بسم اللہ الرّحمن الرّحیم. الحمد للہ‌ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام على سیّدنا محمّد و آلہ الطّاھرین سیّما بقیّۃ ‌اللہ ‌فى الارضین. قال اللہ الحکیم فی کتابہ الکریم: ھُوَ الَّذىِّ اَنزَلَ السَّکینَۃَ فی قُلوبِ المُؤمِنینَ لِیَزدادوا ایمانًا مَعَ ایمانِھِم وَ للہ جُنودُ السَّماواتِ وَ الاَرضِ وَ کانَ اللہُ عَلیمًا حَکیمًا. (۲)

عظیم ہستیوں کی روحانی پرواز، عظمتوں اور اونچی چوٹیوں کی یاد دلوں کو سکون، طمانیت اور خود اعتمادی عطا کرتی ہے۔ آیہ کریمہ میں کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کے قلوب میں سکون و طمانیت کا سبب فتح اور نصرت خداوندی ہے۔ سکون و اطمینان اور سکینہ قلبی ایمان کے مزید استحکام اور اضافے کا سبب ہے۔ دشمن امت اسلامیہ اور ہمارے مومن، متحرک اور ترقی پذیر معاشرے پر اس کے برعکس کیفیت مسلط کر دینے کی کوشش میں ہے۔

تیس سال ہو رہے ہیں کہ ہم اس دن اپنے عظیم قائد پر گفتگو کر رہے ہیں۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) ایک بلند و بالا چوٹی کا نام ہے۔ آئندہ بھی ہماری قوم، ہماری ملت ہمیشہ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کا تذکرہ کرتی رہے گی۔ یہی سزاوار بھی ہے۔ کیونکہ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) انقلاب کا مظہر ہیں اور یہ ملک انقلاب کے اس طاقتور انجن کی مدد کے بغیر اپنے اہداف اور اپنے اعلی مقاصد کو پورا نہیں کر پائے گا۔

اس سال یہ دن حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی شہادت کے ایام کے موقع پر آیا ہے تو اس سچے پیروکار اور امیر المومنین کے اس حقیقی تابعدار اور اس عظیم پیشوا کے درمیان موجود مشابہتیں ذہن میں آتی ہیں۔ کچھ مشابہتیں ہیں جو ملت ایران اور امت اسلامیہ کے لئے مایہ صد افتخار ہیں۔ ان مشابہتوں پر توجہ دینا بہت اہم اور مفید ہے صحیح راستے کی جستجو کی خاطر، اسی طرح اپنے عظیم قائد کی بہتر معرفت کی خاطر۔ میں نے ان مشابہتوں کے بارے میں تین عناوین تیار کئے ہیں جو آپ کی خدمت میں پیش کروں گا۔

