بسم الله الرّحمن الرّحیم

و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی‌ القاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین سیّما بقیّة الله فی الارضین وعلی صحبه المکرّمین و من تبعهم باحسان الی یوم الدّین.

برادران عزیز، خواہران گرامی، پورے سال جاری رہنے والی عظیم عوامی تبلیغاتی تحریک کے عہدیداران، ان اداروں کے حکام جو تبلیغی امور کی کوآرڈینیٹنگ کونسل سے تعاون کرتے ہیں اور ان عظیم اقدامات میں مدد کرتے ہیں، آپ سب کا خیر مقدم ہے۔ حضرت امام حسن عسکری علیہ الصلاۃ و السلام کے یوم ولادت با سعادت کی مبارک باد پیش کرتا ہوں جو اس سال ان ایام میں پڑا ہے۔ 9 دی (مطابق 30 دسمبر) کی عظیم عوامی تحریک کی قدردانی کرتے ہیں اور دعا ہے کہ اللہ تعالی اس عوامی تحریک اور اس سے حاصل ہونے والی برکتوں کو اپنے لطف و رحمت سے بہرہ مند کرے، اسے درجہ قبولیت عطا فرمائے اور اس عمل میں مزید برکت دے۔

تبلیغی امور کی کوآرڈینیٹنگ کونسل کا سب سے اہم کام تبلیغ کرنا ہے۔ تبلیغ کا قرآنی پس منظر ہے، یہ ایسا عمل نہیں ہے کہ جسے ہم نے اختراع کیا ہو یا دنیا میں کسی سے ہم نے سیکھا ہو۔ اللہ تعالی سورہ احزاب میں ارشاد فرماتا ہے؛ اَلَّذینَ یُبَلِّغُونَ رِسالٰتِ اللهِ وَ یَخشَونَهُ وَ لا یَخشَونَ اَحَدًا اِلَّااللَهَ وَکَفَىٰ بِاللهِ حَسیبًا (۲) اور سورہ مبارکہ مائدہ میں ارشاد فرماتا ہے؛ یٰاَیُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغ ما اُنزِلَ اِلَیکَ مِن رَبِّک (۳) پروردگار عالم اپنے پیغمبر کو تبلیغ کا حکم دیتا ہے۔ قرآن کی متعدد آیتوں میں پیغمبروں کے حوالے سے بار بار تبلیغ کے مسئلے کا ذکر ہوا ہے؛ اُبَلِّغُکُم رِسَالٰتِ رَبّی وَ اَنصَحُ لَکُم (۴) تبلیغ یعنی کیا؟ یعنی پہنچانا، کیا پہنچانا؟ کوئی پیغام پہنچانا، کوئی بات پہنچانا۔ یہی اسلامی تبلیغ کا مطلب ہے۔ لیکن اس تبلیغ کی شرط یہ ہے کہ صداقت کے ساتھ ہو، اخلاص کے ساتھ انجام دی جائے، دیانتداری کے ساتھ انجام دی جائے، ذمہ دارانہ انداز میں انجام دی جائے۔ یہ تبلیغ کا مفہوم ہے۔ آپ جو با عظمت عمل انجام دیتے ہیں، اس کی یہ حقیقت ہے۔ مادہ پرست حکومتوں، خاص طور پر مغرب میں بھی تبلیغ ہوتی ہے جسے اصطلاحا پروپیگنڈا کہا جاتا ہے۔ لیکن ان دونوں میں کلیدی اور بنیادی فرق ہے۔ پروپیگنڈا رائے عامہ کو کنٹرول کرنے کے لئے کیا جاتا ہے، قدرت کے حصول، منفعت کے حصول اور پیسے کے حصول کے لئے انجام دیا جاتا ہے۔ اس قضیئے میں اہل مغرب کی مہارت واقعی بہت زیادہ ہے۔ وہ مغربی تبلیغ یا مغربی انداز کا پروپیگنڈا تو بہت اچھی طرح کر لیتے ہیں۔ پیسے بھی کماتے ہیں، اس سے طاقت بھی حاصل کرتے ہیں۔ کس طرح سے؟ رائے عامہ کو کنٹرول کرکے۔ لیکن اسلامی تبلیغات کا قضیہ یہ نہیں ہے۔ اسلامی تبلیغ کا مطلب ہے عوام کے ساتھ افہام و تفہیم، یہاں کنٹرول کرنے کی بحث نہیں ہے، یہاں افہام و تفہیم کی بحث ہے۔ اذہان کو ایک عالی و بلند ہدف کی جانب مرکوز کرنا اور اذہان کو ایک دوسرے کے قریب لانا ہے۔ اس مفاہمت کا اثر کیا ہوتا ہے؟ مفاہمت کا اثر یہ ہوتا ہے کہ عوام نیک اور  بنیادی کاموں کے سلسلے میں خود بخود اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ اس میں یہ ہوتا ہے۔ اسلامی تبلیغ میں قدرت و طاقت کا حصول نہیں ہے، یہاں پیسہ کمانے کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ عوام کو ذمہ داری کا احساس کرانے کی بحث ہے۔ وہ خود اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہیں، خود میدان میں اترتے ہیں، اس عظیم عوامی عمل کا جو اثر ہوتا ہے اس کا فائدہ بھی خود عوام کو ملتا ہے۔ یہ تبلیغ کا مطلب ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو یہ بالکل مختلف ہے اس عمل سے جو اہل مغرب  انجام دیتے ہیں۔ مغربی پروپیگنڈے میں عوام کو دھوکا دینے میں کوئی حرج نہیں ہوتا، اداکاری کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہوتا، اداکاروں کے انداز میں سرگرمیاں انجام دینے میں کوئی قباحت نہیں ہوتی، دروغگوئی میں بھی کوئی حرج نہیں ہوتا۔ جو چیز بھی انسان کو اس مادی نتیجے تک پہنچا دے وہ مغربی پروپیگنڈے میں بالکل جائز ہے۔ لیکن اسلامی تبلیغ میں ایسا ہرگز نہیں ہے۔ اسلامی تبلیغ میں صداقت، دیانتداری، احساس ذمہ داری جیسی خصوصیات لازمی ہیں۔ تو یہ کچھ باتیں خود تبلیغ کے تعلق سے تھیں۔

