بسم الله‌ الرّحمن‌ الرّحیم

الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین الهداة المهدیّین المعصومین سیّما بقیّة الله فی الارضین. اللّهمّ صلّ علی فاطمة و ابیها و بعلها و بنیها بعدد ما احاط به علمک.

بڑا لطف آیا، اس با برکت، پرمغز اور دلنشیں نشست سے ہم مستفیض ہوئے۔ فن و ہنر کی زبان میں حقائق کا بیان اور ایک صاحب عقل اور دانا انسان کی عقل سے ما ورا فضائل کی کنائے اور استعارے کی زبان کے ذریعے پیشکش، ان ما ورائی مفاہیم کی جانب اشارے کرنے والی پرکشش تعبیریں! یہی سب شعر کی خصوصیات ہوتی ہیں۔

برسوں سے یہ جلسہ اس حسینیہ میں آج کے دن منعقد ہوتا آ رہا ہے۔ اس جلسے کی برکتیں جو روحانی اور معنوی اعتبار سے مومنین کے دلوں میں پیدا ہوتی ہیں ان کے اعتبار سے بھی اور سماجی و سیاسی تاثیر کے  اعتبار سے بھی بڑی اہم اور قابل قدر  ہیں۔ ہمیں اس جلسے کی قدر کرنا چاہئے۔ ہم اللہ کا شکر بجا لاتے ہیں، سجدہ شکر کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں اس جلسے میں ایک بار پھر شرکت کا یہ موقع عنایت فرمایا۔ ہم آپ کے بھی شکر گزار ہیں اور جن برادران گرامی نے خصوصی پروگرام پیش کیا ان کا بھی تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں۔

