بسم ‌الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم

و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین و علی آله الطّیّبین الطّاهرین المعصومین.

خدا کا شکر ہے کہ اس نے محترم عہدیداران کو یہ  توفیق عنایت فرمائی کہ وہ اس دردناک اور تلخ سانحے کے موقع پر اس صوبے کے عزیز عوام کی مدد کے لئے دوڑ پڑے۔ یہ زلزلہ اور اس طرح کے دیگر دنیاوی زلزلے کہ جن کے سامنے ہم اپنے کو بے بس باتے ہیں، اپنی عاجزی کا ہمیں احساس ہوتا ہے، وہ قیامت کے دن کے زلزلے ' زَلزَلَةَ السّاعَة ' (1)، کے مقابلے میں ہیچ ہیں۔ یَومَ تَرَونَها تَذهَلُ کُلُّ مُرضِعَةٍ عَمّآ اَرضَعَت (۲) قیامت کے دن کا  زلزلہ عالم بعث کا زلزلہ بڑا غیر معمولی، عجیب اور عظیم واقعہ ہوگا جس کا ذکر قرآن کر رہا ہے۔ یہ زلزلہ ہمارے لئے اس زلزلے کی یاددہانی کرانے والا ہونا چاہئے۔ ویسے تو یہ زلزلہ اہمیت، وسعت اور مصیبتوں کے بوجھ کی سنگینی کے اعتبار سے اس زلزلے سے قابل موازنہ نہیں ہے، مگر اس کے باوجود ہم اسی زلزلے کے سامنے اپنی بے بسی اور عاجزی کو محسوس کرتے ہیں تو پھر اس زلزلہ کا ذکر ہی کیا؟! اگر ہم چاہتے ہیں کہ قیامت کے دن کے عجیب و غریب واقعات کی ہولناکی اور تمام انسانوں پر طاری ہو جانے والی دہشت کی حالت سے خود کو نجات دلائیں تو اس کا ایک راستہ یہی ہے کہ یہاں ہم اللہ کے بندوں پر رحم کریں۔ جو بھی اللہ کے بندوں پر رحم کرتا ہے، اللہ اس پر رحم کرے گا۔ رحم کرنے کا مطلب حقارت کی نگاہ سے دیکھنا نہیں ہے کہ کوئی یہ کہے کہ ان عوام کی شان اس سے کہیں بالاتر ہے! نہیں، عوام کی شان تو یقینا بلند ہے۔ کرمان شاہ کے عوام کا وقار ان تمام افراد کی نظر میں جو اس صوبے اور یہاں کے رہنے والوں سے آشنائی رکھتے ہیں، نمایاں ہے۔ مگر ہمیں اپنے فرائض پر عمل کرنا چاہئے۔

میں نے سر پل ذہاب شہر اور اس کے کچھ گاؤوں کا دورہ کیا ہے۔ شہر کو شدید نقصان پہنچا ہے، تاہم دیہی علاقوں کو جو نقصان پہنچا ہے وہ شہر کو پہنچنے والے نقصان سے بہت زیادہ ہے، نقصان بہت بڑے پیمانے پر ہوا ہے۔ ہم نے ایسا گاؤں بلکہ کئی گاؤں دیکھے جو پوری طرح تباہ ہو گئے ہیں۔ ظاہر ہے یہ بہت بڑا سانحہ ہے۔ چونکہ ہم خود اس مصیبت میں مبتلا نہیں ہوئے ہیں اس لئے ہم اس کی سنگینی کو سمجھ نیں پا رہے ہیں، اس نکتے پر وہ سب لوگ جو اس حقیر کے معروضات سنیں گے، خاص توجہ دیں۔ آپ سنتے ہیں کہ زلزلہ سے متاثرین کو فلاں سامان کی ضرورت ہے یا فلاں اشیائے خورد و نوش کی ضرورت ہے۔ عوام مستعدی سے کام کرتے ہیں، حکام بھی محنت کرتے ہیں اور یہ چیزیں ان کے لئے فراہم کی جاتی ہیں۔ مگر زلزلے سے متاثرین کا قضیہ صرف یہی نہیں ہے۔ جو شخص اپنے اہل خانہ کے ساتھ اپنے گھر میں سب کے درمیان سکون و چین سے اطمینان کے ساتھ زندگی بسر کر رہا تھا، اب وہ اپنے سارے اسباب زندگی کے ساتھ ایک ٹینٹ میں رہ رہا ہے! ہم ٹینٹ کے اندر بھی گئے، کچھ خیموں کو دیکھا۔ دو بائی تین، ڈھائی بائی ساڑھے تین یا تین بائی چار میٹر کے ٹینٹ ہیں، جگہ کی قلت ہے، اس کو زندگی گزارنا نہیں کہا جا سکتا۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جن کی اہمیت کو ہمیں پوری توجہ کے ساتھ سمجھنا چاہئے اور اسی اہمیت کے مطابق اپنے فرائض کا ہمیں احساس ہونا چاہئے۔ سیلاب میں بھی تقریبا ایسا ہی ہوتا ہے۔ ماضی میں اپنی نوجوانی کے ایام میں زلزلہ سے متاثرین کی مدد کرنے والی امدادی ٹیموں میں طویل عرصے تک رہ چکا ہوں، اسی طرح سیلاب سے متاثرین کیلئے امدادی کام کرنے والی ٹیموں کا حصہ رہا ہوں۔ سیلاب الگ طرح کی چیز ہے اور زلزلہ الگ چیز ہے لیکن کچھ زاویوں سے دونوں میں مماثلتیں ہیں۔

