بسم الله الرّحمن الرّحیم

و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی آله الطّیّبین الطّاهرین و صحبه المنتجبین و من تبعهم باحسان الی یوم الدّین.

عزیز بھائیو اور بہنو! آپ سب کا خیر مقدم ہے۔ آپ سب کو تہہ دل سے خوش آمدید کہتا ہوں۔ آپ یہاں پر خود اپنے گھر میں اور اپنے بھائیوں کے درمیان ہیں۔ دنیا کے کسی بھی خطے سے تعلق رکھنے والے مسلمان بھائیوں کو ہم اسی نگاہ سے دیکھتے ہیں، ہم آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ ہم آپ کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں اور توفیق خداوندی اور نصرت الہی سے ہم نے عملی طور پر بھی اپنے اس برادرانہ جذبے کا مظاہرہ کیا ہے۔

اس اجلاس کا موضوع محبت اہلبیت علیہم السلام بے حد اہم موضوع ہے۔ اہل بیت کی محبت اسلام میں کسی خاص گروہ سے مختص نہیں ہے۔ سارے ہی مسلمان اہلبیت پیغمبر سے محبت کرتے ہیں، اہل بیت پیغمبر سے سارے مسلمانوں کو خاص عقیدت ہے۔ صرف تاریخ میں بہت تھوڑے سے لوگ نواصب کے نام سے گزرے ہیں، ویسے ان کے بھی جذبات ممکنہ طور پر سیاسی جذبات تھے، حقیقی دینی جذبات نہیں تھے، ان کے علاوہ تمام مسلمان صدر اسلام سے لیکر اب تک محب اہلبیت شمار ہوتے ہیں۔ یہی ایک جملہ ہمارے لئے ایک درس ہے۔ درس یہ ہے کہ محبت اہل بیت کے ذریعے مسلمانوں کے درمیان اجماع قائم کیا جا سکتا ہے، اسے مسلمانوں کے اتحاد و یگانگت کا محور قرار دیا جا سکتا ہے۔ جس طرح پیغمبر اسلام کا وجود مبارک مسلمانوں کے درمیان اتحاد و یکجہتی کا محور و ذریعہ ہے، جس طرح قرآن اور کعبہ شریف اتحاد بین المسلمین کا محور ہے، اسی طرح محبت اہل بیت بھی مسلمانوں کے اتحاد کا محور بن سکتی ہے اور دلوں کو ایک دوسرے کے قریب لا سکتی ہے۔

میں آپ برادران عزیز کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آج دنیائے اسلام کو اس اتحاد اور ہم خیالی کی سخت ضرورت ہے۔ آج دنیائے اسلام کے پیکر پر زخم لگے ہوئے ہیں، اسلام کے دشمن مسلمانوں کے درمیان جنگ و اختلاف پیدا کرکے انھیں کمزور کرنے، انھیں آپس میں الجھا دینے اور ان کے دشمنوں کو محفوظ ٹھکانہ فراہم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ مغربی ایشیا میں غاصب صیہونی حکومت تو محفوظ رہے اور مسلمان ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوں! آج یہ عین حقیقت ہے۔ یہ سب کچھ اسلام کے دشمنوں کا کیا دھرا ہے، یہ امریکہ کی کارستانی ہے، بین الاقوامی صیہونزم کی دین ہے، اس علاقے میں ان کے رفقائے کار اور آلہ کاروں کی دین ہے۔ بڑے افسوس کے ساتھ ہمیں یہ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ خود امت مسلمہ کے اندر اور اسلامی حکومتوں کے اندر ایسے افراد موجود ہیں جو وہی سب کچھ انجام دیتے ہیں جو امریکہ کی مرضی ہے اور جو صیہونی چاہتے ہیں، اس کے اخراجات بھی خود اٹھاتے ہیں، تمام مقدمات بھی فراہم کرتے ہیں اور ان کے آلہ کار بن جاتے ہیں، کیوں؟ امت اسلامیہ کے پیکر پر زخم لگانے کے لئے۔ ایسے حالات میں امت مسلمہ کا اتحاد واجبات میں سب سے بڑا واجب ہے۔ ہمیں متحد ہونے کی ضرورت ہے۔

