بسم‌ الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم

و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین الهداة المهدیّین المعصومین سیّما بقیّة الله فی الارضین.

اس ملاقات پر مجھے بہت خوشی ہے۔ یوں بھی دینی طلبہ کے ساتھ نشست و برخاست کرنا اور گفت و شنید ہمارے لئے بہت شیریں اور لذت بخش ہے، تاہم اس سے قطع نظر جو باتیں اس نشست میں بیان کی گئیں، خواہ وہ تحریری شکل میں ہوں جو مجھے دی گئیں، شاید بعد میں میں ان شاء اللہ ان کو اور توجہ سے دیکھوں گا، یا پھر وہ نکات جو بعض برادران گرامی نے یہاں کھڑے ہوکر اعتراض کے طور پر یا مطالبے کے طور پر بیان کئے، یہ ساری کی  ساری باتیں میرے لئے بہت خوش آئند رہیں۔

جب میں آپ لوگوں کو دیکھتا ہوں، آپ نوجوانوں کو، نوجوان طلبہ کو، بوستان امامت و ولایت کے بلند قامت پودوں کو، بحمد اللہ یہ پودے دراز قامت ہو چکے ہیں، کچھ تو پھل دینے کی منزل تک پہنچ گئے ہیں، بعض دیگر کے بارے میں انسان پوری طرح آسودہ خاطر ہو سکتا ہے کہ جلد ثمر بخش ہو جائیں گے، بیان کی گئی باتوں اور مجموعی طور پر اس ملاقات سے انسان کے اندر یہی احساس پیدا ہوتا ہے؛ وَ مَثَلُهُم فِی‌ الاِنجیلِ‌ کَزَرعٍ اَخرَجَ شَطئَه ‌و فَئازَرَه ‌و فَاستَغلَظَ فَاستَوﱝ‌ عَلیٰ سوقِهٖ یُعجِبُ الزُّرّاعَ لِیَغیظَ بِهِمُ الکُفّار (2) یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ آپ کا اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جانا، آپ کی قامت کی درازی، آپ کی روحانی وسعت، آپ کی گوناگوں توانائیاں، زراعت کے مالکان کو بھی حیرت زدہ کر دیتی ہے اور ان لوگوں کو بھی جنھوں نے یہ بیج بویا، جب وہ دیکھتے ہیں اور اس تبدیلی کا مشاہدہ کرتے ہیں، ان نئے افکار سے روبرو ہوتے ہیں، امیدوں سے سرشار ان چہروں پر نظر دالتے ہیں تو خود بھی مبہوت ہو جاتے ہیں۔ اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ «لِیَغیظَ بِهِمُ الکُفّار» دشمنان خدا کو خشمگیں کرتی ہے۔ ایسا ہونا بھی چاہئے۔ اگر ہم نے دیکھا کہ ہمارا طرز عمل ایسا ہے جس سے دشمنان دین، دشمنان اسلام، قرآن کی بالادستی کے مخالفین کو ہم پر غصہ نہیں آ رہا ہے اور وہ ہمارے وجود سے تلملا نہیں رہے ہیں تو پھر ہمیں اپنی افادیت پر شک کرنا چاہئے۔ اگر حضرت امیر المومنین علیہ السلام ہیں، آپ کا وہ عزم اور ٹھوس عمل ہے تو معاویہ اور عمر عاص جیسے افراد کا آپ سے خشمگیں ہونا لازمی ہے۔ آپ بھی اسی راستے پر چل رہے ہیں تاکہ؛ لِیَغیظَ بِهِمُ‌ الکُفّار.(3)

الحمد للہ جب انسان دیکھتا ہے کہ دینی درسگاہوں میں بڑی نمایاں روئیدگی و بالیدگی ہے۔ آپ نے جو باتیں ذکر کیں میں غور سے سنیں، البتہ جو باتیں بیان کی گئیں انھیں ایک بار پھر ان شاء اللہ سنوں گا، دیکھوں گا، اگر اللہ تعالی نے توفیق دی تو اس کے بارے میں سوچوں گا۔ لیکن یہی اتنا جو میں ابھی سنا میرے لئے باعث مسرت ہے، امید افزا اور بہت خوش آئند ہے۔

میں اختصار کے ساتھ دو تین نکات بیان کرنا چاہتا ہوں، البتہ میں نے کچھ چیزیں نوٹ کر رکھی تھیں جو آپ سے عرض کرنا تھیں، ان میں سے بعض باتیں عرض کروں گا، تاہم دو نکات اختصار کے ساتھ عرض کر دوں۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ درس پڑھنے کو آپ ہرگز معمولی چیز نہ سمجھئے۔ جو باتیں آپ نے بیان کیں، یہ اچھی عبارتیں، یہ اچھے نکات، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ نے درس بھی بہت اچھی طرح پڑھا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی فکر بہت اچھی ہے، آپ کا طرز بیان بہت اچھا ہے۔ لیکن کیا آپ نے درس بھی بہت اچھی طرح پڑھا ہے؟ ان باتوں سے نہیں سمجھا جا سکتا کہ آپ نے درس بہت اچھی طرح پڑھا ہے۔ خوب درس پڑھئے۔

میں مشہد میں 'رسائل و مکاسب' کا درس دیتا تھا۔ اکثر حکومتی اہلکار ہمیں پکڑ لے جاتے تھے، جیل میں ڈال دیتے تھے اور ہمارے شاگرد منتشر ہو جاتے تھے۔ جب جیل سے چھوٹتا تھا تو دوبارہ درس شروع کرتا تھا، طلبہ پھر جمع ہوتے تھے، آتے تھے۔ ہمارے اندر جو انقلابی جذبہ تھا اور ہماری جو حالت ہوتی تھی، اس زمانے میں حکومت کی طرف سے ہماری خاص طور پر جو پٹائی ہوتی تھی، اس کی وجہ سے طلبہ، ہم جو درس پڑھاتے تھے اس کے بارے میں، شک و شبہے میں مبتلا ہو جاتے تھے۔ مکاسب میں شیخ (4) کے فرمودات یا مکاسب کی عبارت کے بارے میں جب میں تجزیہ کرتا کرتا تھا اور کہتا تھا کہ یہاں مراد یہ ہے تو میں دیکھتا تھا کہ طلبہ کے اندر شک و شبہ ہے۔ میں ہمیشہ ان سے کہتا تھا کہ عزیزو! یاد رکھو کہ اگر آپ خود درس نہیں پڑھیں گے تو ہرگز موثر ثابت نہیں ہو سکتے۔ ان سے میں کہتا تھا کہ اگر بنیاد اور جڑ اچھی نہ ہو تو ثمرہ حاصل نہیں ہو سکتا، لہذا خوب درس پڑھئے۔

اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے  افکار، آپے کی تجاویز، آپ کے جذبہ و احساس کی جو نمایاں خصوصیات ہیں وہ معاشرے پر اثر انداز ہوں تو خود کو تعلیم یافتہ بنائیے، درس پڑھئے، صاحب علم بنئے۔ درس بہت توجہ اور سنجیدگی سے پڑھئے۔ یہ نہ کہئے کہ آج کی دنیا تو ٹیکنالوجی اور سائنسی ترقی کی بنیاد پر چل رہی ہے اور ہم بیٹھ کر مثال کے طور پر حاشیہ ملا عبد اللہ پڑھ رہے ہیں، یا مثلا منطق مظفر پڑھ رہے ہیں! نہیں، آپ اسی منطق مظفر کو بخوبی پڑھئے، نحو کی کتاب کو اور صرف کی کتاب کو آپ مقدمے کے طور پر اچھی طرح پڑھئے۔ فقہ کی کتاب کو، اصول کی کتاب کو بغور پڑھئے، تاکہ آپ ایک مولوی کی حیثیت سے اپنا اثر ڈال سکیں، ویسے ابھی میں عرض کروں گا کہ مولوی سے کیا مراد ہے؟ بخوبی درس پڑھئے۔ مولوی حضرات کے اندر بہت سے افراد تھے جو انقلابی جد وجہد کے اعتبار سے ذرہ برابر پیچھے نہیں تھے، لیکن علمی اعتبار سے اور درسی اعتبار سے وہ لازمی سطح پر نہیں تھے، ایسے افراد اس تحریک کی پیشرفت میں یا ایک عظیم مہم ایجاد کرنے میں موثر ثابت نہیں ہوئے۔ کامیاب وہ ہوا جو امام خمینی کی طرح درسی نصاب کے اعتبار سے کامل تھا۔ درس پڑھئے! یہی میری اولین سفارش ہے۔ درس کو بہت سنجیدگی سے لیجئے۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ دینی درسگاہ پر آپ کے کچھ اعتراضات ہیں، تہران کی دینی درسگاہیں ہوں یا کلی طور پر دینی درسگاہیں ان کے بارے میں اعتراض ہے تو اچھی بات ہے! آپ جس طرح کی دینی درسگاہ چاہتے ہیں جو آپ کے بقول اس وقت موجود نہیں ہے، آپ اسے وجود میں لائیے! آپ کا ارادہ اور آپ کی چاہت اس دینی درسگاہ کو وجود میں لائے گی۔ بے شک آپ کے پاس وہ انتظامی عہدہ اور مالیاتی وسائل کا سپورٹ نہیں ہے کہ آپ ایک فیصلہ کرکے فورا اس پر عملدرآمد کا آغاز کر دیں، لیکن مطالبات کی تکمیل صرف عہدے اور مالیاتی وسائل سے ممکن نہیں ہوتی۔ کبھی کبھی یہ وسائل اور یہ عہدہ ہوتے ہوئے بھی اس طرح کے مطالبات پورے نہیں ہو پاتے۔ اس کے لئے کسی اور چیز کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ دوسری چیز وہی ہے جو آپ کے پاس ہے؛ جذبہ، چاہت، واضح مقصد و غایت، یہ چیزیں بہت ضروری ہیں۔ جد و جہد بھی بہت ضروری ہے۔ جد و جہد کے بغیر کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ یہ مطلوبہ دینی درسگاہ بھی جدوجہد کے ذریعے حاصل ہوگی۔ البتہ جدوجہد کا مطلب «زنده باد مرده باد» کے نعرے لگانا نہیں ہے، اس سے مراد سیاسی تحریک چلانا نہیں ہے۔ جدوجہد یعنی کوشش، جفاکشی، بیان کرنا، غور کرنا، ہم خیال پیدا کرنا، منظم ہونا۔ تو یہ دینی درسگاہ آپ خود تعمیر کیجئے۔ البتہ ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ آپ کی مدد کریں، دینی مدارس کے زعماء کی ذمہ داری ہے کہ ان امور کے لئے سہولت کاری انجام دیں، تاہم مستقبل میں جو چیز وجود میں آنی ہے اس کی ذمہ داری کا بوجھ آپ خود اپنے شانوں پر محسوس کیجئے۔ یہ کام آپ ہی کو انجام دینا ہے۔ اب ممکن ہے کہ دس سال بعد، پانچ سال بعد یا پندرہ سال بعد آپ کی باری آئے اور آپ فرائض منصبی انجام دیں، تاہم ہونا یہی ہے اور اقدام اور کام آپ ہی کو کرنا ہے۔ یہ بھی ایک اہم نکتہ تھا۔

ایک صاحب نے کہا کہ ہم دینی مدرسے میں یہ سوچ کر آئے تھے کہ 'ایسا ہوگا ویسا ہوگا' میں اس انداز تخاطب سے اتفاق نہیں رکھتا۔ یہ نہ کہئے کہ ہم آئے تھے، بلکہ کہئے کہ "ہم آئے ہیں۔" آئے تھے کا کیا مطلب ہے؟ آپ کہئے کہ "اس لئے آئے ہیں کہ یہ کام انجام دیا جائے۔" یعنی آپ کی موجودگی کا دوام آپ کے الفاظ میں بھی نمایاں رہنا چاہئے۔ آپ اس راستے کے راہگیر کی طرح، مسافر کی طرح، مہم جو کی طرح اپنے پختہ عزم کو پوری قطعیت اور استحکام کے ساتھ اپنی گفتگو میں بیان کیجئے اور کہئے۔ کہئے کہ ہم آئے ہیں تاکہ یہ کام انجام پائے۔ بالکل ہونا چاہئے اور ہوگا۔ جب آپ فیصلہ کریں گے اور اس فیصلے پر ثابت قدمی سے ڈٹ جائیں گے، اپنی بات میں پختگی پیدا کریں گے تو عملدرآمد ضرور ہوگا۔ البتہ یہ بھی یاد رکھئے کہ غور و فکر، مطالعے اور منصوبہ بندی وغیرہ جیسے مراحل عمل کے مرحلے سے کافی الگ ہوتے ہیں، دونوں کے درمیان بڑا واضح اور بامعنی فاصلہ ہوتا ہے۔ ہم بہت سی باتیں جو زبان سے بیان کرتے ہیں وہ در حقیقت ہماری آرزوئیں اور تمنائیں ہیں جو الفاظ اور جملوں کی شکل میں ظاہر ہوتی ہیں۔ لیکن جب آپ انھیں آرزؤں کی تکمیل کرنے جاتے ہیں تو آپ کو بہت زیادہ محنت کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہمیں اس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہئے۔ عمل کا میدان، کام کا میدان، حقائق کا میدان، ذہنی فضا، مطالعے اور تصور کی فضا سے بڑا واضح فاصلہ رکھتا ہے۔ جب عمل کا مرحلہ آتا ہے تو بہت سے کام آسانی سے آگے نہیں بڑھ پاتے۔ مقدس دفاع کے دوران ہماری ایک بڑی مشکل یہی تھی۔ اس وقت میں صدر تھا۔ ہمارے دفتر میں فوجی افسران کے اجلاس ہوتے تھے۔ آتے تھے اور یہ فوجی نقشے میز پر پھیلا دیتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم چاہتے ہیں کہ اس پوائنٹ سے آگے بڑھیں اور فلاں مقام پر پہنچ جائیں، اس کے لئے اتنے فوجی اور اتنے وسائل درکار ہیں۔ ہمارے بعض رفقائے کار جو رفتہ رفتہ جنگ کے امور سے آگاہ ہو چکے تھے، وہ دیکھتے تھے کہ اس پوائنٹ سے دوسرے ہوائنٹ تک ایک مختصر سی لائن ہے، لہذا فورا مان لیتے تھے اور منظوری دے دیتے تھے، فیصلہ کر لیتے تھے۔ جبکہ اس ایک پوائنٹ سے دوسرے پوائنٹ تک جانے کے لئے 'رمضان آپریشن' جیسے بھرپور فوجی آپریشن کی ضرورت ہوتی تھی۔ تو عمل کا مرحلہ بہت الگ ہوتا ہے۔ عمل کا میدان ذہن و فکر و تصور کے میدان سے کافی مختلف ہوتا ہے۔ یہ بھی ایک نکتہ تھا جو میں عرض کرنا چاہتا تھا۔

