کا یہ مطلب تھا کہ اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوری نظام، فوج کو اسی ماہیت میں اور اسی شکل میں قبول کرتا ہے اور اس کی حمایت کرتا ہے۔ حالانکہ وہ ماہیت مردم شناسی کے اعتبار سے، انسان شناسی کے اعتبار سے اور تنظیم شناسی کے اعتبار سے قابل تامل تھی۔ یعنی ملک کے عوام کی طرح یہ مجموعہ ایک مسلمان اور مومن مجموعہ تھا لیکن ادارے کے اندر ناقابل اعتماد اعلی عہدیداران تھے۔ اس طرح کے حالات تھے۔ مگر امام خمینی نے مسلح فورسز کے بارے میں اسلامی جمہوریہ کی فوج کے بارے میں ہر طرح کی سازش کو ناکام بناتے ہوئے یوم مسلح افواج کا اعلان کر دیا۔ یعنی یہ پیغام دیا کہ میں اسی فوج کو، انھیں موجودہ خصوصیات کے ساتھ قبول کرتا ہوں اور اسلامی نظام بھی اس کو تسلیم کرتا ہے۔ میں دسیوں دفعہ، دسیوں اجلاسوں میں فوج کے حالات کے بارے میں امام ( خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) سے گفتگو کر چکا تھا، تنہائی میں بھی اور کچھ دیگر افراد کی موجودگی میں بھی۔ تو مجھے معلوم ہے کہ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کی یہی عمیق قلبی چاہت تھی کہ فوج کی حمایت کی جائے، فوج کی حفاظت کی جائے، فوج کو تقویت پہنچائی جائے اور واقعی یہ بالکل صائب رائے تھی۔

اسلامی انقلاب کے بعد یہی فوج ہر موقع پر درخشاں کارکردگی پیش کرنے میں کامیاب رہی۔ اگر ان تمام واقعات کا کوئی ذکر کرنا چاہے تو بڑا دشوار کام ہوگا۔ مثال کے طور پر فوج کے اندر سے ہونے والی سازشوں کا مقابلہ سب سے بڑھ کر خود فوج نے کیا۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ بہت سے عناصر تھے اور آج بھی ہیں جو اسلامی جمہوری نظام سے وابستہ اداروں کے اندر گڑبڑ پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اس زمانے میں اس طرح کی کوششیں زیادہ ہوتی تھیں۔ ایسے عزائم بھی زیادہ تھے اور کوششیں بھی زیادہ ہوتی تھیں۔ فوج کے اندر سے ہی فوج کے لئے مشکلات کھڑی کرنے کی کوششیں ہو رہی تھیں۔ یعنی فوج کی شناخت اسلامی نظام سے عدم ہم آہنگی رکھنے والے ادارے کی حیثیت سے طے کرنے کی کوشش ہو رہی تھی۔ کچھ عناصر تھے جو ایسا کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ ان عزائم اور اس رخنہ اندازی کا مقابلہ جس نے سب سے بڑھ چڑھ کر کیا وہ خود فوج ہی تھی۔ باہر کی کوئی بھی فورس خواہ وہ انٹیلیجنس ہو یا سیکورٹی فورس ہو، ملک کی مسلح افواج کے سلسلے میں کی جانے والی ان سازشوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی۔ یہ کام فوج ہی کر سکتی تھی اور فوج نے ہی مقابلہ کیا۔ یہ تو ایک مثال ہے، ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔

