بسم الله الرّحمن الرّحیم

و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین سیّما بقیّة الله فی الارضین.

عزیز بھائیو اور بہنو! خوش آمدید! آپ کو عید کی مبارکباد۔ ان شاء اللہ آپ ہمیشہ خاندان نبوت و ولایت کے خدمت گزار اور تاریکی و باطل کے غلبے کے دور میں حق پسندی کی آواز بلند کرنے والے بنیں جیسا کہ اس وقت آپ ہیں۔ ہمارے نوجوان، ہمارے عزیز، اہل بیت عصمت و طہارت کی مدح سرائی کرنے والے یہ شعرا و قصیدہ خوان، واقعی ظلمت و طغیان سے بھری ہوئی اس دنیا میں صدائے حق بلند کر رہے ہیں۔

پیغمبر اعظم کی دختر کے مقام و منزلت کی  توصیف سے اس حقیر اور مجھ جیسے دیگر افراد کی زبان قاصر ہے۔ کوئی بھی بشر عظیم الہی اور آسمانی ہستیوں منجملہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی روحانی عظمت اور معنوی مدارج کی کما حقہ توصیف نہیں کر سکتا۔ یہ تو ایسی چیز ہے جسے خود اللہ تعالی اور اللہ کے عظیم بندوں اور اولیائے خدا کی زبان سے سننا اور سیکھنا چاہئے۔ جہاں تک ہمارا فہم و ادراک ساتھ دے اور جتنی فکری توانائی ہو بس اسی حد تک ان مدارج کے بارے میں صرف اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے بارے میں فرمایا؛ سَیِّدَةِ نِساءِ اَهلِ الجَنَّة (۲)، البتہ دوسری روایتیں بھی ہیں؛ سَیِّدَةِ نِساءِ ‌العالَمین؛ سَیِّدَةُ نِساءِ الدُّنیا (۳)، یہ ساری روایتیں مسلمہ شیعہ و سنی دونوں سلسلوں سے نقل ہوئی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ صرف شیعہ علما نے انھیں نقل کیا ہو۔ تاہم میری نظر میں سب سے اہم یہی؛ «سَیِّدَةِ نِساءِ اَهلِ الجَنَّة» ہے۔ آپ یہ دیکھئے کہ اللہ تعالی قرآن کی آیہ کریمہ میں، اسی آیت میں جس کی تلاوت آج قاری محترم نے بھی کی، ارشاد فرماتا ہے؛ وَضَرَبَ اللهُ مَثَلًا لِلَّذینَ ءامَنُوا امرَاَتَ فِرعَون (۴)، فرعون کی زوجہ تمام مومنین کے لئے نمونہ عمل ہیں۔ صرف خواتین کے لئے نہیں، بلکہ « لِلَّذینَ ءامَنُوا» کے لئے ہیں۔ یعنی اللہ تعالی نے تمام مومنین کے لئے دو عورتوں کو نمونہ عمل قرار دیا ہے۔ وَضَرَبَ اللهُ مَثَلًا لِلَّذینَ ءامَنُوا امرَاَتَ فِرعَون۔ ایک زوجہ فرعون جناب آسیہ ہیں جن کے بارے میں کچھ فقروں کا ذکر ہے اور اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے؛ وَ مَریَمَ ابنَتَ عِمران (۵)، دوسرے حضرت مریم ہیں۔ یہ دونوں نمونہ عمل ہیں کل انسانیت کے لئے، دنیا کے تمام مومنین کے لئے۔ یہ دونوں خواتین اور تمام ممتاز خواتین،  تمام مونث اولیائے خدا بہشتی ہیں، ان کی جگہ بہشت میں ہے، جبکہ حضرت فاطمہ زہرا «سَیِّدَةُ نِساءِ اَهلِ الجَنَّة» (۶) ہیں۔ ان سب کی سردار ہیں۔ ہم لوگ ان مدارج کے بارے میں اس سے زیادہ کچھ نہیں سمجھ سکتے۔ البتہ ہمارے عزیز شعرا نے، ہمارے محترم قصیدہ خوانوں نے آج کچھ نکات بیان کئے جو بہت اچھے تھے، لیکن یہ سارا بیان حضرت صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا کی اس عظیم منزلت سے بہت نیچے ہے۔ ان کے مقابلے میں پیغمبر کا بیان، پیغمبر کا کلام اور خدا کا کلام سب سے زیادہ بلیغ ہے۔