محبت اہلبیت کی جڑیں قرآن میں ہیں، حدیث پیغمبر میں ہیں۔ یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ اسلامی مسلکوں کے درمیان ایک متفق علیہ حدیث، حدیث ثقلین ہے۔ اِنّی‌ تارِکٌ‌ فیکُمُ الثَّقَلَینِ کِتابَ اللهِ وَ عِترَتی اَهلَ بَیتی فَاِنَّهُما لَن یَفتَرِقا حَتَّى یَرِدا عَلَیَّ الحَوض (2) حالانکہ اس حدیث میں ہمیں جو تعلیم دی گئی ہے وہ اہل بیت کا اتباع ہے، تاہم محبت کے بغیر اتباع بے معنی ہے۔ لہذا اس حدیث سے محبت پر تاکید بھی سمجھ میں آتی ہے۔ یہ جو قرآن میں ارشاد ہوا ہے؛ اِنَّما یُریدُ اللهُ لِیُذهِبَ عَنکُمُ الرِّجسَ اَهلَ البَیتِ وَ یُطَهِّرَکُم تَطهیرًا (3) یہ پاکیزگی و طہارت جس کے بارے میں اللہ تعالی نے ارادہ کیا ہے کہ اہل بیت کے اندر موجود رہے وہ اسی عشق و محبت کی متقاضی ہے جو اہل بیت کے تعلق سے مسلمانوں کے اندر ہونی چاہئے۔ اس طرح یہ مسلمانوں کے اتحاد کا ایک وسیلہ و ذریعہ ہے۔

اسلام کے دشمنوں کی مصلحت اس میں ہے کہ جنگ کو دنیائے اسلام کے اندر کھینچ لائیں اور افسوس کا مقام ہے کہ وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ہم دشمن کی اس سازش کے مقابلے میں ڈٹے ہوئے ہیں اور آئندہ بھی ثابت قدمی سے کھڑے رہیں گے۔ میں عرض کرتا چلوں کہ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ توفیق خداوندی سے، ارادہ پروردگار سے، مشیت الہی اور اذن باری تعالی سے ہم اس مقابلہ آرائی میں دشمنوں پر غلبہ حاصل کریں گے۔

آج مسئلہ فلسطین عالم اسلام کا اولین مسئلہ ہے۔ جو بھی مسئلہ فلسطین کو درستگی کے ساتھ سمجھ لے اور صحیح تصور قائم کر لے وہ یقینا اعتراف کرے گا کہ مسئلہ فلسطین عالم اسلام کا اولین مسئلہ ہے۔ دشمنان اسلام پر غلبہ حاصل کرنے کی کنجی مسئلہ فلسطین ہے۔ آج دنیائے اسلام کا سب سے اہم مسئلہ مسئلہ فلسطین ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ فلسطین ایک اسلامی ملک ہے۔ کچھ لوگوں نے آکر اسے غصب کر لیا ہے، اس کے اصلی مالکان سے چھین لیا ہے۔ یہ ایک گاؤں یا ایک شہر کو غصب کر لینے کا معاملہ نہیں ہے۔ دشمن نے ایک ملک کو غصب کر رکھا ہے اور اسے اس علاقے کے ملکوں کی  امن و سلامتی میں مشکلات پیدا کرنے کے لئے ایک ٹھکانے کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ اس سرطانی پھوڑے سے مقابلہ کرنا ضروری ہے۔ اب آپ غور کیجئے کوئی شخص اگر ایک مفتی دین کے لباس میں یہ فتوی دے کہ صیہونزم کے خلاف جدوجہد حرام ہے یا صیہونزم کے خلاف بر سر پیکار فلاں گروہ کی مدد کرنا جائز نہیں ہے! تو یہ واقعی ایک المیہ ہے کہ عالم اسلام میں کچھ لوگ اس طرح اسلام کے مفادات کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ دشمنوں سے دوستانہ روابط رکھتے ہیں۔ قرآن کے صریحی فرمان کے خلاف جس نے مومنین کو «اَشِدّآءُ عَلَى الکُفّارِ رُحَمآءُ بَینَهُم‌» (4) قرار دیا ہے، یہ لوگ «اشدّاء علی المسلمین» اور کفار کے سلسلے میں بڑے رحمدل ہیں۔ وہ کفار کے  لئے بہت اچھے اور مسلمانوں کے لئے بہت برے ہیں۔ آپ دیکھئے کہ یہ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ یہ  تفرقہ انگیزی۔ عراق، شام اور دیگر علاقوں میں داعش اور اس کے جیسے دوسرے شجرہ خبیثہ کو وجود میں لانا!

