بسم ‌اللہ‌ الرّحمن ‌الرّحیم. و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و آلہ الطّاھرین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین.

آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں، بڑی شیریں نشست رہی۔ گوناگوں نکات بیان کئے گئے، علم و دانش اور ٹیکنالوجی کے موضوع کے مختلف حصوں کے تعلق سے۔ برادران و خواہران عزیز کی تقاریر میرے لئے مفید واقع ہوئیں، مجھے ان سے فائدہ حاصل ہوا۔ البتہ یہ جو بحثیں ہیں ان میں بہت سی بحثیں تحقیق طلب ہیں۔ یعنی جو تجاویز دی گئیں اور جو تنقیدیں ہوئیں، متعلقہ اداروں میں ان کا جائزہ لیا جانا چاہئے۔ لیکن بذات خود یہ ذہنی و علمی تحرک، یہ ناقدانہ مزاج اور ایک اعتبار سے جارحانہ انداز جو ملک کی یونیورسٹیوں کے اساتذہ کے اندر ہے اس حقیر کے نزدیک بہت پسندیدہ اور پرکشش ہے۔ میں نے آج کے لئے اپنے جو معروضات تیار کئے ہیں ان میں میں نے یہی کہا بھی ہے، اس جذبے کا مطالبہ کیا ہے۔ آخر میں جو بات ان محترمہ نے (۲) بیان کی، ہمارے دفتر کے افراد اس معاملے کو دیکھیں! یہ جو زیادتی ہوئی، اس زیادتی کے بارے میں تحقیقات ہونی چاہئے۔ دیکھیں کہ معاملہ کیا ہے؟ البتہ میں نے اسی جیسے کچھ اور معاملات کے بارے میں سنا ہے اور وزیر محترم (۳) کو متنبہ بھی کیا ہے۔ اب ضرورت ہے کہ سنجیدگی کے ساتھ اس معاملے کو دیکھا جائے۔

بہنو اور بھائیو! ہم ماہ رمضان کے آخری ایام سے گزر رہے ہیں۔ ایک مہینے کی اس ریاضت سے اور روزہ رکھنے کی وجہ سے اور دعا و عبادت کی وجہ سے فطری طور پر آپ کے اندر جو لطافت و نرمی پیدا ہوئی ہے، اس سے بھرپور استفادہ کیجئے۔ پروردگار سے محکم رابطہ مددگار واقع ہوتا ہے، مشکل کشائی کرتا ہے۔ جو باتیں یہاں ذکر کی گئیں وہ ہماری مشکلات، ہمارے ملک کی مشکلات، ہمارے انقلاب کی مشکلات اور ہمارے اسلامی نظام کی مشکلات کا چھوٹا سا حصہ ہے۔ مختلف میدانوں میں بہت سی مشکلات موجود ہیں۔ جنھیں ہماری اور آپ کی ہمت و لگن سے اور سعی و کوشش سے دور کیا جانا ہے۔ اللہ تعالی سے ہمارا رابطہ ہمیں قوت عطا کرتا ہے، ہمیں امید عطا کرتا ہے، ہمیں قلبی آسودگی عطا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی یہ ساری دنیاوی بحثیں روحانی ارتقا و رفعت اور عروج کا مقدمہ ہیں۔ ماہ رمضان کی قدر کرنا چاہئے۔ یہ جو دعا ہے؛ «اَللّهُمَّ اِن لَم تَکُن رَضیتَ عَنّی فی ما مَضیٰ مِن شَهرِ رَمَضان فَمِنَ الانَ فَاَرضَ عَنّی»(۴) یہ بہت اہم دعا ہے۔ اگر اب تک ہم رضائے پروردگار اور خوشنودی پروردگار حاصل نہیں کر سکے ہیں تو ہمیں اللہ سے دعا کرنا چاہئے کہ اسی لمحہ رضایت خداوند ہمارے شامل حال ہو جائے، یا ہم مشمول مغفرت الہی ہو جائیں۔

آپ نوجوانوں کی تربیت کا فریضہ ادا کرتے ہیں۔ آپ اپنی علمی و فکری سرپرستی کے دائرے میں طلبہ پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔ اگر آپ اہل توجہ، اہل تضرع ہیں، اگر اللہ سے قلبی رابطہ رکھنے والے ہوں گے تو آپ کی تدریس کے زیر سایہ اور علمی سرپرستی کے سائے میں موجود طلبہ بھی فطری طور پر اسی سمت میں جائیں گے۔ یونیورسٹی کی فضا کی ایک مشکل یہی ہے۔ اگر اساتذہ ملک کی ضرورت والے شعبوں میں پیشرفت کریں گے تو طلبہ کے اس گروپ پر جو ان کی نگرانی میں ہے گہرا اثر پڑے گا۔

اپنی گفتگو کے آغاز میں ہی میں اس نکتے کا بھی ذکر کر دوں؛ عالمی یوم قدس کا موقع نزدیک ہے۔ یوم قدس بہت اہم ہے۔ یہ صرف اتنی سی بات نہیں ہے کہ ہم ایک ایسی مظلوم قوم کی حمایت کر رہے ہیں جسے اس کے گھربار سے بے دخل کر دیا گیا ہے، اپنے اس عمل سے ہم در حقیقت ایک ظالمانہ سیاسی نظام کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں۔ آج فلسطین کا دفاع حقیقت کا دفاع ہے، یہ فلسطین سے کہیں زیادہ وسیع تر معاملہ ہے۔ آج صیہونی حکومت سے پیکار در حقیقت استکبار سے مقابلہ آرائی ہے، توسیع پسندانہ نظام سے پیکار ہے۔ چنانچہ آپ دیکھئے کہ اگر آپ نے صیہونی حکومت کے خلاف بیان دے دیا تو کوئی امریکی عہدیدار یا سیاست داں فورا آپ کا دشمن بن جاتا ہے۔ اسے محسوس ہوتا ہے کہ گویا آپ نے اسی پر وار کر دیا ہے۔ امر واقع بھی یہی ہے۔ یوم قدس بنحو احسن منایا جانا چاہئے۔ یوم قدس کے جلوس بہت اہم ہیں۔