جب کسی قضیئے میں رائے عامہ ہموار ہو جاتی ہے اور لوگوں میں ایک نظریہ اور موقف پیدا ہو جاتا ہے تو فطری طور پر اقدامات اور جسمانی سرگرمیاں بھی انجام پاتی ہیں۔ لوگوں کے ذہن متحرک ہو جاتے ہیں، خلاقانہ صلاحیتیں حرکت میں آ جاتی ہیں۔ ظاہر ہے اسلامی تبلیغ میں عوام کو مواقع اور اندیشوں دونوں سے آگاہ کر دیا جاتا ہے، عوام کے سامنے دوستوں اور دشمنوں کا تعین کر دیا جاتا ہے، ان کی نشاندہی کر دی جاتی ہے، عوام کے اندر خود اعتمادی کا جذبہ پیدا کیا جاتا ہے، یہ ساری چیزیں تبلیغ میں ہوتی ہیں۔ آپ ان سخت ترین حالات میں جو در پیش تھے پیغمبروں کی تبلیغ کا جائزہ لیجئے، انتہائی سخت حالات میں جنگ خندق کے دوران خندق کھودی جا رہی تھی، شہر مدینہ کے ایک اہم سرے پر یہ خندق کھودی جا رہی تھی، بھوک کا عالم تھا، شدید گرمی تھی، خود پیغمبر اکرم بھی مسلمانوں کے ساتھ کام میں مصروف تھے۔ خندق کھودتے وقت مسلمانوں کو بڑا سنگین پتھر ملا جسے جنبش دے پانا بھی بہت مشکل تھا، لاکھ کوششوں کے بعد بھی پتھر ہٹایا نہیں جا سکا۔ رسول اللہ سے لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ بڑا سنگین پتھر آ گیا ہے جسے ہم ہٹا نہیں پا رہے ہیں۔ حضرت خود وہاں تشریف لائے، کدال ہاتھ میں لی اور بہت زور سے پتھر پر کدال ماری تو اس سے ایک بجلی سی نکلی۔ پیغمبر نے فرمایا کہ میں نے اس بجلی میں کسری کا محل دیکھا ہے جو آپ کے قبضے میں آ جائے گا۔ آپ دیکھئے! کیسے حالات میں، اتنے سخت حالات میں پیغمبر اکرم فرماتے ہیں کہ میں کسری کا محل دیکھ رہا ہوں جو آپ کے اختیار میں آنے والا ہے۔ دوبارہ پتھر پر کدال ماری اور فرمایا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ روم کی سلطنت کو شکست دے رہے ہیں۔ یہ ہے امید اور خود اعتمادی کا جذبہ پیدا کرنا۔ البتہ پیغمبر کی نظر اور ہماری نظر میں، پیغمبر کے آس بندھانے، خبر دینے اور ہمارے آس بندھانے اور خبر دینے میں، زمین آسمان کا فرق ہے۔ وہ مشاہدہ کر لیتے تھے، حقیقت دیکھ لیتے تھے، مگر ہم تجزیہ کرتے ہیں، اندازہ لگاتے ہیں۔ تبلیغ میں امید و خود اعتمادی ہونا چاہئے۔ کسی بھی قوم کے لئے بدترین چیز یہ ہے کہ وہ اپنی خود اعتمادی کھو دے، مستقبل کے تعلق سے اپنی امید کھو بیٹھے۔

برادران عزیز، خواہران گرامی! آپ یہ بات جان لیجئے کہ آج دشمن کا سب سے بڑا منصوبہ یہ ہے، وسیع پیمانے پر جو سرگرمیاں انجام دی جا رہی ہیں وہ سب اس لئے ہیں کہ ملت ایران کے اندر جو جذبہ خود اعتمادی ہے وہ ختم ہو جائے۔ میں نے یہ آیت جو پڑھی؛ اَلَّذینَ یُبَلِّغونَ رِسالٰتِ اللهِ وَ یَخشَونَه ‌ُوَ لا یَخشَونَ اَحَدًا اِلَّا الله، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس تبلیغ کے کچھ دشمن بھی ضرور ہوں گے۔ جب یہ ارشاد ہوتا ہے کہ وہ اللہ کے پیغامات کی تبلیغ کرتے ہیں، اللہ سے ڈرتے ہیں اور غیر خدا سے نہیں ڈرتے، تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ غیر اللہ اس تبلیغ الوہی کی راہ میں، تعلیمات الہیہ کے مبلغین کی راہ میں صف آرا ہیں اور دعوت پر بحث و جدال ہے۔ یا پھر اس آیہ شریفہ میں؛ «بَلِّغ ما اُنزِلَ اِلَیکَ مِن رَّبِّکَ وَ اِن لَم تَفعَل فَما بَلَّغتَ رِسالَتَهُ وَ اللهُ یَعصِمُکَ مِنَ النّاس» (5) ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ آپ کی حفاظت کرے گا۔ آپ فکرمند نہ ہوں، دشمن کے سلسلے میں کسی تشویش میں مبتلا نہ ہوں، تو اس سے ظاہر ہے کہ تبلیغ پیغمبر کے مد مقابل دشمنوں کی پوری صف ہے، دشمنوں کا محاذ ہے۔ عزیز بھائیو اور بہنو! اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ جب تبلیغ کرتے ہیں تو بنیادی تبلیغ کرتے ہیں۔ آپ کی اس تبلیغ کے خلاف ایک دشمن محاذ موجود ہے۔ اسے آپ بخوبی سمجھ لیجئے۔

تبلیغ بھی جنگ کا میدان ہے۔ کچھ لوگ جنگ کے نام سے برافروختہ ہو جاتے ہیں۔ جیسے ہی کسی نے کہا اقتصادی جنگ یا فکری و تشہیراتی جنگ وہ برا مان جاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ "جناب آپ جنگ کا اتنا تذکرہ کیوں کرتے ہیں؟ آشتی کی بات کیجئے!" ظاہر ہے جنگ ہو ر ہی ہے۔ یہ تو ہماری غفلت ہے کہ دشمن کی نظریں ہمارے اوپر مرکوز ہیں، دشمن محاذ نے ہمارے اوپر نشانہ لگا رکھا ہے، ہم پر گولی چلانا چاہتا ہے، مگر ہمیں خبر ہی نہیں ہے۔ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا؛ «مَن نامَ ‌لَم ‌یُنَم عَنه»؛(6) محاذ پر اگر آپ سو گئے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کا فریق مقابل بھی، آپ کا دشمن بھی سو گیا ہے۔ وہ آپ پر نظر لگائے ہوئے ہیں، وہ آپ کی نگرانی کر رہا ہے، وہ اسی انتظار میں ہے کہ آپ کی آنکھ بند ہو۔ جنگ کے نام سے انسان کو ڈرنا نہیں چاہئے، دشمن اس وقت جنگ میں مصروف ہے، یہ جنگ عسکری جنگ نہیں ہے۔ فوجی مقابلہ آرائی نہیں کر رہے ہیں، ان کی یہ مجال بھی نہیں ہے کہ فوجی چڑھائی کریں۔ لیکن پھر بھی جنگ ہے، نفسیاتی جنگ ہے، ایسی جنگیں ہیں جو عسکری جنگ سے زیادہ خطرناک ہیں۔ دشمن ہمارے خلاف حالت جنگ میں ہے۔ تو آپ اس بات پر توجہ رکھئے کہ تبلیغ کا مطلب ہے دشمن کا مقابلہ۔ صحیح تبلیغ، یعنی حقیقت کے دشمنوں سے مقابلہ آرائی، ظلم و ظلمات سے مقابلہ آرائی، یہ ہے تبلیغ کا مفہوم، یہ ہے تبلیغ کی حقیقت۔

