بسم اللّه الرّحمن الرّحیم
و الحمد للّه رب العالمین و الصلاة و السلام علی سیدنا محمد خاتم النبیین
و آله الطاهرین و صحبه المنتجبین
خدائے بزرگ و برتر کا شکر بجا لاتا ہوں کہ اس سال بھی دنیا کے مومنین کی ایک بڑی تعداد کو حج کی توفیق سے اس نے نوازا کہ وہ اس پرفیض اور دلنشیں سرچشمے سے بہرہ مند ہوں اور ان شب و روز کو، جن کے بابرکت و غنیمت لمحات معجز نما اکسیر کی مانند دلوں کو منقلب اور روحوں کو پاکیزہ و آراستہ کر سکتے ہیں، خانہ خدا کے جوار میں اور عبادات و خشوع و ذکر و تقرب کے 'مواقیت' میں بسر کریں۔
حج رموز و اسرار سے معمور عبادت، بیت شریف (کعبہ) برکات الہیہ سے سرشار مقام اور حق تعالی کی آیات و علامات کا مظہر ہے۔ حج مومن، اہل خشوع و صاحب تدبر بندے کو روحانی مدارج پر پہنچا سکتا ہے اور اسے رفعت و نورانیت سے مزین کر سکتا ہے۔ اسی طرح اسے صاحب بصیرت، شجاع، اہل اقدام و مجاہدت انسان میں تبدیل کر سکتا ہے۔ اس عدیم المثال فریضے کے روحانی و سیاسی نیز شخصی و اجتماعی پہلو بالکل نمایاں اور واضح ہیں اور ان دونوں پہلوؤں کی آج سخت ضرورت ہے۔
ایک طرف جدید وسائل کی مدد سے مادہ پرستی کا طلسم اپنا فریب اور اپنی تباہ کاری پھیلا رہا ہے اور دوسری طرف تسلط پسندانہ قوتوں کی پالیسیاں مسلمانوں کے درمیان فتنہ انگیزی و آتش افروزی اور اسلامی ممالک کو بدامنی و اختلافات کے دوزخ میں تبدیل کر دینے پر مرکوز ہیں۔
حج مسلم امہ کے لئے ان دونوں بڑی مصیبتوں کی شفابخش دوا قرار پا سکتا ہے؛ دلوں پر لگی زنگ ہٹا سکتا ہے اور تقوی و معرفت کے نور سے انھیں منور کر سکتا ہے، اسی طرح ان کی آنکھیں کھول کر دنیائے اسلام کے تلخ حقائق سے روبرو کرا سکتا ہے اور اس صورت حال کے مقابلے کے لئے ارادوں کو محکم، قدموں کو استوار اور ہاتھوں اور اذہان کو مستعد کر سکتا ہے۔
آج دنیائے اسلام بدامنی کا شکار ہے؛ اخلاقیاتی بدامنی، فکری بدامنی اور سیاسی بدامنی۔ اس کی بنیادی وجہ ہماری غفلت اور دشمنوں کی بے رحمانہ یلغار ہے۔ ہم نے نابکار دشمن کی یلغار کے جواب میں اپنے دینی و عقلی فرائض پر عمل نہیں کیا۔ ہم نے 'اشداء علی الکفار' کی روش کو بھی فراموش کر دیا اور ہم 'رحماء بینھم' کا طریقہ بھی بھول گئے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ سرزمین عالم اسلام کے قلب میں صیہونی دشمن فنتہ انگیزی کر رہا ہے اور ہم فلسطین کو نجات دلانے کے اپنے حتمی فریضے سے غافل شام، عراق، یمن، لیبیا اور بحرین کی خانہ جنگی نیز افغانستان، پاکستان اور دیگر جگہوں پر دہشت گردی کا مقابلہ کرنے میں مصروف ہیں۔
اسلامی مملکتوں کے سربراہان اور دنیائے اسلام کی سیاسی، دینی و ثقافتی شخصیات کے دوش پر سنگین ذمہ داری ہے؛ اتحاد پیدا کرنے کی ذمہ داری، قومیتی و مسلکی تصادم سے سب کو خبردار کرنے کی ذمہ داری، استکبار اور صیہونزم کی خیانت اور دشمنی کے طریقوں سے قوموں کو آگاہ کرنے کی ذمہ داری، اسلحہ جاتی و فکری و تشہیراتی جنگ کے میدانوں میں دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے سب کو وسائل سے لیس کرنے کی ذمہ داری، اسلامی ممالک کے درمیان اندوہناک واقعات کو، جس کی یمن کے سانحات جیسی تلخ مثالیں ساری دنیا میں غم و اندوہ اور اعتراض و احتجاج کا باعث بنی ہیں، فوری طور پر بند کروانے کی ذمہ داری، میانمار اور دیگر خطوں کے مظلوموں جیسی مسلم اقلیتیوں کے صریحی دفاع کی ذمہ داری اور سب سے بڑھ کر فلسطین کی حفاظت کی ذمہ داری اور تقریبا ستر سال سے اپنے غصب شدہ ملک کے لئے جدوجہد کرنے والی قوم سے تعاون اور حمایت کی ذمہ داری۔
یہ اہم فرائض ہیں جو ہم سب کے دوش پر ہیں۔ اقوام کو چاہئے کہ اپنی حکومتوں سے اس کا مطالبہ کریں، اہم شخصیات کو چاہئے کہ اپنے پختہ عزم اور خالص نیت کے ذریعے ان پر عملدرآمد کی راہ میں سعی و کوشش کریں۔ یہ اقدامات دین خدا کی نصرت کے حتمی مصادیق ہیں جو بلا شبہ وعدہ الہی کے مطابق نصرت خداوندی کے مشمول قرار پائیں گے۔
یہ حج سے ملنے والے اسباق کا ایک حصہ ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ ہم اس کا ادراک اور اس پر عمل کریں گے۔
آپ سب کے لئے حج مقبول کی دعا کرتا ہوں اور منٰی اور مسجد الحرام کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں اور خدائے رحیم و کریم سے ان کے لئے بلندی درجات کا طالب ہوں۔
والسلام علیکم و رحمة اللّه
سید علی خامنهای
7 /شهریور/۱۳۹۶
7 /ذیالحجة/۱۴۳۸