آج بنیادی طور پر مجھے جو بات عرض کرنی ہے، ویسے وقت زیادہ نہیں ہے، تاہم جہاں تک ممکن ہوگا اور ہمت ساتھ دیگی میں بیان کروں گا، وہ استاد کی ذمہ داری اور فریضے پر توجہ ہے۔ یہ ہماری گزارش کا نچوڑ ہے۔ اس لئے کہ یونیورسٹی کے اندر استاد کا کردار منفرد انداز کا ہوتا ہے۔ آپ یہ نہ سوچئے کہ ان نوجوانوں میں ہر کوئی ایک الگ بات کرتا ہے، ایک خاص فکر کا حامل ہے! نہیں، نوجوان کی روح پر، نوجوان کے دل پر، نوجوان کی فکر پر اپنی خاص تاثیر کی وجہ سے آپ اسے تدبر کرنے اور متحرک ہو جانے کی ترغیب دلا سکتے ہیں۔ آپ اپنا گہرا اثر ڈال سکتے ہیں۔ یونیورسٹی کے استاد اور نوجوان طلبہ کے استاد کا کردار کم نظیر اور بے بدل ہوتا ہے۔ اگر استاد کے اندر احساس ذمہ داری ہے، فرض شناسی ہے، مثبت طرز فکر ہے، جذبہ امید ہے، ملک میں کچھ کر دکھانے کا پختہ عزم ہے تو اس کا یقینی طور پر طلبہ پر اثر ہوگا۔ اگر استاد وطن  پرستی کی حقیقت، اپنی سرزمین کی حقیقت پر ایمان رکھتا ہے، اگر دینی اصولوں پر عقیدہ رکھتا ہے، انقلاب کے اصولوں کا پابند ہے، تو طالب علم پر اس کا اثر ضرور مرتب ہوگا۔ اس کے برعکس بھی ہوتا ہے۔ یعنی اگر اسی استاد کی نگاہیں ملک سے باہر مرکوز ہیں، اسے وطن کے قلمرو سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، ملک کے رائج اقدار و مفاہیم سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، اپنی قومی شناخت کے معتبر مفاہیم سے کوئی لگاؤ نہیں ہے، ان سے بیگانہ ہے، تو ظاہر ہے کہ وہ اسی مزاج کے طلبہ کی تربیت کرے گا۔ ایک زمانے میں ہم اس کا مشاہدہ کر چکے ہیں۔ البتہ اس وقت میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا۔ پہلوی دور کے اوائل میں ایک بڑا ہی تلخ دورانیہ ہم نے اس ملک میں دیکھا کہ کیسے اساتذہ اور کیسے طلبہ تیار کئے گئے، کیسی نسل تیار ہوئی؟! دینی ماہیت، ملی ماہیت، وطن پرستی کی ماہیت، اس طرح کی تمام ماہیتوں سے بیگانہ نسل پیدا ہوئی۔ اگر انقلاب نہ آیا ہوتا تو خدا ہی جانتا ہے کہ یہ نسل اقتدار میں پہنچ کر اس ملک کی کیا درگت کرتی؟!

انقلاب نے اس زاوئے سے ملک کو واقعی نجات دلا دی۔ جو نسل ان یونیورسٹیوں میں اور اس ماحول میں پروان چڑھی تھی، تربیت کے مراحل سے گزری تھی، اگر وہی لوگ اقتدار میں پہنچتے تو خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ اس ملک کی وہ کیا حالت کرتے؟! تو ہمارا موقف یہ ہے۔ ہم استاد کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں۔

عزیز بھائیو اور بہنو! دیکھئے یونیورسٹی، یعنی جو مغربی طرز کی یونیورسٹی ہے، یہی جو آج ہمارے پاس ہے، البتہ ہمیں اپنے ماضی کی صورت حال کی بہ قدر کافی اطلاعات نہیں ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ جن یونیورسٹیوں نے، درسگاہوں نے یا دیگر اداروں نے خواجہ نصیر الدین طوسی، ابن سینا، خوارزمی، خیام، میر داماد اور شیخ بہائی جیسی ہستیوں کو علم و تربیت سے آراستہ کیا وہ کیسی تھیں؟ ہمارے پاس گزشتہ صدیوں کی یونیورسٹیوں یا تعلیمی مراکز کے بارے میں مکمل اطلاعات نہیں ہیں۔ ہماری کوتاہیوں میں سے ایک یہ بھی ہے۔ تاہم یہی یونیورسٹی جو مغرب کے ذریعے ایجاد کی گئي اور دنیا کے تمام ممالک منجملہ ہمارے ملک کو بھی دی گئی۔ ظاہر ہے یہ یونیورسٹی ہی ہے۔

موجودہ شکل کی یونیورسٹیوں میں تین اہم پہلو پائے جاتے ہیں۔ ایک پہلو یہ ہے کہ یہ علم و دانش کا مرکز ہے، ایک پہلو یہ ہے کہ یہ نئی ایجادات اور مسائل کو نئے انداز سے پرکھنے کا مرکز ہے۔ اس لئے کہ یہاں نوجوان اکٹھا ہوتے ہیں، مسائل کو نئے انداز سے دیکھتے ہیں۔ یہاں جدت پسندی ہوتی ہے، نئے نظریات پیدا ہوتے ہیں۔ یونیورسٹی ان چیزوں کا مرکز ہے۔ اس کا ایک اور پہلو ملکی ماحول اور معاشرے کے ماحول پر اس کا اثرانداز ہونا ہے۔ ملکوں کے اندر مختلف حلقوں پر گہرا اثر چھوڑنے والے مراکز میں یونیورسٹی کا شمار ہوتا ہے۔ تمام سماجوں میں ایسا ہوتا ہے، صرف ہمارے ملک کی بات نہیں ہے کہ یونیورسٹی اثر انداز ہوتی ہے۔ یہ اثرات یا تو علمی و ثقافتی کاموں، تحریروں وغیرہ سے مرتب ہوتے ہیں یا پھر سیاسی سرگرمیوں کے نتیجے میں مرتب ہوتے ہیں، یا پھر مجاہدانہ فعالیت کے ذریعے مرتب ہوتے ہیں۔ اثرانداز ہونے کی کئی قسمیں ہیں۔ تو یونیورسٹی کے یہ تین پہلو ہیں۔