ہمارا چالیسواں سال قریب ہے، کس چیز کا چالیسواں سال؟ ایک نئي حقیقت کی رونمائی کا چالیسواں سال کہ جس نے دنیا میں طاقت کے ڈھانچے کو بدل دیا، ہلا کر رکھ دیا۔ آپ یہ نہ دیکھئے کہ دنیا کی فلاں ہنگامہ خیز طاقت ہنوز اپنی جگہ پر قائم ہے۔ یہ بات صحیح ہے، ہمارا یہ دعوی نہیں ہے کہ ہم دنیا کی ساری طاقتوں کو تباہ کر دیں گے، یہ ہمارا کام نہیں ہے، ایک دن ایسا آئے گا جب دست خداوندی کے ذریعے یہ کام انجام پائے گا۔ ہمارا کام یہ ہے کہ دنیا میں جو طاقت کا موجودہ ڈھانچہ اور موجودہ تسلط پسندانہ نظام ہے اسے ختم کریں، اور ہم نے ختم کر دیا۔ تسلط پسندانہ نظام کا مطلب یہ ہے کہ دنیا دو حصوں میں تقسیم ہو، قومیں اور ممالک دو حصوں میں تقسیم ہوں۔ ایک حصہ استعماری اور تسلط پسند قوتوں کا اور دوسرا گروہ تسلط کی شکار قوموں کا۔ ہم نے دنیا میں اس نظام کو اوراس غلط فارمولے کو درہم برہم کر دیا ہے۔ ہم نے ثابت کر دیا کہ ایسا نہیں ہے، کوئی قوم اگر ٹھان لے کہ نہ تو وہ تسلط پسند بننا چاہتی ہے اور نہ تسلط کا شکار، نہ خود کسی پر دھونس جمانا چاہتی ہے اور نہ کسی کی دھونس میں آنا چاہتی ہے تو یہ ممکن ہے، ملت ایران نے اسے عملی طور پر ثابت کر دیا ہے۔ کتابیں لکھتے ہیں، مفکرین اور سیاسی تجزیہ نگار اس طرح کی باتیں لکھتے ہیں، لیکن کتاب اور تحریر ایک چیز ہے اور عملی حقیقت ایک الگ چیز ہے۔ اسلامی انقلاب نے اس عملی حقیقت کو وجود بخشا ہے۔ اسلامی انقلاب نے پرانے سسٹم کو توڑ دیا۔

پرانا سسٹم ٹوٹا تو دشمن خاموش نہیں رہے، انھوں نے روز اول سے ہی دشمنی شروع کر دی اور اب تقریبا چالیس سال کا عرصہ ہو رہا ہے۔ اس چالیس سال کے عرصے میں گوناگوں انداز سے دشمنی برتی گئی، آپ تو واقف ہیں، البتہ نئي نسل کو، نوجوان نسل کو ان حقائق سے آگاہ کیا جانا چاہئے۔ جنگ، پابندیوں، فحش کلامی، تہمت و الزام تراشی، دراندازی، سازش، سیکورٹی اقدامات، ثقافتی یلغار، داخلی فتنہ و اختلاف سے لیکر ہر ممکن کام انھوں نے کیا، اس پر پیسہ خرچ کرنے میں بھی دریغ نہیں کیا، لیکن ہر موڑ پر انھیں ہزیمت اٹھانی پڑی۔ چالیس سال کا عرصہ ہو رہا ہے۔ اگر ان کی سازشیں کارگر ثابت ہوتیں تو اب تک اسلامی جمہوریہ سو دفعہ سرنگوں ہو چکی ہوتی۔ رائج اصطلاح میں یوں کہا جائے کہ اب تک اسے سات کفن پہنا چکے ہوتے۔ لیکن آج ہمارے پاس چالیس سال کی مقتدرانہ  پوزیشن ہے۔ ملت ایران چالیس سال سے دشمنیوں، خباثتوں اور سخت دباؤ کا کامیابی سے سامنا کر رہی ہے اور اس نے ان سب پر غلبہ حاصل کیا ہے۔

ملت ایران نے ایسی دشوار گزار چوٹیاں سر کی ہیں جن میں سے کسی ایک چوٹی کو سر کرنا قوموں کے لئے ممکن نہیں ہو پاتا۔ آپ موازنہ کر لیجئے۔ اسلامی بیداری کی لہر تو آپ کو یاد ہے نا؟ کچھ ملکوں میں تحریکیں شروع ہوئیں، بڑے با عظمت مناظر نظر آئے، کچھ قومیں اٹھ کھڑی ہوئیں، آگے بڑھیں، مگر انجام کیا ہوا؟ کہاں پہنچیں؟ وہ کیا کر پائیں؟ عرب ممالک میں شمالی افریقا میں اور مغربی ایشیا میں اسلامی بیداری کی لہر خانہ جنگی، داخلی آشوب، برادر کشی، فرقہ وارانہ تصادم، قومیتی اختلاف میں بدل گئی اور آج تک وہ قومیں اسی میں الجھی ہوئی ہیں، یہ پہلا مرحلہ تھا۔ پہلے مرحلے کو بھی عبور نہیں کر پائیں۔ لیکن ملت ایران پوری توانائی کے ساتھ اور سربلندی کے ساتھ ان تمام مراحل سے گزر گئی۔

