بسم الله الرّحمن الرّحیم

و الحمد لله ‌ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی آله الطّیّبین الطّاهرین المعصومین سیّما بقیّة الله فی الارضین.

میرے عزیزو! آج کییہ ملاقات میرے لئے تو انتہائی شیریں ملاقاتوں میں سے ایک ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ اساتذہ کی عظیم الشان صنف سے ملاقات ہے، ظاہر ہے یہاں اساتذہ بھی تشریف فرما ہیں اور وہ طلبا بھی ہیں جو آگے چل کر استاد بننے والے ہیں، اور یہ وہ جگہ ہے کہ جہاں عظیم المرتبت اساتذہ کی صنف کی تربیت کا عمل انجام پاتا ہے۔ ہر سال اساتذہ سے ہماری ملاقات ہوتی ہے۔ یہ موقع میرے لئے ہمیشہ بڑا منفعت بخش ہوتا ہے۔ یہ ملاقات استاد کا احترام کرنے اور استاد کی توقیر کے سلسلے میں ایک علامتی عمل ہوتا ہے۔ لیکن ہر سال حسینیہ امام خمینی میں انجام پانے والی اس ملاقات کو ہم نے اس یونیورسٹی کے اندر ملاقات میں تبدیل کر دیا، اس طرح یہ اور بھی علامتی عمل بن گیا۔ یہ استاد کو بھی خراج تحسین ہے اور اساتذہ کی پرورش کرنے والییونیورسٹی کو بھی خراج تحسین ہے۔ میں اپنے معروضات کا آغاز کرنے سے پہلے اپنی ان عزیز بہن اور عزیز بھائیوں کی تقاریر کی جانب اشارہ کرنا چاہوں گا۔ جو باتیں بیان کی گئیں بہت اچھی تھیں۔ ہم اس کی حمایت کرتے ہیں۔ ان میں سے بعض چیزیں میں نے نوٹ کر لی ہیں۔ میں گزارش کروں گا کہ آپ نے جو باتیں کہی ہیں انھیں لکھ لیجئے، واضح کر دیجئے اور ہمیں دے دیجئے۔ جہاں تک ممکن ہوا ہم اس کے سلسلے میں کوشش کریں گے۔ بالکل صحیح اور نپی تلی باتیں تھیں۔

امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) نے فرمایا کہ تعلیم دینا انبیا کا پیشہ ہے (2)۔ یہ صرف دل خوش کر دینے والا نعرہ نہیں ہے بلکہ یہ تو قرآنی حقیقت ہے۔ وَ یُعَـلِّمُهُمُ الکِتابَ وَ الحِکمَة (۳)۔ پیغمبروں کی خصوصیات میں سے ایک تعلیم دینا ہے۔ یعنی آپ اس راہ پر گامزن ہیں جس پر تاریخ بشریت کے عظیم ترین انسان چلے ہیں۔ وہ اسی مقصد کے لئے اسی راستے پر چلنے کے لئے مبعوث کئے گئے، پیغمبر بنا کر بھیجے گئے۔ ملک کی پیشرفت میں، ملک کی خوش بختی میں، عمومی تعلیم و تربیت کا بے مثال اور بے نظیر اثر غیر معمولی ہے۔ ہمارے خیال میں تو یہ مسلّمات میں سے ہے، بدیہیات میں سے ہے۔ البتہ افسوس کی بات ہے کہ بعض لوگ اس بدیہی چیز کو بھی بخوبی سمجھ نہیں پاتے کہ عمومی تعلیم و تربیت کسی بھی ملت کی خوش بختی اور ملک کی پیشرفت کا اصلی انفراسٹرکچر اور اسلامی جمہوریہ میں امنگوں کی جانب پیش قدمی کی بنیاد ہے۔

ہم سب کا، خواہ یہ حقیر ہو، یا حکومتی عہدیداران ہوں، یا مختلف شعبوں میں انتظامی عہدیداروں کا جو سلسلہ ہے، سب کا بہت اہم فریضہ یہ ہے کہ سماج میں استاد کی قدر و منزلت کو بیان کریں۔ یہ کام نہیں ہو پایا ہے۔ استاد کا مقام و مرتبہ، استاد کی شان جو اس حقیر کی نظر میں ہے اور جسے میں محسوس کرتا ہوں اور سمجھتا ہوں اس انداز سے سماج میں متعارف نہیں کرائی جا سکی ہے۔ بے شک معیشت کا مسئلہ بہت اہم ہے، اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے، لیکن استاد کی منزلت اگر معیشت کے قضیئے سے زیادہ اہم نہیں ہے تو کمتر بھی نہیں ہے۔ یہ منزلت صرف زبان سے کہہ دینے سے حاصل نہیں ہوتی۔ اب اگر میں کہوں: "استاد کا اتنا بلند مقام ہے،  یا اس کی منزلت انبیا جیسی ہے" تو اس سے ملک میں عمومی ذہن سازی نہیں ہوگی، صرف کہنے سے ذہن سازی نہیں ہو سکتی۔ بلکہ اس کے لئے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ سماج کی فکر و سوچ کی سطح پر یہ تصور رائج ہو جانا چاہئے کہ استاد ایک مرجع ہوتا ہے۔ استاد بہت عظیم ہستی ہے۔ تدریس ایک مقدس پیشہ ہے۔ اس چیز کو فنکارانہ روشوں کے ذریعے، کتابیں لکھ کر، فلمیں بنا کر، اشعار کی نگارش کے ذریعے، گوناگوں موثر طریقوں کی مدد سے انجام دینا چاہئے اور اس کے لئے منصوبہ بندی کرنا چاہئے۔ اب تک یہ کام نہیں ہو پایا ہے۔ ایک بنیادی کام جو تعلیم و تربیت کے شعبے میں، اسی طرح دیگر شعبوں میں، ثقافتی شعبوں میں، نشریاتی ادارے میں اور دوسری جگہوں پر ضرور انجام دیا جانا چاہئے یہی ہے۔ یعنییہ پتہ چلنا چاہئے کہ استاد کا کیا مقام و مرتبہ ہے۔ استاد کا احترام ہونا چاہئے۔ درسی کتب میں، کہانیوں کی کتابوں میں، ناولوں میں اس موضوع کا ذکر ہونا چاہئے۔

آپ کی خدمت میں میرے جو معروضات ہیں وہ دو تین حصوں میں ہیں۔ چونکہ نشست کا وقت کافی گزر چکا ہے اس لئے میں کوشش کروں گا کہ گفتگو زیادہ طولانی نہ ہو۔ ایک بات تو تعلیم و تربیت کے موضوع کے تعلق سے کہنی ہے، ایک چیز فرہنگیانیونیورسٹی اور ٹیچرز ٹریننگ کے تعلق سے عرض کرنی ہے، اسی طرح چند جملے معروضی بین الاقوامی مسائل کے بارے میں جو ہمارے سامنے ہیں اور جن کا ذکر وزیر محترم نے اپنی گفتگو کے آغاز میں کیا۔