کافی وقت ہو گیا ہے، میں نے کچھ نکات نوٹ کئے تھے کہ بیان کروں گا، لیکن اب ظہر کا وقت قریب ہے، لہذا میں اختصار سے عرض کروں گا۔ حضرت صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا کی ولادت کا دن، یوم نسواں ہے۔ اسلام کی نظر میں اور اسلامی معرفت کے دائرے میں عورت کے لئے ایک نمونہ عمل رکھا گيا ہے، عورت کے لئے ایک فریم ورک معین کر دیا گيا ہے جو کامل فریم ورک ہے۔ یعنی اسلامی عورت اس مخلوق کا نام ہے جو ایمان سے آراستہ ہو، پاکدامنی سے آراستہ ہو، انسیت کی تربیت کے سب سے اہم پہلو کی ذمہ دار ہو، سماج میں گہرا اثر رکھتی ہو، علمی و روحانی ارتقا سے مزین ہو، انتہائی اہم مرکز یعنی کنبے کی منتظمہ ہو، مرد کی صنف کو سکون عطا کرنے والی ہو، یہ تمام چیزیں نسوانی خصوصیات کے ساتھ ساتھ ہوں، جیسے نازکی، رحم دلی، انوار الہیہ کو کسب کرنے کی استعداد۔ یہ ہے ایک مسلمان عورت۔ یہی وہ خصوصیات ہیں جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی قدردانی کرتے ہوئے یا حضرت خدیجہ کبری کی توصیف میں یا کلی طور پر خواتین کے بارے میں بیان کی ہیں۔ یہی اسلامی مثالیہ ہے۔

اس کے مقابلے میں ایک منحرف نمونہ بھی ہے جو الگ الگ ادوار میں الگ الگ شکلوں میں سامنے آیا۔ آج وہ منحرف نمونہ مغربی عورت کا نمونہ ہے۔ اس زمانے میں جس میں ہم زندگی بسر کر رہے ہیں اسلامی عورت کی ان تمام نمایاں اور ممتاز خصوصیات کے بجائے جن کا ابھی ذکر ہوا، مغربی عورت کی بنیادی خصوصیات اور امتیازات آج یہ ہیں کہ وہ مردوں کی توجہ اپنی طرف کھینچ سکے، مردوں کی لذت اندوزی کا سامان فراہم کرے۔ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ مغربی عورت کی سب سے نمایاں خصوصیات آج عریانیت ہے۔ رسمی پروگراموں میں جن میں مرد اور عورتیں دونوں شریک ہوتے ہیں، مرد پورا لباس پہنتے ہیں، جبکہ عورت کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو عریاں رہے۔ سرکاری تقاریب میں! سماج کے اندر جو حالت ہے وہ سامنے ہے۔ یہ مغرب، یورپ اور امریکہ کے حالیہ ادوار کی حالت ہے۔ ماضی میں ایسا نہیں تھا۔ جہاں تک ہمیں خبر ہے اور اطلاعات ہیں ڈیڑھ سو سال پہلے یا ایک سو بیس سال قبل، بے شک وہاں اسلامی پردہ تو نہیں تھا، لیکن آج جو لا ابالی پن، عریانیت اور بے راہروی ہے وہ بھی نہیں تھی۔ اب یہ کہ کس سیاست کے تحت مغربی سماج کو اس سمت دھکیلا گیا، اس کا مقصد کیا ہے؟ اس بارے میں طولانی اور تفصیلی بحث ہے۔ تاہم آج حقیقت یہی ہے کہ مغربی عورت استعمال کا سامان، آرائش اور مردوں کے سامنے خود نمائی کا مظہر اور مردوں کی صنف کے جنسی ہیجان کا ذریعہ ہے۔ باقی ساری باتیں جو وہ کرتے ہیں جیسے جنسی برابری وغیرہ کی باتیں، یہ صرف باتیں ہیں، صرف ظاہری چیزیں ہیں، باطنی پہلو وہی ہے۔ آپ نے سنا کہ اچھی پوزیشن کی مالک مغربی خواتین کی ایک بڑی تعداد نے ابھی چند مہینے پہلے ایک ایک کرکے بیان کیا کہ نوجوانی کے ایام میں ان دفاتر میں جہاں کی وہ رکن تھیں انھیں جبرا جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گيا، ان کا استحصال ہوا۔ اسے وہ زبان پر لائیں، انھوں نے بیان کیا۔ یہ کوئی عام عورتیں نہیں ہیں۔ مغرب کی اہم شخصیات ہیں۔ اسلام نے حجاب کی مدد سے اس راستے کو بند کر دیا ہے جس نے عورتوں کی صنف کو انحراف کی اس منزل پر پہنچایا ہے، اسلام نے اس کی اجازت نہیں دی۔ اسلامی حجاب عورت کے تحفظ کا ذریعہ ہے، حجاب عورت کے راستے کی رکاوٹ نہیں ہے۔