کائنات کی عورتوں کی سردار، تمام ادوار کی اور تمام عالمین کی تمام خواتین کی سردار کے بارے میں مجھ حقیر کا یہ بیان ناقص ہے اور ہماری زبان اس ہستی کی فضیلتوں کے کسی ایک گوشے کی تشریح سے بھی قاصر ہے۔ جہاں تک ملکوتی اور روحانی مدارج کی بات ہے تو معصومین علیہم السلام کے علاوہ کوئی بھی ان کے ادراک پر قادر نہیں تو توصیف اور بیان کا ذکر ہی کیا۔ ظاہری اور عقلی معیارات کے اعتبار سے بھی صدیقہ کبری فاطمہ کبری سلام اللہ علیہا کی ہستی ایسے پہلوؤں کی حامل ہے جن کے حدود کا تصور بھی ہماری توانائی سے پرے ہے۔ ہم بس اتنا ہی کہہ پاتے ہیں کہ اس عظیم ہستی نے ولایت کا دفاع کیا، اپنی جان نچھاور کر دی، فصاحت و بلاغت کے موتی لٹائے، یہی باتیں ہم بیان کرتے ہیں۔ مگر یہ باتیں صرف زبان سے بیان کر دی جاتی ہیں، ان مدارج کا حقیقت میں تصور کر پانا ہمارے بس کے باہر ہے۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رحلت کے بعد مدینے کے جو حالات تھے اگر ہم ان کا تصور کر سکیں، اس صورت حال کو ہم اپنے ذہن میں بخوبی مجسم کر سکیں اور ان کا صحیح تصور قائم کر سکیں تب ہم سمجھ پائیں گے کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے کیا عظیم کارنامہ انجام دیا۔ بڑے سخت حالات پیدا ہوئے یہاں تک کہ خواص بھی اس کی درست تشریح سے قاصر ہیں۔ اصحاب پیغمبر میں سے صرف دس بارہ افراد مسجد میں حاضر ہوتے ہیں اور کھڑے ہوکر امیر المومنین علیہ السلام کی حمایت کا  اعلان کرتے ہیں اور آپ کے حق کا دفاع کرتے ہیں! اصحاب کی وہ کثیر  تعداد، بزرگ ہستیوں کا وہ طولانی سلسلہ، قرآن کی تلاوت کرنے والی کی وہ کثرت، بدر و حنین کے مجاہدین، کوئی نہیں۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ سب کے سب دشمن ہو گئے تھے، نہیں، صورت حال اتنی واضح نہیں تھی کہ خواص بھی بخوبی حالات کا ادراک کر پاتے۔ ان حالات کو بخوبی سمجھنے کے لئے عمار جیسی ہستی کی ضرورت تھی، ابوذر جیسی شخصیت کی ضرورت تھی، ابتدائی ایام کے زبیر جیسی شخصیت کی ضرورت تھی، بس یہی چند افراد تھے منبر کے سامنے اٹھ کھڑے ہوئے اور امیر المومنین علیہ السلام کے حق کا دفاع کیا۔ وہ صرف دس بارہ افراد تھے جن کے نام  تاریخ میں محفوظ ہیں۔ زبیر بھی ان میں شامل تھے، یہ بات آپ ذہن میں ضرور رکھئے۔ یہ حالات ہو گئے تھے۔ ایسے حالات میں بنت رسول آتی ہیں اور مسجد میں وہ فصیح و بلیغ خطبہ ارشاد فرماتی ہیں، وہ عظیم بیان دیتی ہیں اور حقائق کو بیان کرتی ہیں۔ اسی طرح آپ کا وہ خطبہ جو بستر بیماری پر آپ نے مدینے کی عورتوں کو مخاطب کرتے ہوئے دیا۔ یہ خطبے تاریخ میں مرقوم ہیں، سب محفوظ ہیں۔ یہ آپ کی ہستی کے ملکوتی پہلو نہیں بلکہ ہم جیسے عام انسانوں کی سمجھ میں بھی آ جانے والی باتیں ہیں۔ عام عاقلانہ فہم کی مدد سے بھی ان باتوں کو سمجھا جا سکتا ہے۔ مگر یہ اقدامات بھی اتنے با عظمت ہیں کہ ان کی بلندی کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا، ان اقدامات کا دوسری کسی بھی قربانی سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا اندازہ لگانے کی کوشش ایسی ہی ہے کہ مثلا کوئی کہے کہ کہکشانوں کا طول و عرض کیا ہے؟ بے شک اندازہ تو لگایا جا سکتا ہے، میٹر اور سینٹی میٹر تک کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، لیکن یہ کس کے بس میں ہے؟ کون  اسے سمجھ سکتا ہے؟ کون اس پر قادر ہے؟ یہ ملکوتی، روحانی اور ماورائی مفاہیم نہیں ہیں، زمینی اور اسی دنیا کی چزیں ہیں، لیکن ان کی وسعت و عظمت اتنی زیادہ ہے کہ عام انسان اسے سمجھ نہیں سکتا۔ ہم بیان کرتے ہیں، مجالس میں پڑھتے ہیں، ہمارے دل درد سے بھر جاتے ہیں، ہم گریہ بھی کرتے ہیں اس واقعے پر جو رونما ہوا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے عمل کی عظمت کا صحیح اندازہ نہیں لگا سکتے۔

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ایک حقیقی رہبر کے کردار میں نظر آتی ہیں۔ جیسا کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اگر فاطمہ زہرا مرد ہوتیں تو یقینا پیغبر ہوتیں (2)۔ یہ بڑا عجیب بیان ہے، یہ بڑا عجیب جملہ ہے۔ ایسا جملہ امام خمینی جیسی شخصیت کے علاوہ جو عالم بھی تھے، فقیہ بھی تھے، عارف بھی تھے، کسی اور کے منہ سے ادا نہیں ہو سکتا۔ مگر انھوں نے یہ جملہ کہا ہے۔ یہ ہے جناب فاطمہ زہرا کی شخصیت۔ یعنی حقیقی معنی میں ایک رہبر، تمام بشریت کی رہنما اور ہادی۔ اس بلندی اور اس رفعت پر حضرت زہرا ایک نوجوان خاتون نظر آتی ہیں، یہ ہے اسلام کی عورت۔