تعلیم و تربیت کے تعلق سے جو کچھ عرض کرنا ہے وہ یہ ہے کہ ملک کے تعلیم و تربیت کے شعبے کا رخ انصاف و مساوات کی جانب ہونا چاہئے۔ یعنی تعلیم و تربیت کا ہمارا شعبہ مساوات پسند مزاج کی تربیت کرے، انصاف پسندی کی تربیت کرے، عدل ساز تربیت کرے۔ اس لئے کہ انصاف و مساوات وہ عظیم خصوصیت ہے جس پر تاریخ بشر کے آغاز سے تا حال ہمیشہ لوگوں کی نظریں مرکوز رہی ہیں۔ دیگر قدریں تو وقت گزرنے اور نسلوں کے تبدیل ہونے کے ساتھ تبدیل ہو جاتی ہیں، لیکن بعض اقدار ایسے ہیں جو شروع سے آخر تک قائم و دائم ہیں۔ منجملہ انصاف و مساوات کی قدر ہے۔ آپ غور کیجئے! جن ادیان میں مہدویت کا عقیدہ ہے، تقریبا تمام آسمانی ادیان میںیہ مہدویت کا عقیدہ پایا جاتا ہے، ان کا ایقانیہ ہے کہ نجات دہندہ آئے گا اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔ یہ نہیں کہا کہ دین سے بھر دے گا، بلکہ انصاف و مساوات سے بھر دے گا۔ اس سے انصاف و مساوات کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ البتہ مساوات دین کے ہی سائے میں حاصل ہو پائے گی،یہ بات اپنی جگہ پر مسلمہ ہے، لیکن انصاف و مساوات کا مسئلہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ ہمارے تعلیم و تربیت کے شعبے کو اس قسم کے رجحان کا حامل ہونا چاہئے۔ امیر المومنین علیہ السلام نہج البلاغہ میں ارشاد فرماتے ہیں؛ وَ مَا اَخَذَ اللهُ‌ عَلَى العُلَماءِ اَلّا یَقارّوا عَلىٰ کِظَّةِ ظالِمٍ وَ لا سَغَبِ مَظلوم (۴) علما کا فریضہ بیان فرمایا ہے کہ بھوکوں کی بھوک پر اور خوشحال لوگوں کی حد سے زیادہ شکم سیری پر خاموش نہ رہیں، اسے برداشت نہ کریں۔ یعنی انصاف۔

ملک کی عمومی تعلیم و تربیت کے کچھ اہداف ہیں۔ یہ شعبہ کچھ اہداف کے لئے کوشاں ہے، یہ اہداف کیا ہیں؟یہ اہداف وہی اسلامی نظام کے اہداف ہیں۔ تعلیم و تربیت کے شعبے میںیہ اہداف موجود رہنے چاہئیں، ان پر توجہ رکھی جانی چاہئے۔ ہم طالب علم اور متعلم کی تربیت کرتے ہیں ایک خاص ہدف کے ساتھ، خاص امنگ کے لئے، یہ ہدف وہی ہے جس کے لئے اسلامی نظام کی تشکیل عمل میں آئی ہے۔ اسلامی نظام دنیا اور معاشرے کو پیش رفتہ بنانا چاہتا ہے، عالی اقدار سے آراستہ کرنا چاہتا ہے، دیندار، شریعت خداوندی کا پابند، لا متناہی افق کا حامل بنانا چاہتا ہے۔ جو انسان اسلامی معاشرے میں اور اسلامی نظام میں زندگی گزار رہا ہے اس کی نظر مستقبل کے سلسلے میں کسی حد اور انتہا پر رکتی نہیں ہے۔ کسی بھی پہلو سے۔ صرف روحانی  پہلوؤں کی بات نہیں، مادی اور علمی پہلؤوں سے اس نظر کی کوئی آخری حد معین نہیں ہے۔ نگاہ کا افق بہت آگے اور اس سے بہت دور ہے جو دنیا کے بلند ہمت افراد نے علمی امور کے لئے تسلیم کیا ہے۔ اسلامی سماج میں نگاہ کا افق اس سے کہیں زیادہ وسعت کا حامل ہے۔

طالب علم کو چاہئے کہ اس بارہ سال کی مدت میں، اسلامی معاشرے میں پیشرفت کی جانب رواں دواں کارواں میں اپنا مقام تلاش کر لے۔ اسے معلوم ہو جانا چاہئے کہ اس عظیم قافلے میں، اس عظیم سفر میں اس کا کیا کردار ہے؟ اس کی کیا جگہ ہے؟ اس کا کیا کام ہے؟ اپنے کردار کا تعین کرے۔ ہمیں اپنے بچوں کی تربیت اس انداز سے کرنا چاہئے۔ طالب علم اسکول میں آپ لوگوں کے ہاتھوں تربیت حاصل  کرتا ہے۔ ایسی تربیت ہو کہ وہ احساس ذمہ داری کے ساتھ بڑا ہو، آزاد فکری کی خصوصیت کے ساتھ بڑا ہو، راست گوئی کے ہمراہ بڑا ہو، بلند ہمتی کی خصوصیت کے ساتھ بڑا ہو، شجاع، فداکار، پاک دامن، پرہیزگار بنے۔ تربیت حاصل کرنے والی نسل آپ کے ہاتھ میں ہے، ان خصوصیات کے ساتھ اس کی تربیت ہونی چاہئے۔ یہ نگاہ کا افق ہے۔

اس میدان میں ایک بڑی جنگ چل رہی ہے۔ میرے عزیزو! اس اجتماع میں جمع ہونے والے مومن، پرجوش اور ذی فہم نوجوانو! اسی طرح وہ سارے افراد جو تعلیم و تربیت کے شعبے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں! اس جنگ پر آپ سنجیدگی سے توجہ دیجئے۔ اس وقت ایک جنگ چل رہی ہے۔ کچھ لوگ ہیں جو لوریاں سنانا چاہتے ہیں تاکہ ہمیں نیند آ جائے اور ہم سمجھ ہی نہ پائیں کہ دشمن کن کاموں میں مصروف ہے۔ عظیم انسانوں، بلند ہمت افراد، شجاع و بہادر انسانوں اور ہدف کے تحت زندگی گزارنے والے انسانوں کی تربیت کے میدان میں اس اہم تربیت اور اس عظیم کام کے میدان میں ایک جنگ جاری ہے۔ کچھ لوگ ہیں جو چاہتے ہیں کہ اس کے بالکل برعکس نتیجہ نکلے۔ مومن نوجوان، مسلمان نوجوان، ایرانی نوجوان کے اندر یہ خصوصیات باقی نہ رہیں۔ مختلف راستوں سے یہ کوششیں کی جا رہی ہیں۔ تشخص کا مسئلہ جس پر میں ہمیشہ تاکید کرتا رہتا ہوں اسیقضیئے پر مرکوز ہے۔ ہمارے طالب علم کو چاہئے کہ ملی تشخص کے ادراک کے ساتھ پروان چڑھے، بڑا ہو اور آگے بڑھے۔ جب کسی نوجوان کو اپنے تشخص کا ادراک ہوتا ہے تو وہ انحراف، خیانت، تساہلی اور کاہلی جیسی برائیوں سے اجتناب کرتا ہے۔ بہت سے مسائل جو بعض اوقات نظر آتے ہیں ان کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ انسان کے اندر حقیقی تشخص کا احساس اور ملی شناخت کا ادراک نہیں ہے۔ جب تشخص کا ادراک نہ ہو تو دوسرے افراد اسے کبھی کسی سمت اور کبھی کسی اور سمت گھسیٹ سکتے ہیں۔

میکشد از هرطرف چون پَر کاهی مرا - وسوسه‌ی این و آن، دمدمه‌ی خویشتن

(گھاس کی پتی کی طرح مجھے چار سو کھینچتا ہے- لوگوں کا وسوسہ اور اپنی ذات کا احساس)