آج عورتوں کی شناختی اور ثقافتی خود مختاری کا پرچم ایرانی خواتین کے ہاتھ میں ہے۔ آج ایرانی خواتین حجاب کی پابندی کے ساتھ اپنی شناختی خود مختاری اور ثقافتی خود مختاری کا پیغام دے رہی ہیں، دنیا میں اپنا یہ پیغام عام کر رہی ہیں۔ یعنی دنیا کو ایک نیا پیغام مل رہا ہے۔ عورت سماجی میدانوں میں سرگرم تعاون کر سکتی ہے، اس کے گہرے سماجی اثرات ہوتے ہیں۔ آج مختلف شعبوں میں ہمارے ملک کی خواتین اسی طرح کے گہرے اثرات مرتب کر رہی ہیں۔ حجاب، پاکدامنی اور مرد عورت کے بیچ فاصلے کو ملحوظ رکھنا، مردوں کے ہاتھوں استحصال کا شکار نہ ہونا، خود کو غیر مردوں کی لطف اندوزی کا سامان قرار دینے کی پستی میں نہ گرنا اور تحقیر برداشت نہ کرنا آج ایرانی خواتین اور مسلم خواتین کی خصوصیات ہیں۔ ہمارے پاس یہ مثالیہ موجود ہے۔ ہمارے یہاں یہ نمونہ عمل موجود ہے۔ ہمارے یہاں خواتین کے اندر ایسی عورتیں موجود ہیں جو اس نمونہ عمل کی بلند سطح پر، بہت اچھی سطح پر پوری اترتی ہیں، بعض اوسط سطح پر بھی ہیں۔ بہرحال یہ نمونہ عمل موجود ہے اور ایرانی عورت کی کارکردگی اسی بنیاد پر انجام پاتی ہے۔

جو لوگ کنبے کی زندگی کی، گھریلو زندگی کی تحقیر کرتے ہیں وہ خیانت کے مرتکب ہو رہے ہیں، ملت کے ساتھ خیانت، عورت سے خیانت یعنی عورتوں کی پور صنف سے خیانت کر رہے ہیں۔ جو لوگ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ جنسی برابری کا مطلب یہ ہے کہ جن جن میدانوں میں مرد کام کر رہے ہیں عورتیں بھی ان میدانوں میں کام کریں وہ عورت کے اعتماد کے ساتھ خیانت کر رہے ہیں، عورت کی شخصیت، ماہیت اور وقار کے ساتھ خیانت کر رہے ہیں۔ عورت قابل احترام ہے۔ کسی نے یہ نہیں کہا ہے کہ عورت سماجی میدان میں قدم نہ رکھے یا کوئی ذمہ داری نہ اٹھائے یا علم حاصل نہ کرے۔ نہیں، آج ہمارے بہترین سائنسدانوں اور دانشوروں میں، بہترین مصنفین میں، ہماری بہترین علمی ثقافتی شخصیات میں، بے شمار خواتین موجود ہیں جو ہمارے سماج میں آج بڑا سرگرم کردار ادا کر رہی ہیں۔ یہ بھی انقلاب کی ہنرمندی کا ایک نتیجہ ہے۔ اسے یاد رکھئے! انقلاب سے پہلے یہ چیزیں نہیں تھیں۔ عورتوں میں بس خال خال ہی نظر آتا تھا کہ کسی نے علم و ثقافت اور فن و ادب کے میدانوں میں کوئی بڑا مقام حاصل کیا ہو۔ آج ایسی خواتین کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ یہ انقلاب کی ہنرمندی تھی جس کا یہ ثمرہ ملا ہے۔ ایسا اس لئے ہوا کہ مسلمان خاتون کا آئيڈیل اور نمونہ عمل یہی ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ہی عورت کنبے اور خاندان کی منتظمہ بھی ہے۔ خاندان کا محور عورت ہی ہے۔ عورت کی تمام تر خدمات میں سب سے اہم ماں اور زوجہ کا کردار ادا کرنا اور سکون و آسودگی کا ماحول قائم کرنا ہے۔ وَ جَعَلَ مِنها زَوجَها لِیَسکُـنَ اِلَیها (7)، طمانیت و سکون کا سرچشمہ ہے۔ اسلام میں عورت کی یہی خصوصیت ہے۔ یوم نسواں پر انسان کو چاہئے کہ ان چیزوں پر توجہ دے۔ ہم محترم ایرانی خواتین، مسلمان خواتین، ان اسلامی و قرآنی مفاہیم پر عقیدہ رکھنے والی خواتین سے سفارش کریں گے کہ ان کی حفاظت کریں۔ ان خصوصیات میں روز بروز اضافہ کریں۔ فضول خرچی، منفی مقابلہ آرائی اور مغربی عورت کو آئیڈیئل قرار دینے جیسی منفی رقابت سے اجتناب کریں، اپنا خیال رکھیں۔ آج ہمارے ملک میں مسلمان عورت سربلند ہے۔ ایرانی عورت کے پاس یہ امتیاز ہے کہ اسے الگ ثقافتی تشخص حاصل ہے، وہ دوسروں کے زیر اثر نہیں ہے۔ آپ اپنے اندر ان چیزوں کی حفاظت کیجئے۔

ظاہر ہے اس صورت حال کے کچھ دشمن بھی ہیں۔ میں آپ کی خدمت میں عرض کرنا چاہوں گا کہ ہمارے ملک میں نرم جنگ اور نفسیاتی جنگ کا ایک بڑا حصہ اسی نکتے پر مرکوز ہے۔ آپ لوگ حق کے منادی ہیں۔ اپنے بیانوں میں، اپنے اظہار خیال میں، اپنے اشعار میں، البتہ آج کے کچھ بیانوں میں اور پڑھے جانے والے اشعار میں بھی یہ چیز تھی، اسے عام کیجئے، یہ آپ کی بہت اہم ذمہ داری ہے، آپ بذات خود ذریعہ ابلاغ ہیں۔ ذرائع ابلاغ میں ایک اہم ذریعہ دینی و مذہبی شعرا اور قصیدہ خوان ہیں۔ بحمد اللہ ہمارے ملک میں آج ان کی تعداد کافی بڑھی ہے۔ یہ بہت اہم ذریعہ ابلاغ ہے۔