مقدس دفاع کے دوران فوج کی کارکردگی واقعی قابل افتخار رہی۔ یہ بات آپ سے میں کہہ رہا ہوں جو قریب سے حالات کا مشاہدہ کر چکا ہوں۔ آپ میں بہت سے افراد نوجوان ہیں جنھوں نے وہ زمانہ نہیں دیکھا، یا تو آپ پیدا ہی نہیں ہوئے تھے اور اگر تھے بھی تو فوج کا حصہ نہیں تھے۔ ہم نے نزدیک سے ان حالات کو دیکھا ہے۔ فوج نے بڑا اہم کردار ادا کیا اور بہترین مثالیں قائم کیں۔ جنگ اور کارزار کے میدان میں رول ادا کرنے کے علاوہ بھی فوج نے بڑی شیریں یادیں چھوڑی ہیں۔ مثال کے طور پر میں عرض کرنا چاہوں گا کہ فوج کے بعض اہلکاروں نے جو اعلی روحانی و اخلاقی مقام پر فائز تھے، اسے عملی طور پر ثابت کیا۔ زبانی طور پر تو ہم سب باتیں کرتے ہیں، میں بھی جو اللہ، قیامت، بہشت اور جہنم کی اتنی باتیں کرتا ہوں تو آزمائش کے وقت مجھے پرکھا جانا چاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ میں حقیقت میں کس حد تک خوف خدا رکھتا ہوں، کس حد تک خیال رکھتا ہوں، جہنم سے کتنا ڈرتا ہوں، یہی تو ہے نا، عملی طور پر مشاہدہ کرنا چاہئے!

ہمارے یہاں فوج میں ایسے افراد رہے ہیں اور آج بھی ہیں جنھوں نے عملی طور پر ثابت کیا کہ وہ روحانیت کے بلند مدارج پر فائز ہیں۔ ان میں ایک یہی صیاد شیرازی تھے، انھیں میں سے ایک شہید بابائی تھے۔ ایسے افراد کی کمی نہیں ہے۔ میں نے ان میں سے معروف اور نامور افراد کے نام لئے ورنہ ایسے افراد کی تعداد بہت  زیادہ ہے۔ میں کچھ عرصہ اہواز میں تھا تو وہاں میں نے ایسے افراد کو قریب سے دیکھا ہے۔ میں نے بارہا ذکر کیا کہ آدھی رات کا وقت تھا، میں ایک چھوٹی بریگیڈ کا معائدہ کر رہا تھا۔ ٹینک کے پاس اس کا ذمہ دار افسر کھڑا ہوا نماز شب پڑھ رہا تھا۔ آدھی رات کے وقت، اس بیابان میں، شدید سردی کے موسم میں کون ہوگا جسے نماز شب کی فکر ہوگی؟! یہ اس وقت کی بات ہے کہ جب رضاکار جوانوں اور ان کی مناجات وغیرہ کا سلسلہ ابھی اتنا عام نہیں ہوا تھا، ان حالات میں میں نے قریب سے ان افراد کو دیکھا۔ اسی طرح میرے خیال میں وہ کرنل یا لفٹیننٹ کرنل جس نے آکر مجھ سے روہانسے لہجے میں بات کی اور مجھے لگا کہ وہ شاید چھٹی مانگنا چاہتا ہے، اسے کوئی تشویش لاحق ہوگی اور وہ چھٹی لیکر اہواز سے جانا چاہتا ہوگا، مگر اس کی درخواست یہ تھی کہ آپ میری سفارش کر دیجئے کہ رات کے وقت یہ رضاکار نوجوان، جناب چمران صاحب کے ساتھ رات کے وقت ٹینکوں کے شکار کے لئے جاتے ہیں تو مجھے بھی ساتھ لے جائیں! کیا آپ سوچ سکتے ہیں؟! ایک اعلی افسر، مجھے اس وقت اس کی رینک یاد نہیں ہے، غالبا لیفٹیننٹ کرنل کی رینک کا تھا، وہ آکر رضاکارانہ طور پر یہ گزارش کرتا ہے کہ رضاکار نوجوانوں کے ساتھ جو تہران سے آئے تھے اور رات کے وقت یا تاریکی میں جاتے تھے اور دشمن پر ٹارگیٹڈ حملے کرتے تھے، اسے جانے اور تعاون کرنے کی اجازت مل جائے۔ اس وقت یہ حالات تھے، اوائل جنگ میں یہ صورت حال تھی۔