ہم ان ہستیوں کی مستقل تعریف کریں، منقبت بیان کریں تو یقینا اس کا فائدہ یہ ہے کہ ان کے فضائل کے ذکر سے انسان کے دل میں نور اتر آتا ہے، انسان کے اندر عشق و محبت کے جذبات و احساسات کروٹیں لینے لگتے ہیں، یہ اچھی بات ہے لیکن ان چیزوں کے علاوہ دوسرے بھی بڑے عظیم حقائق موجود ہیں۔ اسلام کہ نقطہ نگاہ سے عورت کا مرتبہ کیا ہے اس میں یہ بھی دکھایا گيا ہے۔ اب ایسے حالات میں مٹھی بھر نادان اور جاہل افراد آکر عورت کے بارے میں اسلام کے نقطہ نگاہ پر سوالیہ نشان لگاتے ہیں، اہل مغرب کے ناقص، برائیوں سے پر معیوب نظریات کو فخریہ بیان کرتے ہیں تو یہ کتنا غلط ہے اور کتنا بڑا انحراف ہے۔

فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ایک اسلامی خاتون ہیں، اسلامی خاتون کی بلند ترین سطح پر فائز عورت یعنی وہ عورت جو ایک رہبر ہے۔ مگر یہی عورت جو فضائل و مناقب کے اعتبار سے پیغمبر ہونے کی اہلیت رکھتی تھی، ماں کے فرائض انجام دیتی ہے، زوجہ کا کردار ادا کرتی ہے، امور خانہ داری انجام دیتی ہے۔ آپ دیکھئے! ان چیزوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ غافل فریفتہ افراد،  انسان ایسے لوگوں کے بارے میں کیا کہے؟ یہ اہل مغرب کی ایسی کھوکھلی باتیں بیان کرتے ہیں، امور خانہ داری کی اتنی توہین کرتے ہیں۔ جبکہ امور خانہ داری کی انجام دہی کا مطلب ہے انسان کی تربیت، اس کا مطلب ہے عالم ہستی کے سب سے عظیم سرمائے اور سب سے عظیم خلقت یعنی بشر کی تربیت۔ یہ ہے خانہ داری۔

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت کے اس موقع پر مناسب ہوگا کہ ہم مسلمان عورت کے مقام و منزلت کم سمجھیں! ہم نے آج کے دن کو یوم نسواں اور یوم مادر سے موسوم کیا ہے۔ یہ بہت اچھی بات ہے۔ اسے یوم رہبر بھی کہا جا سکتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، عظیم ترین انسان کا دن بھی کہا جا سکتا ہے، مگر آج ہمارے سماج کی اہم ضرورت یہ ہے کہ اسے یہ معلوم ہو کہ مادری کا کیا مطلب ہے؟ زن خانہ ہونے کا کیا مطلب ہے؟ خاتون خانہ ہونے کا کیا مطلب ہے؟ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اپنی ان عظمتوں کے ساتھ، اپنے اس مقام و مرتبے کے ساتھ ایک خاتون خانہ بھی ہیں۔ اس میں آپ کی کسر شان نہیں ہے، آپ تو وہ عظیم ہستی ہیں کہ جس کی تحقیر ممکن ہی نہیں ہے، اس عظمت کا کون انکار کر سکتا ہے؟ آپ کی عظمت اپنی جگہ قائم ہے۔ تاہم آپ کی زندگی کا ایک پہلو اور آپ کا ایک مشغلہ زوجہ کے فرائض کی ادائیگی، ماں کے فرائض کی ادائیگی اور خاتون خانہ ہونے کے تقاضے پورے کرنا ہے۔ اس زاویہ فکر سے ان مفاہیم کو ہمیں دیکھنا چاہئے۔