میں یہاں اس موقع سے استفادہ کرتے ہوئے ایک اور مسئلے کا ذکر کر دوں ان شاء اللہ کوشش ہے کہ اختصار کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے۔ دیکھئے! اسلامی انقلاب کے دشمن دائمی طور پر سازشیں رچنے میں مصروف ہیں اور یہ ہمارے لئے فخر کی بات ہے۔ یعنی چالیس سال سے اسلامی نظام کے خلاف، اسلامی مملکت ایران کے خلاف مستقل وہ سازشیں کر رہے ہیں۔ اربوں خرچ کئے جا رہے ہیں، مفکرین ایک ساتھ جمع ہوتے ہیں کہ اس نظام کو نقصان پہنچانے کا راستہ سوچیں، اس نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں۔ مگر چالیس سال سے یہ شجرہ مبارکہ، یہ شجرہ طیبہ روز بروز مزید تناور ہوتا جا رہا ہے۔ یہ ہمارے لئے فخر کی بات ہے۔ اگر ہمارے خلاف وہ ریشہ دوانیاں نہ کرتے تو ہمیں یہ احساس نہ ہوتا کہ ہم پر اللہ نے خاص لطف کیا ہے۔ اسلامی جمہوریہ کے خلاف اس بڑے پیمانے پر کام ہو رہا ہے کہ کسی بھی قوم اور کسی بھی ملک کے خلاف ایسی سازشیں نہیں کی گئی ہوں گی، لیکن اس کے باوجود وہ کچھ نہیں بگاڑ پائے۔ اسلامی جمہوریہ نمو و کمال کے راستے پر رواں دواں ہے۔ یہ سازش موجود ہے۔ آج بھی موجود ہے۔ ابھی چند مہینہ پہلے کی بات ہے، بقول خویش وہ تھنک ٹینک میں، یعنی خاص فکری گروپ کی شکل میں بیٹھے، بحث کی، محنت کی اور اسلامی جمہوریہ کے خلاف ایک منصوبہ تیار کر لیا۔ وقت بھی معین کر لیا۔ دسمبر، جنوری، فروری، مارچ کا مہینہ یعنی یہی ایام جو اس وقت گزر رہے ہیں۔ منصوبہ بنایا کہ دسمبر میں یہ کریں گے، جنوری میں یہ کریں گے، فروری اور مارچ میں یہ کریں گے اور ہجری شمسی سال کے آخر تک اسلامی جمہوریہ کی بساط لپیٹ دیں گے۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ بلی کو خواب میں چھیچھڑے دکھائی دیتے ہیں! آپ نے دسمبر کے مہینے میں دیکھ لیا کہ عوام نے کس طرح جواب دیا، جنوری اور فروری میں بھی آپ نے دیکھا کہ عوام نے کیسا جواب دیا۔ یہ جو مہینہ اس وقت چل رہا ہے اس میں بھی عوام پوری طرح آمادہ ہیں۔ ملت ایران ہر جارح، ہر تعرض کرنے والے اور ہر گستاخ کو اس کی اوقات یاد دلا دیتی ہے۔

جو بات میں عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ نہیں ہے۔ یہ تو میں بارہا عرض کر چکا ہوں۔ ہم سب جانتے بھی ہیں۔ سب کو معلوم ہے۔ ہمارے دشمنوں کو بھی معلوم ہے کہ اسلامی جمہوریہ کے استحکام کا دارومدار عوام پر ہے، قوت ایمانی پر ہے، پرجوش اور گہرا لگاؤ رکھنے والے نوجوانوں پر ہے، اس صحیح سمت اور راہ پر اس کا انحصار ہے جس کا تعین عظیم الشان قائد امام خمینی نے کیا ہے۔ ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔ دوسرے لوگ اگر کچھ کرنا چاہتے ہیں تو کریں۔ وہ جو کہنا چاہتے ہیں کہیں، مگر کچھ نہیں بگاڑ پائیں گے یہ ابھی سے واضح ہے۔ میں حجاب کے موضوع کا ذکر کرنا چاہتا تھا۔ اس کی جانب اشارہ کرنے کا ارادہ تھا۔ بڑا پیسہ خرچ کیا جا رہا ہے، بڑ تگ و دو کی جا رہی ہے، سیکڑوں ذرائع ابلاغ، یہ جو گوناگوں اقسام کے ذرائع ابلاغ پیدا ہو گئے ہیں استعمال کئے جا رہے ہیں کہ اس حساس خصوصیت یعنی مسلمان عورت کی خاص ثقافتی شناخت پر اثر انداز ہوں۔ واقعی ملک کے باہر ہمارے دشمن اس مقصد کے حصول کے لئے مرے جا رہے ہیں۔ مختلف طریقوں سے، کتنے پیسے خرچ کئے جاتے ہیں کہ ان ٹی وی چینلوں کو، ان ریڈیو نشریات کو، سوشل میڈیا کو، ویب سائٹوں کو استعمال کریں؟! مسلسل پروپیگںڈا کرو، یہ کہو وہ کہو، سو بار دہراؤ! کس لئے؟ یہ نتیجہ حاصل کرنے کے لئے کہ مثال کے طور پر چار لڑکیاں ان کے فریب میں آ جائیں اور سڑک پر اپنا حجاب اتار دیں! اتنا خرچ، اتنی محنت، اتنا دماغی کاوشیں اس کام پر لگی ہوئی ہیں! محنت کئے جا رہے ہیں۔ لیکن ان کی کوششیں بے سود ہیں۔ اس کا نتیجہ بس اتنا ہی ہے کہ چار لوگ، گوشہ و کنار میں دو چار لڑکیاں فریب میں آ جاتی ہیں، الگ الگ وجوہات سے متاثر ہو جاتی ہیں۔ بعض نے ممکن ہے کہ پیسہ لیا ہو، البتہ میں نہیں جانتا اس لئے وثوق سے نہیں کہہ سکتا، اس کام کا پیسہ کہ اپنے سر سے اسکارف اتار لیں! اچھا تو اس سے کیا حاصل ہوا؟! ان تمام تر کوششوں کا نتیجہ بس یہی معمولی اور حقیر چیزیں ہیں۔