ایک عنوان تو یہ ہے؛ امیر المومنین کی ذات میں بظاہر متضاد نظر آنے والی خصوصیات کا جمع ہونا۔ ایک طرف سختی، استقامت اور شدت اور دوسری طرف لطافت، صفا و رقت قلبی۔ یہ دونوں ہی صفات امیر المومنین علیہ السلام کے اندر اپنے نقطہ اوج و کمال پر موجود تھیں۔ ہر ناحق بات کے مقابلے میں سختی اور شدت؛ ظلم کے خلاف، ظالم کے خلاف، راہ خدا سے انحراف کے  خلاف، سرکشی کے خلاف، فریب دہی کے خلاف، ان تمام چیزوں کے خلاف امیر المومنین نہایت سختی اور شدت کے ساتھ کھڑے ہو جاتے تھے جس کی تا حال کوئی اور مثال نہیں ملتی۔ جب ذکر الہی اور یاد خداوندی کا معاملہ ہو یا مظلومین، محرومین، کمزوروں اور مستضعفین کا سامنا ہو تو بے حد لطافت اور رقیق القلبی کے ساتھ عمل کرتے تھے۔ معاویہ کے خلاف امیر المومنین علیہ السلام نے بے حد سختی کا برتاؤ کیا۔ آپ کو مشاورت دی گئی کہ کچھ عرصہ ٹھہر جائیے ابھی معاویہ کو شام کے گورنر کے عہدے سے مت ہٹائیے، مگر آپ نے قبول نہ کیا۔ دو پرانے، با وقار اور مقبول صحابیوں کے مقابلے میں جن کی توقعات کچھ زیادہ تھیں اور ایسی چیزوں کا مطالبہ کر رہے تھے جو امیر المومنین علیہ السلام کی نگاہ میں ناحق تھیں، آپ نے کوئی نرمی نہیں دکھائی بلکہ پوری سختی کے ساتھ اپنے موقف پر قائم رہے اور موقف کا دفاع کرتے رہے۔ اسلام کے دعویدار خوارج کے مقابلے میں جو اسلام کی کسوٹی کا درجہ رکھنے والے امیر المومنین علیہ السلام کے مد مقابل کھڑے ہو گئے تھے، آپ نے ان کے مقابلے میں، ان کی کج روی کے مقابلے میں، کج فہمی کے مقابلے میں بڑا سخت اور دو ٹوک موقف اختیار کیا۔ ایک طرف تو اس عظیم ہستی اور عظیم ولی خدا کے اندر انسان اس سختی کا مشاہدہ کرتا ہے۔ لیکن دوسری طرف جب کمزوروں کی بات ہو، مستضعفین کا معاملہ ہو تو ایسی رقیق القلبی، ایسی لطافت اور ایسا خلوص امیر المومنین کے یہاں دیکھنے میں آتا ہے کہ انسان حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ اس شہید کی زوجہ کے گھر ناشناس بن کر جانے کا قصہ جس کے چھوٹے یتیم بچے ہیں، تنور کے پاس جاکر ان یتیموں کے لئے روٹیاں پکانے کا قصہ اور بچوں کو بہلانے کی داستان بہت مشہور ہے، آپ نے سنی ہے۔ انسان اس شفقت کو دیکھ کر حیرت میں پڑ جاتا ہے۔ یا عراق کے صوبہ الانبار پر حملے کا جو واقعہ ہے کہ شام کی فوج نے حملہ کیا اور امیر المومنین علیہ السلام کے گورنر کو قتل کر دیا اور لوگوں کے گھروں پر ٹوٹ پڑے۔ بچوں کو قتل کیا۔ عورتوں کو ڈرایا۔ امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں؛ «فَلَو اَنَّ امرَأً مُسلِماً ماتَ مِن بَعدِ هٰذا اَسَفاً ما کانَ بِهِ مَلوما»(۳)، کوئی مسلمان شخص اگر یہ سن کر کہ اغیار نے نہتے لوگوں کے گھروں پر حملہ کیا، عورتوں کے زیور چھینے، غم اور افسوس سے مر جائے تو ایسے شحص کی ملامت اور سرزنش نہیں کی جانی چاہئے۔ یعنی یہ شائستہ ہے۔ آپ دیکھئے کہ کمزوروں کے حق کے دفاع کی منزل ہے تو امیر المومنین علیہ السلام کے اندر یہ حیرت انگیز اور عجیب جذبہ نظر آتا ہے۔ امیر المومنین علیہ السلام کے اندر یہ دو متضاد خصوصیات ہیں۔

ہمارے مرحوم امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے اندر بھی یہ دونوں صفات ایک ساتھ جمع نظر آتی ہیں۔ ایک طرف ظالمین اور برائیوں کے مقابلے میں آپ کا استحکام، سختی اور سخت موقف ہے۔ پست طاغوتی اور بدعنوانی  پہلوی حکومت کے مقابل آپ محکم چٹان بن گئے، امریکہ کے مقابل کہسار کی مانند ڈٹ گئے، خطرات کے سامنے، مسلط کردہ جنگ، آٹھ سالہ مقدس دفاع کے دوران جارح صدام کے مقابلے میں، داخلی فتنوں کے مقابلے میں، یہاں تک کہ اپنے پرانے شاگرد اور قدیمی ساتھی کے اندر خلاف حق روش کا مشاہدہ کرنے کی وجہ سے ان کے مقابلے میں بھی بغیر کسی مروت کے سختی کے پیش آئے، یہ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی سختی تھی۔

دوسری طرف انسان انھیں بزرگوار امام کے اندر لطافت اور رقیق القلبی کا مشاہدہ کرتا ہے۔ ایک شہید کی ماں کا پیغام آپ کے پاس  پہنچتا ہے، میں نے خود ایک شہید کی ماں کا پیغام امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کو پہنچایا تو اس آہنی اعصاب کے انسان کی آنکھیں چھلک پڑیں! شہید کی ماں کے ایثار، جذبہ قربانی اور عقیدت کے پیغام پر جذباتی ہو جانا، مستضعفین کا دفاع کرنا اور محروموں کی حمایت امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے فرمودات میں بہ وفور نظر آتی ہے۔ تو یہ ایک عنوان اور ایک عجیب مشابہت ہے امام المتقین اور امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے درمیان۔