احساسات ہوتے ہیں، جذبات ہوتے ہیں، اندرونی میلانات ہوتے ہیں، ہمارے نفس کی خواہشات کی شکل میں موجود شیطان بھی ہے۔ باہر سے بھی درجنوں عوامل ہیں جو ہمیں کبھی کسی سمت اور کبھی کسی اور سمت کھینچتے ہیں۔ ایسے میں ہمیں منحرف ہونے سے جو چیز بچاتی ہے وہ ہمارا التزام ہے، تشخص کا ہمارا ادراک ہے۔ نوجوان کی اس طرح تربیت کرنا چاہئے، یہ آپ کا کام ہے کہ تربیت کریں۔

خوشی کا مقام یہ ہے کہ آج ہماری زندگی کے اندر نمونہ عمل موجود ہیں، بڑے نمایاں نمونے موجود ہیں۔ ہمارے یہاں آئیڈیل کا فقدان نہیں ہے کہ ہم اغیار کے تاریخی کرداروں کی جستجو کریں۔ ہماری اپنی زندگی میں، ہماری آنکھوں کے سامنے نمونے موجود ہیں۔ ہمارے ایٹمی شہدا بڑے عظم نمونے ہیں، شہید چمران ایک عظیم نمونہ ہیں۔ شہید چمران حقیقی معنی میں ایک سائنسداں تھے، وہ سائنٹسٹ تھے۔ انھوں نے تعلیم حاصل کی، اعلی تعلیمیافتہ انسان تھے لیکن اس کے ساتھ ہی ایک حقیقی مجاہد بھی تھے، حقیقی سپاہی تھے، حقیقی معنی میں۔ شہید آوینی بھی ایک نمونہ ہیں۔ شہید حججی بھی ایک نمونہ ہیں۔ آپ دیکھئے کہ ہمارے پاس گوناگوں نمونے موجود ہیں۔ ہمارے ان برادر عزیز نے بڑی خوش اسلوبی سے بیان کیا۔ فرمایا کہ میرا نمونہ عمل میری پہلی کلاس کے استاد تھے لیکن اب میرے نمونہ عمل حججی ہیں۔ جی ہاں، ہمارے پاس یہ نمونے موجود ہیں۔ شجاعت کے ساتھ، بہادری کے ساتھ، احساس ذمہ داری کے ساتھ، پوری قوت سے اور پروقار انداز میں دشمن کے مد مقابل کھڑے ہو جاتے ہیں تاکہ اپنے معاشرے اور اپنے نظام کے اعلی اہداف کی مدد کریں، اپنے ذاتی اغراض و مقاصد کے لئے نہیں۔ یہ لوگ کسی ذاتی لڑائی میں قتل نہیںہوئے۔ شہید شہریاری، شہید علی محمدی، احمدی روشن اور دوسرے شہدا ملت کی سربلندی کی راہ پر چلے اور آگے بڑھے۔ یہ نمونہ عمل ہیں۔ ہمارے اپنے معاشرے کے اندر، ہماری آنکھوں کے سامنے، ہمارے اسی زمانے میںیہ عزیز نمونے موجود ہیں۔

ایک اور نکتہ نفع بخش علم کے تعلق سے عرض کرنا ہے۔ ملک میں تعلیم و تربیت کے شعبے کے اندر سودمند علم اور نفع بخش دانش پر کام ہونا چاہئے۔ یہ جو آپ کا نعرہ ہے؛ "تعلیم و تربیت کے شعبے میں اصلاح ناگزیر ہے" (5)، ایک اہم اصلاحی نکتہ یہی ہے کہ جو علم اور جو دانش دیجائے وہ سودمند ہو۔ یہ علم حاصل کرنے کے بعد نوجوان اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے، اپنے سماج میں بہتری لانے کے لئے اور اپنے گرد و پیش کے حالات کو سدھارنے کے لئے اس سے مدد حاصل کر سکے۔ ہمارے اندر جو چیزیں آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا کرتی ہیں، ہمیں نمو عطا کرتی ہیں، ہماری توانائیوں کو متحرک کرتی ہیں، وہی نفع بخش علم ہے۔ بے شک ایک نفع بخش علم ملی تجربات اور ملکی افتخارات سے آگاہی اور تاریخ کے درس و عبرت سے آشنائی ہے۔ یہ بھی نفع بخش علوم کا حصہ ہے۔ نفع بخش علم وہ ہے جو ہماری صلاحیتوں کو پروان چڑھاتا ہے۔ تو ایک اہم نکتہیہ ہے۔

تعلیم و تربیت کے ادارے کے بارے میں کچھ باتیں؛ احباب نے ذکر کیا؛ اس نشست میں بھی جس میں اس سے پہلے ہم نے شرکت کی (6)، احباب نے ذکر بھی کیا ہے اور حقیر نے بھی کہا کہ تعلیم و تربیت کا شعبہ ملکی ترقی اور ملکی ضرورتوں کی تکمیل میں معاون صف اول کے اداروں میں سے ایک ہے۔ تعلیم و تربیت کے شعبے کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ تعلیم و تربیت کییہ ذمہ داری ادارہ تعلیم و تربیت پر ہے۔ ہم تعلیم و تربیت کے ادارے کو ملک کے دوسرے معمولی اداروں کی نظر سے نہیں دیکھ سکتے۔ یہ معاملہ منفرد خصوصیت کا حامل ہے۔

تعلیم و تربیت کے شعبے کے پاس ایسے مواقع ہیں جو دوسرے کسی  ادارے کے پاس نہیں ہیں۔ ان مواقع سے مراد وہ بارہ سال ہیں جن کے دوران ہمارے بچے، ہمارے نونہال پرائمری اور ہائی اسکول کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ یہ بارہ سال تعلیم و تربیت کے شعبے کے اختیار میں ہوتے ہیں۔ کسی بھی دوسرے ادارے کو یہ گراں بہا موقع نہیں ملتا۔ یہ موقع اقدار کی منتقلی، ہمارے ملی و انقلابی اہداف کی صحیح اور جامع منتقلی کا سنہری موقع ہوتا ہے۔ ہمارے بچوں کے اندر جو مستقبل میں سماج کے مرد اور عورتیں کہلائيں گے، قومی تشخص کو گہرائی تک اتارنے کا یہ بے مثال موقع ہوتا ہے۔ یہ موقع تعلیم و تربیت کے ادارے کو ملتا ہے۔ اسی بارہ سالہ مدت میں فکر اور سوچ بنتی ہے، جذبہ بھی بیدار ہوتا ہے، ہمارے نوجوان اور ہمارے بچے کے اندر زندگی میں آگے بڑھنے کی سمت اور جذبات و رجحانات اسی بارہ سالہ مدت میں درس کی کلاسوں میں شرکت سے اور اسکول کے ماحول سے تشکیل پاتے ہیں۔ آپ دیکھئے کہ یہ کتنی اہم چیز ہے۔ یعنی ملک کا مستقبل اسی بارہ سالہ مدت سے مربوط ہے۔