فوج نے اپنی ماہیت کا مظاہرہ کیا۔ میں آپ سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آج ہماری فوج صاحب فکر، روحانیت سے آراستہ اور پاک و مقدس جذبات و عزائم کی حامل فوج ہے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ اگر آپ بہت سے دیگر ممالک کی افواج پر نظر ڈالیں تو پائیں گے کہ درندگی، وحشی پن اور حیوانیت ان کی صفت ذاتی ہے۔ ایسی فورس جس سے اس طرح کے برتاؤ کی توقع ہو وہی اپنے اندر ایسے صاحب اخلاق، پاکیزہ، اعلی درجات پر فائز افراد، مومن نوجوانوں، پاکیزہ جذبات کو مختلف عسکری میدانوں میں پروان چڑھائے تو یہ بہت بڑی بات ہے اور آج ہم اس کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ یہ میری نظر میں امام  (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی جانب سے یوم مسلح افواج کے تعین کا ایک اہم ثمرہ رہا ہے۔

فوج کے تمام اہلکاروں کے لئے میرا پیغام یہ ہے کہ آپ اپنی موجودہ پوزیشن کی قدر و منزلت کو سمجھئے۔ اس انداز سے خدمت کرنے کے اس موقع کی قدر کیجئے۔ آپ ایک عسکری ادارے میں عسکری خدمات انجام دے رہے ہیں، سرگرم کردار ادا کر رہے ہیں، اللہ تعالی آپ کے اس عمل کو آپ کے لئے حسنہ کے طور پر لکھے گا اور ثواب سے نوازے گا۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ اس کی قدر کیجئے۔ اس صورت حال کی حفاظت کیجئے۔ اپنی روحانی و معنوی آمادگی اور جذبات، اسی طرح اپنے ماتحتوں کے جوش و جذبے میں روز افزوں اضافہ کیجئے۔

کسی بھی ملک کے لئے سلامتی کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ کبھی کسی ملک میں کھانے پینے کی چیزوں کی قلت ہو جاتی ہے، قحط پڑ جاتا ہے، مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں، ساتھ ہی بدامنی بھی ہوتی ہے۔ ایسے حالات میں اگر عوام سے پوچھا جائے کہ آپ امن و سلامتی چاہتے ہیں یا نان شبینہ تو وہ یقینا امن و سلامتی کو ترجیح دیں گے۔ یعنی وہی چیز جو ہمارے اس علاقے میں اسی طرح دنیا کے دیگر علاقوں میں سپر پاورز کی مداختلوں کی وجہ سے ناپید ہو گئی ہے۔ یعنی مثال کے طور پر کوئی بس ایک جگہ سے دوسری جگہ جا رہی ہے تو یہ اطمینان نہیں ہے کہ جو لوگ اس میں موجود ہیں، اس بس میں سوار ہیں، وہ صحیح سلامت اپنی منزل تک پہنچں گے اور دشمن کے حملے سے بچے رہیں گے یا نہیں؟ سڑک پر یہ ماحول ہے، گھروں کے اندر یہ ماحول ہے، یہ چیز بہت اہم ہے۔ سیکورٹی بہت ضروری ہے۔ امن  و سلامتی کا ماحول فراہم کرنے میں مسلح فورسز کا کردار کلیدی نوعیت کا ہے۔ فوج ممکن ہے کہ سیکورٹی کے اعتبار سے کوئی خاص کارروائی انجام نہ دے لیکن آپ جتنے مقتدر اور توانا ہوںگے ملک میں فوج کی طاقتور کارکردگی سے اتنا ہی محفوظ ماحول ہوگا۔ ملکی سلامتی کی ضمانت مسلح فورسز، ان کی قوت، ان کی توانائیاں اور ان کے عزائم و جذبات ہیں۔ یہ بہت اہم مسائل ہیں۔