جس دن سے ہمارے ملک میں یونیورسٹی قائم ہوئی ہے، توسیع پسند عناصر نے جو ملکی سیاست پر پنجہ گاڑے ہوئے تھے، ملک کے تمام امور اور تمام شعبوں پر مسلط تھے، ساری اطلاعات رکھتے تھے، اثر و نفوذ بھی رکھتے تھے اور جو چاہتے تھے کرتے تھے، یونیورسٹی کے تین پہلوؤں میں سے پہلے پہلو کے بارے میں یہ کوشش کی کہ علمی میدان میں ہم ایرانی استعداد و صلاحیت کے مطابق ایک فطری رفتار تک نہ پہنچ پائیں، اس ہدف تک نہ پہنچ سکیں۔ اس کے شواہد موجود ہیں۔ یہ ایسی باتیں ہیں کہ جن کے دستاویزات موجود ہیں، گواہ موجود ہیں۔ میں بعد میں اختصار سے اس بارے میں بھی کچھ عرض کروں گا۔ دوسرے پہلو کو جو جدت پسندی، نئی فکر اور نیا نظریہ پیدا کرنے سے عبارت ہے، انھوں نے مکمل طور پر اپنی گرفت میں لے لیا۔ یعنی اس شعبے پر وہ پوری طرح مسلط ہو گئے۔ تیسرے پہلو کے تعلق سے انھوں نے یہ کوشش کی کہ باہر کے ماحول پر یونیورسٹی کی تاثیر کو پوری طرح کنٹرول کریں۔ اس کو کئی طریقوں سے کنٹرول کیا۔ کبھی تو ان ثقافتی اداروں کی مدد لی جو ان کے اپنے ادارے تھے، کبھی سیکورٹی اداروں کو بھی استعمال کیا۔ یعنی در حقیقت نامحسوس طور پر اور کبھی کبھی واضح طور پر ہماری یونیورسٹی پر دائمی کنٹرول رہتا تھا، ان تینوں پہلوؤں کے اعتبار سے جو میں نے ذکر کئے۔

پہلا پہلو کہ جس کے بارے میں ہم نے کہا کہ علمی پہلو ہے اور جسے کمزور کرنے کی کوشش کی گئی، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری یونیورسٹیوں کو جو علمی سرمایہ دیا گيا وہ دوسرے درجے کا سرمایہ تھا، پرانا علم تھا، جس کی افادیت ختم ہو چکی تھی۔ اہم علمی پیشرفت کو انھوں نے ہرگز یہاں تک پہنچنے نہیں دیا۔ ہمیں تو اپنے ملک کی خبر ہے۔ لیکن ہمارے ملک جیسے دیگر ممالک کے ساتھ بھی جو سامراج کے زیر اثر تھے، یہی برتاؤ کیا گیا ہوگا۔ مثال کے طور پر جدید علوم، جدید دانش، جدید تحقیقات جو ان کو حاصل ہوتی تھیں انھیں وہ ہرگز ہمارے وطن عزیز جیسے ملکوں کو منتقل نہیں کرتے تھے، وہ چیز منتقل کی جاتی تھی جو وہاں پرانی ہو چکی ہوتی تھی۔ البتہ اس کی بھی کچھ وجوہات تھیں۔ یعنی انھوں نے ہمارے ملک کو اور دیگر ممالک کو پرانی تحقیق اور پرانی ٹیکنالوجی کیوں منتقل کی، اس کی بھی وجہ ہے۔ جب مغربی استعمار کے رقیب پیدا ہو گئے اور ان رقیبوں سے تعلق رکھنے والے ملکوں میں رقابت کے آثار نظر آنے لگے، جیسے کمیونسٹ حکومت اس زمانے کے سامراجی نظام کی رقیب تھی، یعنی امریکہ، برطانیہ وغیرہ سے اس کی رقابت تھی، جب کمیونسٹ نظام تشکیل پا گیا تو اس نے اپنے اثر و نفوذ کا دائرہ بڑھانے کے لئے ہندوستان جیسے ملک کو اور وہاں کی یونیورسٹیوں کو ایسے علوم اور ٹیکنالوجیوں سے نوازا جسے مکمل صورت میں مغربی ممالک ہرگز نہیں دینا چاہتے تھے۔ اس سے زیادہ واضح مثال چین کی ہے جسے ایسے علوم اور ایسی ٹیکنالوجی دے دی گئی جو مغربی ممالک سے اسے ہرگز نہیں مل سکتی تھی۔ اس لئے کہ سیاسی رقابت تھی، اثر و نفوذ بڑھانے کے لئے مقابلہ آرائی تھی۔ چینیوں نے روسیوں سے ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کی، ہندوستانیوں نے بھی جوہری ٹیکنالوجی روس سے، سابق سوویت یونین سے لی۔ یہ ایسی ٹیکنالوجی نہیں تھی جسے مغرب کے تعلیمی و سائنسی مراکز چین جیسے ملک کو، ہندوستان جیسے ملک کو دیتے، ایران کی تو خیر بات ہی الگ ہے۔ بنابریں علمی اعتبار سے ایسا ماحول نہیں تھا کہ ہمارے جیسے ممالک میں، جو سامراج کے زیر تسلط تھے، یونیورسٹیوں کی مدد کی جاتی، انھیں سہولت فراہم کی جاتی یا انھیں اجازت دی جاتی کہ وہ علمی پیشرفت حاصل کریں، بلکہ ان پر وار کر دیا جاتا تھا۔ یعنی اگر ان ملکوں کی یونیورسٹیوں میں کوئی غیر معمولی صلاحیت نظر آتی تو اسے اپنے یہاں لے جاتے تھے اور اپنے لئے استعمال کرتے تھے۔ یہ صورت حال تھی، یہ سلسلہ پہلوی دور میں برسوں سے چلا آ رہا تھا۔

دوسرا پہلو جو میں نے عرض کیا، نئی ایجادات و اختراعات کا تو اس پر پوری طرح انھوں نے قبضہ کر لیا۔ یعنی یونیورسٹی معاشرے میں مغربی اقدار کی منتقلی کا پل بن گئی۔ مختلف میدانوں میں مغربی اقدار کا آئینہ، مغربی اقدار کی پابند۔ یعنی اس پر باقاعدہ کام کیا گيا، اس شعبے کو پوری طرح قبضے میں کر لیا گيا تھا۔