اب تعلیم و تربیت کے شعبے کو جدیدکاری کی ضرورت ہے۔ آپ نے بھی نعرے لگائے اور کہا کہ اصلاح ہونی چاہئے۔ جی ہاں، بے شک جدیدکاری کی ضرورت ہے۔ کیونکہیہ شعبہ فرسودہ بھی ہو گيا ہے اور جب اس کی تشکیل عمل میں آئی تھی تب بھی اس میں کچھ خامیاں تھیں۔ اسی زمانے میں جب یہ شعبہ نیا نیا تشکیل پایا تھا اور اس طرح فرسودہ اور کہنہ نہیں ہوا تھا، اسے نقصان نہیں پہنچا تھا، تب بھی اس میں بنیادی خامیاں تھیں اور یہ خامیاں تاحال باقی ہیں۔ اس تبدیلی کا ذریعہ اور طریقہ سب سے پہلے تو اصلاحاتی سند (7) ہے۔ یہ سند تیار ہے۔ وزیر محترم نے بھی اشارہ کیا کہ اس کام کے لئے وہ کتنی محنت کر رہے ہیں۔ میری نظر میںیہ کوششیں لازمی اور ضروری کاموں میں ہیں۔ جو رپورٹ مجھے موصول ہوئی ہے اس کے مطابق تا حال اس سند کے دس فیصدی حصے پر اس کے دس فیصدی سے کم مندرجات پر عمل ہو سکا ہے۔ حالانکہ اس دستاویز کو منظوری ملے کئی سال ہو چکے ہیں۔ اس میدان میں کام بہت کم ہوا ہے۔ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ سند تو کاغذ پر ایک تحریر ہے، اس پر عمل ہونا ضروری ہے۔ البتہ اس دستاویز کی تدوین اپنی جگہ بہت حیاتی کام تھا جو انجام دے دیا گيا۔ اس سند کے مندرجات جیسا کہ تعلیم و تربیت کے شعبے کے اہل نظر افراد نے تبصرہ کیا ہے اور ان میں سے بہت سے اہل نظر اس کی تدوین میں بھی شامل تھے، انھوں نے اس کے بارے میں جو رائے قائم کی ہے اس کے مطابق ماہرانہ پہلو سے اور پیشہ ورانہ زاوئے سے دیکھا جائے تو یہ دستاویز بہت اعلی سطح کی ہے، بہت ٹھوس، محکم اور موزوں ہے۔ تو اس پر عمل ہونا چاہئے۔ تعلیم و تربیت کے شعبے سے میرا جو مطالبہ ہے اور مجھے جو توقع ہے وہ یہ ہے کہ ٹائم ٹیبل بنائيے۔ ایک مدت معین کیجئے اور بتائیے کہ اس مدت میں اس دستاویز کو پوری طرح عملی جامہ پہنا دیا جائے گا۔ البتہ یہ کافی دشوار کام ہے لیکنیہ دشوار کام انجام پانا چاہئے۔ دوسرے مختلف اداروں کو چاہئے کہ تعلیم و تربیت کے شعبے کی مدد کریں۔ سب مدد کریں۔ اس کا ایک حصہ اسی فرہنگیانیونیورسٹی اور ٹیچرز ٹریننگ سے متعلق ہے جس کا میں ابھی ذکر کروں گا۔ اس کا ایک حصہ تعلیم و تربیت کے اندرونی ڈھانچے سے مربوط ہے۔ اس مہم کے لئے ضروری افرادی قوت اور فکری مقدمات فرہم کئے جائیں۔ اس کی مدت کا تعین کیا جائے اور یہ کام ان شاء اللہ حقیقی معنی میں انجام  پائے ملک میں عمومی طور پر تعلیم و تربیت کے شعبے کا سب سے اہم کام یہی ہے۔

ایک اور ضروری کام جسے انجام دیا جانا چاہئے یہ ہے کہ تعلیم و تربیت کے پورے ڈھانچے کو اس اصلاحاتی سند کی آشنائی حاصل ہو۔ اس حقیر کو جو رپورٹ ملی ہے اس کم مطابق تعلیم و تربیت کے ڈھانچے کا بیشتر حصہ اس سند کے صرف نام سے واقف ہے، اسے نہیں معلوم کہ یہ سند ہے کیا۔ اس سند کا مناسب انداز میں تعارف کرایا جانا چاہئے۔ سب اس دستاویز کو دیکھیں، اسے پڑھیں، اس سے آگاہ ہوں۔ خود یہ چیز دستاویز کو عملی جامہ پہنانے میں مددگار ہوگی۔ اس لئے کہ تعلیم و تربیت کے ڈھانچے کی مدد کے بغیر اس دستاویز کو عملی جامہ پہنانا ممکن نہیں ہے۔ وہ افراد وہ مجموعہ جسے اس سند کو عملی جامہ پہنانا ہے وہ تعلیمو تربیت کے شعبے میں سرگرم خدمت افراد کا مجموعہ ہے۔ اسے اس سند سے آگاہ کیا جانا چاہئے۔

تعلیم و تربیت کے شعبے کے سلسلے میں ایک اور اہم نکتہ پرورش کے ادارے سے متعلق ہے۔ میں نے ماضی کے دوروں میں بھی اور موجودہ دورے میں بھی اس پر تاکید کی اور زور دیا۔ اس مسئلے پر سنجیدگی سے توجہ دینا چاہئے۔ وزیر محترم بہت پرعزم، پرامید اور کام کے لئے مستعد ہیں۔ اس کام پر سنجیدگی سے توجہ دیں۔ تعلیم و تربیت کے شعبے کے اندر پرورش کے ادارے کا معاملہ حد درجہ اہمیت کا حامل ہے۔ پرورش کی اہمیت بہت زیادہ ہے اور اس کے اہم علمی راستے اور طریقے موجود ہیں۔

تعلیم و تربیت کے شعبے کے تعلق سے ایک اور نکتہ ممتاز علمی لیاقت رکھنے والوں اور الیٹ طلبہ کے بارے میں ہے۔ کچھ اہم بحثیں ہیں، متعلقہ عہدیداران کو چاہئے کہ ہمہ جہتی انداز میں اس مسئلے پر توجہ دیں۔ National Organization for Development of Exceptional Talents ادارے کے بارے میں اور اسی طرح جو دیگر طریقے ہے ان کے سلسلے میں بالکل پیشہ ورانہ طریقے سے کام ہونا چاہئے۔ گوناگوں پہلؤوں کا جائزہ لیکر کام کریں، اس طرح کام کریں کہ تفریق کا کوئي شائبہ پیدا نہ ہو، مشکلات پیش نہ آئیں۔ دلالی نہ ہونے لگے۔ غیر معمولی استعداد والے بچوں کی نشاندہی حقیقی معنی میں انجام پائے۔

اس سلسلے کی گفتگو کے آخری معروضات میں انحرافی سند 2030 کے بارے میں کچھ کہنا ہے۔ سال گزشتہ(8) حقیر نے رسمی طور پر، اعلانیہ اور دو ٹوک انداز میں اس سے روکا تھا۔ تعلیم و تربیت کے شعبے کے عہدیداران نے اس موقف کا استقبال بھیکیا، اس پر کام بھی کیا، لیکن میں نے سنا ہے کہ مختلف حصوں میں 2030 دستاویز کے کچھ حصوں پر عمل ہو رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ملک کے اہم ترین مسئلے کے اختیارات دوسروں کے ہاتھ میں ہوں۔ اس کے علاوہ بھی اگر 2030 دستاویز میں، جس میں منحرفانہ چیزیں موجود ہیں، اس بارے میں کوئی شک نہیں ہے، لیکناگریہ سند پوری طرح صحیح ہوتی تب بھییہ چیز بے معنی ہوتی کہ ایران جیسا ملک جس کے پاس قدیمی ثقافت ہے، طولانی ماضی ہے، مقتدر اور با وقار اسلامی نظام ہے، وہ اپنے تعلیم و تربیت کے پروگرام کو، تعلیمی سند کو دوسروں سے حاصل کرے جو سیاسی مقاصد کے تحت یا دیگر گمراہ رجحانات کے تحت یہ دستاویز تیار کرکے بیٹھے ہیں۔ اس کا کوئی مطلب نہیں ہے (9)۔ اللہ آپ کو سلامت رکھے، اس کا طریقہیہ ہے کہ آپ مرئے بھی نہیں اور 2030 کو قبول بھی نہ کیجئے۔ یہ بہترین راستہ ہے (10)۔