یہاں تک تو کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ مجھے جو چیز فکرمند کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اچانک آپ دیکھتے ہیں کہ ایک ایسے گروہ کے افراد کی زبان سے جو خواص میں شمار ہوتا ہے، 'جبری حجاب' کی بات سنائی دیتی ہے۔ یعنی کچھ لوگ نادانستہ طور پر، میں اسکو نادانستہ کہہ رہا ہوں ان شاء اللہ انھوں نے نادانستگی میں ایسا کیا ہوگا، اس راستے پر آگے بڑھتے ہیں جسے دشمن اتنا پیسہ خرچ کرنے کے باوجود اس ملک میں کسی نتیجے تک نہیں  پہنچا سکا ہے۔ اسی نہج پر چلتے ہیں۔ ان میں صحافی بھی ہیں، روشن خیال نما افراد بھی ہیں، ان میں عالم دین اور معمم افراد بھی ہیں۔ کہتے ہیں کہ 'امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے فرمایا تھا کہ عورتیں حجاب میں رہیں، مگر انھوں ںے ساری عورتوں کے لئے نہیں کہا!' کوری بکواس! ہم اس وقت موجود تھے۔ ہمیں بخوبی معلوم ہے۔ یہ کیا بات ہوئی؟ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) ایک آشکار برائی کے خلاف، جس کی پہلوی حکومت اور اس کے آلہ کار ملک میں ترویج کر رہے تھے، کسی کہسار کی مانند کھڑے ہو گئے۔ آپ نے کہا کہ حجاب باقی رہنا چاہئے۔ تمام 'منکرات' کے خلاف امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) اسی سختی کے ساتھ کھڑے ہوئے۔ اسی زمانے میں شراب کی تجارت کی بحث بھی ہوئی تھی۔ ہم اس وقت انقلابی کونسل میں تھے۔ حکومت کے ساتھ ہماری میٹنگیں ہوئیں۔ اس وقت بھی کچھ لوگوں کا یہ نظریہ تھا کہ شراب کی تجارت ملک کے لئے نفع بخش ہے، ہم اس منافع کو کیسے نظر انداز کر سکتے ہیں؟! چاہتے تھے کہ یہ تجارت جاری رہے، بیرون ملک سے شراب لائی جائے۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے سختی کے ساتھ مخالفت کی۔ حرام الہی کے مقابلے میں امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) سختی کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوتے تھے اور انھوں نے یہی کیا۔ یہ حرام الہی تھا۔ اب ایک صاحب کہیں سے نکلے اور فرماتے ہیں کہ 'جناب! یہ گناہ غیبت سے بڑا تو نہیں ہے، آپ غیبت پر کسی کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کرتے، جبکہ اس اقدام یعنی سر سے اسکارف ہٹا دینے یا بے حجاب رہنے پر آپ کارروائی کرتے ہیں!' آپ دیکھئے کہ یہ کتنی بڑی غلطی ہے؟ تشخیص کی غلطی، انسان کو سب سے زیادہ تکلیفیں صحیح تشخیص کے فقدان سے اٹھانی پڑتی ہیں۔ ہم نے یہ تو نہیں کہا ہے کہ اگر کسی نے اپنے گھر کے اندر نامحرم کے سامنے سر سے اسکارف ہٹا لیا تو ہم اس کے خلاف کارروائی کریں گے۔ بالکل نہیں، ہم اس کے خلاف کارروائی نہیں کرتے۔ وہ اپنے گھر کے اندر ہے، یہ اس کا ذاتی فعل ہے۔