زلزلے کے وقت ہمیں دو چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے؛ ایک نجات دہی اور دوسرے امداد رسانی۔ پھنسے ہوئے افراد کو بچانے کا کام شروع کے چند گھنٹوں میں ہوتا ہے۔ بحمد اللہ اس علاقے میں فوج، پاسداران انقلاب فورس، پولیس فورس، ان کے وسائل اور ان کی منصوبہ بند سرگرمیوں کے نتیجے میں پھنسے ہوئے لوگوں کی جان بچانے کا کام تقریبا قابل قبول شکل میں انجام پا گیا۔ زلزلے کا جو عالم میں نے یہاں دیکھا ہے، جو تباہی ہوئی ہے، البتہ ہم قصر شیرین نہیں گئے، اسلام آباد نہیں گئے، ان کے گرد و پیش کے گاؤوں میں نہیں گئے جہاں بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے، خسروی نہیں گئے، ثلاث باباجانی نہیں گئے، بہت سے علاقے تباہ ہو گئے، جو علاقے میں نے دیکھے ہیں ان سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر اس زلزلے کے بعد فورا اور تیزی سے ریسکیو آپریشن شروع نہ ہو گیا ہوتا تو جانی نقصان کئی گنا زیادہ ہوتا۔ تو ایک حصہ ریسکیو آپریشن کا ہوتا ہے جو شروعاتی گھنٹوں میں فورا انجام دیا جانا چاہئے۔ میں نے بم میں آنے والے زلزلے کے بعد اس وقت کی حکومت کے ساتھ جو کئی میٹنگیں کیں، میٹنگ میں خود شامل ہوا اور وہ کئی گھنٹے چلی، نتیجے میں ڈیزاسٹر مینیجمنٹ کے اس ادارے کی تشکیل عمل میں آئی، تو اس کا مقصد یہی تھا۔ ڈیزاسٹر مینیجمنٹ کے ادارے کا کام ابتدائی لمحات میں ہی شروع ہو جاتا ہے۔ پہلی چیز یہ ہے کہ باقاعدہ سسٹم موجود ہو، اس لئے کہ زلزلہ آنے سے پہلے اطلاع تو دیتا نہیں، سیلاب بھی اسی طرح ہے، قدرتی آفات پہلے سے اطلاع نہیں دیتیں، یکبارگی آ جاتی ہیں۔ ہمیں یہاں پوری طرح چوکنا رہنا چاہئے۔ دیزاسٹر مینیجمنٹ ادارے کو چاہئے کہ تیار رہے۔ یعنی سرحدی حفاظتی فورس کی طرح مستعد رہنا چاہئے۔ سرحدی حفاظتی فورس جو ہم سرحدوں پر تعینات کرتے ہیں دشمن کی دراندازی کا سد باب کرنے کے لئے، اسے ہمیشہ الرٹ رہنا ہوتا ہے۔ اس لئے کہ دشمن آنے سے پہلے بتاتا نہیں کہ میں آ رہا ہوں۔ ممکن ہے وہ اچانک حملہ کر دے۔ لہذا سرحدی حفاظتی فورس کو ہمیشہ تیار رہنا ہوتا ہے۔ قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے اور بھی زیادہ تیاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ پورے ملک میں ہر جگہ ڈیزاسٹر مینیجمنٹ ادارے کی سو فیصدی مکمل تیاری ہونی چاہئے۔ یہ ممکن بھی ہے، یہ کوئی ناممکن چیز نہیں ہے۔ شفٹ معین کرکے ایسا انتظام کیا جا سکتا ہے کہ افراد ہمیشہ آمادہ رہیں اور کاموں کی منصوبہ بندی بھی پوری طرح طے شدہ ہو۔ یہ ریسکیو آپریشن کا معاملہ ہے جو سب سے پہلے انجام دیا جاتا ہے۔ الحمد للہ یہاں یہ پہلا مرحلہ کافی حد تک بہت اچھی طرح انجام پایا، جہاں تک ممکن تھا بحمد اللہ لوگ متاثرین اور ملبے میں پھنس جانے والے افراد تک پہنچے۔