تیسرا پہلو جس کے بارے میں میں نے عرض کیا کہ اسے انھوں نے کنٹرول کیا، اپنے طور پر مینیج کرنے کی کوشش کی، کہیں زبان سے، کہیں پیسہ خرچ  کرکے، کہیں رشوت دیکر، کبھی عہدہ دیکر اور کبھی دھونس اور دھمکی سے۔ ایران کی خفیہ ایجنسی ساواک کو امریکی اور اسرائیلی فورسز نے اس لئے بنایا کہ معترض طلبہ کو اعتراض بند کرنے پر مجبور کر دے اور اس نے ایسا ہی کیا۔ ساواک نے یہ کام کیا۔ تو یونیورسٹی کی یہ حالت تھی، ہمارے ملک میں یونیورسٹی نے اس طرح کام کیا۔

اس سب کے باوجود بھی یونیورسٹی ان اہم ترین مراکز میں تھی جنھوں نے اسلامی تحریک اور امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی تحریک کی آواز پر لبیک کہا۔ کوئی بھی پائیدار یونیورسٹی نظام اس کی اجازت نہیں دیتا، یہ تقاضا نہیں کرتا لیکن آپ نے دیکھا کہ اس سب کے بعد بھی یونیورسٹیاں شامل ہو گئیں۔ آپ میں سے اکثر نے وہ زمانہ نہیں دیکھا ہے۔ آپ نوجوان طلبہ و طالبات جو یہاں تشریف فرما ہیں امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی آواز پر یونیورسٹی کے لبیک کہنے کی اہمیت کو نہیں محسوس کر سکتے۔ مگر ہم جیسے افراد کے لئے جو اس وقت کے حالات سے گزر چکے ہیں، اس کی اہمیت پوری طرح واضح ہے۔ یہ صدائے لبیک ایسے حالات میں بلند ہوئی کہ یونیورسٹیوں میں مارکسی نظریات کی ترویج کی جا رہی تھی۔ یہ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ اس وقت مارکسی نظریات یونیورسٹیوں میں با قاعدہ پھیلائے جا رہے تھے۔ یعنی ایسا نہیں تھا کہ یہ نظریات خود بخود پھیل رہے ہوں۔ نہیں، اس کی ترویج میں مدد کی جاتی تھی، یونیورسٹی میں اسلامی افکار کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ جہاں ایک طرف کسی بھی شخص کے ہاتھ میں اسلامی مضمون کا کوئی کتابچہ نظر آنے پر اعتراض کیا جاتا تھا، وہیں دوسری طرف مارکسی مضمون کی تحریریں بڑی آسانی سے تیار کی جاتی تھیں، فروخت ہوتی تھیں، طلبہ کے ہاتھوں میں نظر آتی تھیں۔ اس کا کوئی نوٹس ہی نہیں لیتا تھا۔ لفٹسٹ نظریات کے استاد آتے تھے اور بڑے سکون سے اپنے نظریات بیان کر جاتے تھے۔ یعنی یونیورسٹی میں اسلامی طرز فکر کو مارکسی نظریات کی شکل میں یونیورسٹی کے اندر زبردست حریف کا سامنا تھا جس کا دباؤ زیادہ تھا۔ ایک طرف یہ لفٹسٹ نظریات تھے اور دوسری جانب بے راہروی کی ترویج کرنے والا پروپیگنڈا، نوجوانوں کو اخلاقی کرپشن کی ترغیب۔ یونیورسٹیوں میں ان چیزوں کی ترویج ہوتی تھی جو نوجوانوں کو استقامت، جدوجہد اور اسلام کی راہ سے دور کرتی تھی جس کے داعی امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) تھے۔ ان دو مخالف اور متصادم رجحانات کے باوجود یونیورسٹی نے اسلامی تحریک پر صدائے لبیک بلند کی، اس سے وابستہ اور اس کے لئے کوشاں ہو گئی۔ تحریک کے دوران بھی اور تحریک کو کامیابی مل جانے کے بعد بھی۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد اگر طلبہ نہ ہوتے تو تعمیراتی جہاد کو رو بہ عمل لانا اور پاسداران انقلاب فورس کی تشکیل ممکن نہیں تھی۔ پاسداران انقلاب فورس بنیادی طور پر طلبہ پر استوار تھی، تعمیراتی جہاد کی تحریک میں بھی بنیادی طور پر یونیورسٹی کے طلبہ ہی تھے، جو آئے اور وارد عمل ہوئے۔ یہ اس استعداد و آمادگی کی علامت ہے جو یونیورسٹیوں کے اندر موجود ہے۔ البتہ اس بارے میں عمرانیات وغیرہ کے زاویہ نگاہ سے بحث کی گنجائش ہے کہ اس کی وجہ کیا تھا؟ جو لوگ اس شعبے کے ماہر ہیں وہ بحث کریں! اس بارے میں میرا اپنا ایک نظریہ ہے لیکن اس وقت میں اس بحث کو نہیں چھیڑوں گا۔ تاہم حقیقت یہی ہے کہ یونیورسٹی کے اندر اور طلبہ کے اندر اسلام اور انقلاب کی جانب خاص رجحان و میلان تھا۔