'فرہنگیان' یونیورسٹی (ٹیچرز ٹریننگ یونیورسٹی) اور اساتذہ کی تربیت کا مسئلہ؛ اس وقت ملک کی اہم ترین ضرورت ہے تعلیم و تربیت، اہم ضرورت ہے استاد، استاد بہت اہم ضرورت ہے۔ یہ یونیورسٹی اسی طرح شہید رجائی یونیورسٹی اور وہ تمام مراکز جن پر ٹیچرز ٹریننگ سینٹر کا اطلاق ہوتا ہے، سب کوالٹی اور مقدار دونوں اعتبار سے توسیع کے مراحل طے کریں۔ حضرات نے کہا اور مجھے بھی اطلاع ہے کہ چار سال بعد اساتذہ کی ایک بڑی تعداد، اچھی خاصی تعداد ریٹائر ہو جائے گی، جبکہ ان یونیورسٹیوں سے، فرہنگیان یونیورسٹی اور شہید رجائی یونیورسٹی سے جو اساتذہ نکلیں گے ان کی تعداد ریٹائر ہونے والے افراد سے بہت کم ہوگی۔ تو یہ تعلیم و تربیت کے شعبے کے لئے ایک بحران ہے۔ یہ نہیں ہونا چاہئے۔ کہا جا رہا ہے کہ باہر سے کچھ افراد کی خدمات لے لی جائیں گی، لیکن یہ ایک ہنگامی اقدام ہے۔ مجبوری میں اور ہنگامی صورت حال میں تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن اصول و قاعدے کے اعتبار سے یہ روش مناسب نہیں ہے۔ تدریس ایک ماہرانہ پیشہ ہے۔ ایک فنکارانہ کام ہے۔ اس کی ٹریننگ ضروری ہے۔ یہاں آپ تدریس کی روش سیکھ رہے ہیں، کسی یونیورسٹی میں کسی شخص نے تعلیم حاصل کی ہے اسے تو ان مہارتوں اور روشوں کی خبر نہیں ہے جو آپ کو یہاں سکھائی جا رہی ہیں۔ وہ کیسے استاد کے فرائض ادا کر سکتا ہے؟ ٹیچرز ٹریننگ کے مراکز جن میں اس وقت سب سے اہم مرکز دانشگاہ فرہنگیان ہے، ملک کے تعلیم و تربیت کے شعبے کا اصلی ستون ہے اور اس یونیورسٹی کے سلسلے میں کوتاہی ہوئی ہے۔ مجھے جو  اطلاعات ملیں اور جو رپورٹ مجھے دی گئی ہے اس کے مطابق یہ یونیورسٹی افرادی قوت کے اعتبار سے، اساتذہ اور مدرسین کے اعتبار سے بھی مشکلات کا شکار ہے اور بجٹ کے اعتبار سے بھی مسائل سے روبرو ہے، اسی طرح تعلیمی و تربیتی سرگرمیاں انجام دینے کے لئے جگہ کی بھی کمی ہے۔ وزارت علوم، ادارہ انتظامی امور، ادارہ وسائل انسانی، سب کو چاہئے کہ اپنے اپنے اعتبار سے  تعاون کریں، مدد کریں اور یہ مشکلات دور ہوں۔ البتہ دوستوں نے یہاں بھی ذکر کیا اور اس سے پہلے کی نشست میں بھی ذکر کیا کہ اس حقیر سے انھیں کچھ توقعات ہیں۔ میں تیار ہوں اور مجھ سے جو کچھ بھی بن پڑے گا، جو کچھ میرے بس میں ہوگا، میرے اختیار میں ہوگا وہ میں یقینا انجام دوں گا۔ کیونکہ میں اسے ملک کی اہم ترجیحات کا جز سمجھتا اور مانتا ہوں۔

اکیڈمک کونسل کی گنجائش اور بڑھائی جانی چاہئے، یہ ادارہ وسائل انسانی کی ذمہ داری ہے۔ یہاں کے اساتذہ کا فکری و علمی اعتبار سے ممتاز صلاحیتوں کا مالک ہونا ضروری ہے۔ دینداری، اعلی علمی مقام، انقلابی جذبہ، اصلاحاتی دستاویز کے معیاروں کا خیال، یہ سب ہونا چاہئے۔ یہ تو ممکن نہیں ہے کہ ہم اصلاحات کی ستاویز تیار کر لیں اور اسے عملی جامہ پہنانے کی کوشش میں بھی رہیں لیکن تعلیم و تربیت کا جو سب سے بنیادی اور اصلی مرکز ہے وہاں اس دستاویز کے معیاروں، تخمینوں اور انڈیکیٹرز پر توجہ نہ دی جائے۔ یہ ممکن نہیں ہے۔ ریکروٹمنٹ کی توثیق کرنے والے ادارے کو چاہئے کہ اس سلسلے میں کوئی ڈھیل اور تساہلی نہ کرے۔ ممتاز، اچھے اور فل ٹائم استاد کی تقرری کریں۔ میں یہاں موجود تمام اساتذہ اور طلبہ کو سفارش کرنا چاہوں گا کہ ہمارے عزیز شہید کی تصانیف و تقاریر، شہید مطہری جن کے نام سے یوم معلم منسوب ہے، ان سے خود کو مانوس بنائیں۔ جہاں تک ممکن ہو ان تصنیفات پر عبور حاصل کریں۔ شہید مطہری کی پربرکت زندگی کو اب کئی سال گزر چکے ہوں لیکن ان کا  پاکیزہ خون اور شہادت آج بھی ان کی باتوں کی تائید کرتے ہیں۔ وہ سچے انسان تھے، راستگو انسان تھے۔ اچھی فکر، عالی استعداد کے مالک اور فکری اعتبار سے بہت مضبوط انسان تھے۔ بحمد اللہ انھوں نے اپنی علمی کاوشوں کا گراں بہا سرمایہ چھوڑا ہے جو آج ہمارے کام آ رہا ہے۔ تو تعلیم و تربیت کے بارے میں اور فرہنگیان یونیورسٹی کے بارے میں ہمارے یہ کچھ معروضات تھے جو آپ کی خدمت میں پیش کئے۔