جو عمل عوامی مقامات پر انجام دیا جاتا ہے، سڑک پر انجام دیا جاتا ہے وہ ایک عمومی فعل ہوتا ہے، ایک سماجی عمل ہوتا ہے، ایک عمومی ترغیب ہوتی ہے، یہ غلطی ایسی حکومت کو جو اسلام کے نام پر تشکیل پائی ہے کچھ فرائض ادا کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ حرام چھوٹا اور بڑا نہیں ہوتا۔ جو فعل شرعا حرام ہے وہ ملک میں آشکارا طور پر انجام نہیں پانا چاہئے۔ اگر کوئی شخص ذاتی طور پر کوئی حماقت کرتا ہے تو اس کی بات الگ ہے وہ اس کے اور اللہ کے بیچ کا معاملہ ہے۔ لیکن جو کھلے عام لوگوں کی نگاہوں کے سامنے ہو، معاشرے کی سطح پر انجام دیا جائے، اس کے تعلق سے امیر المومنین علیہ السلام کی حکومت اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حکومت کی مانند ہر اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اقدام کرے۔ یہ طرز فکر کہ 'جناب آپ اجازت دیجئے عوام خود اپنی مرضی سے انتخاب کریں!' شراب فروشی کے بارے میں بھی ہے تو ہم ملک میں شراب کو بھی آزاد کر دیں! جو شخص چاہے شراب پئے اور جو نہ چاہے نہ پئے! یہ بھی کوئی بات ہے؟ تمام بڑے سماجی گناہوں کے بارے میں یہی چیز صادق آتی ہے، یہ طرز فکر پایا جاتا ہے۔ اس کا کیا تک ہے؟ مقدس شارع نے اسلامی حکومت پر یہ فرض کر دیا ہے کہ سماج میں حرام الہی کے رواج کا سد باب کرے۔ اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ حرام کے مد مقابل کھڑی ہو جائے، گناہ کا سد باب کرے۔ آج ہم ملک کے اندر اپنی خواتین کے حجاب پر ناز کرتے ہیں۔ آج ہماری خواتین چادر کے ساتھ کہ جو ایرانی حجاب ہے، ایرانی حجاب چادر ہے، اسلامی حجاب کے ساتھ اعلی ترین علمی مدارج پر پہنچی ہیں، عالی ترین فنی و ثقافتی مقامات پر پہنچی ہیں، ممتاز شخصیات میں شمار ہوتی ہیں۔ سماجی میدانوں میں اپنا خاص اثر رکھتی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ انھوں نے خانہ داری کے فرائض بھی ادا کئے۔ اپنے بچوں کی تربیت بھی کی۔ زوجہ ہونے کے فرائض بھی ادا کئے۔ یہ طریقہ کہ ہم قوانین کو نظرانداز کریں صرف اس لئے کہ ملک کے اندر مغربی ثقافت کے ایک غلط اور انحرافی رجحان کو آگے بڑھائیں بہت بڑی غلطی ہے۔ کچھ لوگ یہی غلطی کر رہے ہیں۔

نسل بڑھانے اور بچوں کی تعداد بڑھانے کا موضوع معاشرے میں زیر بحث آیا۔ محترم عہدیداران نے بھی اس کی موافقت کی۔ میں سنتا ہوں کہ گوشہ و کنار میں اس کے خلاف عمل ہو رہا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو اہل مغرب چاہتے ہیں۔ اہل مغرب مسلمانوں کی تعداد میں اضافے کے مخالف ہیں۔ جس قوم کے نوجوان میدان میں اتر کے ملک کو بلندیوں پر لے جا سکتے ہیں اس قوم کی آبادی میں اضافہ ظاہر ہے مغرب کی مرضی کے خلاف ہوگا۔ ہمیں اس انداز سے عمل نہیں کرنا چاہئے کہ ان کا مقصد پورا ہو۔ اس انداز سے عمل کیجئے کہ اسلامی اہداف کی تکمیل ہو۔ یہ ہمارا فریضہ ہے۔ یہ ہمارے عہدیداران کا فریضہ ہے۔

ہماری ثقافت الہی ثقافت ہے۔ یہ ثقافت ہماری خود مختاری کی محافظ اور ضامن ہے، ہماری آزادی کی بھی ضامن ہے۔ جو لوگ آزادی کے نام پر سماج میں لا ابالی پن کی ترویج کرتے ہیں وہ آزاد نہیں ہیں، وہ تو مغربی کلچر کے دست بستہ غلام ہیں، مغربی ثقافت ان کی رہنمائی کرتی ہے، یہ کیسی آزادی ہے؟ آزادی یہ ہے کہ آپ اپنی نیت، اپنی فکر، اپنے قرآن اور اپنے اسلامی نمونہ عمل کی حفاظت کریں اور اس کے مطابق عمل کریں۔ یہ آزادی ہے، یہ عظمت ہے، یہ حریت ہے، اس کی حفاظت کی جانی چاہئے۔