یہ بڑی اہم صورت حال ہے۔ البتہ انقلاب نے بھی یونیورسٹی کی بڑی مدد کی۔ انقلاب نے حقیقت میں یونیورسٹی کو نجات دلا دی، ان گوناگوں انحرافی رجحانات سے یونیورسٹی کو نجات دلائی۔ یونیورسٹی کو متحرک کر دیا۔ یونیورسٹی کو علم کی اہمیت سے روشناس کرایا، جدید علمی افکار سے روشناس کرایا۔ آج آپ دیکھئے کہ ہمارے طلبہ اور اساتذہ کی حالت ماضی کی نسبت، انقلاب سے قبل کے دور کی نسبت کتنی بدل چکی ہے؟! آج یونیورسٹی علمی جدت کا مرکز ہے، علمی اختراعات کا مرکز ہے۔ البتہ کچھ احباب نے ابھی یہاں کچھ بحثیں چھیڑیں، ان کے بارے میں میں نے عرض کیا کہ تحقیق کرنے اور جائزہ لینے کی ضرورت ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج یونیورسٹی کا رخ، علمی جدت کا رخ اوراس کی پیشرفت باقاعدہ محسوس کی جا سکتی ہے۔ یہی جو آپ کہتے ہیں کہ ہم فلاں ادارے کے جائزے کے مطابق علمی میدان میں دنیا میں پندرہویں نمبر پر ہیں یا سترہویں نمبر پر ہیں، اتنی پیشرفت حاصل کر چکے ہیں، اس کا تو یہی مطلب ہے۔ یونیورسٹی کے اندر علمی تحرک کی یہ مہم خود اعتمادی کا باعث بنی۔ اس دور میں ظاہر ہے طلبہ نے موثر کردار ادا کیا۔ بعض اساتذہ نے بھی کردار ادا کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ تمام اساتذہ کو نہیں کہہ سکتا لیکن بعض اساتذہ نے واقعی اہم کردار ادا کیا طلبہ کو صحیح سمت دکھانے میں۔ آج وہی فعال اور محنتی طلبہ یعنی آپ حضرات جو یونیورسٹیوں میں اور دیگر اداروں میں ہیں، یونیورسٹی کے اساتذہ بن چکے ہیں اور موثر کردار ادا کر سکتے ہیں، یونیورسٹی کے مستقبل کی تعمیر کے لئے کام کر سکتے ہیں۔ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اساتذہ یونیورسٹیوں کے اندر ایک طرف تو علمی بالیدگی کے لئے کام کریں اور دوسری طرف یونیورسٹی کے اندر انقلاب اور اسلام کے اقدار کی پاسبانی کریں، تعارف کروائیں، یعنی کردار ادا کریں۔ آپ یونیورسٹیوں کے محترم اساتذہ کردار ادا کریں۔ مخالف عزائم موجود ہیں اس لئے آپ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔

دو طرح سے کام کیا جا سکتا ہے۔ ایک شاگرد پروری اور عالم پروری ہے، یعنی طالب علم پر کام کرنا اور دوسرے یونیورسٹی کے باہر کردار ادا کرنا۔ ہم یونیورسٹیوں کے اساتذہ سے دو طرح کے کاموں کی توقع رکھتے ہیں۔

جہاں تک شاگردوں کی پرورش اور شاگرد پروری کی بات ہے تو یہ عمل کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔ آپ افرادی قوت تیار کر رہے ہیں مسائل سے بھرے مستقبل کے لئے، ہمارے آنے والے وقت کے لئے، یعنی ہمارے آئندہ کے عشروں کے لئے جو بڑے مسائل والے عشرے ہوں گے، گوناگوں مسائل در پیش ہوں گے۔ آپ دنیا کی تبدیلیوں کو دیکھ ہی رہے ہیں، تبدیلیاں بڑی تیز رفتار اور فیصلہ کن ہوتی ہیں۔ مستقبل کی یہ تبدیلیاں یا تو اس بات کا باعث بنیں گی کہ ملت ایران پر تاریخی طور پر جو اغیار پر انحصار مسلط کر دیا گيا ہے، اغیار کی محتاجی مسلط کر دی گئی ہے وہ ٹوٹ جائے گی اور ہم اس حصار سے باہر نکل آئیں گے اور اپنا مقام حاصل کر لیں گے، اپنی شان و منزلت کو حاصل کر لیں گے، دنیا میں اپنی بات پیش کریں گے، سامنے رکھیں گے، ہمارے پاس کہنے کے لئے کچھ ہے، اسلامی نظام کو کچھ کہنا ہے، بیان کرنے کے لئے نئی باتیں ہیں۔ آنے والے عشروں میں ہماری افرادی قوت، وہی افرادی قوت جس کی آج آپ تربیت کر رہے ہیں، اپنی بلند ہمتی سے، اپنے عزم سے، اپنی علمی صلاحیت سے، حاصل کردہ علوم سے، اس کے اندر پروان چڑھائے گئے جذبات سے، اغیار کی محتاجی کے اس حصار کو توڑ دے گی، ختم کر دیگی، حقیقی معنی میں متحرک ہوگی اور ایران و ایرانی تشخص کو اس کا شایان شان مقام ملے گا، یا تو یہ ہوگا اور یا پھر خدانخواستہ ذلت و تحقیر کے ایک اور طویل دور میں داخل ہو جائے گی۔ اگر ہماری افرادی قوت کے اندر یہ خصوصیات نہ رہیں، اگر ہماری افرادی قوت غلامانہ ذہنیت کی ہوئی، غلامانہ انداز میں عمل کرنے لگی، اغیار پر انحصار اسے اچھا لگنے لگا، اس نے خود مختاری کی قدر نہ کی، اسلام اور اسلامی اقدار کی قدر نہ کی، اپنی صلاحیتوں پر اعتماد نہ کیا، اگر یہ سب ہوا تو ہم ایک اور طویل تاریک سرنگ میں داخل ہو جائیں گے۔ بالکل اس دور کی مانند جو آئینی انقلاب کے کچھ عرصہ بعد سے لیکر پہلوی دور کے اختتام تک ہم نے گزارا۔ ہم نے بڑی محنت و مشقت سے خود کو اس دور سے کسی طرح نجات دلائی۔ ہم ایک بار پھر اسی تلخ تجربے سے گزریں گے۔ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ آج طلبہ کی کس طرح پرورش کرتے ہیں۔ اس لئے میری نظر میں  طلبہ کی پرورش بہت اہم ذمہ داری ہے۔