ایک اور نکتہ یہ ہے کہ مولویت کے بارے میں یعنی دینی علوم سے وابستہ صنف کے بارے میں جو ایک معمولی سے دینی طالب علم سے شروع ہوکر مراجع تقلید تک جاتی ہے، ہم بعض باتیں کرتے ہیں، اس صنف سے اپنی توقعات کا ذکر کرتے ہیں، یعنی کبھی ہماری نگاہ اس پہلو پر ہوتی ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوتا، یعنی ہمارا خطاب علما کی صنف سے نہیں ہوتا، بلکہ ہم دینی درسگاہوں کے بارے میں بات کر رہے ہوتے ہیں۔ دینی درسگاہیں یعنی علما اور مولوی حضرات کی پرورش کے مراکز، طلبہ کی فکری، علمی اور باطنی پرورش کے مراکز، تو یہ بالکل الگ موضوع ہوتا ہے۔ بعض چیزوں کے تعلق سے جب ہم دینی درسگاہوں کے بارے میں بات کرتے ہیں تو در حقیقت وہ ایسی چیزیں ہوتی ہیں کہ جس کے سلسلے میں خطاب دینی درسگاہوں سے نہیں بلکہ علما کی صنف سے ہوتا ہے۔ اس فرق پر توجہ رکھئے۔ ایسی توقعات ہیں کہ جن کا تعلق علما کی صنف سے ہے، اب اس صنف میں جو بھی شامل ہو، مرجع تقلید، مدرس یا امور مملکت میں کسی عہدے پر فائز مولوی۔ کبھی ہم دینی درسگاہوں کے بارے میں اپنی کچھ توقعات بیان کرتے ہیں۔ اس طرح کی نشستوں میں جو آج منعقد ہوئی ہے یہی آخر الذکر پہلو زیادہ مد نظر ہوتا ہے۔ البتہ اول الذکر پہلو بھی اہم ہے اور اس کے بارے میں بھی بہت سی اہم باتیں ہیں۔

دوستو! آپ نے جو موضوعات یہاں اٹھائے میری نظر میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ ہمارے احباب نے بڑے کلیدی مسائل کا ذکر کیا۔ ان نکات پر آپ کی توجہ ہے اس سے میں بہت محظوظ ہوا اور میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ بحمد اللہ ہمارے دینی طلبہ اور نوجوان ملک کے معروضی مسائل اور سماج کے حالات سے اس طرح وابستہ ہیں، اس کے بارے میں غور کرتے ہیں، بحث کرتے ہیں۔ البتہ میں یہ بھی عرض کر دوں کہ انقلاب رواں دواں ہے۔ یہ جو بعض افراد یہ تاثر دینا چاہتے ہیں، لکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ 'انقلاب تو ایک حادثہ تھا، ختم ہو گیا، اب ہم معمول کی زندگی پر لوٹ آئیں!' یہ انقلاب کے ساتھ خیانت ہے۔ انقلاب کبھی ختم نہیں ہوتا۔ میں نے اس دن عہدیداران کے اس اجلاس میں بھی کہا (5)؛ انقلاب گزشتہ روشوں اور ضوابط کو ختم کر دیتا ہے اور معاشرے میں نئے ضوابط و اصول قائم کرتا ہے۔ ان نئے اصولوں اور ضوابط کی حفاظت انقلاب کا تسلسل ہے اور یہ بہت سخت کام ہے، یہ بڑا مشکل کام ہے۔ وہی ہاتھ اور وہی طاقتیں جو خود انقلاب کی سخت مخالف تھیں اور خلاف ورزیاں کرتی تھیں، وہ انقلابی ضوابط اور اصولوں کی بقا کی بھی مخالفت کریں گی، ان سے دشمنی برتیں گی۔ چنانچہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ ایسا کر بھی رہی ہیں۔ بنابریں اگر انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے جدوجہد کی ضرورت تھی تو آج انقلاب کے اصولوں کو باقی رکھنے، مستحکم بنانے، نتیجے تک پہنچانے اور معاشرے کو اسلامی معاشرہ بنانے کے لئے بھی ہمیں جدوجہد کی ضرورت ہے۔