کچھ لوگ عورتوں کے حقوق کے دفاع کے نام پر ایسی باتیں کرتے ہیں جو عورت کی توقیر نہیں بلکہ اسے کمزور کرنے کی کوشش ہے۔ ہم ملک کے اندر موجود افراد کی بات کر رہا ہوں۔ ورنہ جہاں تک یورپ کی مغربی ثقافت کا معاملہ ہے تو اس کے بارے میں گمان غالب بلکہ تقریبا یقین ہے کہ یہ صیہونیوں کی سازش کا نتیجہ ہے جو انسانی معاشرے کو درہم برہم کر دینا چاہتے ہیں، نابود کر دینے پر تلے ہوئے ہیں، عورت کو مرد کی لطف اندوزی کا ایک سامان بنا دینا چاہتے ہیں۔ یہ تو ان کی سازش ہے اور مجھے ان سے کوئی مطلب نہیں ہے، ان کا معاملہ تو بالکل الگ ہے،  تا ہم ہمارے اسلامی ماحول میں، ملک کے اندر بھی اور بعض دیگر اسلامی ملکوں میں بھی، عورت کی حمایت کے نام پر عورت کے تعلق سے ایسی چیزیں، ایسے فرائض اور ایسی توقعات پیش کی جاتی ہیں جو در حقیقت عورت کی تحقیر ہے، عورت کو توہین ہے۔ مثال کے طور پر کہتے ہیں کہ عورت کو گھر کے باہر کام کرنے کی اجازت کیوں نہیں دی جاتی؟! سوال یہ ہے کہ کون ہے جو اجازت نہیں دے رہا ہے؟ دوسری بات یہ ہے کہ گھر کے باہر جاکر کام کرنا، مثال کے طور پر کسی ادارے میں ٹائپسٹ کے فرائض انجام دینا کیا عورت کے لئے بہت فضیلت کی بات ہے کہ ہم اس کے لئے لڑ جائیں؟! مساوات کا یہی مطلب ہے؟ مساوات کا مطلب یہ ہے کہ ہم اللہ تعالی نے ہر مخلوق کی ذات میں جو چیز قرار دی ہے اسے پہچانیں، اس کی قدر کریں، اسے نمو کا موقع دیں، یہ ہے مساوات۔

اللہ تعالی نے مرد اور  عورت کو کچھ زایوں سے ایک دوسرے کے مثل قرار دیا ہے۔ روحانی مدارج طے کرنے کے اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اس کی مثال جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ذات ہے، رہبری کی لیاقت و صلاحیت کے اعبار سے بھی دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے، اس کی مثال بھی جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہیں، بشر کی ہدایت کے اعبار سے بھی کوئی فرق نہیں ہے اور اس کی مثال بھی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہیں۔ تاہم زندگی کے امور چلانے کے اعتبار سے دونوں میں فرق ہے۔ اس کی مثال بھی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ذات والا صفات ہے۔ جو لوگ عورتوں کے حقوق کے دفاع کے دعوے  کرتے ہیں۔ بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں جبکہ انھیں یہ بھی نہیں پتہ کہ کیا بیان کریں اور عورت کا کس پہلو سے دفاع کریں؟! وہ کہتے ہیں کہ عورت انتظامی امور کیوں نہ سنبھالے؟! کیا انتظامی امور کی انجام دہی بہت بڑا افتخار ہے کہ انسان اس بارے میں بحث کرے کہ مینیجنگ کے عہدے کیوں صرف مردوں کو دئے جاتے ہیں۔ پھر اسی لڑائی کو مرد و زن کے حقوق کے مساوات کی لڑائی کا نام دے دیا جائے۔ جو لوگ دنیا میں مرد و عورت کی برابری کی باتیں کرتے تھے اور اس کے لئے کوشاں تھے آج وہ بدبختی اور بدعنوانی ان کے گریبان گیر ہوئی ہے کہ بے دست و پا ہوکر رہ گئے ہیں اور سمجھ نہیں پا رہے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ البتہ وہاں کے مفکرین سمجھ رہے ہیں، مفکرین کہہ بھی رہے ہیں کہ انھیں حالات کا علم ہے اور اپنی تشویش کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ خدا کرے ملک کے اندر جو لوگ جنسی مساوات کی بات کرتے ہیں ان کی مراد وہ جنسی مساوات نہ ہو جس پر بڑی بحث ہوئی ہے۔ دعا کرتا ہیں کہ ہم سب اس دن کے فیوضات سے بہرہ مند ہوں، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے اسم مبارک کی برکتوں سے مستفیض ہوں۔