سلطنتی نظام کو سرنگوں کر دینا، اکھاڑ پھینکنا کوئی معمولی کام نہیں تھا جو اس ملک میں انجام دیا گيا۔ یہ ملک صدیوں سے سلطنتی نظام سے چل رہا تھا۔ عوام پر کوئی توجہ نہ دینے والی مطلق العنانیت، جس کے لئے رائے عامہ کی کوئي حیثیت نہیں، جو چاہے کر گزرے، جس طرح چاہے حکومت کرے، صدیوں سے ہمیں ایسے حکومتی نظام کی عادت پڑ گئی تھی۔ اسلامی جمہوریہ نے، امت کے امام نے اور امام کی قیادت میں ملت نے اس نظام کا قلع قمع کر دیا۔ یہ بہت بڑا کارنامہ تھا۔ یہ بہت بڑا کارنامہ تھا۔ لیکن شاہی نظام کی سرنگونی کے بعد بعض کارنامے ایسے انجام دئے گئے جو اس اصلی کارنامے سے زیادہ اہم تھے۔ اس چالیس سال کے عرصے میں اسلامی نظام کی حفاظت کرنا، آپ جانتے ہیں کہ اس ملک پر اور اس ملت پر کیسا سخت دباؤ پڑا؟! مگر اس قوم نے اسے تحمل کیا اور استقامت کا مظاہرہ کیا۔ عرب ممالک میں جو یہ آشوب، شورش، بغاوت اور انقلاب نظر آیا اسلامی انقلاب سے اس کا موازنہ واقعی عبرت آموز ہے۔ جو ممالک کامیاب بھی ہوئے مثال کے طور پر شمالی افریقہ کے کچھ ممالک جو فرانس کے خلاف لڑ کر خود مختاری حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے، کچھ عرصہ بعد اسی استعماری گروہ کے کلچر میں ڈھل گئے۔ انھیں میں سے ایک ملک کے وزیر اعظم، میں اس وقت نام نہیں لینا چاہتا، یہاں آئے اور حقیر سے ان کی ملاقات ہوئی، وہ ہماری صدارت کا زمانہ تھا، مجھ سے گفتگو شروع ہوئی۔ عربی زبان میں بات کر رہے تھے۔ ایک بات بیان کرنا چاہ رہے تھے لیکن اس کا عربی لفظ انھیں نہیں معلوم تھا، فورا اپنے مشیر اور ساتھ بیٹھے شخص کی طرف دیکھا اور فرانسیسی لفظ کا استعمال کرکے پوچھا کہ اسے عربی میں کیا کہتے ہیں، پھر مشیر نے اس وزیر اعظم کو بتایا کہ اس لفظ کا عربی ترجمہ یہ ہے! یعنی فرانسیسی کلچر اس طرح اس ملک پر مسلط ہو چکا تھا کہ جو شخص ملک کا وزیر اعظم ہے اسے بھی عربی زبان ٹھیک سے نہیں آتی جو اس کی اپنی زبان ہے۔ عربی لفظ کو فرانسیسی میں سمجھایا جائے تب وہ سمجھیں گے کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ اس طرح یہ ممالک الجھ کر رہ گئے، بیچ راہ میں پھنس گئے، اسی راستے پر اسلامی جمہوریہ چالیس سال سے مضبوطی کے ساتھ رواں دواں ہے۔ تو دشمنیاں تھیں اور آج بھی ہیں۔

آپ توجہ رکھئے، اہم چیز یہ ہے کہ ہمیں ہر دور میں اس بات کا ادراک ہونا چاہئے کہ دشمن کی دشمنی کا طریقہ کیا، دشمن ہمارے خلاف کیا کر رہا ہے، دشمن کا منصوبہ کیا ہے۔ بالکل عسکری جنگ کی طرح۔ عسکری جنگ میں اگر آپ نے دشمن کے منصوبے کو بھانپ لیا تو آپ پیشگي احتیاطی تدبیر کریں گے، خود کو آمادہ کریں گے، یا تو اپنا دفاع کریں گے یا پھر ممکن ہے پیشگي حملہ انجام دیں۔ عسکری جنگ میں یہ ہوتا ہے۔ تشہیراتی جنگ میں، اقتصادی جنگ میں، ثقافتی جنگ میں، سیکورٹی کی جنگ میں، اثر و نفوذ کی جنگ میں، ان تمام جنگوں میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ آپ اندازہ لگا لیجئے کہ دشمن کیا کرنا چاہتا ہے۔ اب تو اندازہ لگانے کی بھی ضرورت نہیں ہے، ہر سمجھدار انسان کے لئے بالکل واضح ہے۔ ہزاروں توپیں، دروغ گوئی کی توپیں، مشکلات کو مبالغے کے ساتھ بیان کرنے والی توپیں، اس ملت کی طرف ان راستوں سے جو آج فراہم ہیں اور کل نہیں تھے، مسلسل حملے کر رہی ہیں۔ ہم یہ بات سوشل میڈیا کے بارے میں کہہ رہے ہیں۔ ہمارا یہ مشورہ ہے کہ سوشل میڈیا میں دشمن کی توپوں کی گولہ باری کی طرف سے ہوشیار رہئے، اپنے حواس بجا رکھئے۔ دشمن اس میدان کو آپ کے تشخص کے خلاف، آپ کے وجود کے خلاف، آپ کے نظام کے خلاف اور آپ کے انقلاب کے خلاف استعمال نہ کرنے پائے۔ بے بنیاد اعداد و شمار دیتے ہیں، جھوٹ بولتے ہیں، غلط باتیں منسوب کرتے ہیں، عوام میں مقبول شخصیات کی، جن پر عوام کو بھروسہ اور اعتماد ہے، کردار کشی کرتے ہیں، اسلامی انقلاب کی کامیابیوں کو چھپاتے ہیں، جھٹلا دیتے ہیں، ناکامیوں کے معاملے میں، کمزوریوں اور نقائص کے بارے میں یہ روش ہے کہ اگر ایک ہو تو ہزار بتاتے ہیں۔ اگر کسی ایک جگہ پر ہو تو کہتے ہیں کہ ہر جگہ یہ نقص ہے۔ دشمن یہی سب تو کرتا ہے۔ یہ دشمن کے کام ہیں۔ کس لئے؟ اس لئے کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کا راز دشمن کو معلوم ہو گیا ہے۔ اس کا راز عوام کا عقیدہ اور ایمان ہے۔ دشمن اسی جذبہ ایمانی کو ختم کر دینے کے در پے ہے۔ اگر پختہ عمر کے افراد پر اس کا بس نہيں چلا تو اس کی کوشش یہ ہے کہ نوجوانوں، نوجوان نسل، نئی نسل کے ایمان و عقیدے کو ختم کر دے، تاکہ آئندہ عوام اس انقلاب اور اس نظام کی پشت پناہی نہ کریں۔ آج دشمن یہ کام کر رہا ہے۔