ہمارے پاس اسلامی معاشرہ نہیں ہے، اسلامی حکومت بھی نہیں ہے۔ وہ چند مراحل جن کا ہم نے ذکر کیا ان میں سے اسلامی حکومت کے مرحلے میں ہی ابھی ہم الجھے ہوئے ہیں، اسلامی حکومت کا مرحلہ طے ہو جانے کے بعد اسلامی سماج کی باری ہے۔ ہمارے سامنے یہ مراحل ہیں۔ ہم ابھی ایک اسلامی انقلاب پیدا کرنے، ایک انقلابی مہم کا آغاز کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اس کے بعد ہم نے اس انقلاب کی بنیاد پر ایک اسلامی نظام تشکیل دیا ہے۔ یہ بہت اچھی بات ہے۔ یہاں تک تو ہم  کامیاب رہے ہیں اور یہ بہت اہم کامیابی بھی ہے، لیکن اس کے بعد ہمیں ایک اسلامی حکومت قائم کرنا ہے۔ یعنی ملک کے لئے اسلامی انتظامی سسٹم کی تشکیل۔ اس میدان میں ہم ابھی منزل مقصود سے کافی پیچھے ہیں۔ البتہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی مایوسی میں مبتلا ہو۔ ہرگز نہیں۔ ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔ تمام تر مخالفتوں کے باوجود، تمام تر خلاف ورزیوں کے باوجود، تمام تر دشمنیوں کے باوجود ہم آگے بڑھتے جا رہے ہیں، پیش قدمی کر رہے ہیں۔ اس کے بہت سے دلائل موجود ہیں۔ تاہم ابھی بہت کچھ کرنا ہے، ہمارے سامنے بہت سے کام ہیں۔ ایک حقیقی اسلامی حکومت تشکیل دینے کے مرحلے سے ہم ابھی کافی پیچھے ہیں۔ جب اسلامی حکومت تشکیل پا جائے گي تو پھر اسلامی معاشرے کی تشکیل کا مرحلہ درپیش ہوگا۔ تو میرے عزیزو! ضروری ہے کہ جدوجہد کی جائے۔   

انقلاب سے پہلے کے دور میں بھی کچھ افراد ایسے تھے جو انقلابی عناصر کو پسند تو کرتے تھے لیکن خود کسی بھی جدوجہد میں شامل نہیں ہوتے تھے، ہرگز خود کو اس میں شامل نہیں ہونے دیتے تھے، جدوجہد کے میدان کے قریب بھی نہیں پھٹکتے تھے۔ تاہم جدوجہد کو پسند کرتے تھے اور انقلابی افراد کو پسند کرتے تھے۔ کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنھیں انقلابی عناصر بہت برے لگتے تھے۔ کچھ لوگ تو ان انقلابیوں سے دشمنی رکھتے تھے، دشمن کا ساتھ دیتے تھے، یہ چیزیں تو اپنی جگہ پر ہیں، تاہم ملک  کے اندر اچھے انسان بھی کم نہیں تھے جنھیں تحریک تو پسند تھی لیکن جدوجہد کے میدان میں قدم نہیں رکھتے تھے، وہ کوئی کام انجام نہیں دیتے تھے۔ ہاں جب دشمن محاذ کمزور پڑ گیا اور واضح ہو گيا کہ طاغوتی نظام سقوط کے دہانے پر پہنچ گيا ہے تو پھر وہ جم غفیر میدان میں اتر پڑا اور کام تمام ہو گیا۔ لیکن تحریک کے دشوار ایام میں جدوجہد کرنے والے وہی محدود افراد تھے جو میدان میں موجود تھے۔  آج بھی وہی صورت حال ہے، جس طرح اس دور میں جدوجہد کی ضرورت تھی، دور بیٹھ کر مجاہدین کو صرف پسند کرنا کافی نہیں تھا، اسی طرح آج بھی جدوجہد کی ضرورت ہے۔ بیٹھ کر مجاہدین کی تعریفیں کرنا، قدردانی کرنا کافی نہیں ہے۔ میدان میں قدم رکھنا ضروری ہے۔ البتہ آج کی جدوجہد اور اس زمانے کی جدوجہد میں جوہری فرق ہے۔ لیکن جدوجہد تو پھر جد وجہد ہے، اس میں سعی و کوشش ہے، جفاکشی ہے۔ اس جدوجہد کا راستہ پہچاننے کی ضرورت ہے۔

ایک نکتہ ان تجاویز کے تعلق سے بھی عرض کر دوں جو دی گئی ہیں، بعض خواتین و حضرات نے کچھ تجاویز دی ہیں، ان کا ہم جائزہ لیں، انتظامی عہدیداران کے سامنے یہ تجاویز رکھی جائیں تاکہ وہ ان پر کام کر سکیں۔ ان شاء اللہ ہم دیکھیں گے کہ ان پر عمل کرنا ممکن ہے یا نہیں۔ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کی تجویز ایسی دی جائے جو قابل عمل ہو۔ آپ جب بھی کوئی تجویز دینا چاہتے ہیں تو پہلے یہ ضرور دیکھ لیجئے کہ وہ کس قدر قابل عمل ہے۔ زمینی حقائق سے مطابقت رکھنے والے پروگرام دیجئے۔ میں یہاں ایک اشارہ کرنا چاہوں گا اپنی اس گفتگو کی جانب جو میں نے پرسوں (6)، عہدیداران سے کی، اس لئے کہ اس اجلاس میں بھی فلاں چیز کا پروگرام اور فلاں چیز کا منصوبہ اس طرح کی باتیں ہوئیں۔ میں نے ان سے کہا کہ پروگرام ہدف کے تعین سے وسیع تر چیز ہے۔ ہدف اور پروگرام ایک نہیں ہے۔ پروگرام کا مطلب ہوتا ہے منزل مقصد تک پہنچنے کے لئے راستوں کی تعمیر، یہ ہوتا ہے پروگرام، اس کو کہتے ہیں پروگرام۔ اب اگر آپ راستہ تعمیر کرنا چاہتے ہیں لیکن آپ نے زمین کے کوائف اور خصوصیات کو مد نظر نہیں رکھا ہے اور خود کو ان حالات و خصوصیات سے نبرد آزما ہونے کے لئے تیار نہیں کیا ہے، تو بہت جلد آپ کے سامنے رکاوٹیں کھڑی ہو جائیں گی۔ مثال کے طور پر سامنے کوئی ٹیلا آ جائے گا اور آپ کہیں گے کہ یہ کام تو نہیں ہو پایا۔ آپ کو شروع ہی سے غور کر لینا چاہئے تھا کہ اس راستے میں ٹیلا ہے، کئی سنگلاخ چٹانیں ہیں، اس راستے میں دریا بھی ہے، لہذا پل کی ضرورت پڑے گی۔ جب آپ نے پہلے سے ان چیزوں کے بارے میں غور نہیں کیا، اپنے منصوبے میں ان پہلوؤں کو شامل نہیں کیا، اپنا پروگرام زمینی حقائق کے پیش نظر ترتیب نہیں دیا تو مشکلات میں الجھنا طے ہے۔ پروگرام حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے ترتیب دیا جانا چاہئے۔ وہی منصوبہ بنائیں جو حقیقت سے ہم آہنگ ہے اور جس پر عمل ہو سکتا ہے۔