فوج کے تمام اہلکاروں کے لئے میرا پیغام یہ ہے کہ جہاں تک ہو سکے وہ اپنی توانائیاں بڑھائیں۔ جو بھی جہاں بھی ہے، معمولی سا نگہبان بھی جو کسی پوسٹ پر نگہبانی کے فرائض انجام دے رہا ہے وہ بھی فوج کی تقویت میں موثر واقع ہو سکتا ہے۔ یعنی اس نے نگہبانی کے فرائض بخوبی انجام دئے، تساہلی کو اپنے قریب نہیں آنے دیا، آنکھیں کھلی رکھیں، جہاں جہاں نگاہ پڑنی چاہئے تھی وہاں اس کی نظریں گھومتی رہیں تو یہ نگہبان بھی مسلح فورسز کے ادارے کی خواہ وہ فوج ہو، پاسداران انقلاب فورس ہو یا دیگر ادارے ہوں، اسی مقدار میں خدمت کر رہا ہے۔ اسی طرح سے کمانڈروں، ایجادات کرنے والوں، نگہداشت کرنے والوں، گوداموں کی نگرانی کرنے والوں، پروڈکشن کے شعبے سے وابستہ اہلکاروں، ڈیزائننگ کرنے والے ماہرین اور اسٹریٹیجسٹوں تک سب کے سلسلے میں یہ چیز صادق آتی ہے۔ یہ سب کے سب عسکری ادارے کو تقویت پہنچانے میں موثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ تو آپ اس کی قدر کیجئے کہ آپ میں سے جو کوئی بھی اس ہدف کے تحت کوئی تعاون کر سکتا ہے وہ رضائے پروردگار کے مطابق کام کر رہا ہے اور عمل نیک انجام دے رہا ہے۔

اپنے اندر ایسے افراد کی تعداد بڑھائیے جو نمونہ عمل قرار پا سکتے ہیں۔ یعنی یہ کوشش سب کے سب کریں۔ واقعی شہید بابائی ایک نمونہ عمل ہیں۔ صرف ایک فوجی نمونہ نہیں بلکہ اخلاقی نمونہ عمل ہیں، ایک مقدس انسان ہیں۔ شہید صیاد بھی اسی طرح ہیں۔ اسی طرح دوسرے بھی بہت سے ہیں جن میں کافی لوگوں کے نام ذہن میں نہیں ہیں اور بعض کو ہم سرے سے پہچانتے ہی نہیں۔ ایسے لوگ بڑی کثرت سے فوج کے اندر موجود تھے۔ اس عظیم و محترم ادارے، مادی و روحانی شکوہ کے حامل اس ادارے میں ایسے نمونوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ کیجئے۔

ابھی کہا گیا کہ فوجی اہلکار امن و سلامتی کی فصیلیں ہیں؛ حُصونُ الرَّعیّة، یہ بڑا اہم نکتہ ہے جو ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ عوام الناس کا حفاطتی قلعہ اور فصیل صرف مسلح فورسز نہیں ہیں۔ مسلح فورسز عوام الناس کی سلامتی کی فصیلوں کا اہم حصہ ہیں۔ اس کا بھی انحصار اذن پروردگار پر ہے؛ فَالجُنودُ بِاِذنِ اللهِ حُصونُ الرَّعیَّة.(۲) دوسرے گوناگوں ادارے اس میدان میں فوج کے شانہ بشانہ خدمات انجام دے سکتے ہیں۔ اقتصادی ادارے، ثقافتی ادارے، تعلیمی ادارے، تحقیقاتی ادارے، پورا ملک۔ مختلف اداروں سے ہمیں یہی توقع ہے۔ سب محنت کریں اور قلعہ و فصیل کی مانند مستحکم رکاوٹ کی مانند دشمن کے حملوں کے مد مقابل ڈٹ جائیں اور اپنے ملک کے لئے اور اپنی قوم کے لئے کام کریں، سرگرمیاں انجام دیں۔ خواہ وہ اقتصادی شعبہ ہو، ثقافتی شعبہ ہو، علمی و تحقیقاتی شعبہ ہو یا دفاعی فورسز ہوں، سب کا نصب العین یہی ہونا چاہئے۔ کام الگ الگ ہیں لیکن ہدف سب کا ایک ہے۔ ہدف ہے قومی سلامتی کا دفاع، قومی وقار کی حفاظت، ملکی پیشرفت و ترقی کی حفاطت، دشمنوں کی شرپسندی سے وطن عزیز کی حفاظت۔ ایسی صورت میں عسکری ادارے، یونیورسٹی سے وابستہ ادارے، تحقیقاتی ادارے، ثقافتی ادارے، اقتصادی ادارے، سب کے سب عظیم فورسز قرار پائیں گی جو آپس میں مل کر کام انجام دے رہی ہیں، ایک دوسرے کی مدد کر رہی ہیں، ایک دوسرے کے کاموں کی تکمیل کر رہی ہیں، آپس میں کسی کمپٹیشن کی کیفیت نہیں ہے، ایک دوسرے سے حسد نہیں ہے۔ ایسی صورت میں ملک کے اندر اس طرح کا مثالی اتحاد قائم ہوگا۔ ہمارا زور اسی چیز پر ہے۔