افسوس کا مقام ہے کہ ملک کے اندر بھی کچھ لوگ وہی دشمن والا عمل دہراتے ہیں۔ ان میں بعض کو احساس ہوتا ہے کہ وہ کیا کر رہے ہیں، بعض نہیں سمجھتے اور یہ کام کرتے ہیں۔ بالکل دشمن کا کام کرتے ہیں۔ عوام میں مایوسی پھیلانا، کبھی کسی کو اور کبھی کسی اور کو مورد الزام ٹھہرانا۔ دشمن کے کھلے جھوٹ کو لوگوں کے ذہنوں میں عین حقیقت کے طور پر اتار دینا اور اسے سچ ظاہر کرنا۔ یہ ایسے کام ہیں جو بد قسمتی سے ملک کے اندر کچھ لوگ کر رہے ہیں۔ جو لوگ ملک کے اندر دشمن کا کام کر رہے ہیں ان کے یہاں تقوا کا فقدان ہے۔ ان کا دین، سیاسی ہے۔ بجائے اس کے کہ ان کی سیاست، دینی ہو، ان کا دین سیاست بازی ہے۔ ہماری سیاست، دینی ہونا چاہئے، نہ یہ کہ ہماری دینداری پر سیاسی رنگ چڑھ جائے، ہم پست و حقیر سیاسی اہداف کی سمت چل پڑیں۔ یہ لوگ اسی مزاج کے ہیں، ان کے یہاں تقوی نہیں ہے۔ دشمن کا کام کر رہے ہیں تاکہ کسی خاص دھڑے کو تقویت پہنچا سکیں، کسی خاص دھڑے کو کٹہرے میں کھڑا کر دیں، کسی شخص کو بلندی پر پہنچا دیں، کسی شخص کو حاشئے پر ڈال سکیں۔ یہ ایسے کام ہیں جو بد قسمتی سے ملک کے اندر انجام پا رہے ہیں۔

بعض کے پاس میڈیا نہیں ہے، بعض کے پاس ذرائع ابلاغ ہیں، تشہیراتی مرکز ہے، تشہیراتی پلیٹ فارم ہے، وہ اپنی بات پیش کر سکتے ہیں، اپنی بات کہہ سکتے ہیں، لیکن کسی چیز کا بھی خیال رکھے بغیر۔ نہ اللہ کا خیال ہے، نہ دین کا خیال ہے، نہ انصاف کا لحاظ ہے۔ وہی سب جو دشمن چاہتا ہے یہ انجام دیتے ہیں۔ دشمن بھی جب دیکھتا ہے کہ ملک کے اندر یہ ساری چیزیں ہو رہی ہیں، تو بڑے ذوق و شوق سے منعکس کرتا ہے، ان کی آج دن میں کہی ہوئی باتیں، رات کو بیان کی گئی باتیں آپ دیکھیں گے کہ برطانیہ کے ریڈیو سے، امریکہ کے ریڈیو سے بہت وسیع پیمانے پر منعکس کی جا رہی ہیں۔ یہ لوگ دشمن کو خوش ہونے کا موقع دیتے ہیں۔ ملت کے خلاف اور اسلامی نظام کے خلاف دشمن کو خوشیاں فراہم کرتے ہیں، عوام کو مایوس کرکے، نوجوان نسل کو مایوس کرکے، نئی نسل کو مایوس کرکے۔ خاص طور پر وہ لوگ کہ تمام انتظامی وسائل یا آج ان کے اختیار میں ہیں یا کل ان کے پاس تھے۔ دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ کچھ لوگ ہیں، انسان دیکھ رہا ہے کہ یا تو آج ملک کے تمام انتظامی امور ان کے ہاتھوں میں ہیں، یا کل تمام انتظامی امور ان کے ہاتھوں میں تھے، مگر عالم یہ ہے کہ مغرب نوازوں کے بقول اپوزیشن کا رول ادا کر رہے ہیں۔ ملک آج جن لوگوں کے اختیار میں ہے یا کل جن کے اختیار میں تھا، انھیں ملک کے خلاف بیان بازی کرنے کا حق نہیں ہے، ملک کے خلاف موقف اختیار کرنے کا حق نہیں ہے۔ ذمہ دارانہ موقف اختیار کرنا چاہئے، انھیں تو جوابدہ ہونا چاہئے۔ جب میرے اختیار میں وسائل ہیں تو میں مدعی کیسے بن سکتا ہوں؟! مجھے تو جوابدہ ہونا چاہئے، مجھے جواب دینا چاہئے کہ ان وسائل کو میں نے کیسے استعمال کیا۔ جواب دینے کے بجائے مدعی بن جاتے ہیں، کبھی کسی کے خلاف تو کبھی کسی اور کے خلاف بیان دیتے ہیں۔ یہ تو نہیں ہو سکتا۔ عوام اسے قبول نہیں کریں گے۔ اب ممکن ہے کہ کوئی یہ سمجھے کہ عوام پر اس کا اثر ہوگا، لیکن ایسا نہیں ہے، عوام بیدار ہیں، عوام سمجھتے ہیں، اس صورت حال کو قبول نہیں کریں گے۔