دیکھئے وقت بھی کافی ہو گیا، میں دو تین نکات اور عرض کر دوں۔ ایک تو یہ کہ علما کی صنف جو ہے، جس میں آپ نوجوان علما اور طلبہ، پرجوش اور انتہائی موثر حصہ ہیں، اس صنف کا کام انبیا کے مشن کا تسلسل ہے۔ علما کے مشن کو اس نگاہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ جو درس آپ پڑھتے ہیں، اپنے مستقبل کے لئے جو منصوبے تیار کرتے ہیں وہ اس نگاہ سے تیار کیجئے۔ آپ انبیا کے مشن کو آگے بڑھانے والے ہیں۔ سورہ مبارکہ اعراف میں انبیا کے مشن کے بارے میں اس طرح ارشاد ہوتا ہے؛ وَ اِلیٰ عادٍ اَخاهُم هودًا قالَ‌ یٰقَومِ‌ اعبُدُوا اللَهَ‌ ما لَکُم مِن اِلٰهٍ غَیرُه‌ (7) یہ توحید و یکتا پرستی کا معاملہ ہے۔ انبیا کا مشن توحید کا پیغام عام کرنے کا مشن ہے۔ انبیا کی دعوت کی بنیاد ہی یکتا پرستی کی ترویج ہے۔ یکتا پرستی کی دعوت کا صرف یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ عقیدہ پیدا ہو جائے کہ اللہ ایک ہے دو نہیں ہے اور یہ بت اور اصنام جو ہیں ان میں خدا ہونے کی اہلیت نہیں ہے۔ صرف یہ مطلب نہیں ہے۔ وحدانیت کا عقیدہ ایک بنیاد، ایک ستون اور ایک زمین ہے مخصوص آئیڈیالوجی کی جو زندگی کی تعمیر کرتی ہے۔ توحید کے عقیدے کا مطلب ہے توحیدی معاشرے کی تعمیر۔ ایسا معاشرہ جو توحید کی بنیاد پر تشکیل پائے اور چلے۔ یہ ہے توحید کا عقیدہ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو انبیا سے دشمنی بھی نہ ہوتی۔  وَ کَذٰلِکَ جَعَلنا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطینَ‌ الاِنسِ‌ وَ الجِنِّ‌ یوحی بَعضُهُم اِلىٰ‌ بَعضٍ زُخرُفَ القَولِ غُرورًا (8) یہ دشمنیاں اس وجہ سے ہیں کہ انبیا نے آکر معاشرے کی شکل پر اعتراض کیا، مداخلت کی اور بشریت کی زندگی کے لئے ایک نیا ڈھانچہ اور نئی شکل پیش کی۔ وہ نئی شکل در حقیقت وہی حیات طیبہ ہے کہ برادران عزیز میں سے ایک نے متعلقہ آیت کی ابھی تلاوت کی؛ یٰاَیُّهَا الَّذینَ ءامَنُوا استَجیبوا لِلَّهِ وَ لِلرَّسولِ اِذا دَعاکُم لِما یُحییکُم؛(9) حیات تو حیات طیبہ ہی ہے۔ مَن عَمِلَ صٰلِحًا مِن ذَکَرٍ اَو اُنثىٰ‌ وَ هُوَ مُؤمِنٌ فَلَنُحیِیَنَّهو حَیوٰ‌ةً طَیِّبَة‌ (10) یعنی اس ظاہری زندگي سے بالاتر ایک چیز ہے جسے حیات طیبہ کہا جاتا ہے۔ وہ کیا ہے؟ وہ یہی زندگی ہے لیکن تب جب ایمان سے آراستہ ہو۔ زندگی کی بقا کے لئے پانی کی ضرورت ہے، ہوا کی ضرورت ہے، غذا کی ضرورت ہے، علم اور ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے، ان  تمام چیزوں کی ضرورت ہے۔ لیکن اگر اس میں ایمان کی خوشبو نہ ہو تو یہ حقیقت میں زندگی نہیں موت ہے۔ قرآن اسے زندگی نہیں مانتا۔ زندگی تو تب ہے جب زندگی کی یہ تمام حرارتیں اور عوامل اس میں پائے جاتے ہوں، اس میں نورانیت ہو، وہ زندگی تاریکیوں میں جگمگانے والے نور تاباں کی مانند ہوتی ہے۔ یہ علما کا مشن ہے۔ آپ انسانی معاشرے کو یہی زندگی دینا چاہتے ہیں۔ یقینا اس راہ میں وہ مشکلات ہیں جو انبیا کو در پیش تھیں اور اجر بھی نبوت والا ہے، انبیا والی توفیقات ہیں، انبیا کامیاب ہوئے اور ان کی توفیقات میں اضافہ ہوتا گیا۔ تمام انبیا، یہاں تک کہ وہ انبیا بھی جو شہید کر دئے گئے، وہ انبیا بھی جن کی قوموں نے انھیں مسترد کر دیا، سرانجام کامیاب ہوئے۔ آپ ذرا غور کیجئے حضرت نوح، حضرت ہود اور دیگر انبیا جن کے سامنے اس زمانے میں دشمنوں کا ہجوم تھا، آج دنیا میں ان کے طلبگاروں، عقیدت مندوں اور مریدوں کی  تعداد بے شمار ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا پیغام زندہ رہا اور فتح سے ہمکنار ہوا۔ اس زمانے میں تو ان کا انکار کر دیا گيا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ انبیا کے آنے کا سلسلہ جاری رہا اور حرف حق کو فتح ملی۔ تو آپ کا مشن در حقیقت انبیا کا مشن ہے اور آپ کے اس مشن کو سرانجام کامیابی ملنی ہی ہے، بلا شبہ آپ کا یہ مشن آگے بڑھے گا۔ توفیقات خداوندی بھی یقینا آپ کے شامل حال ہوں گی یعنی اللہ تعالی مدد کرے گا؛ اِنّا لَنَنصُرُ رُسُلَنا وَ الَّذینَ آمَنوا فِی الحَیوٰةِ الدُّنیا (11) خداوند عالم آپ کی نصرت فرمائے گا۔ یہ بھی ایک اہم حصہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی انبیا کی مانند آپ کے بھی دشمن، مخالفین اور معترضین ہوں گے۔ تو صورت حال بعینہ وہی ہے۔ آپ خود کو اس کے لئے آمادہ کیجئے۔ آپ سب کے سب نوجوان ہیں۔ ابھی آپ کے پاس کم از کم ساٹھ سال، ستر سال کا وقت ہے جس میں آپ کام کر سکتے ہیں، محنت کر سکتے ہیں۔ آپ یاد رکھئے کہ اس سفر کے اختتام پر آپ کی مساعی کے نتیجے میں دنیا دگرگوں ہو جائے گی اور یقینا پسندیدہ سمت میں پیش قدمی ہوگی۔ یہ یقینا ہوگا۔