دو باتیں  اور بھی ہیں جو اختصار سے عرض کرنا چاہتا ہوں۔ ایک امریکہ کے تعلق سے ہے اور دوسری مشترکہ جامع ایکشن پلان کے بارے میں ہے۔ آپ نے گزشتہ شب سنا، امریکہ کے صدر نے کچھ باتیں کہی ہیں۔ پست اور گھٹیا باتیں کیں۔ ان کی اس گفتگو میں شاید دس سے زیادہ جھوٹ تھے۔ ایٹمی معاہدے سے باہر نکلنے کے بارے میں بھی بات کی اور ملت ایران اور اسلامی جمہوری نظام کو دھمکیاں بھی دیں؛ کہ "یہ کر دیں گے، وہ کر دیں گے" اس پر ملت ایران کی طرف سے میں عرض کروں گا کہ ٹرمپ صاحب! آپ احمقانہ باتیں کر رہے ہیں۔

ذرا غور سے سنئے، توجہ دیجئے! میرا دل چاہتا ہے کہ آپ نوجوان اور وہ تمام افراد جو بعد میں اس بات کو سنیں گے، اچھی طرح توجہ دیں، غور کریں۔ کیونکہیہ ہمارے آج کے در پیش مسائل میں بہت اہم مسئلہ ہے۔ امریکہ کا مسئلہ بہت سنجیدہ مسئلہ ہے۔ امریکہ ہمارا دشمن ہے۔ یہ دشمنی صرف اس حقیریا صرف اسلامی نظام کے عمائدین سے نہیں ہے۔ پورے اسلامی نظام سے ہے جسے ملت ایران نے قبول کیا ہے اور جس راستے پر وہ رواں دواں ہے۔ اس دشمنی کییہ ماہیت ہے۔ یہ صرف اسی شخص سے مختص نہیں ہے۔ امریکہ کی حکومت نے، امریکی نظام نے اسلامی جمہوریہ کی تشکیل کے آغاز سے ہی اس سے دشمنی کا برتاؤ کیا، برا رویہ اپنایا، اسے سرنگوں کر دینے کی کوشش کی۔ یہاں تک کہ گزشتہ حکومت، اوباما کی حکومت بھی جو حقیر کو لکھے گئے اپنے خط میں بھی اور اپنی تقریروں میں بھی کہتے تھے کہ ہم نظام کا تختہ الٹنے کی کوشش میں نہیں ہیں، وہ جھوٹ بول رہے تھے، وہ بھی تختہ الٹنے کی کوشش میں تھی، اسلامی جمہوری نظام کا تختہ الٹنے کی کوشش میں تھی۔ ایٹمی معاہدے وغیرہ کا مسئلہ تو محض بہانے بازی ہے۔ آپ دیکھئے کہ جب ایٹمی مسئلہ اور پابندیوں وغیرہ کا موضوع شروع ہوا تو ملک کے کچھ مشہور افراد، اعلی سطحی حکام مجھ سے ملاقات کرتے تھے اور کہتے تھے کہ "آپ اس ایٹمی مسئلے پر اس قدر اصرار کیوں کر رہے ہیں؟یہ اصرار کیوں ہے؟ امریکیوں کو اس طرح بہانہ مل جاتا ہے، وہ بد طینتی کا مظاہرہ کرتے ہیں، خبیثانہ اقدامات کرتے ہیں، اسے آپ ترک کر دیجئے، ہماری گلو خلاصی ہو جائے۔" یہ باتیں مجھ سے کہتے تھے۔ البتہ خود یہ بات بھی غلط  تھی۔ کیونکہ ایٹمی پروگرام ملک کی ضرورت ہے۔ یہ بات میں بارہا عرض کر چکا ہوں۔ چند سال بعد ہمیں بیس ہزار میگاواٹ ایٹمی بجلی کی ضرورت پڑے گی۔ یہ ملک کے متعلقہ حکام کا تخمینہ ہے۔ ہمیں اس کی ضرورت ہے۔ ہم کہاں سے لائیں گے؟ جب ہمیں ضرورت کا احساس ہوا تو کہہ رہے ہیں کہ آپ کے پاس تیل ہے۔ لیکنیہ تیل ہمیشہ تو رہنے والا نہیں ہے۔ جب ملک کے پاس یہ تیل نہیں رہ جائے گا، یا اس فراوانی کے ساتھ نہیں رہے گا تو پھر ہم ایٹمی انرجی اور ایٹمی وسائل کے حصول کی کوششوں کی شروعات کریں گے؟! ہمیں تب اس کا آغاز کرنا چاہئے؟ اس دور کی نسل ہم پر لعنت نہیں بھیجے گی کہ آپ کو جب شروع کرنا چاہئے تھا تب آپ نے کیوں شروع نہیں کیا؟ تو یہ کہنا بالکل غلط تھا کہ "ہمیں کیا ضرورت ہے؟" کیوں نہیں، بالکل ضرورت ہے۔ چلئے مان لیتے ہیں کہ ہمیں اس کی ضرورت نہیںتھی تب بھی ان سے میرایہی کہنا تھا کہ امریکہ کے اعتراضات اور ہمارے خلاف اس کی جانب سے عائد کی جانے والی پابندیوں اور ہم سے اس کی دشمنی کی وجہ ایٹمی انرجی نہیں ہے۔ یہ تو صرف ایک بہانہ ہے۔ اگر ہم اسے ترک کر دیں گے تو وہ کوئی اور بہانہ تلاش کر لیں گے اور اسیطرح سے دشمنی کا برتاؤ کریں گے۔ کہتے تھے کہ "نہیں جناب! ایسا نہیں ہے" اب آپ نے دیکھ لیا کہ بالکل ایسا ہی ہے۔ ایٹمی توانائی کے قضیئے میں ہم نے مشترکہ جامع ایکشن پلان کے تحت مخالفین کی مرضی کے مطابق عمل کیا اور ان کے دباؤ کو قبول کیا لیکن دشمنی پھر بھی ختم نہیں ہوئی۔ انھوں نے مشرق وسطی میں ہماری موجودگی کا موضوع پیش کر دیا، میزائلوں کا مسئلہ پیش کر دیا۔ اگر آپ کل یہ اعلان کر دیں کہ اب ہم میزائل نہیں بنائیں گے یا فلاں مسافت سے زیادہ ہمارے میزائلوں کی رینج نہیں ہوگی تب یہ قضیہ تو ختم ہو جائے گا لیکن وہ کوئی نیابہانہ تلاش کر لیں گے، کوئی اور موضوع پیش کر دیں گے۔ جھگڑا بہت بنیادی چیز کا ہے۔ وہ اسلامی جمہوری نظام کے مخالف ہیں۔