اسلامی جمہوریہ کے تمام عہدیداران، اسلامی جمہوریہ کی تشکیل سے لیکر اب تک بڑی اہم خدمات انجام دیتے آئے ہیں۔ ہم نے خود دیکھا ہے، ہم موجود تھے، ہم قریب تھے، ہم نے دیکھا ہے کہ انھوں نے خدمات انجام دی ہیں۔ البتہ بعض اوقات دھچکا بھی پہنچایا ہے۔ خدمات بھی کیں، نقصان بھی پہنچایا۔ مجریہ کے عہدیداران، عدلیہ کے عہدیداران، مقننہ کے عہدیداران کی خدمات کا جو انھوں نے اس عرصے میں انجام دی ہیں، انسان کو شکریہ ادا کرنا چاہئے، اس کی قدردانی کرنا چاہئے۔ ان میں اکثریت خدمت گزار عہدیداران کی ہے۔ جو نقصان پہنچایا ہے اس پر تنقید کرنا چاہئے، نکتہ چینی کرنا چاہئے۔ لیکن تنقید منصفانہ اور نکتہ چینی ذمہ دارانہ ہونا چاہئے۔ فحش کلامی اور تہمت پر مبنی تنقید نہیں ہونا چاہئے۔ تنقید کرنا اور سننا واجب ہے۔ تاہم تہمت لگانا اور کیچڑ اچھالنا حرام ہے۔ تنقید اور تہمت میں فرق ہے، تنقید اور کیچڑ اچھالنے میں فرق ہے، تنقید اور دشمن کی باتوں کو رٹنے میں فرق ہے، تنقید منصفانہ ہونا چاہئے، عاقلانہ انداز میں ہونا چاہئے، ذمہ دارانہ انداز میں ہونا چاہئے۔ یہ ہنر نہیں ہے کہ کارکردگی کو بالکل تاریک ظاہر کیا جائے۔ یونہی بے سوچے سمجھے کبھی کسی ادارے کی، کبھی کسی اور ادارے کی، کبھی کسی شعبے کی اور کبھی کسی دوسرے شعبے کی مذمت شروع کر دیں! یہ تو کوئی بھی شخص، بلکہ بچہ بھی کر سکتا ہے کہ اپنے ہاتھ میں ایک پتھر اٹھائے اور شیشوں کو توڑ دے۔ یہ تو کوئی ہنر نہیں ہے۔ ہنر یہ ہے کہ انسان منطقی بات کرے۔ منصفانہ بات کرے۔ اپنی خواہشات کے لئے بات نہ کرے، ذاتی وجوہات کی بنیاد پر بات نہ کرے، جاہ طلبی کے لئے بات نہ کرے، بلکہ اللہ کو پیش نظر رکھے۔ اِنَّ السَّمعَ‌ وَ البَصَرَ وَ الفُؤادَ کُلُّ اُولٰئِکَ کانَ عَنهُ مَسئولاً،(7) آپ یاد رکھئے کہ جو باتیں آپ کر رہے ہیں وہ قیامت کے دن مجسم عمل کے طور پر آپ کے سامنے ظاہر ہوں گی۔ اللہ تعالی مواخذہ کرے گا۔ سوال کرے گا۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ انسان جو دل میں آئے بولتا چلا جائے۔ انقلابی ہونے اور انقلابی نما ہونے میں فرق ہے۔ انقلابیت نمائی کا مطلب یہ ہے کہ انسان اس طرح عمل کرے جس سے ظاہر ہو کہ ہم انقلابی ہیں۔ انقلابی ہونا سخت ہے۔ اس کے لئے التزام ضروری ہوتا ہے۔ دینداری ضروری ہوتی ہے۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ انسان ایک عشرے تک ملک کے تمام امور کا مالک رہے اور پھر ایک عشرے بعد ملک کا مخالف بن جائے۔ یہ نہیں ہو سکتا (8)۔ 30 دسمبر کی ملک گیر ریلیوں کا واقعہ جو اتنی عظمت کا حامل ہے وہ ایسے ہی افراد کو ملت کی طرف سے دیا جانے والا جواب تھا۔ 30 دسمبر کا واقعہ انقلاب کے اقدار کا دفاع تھا، دینی اقدار کا دفاع تھا۔ اس موقع پر ہم نے جس بات پر اصرار کیا وہ انتخابات کا دفاع تھا۔ میں نے صریحی طور پر کہا تھا کہ بڑا دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ آپ انتخابات کو کالعدم قرار دیجئے، تو میں انتخابات کو کالعدم قرار دینے کے اس دباؤ میں آنے والا نہیں ہوں۔ میں نے یہ اعلان کر دیا تھا۔ یہ انقلاب کے اقدار اور اسلامی نظام کے اقدار کی بحث تھی۔ یہ بحث اس وقت بھی تھی اور آج بھی ہے۔ ہمیں بہت محتاط رہنا چاہئے، بہت احتیاط کرنا چاہئے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ 'معیار افراد کا زمانہ حال ہے' اس جملے کا کیا مطلب ہے؟ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) با حکمت انسان تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس بات کی گیرنٹی کسی کے لئے بھی نہیں ہے کہ وہ تا دم مرگ راہ راست پر قائم رہے گا۔ ہر انسان کو اپنے اعمال  کی نگرانی کرنا چاہئے۔ ع 'حکم مستوری ومستی همه بر عاقبت است' (9)۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی تحریک شروع ہونے کے بعد سے چالیس پچاس سال کے اس عرصے میں سنہ 1961 اور 1963 سے لیکر ادھر کے برسوں میں کیسی کیسی چیزیں دیکھی ہیں۔ بلندیوں پر پہنچنا، نیچے گرنا، تندی، تساہلی، افراط عمل، کوتاہی، اس مدت میں ہم نے عجیب عجیب چیزیں دیکھیں۔ تو ہمیں بہت محتاط رہنا چاہئے۔

تبلیغ کے معاملات میں ایک چیز یہ انجام پانی چاہئے کہ عوام کے درمیان پھیلائے گئے شبہات اور ابہامات کا جواب دیا جائے۔ البتہ ہمارے تمام تبلیغی اور تشہیراتی اداروں کو چاہئے کہ خیال رکھیں، نظر رکھیں اور عمل کریں۔ وزارت اسلامی ہدایت، ادارہ تبلیغات، دفتر تبلیغات، وہ ادارے جو تشہیراتی و مواصلاتی ذرا‏ئع سے مربوط ہیں، قومی نشریاتی ادارہ اور دیگر ادارے، سب توجہ رکھیں۔ دشمن دائمی طور پر شبہات و ابہامات پیدا کر رہا ہے۔ یکے بعد دیگر مسلسل شبہات پیدا کر رہا ہے۔ ان گرہوں کو کھولنے کی ضرورت ہے۔ ان شبہات کے ازالے کی ضرورت ہے۔ اذہان کو مطمئن اور آسودہ کرنا ضروری ہے۔ ہمارے نوجوان کو سرگردانی کی کیفیت کا سامنا نہیں ہونا چاہئے۔ کوئی اس طرف سے تو کوئی دوسری طرف سے مسلسلہ شبہات پیدا کر رہا، دائمی طور پر اعتراضات کر رہے ہیں۔ نوجوان کی مدد کی جانی چاہئے، ذہنوں کی مدد کی جانی چاہئے۔

دشمن شکوک و شبہات ایجاد کرتا ہے، رائی کا پہاڑ بناتا ہے۔ ہمارے دشمن اپنے تشہیراتی اداروں میں اس انداز سے بات کرتے ہیں کہ گویا ان کے دیکھنے اور سننے والے حقیقی تعداد سے ہزار گنا زیادہ ہوں۔ ہزار لوگوں کو دس لاکھ ظاہر کرتے ہیں۔ اس طرح کا تاثر دیتے ہیں۔ ان کے فریب میں نہیں آنا چاہئے۔ دشمن کی اس مبالغہ آرائی کے دھوکے میں نہیں آنا چاہئے۔ اسلامی جمہوریہ کے بارے میں وہ جو تجزئے کرتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ میں یہ خرابی ہے وہ خرابی ہے، یہاں سے ویران ہو رہی ہے، وہاں سے نابود ہو رہی ہے، یہ حصہ ختم ہو چکا ہے، اس نظام کی حالت خراب ہو چکی ہے! اگر ان کے یہ تجزئے صحیح ہوتے تو جیسا کہ میں نے عرض کیا اب تک ہمارے سو کفن پرانے ہوکر پھٹ چکے ہوتے ہیں۔ انھوں نے روز اول ہی سے کہنا شروع کر دیا کہ اسلامی جمہوریہ چھے مہینے میں ختم ہو جائے گی۔ چھے مہینہ پورا ہو گيا اور دیکھا کہ ختم نہیں ہوئی تو کہنے لگے کہ دو سال چلے گی۔ آج  چالیس سال گزر چکے ہیں۔ سب سن لیں توفیق خداوندی سے ہم اس مرحلے میں اور دیگر مراحل میں بھی اپنے دشمنوں کو، جرائم  پیشہ امریکہ کو اور اس کے ہمنواؤں کو فضل پروردگار سے دھول چٹا دیں گے۔