دوسرا عنوان؛ امیر المومنین علیہ السلام کے اندر ایک حیرت انگیز چیز نظر آتی ہے۔ آپ کی ذات کے اندر بظاہر ایک دوسرے کے لئے ناسازگار تین صفات جمع تھیں۔ امیر المومنین علیہ السلام مستحکم، مقتدر اور طاقتور انسان تھے مگر ساتھ ہی ساتھ مظلوم ہستی تھے اور دوسری طرف حتمی فتوحات بھی حاصل کرتے رہے۔ یہ تین خصوصیات امیر المومنین کے اندر اور آپ کے حالات زندگی میں قابل مشاہدہ ہیں۔

اگر ہم امیر المومنین علیہ السلام کی قوت و طاقت کو بخوبی سمجھنا چاہتے ہیں تو ہمیں امیر المومنین علیہ السلام کی حکومت کے قلمرو کی وسعت پر ایک نظر ڈالنا چاہئے۔ امیر المومنین جس وسیع و عریض مملکت کا انتظام سنبھال رہے تھے وہ افغانستان کے مشرقی سرے سے شروع ہوتی تھی اور بحیرہ روم کے ساحل اور مصر تک چلی جاتی تھی۔ یہ پورا کا پورا وسیع و عریض علاقہ امیر المومنین کے انتظامی سسٹم کے تحت چلتا تھا پورے استحکام اور کمال کے ساتھ۔ آپ کا فولادی ارادہ، آپ کی شجاعت اور عسکری فنون، مضبوط بیان اور پرکشش استدلال، آپ کے فرمودات حکمت و تحرک سے بھرے ہوئے آپ کے خطبات آج تک انسانوں کے قلوب کے لئے نورانی دروس ہیں، یہ سب آپ کی قوت و توانائی کی علامتیں ہیں۔ مضبوط بازو، محکم فکر، فولادی ارادہ، انتظامی قوت، مضبوط بیان، یہ سب ایک طاقتور اور مقتدر انسان کی خصوصیات ہیں۔

مگر اس کے ساتھ ہی یہ طاقتور انسان مظلوم واقع ہوا۔ آپ کی مظلومیت کی علامتیں دشمنوں کے روئے، حاسدین کے برتاؤ، دشمنوں کے آلہ کاروں کی طرف سے امیر المومنین کی زندگی میں آپ پر لگائے جانے والے الزامات، قریبی افراد میں بھی کچھ کی دنیا پرستی وغیرہ سے نمایاں ہیں، آپ کے بعض قریبی افراد اور خواص کے حلقے میں شمار ہونے والے افراد اسی دنیا پرستی کی وجہ سے آپ سے الگ ہو گئے۔ یہ اس عظیم ہستی کی مظلومیت کی علامتیں ہیں۔ اس عظیم انسان پر ہر طرف سے پڑنے والا دباؤ اور سختیاں اس قدر زیادہ ہیں کہ کبھی کبھی یہ صابر، فراخ دل اور بردبار انسان، جیسا کہ مشہور ہے کنوئیں سے اپنا درد دل بیان کرتا ہے۔ کنوئیں سے باتیں کرتا ہے۔ یہ امیر المومنین کی مظلومیت کی علامتیں ہیں۔ آپ کی رحلت کے بعد، آپ کی شہادت کے بعد بھی برسوں آپ کے دشمن جو تخت اقتدار پر قابض تھے پوری مملکت اسلامیہ میں منبروں سے آپ کی  توہین کرواتے رہے، تقوا و عدل و انصاف کے پیکر امیر المومنین کی مذمت کرواتے رہے۔

مگر اس سب کے بعد بھی جب انسان پورے ماجرا کو دیکھتا ہے تو یہی پاتا ہے کہ اس طولانی پیکار میں آخری اور حتمی فاتح امیر المومنین تھے۔ آج آپ دیکھئے کہ امیر المومنین کا نام ، امیر المومنین کی شخصیت بشریت کے عظیم افق پر اور تاریخ انسانیت کے اندر کہاں ہے؟ بام ثریا پر نظر آتی ہے۔ جبکہ دشمنوں کا کوئی نام لیوا نہیں ہے۔ آپ کی نہج البلاغہ رفعتیں حاصل کرنے والے انسانوں کے لئے سبق ہے۔ آپ کی سیرت نبی اکرم کے بعد کسی انسان کی سب سے عظیم اور درخشاں سیرت ہے۔ آپ کا عدل و انصاف، آپ کی عبادت اور ‏آپ کی عظیم شخصیت آج ساری دنیا میں نمایاں ہے۔ آپ کا راستہ دشمنوں کی روش پر فتحیاب ہے اور حتمی فتح امیر المومنین علیہ السلام کی ہوئی ہے۔