مداحی کے بارے میں بھی چند جملے عرض کرنا چاہوں گا۔ مداحان اہلبیت علیہم السلام آج بحمد اللہ کافی تعداد میں ہیں۔ تہران میں بھی اور دیگر علاقوں میں بھی۔ آپ نے دیکھا کہ آج مختلف شہر سے تشریف لانے والے مداحوں نے کتنے اچھے اور پرکشش پروگرام پیش کئے۔ یہ ایک اہم حقیقت ہے، یہ کم نظیر حقیقت ہے۔ البتہ قدیم زمانے میں بھی ایسا تھا، ہماری نوجوانی کے دور میں بھی یہ چیز تھی لیکن ایک تو بہت زیادہ محدود پیمانے پر تھی اور دوسرے یہ کہ مضمون، قالب اور انداز کے اعتبار سے آج کی صورت حال کا موازنہ اس دور سے نہیں کیا جا سکتا۔ آج مداحی کا سلسلہ نمو کے مراحل طے کر رہا ہے اور پورے ملک میں پھیل گيا ہے۔ یہ ایک انسانی قضیہ ہے، ایک ایمانی قضیہ ہے، اس کے ساتھ ہی آرٹ کا ایک میدان ہے، اس سلسلے میں کیا کرنا چاہئے؟ اسے کس طرح اسلام اور مسلمین کے مفاد میں اور رضائے پروردگار کے مطابق ڈھالا جا سکتا ہے؟ میں گزارش کروں گا کہ آپ اس نکتے پر غور کیجئے! ہمارے ہر فعل اور ہر اقدام کا ہدف اللہ ہونا چاہئے۔ ہم ایسی ہستیوں کا نام لیتے ہیں جو پوری زندگی کسی بھی حالت میں ذکر خدا سے الگ نہیں رہیں، ذمہ داری کے احساس اور اللہ کے لئے عمل کرنے سے کبھی بھی غافل نہیں رہیں تو ہمارا عمل بھی خوشنودی پروردگار کے لئے ہونا چاہئے، وہی عمل ہمارے کام آئے گا۔ یہ دنیا کا سرمایہ، یہ داد و تحسین، زندگی کے اس مرحلے میں انسان جو دنیاوی فائدے حاصل کر لیتا ہے، اسی طرح دیگر چیزیں، ان سب کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ہدف خوشنودی پروردگار ہونا چاہئے، انسان کے لئے جس چیز کی قدر و قیمت ہے وہ رضائے الہی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ ہم کیا کریں کہ ہمارا یہ عمل رضائے پروردگار کے مطابق انجام پائے؟ دو چیزیں ہیں؛ ایک ہے قالب اور پیکر اور دوسرے مضمون و مندرجات۔ قالب اور شکل تو بہت اچھی ہے۔ مداحی اپنی خاص فنی روش رکھتی ہے، آپ کوشش یہ کیجئے کہ یہ روش گلوکاری کی دیگر روشوں سے خلط ملط نہ ہونے پائے۔ ایسا نہ ہو کہ ہم مصائب و فضائل بیان کرنے کے لئے اشعار پیش کریں لیکن ہماری اس پیشکش کا انداز مثلا کسی ترانے جیسا ہو جو اپنے خاص انداز میں ایسے شخص نے پیش کیا ہے جو دین سے دور ہے، روحانیت سے دور ہے، جس طرح کے مضمون آپ پیش کرتے ہیں ان سے بے بہرہ ہے، مادیات اور بدعنوانی میں غرق انسان ہے۔ آپ اس کا بہت خیال رکھئے، یہ بہت اہم چیز ہے۔ اللہ تعالی نے آپ کو جو کچھ عطا فرمایا ہے، یعنی اچھی آواز، بہترین گلا، اچھا ذہن اور جذبہ وہ بہت بڑی نعمت ہے، اس نعمت کا شکر ادا  کرنا چاہئے۔