میں نے ایک نکتہ نوٹ کر رکھا ہے جو آپ کے سامنے پیش کرنا ہے، وہ یہ ہے کہ موجودہ دور دینی درسگاہوں اور مولویت کی صنف کے لئے کچھ خصوصیات کا حامل ہے، کچھ الگ اوصاف کا حامل ہے جو ماضی کے ادوار سے مختلف ہیں۔ یہ خصوصیات مولویت کے فائدے میں ہیں، مولویت کی کامیابی کے لئے سازگار ہیں۔ ایک تو اسلامی نظام کا تشکیل پا جانا ہے، جب اسلامی نظام تشکیل پا جائے تو فضا اسلامی ہو جاتی ہے۔ ایسا تو نہیں ہے کہ کوئی مخالفت نہیں ہے، کیوں نہیں، مخالفت موجود ہے، ہمیشہ رہی ہے، آئندہ بھی رہے گی، لیکن مین اسٹریم میں، اسلام نوازی ہی ہے۔ جس زمانے ہم لوگ آپ کی عمر میں تھے، مین اسٹریم، اسلام مخالف تھی، یعنی صرف غیر اسلامی نہیں تھی، بلکہ اسلام دشمن تھی۔ میں مشہد میں طالب علم تھا، دینی درسگاہ کا طالب علم بھی تھا اور یونیورسٹی طلبہ کو درس بھی دیتا تھا، مسجد طلبہ سے بھر جاتی تھی، انھیں میں تفسیر قرآن کا درس دیتا تھا۔ اپنے ایک دوست کے ساتھ، خدا ان مرحوم کی مغفرت کرے، ہم تہران آنا چاہتے تھے۔ اسٹیشن پر ہم ٹہل رہے تھے کہ ٹرین کی روانگی کا وقت ہو جائے، دوسرے نوجوان بھی وہاں ٹرین کی روانگی کے انتظار میں ٹہل کر وقت گزاری کر رہے تھے، نوجوانوں کے گروپ ہمارا مذاق اڑا رہے تھے، ہمارے وہ دوست جو ساتھ تھے، یونیورسٹی کے طالب علم تھے، وہ شرمندہ ہو رہے تھے۔ جو نوجوان میرا مذاق اڑا رہا تھا، اس سے نہ تو ہماری کوئي دشمنی تھی، نہ ہم ایک دوسرے کو پہچانتے تھے، نہ میں نے اس کے ساتھ کوئي برا سلوک کیا تھا اور نہ ہی غالبا کچھ خاص پڑھا لکھا تھا، لیکن پھر بھی یہ حرکت کر رہا تھا۔ مولویت یعنی یہ کہ نوجوان طالب علم جو علم دین حاصل کر رہا ہے، درس پڑھتا بھی ہے اور پڑھاتا بھی ہے، اس کا بلا وجہ مذاق اڑایا جاتا تھا۔ ایسا ماحول تھا۔ یہ حالت مشہد کی تھی جو اسلامی مرکز تھا، تہران کی حالت تو بہت بدتر تھی۔ تہران میں بھی ہمارے ساتھ یہ چیزیں پیش آتی تھیں، بہتوں کے ساتھ پیش آتا تھا۔ آج یہ ماحول نہیں ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ آج طلاب، علما اور معمم حضرات کا کوئی مخالف، دشمن اور مذاق اڑانے والا نہیں ہے، کیوں نہیں، آج بھی ہیں اور ہمیشہ رہیں گے، پیغمبروں کا بھی مذاق اڑایا گیا ہے، لیکن آج مین اسٹریم اسلام پسندی کی ہے۔ یہ ایک خصوصیت ہے جو آپ کے حق میں ہے۔ جہاں تک ممکن ہو اس خصوصیت سے استفادہ کیجئے۔

اس دور حاضر کی ایک اور اہم خصوصیت یہ ہے کہ عالمی سطح پر ایک فکری خلا اور جدید  فکر کی احتیاج بالکل نمایاں ہے۔ عالمی سطح پر یہ ماحول ہے۔ گوناگوں مکاتب فکر سے، لیفٹسٹ مکاتب فکر سے بھی اور رائٹسٹ مکاتب فکر سے بھی بیزاری اوراکتاہٹ تمام ملکوں میں، دانشوروں کے درمیان بھی اور نوجوانوں کے درمیان بھی بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔ ایک فکری خلا کی کیفیت ہے۔ ایسے میں 'سخن نو' اپنی جگہ بنا لے گی۔ اسلامی جمہوریہ کے پاس انسان کے موضوع پر بھی، سماج کے موضوع پر بھی اور سیاست کے باب میں بھی نئے پیغامات و نظریات ہیں، اسلام کے پاس انچھوئے افکار ہیں۔ اگر ہم اپنے یہ افکار و نظریات جو جدید نظریات ہیں، دنیا میں عام کر سکیں، لوگوں کے کانوں تک پہنچا سکیں تو یقینا اسے قبول اور پسند کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگی۔ یہ موجودہ دور کی ایک خصوصیت ہے۔ ایک زمانہ وہ تھا کہ جب حالات ایسے نہیں تھے۔ میں جو 'ایک زمانہ' کہہ رہا ہوں تو یہ سو سال پہلے کی بات نہیں بلکہ ہماری نوجوانی کے ایام کی بات ہے۔ مثال کے طور پر مارکسزم بیشتر ملکوں کے نوجوانوں کے درمیان رائج تھا۔ بس امریکہ اور بعض یورپی ممالک جیسے کچھ ملکوں میں اس کی اتنی شدت نہیں تھی لیکن بیشتر ملکوں میں مارکسزم کی جانب رجحان تھا، خاص طور پر اقتصادیات کے میدان میں اشتراکیت کا رجحان ایک غالب و ہمہ گیر رجحان تھا، یہاں تک کہ اسلامی ملکوں کے اندر بھی۔ خود ہمارے ملک میں  اسلامی فکر کے حامیوں کے درمیان بھی ایسے معروف افراد تھے جنہیں آپ سب پہچانتے بھی ہیں، وہ صریحی طور پر سوشیلزم کا دفاع کرتے تھے، اس کی حمایت کرتے تھے، وہ اسلامی اقتصادی نظرئے کو سوشیلزم کے مطابق ڈھالنے اور اسے سوشیلزم کی اصطلاحات کے پیرائے میں بیان کرنے کے حامی تھے۔ ان میں سے بعض کے ساتھ ہماری بحث و گفتگو کی بہت سے نشستیں بھی ہوتی تھیں۔ آج یہ حالات نہیں ہیں۔ اشتراکیت آج شکست خوردہ ہے۔ جسے علمی سوشیلزم کہا جاتا تھا اس کا بطلان تقریبا سب پر ثابت ہو چکا ہے۔ مارکسی نظریہ تقریبا الگ تھلگ پڑ چکا ہے۔ لبرلزم اس معنی میں جو اہل مغرب اس سے اخذ کرتے تھے فرد اور سماج کے بارے میں وہ بھی ناکام ہو چکا ہے۔ ایک خلا پیدا ہو گیا ہے اور ہر شخص مایوسی اور ناکامی کا احساس کر رہا ہے۔ یہی اسلام کے پیغامات کو پیش کرنے کا دور ہے۔ انسان کے بارے میں اسلام کا نظریہ، انسانی روش کے ارتقاء کے بارے میں اسلام کا نظریہ اور انسانی سفر کی آخری منزل یعنی 'سفر الی اللہ' کے بارے میں اسلام کا نظریہ بالکل نئے افکار ہیں۔ ملک کے سیاسی سماج کے تعلق سے اسلام کا نظریہ، یعنی یہی اسلامی جمہوریت، اسی طرح گوناگوں مسائل کے بارے میں اسلام کے نظریات، یہ ایسی چیزیں ہیں جن کے اندر خاص کشش ہے اور اگر خاص طور نوجوان نسل کے کانوں تک یہ پیغام پہنچ جائے تو یقینا اسے پذیرائی ملے گی۔ یہ بھی آج کے اس دور کی ایک اہم خصوصیت ہے۔