دوسرا مرحلہ ہوتا ہے امداد رسانی کا۔ امداد رسانی کا عمل بھی سرعت کا متقاضی ہوتا ہے لیکن یہ فوری طور پر انجام پاکر ختم ہو جانے والا کام نہیں ہے۔ امداد کے کئی حصے ہیں اور ہر حصہ اپنے خاص وقت پر اپنی خاص اہمیت رکھتا ہے، وہ کام اسی وقت پر انجام دینا ہوتا ہے۔ پہلی چیز ظاہر ہے کہ غذائی اشیاء ہیں۔ کیونکہ جب کوئی قدرتی آفت آ جاتی ہے تو وہاں لوگوں کو سب سے پہلے اشیائے خورد و نوش کی ضرورت ہوتی ہے جو انھیں فراہم کی جانی چاہئے۔ یہ شروعاتی مرحلے کی چیز ہے۔ اس کے بعد کپڑوں اور دیگر ضروری وسائل کی باری آتی ہے۔ تاہم ان سب سے زیادہ بنیادی چیز ہے رہائش۔ اب آپ یہ دیکھئے کہ تباہ شدہ گاؤوں سے اس ملبے کو کس طرح ہٹایا جا سکتا ہے؟ یہ بہت بڑا کام ہے، بڑا دشوار کام ہے، اسے انجام دینا ضروری ہے۔ اس کے بعد گھر کے بندوبست، گاؤوں اور شہروں کی تعمیر نو کا مسئلہ ہے۔ یہ بہت اہم مرحلہ ہے۔ اس کام میں سرعت عمل بھی بہت ضروری ہے۔ میں نے یہ ٹینٹ دیکھے، ایک ٹینٹ کے اندر جاکر میں نے ایک خاتون سے سوال کیا کہ پلاسٹک کے ٹینٹ دئے ہیں۔ خاتون نے جواب دیا کہ ہاں، یہ پلاسٹک دے دی ہے۔ پھر میں اپنے سوال سے خود ہی شرمندہ ہو گیا۔ چلئے ٹھیک ہے، پلاسٹ دے دی گئی ہے۔ مگر کیا یہ پلاسٹک کوئی معجزہ کر دے گی؟ اس سردی میں، اس موسم میں، رات کے وقت بچے کے لئے، سن رسیدہ افراد کے لئے اور بیماروں کے لئے ضروری حرارت کا بندوبست کیسے ہو سکے گا؟ کیسے اس کا انتظام ہوگا؟ سب سے پہلے گھروں کی تعمیر کے لئے ضروری تیاریاں کی جائیں اور گھر تیار ہونے میں جو وقت لگے اس کے دوران عارضی رہائش کی جو جگہیں ہیں ان کو گرم رکھنے کا بندوبست کیا جانا چاہئے۔ اس سلسلے میں بہت کام کرنے کی ضرورت ہے، بہت محنت کی ضرورت ہے، عہدیداران کے کندھوں پر یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے۔