آپ نوجوان کو اول الذکر صورت حال کے لئے آمادہ کیجئے، تاکہ جس نوجوان کی آپ تربیت کر رہے ہیں وہ مستقبل کے مسائل اور دنیا کے اہم تغیرات و واقعات سے روبرو ہونے کی صورت میں، یعنی صرف وطن عزیز کے اندر یا مغربی ایشیا کے خطے میں رونما ہونے والے مسائل نہیں، حالانکہ عالمی مسائل کا اثر اس علاقے پر بھی پڑتا ہے اور ان واقعات کا ایک اہم مرکز یہی علاقہ ہے، تاہم جن تغیرات و واقعات کی بات میں کر رہا ہوں وہ عالمی تغیرات ہیں، علمی عملی، سیاسی میدانوں کے تغیرات، طاقت کی تقسیم کے مسائل وغیرہ، بڑے عجیب تغیرات ہوں گے، تو ان تغیرات و مسائل کے سامنے وہ نوجوان ایک ثابت قدم، پرعزم، با ارادہ، با ایمان، خود اعتمادی سے سرشار، راہ حل سے آگاہ، با شعور، عمیق نظر کا حامل، انقلابی اور دیندار انسان کی حیثیت سے کھڑا ہو، تاکہ اس وقت ملک کو اس راستے پر لے جائے جو اس ملک کے شایان شان ہے۔

جس نوجوان کی آپ تربیت کر رہے ہیں اور جس پر آپ کے اثرات مرتب ہو رہے ہیں اس کے اندر ایک خصوصیت یہ ہھی ہونی چاہئے کہ قومی تشخص پر ایقان رکھنے والا اور اس پر فخر کرنے والا ہو۔ میں نے اس روز (5) یہاں اعلی حکام کے اجلاس میں قومی تشخص کے بارے میں گفتگو کی، میں نے عرض کیا کہ قومی مفادات ملی تشخص کے دائرے کے اندر ہی مفہوم و معنی حاصل کرتے ہیں۔ جو چیز بظاہر منفعت نظر آئے لیکن بباطن ملی تشخص کیلئے سازگار نہ ہو یا اس سے متصادم ہو وہ قومی مفادات کے زمرے میں نہیں آ سکتی وہ قومی نقصانات کے زمرے میں آئے گی۔ نوجوان کو اس قومی تشخص سے آگاہ کرنا چاہئے کہ وہ اس تشخص  پر فخر محسوس کرے۔ اسی طرح خود مختاری ہے، البتہ ہمارے آج کے نوجوان خود مختاری کی قدر نہیں جانتے، کیونکہ نوجوان طالب علم اپنی عمر کے آغاز سے ایسی سرزمین پر زندگی بسر کر رہا ہے جو بیرونی طاقتوں پر کوئی سیاسی انحصار نہیں رکھتی، اس نے شروع سے دیکھا کہ ان بیرونی طاقتوں کے مد مقابل اسلامی جمہوریہ بے باکی سے کھڑی ہے جن کے سامنے دوسرے ممالک 'چوں' کرنے کی تاب نہیں رکھتے، تو یہ سیاسی خود مختاری ہی ہے، اس نوجوان نے روز اول سے یہی دیکھا ہے، اس لئے اسے اس کی قدر و قیمت کا صحیح اندازہ نہیں ہے۔ اس نوجوان نے وہ دور نہیں دیکھا ہے کہ امریکہ جو بھی کہتا تھا اور اس سے قبل برطانیہ کی جو مرضی ہوتی تھی وہی اس ملک میں انجام پاتا تھا۔ اس دور کو اس نے نہیں دیکھا ہے۔ اس لئے اسے خود مختاری کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہے۔ ان نوجوانوں کو اس سے آگاہ کیا جانا چاہئے۔ طلبہ کے سلسلے میں یہ اساتذہ کی ایک ذمہ داری ہے۔

دوسرا اہم رول ملکی مسائل کے تعلق سے ہے۔ یہی جو ابھی چند برادران عزیز نے یہاں بیان کیا اور میں پوری طرح اس سے اتفاق کرتا ہوں۔ ایک برادر عزیز نے کہا کہ ہم نے طاقت، خطرات، سلامتی وغیرہ جیسے مفاہیم کی معاشرے کے اندر ترویج نہیں کی ہے۔ البتہ ان مفاہیم کے لئے یہ اہم نہیں ہے کہ معاشرے میں ان کی ترویج کی جائے، اہمیت اس بات کی ہے کہ ان مفاہیم کو بنیادی فیصلے کرنے والے اداروں کے اندر عام کیا جائے، یعنی یہ مفاہیم فیصلوں میں موثر ہوں۔ جی ہاں، میں بھی اسے مانتا ہوں کہ یہ کام انجام نہیں پا سکا ہے، اسے انجام دیا جانا چاہئے۔ ہمارے دوسرے بھائی نے منظور کئے جانے والے بل اور قرارداد کی بات کی، ہمارے ایک بھائي نے پچاس سال سے جاری غلط صنعتی سسٹم کی بات کی، یہ بڑی بنیادی باتیں ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ یہ بحث طلب نکات ہیں، ان پر بحث ہونا چاہئے، ان پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ البتہ یہ ایسی باتیں، افکار اور نظریات ہیں جو فیصلہ کرنے والے مراکز ہیں ان تک پہنچیں، ان مراکز کو ان سے آگاہ کیا جائے اور وہ ان سے استفادہ کریں! میں جو تاکید کرتا ہوں کہ ہر سال ماہ رمضان میں یہ نشست ضرور منعقد ہو اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ آئیں اور تقریر کریں، البتہ میرا دل تو چاہتا تھا کہ یہ نشست سال میں بارہ دفعہ منعقد ہو لیکن افسوس کہ ہم ایسا نہیں کر سکتے، تو تاکید اس لئے کہ یہ باتیں بیان ہوں، حکام سنیں، فیصلے کرنے والے مراکز سنیں اور آپ کی ان باتوں کا اثر ہو۔

مثال کے طور پر ملک کے اقتصادی مسائل ہیں؛ ہم اقتصادی مسائل کے بارے میں کتنی باتیں کرتے ہیں؟! سب اس کی حمایت بھی کرتے ہیں، ہم نے استقامتی معیشت کا موضوع اٹھایا، اوپر سے نیچے تک سب نے اس کی تائید کی، اس کے لئے اجلاس ہوئے، کمیٹیاں اور کمیشن بنے، لیکن جس طرح کام آگے بڑھنا چاہئے تھا، نہیں بڑھ سکا۔ مشکل کہاں ہے؟ کوئی علمی گرہ ہے، اس علمی گرہ کو کون کھولے گا؟ یہ گرہ یونیورسٹی میں موجود آپ لوگوں کو کھولنی ہے۔