آج کے اس دور کی ایک اور نمایاں خصوصیت پیغام رسانی کے وسائل و ذرائع کی فراہمی ہے۔ یہی سائیبر اسپیس جس کے بارے میں ہمارے برادر عزیز نے تفصیل سے بہترین انداز میں گفتگو کی، آپ نے بڑی اچھی بات کہی، اتفاق سے اس سے پہلے میرے ذہن میں بھی یہ نکتہ آیا تھا کہ، اس کا نام تو ورچوئل اسپیس ہے لیکن یہ واقعا حقیقی اسپیس ہے۔ یعنی یہ فضا بہت سے افراد کی حقیقی زندگی کے اندر موجود ہے۔ یہی سائیبر اسپیس اپنا پیغام دنیا کے دور دراز کے علاقوں تک پہنچانے کے لئے آپ کے پاس بہت اہم ذریعہ ہے۔ کل یہ وسائل مہیا نہیں تھے، مگر آج ہیں۔ تو ایک خصوصیت یہ بھی ہے۔

ایک اور خصوصیت سوالات کا پیدا ہونا ہے۔ سوال بڑی بابرکت چیز ہے۔ ماضی میں اتنے سوالات پیدا نہیں ہوتے تھے، پیش نہیں آتے تھے۔ یہ سوچنا غلطی اور بھول ہے کہ سوالات اور شبہات ہمیشہ دشمن کی طرف سے پھیلائے جاتے ہیں۔ بے شک کبھی دشمن بھی کوئی سوال اور شبہ پیدا کر دیتا ہے، لیکن عام طور پر سوال اور شبہ خلاق ذہن انسانی کی پیداوار ہوتا ہے۔ ملک کی نوجوان نسل جو درس، بحث اور تعلیم سے نسبت رکھتی ہے، یعنی یہی نوجوان جو یونیورسٹی وغیرہ سے وابستہ ہیں، یہ سب کے سب سوالات کے کاشتکار ہیں اور اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے۔ آپ خود بھی اسی منزل میں ہیں، آپ بھی نوجوان ہیں، خلاق ذہن رکھتے ہیں۔ یہ ذہن سوالات پیدا کر سکتا ہے اور یہی ذہن جواب بھی تلاش کر سکتا ہے، سوالوں کے جواب پیش کر سکتا ہے۔

البتہ سوالوں میں الجھ کر ٹھہر نہ جائیے، آپ کے لئے یہ میری سفارش ہے۔ صرف سوالوں تک محدود نہ رہئے بلکہ ان سوالوں کے جواب تلاش کیجئے۔ تمام سوالات کے جواب موجود ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ ذہن اپنا کام کرے، کاوش انجام دے، متحرک رہے تاکہ مناسب جواب تلاش کر سکے۔ جواب تلاش کرنے میں تساہلی اور راحت طلبی سے کام نہیں لینا چاہئے۔ یعنی ہر سوال کے لئے ہر جواب کو موزوں نہیں مانا جا سکتا۔ جواب منطقی، مدلل اور محکم ہونا چاہئے۔

اس زمانے کی ایک خصوصیت سوالات کی کثرت ہے۔  سوالات زیادہ ہیں۔ جب سوالات زیادہ ہوتے ہیں تو در پیش مسائل کے بارے میں ذہنی و فکری فعالیت کا میدان وسیع تر ہو جاتا ہے، علم کی سرحدوں کو عبور کرنے کے حالات فراہم ہو جاتے ہیں اور ایسے ہی حالات میں نئے علوم معرض وجود میں آتے ہیں۔ ایک متعصب مصری مصنف نے برسوں قبل تشیع کے خلاف ایک کتاب لکھی جس کا نام تھا فجر الاسلام۔ اس میں واقعی تشیع کے خلاف غیر منصفانہ باتیں لکھی ہوئی تھیں۔ اس کے بعد اس نے ضحی الاسلام، ظھر الاسلام اور عصر الاسلام کے نام سے بھی کتابیں لکھیں۔ میں نے یہ ساری کتابیں سنہ ساٹھ کے عشرے کے اواخر یا ستر کے اوائل میں پڑھی تھیں۔ وہ کتاب فجر الاسلام باعث بنی کہ ہماری اہم علمی ہستیوں نے کئی اہم کتابیں لکھیں۔ ان اہم کتابوں میں سے ایک 'الذریعۃ' ہے۔ شیخ آقا بزرگ تہرانی کی کتاب الذریعۃ۔ اسی طرح ایک اور علمی شاہکار 'تاسیس الشیعۃ لفنون الاسلام' مرحوم صدر کے قلم سے معرض وجود میں آیا۔ یہ ساری کتابیں فجر الاسلام کے جواب میں لکھی گئیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس مصنف احمد امین مصری کی کتاب فجر الاسلام کے جواب میں ہی سید محسن امین مرحوم کی کتاب بھی ضبط تحریر میں آئی، یہ جو کتاب اعیان الشیعہ ہے جس میں علما کے حالات زندگی لکھے گئے ہیں۔ یعنی ایک مسئلہ پیدا ہوا تو اس کے جواب میں کئی اہم تحریریں تیار ہو گئیں، اگر وہ سوال نہ پیدا ہوا ہوتا تو شاید اتنے ساری اہم علمی کاوشیں انجام نہ پاتیں۔ یہ بھی بہت اہم نکتہ ہے۔ بنابریں اس زمانے کی جو خصوصیات ہیں وہ بہت زیادہ ہیں۔ اللہ کا شکر ادا کیجئے کہ آپ اس دور میں ہیں اور اس کی خصوصیات سے بہرہ مند ہو سکتے ہیں۔