ہمارے سامنے اصلی دشمن ریاستہائے متحدہ امریکہ کی حکومت ہے جو دنیا کی سب سے بد عنوان اور سب سے ظالم حکومت ہے۔ دہشت گردوں کی حمایت کرتی ہے۔ انھوں نے جہاں تک ممکن تھا داعش کی حمایت کی۔ آج بھی وہ لاکھ شور شرابا کریں لیکن پردے کے پیچھے سے داعش اور داعش جیسی دیگر تکفیری تنظیموں کی مدد کر رہے ہیں، دہشت گردوں کی مدد کر رہے ہیں۔ ڈکٹیٹر حکومتوں کی مدد کر رہے ہیں۔ شاہ ایران کی حمایت کرتے تھے۔ ظالم سعودی خاندان کی حمایت کر رہے ہیں۔ علاقے کے بعض دیگر ظالم سلطنتی خاندانوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ اس سے زیادہ برا کام اور اس سے بڑی بدعنوانی کیا ہو سکتی ہے؟! جرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ خواہ ہو جرائم پیشہ عناصر ہوں جو فلسطین میں جرائم انجام دے رہے ہیں یعنی صیہونی حکومت یا پھر وہ مجرم عناصر ہوں جو یمن میں جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں اور ہر روز کچھ لوگوں کو خاک و خوں میں غلطاں کر رہے ہیں۔ وہ خود اپنے ملک کے اندر بھی جرائم انجام دے رہے ہیں۔ سیاہ فاموں پر سختیاں کرتے ہیں۔ امریکی پولیس بے وجہ سیاہ فام عورت کو زد و کوب کرتی ہے۔ سیاہ فام مرد، سیاہ فام بچے اور سیاہ فام نوجوان کو قتل کر دیتی ہے۔ امریکی عدالتیں قاتل کو بری کر دیتی ہیں۔ چھوڑ دیتی ہیں کہ وہ جائے اپنا کام کرے۔ یہ ہے ان کی عدلیہ اور حالت یہ ہے کہ وہ دوسرے ملکوں کی عدلیہ، ہمارے وطن عزیز کی دیندار عدلیہ پر اعتراض کرتے ہیں، اس کی خامیاں گنواتے ہیں! یقینا ہماری عدلیہ بے نقص و عیب نہیں ہے۔ یہ بھی آپ سن لیجئے کہ عدلیہ کے ادارے میں یا مجریہ کے ادارے میں جو خامیاں ہیں یہ حقیر اس سے بے خبر نہیں ہے۔ میری اطلاعات شاید بہت سے دوسرے افراد سے کہیں زیادہ ہیں۔ لیکن میں مثبت اور تعمیری پہلوؤں کو بھی دیکھتا ہوں۔ زیارت امین اللہ میں ہم دعا کرتے ہوئے کہتے ہیں؛ «ذاکِرَةً لِسَوابِغِ آلائِک» (10) انسان کو چاہئے کہ اللہ کی نعمتوں کو پیش نظر رکھے۔ جی ہاں، بدعنوان جج بھی ہیں، لیکن منصف مزاج اور قابل اعتماد جج بھی ہیں۔ ہم یکبارگي سب کی نفی نہیں کر سکتے۔ جاہ طلب، ڈھیٹ اور پیسے کا پجاری عہدیدار بھی موجود ہے، لیکن محنتی اور صاحب کردار عہدیدار بھی موجود ہے۔ ہمیں یہ حق نہیں ہے کہ سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکیں! بہت خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہماری نگاہ کے سامنے مغربی دنیا منجملہ امریکہ کی عدلیہ اور فورسز بھی ہیں۔ وہاں کی جیلوں میں کیا رسوائی کا عالم ہے۔ عوام کے لئے کیسی کیسی مشکلات ہیں، رشوت خوری اور دوسری چیزیں، لیکن ہالی وڈ کی فلموں میں ایسا ظاہر کرتے ہیں کہ گویا بڑا پاک صاف ادارہ ہے۔ اس کا نمونہ یہی ہے جو میں نے ابھی عرض کیا؛ اگر امریکہ میں کوئی سیاہ فام قتل کر دیا جاتا ہے تو اس کی کوئی گیرنٹی نہیں ہے کہ قاتل کو سزا ہوگی۔ یہ ہے امریکی حکومت۔

تو ہمارے مد مقابل یہ دشمن موجود ہے اور جی جان سے کوششیں کر رہا ہے، پیسہ خرچ کر رہا ہے، منصوبے بھی خوب بناتا ہے کہ کسی طرح ملک میں عوام کے اندر اختلاف پیدا کر دے۔ سیاسی اختلاف، فرقہ وارانہ اختلاف، قومیتی اختلاف یا لسانی اختلاف۔ اپنی پوری کوشش کر رہا ہے۔ ہمارے اطراف میں جو یہ دولتمند ہیں انھیں کی جیبیں کاٹی جاتی ہیں اور ان سے پیسے وصول کر لئے جاتے ہیں، ان سے مدد لی جاتی ہے کہ ہمارے وطن عزیز کے خلاف سازشوں کو عملی جامہ پہنائیں۔ ان سے جو بھی بن پڑتا ہے کرتے ہیں۔ لیکن اللہ کے فضل سے ان کی ناک زمین پر رگڑ دی گئی ہے، انھیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہم پوری توانائی سے آگے بڑھتے رہیں گے۔ اذن پروردگار سے ہم تمام میدانوں میں امریکہ کو مایوسی میں مبتلا کر دیں گے۔ اس سے قبل جو لوگ امریکہ کے ایوان اقتدار میں تھے وہ بھی نچلے نہیں بیٹھے، وہ بھی بہت کچھ کرتے رہتے تھے۔ ریگن (11) تو ٹرمپ (12) سے زیادہ طاقتور تھے، زیادہ عقل بھی رکھتے تھے (13)، انھوں نے عملی اقدام بھی کیا، اس وقت یہ خالی دھمکیاں دے رہے ہیں اور چیخ پکار کر رہے ہیں۔ وہ فنکار تھے، ان کی اداکاری بھی ان (ٹرمپ) سے بہتر تھی (14)، انھوں نے ہمارے خلاف عملی طور پر اقدام بھی کیا، ہمارے مسافر طیارے کو نشانہ بنایا، یہ کام انھوں نے کیا۔ آج ریگن کہاں ہیں اور اسلامی جمہوریہ کس بلندی پر ہے؟ ریگن کے دور کے مقابلے میں اسلامی جمہوریہ اس وقت کئی گنا زیادہ پیشرفت حاصل کر چکی ہے، نمو کے مراحل طے کر چکی ہے، سبھی شعبوں میں۔ جبکہ وہ عذاب الہی میں گرفتار ہیں، ان کا جسم گل کر مٹی بن چکا ہے اور ان کی روح بھی اصولی طور پر جو ضوابط ہمارے یہاں ہیں ان کے مطابق عدل الہی کی درگاہ میں مواخذے اور احتساب کے مراحل میں گرفتار ہے۔ یہ لوگ بھی ایسے ہی ہیں۔ اسلامی جمہوریہ توفیق خداوندی سے اپنے پاؤں پر کھڑی رہے گی، اسے کمزور نہ کر پانے یا میدان سے خارج نہ کر پانے کا داغ یہ بھی اپنے دل پر اٹھائیں گے۔ البتہ ان میں بعض ظاہری نرمی کا مظاہرہ کرکے ہم میں سے بعض کو اپنی باتوں میں الجھانے میں کامیاب ہوئے، کچھ عرصے کے لئے وہ ظاہری نرمی کا مظاہرہ کرکے یا جیسا کہ ہم نے پہلے بھی کہا کرخت پنجے پر مخملیں دستانے پہن کر ہم میں سے بعض کے اذہان کو الجھانے میں کامیاب ہوئے لیکن بہت جلد وہ بھی رسوا ہوئے۔ آج اسلام، مسلمین اور اسلامی جمہوریہ کے خلاف امریکی حکومت کی پست نیت کی حقیقت آشکارا ہو چکی ہے۔