البتہ عراق و شام میں یہ شجرہ خبیثہ تو سرنگوں ہو چکا ہے لیکن ہنوز مطمئن نہیں ہوا جا سکتا، ممکن ہے کہ اب کہیں اور یہی بساط بچھائی جائے۔ امریکہ اسلام کی دشمنی سے باز نہیں آئے گا۔ ہمیں بیدار رہنا ہوگا، ہوشیار رہنا ہوگا، ہمیشہ آمادہ و تیار رہنا ہوگا، غفلت سے بچنا ہوگا۔ امیر المومنین علیہ السلام نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں؛ وَ اللهِ لَا اَکونُ کَالضَّبُعِ تَنامُ عَلىٰ طولِ اللَدم؛ (5) ہمیں ایسا ہونا چاہئے۔ ہمیں خواب غفلت میں نہیں پڑنا چاہئے، ہمیں غافل نہیں ہونا چاہئے، دشمن کی سازشوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے، ہمیں بیدار رہنا چاہئے۔

اس بیداری کے کچھ تقاضے بھی ہیں۔ اس کا ایک تقاضا برادری اور محبت ہے جو ہمارے درمیان ہونا چاہئے۔ اس محبت کا تقاضا یہ ہے کہ دنیائے اسلام سے کھلے عام دشمنی کرنے والے یا ان دشمنوں کی مدد کرنے والے عناصر کا مقابلہ کیا جائے۔ آپ مختلف ممالک میں اس پیغام کو عام کیجئے۔ مسلمانوں کے اندر مقابلہ آرائی کی آمادگی پیدا کیجئے۔ مقابلہ آرائی سے ہمیشہ مراد جنگ نہیں ہوتی۔ بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنے مخاطب افراد یعنی ان افراد کے اذہان کو جو آپ کی بات سنتے ہیں ان حقائق سے روشناس کرائیے جو عالم اسلام میں اس وقت موجود ہیں۔ ہم ہرگز اس فریضے کو ترک نہیں کریں گے، ہم ہرگز اس سے دست بردار نہیں ہوں گے اور ہمیں یقین ہے کہ اللہ تعالی اس مہم کو آگے لے جانے میں یقینا ہماری مدد کرے گا۔ جو لوگ قرآن کریم کی اس آیت کے برخلاف «یٰاَیُّهَا الَّذینَ ءامَنوا لا تَتَّخِذوا عَدُوّی وَ عَدُوَّکُم اَولِیآءَ تُلقونَ اِلَیهِم بِالمَوَدَّة» (6) ان لوگوں کو جو مسلمانوں کے دشمن ہیں، اسلام کے دشمن ہیں، اللہ کے دشمن ہیں اپنا دوست بناتے ہیں اور ان کے لئے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں وہی اسلام کے حقیقی دشمن ہیں وہ بھی اسلامی معاشرے کے اندر۔

بحمد اللہ آج دنیائے اسلام بیدار ہو چکی ہے۔ مختلف ممالک میں ہم مسلمان ایک عظیم حقیقت کے طور پر موجود ہیں، ایسی حقیقت جو استکبار و کفر پر مسلط ہو گئی ہے۔ آج دنیائے کفر و استکبار کے مقابلے میں دنیائے اسلام کھڑی ہو سکتی ہے اور اپنی بات منوا سکتی ہے۔ بحمد اللہ ایران کی سرزمین میں اسلام کے نام پر ایک حکومت تشکیل پائی ہے جو اسلامی حکومت ہونے پر فخر کرتی ہے۔ البتہ اپنے ملک میں پوری طرح اسلام کی حکمرانی قائم کرنے کی اپنی تمام آرزوئیں ہم ہنوز پوری نہیں کر پائے ہیں، ابھی ہم بیچ راستے میں ہیں، ابھی آدھا راستہ ہی طے ہوا ہے، تاہم ہمارا ہدف تمام اسلامی اہداف کو عملی جامہ پہنانا اور اسلامی شریعت کو مضبوط بنانا ہے۔ یہ ہمارا نصب العین ہے اور ہم توفیق خداوندی سے، اذن پروردگار سے اس ہدف کے لئے کوشاں رہیں گے اور یہ دشمنان اسلام پر فتح کا ذریعہ بنے گا۔ یہ حقیقت آج یہاں موجود ہے۔