میری آخری سفارش تقوا، ورع اور عبادت کے تعلق سے ہے۔ میرے عزیزو! یاد رکھئے کہ اس سفر کے لئے تقوی ضروری ہے۔ یاد رکھئے کہ بہترین تبلیغ وہ ہے جو آپ کی عملی شخصیت آپ کے اہداف و مقاصد کے تعلق سے انجام دیتی ہے اور اپنا اثر چھوڑتی ہے۔ مَن نَصَبَ نَفسَهُ لِلنّاسِ اِماماً فَلیَبدَأ بِتَعلِیمِ نَفسِهِ قَبلَ تَعلیمِ غَیرِه ‌(12)۔ سب سے پہلے ہمیں خود اپنی ذات پر کام کرنا چاہئے۔ ماضی میں بعض مدارس کے زعما جو سحر کے وقت جاکر جائزہ لیتے تھے کہ کون سا طالب علم نماز شب پڑھ رہا ہے اور کون نہیں پڑھ رہا ہے یعنی نگرانی کرتے تھے کہ طلاب حتی المقدور نماز شب سے محروم نہ رہیں، یہ بڑی بامعنی روش تھی۔ البتہ اس زمانے میں یہ عمل آسان تر تھا۔ آج ٹیلی ویزن، سیریئل وغیرہ کی وجہ سے یہ عمل کافی مشکل ہے۔ تاہم آپ کو یہ مشکل کام انجام دینا چاہئے۔ آج آپ نوجوان راہ خدا کو، راہ توسل کو، راہ دعا کو، حضرت بقیۃ اللہ الاعظم (ارواحنا فداہ) کی پاکیزہ دعاؤں سے بہرہ مندی کے راستے کو اپنے لئے وا کیجئے۔ ائمہ علیہم السلام سے منقول دعاؤں کا راستہ اپنے لئے کھولئے، ان سے کسب فیض کیجئے۔ روایتوں میں صحیح سند کے ساتھ بعض دعائیں ایسی ہیں کہ انسان جنھیں پڑھ کر محظوظ ہو سکتا ہے۔ یہی صحیفہ سجادیہ کی جو دعائیں ہیں، سب کی سب ایسی ہی دعائیں ہیں۔ آپ اپنے لئے یہ دروازہ ہمیشہ کھلا رکھئے۔ گناہوں سے اجتناب بہت بنیادی شرط ہے۔ عرفان و سلوک کی وادی کے افراد جن سے ہمیں خاص عقیدت تھی اور ہم ان سے گہرا لگاؤ رکھتے تھے، نوجوانوں کے لئے ہم لوگوں کے لئے جو اس وقت نوجوان تھے ان کی پہلی سفارش یہی ہوتی تھی کہ گناہ سے اجتناب کرو۔ «فَرِّق بَینی وَ بَینَ ذَنبِیَ المانِعِ لی مِن لُزومِ طَاعَتِک‌» (13) یہ دعائے ابو حمزہ ثمالی کا فقرہ ہے۔ یعنی اگر انسان گناہ میں مبتلا ہو جاتا ہے تو یہ گناہ انسان کو اطاعت خداوندی کے راستے پر چلنے سے روک دیتا ہے، اطاعت خداوندی سے بھی دور کر دیتا ہے اور انسان کی توفیقات سلب ہو جاتی ہیں۔ اس بات کو ہمیشہ مد نظر رکھئے۔ اول وقت نماز، حضور قلب کے ساتھ نماز، تلاوت قرآن، دعا و زیارات سے مانوسیت، یہ وہ چیزیں ہیں جو آپ برادران عزیز کے لئے، خواہران عزیز کے لئے، آپ عزیز نوجوانوں کے لئے ضروری ہیں۔ ان چیزوں کو ہمیشہ مد نظر رکھئے۔ ایسی صورت میں آپ بہترین انداز میں درس پڑھنے کی برکت سے، تقوی و پرہیزگاری کی برکت سے جس کا آپ ان شاء اللہ خیال رکھیں گے، ان متحرک و سیماب صفت اذہان کی برکت سے جو آپ کے اندر ہیں اور جن کی علامتیں ہم دیکھ رہے ہیں، علمی و مذہبی صنف کو جسے ہم مولویت کہتے ہیں زمانہ حال سے بدرجہا بہتر مستقبل تک پہنچائیں گے۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته

۱) اس ملاقات کے آغاز میں تہران کے دینی مدارس کے بعض طلاب نے اپنی تقاریر میں اہم نکات بیان کئے۔

2) سوره‌ فتح، آیت نمبر ۲۹ کا ایک حصہ؛ «... توراۃ میں اور انجیل میں اُن کی مثال یوں دی گئی ہے کہ گویا ایک کھیتی ہے جس نے پہلے کونپل نکالی، پھر اس کو تقویت دی، پھر وہ گدرائی، پھر اپنے تنے پر کھڑی ہو گئی کاشت کرنے والوں کو وہ خوش کرتی ہے تاکہ کفار ان کے پھلنے پھولنے پر جلیں۔۔۔

3) سوره‌ فتح، آیت نمبر ۲۹ کا ایک حصہ؛ «... تاکہ کفار ان کے پھلنے پھولنے پر جلیں ...»

4) شیخ مرتضیٰ انصاری

5) صدر محترم اور کابینہ کے ارکان سے خطاب مورخہ 26 اگست 2017

6) صدر محترم اور کابینہ کے ارکان سے خطاب مورخہ 26 اگست 2017

7) سوره‌ اعراف، آیت نمبر ۶۵ کا ایک حصہ؛ «... اور عاد کی طرف ہم نے ان کے بھائی ہودؑ کو بھیجا اس نے کہا "اے برادران قو م، اللہ کی بندگی کرو،"...»

8) سوره‌ انعام، آیت نمبر ۱۱۲ کا ایک حصہ؛ « اور ہم نے تو اسی طرح ہمیشہ شیطان انسانوں اور شیطان جنوں کو ہر نبی کا دشمن بنایا ہے جو ایک دوسرے پر خوش آیند باتیں دھوکے اور فریب کے طور پر القا کرتے رہے ہیں. ...»

9) سوره‌ انفال، بخشی از آیه‌ی ۲۴؛ اے ایمان لانے والو، اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو جبکہ رسُول تمہیں اس چیز کی طرف بُلائے جو تمہیں زندگی بخشنے والی ہے،

10) سوره‌ نحل، آیت نمبر ۹۷ کا ایک حصہ؛ « جو شخص بھی نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشر طیکہ ہو وہ مومن، اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے..»

11) سوره‌ غافر، آیت نمبر ۵۱ کا ایک حصہ؛« یقین جانو کہ ہم اپنے رسولوں اور ایمان لانے والوں کی مدد اِس دنیا کی زندگی میں بھی لازماً کرتے ہیں،

12) نهج‌ البلاغه، حکمت ۷۱

13) مصباح المتهجّد، جلد‌۲، صفحہ۵۹۲