ہمیں ان کے ممکنہ اقدامات کا پہلے سے اندازہ ہونا چاہئے۔ وہ پابندی عائد کرتے ہیں تو ہم اپنی معیشت کو داخلی ستونوں پر استوار کریں، داخلی طور پر پنپنے والی معیشت بنائیں، استقامتی معیشت بنائیں تاکہ پابندیوں کا اثر نہ ہو۔ استقامتی معیشت کے مسئلے پر عہدیداران بھرپور توجہ دیں۔ صرف زبانی جمع خرچ پر اکتفا نہ کریں۔ بے تحاشا امپورٹ استقامتی معیشت کے لئے سازگار نہیں ہے، پیداواری شعبے کی کمزوری اس کے لئے سازگار نہیں ہے۔ قومی پیداوار کو تقویت پہنچائی جائے۔ حکومتی اور سرکاری ادارے داخلی مصنوعات کو مماثل غیر ملکی مصنوعات پر ترجیح دیں۔ بازار کے بہت اہم کسٹمر حکومتی ادارے ہیں جو ہر چیز خریدتے ہیں، جنھیں ہر چیز کی ضرورت ہوتی ہے۔ انھیں چاہئے کہ جو داخلی مصنوعات ہیں، انھیں ترجیح دیں۔ عوام بھی داخلی پیداوار پر توجہ دیں۔ یہ ساری چیزیں دشمن کے پابندیوں کے حربے کوناکام بنانے والے ذرائع ہیں۔ یہ چیزیں ممکن ہے کہ چھے مہینے میں یا ایک سال میں کچھ خاص اثر نہ دکھائیں، لیکن مشکل کا بنیادی حل اس کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے۔ تشہیراتی مسائل کے بارے میں بھی ہوشیار رہیں، نفسیاتی جنگ کے معاملے میں بھی ہوشیار رہیں، دراندازی کے سد باب کی طرف بھی توجہ دیں۔ اس بات کا بہت خیال رکھیں کہ دشمن کا کوئی آلہ کار فیصلہ ساز اور فیصلہ کن اداروں میں داخل نہ ہونے پائے۔ دشمن کی چاپلوسی پر بالکل اعتنا نہ کریں۔ محبت کا اظہار، وابستگی کا اظہار، آئیے ہاتھ ملاتے ہیں، آئیے ساتھ بیٹھتے ہیں! اس طرح کی باتوں کو کبھی بھی سنجیدگی سے نہ لیں۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ دشمن کیا کرنا چاہتا ہے۔ اگر یہ چیزیں آپ کے پیش نظر رہیں، اگر ان چیزوں پر ہماری توجہ رہی، اگر ان چیزوں کا آپ نے خیال رکھا، اگر ان چیزوں کا ہم نے خیال رکھا تو یقین جانئے کہ اسلامی جمہوریہ پیشرفت کی شاہراہ پر اسی طرح آگے بڑھتی جائے گی اور جو مشکلات در پیش ہیں، مجھے گرانی کی مشکلات، افراط زر کی مشکلات، کساد بازاری کی مشکلات، اقتصادی و معیشتی میدانوں میں عوام کو در پیش گوناگوں مشکلات کا بخوبی علم ہے، یہ مشکلات عہدیداران کی محنت و ہمت سے رفع ہو سکتی ہیں، اللہ تعالی اس محنت و ہمت کا اجر بھی عطا فرمائے گا اور گرہوں کو کھول دے گا۔

پروردگار! محمد و آل محمد کے صدقے میں ہمیں اس سمت میں لے جا جو تیری رضا کے مطابق ہے اور جس میں تیری نصرت حاصل ہو۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته

۱) اس ملاقات کے آغاز میں کونسل کے سربراہ آیت اللہ جنتی نے ایک رپورٹ پیش کی۔

۲) سوره ‌احزاب، آیت ۳۹ ؛ «(یہ اللہ کی سنت ہے ان لوگوں کے لئے) جو اللہ کے پیغامات پہنچاتے ہیں اور اسی سے ڈرتے ہیں اور ایک خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔ اور محاسبہ کے لئے بس اللہ ہی کافی ہے۔»

۳) سوره یمائده، آیت ۶۷ ؛ «اے پیغمبر! جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گيا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دو۔۔»

۴) سوره‌ اعراف،آیت ۶۲؛ « تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں، تمہارا خیر خواہ ہوں، »

5) سوره مائده،آیت نمبر ۶۷ کا ایک حصہ «...  وہ لوگوں تک پہنچا دو جو تم پر تمہارے رب کی طرف سے نازل کیا گيا ہے۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس کی پیغمبری کا حق ادا نہ کیا۔ اللہ تم کو لوگوں کے شر سے بچانےوالا ہے۔»

6) نهج ‌البلاغه، مکتوب نمبر ۶۲

7) سوره اسراء، آیت نمبر ۳۶  کا ایک حصہ؛ «...یقینا آنکھ، کان اور دل سب ہی کی باز پرس ہونی ہے۔ »

8) حاضرین کی ہنسی

9) حافظ. غزلیّات؛ «حکم مستوری ومستی همه برعاقبت است / کس ندانست که آخر به چه حالت برود»

10)  اقبال‌الاعمال،جلد ۲، صفحہ ۲۷۳

11) امریکہ کے سابق صدر رونلڈ ریگن

12) امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ

13) حاضرین کی ہنسی

14) حاضرین کی ہنسی