تعلیم و تربیت کے شعبے میں ہم نے '2030 Agenda' کے بارے میں بات کی۔ کچھ لوگوں نے اس پر کام کیا اور بہت اچھا کام انجام پایا۔ لیکن اب مجھے گوشہ و کنار سے رپورٹیں ملتی ہیں کہ کچھ خلاف ورزیاں اب بھی ہو رہی ہیں۔ اس کا سد باب کیا جانا چاہئے۔ ملک کے عہدیداران کا فرض ہے کہ ملک کی اسلامی سیاست کے خلاف جو کچھ بھی ہو اس کا سد باب کریں۔ تعلیم و تربیت کے شعبے میں بھی اور خواتین کے مسائل کے بارے میں بھی۔

یہ جو جنسی برابری وغیرہ کی باتیں ہوتی ہیں یہ بھی صرف لفاظی ہے۔ یہ دوسروں کی بیان کردہ باتیں ہیں۔ مغرب والوں کی زبان سے نکلی باتیں ہیں۔ کچھ لوگ یہی باتیں ان سے سنتے ہیں اور خامہ فرسائی کرنے لگتے ہیں۔ ان کے لاؤڈ اسپیکر بن جاتے ہیں۔ کیسی برابری؟ یہ برابری ہے؟ آج جبرا جنسیاتی حملے سب سے زیادہ مغرب میں، امریکہ اور یورپ میں ہوتے ہیں۔ دوسرے ملکوں کے مقابلے میں بہت زیادہ۔ جبکہ بظاہر اور خود انھیں کے بقول وہاں خواتین آزاد ہیں۔ گھروں کے اندر خواتین کے ساتھ گھریلو تشدد کے واقعات بھی وہیں زیادہ ہو رہے ہیں۔ جو اعداد و شمار دستیاب ہیں ان کے مطابق۔ یہ جو اعداد و شمار دئے جاتے ہیں ان کے ساتھ ہی یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ خواتین کی ایک بڑی تعداد زبان بند رکھتی ہی، شکایت ہی نہیں کرتی۔ یہ اعداد و شمار ان مراکز کے ہیں جہاں خواتین جاکر شکایت درج کراتی ہیں۔ یعنی یہ اعداد و شمار بھی مکمل نہیں ہیں۔ وہاں مشکلات ہیں، زندگی کی مشکلات ہیں، کلچر سے متعلق مشکلات ہیں، انتظامی مشکلات ہیں۔ کیسی برابری؟ کوئی برابری نہیں ہے! جنسی برابری کی باتیں اس لئے کرتے ہیں کہ اپنے مقاصد پورے کر سکیں۔ اسلام میں جنسی برابری کا راستہ یہ ہے کہ عورت کا احترام کیا جائے، اس سے تعرض نہ کیا جائے۔ مرد عورت سے اپنی طاقت زیادہ ہونے کی وجہ سے اور قد و قامت میں عورت سے بڑا ہونے کی وجہ سے عورت پر دھونس جمانا اور اسے تشدد کا نشانہ بنانا اپنا حق نہ سمجھے۔ یہ ہے برابری۔

ملک کے اندر کچھ قوانین بننے چاہئے۔ البتہ ان قوانین میں بھی اس چیز کو ملحوظ رکھا جائے۔ میں نے سنا ہے کہ گھریلو مسائل اور عورتوں کے ساتھ گھریلو تشدد وغیرہ کے بارے میں ایک بل تیار کیا جا رہا ہے۔ حکومتی عہدیداران اور پارلیمنٹ کے ارکان بہت خیال رکھیں کہ مغربی کلچر کو نافذ کرنے کی کوشش نہ کریں۔ مثلا اگر کوئی باپ اپنی بیٹی کی شادی کے معاملے میں مداخلت کرتا ہے تو اسے تشدد مان لیا جائے! تشدد کا اس طرح سے مفہوم نکالیں! جی نہیں، کیا تشدد ہے اور کیا تشدد نہیں ہے یہ مغرب سے سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہماری اپنی منطقی سوچ کی بنیاد پر اور اسلامی فکر کی بنیاد پر اسے سمجھا جانا چاہئے۔ ہمیں آج اس طرح کی خباثت آمیز دشمنی کا سامنا ہے، ہمیں بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

میں اپنی گفتگو کے اس آخری حصے میں آپ شعرا اور قصیدہ خوانوں کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جیسا کہ میں نے کہا، آپ کا کام بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ آپ بہت اہم ذریعہ ابلاغ ہیں۔ قصیدہ خوانوں کی صنف کی ذمہ داری بہت سنگین ہے۔ آپ ہر جگہ جاتے ہیں اور ہر طرح کے لوگوں سے روبرو ہوتے ہیں۔ بیان کرنے کے لئے آپ کے پاس پلیٹ فارم اور میدان ہے۔ سماعتیں آپ کی باتیں سننے کے لئے آمادہ ہیں۔ اس سے آپ کی ذمہ داری اور بھی زیادہ ہو جاتی ہے۔ میں نے یہاں آپ سے عرض کرنے کے لئے کچھ چیزیں نوٹ کر رکھی ہیں؛

پہلی چیز تو یہ ہے کہ اپنے مخاطب افراد کا ایمان اور معرفت بڑھائیے۔ شعر کا اور بیان کا انتخاب اس طرح کیجئے کہ مخاطب افراد کی معرفت میں اور ایمان میں اضافہ ہو۔ اس کی معرفت یعنی دینی عقلانیت اور قلبی ایمان دونوں میں اضافہ ہو۔ معرفت و ایمان کا ارتقا۔