مضمون کے سلسلے میں بھی یہی چیز ہے۔ مضمون کے میدان میں سب سے اہم ہدف منقبت اہلبیت علیہم السلام اور دلوں میں ان عظیم ہستیوں کی محبت و معرفت میں اضافہ ہونا چاہئے۔ حقیقت یہ ہے کہ اہل بیت اطہار کی معرفت کے سلسلے میں ہم کافی پیچھے ہیں۔ ہمیں اپنی معرفت میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کرنا چاہئے۔ یہ معرفت ہر انسان کے لئے ایک بڑی فضیلت ہے۔ تو آپ اسے اپنا نصب العین قرار دیجئے اور عوام کے اندر اہلبیت اطہار کی معرفت بڑھائیے! مضمون کے سلسلے میں یہ ایک عمل بہت اہم ہے۔ مضمون کے تعلق سے ایک اور اہم چیز یہ ہے کہ عوام کو ان کے دینی فرائض اور ذمہ داریوں سے باخبر کیجئے۔ آج بعض برادران گرامی نے جو اشعار پیش کئے وہ انھیں خصوصیات کے حامل تھے۔ موجودہ حالات پر توجہ، فرائض پر توجہ، موجودہ محاذ بندی پر توجہ، یہ کام آپ انجام دے سکتے ہیں۔ آپ ماحول سازی کر سکتے ہیں۔ مداحوں کی صنف جو آج بحمد اللہ کافی بڑی ہے، اقدار کی پابند ہے اور ان کی سطح بھی کافی بلند ہے، اس صنف سے میری توقع یہ ہے کہ سماج کے اندر ذہن سازی کرے، نئی فکر پیدا کرے۔ ماحول سازی اور ذہن سازی کا مطلب یہی ہے کہ سماج میں کسی خاص فکر اور سوچ کو سکہ رائج الوقت کی طرح رائج کر دیا جائے۔ ہر زمانے میں تمام انسانوں کو سکہ رائج الوقت کی ضرورت ہوتی ہے، یہ کام آپ انجام دے سکتے ہیں۔

ایک زمانہ مقدس دفاع کا زمانہ تھا۔ اس وقت ضرورت تھی اس بات کی کہ لوگ دفاع کے لئے میدان میں اتریں۔ ہمارے شعرا نے اور ہمارے مداحوں نے اس زمانے میں بہترین انداز سے اپنا کردار نبھایا۔ البتہ بعض ایسے بھی تھے جنھوں نے عافیت کوشی کا ثبوت دیتے ہوئے خود کو کنارے کر لیا۔ ایسے بھی تھے۔ مگر کچھ شعرا اور مداح ایسے تھے جو میدان میں اترے اور بہت موثر بھی واقع ہوئے۔ آج آپ فکہ اور شلمچہ کی بات کر رہے ہیں تو فکہ اور شلمچہ کا واقعہ تیس سال پہلے ہوا، لیکن فکہ اور شلمچہ کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اس ملک کی تاریخ میں یہ واقعات ہمیشہ زندہ رہیں گے، کیو؟ اس لئے کہ ان واقعات کا خاص کردار رہا ہے۔ آج اگر آپ کے  پاس خود مختاری ہے، آزادی ہے، اگر آج آپ وقار کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں، اگر آج آپ کی شناخت محفوظ ہے، اگر دشمن آپ پر تسلط قائم کرنے میں ناکام ہے، اگر آج آپ کی ناموس محفوظ ہے تو اس میں فکہ اور شلمچہ کی قربانیوں کا بڑا کردار ہے۔ شعرا اور مداحوں نے اس میدان میں اپنا کردار ادا کیا۔ اس زمانے میں مقدس دفاع کے میدان میں اترنے کے لئے ماحول سازی اور ذہن سازی کی ضرورت تھی۔ ہر دور کی ایک الگ فکری ضرورت ہوتی ہے۔ تاریخ کے اس موجودہ دور کی فکری ضرورت کیا ہے، آپ اسی کو اپنا نصب العین بنائیے!