حالیہ دو تین سال سے میں نے اقتصادی نعروں پر زیادہ زور دیا ہے، اس لئے کہ مجھے یہ اندازہ ہو گیا کہ دشمن اسی پہلو سے اس عظیم قومی شعبے پر وار کرنا چاہتا ہے۔ اگر ہم اقتصادی مشکلات میں مبتلا رہیں گے تو گوناگوں شعبے اپنا کام بخوبی انجام نہیں دے پائیں گے۔ لہذا ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ملک کے عہدیداران کے دوش پر جو فرائض ہیں، حکومت، عدلیہ، پارلیمنٹ اور دیگر اداروں کے عہدیداروں پر جو ذمہ داریاں ہیں ان میں سب سے کلیدی اور حساس چیز کیا ہے؟ ممکن ہے آج کوئی خاص عمل اور اقدام کلیدی حیثیت رکھتا ہے اور کل کوئی دوسری چیز وہی کلیدی حیثیت حاصل کر لے۔ اس وقت ملک کی اقتصادی اعتبار سے تقویت اہم ترجیح اور کلیدی نکتہ ہے۔ اسی وجہ سے یہ حقیر اس پر بہت زیادہ زور دے رہا ہے۔ میں عوام کی معیشتی صورت حال پر زور دے رہا ہوں، مختلف اداروں کے ملازمین اور کارکنان کی معیشتی حالت پر زور دے رہا ہوں۔ مسلح فورسز کے کارکنان کی معیشتی حالت پر زور دیتا ہوں۔ ان چیزوں پر توجہ دی جانی چاہئے، اس سلسلے میں بڑی سنجیدگی سے کام ہونا چاہئے۔ یہ عہدیداران کی ذمہ داری ہے۔ اگر عہدیداران دشمن کے عزائم پر توجہ دیں تو ان کے اندر ان کاموں کی انجام دہی کا جذبہ بڑھ جائےگا۔ ہم جب دشمن کی باتوں کا مطالعہ کرتے ہیں یا سنتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ وہ اسی پہلو پر خاص طور سے کام کر رہے ہیں، تاکہ اقتصادی خامیوں اور اقتصادی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تخریبی کارروائیاں انجام دینے اور رخنہ اندازی کے لئے راستہ ہموار کریں۔ انسان جب اس حقیقت سے آگاہ ہو جاتا ہے تو اس کے تدارک کے لئے اقدامات انجام دینے کا جذبہ بڑھ جاتا ہے۔

استقامتی معیشت کا موضوع جو ہم نے اٹھایا جو متعدد اقدامات کا ایک مجموعہ ہے، اس میں کئی کلیدی چیزیں ہیں جو زمانہ حال اور مستقبل قریب کے لئے بڑی اہمیت کی حامل ہیں، یہ روزگار اور پیداوار کا مسئلہ ہے۔ میں نے محترم حکام سے اپنی ملاقاتوں میں خاص طور پر بڑی تشریح کے ساتھ ان چیزوں کو بیان کر دیا ہے۔ یہ میری کہی ہوئی باتیں نہیں ہیں۔ میں اقتصاد داں تو نہیں ہوں، یہ اقتصادی امور کے ماہرین کی باتیں ہیں۔ یہ ان ممتاز افراد کی باتیں ہیں جو اس میدان میں سرگرم عمل ہیں اور ہمیں مشورے دیتے رہتے ہیں۔ میں بھی ملکی حالات کا جائزہ لیتا ہوں تو محسوس کرتا ہوں کہ ہاں یہ اہم ترجیح ہے۔ دشمن کی حریصانہ نگاہوں نے اپنا راستہ ڈھونڈ لیا ہے۔ اب ہمیں دیکھنا ہوگا کہ دشمن کے عزائم کیا ہیں؟ ہماری وہ خامی جسے دشمن اپنے مقصد کی تکمیل کے لئے استعمال کر سکتا ہے، دور کی جانی چاہئے، اس راستے کو بند کر دینا چاہئے۔ مختلف شعبوں کے حکام سے میں یہی توقع رکھتا ہوں۔ اس  اعتبار سے اقتصادیات کا مسئلہ بنیادی ترجیحات کا حصہ ہے۔