یا روزگار کا مسئلہ ہے۔ ہم نے اس سال روزگار کا موضوع اٹھایا، اس پر بحث کی، قومی پیداوار اور روزگار۔ روزگار یا قومی پیداوار ایک فکر ہے۔ ہر شخص یہ کام انجام دینا چاہتا ہے، کوششیں کرتے ہیں۔ میں نے آغاز سال کی تقریر میں کہا (6)، یعنی حکومت نے جو کام انجام دئے تھے رائے عام کو اس سے میں نے مطلع کر دیا۔ چھوٹے یا اوسط درجے کے کارخانوں کے لئے سترہ ہزار ارب تومان خرچ کئے گئے تاکہ ان یونٹوں کی مدد ہو بلکہ وہ دوبارہ چل پڑیں۔ لیکن اس کا مناسب نتیجہ حاصل نہیں ہوا۔ مشکل کہاں ہے؟ ایسا ہی کام گزشتہ حکومت کے زمانے میں بھی ہوا تھا۔ بالکل یہی کام آٹھویں حکومت کے دور میں بھی انجام پایا۔ لیکن نتیجہ نہیں مل پا رہا ہے۔ کیوں نہیں مل پا رہا ہے؟ ظاہر ہے اس کی کوئی علمی وجہ ہے۔ یقینا اس عمل میں کہیں نہ کہیں کوئی خرابی ہے، کوئی گرہ ہے، کوئی علمی گتھی ہے۔ اسے کہاں کھولا جائے گا؟ یونیورسٹی میں۔ اگر بڑے پیمانے پر نقدی عوام کے ہاتھوں میں ہے جس کی رپورٹیں دی جاتی ہیں تو اسے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لئے استعمال کیا جانا چاہئے۔ آپ دیکھئے کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے۔ یہ نقدی اس شعبے میں کیوں صرف نہیں ہو رہی ہے؟ ابھی یہاں بینکوں کی مشکل کا ذکر ہوا، ٹھیک ہے بینکنگ سسٹم کی خامیوں کو فیصلہ ساز مراکز میں زیر غور لایا جانا چاہئے۔

یا آرٹیکل 44 کا معاملہ ہے جو نجی سیکٹر کو تقویت پہنچانے اور نجی سیکٹر اور اس کے سرمائے کو ملکی معیشت میں شامل کرنے سے متعلق ہے۔ ہم نے کئی سال قبل یہ موضوع اٹھایا۔ سب نے خوب داد و تحسین کا شور مچایا۔ کچھ کام بھی انجام دئے گئے، لیکن ہم اس پر عملدرآمد نہیں دیکھ پا رہے ہیں۔ مجھے اس میدان میں کوئی پیشرفت محسوس نہیں ہو رہی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ چاہتے ہی نہیں، چاہتے ہیں، کوشش بھی کرتے ہیں، لیکن کام آگے نہیں بڑھ  پاتا۔ اس میں علمی اعتبار سے کوئی خامی ہے۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں۔ یونیورسٹی یہ رول ادا کر سکتی ہے کہ ان معاملات کی علمی گرہیں کھولے، ان کی شناخت کرکے انھیں حل کرے اور ملکی اداروں کو اپنے نظرئے سے آگاہ کرے۔

یا سماجی برائیوں کی بحث ہے، سماجی انصاف کی بحث ہے۔ ہم سماجی انصاف کے بارے میں کتنا زبانی جمع خرچ کرتے ہیں، سماجی مساوات کے بارے میں کتنی تقریریں کرتے ہیں؟! یہ بالکل مسلمہ اور بدیہی چیزیں ہیں۔ لیکن اس پر عملدرآمد کہاں ہے؟ کیا سماجی انصاف رو بہ عمل آ سکا ہے؟ Gini ratio (کسی بھی ملک کے عوام کے درمیان آمدنی اور سرمائے کی تقسیم کا تناسب) روز بروز زیادہ بری حالت کی جانب بڑھتا جا رہا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کی کیا وجہ ہے؟ یہ صحیح فکر، یہ صحیح مطالبہ، یہ درست ہدف، ملک میں عملی جامہ کیوں نہیں پہن پا رہا ہے؟

ملک کے انتظامی امور؛ ایک صاحب نے یہاں تقریر کی اور میں نے نوٹ بھی کیا ہے۔ ایک اہم کام جو آپ انجام دے سکتے ہیں اور جس میں آپ مددگار واقع ہو سکتے ہیں اعلی سطحی مینیجمنٹ کے امور ہیں۔ یعنی آپ دیکھئے کہ اعلی سطحی انتظامی سسٹم کی ایک خرابی یہ ہے کہ ہمارا 'مینیجمنٹ سافٹ ویئر' وائرس سے متاثر ہو سکتا ہے، یعنی دشمن ہمارے ملک کی انتظامی فکر میں کوئی وائرس پہنچا دے جو ہمارے تمام اختراعات، کاوشوں اور فیصلوں کو آلودہ کر دے، انھیں کسی غلط سمت میں موڑ دے۔ ہم اس کا سد باب کر سکتے ہیں اور ہمیں کرنا چاہئے۔ یہ بنیادی کاموں میں ہے۔ یا ملک میں نظرانداز کر دی جانے والی توانائیوں کو بروئے کار لانا۔