ایک مرکزیت ہونا چاہئے۔ اسی طرح زلزلہ زدگان کے درمیان وسائل کی تقسیم کے لئے ایک مرکزی کمان ضروری ہے۔ ان علاقوں میں ایک بہت ضروری کام مرکزیت ہے۔ تمام کاموں کے لئے ایک سینٹرلائیزڈ مینیجمنٹ ضروری ہے۔ سارے کام ایک مرکز سے کنٹرول کئے جائیں۔ سب کام کریں، سب محنت کریں، سب ہاتھ بٹائیں، لیکن ایک انتظامی مرکز کا ہونا ضروری ہے۔ یہ کچھ باتیں وسائل کی تقسیم سے متعلق تھیں، جن کا رفتہ رفتہ بندوبست ہو گیا ہے اور یہ مسئلہ حل ہو گیا ہے۔ اس کے بعد کا مرحلہ مکانات کی فراہمی اور تعمیر نو کا مرحلہ ہے۔ اس کے لئے ایک مرکزی انتظامی کمان ضروری ہے۔ اس کے لئے بنیادی طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے، تیز رفتاری ضروری ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ اس سلسلے میں ضروری پشت پناہی انجام دے اور مختلف ادارے خواہ وہ عسکری ادارے ہوں یا سول ادارے ہوں، اپنی اپنی توانائی کے اعتبار سے ذمہ داری سنبھالیں اور اسے انجام تک پہنچائیں۔ یہ بہت اہم کام ہے۔ البتہ مجھے معلوم ہے کہ اس وقت بھی مختلف شعبوں میں کچھ عہدیداران نے بڑی محنت کی ہے، بہت سارے کام انجام دئے ہیں۔ ہم واقعی تہہ دل سے آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں ان کاموں کی خاطر جو آپ نے انجام دئے۔ خاص طور پر ہم ان کے شکر گزار ہیں جنھوں نے حقیقت میں کمر ہمت کسی اور پوری سنجیدگی سے میدان عمل میں وارد ہوئے اور کام انجام دئے، واقعی وہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں بھی اجر و ثواب کے مستحق ہیں، ہم بھی ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ لیکن مستقبل میں، یعنی امداد کے اس سلسلے کو آگے بڑھانے اور امداد کے آئندہ مراحل کے لئے مرکز واحد کے تحت کام کی انجام دہی ہماری نظر میں بہت ضروری، بنیادی اور اہم ہے۔

خاص طور پر سرعت عمل کا خیال رکھا جانا چاہئے، تیزی سے کام انجام دیا جانا چاہئے، مجاہدانہ انداز میں کام ہونا چاہئے۔ اسلامی جمہوریہ کی ایک خصوصیت یہی مجاہدانہ طریقہ کار ہونا چاہئے۔ خوش قسمتی سے بعض شعبوں میں یہی طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے۔ بعض میدانوں میں انسان واضح طور مشاہدہ کرتا ہے کہ مجاہدانہ انداز میں کام انجام دیا جا رہا ہے۔ انقلاب سے پہلے ہم نے متعلقہ اداروں کی روش دیکھی تھی، ان کے اندر ان معاملات میں واقعی احساس ذمہ داری نہیں ہوتا تھا۔ میں نے اس زمانے میں خود قریب سے مشاہدہ کیا ہے اور دیکھا ہے کہ در حقیقت زلزلہ کا مسئلہ ان کی ںظر میں کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا تھا، یعنی واقعی اس پر توجہ نہیں دیتے تھے۔ بس اتنا ہی چاہتے تھے کہ دکھاوے کے لئے اور نام کے لئے تھوڑا بہت کام ہو جائے۔ اصلی کام تو عوامی امدادی ٹیمیں کرتی تھیں۔ آج ایسا نہیں ہے۔ بحمد اللہ حکام میدان عمل میں موجود ہیں، محنت کر رہے ہیں۔ یہ اسلامی جمہوریہ کی خصوصیت ہے۔ تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ حکام آئندہ اور بہتر مینیجمنٹ کے ساتھ، تسلسل اور لگن کے ساتھ اور سرعت عمل کے ساتھ کام انجام دیں۔ ہم نے جو مرکز کی ضرورت کی بات عرض کی ہے اسے ضرور تشکیل دیا جائے تاکہ کام ان شاء اللہ نتیجہ بخش ثابت ہو۔

امید کرتے ہیں کہ خداوند عالم لطف فرمائے اور کاموں کو آسان کر دے۔ راستے ہموار کر دے کہ آپ اپنے فرائض پر عمل کر سکیں اور ان عوام کو اس بڑی افتاد سے نجات دلائیں۔

و السّلام‌ علیکم‌ و رحمة‌ الله‌ و برکاته

۱) سوره‌‌ حج، آیت نمبر ۱ کا ایک حصہ؛ «... قیامت کے دن کا زلزلہ ...»

۲)سوره‌ حج،  آیت نمبر۲ کا ایک حصہ «جب تم اسے دیکھو گے، حال یہ ہوگا کہ ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے سے غافل ہو جائے گی۔ ...»