البتہ ہمارے مثبت نکات بھی کم نہیں ہیں۔ اسلامی جمہوری نطام اور ملت ایران کے اندر کیفیت اور مقدار کے اعتبار سے خوبیوں اور مثبت پہلوؤں کی تعداد خامیوں سے کئی گنا زیادہ ہے۔ ہمارے اندر بڑی حیرت انگیز خوبیاں اور خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے یہ ملک اور اسلامی نظام عجیب و غریب دشمنیوں کے باوجود جو برتی گئیں اور آج بھی برتی جا رہی  ہیں، سربلندی کے ساتھ دشمن کے سامنے پر وقار انداز میں کھڑا ہے اور جھکنے کے لئے تیار نہیں ہے۔

دیکھئے بڑی طاقتوں کا حربہ ہے غرانا اور دھونس جمانا۔ ہم نے یہ بات بارہا کہی ہے۔ جارح طاقتیں جو ہر جگہ دست درازی کے در پے رہتی ہیں، جو ہر جگہ مداخلت کرتی ہیں، تمام ملکوں میں ٹانگ اڑاتی ہیں، تمام ممالک میں اپنے مفادات معین کر لیتی ہیں اور اگر ان مفادات پر آنچ آتی ہے تو چیخنے لگتی ہیں کہ فلاں ملک، فلاں حکومت، فلاں نظام ہمارے مفادات کے خلاف کام کر رہا ہے۔ یعنی وہ ہر ملک میں اور ہر خطے میں ناحق ہی اور بغیر کسی منطق و استدلال کے اپنے مفادات طے کر لیتی ہیں۔ بڑی طاقتوں کی یہی روش ہے۔ اب ان مفادات کی حفاظت کے لئے اور علاقے کی حکومتوں کو فرمانبرداری پر مجبور کرنے کے لئے دھونس جماتی ہیں، طاقت کی نمائش کرتی ہیں، آنکھ دکھاتی ہیں۔ آپ کو یاد ہے کہ ماضی کی امریکی حکومتیں کس طرح ناراضگی ظاہر کرتی تھیں۔ اب اس چیز کا انداز بدل گیا ہے۔

کسی بھی ملک کے لئے بدترین صورت حال یہ ہوتی ہے کہ وہاں کے حکام دشمن کی دھمکیوں، تیوریوں اور غراہٹ سے خوفزدہ ہو جائیں۔ اگر عہدیداران ڈر گئے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے دشمن کی جارحیت، دراندازی اور داخلے کے لئے راستہ کھول دیا ہے۔ عقل و منطق سے اور حکمت و تدبر کے ساتھ کام کرنا چاہئے یہ تو مسلمہ ہے مگر شجاعانہ انداز میں انجام دینا چاہئے، ڈر کر، مضطرب ہوکے، دنیا کی بڑی طاقتوں کی دھونس، بداخلاقی، ابروؤ ں پر پڑے بل سے خوفزدہ ہو جانا، ان سے متاثر ہو جانا بدبختی کا آغاز ہے۔ اگر کوئی ڈرنا چاہتا ہے تو ڈرے، لیکن عوام کی نمائندگی میں نہ ڈرے، عوام کی طرف سے نہ ڈرے۔ ملت ایران ثابت قدمی سے ڈٹی ہوئی ہے۔ اگر یہ قوم ثابت قدمی کے ساتھ ڈٹی ہوئی نہ ہوتی تو 1979 سے تاحال تقریبا چالیس سال کی اس مدت میں ہمارے خلاف طرح طرح کی سازشیں رچی گئیں، پیسے خرچ کئے گئے، ہتھیار تیار کئے گئے، دھمکیاں دی گئیں، سیاسی چالیں چلی گئیں، یہ سب کچھ ہوا، اگر اسلامی جمہوریہ ان چیزوں کا لحاظ کرتی، ان سے ڈر جاتی، پسپائی اختیار کر لیتی تو آج ایران اور ایرانی نام کی کوئی چیز باقی نہ ہوتی۔ امریکہ ہو یا اس سے بھی بڑی کوئی طاقت ہو، ایسے نظام کے مد مقابل کچھ بھی کر پانے سے عاجز ہیں جو اپنے عوام سے وابستہ ہے، جو اپنے عوام کو اور اپنی قوم کو چاہتا ہے اور قوم اپنے اس نظام کو پسند کرتی ہے اور دشمن کے سامنے ڈٹی ہوئی ہے۔