سوالیہ ہے کہ وہ اسلامی جمہوری نظام کے مخالف کیوں ہیں؟ اسلامی جمہوری نظام سے ان کی مخالفت کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ نے آکر ملک کو امریکی تسلط سے باہر نکال لیا۔ سارا جھگڑا اسی بات کا ہے۔ ثروت اور وسائل سے مالامال اور انتہائی اہم جغرافیائی محل وقوع والا ایران جیسا ملک امریکیوں کے مکمل تسلط میں تھا۔ انقلاب اور اسلامی جمہوریہ نے آکر اس تسلط کو ختم کر دیا۔ اسی لئے وہ انقلاب اور اسلامی جمہوریہ کو ختم کر دینا چاہتے ہیں۔ وہ اپنا تسلط بحال کرنا چاہتے ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے بد قسمتی سے علاقے کے بعص ممالک پر ان کا تسلط ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ جب وہ کہیں کہ "اس کام کو انجام دینا ہے" تو اس حساس علاقے کے ملک کا حکمراں فورا اطاعت میں سر جھکا دے اور قبول کر لے! وہ یہی چاہتے ہیں۔ توجہ کیجئے! یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ یہ صرف جذبات کا معاملہ نہیں ہے۔ قضیہیہ نہیں ہے کہ اچانک کوئیواقعہ ہو جائے اور اس سے متاثر ہوکر کوئی شخص جذباتی موقف اختیار کر لے۔ یہ بڑا کلیدی اور اساسی مسئلہ ہے۔ ان کو نوکر کی ضرورت ہے۔ اسلامی جمہوریہ پورے وقار کے ساتھ ان کے سامنے کھڑی ہے جسے وہ برداشت نہیں کر پا رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ حکمراں ایسے ہوں کہ جن سے وہ پیسے حاصل کریں، جن کے وسائل کو وہ منمانی استعمال کریں، جو ان کے احکامات کی تعمیل کریں اور پھر جب ان کا دل چاہے تو ان حکمرانوں کو تبدیل کر دیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح کسی زمانے میں برطانیہ کی پوزیشن ہوا کرتی تھی۔ ایک دن انھوں نے رضاخان کو تخت پر بٹھا دیا، پھر کسی دن کچھ وجوہات کی بنا پر انھوں نے رضاخان کو ہٹانا چاہا تو ہٹا دیا اور اس کے بیٹے کو تخت پر بٹھا دیا۔ امریکی بھییہی چاہتے ہیں۔ بد قسمتی سے خلیج فارس کے ممالک میں، مغربی ایشیا کے ممالک میں، ان میں سے بہت سے ملکوں میںیہی حالت ہے۔ وہ امریکہ کے سامنے سر بسجود ہیں، سر جھکائے کھڑے رہتے ہیں۔ انسان انھیں کیا کہے؛ ذلیل و رسوا غلام کی مانند!

ابھی دو تین دن پہلے کی بات ہے۔ ٹرمپ نے خلیج فارس کے ملکوں کے سربراہوں کو ایک خط لکھا ہے، اس کا ایک نسخہ ہم نے حاصل کر لیا ہے اور اسے دیکھا ہے، اس خط میں ٹرمپ نے ان سے کہا ہے کہ آپ لوگ متفق ہو جائیے،یہ کام کر ڈالئے، وہ کام کر ڈالئے! میں نے آپ کی خاطر اس علاقے میں سات ٹریلین ڈالر خرچ کئے ہیں! گھٹیا انسان! تم نے سات ٹریلین ڈالر ان کی خاطر خرچ کئے ہیں؟! تم نے سات ٹریلین ڈالر خرچ کئے تھے عراق پر قبضہ کرنے کی خاطر، شام پر قابض ہونے کی خاطر۔ تم کامیاب نہیں ہوئے، تو جہنم میں جاؤ! کہہ رہے ہیں کہ یہ کام کرو، وہ کام کرو، فلاں کام انجام دو۔ ان کے جملوں میں "کرنا ہوگا" کا لفظ ہے۔ ان تمام ملکوں کے سربراہوں کو انھوں نے یہی خط بھیجا ہے۔ وہ اسی تحکمانہ لہجے میں اسلامی جمہوریہ سے بھی بات کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن چونکہ وہ ایسا کر نہیں پا رہے ہیں اس لئے دشمنی پر آمادہ ہیں، اسے ختم کر دینا چاہتے ہیں۔ سارا جھگڑا اسی بات کا ہے۔ ملت ایران ایک خود مختار قوم ہے، با وقار قوم ہے۔ اس ملت کے ماضی کے حکمرانوں نے، قاجاریہ دور اور پہلوی دور کے بادشاہوں نے اس قوم کی عزت چھین لی، اسے رسوا کیا، پسماندہ رکھا، بڑی طاقتوں کے دباؤ میں رکھا۔ ان طاقتوں کو اسی کی عادت پڑ گئی تھی وہ چاہتی ہیں کہ دوبارہ وہی حالات پیدا ہو جائیں۔ اسلام، اسلامی جمہوریہ، اسلامی نظام اور اسلامی انقلاب نے آکر اس ملت کو دوبارہ عزت عطا کی۔ یہ قوم اب ثابت قدمی سے کھڑی ہے تو ان طاقتوں کو یہ چیز برداشت نہیں ہو رہی ہے۔ جھگڑا اسی بات کا ہے۔ اس طرح کوئی نہ سوچے کہ "جناب آپ فلاں موضوع پر اتنا اصرار کیوں کرتے ہیں" کچھ لوگ آکر ہم سے یہی کہتے تھے۔ اللہ ان کی غلطیوں کو معاف فرمائے۔

تویہ امریکہ کا مسئلہ ہے۔ لہذا جو کچھ ہوا ہے یعنی امریکہ کے موجودہ صدر کا پست اور مذموم رویہ ہماری توقع کے برخلاف نہیں ہے۔ یہ وہی حرکت ہے جو وہ پہلے سے کرتے آئے ہیں۔ امریکہ کی سابقہ حکومت کے زمانے میں کسی اور انداز سے اور اب ایک الگ انداز سے۔ اس سے بھی پہلے کے دور میںیعنی بوش جونیئر کے دور میں کسی اور انداز سے۔ ہر دور میں انھوں نے ایک الگ انداز سے ملت ایران کے سلسلے میں خبیثانہ حرکتیں کیں، دشمنی کی اپنی ملعونانہ روش کا مظاہرہ کیا۔ ملت ایران نے ان سب کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ ان میں بہتوں کی ہڈیاں بھی خاک بن چکی ہیں ان کے جسم مٹی کے نیچے حشرات الارض، دیمک اور سانپ کی غذا بن گئے لیکن اسلامی جمہوریہ بحمد اللہ پورے شوکت کے ساتھ سینہ سپر ہوکر کھڑی ہے۔ ان حضرت کا جسم بھی مٹی ہو جائے گا، دیمک اور سانپ کی خوراک بن جائے گا مگر اسلامی جمہوریہ اسی طرح ثابت قدمی سے ڈٹی رہے گی۔ یہ تھیں امریکہ سے متعلق کچھ باتیں۔

اور اب مشترکہ جامع ایکشن پلان کے بارے میں؛ حقیر نے پہلے دن سے بار بار کہا کہ امریکہ پر اعتماد نہ کیجئے! خصوصی ملاقاتوں میں بھییہ بات کہی، عوامی نشستوں میں بھی کہا۔ خصوصی ملاقاتوں میںیہ بات میں نے اور بھی تاکید سے کہی۔ میں نے کہا کہ ان پر اعتماد نہ کیجئے۔ اگر آپ معاہدہ کرنا چاہتے ہیں تو لازمی ضمانتیں لے لیجئے اس کے بعد بات کیجئے، اس کے بعد معاہدہ کیجئے، اس کے بعد دستخط کیجئے۔ ان کی باتوں پر اعتماد نہ کیجئے۔ اس وقت ایک چیز جو میں نے خاص طور پر بڑی صراحت کے ساتھ کہی تھییہ تھی کہ ہم اس معاہدے کو ان شرطوں پر قبول کریں گے، کئی شرطیں تھیں۔ ایک شرط یہ تھی کہ میں نے کہا کہ اس وقت کے امریکی صدر تحریر دیں اور اس پر دستخط کریں کہ پابندیاں اٹھا لی گئیں۔ یہ ہماری شرطوں میںسے ایک شرط تھی۔ اس حقیر کی شرطوں میں سے ایک شرط تھی۔ ہمارے محترم عہدیداران نے زحمتیں اٹھائیں، محنت کی، پسینہ بہایا۔ لیکن کامیاب نہیں ہوئے۔ یہ کام نہیں ہو سکا اور اس کا نتیجہ جو نکلا وہ آج آپ دیکھ رہے ہیں۔ دو سال، ڈھائی سال گزر چکے ہیں، ہم نے اپنے ہر کمٹمنٹ پر عمل کیا ہے۔ اب یہ پست آدمی آکر کہتا ہے کہ "میں نے کوئی وعدہ نہیں کیا ہے اور میں اس سے نکل رہا ہوں۔ میںیہ کر دوں گا وہ کر دوں گا!"