سیاسی بصیرت افروزی، آج گوناگوں سیاسی مسائل ایسے ہیں جن کی اطمینان بخش تشریح کرنے کی ضرورت ہے۔ ان چیزوں کو بخوبی سیکھئے اور عوام تک پہنچائیے۔

اسلامی اخلاقیات اور برتاؤ کی ترویج۔ اسلامی اخلاقیات اور اسلامی برتاؤ آپ اخلاق کی کتابوں سے اور علمائے اخلاق سے حاصل کیجئے اور عوام تک پہنچائيے۔ اپنے فن کی مدد سے، ظاہر ہے آپ کے پاس ایک فن ہے، شعر اور اچھی آواز ایک فن ہے، اخلاق کی ترویج کیجئے، صحیح اسلامی برتاؤ کی ترویج کیجئے۔ عوام کے درمیان اخوت کی ترویج کیجئے۔ محبت و مہربانی کی ترویج کیجئے۔ قومی اتحاد کی ترویج کیجئے۔ قرآن سے انسیت، نماز سے انسیت، اللہ کی جانب توجہ، گناہ سے اجتناب کے بارے میں اپنے مخاطب افراد کو ترغیب دلائيے۔ ان انتباہات کی بڑی اہمیت ہے۔ مخاطب افراد کے لئے بھی ان کی اہمیت ہے اور خود آپ کے لئے بھی اس کی اہمیت ہے۔ خود آپ کے لئے اس کی خاص ارزش ہے۔ جب ہم کسی کو نصیحت کرتے ہیں تو در حقیقت خود اپنی بھی نصیحت کر رہے ہوتے ہیں۔ تو خود ہمارے لئے بھی اس کی اہمیت ہے۔

دشمن سیاسی میدانوں میں مسلسل شکوک و شبہات پھیلا رہا ہے۔ اس بارے میں کہ ایران علاقے میں کیوں موجود ہے۔ یہ اعتراض کون کر رہا ہے؟ امریکہ! جس کی ہر جگہ 'فتنہ گرانہ اور مفسدانہ موجودگی' ہے۔ جہاں بھی امریکہ ہے وہاں فساد ہے۔ جہاں بھی امریکہ ہے وہاں فتنہ ہے۔ فتنہ پرور اور مفسد امریکی حکومت ہم سے کہتی ہے کہ آپ علاقے میں کیوں موجود ہیں؟! اچھا تو اگر علاقے میں ہم موجود ہیں تو کیا اس کے لئے آپ سے ہم اجازت لیں؟! علاقے میں موجود رہنے کے لئے ہمیں علاقے کی حکومتوں سے بات کرنی چاہئے گفتگو کرنی چاہئے، آپ سے ہم کیوں بات کریں؟ جب ہم امریکہ کے اندر داخل ہونا چاہیں گے تب آپ سے بات کر لیں گے (8)۔ اسی طرح یورپی حکومتیں بھی ہیں، وہ کہتی ہیں کہ ہم علاقے میں ایران کی موجودگی کے بارے میں ایران سے بات کرنا چاہتے ہیں! آپ کو اس سے کیا لینا دینا ہے؟ آپ اس علاقے میں کیوں موجود ہیں؟ یہ ہمارا علاقہ ہے یا آپ کا علاقہ ہے؟ اگر ہمارا علاقہ ہے تو آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟ یہ ہمارا علاقہ ہے، ہم علاقے کے عوام سے اور علاقے کی حکومتوں سے بات کرتے ہیں، مذاکرات کرتے ہیں، امور طے کرتے ہیں۔ الحمد للہ ہم نے معاملات طے کئے اور کامیاب بھی رہے۔ الحمد للہ ہم آگے بھی بڑھے۔ ان شاء اللہ مستقبل میں ہم اور بھی آگے جائیں گے۔ میں سیاسی مسائل کی بات کرتا ہوں تو یہ صرف جماعتی اور گروہی مسائل کی بات نہیں ہے۔ یہ سب بھی سیاسی مسائل ہیں، عوام کو ان سے بھی باخبر ہونا چاہئے۔

ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی آپ سب کو توفیق عطا فرمائے، آپ کی مدد کرے کہ آپ ان ایام میں اپنے فرائض پر بخوبی عمل کر سکیں۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و ‌برکاته

  1. اس ملاقات کے آغاز میں کچھ قصیدہ خوانوں نے اشعار پیش کئے اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی مدح سرائی کی۔
  2. کامل الزیارات صفحہ 310
  3. مناقب آل ابی طالب، جلد 3 صفحہ 358
  4. سورہ تحریم، آیت نمبر 11 کا ایک حصہ؛ اللہ تعالی نے ایمان لانے والوں کے لئے زوجہ فرعون کی مثال دی ہے۔
  5. سورہ تحریم، آیت  نمبر 12
  6. آمالی صدوق، صفحہ 125
  7. سورہ اعراف آیت نمبر 189 کا ایک حصہ 
  8. حاضرین کی ہنسی