یقینا ان طاقتوں کی دشمنی میں کسی شک و شبہے کی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیشہ منصوبے بناتے رہتے ہیں، معاندانہ اقدامات کرتے رہتے ہیں، ان کے مختلف ادارے اپنا کام کرتے رہتے ہیں، چالیس سال کی اس مدت میں یہ دشمنی ہمیشہ موجود رہی ہے۔ کوئی بھی حکومت اقتدار میں رہی ہو یہ دشمنی ہمیشہ جاری رہی۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم کہیں کہ وہ فلاں کو پسند کرتے ہیں، فلاں کو پسند نہیں کرتے، فلاں کا خیال رکھتے ہیں، جی نہیں۔ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے زمانے میں بھی یہی دشمنی تھی۔ امام خمینی کے بعد جب اس حقیر کو ایک عہدہ ملا تو اس کے بعد بھی یہ دشمنی جاری رہی اور آج تک جاری ہے۔ مختلف حکومتیں، الگ الگ مزاج اور الگ الگ رجحان کی حکومتیں آئیں اور چلی گئیں، مگر ان تمام حالات میں دشمنی جاری رہی۔ ان معاندانہ اقدامات کا مقابلہ اگر کسی چیز نے کیا ہے تو وہ ملت ایران کی طاقت ہے، ملت ایران کی استقامت، امریکہ اور اس کے جیسی دیگر طاقتوں، بعض یورپی حکومتوں کی متکبرانہ دھونس اور دھمکیوں سے ملت ایران کا ہرگز متاثر نہ ہونا ہے۔ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہنا چاہئے۔ اگر اس سلسلے کو جاری رکھنا ہے اور ظاہر ہے کہ اس کے لئے یہ جذبہ، یہ توانائی اور یہ موجودہ حالت جاری رہنا ضروری ہے، تو اس سلسلے میں بڑا فریضہ آپ پر ہے جو اسلامی جمہوریہ کی فوج کا حصہ ہیں، اس کا ایک بڑا حصہ ماہرین اقتصادیات سے مربوط ہے، اسی طرح ایک بڑا حصہ تعلیمی و ثقافتی ادارے سے مربوط ہے، اس کا ایک بڑا حصہ ان لوگوں سے مربوط ہے جو علمی امور، تحقیقات اور علمی پیشرفت وغیرہ جیسے میدانوں میں سرگرم عمل ہیں۔ سب کو چاہئے کہ ایک دوسرے کے شانہ سے شانہ ملا کر آگے بڑھیں، ان شاء اللہ خداوند عالم بھی مدد کرے گا، جس طرح آج تک اس نے ہمیشہ مدد فرمائی ہے۔

اللہ کی رحمتیں نازل ہوں ہمارے عزیز شہیدوں پر۔ آج فوج سے تعلق رکھنے والے بعض شہدا کے اہل خانہ بھی یہاں تشریف فرما ہیں۔ ان شہیدوں کو ہم کبھی فراموش نہیں کریں گے، ملت ایران، ایران کے عزیز عوام ان شہیدوں کو ہرگز فراموش نہیں کریں گے، ملت ایران شہیدوں سے خاص عقیدت کے جذبے کے ساتھ اور شہیدوں سے خاص قلبی وابستگی کے ساتھ اپنے راستے پر رواں دواں رہے گی۔