اب کہا جا رہا ہے کہ ایٹمی معاہدے کو ہم تینیورپی ملکوں کے ساتھ جاری رکھیں گے۔ مجھے ان تین ملکوں پر بھی بھروسہ نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں کہ ان پر بھی اعتماد نہ کیجئے۔ اگر آپ معاہدہ کرنا چاہتے ہیں تو ضروری ضمانتیں لیجئے، حقیقی ضمانت، عملی ضمانت۔ ورنہ کل یہ بھی وہی کام کریں گے جو امریکہ نے کیا ہے تاہم کسی اور انداز سے۔ سیاسی اور سفارتی روشیں خاص طرح کی روشیں ہوتی ہیں۔ کبھی کبھی مسکرا رہے ہوتے ہیں اور اسی مسکراہٹ کی آڑ میں اپنا خنجر قبضے تک انسان کے سینے میں اتار دیتے ہیں۔ سفارت کارییہی تو ہوتی ہے؛ بڑی خوش اخلاقیسے، خوب تعریفیں کرکے کہ "جناب آپ تو بہت اچھے انسان ہیں، آپ بڑے عظیم انسان ہیں، ہم جانتے ہیں کہ آپ کبھی بھی معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کرتے!" اگر آپ ایسی ضمانتیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے جس پر اعتماد کیا جا سکے تب تو کوئی حرج نہیں ہے، اسی سمت میں آپ آگے بڑھتے رہئے۔ لیکن اگر آپ ایسی ٹھوس ضمانتیں حاصل نہ کر سکے، البتہ مجھے بہت مشکل لگتا ہے کہ آپ ایسی ضمانتیں حاصل کر پائیں، تو ایسی صورت میں موجودہ صورت حال کو جاری نہیں رکھا جا سکتا، اس طرح نہیں چل سکتا۔

یہ بہت حساس معاملہ ہے۔ آج ملک کے حکام بہت بڑے امتحان کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ وہ اس عظیم ملت کے وقار و اقتدار کی حفاظت کریں گے یا نہیں؟ اس ملت کے وقار کی حفاظت کی جانی چاہئے۔ قوم کے مفادات کی حقیقی معنی میں حفاظت کی جانی چاہئے۔ خوشی کی بات ہے کہ عہدیداران بھی قومی مفادات کی حفاظت پر زور دے رہے ہیں اور انھوں نے کہا کہ ہمارے مفادات کی حفاظت ہونی چاہئے۔ جی ہاں، بالکل حفاظت ہونی چاہئے لیکن مفادات کی حفاظت کے لئے فلاں صدر، فلاں وزیر اعظم یا فلاں چانسلر کی بات اور وعدے پر اعتماد نہ کیجئے۔ ان کی باتوں کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ آج کچھ کہیں گے اور کل کسی اور انداز سے عمل کریں گے۔ انھیں کوئی تکلف بھی نہیں ہوگا۔ شرم بھی انھیں بالکل نہیں آتی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ سفارت کاری کی دنیا میں جس چیز کا کوئی نام و نشان نہیں ہے وہ انسانی اقدار و اخلاقیات ہیں۔ خاص طور پر مغربی دنیا میں اور یہ ان یورپیوں نے تو گوناگوں سفارتی روابط وغیرہ جیسی چیزوں میں اخلاقیات نام کی کوئی چیز سیکھی ہی نہیں ہے۔ وہ صرف اور صرف اپنے مفادات کی بنیاد پر سوچتے ہیں، عمل کرتے ہیں اور منصوبے بناتے ہیں۔ ان کے ساتھ بڑی ہوشیاری سے کام کرنا چاہئے، بڑی دانشمندی سے کام کرنا چاہئے۔ قوم کے وقار کی حفاظت کی جانی چاہئے۔ ملت کے مفادات کی حفاظت ہونی چاہئے۔ حقیقی معنی میں حفاظت کی جانی چاہئے۔ ہرگز اعتماد نہیں کیا جانا چاہئے۔

میں آپ سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میرے عزیزو! عزیز نوجوانو! میرے فرزندو! میں دیکھ رہا ہوں کہ مستقبل آپ کا ہے۔ مجھے اس میں ذرہ برابر شک نہیں ہے کہ اس ملک کا مستقبل اس کے زمانہ حال سے بدرجہا بہتر ہوگا۔ اسلامی نظام کی سمت میں، اسلام کی سمت میں اور اسلامی اقدار کی سمت میں ہوگا (11)۔ ان شاء اللہ خداوند عالم آپ کے اندر اس آمادگی کو قائم رکھے۔ ہمیں اور آپ کو ثابت قدمی عطا کرے۔ ہم سب کی عاقبت سنوارے اور ہمیں ان لوگوں کے ساتھ جن سے ہم محبت کرتے ہیں، ہمارے عزیز شہدا، ہمارے بزرگوار امام (خمینی رضوان اللہ علیہ) کے ساتھ محشور فرمائے اور ہمارے امام زمانہ کے قلب مقدس کو ہم سے راضی و خوشنود رکھے۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته

۱) اس ملاقات کے آغاز میں جو فرھنگیان ٹیچرز ٹریننگیونیورسٹی میں ہوئی وزیر تعلیم و تربیت سید محمد بطحائی نے اپنی رپورٹ پیش کی اور کچھ اساتذہ نے اپنے اپنے نظریات بیان کئے۔

۲) منجملہ صحیفه‌ امام، جلد ۸، صفحہ ۹۱

۳) سوره‌ بقره، آیت نمبر ۱۲۹ کا ایک حصہ «... اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دی ...»

۴) نهج‌ البلاغه، خطبه‌ نمبر ۳‌

۵) حاضرین کے نعروں کی جانب اشارہ

۶) وزارت تعلیم و تربیت اور فرہنگیانیونیورسٹی کے عہدیداران سے خطاب مورخہ 9 مئی سنہ 2018

۷) تعلیم و تربیت کے شعبے کی بنیادی اصلاحاتی دستاویز کو سنہ 2011 میں سپریم کونسل برائے ثقافتی انقلاب کی منظوری ملی۔

۸) ملک بھر کے اساتذہ اور علمی ہستیوں نیز فرہنگیانیونیورسٹی کے طلبہ سے خطاب مورخہ 6 مئی 2017

۹) حاضرین کے نعرے: «معلّم میمیرد،۲۰۳۰ نمیپذیردیعنی استاد مرنا قبول کرے گا لیکن 2030 دستاویزSDGs کو قبول نہیں کرے گا۔»

۱۰) حاضرین اور خود رہبر انقلاب ہنس پڑے

11) حاضرین کے نعرے: «ای رهبر ‌آزاده، آماده‌ایم آماده، اے ازاد منش رہبر ہم تیار ہیں تیار ہیں»