مسائل کو بیان کرنا؛ استاد کا ایک اہم کام مسائل پر روشنی ڈالنا ہے۔ میں جناب پارسا نیا (7) کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جنھوں نے یہاں 2030 دستاویز (The 2030 Agenda for Sustainable Development) کے بارے میں گفتگو کی۔ اسے بیان کیا جانا چاہئے۔ ہم نے تعلیم و تربیت کے شعبے سے متعلق 2030 دستاویز کے بارے میں ایک بات کہی جس کے گوشہ و کنار میں بہت سی دوسری باتیں بھی بیان کی گئیں۔ یہ بہت اہم مسئلہ ہے۔ جیسا کہ جناب عالی نے اشارہ کیا یہ اقوام متحدہ کے Sustainable Development پروگرام کا ایک ذیلی منصوبہ ہے۔ اس کا ایک حصہ یہی 2030 دستاویز ہے۔ انھوں نے پائیدار ترقیاتی ایجنڈا میں کہ جس کا ایک حصہ 2030 دستاویز ہے، یہ منصوبہ تیار کیا ہے اور اس پر کام کر رہے ہیں کہ ساری دنیا کے لئے واحد فکری، ثقافتی و عملی نظام وجود میں آئے۔ یہ کام کون کر رہا ہے؟ اقوام متحدہ کے پردے کے پيچھے کچھ عناصر ہیں۔ یہاں یونسکو صرف ایک پردہ ہے، ایک شو کیس ہے، ایک ذریعہ ہے، اس کی آڑ میں کچھ عناصر ہیں جو دنیا کے ممالک کی تمام چیزوں کے لئے، تمام اقوام کے لئے ایک نظام تیار کر رہے ہیں۔ ایسا نظام جو طرز فکر کا بھی احاطہ کرے، ثقافت کا بھی احاطہ کرے، طرز عمل کا بھی احاطہ کرے۔ اس نظام کو متعارف کرا رہے ہیں اور تمام اقوام کی ذمہ داری یہ ہے کہ اسی کے مطابق عمل کریں۔ اس کا ایک حصہ تعلیم و تربیت سے متعلق ہے جسے 2030 دستاویز کہا جاتا ہے۔ یہ بالکل غلط بات ہے، بالکل غلط طریقہ ہے، یہ سرے سے معیوب چیز ہے، یہ عمل معیوب ہے! کیوں؟ اس لئے کہ وہ کون لوگ ہیں جو پائیدار ترقیاتی ایجنڈا تیار کر رہے ہیں؟ ان کو کیا حق پہنچتا ہے کہ ملکوں کے بارے میں، قوموں کے بارے میں، ان کے آداب و اطوار کے بارے میں، ان کے عقائد کے بارے میں رائے زنی کریں کہ ایسا ہونا چاہئے، ویسا ہونا چاہئے اور سب پر عملدرآمد لازمی ہے۔ یہ جو کہتے ہیں کہ نان بائینڈنگ ہے، یہ سادہ لوحی ہے۔ ایسا نہیں ہے، حقیقت میں سب پر عملدرآمد لازمی ہے۔ اس کے کسی ایک حصے پر عملدرآمد نہ کرنا ایک 'منفی انٹری' مانا جائے گا؛ مثلا آپ فلاں رینکنگ میں سب سے نیچے ہوں گے، آپ کو فلاں سہولت نہیں دی جائے گی۔ یہ ساری چیزیں اس طرح کی ہوتی ہیں۔ تو یہ در حقیقت بائنڈنگ ہے، صرف ظاہری طور پر نان بائنڈنگ لگتی ہے۔ آخر اس کی ضرورت ہی کیا ہے؟ ہم نے کئی سال پہلے کہا کہ 'پیشرفت کا ایرانی اسلامی ماڈل' معین کیا جائے۔ میں نے جان بوجھ کر 'ترقی' کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ جو لوگ اس کے ذمہ داران ہیں اور اس وقت سے تاحال ان سے ہمارا رابطہ ہے، وہ تصدیق کریں گے، میں نے کہا کہ میں عمدا 'ترقی' کا لفظ استعمال نہیں کر رہا ہوں۔ اس لئے کہ 'ترقی' مغربی اصطلاح ہے، اس کا ایک مغربی مفہوم ہے۔ میں پیشرفت کا لفظ استعمال کروں گا؛ ایرانی و اسلامی پیشرفت کا ماڈل۔ ہمیں چاہئے کہ جستجو اور تحقیقات کے ذریعے اس ماڈل کو وضع  کریں! ہماری پیشرفت کے لئے مغربی عناصر کیوں ماڈل دیں، اسی پائیدار ترقی کے ایجنڈے یا 2030 دستاویز وغیرہ کی صورت میں۔ یہ کس کی ذمہ داری ہے؟ یہ آپ کی ذمہ داری ہے۔ یونیورسٹیوں کی ذمہ داری ہے۔ اساتذہ کا کام ہے۔

بہرحال باتیں تو بہت سی ہیں لیکن وقت کم ہے۔ میرے خیال میں اذان بھی ہو چکی ہے۔ خداوند عالم آپ سب کو اور ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنے کاموں کو انجام دے سکیں۔ جیسا کہ آپ نے کہا اور  میں اس کی تائید کرتا ہوں، خود میں بھی یہی کہتا ہوں کہ ہم ثابت قدمی کے ساتھ کھڑے ہیں اور فضل پروردگار سے، توفیق خداوندی سے، اس مشن کو، اس مہم کو اس اسلامی و انقلابی تحریک کو آگے بڑھاتے رہے ہیں اور ان شاء اللہ آگے بڑھاتے رہیں گے اور فتح بھی بفضل پروردگار یقینا ہماری ہی ہوگی۔۔۔۔ (8)۔

 

1) اس ملاقات کے آغاز میں جو 26 رمضان المبارک کو انجام پائی آٹھ اساتذہ نے اپنے نظریات بیان کئے۔

2) طلبہ کی اسکالرشپ کے لئے پیش آنے والی مشکل کی جانب محترمہ خدیجہ ذو الفقار صاحبہ نے اشارہ کیا۔

3) وزیر علوم و ریسرچ و ٹیکنالوجی ڈاکٹر محمد فرہادی جلسے میں تشریف فرما تھے۔

4) اقبال الاعمال، جلد‌۱، صفحہ ۱۹۹ ( ماہ رمضان کے آخری عشرے کی دعا قدرے فرق کے ساتھ۔)

5) اسلامی نظام کے اعلی عہدیداران سے خطاب مورخہ 12 جون 2017

بیانات در دیدار مسئولان و کارگزاران نظام (۱۳۹۶/۳/۲۲)

6) مشہد مقدس میں حرم امام رضا علیہ السلام میں زائرین اور خدام کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب مورخہ 21 مارچ 2017

7) تہران یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر حجّت‌الاسلام والمسلمین حمید پارسا نیا

8) حاضرین نے نعرہ تکبیر بلند کیا