انتخابی سرگرمیوں کا سلسلہ بھی چل پڑا ہے، حالانکہ ہنوز ہم انتخابات کے اصلی مرحلے میں داخل نہیں ہوئے ہیں، مگر انتخابات کے مقدمات کا آغاز ہو گیا ہے۔ الیکشن ملت ایران کا افتخار ہے۔ یہ انتخابات دنیا کی اقوام کی نگاہ میں ملت ایران کے وقار، سربلندی اور سرخروئی کا باعث ہیں۔ دشمنان اسلام اور تمام بدخواہوں کی یہ کوشش تھی کہ دین و اسلام و روحانیت کو جمہوریت کے مد مقابل قرار دیں، مگر اسلامی جمہوریہ نے ثابت کر دیا کہ ہمارے یہاں اسلامی جمہوریت نام کی ایک حقیقت موجود ہے، جمہوریت بھی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اسلامی ماہیت کی جمہوریت ہے۔ دونوں کو ایک دوسرے سے الگ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ انتخابات یہ ثابت کرتے ہیں کہ اسلامی جمہوریت موجود ہے۔ یہ باعث افتخار ہے، باعث سرخروئی ہے، باعث وقار ہے، باعث قوت ہے۔ انتخابات کے وقت عوام کے اندر یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ ملک کے تمام کاموں اور امور کی کنجی ان کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ عوام کو محسوس ہوتا ہے کہ ملک کے اصلی عناصر اور عہدیداروں کی تقرری ان کے ہاتھوں انجام پاتی ہے اور یہ بہت بڑی بات ہے۔

البتہ انتخابات میں ابھی وقت ہے اور اگر زندگی رہی تو دیگر مواقع پر بھی اس سلسلے میں مزید معروضات پیش کروں گا، تاہم آج مجھے یہ عرض کرنا ہے کہ سب انتخابات کی قدر کریں۔ حکومتی عہدیداران بھی اس کی قدر کریں، امیدوار بھی اس کی قدر کریں، عوام بھی اس کی قدر کریں، انتخابات کے انعقاد سے وابستہ اہلکاران بھی اس کی قدر کریں۔ انتخابات کی قدر و منزلت کو سمجھیں، انتخابات کا احترام کریں۔ انتخابات صحتمند، پرامن، صحیح و سالم اور وسیع پیمانے پر ہونا چاہئے۔ دشمنوں کی کوششوں کے باوجود جو ہمیشہ وسوسہ پیدا کرتے رہتے ہیں، افواہیں پھیلاتے رہتے ہیں، جو لوگ غیر ملکی ریڈیو نشریات اور دیگر ذرائع ابلاغ پر نظر رکھتے ہیں، ظاہر ہے اب ریڈیو نشریات تو بہت محدود چیز ہو گئی ذرائع ابلاغ کی اس بے پناہ وسعت کے سامنے، بہرحال ایسے لوگوں کو اندازہ ہے کہ دشمن کس طرح وسوسے پیدا کر رہا ہے کہ کسی طرح انتخابات میں رکاوٹ آ جائے۔ مگر ملت ایران ان شاء اللہ اسی بیداری کے ساتھ، اسی فہم و شعور کے ساتھ ان معاندانہ کوششوں کے مد مقابل ڈٹی رہے گی اور بہت وسیع پیمانے پر جوش و جذبے سے سرشار اور شفاف و پرامن انتخابات منعقد ہوں گے۔ یہ جمہوری عمل ملک کے لئے ایک سرمایہ قرار پائے گا اور اس سے ان شاء اللہ وطن عزیز کو بہت زیادہ تحفظ ملے گا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ایسا ہی ہوگا۔

والسّلام علیکم و رحمة الله و برکاته

 

۱)  اس ملاقات کے آغاز میں اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کے کمانڈر جنرل عطاء اللہ صالحی نے بریفنگ دی۔

۲) نهج ‌البلاغه، مکتوب نمبر ۵۳