خوش قسمتی سے آج ہمارے دینی شعرا جو منقبت، قصائد اور مراثی کہتے ہیں؛ ابھی حال ہی میں مجھے کچھ کتابیں ملیں توحید کے بارے میں، عاشورہ کے موضوع  پر، ان میدانوں میں بہت اچھا کام ہوا ہے۔ نکتہ سنج، خوش بیان، با ذوق اور عمیق فکر والے شعرا موجود ہیں۔ دوسری طرف اچھی آواز اور اچھے انداز والے مداح بھی موجود ہے، یہ بہترین موقع ہے جو وطن عزیز اور ملت ایران کو ملا ہے۔ اس کا بھرپور استفادہ کرنا چاہئے۔ اسے صحیح سمت اور صحیح راستے سے بھٹکنے نہ دیجئے۔ میں نے گزشتہ برسوں کے دوران مداحی سے مربوط مسائل اور اس فن کو لاحق خطرات کا ذکر کیا۔ اس باب میں مزید کچھ نہیں کہنا چاہوں گا۔ لیکن ملک کے اندر خود آپ مداحوں کی صنف کو آپ میں سے ہر ایک شخص کو جو منبر پر جاتا ہے اور فضائل اہل بیت علیم السلام بیان کرتا ہے، اس فکر میں رہنا چاہئے، نقائص اور خامیوں پر نظر رکھئے۔ اپنے اس ہنر کو بہترین متاع میں تبدیل کیجئے۔ ان شاء اللہ اس میں روز بروز ارتقاء پیدا ہوگا، اللہ تعالی آپ سے راضی و خوشنود ہوگا اور اہلبیت اطہار علیہم السلام بھی آپ سے خوش ہوں گے۔

امام حسین اور اہلبیت علیہم السلام کی حقیقی نوکری و خدمت گزاری کا مطلب یہ ہے کہ انسان ان ہستیوں کے افکار کو، ان کے طرز زندگی کو اور ان کے رجحانات کو معاشرے میں روز بروز عام کرے۔ یہ ایسا عمل ہے جو ہمارے وطن عزیز کو، ہمارے سماج کو، ہمارے اسلامی نظام کو اور ہمارے عوام کو باوقار، ثابت قدم رکھے گا اور مشکلات کا ازالہ کرے گا۔ اگر ہماری قوم ایک پائیدار، ثابت قدم، بہتر انداز میں منظم، آزادی و خود مختاری سے آراستہ قوم ہوگی تو ایسی صورت میں ہماری اس قوم کے اندر اسلام حقیقی شکل میں منعکس ہوگا، اسلام کی ترویج ہوگی جو زبان سے کی جانے والی تبلیغ سے کہیں زیادہ بہتر اور موثر ہوگی۔ یہ آپ کے عمل کا ایک اہم پہلو ہے۔

اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں کہ آپ کی توفیقات میں اضافہ فرمائے، آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں، جلسے کے منتظمین کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں، جس جس نے بھی تعاون کیا؛ شعر کہہ کر یا اپنی پیشکش کے ذریعے، اس کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں اور آپ سب کے لئے توفیقات و فضل و رحمت خداوندی کی دعا کرتا ہوں۔

والسّلام علیکم و رحمةالله

۱) اس ملاقات کے آغاز میں کچھ شعرا اور مداحوں نے اشعار پیش کئے اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے فضائل کا ذکر کیا۔

2) صحیفه امام، جلد ۷، صفحہ ۳۳۷