عزیز بھائیو اور بہنو! اسلامی جمہوریہ کی تشکیل کو تقریبا چالیس سال کا عرصہ گزرا ہے۔ روز اول سے آج تک امریکہ نے ہم سے دشمنی کا برتاؤ کیا ہے۔ کفر و استکبار و صیہونزم کے محاذ نے ہم سے دشمنی نکالی ہے، ہمارے خلاف سازشیں کی ہیں، ہمارے خلاف جو کچھ بھی ہو سکتا تھا اس نے کیا۔ پابندیاں لگائیں، لشکر کشی کی، مختلف اقدامات کئے، مگر ان سب کے باوجود تقریبا اس چالیس سال کی مدت میں ہم بلا وقفہ پیشرفت حاصل کرتے رہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی آج کی پیشرفت کا تیس سال اور پینتیس سال قبل کی صورت حال سے کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ دشمنوں نے ہمیں مٹا دینا چاہا، لیکن اس کے باوجود اللہ نے ہمیں قوت دی، ہمیں تقویت پہنچائی۔ ہمیں اس سے بھی زیادہ طاقتور بنا دیا جس کی ہم آرزو کرتے تھے۔ آج بحمد اللہ اسلامی جمہوریہ قدرت و طاقت کے اوج پر ہے اور ثابت قدمی سے ڈٹی ہوئی ہے۔ ہم علی الاعلان اپنی بات پیش کرتے ہیں اور اپنی بات پر قائم رہتے ہیں۔ جہاں کہیں بھی ہماری موجودگی ضروری ہوتی ہے، جہاں بھی کفر و استکبار کے محاذ کا مقابلہ کرنے کے لئے ہماری مدد کی ضرورت ہوتی ہے ہم وہاں مدد کرتے ہیں۔ یہ بات ہم اعلانیہ طور پر کہہ رہے ہیں۔ یہ بات کہنے میں ہمیں کوئی دریغ نہیں ہے۔ کفر و استکبار کے مقابلے کا معاملہ ہو تو ہم کسی تکلف میں نہیں پڑتے بلکہ اپنے دل کی بات بالکل صریحی طور پر بیان کرتے ہیں۔ آج دنیائے اسلام میں اس طرح کے حقائق موجود ہیں اور ہم دعا کرتے ہیں کہ توفیق  خداوندی سے وہ دن قریب آئے جب فلسطین فلسطینی عوام کو مل جائے، فلسطین کے عوام اپنی سرزمین کے مالک بن جائیں، فلسطینی پناہ گزیں اپنے گھروں کو لوٹیں۔ وہ دن دنیائے اسلام کے لئے جشن اور عید کا دن ہوگا۔ اس دن استکبار پر کمر شکن ضرب پڑے گي اور ہم اس کے لئے کام کر رہے ہیں، محنت کر رہے ہیں۔ ان شاء اللہ وہ دن ضرور آئے گا۔ میں ایک بار پھر آپ عزیز بھائیوں اور بہنوں کو خوش آمدید کہتا ہوں اور آپ سب کو اللہ کے حفظ و امان میں دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ آپ کا اجلاس بابرکت ثابت ہو۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته

۱) اس ملاقات کے آغاز میں اسلامی بیداری ورلڈ اسمبلی کے سکریٹری جنرل ڈاکٹر علی اکبر ولایتی نے 'محبین اہلبیت اور تکفیریت کا مسئلہ' کانفرنس سے متعلق ایک رپورٹ پیش کی۔ یہ کانفرنس 22 اور 23 نومبر کو منعقد ہوئی۔

2) امالی شیخ صدوق، صفحہ ۴١۵ (قدرے تفاوت کے ساتھ)

3) سوره‌ احزاب، آیت نمبر ۳۳ کا ایک حصہ؛ «...بے شک اللہ کا ارادہ ہے کہ اے اہل بیت آپ سے رجس کو دور رکھے اور آپ کو پاک و پاکیزہ رکھے۔»

4) سوره‌ فتح، آیت نمبر ۲۹ کا ایک حصہ «... کفار کے لئے سخت اور آپس میں مہربان ہیں۔...»

5) نهج‌ البلاغه، خطبه‌ نمبر ۶؛ « خدا کی قسم میں اس لکڑ بگھے کی طرح نہیں ہوں جسے لکڑی اور پتھر کا شور مچا کر ماند کے اندر سلا دیا جائے۔»

6) سوره‌ ممتحنه، آیت نمبر ۱ کا ایک حصہ؛ « اے وہ لوگ جو ایمان لائے! میرے دشمن کو اور اپنے دشمن کو دوست نہ بناؤ، اس طرح سے کہ اس سے اظہار دوستی کرنے لگو۔...»