یہی تینوں خصوصیات ہمارے بزرگوار امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ)میں بھی جمع تھیں۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) ایک محکم اور مقتدر انسان تھے۔ وہ انسان جس نے دو ہزار سال سے چلی آ رہی موروثی آمرانہ طاغوتی حکومت کو اس وسیع و عریض مملکت کے اندر تخت سے نیچے کھینچ لیا۔ اس کے لئے بڑی قوت درکار ہوتی ہے۔ یہ ہمارے بزرگوار امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی غیر معمولی قوت کی نشانی ہے۔ آپ نے امریکہ کو شکست دے دی، پسپائی پر مجبور کر دیا جس نے یہاں اپنے کلیدی مفادات طے کر رکھے تھے۔ آپ نے سازشوں کو ناکام کیا۔ مسلط کردہ جنگ کے منصوبہ سازوں کو دھول چٹا دی۔ جن لوگوں نے مسلط کردہ جنگ کی منصوبہ بندی کی تھی ان کا ارادہ یہ تھا کہ انقلاب کو نابود کر دیں، اسلامی نظام کو جڑ سے اکھاڑ دیں لیکن امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے ان خطرات اور مشکلات کو مواقع میں تبدیل کر دیا۔ یہ بزرگوار امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی قوت و قدرت کی علامت ہے۔

اس کے ساتھ ہی ساتھ ہمارے امام مظلوم واقع ہوئے، دشمنوں کی جانب سے آپ کے خلاف کئے جانے والے وسیع پروپیگنڈے کی وجہ سے۔ آپ کی زندگی میں بھی اور رحلت کے بعد بھی ایک عرصے تک توہین آمیز پروپیگنڈا جاری رہا۔ بزرگوار امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے سلسلے میں ایسے افراد بد سلوکی کرتے تھے کہ جن سے اس کی توقع نہیں ہوتی تھی۔ یہ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی مظلومیت تھی۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے محکم اور ٹھوس بیانوں میں آپ کے قلق کو انسان بخوبی محسوس کر سکتا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ عظیم انسان بڑے غموں میں ڈوبا ہوا تھا، یہ آپ کی مظلومیت ہے۔

امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی آخری اور حتمی فتح آخری نکتہ ہے۔ وہ قوت، وہ مظلومیت اور وہ فتح۔ امیر المومنین کی مانند امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) بھی فتحیاب ہوئے۔ آپ کی فتح اسلامی نظام کی مضبوطی میں ہے، اسلامی نظام کی بقا میں ہے، اسلامی نظام کے نمو اور پیشرفت میں جھلکتی ہے۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی بہت سی آرزوئیں آپ کی رحلت کے بعد پوری ہوئیں۔ ملک کی خود اعتمادی، ملک کی خود انحصاری، ملک کی علمی و سائنسی پیشرفت، ملک کی سیاسی پیشرفت، مغربی ایشیا کے علاقے اور شمالی افریقا کے خطے میں وطن عزیز اور اسلامی جمہوریہ کے اثر و رسوخ کے دائرے کی وسعت، یہ ایسی چیزیں ہیں جو رونما ہوئیں اور یہ امام کے موقف اور امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی روش کی فتح تھی۔ بہت سی آرزوئیں پوری ہو چکی ہیں اور بہت سی دیگر آرزوئیں اذن الہی سے پوری ہوں گی اور ہمارے بزرگوار امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی اسلامی جمہوریہ روز بروز علو و رفعت کی نئی منزلیں سر کرتی رہے گی۔ اسی چیز نے دشمنوں کو سراسیمگی اور جھنجھلاہٹ میں مبتلا کر دیا ہے۔ میرے عزیزو! عظیم ملت ایران! آپ دشمن کی جو سرگرمیاں دیکھ رہے ہیں یہ اس کی آشفتہ حالی اور بوکھلاہٹ کی نشانیاں ہیں، دشمن کی جھنجھلاہٹ کی علامتیں ہیں، اس کی قوت و طاقت کی علامتیں نہیں ہیں۔ آج دشمن اسلامی جمہوریہ کے خلاف جو کچھ کر رہا ہے وہ اس کی قوت و طاقت کا نتیجہ نہیں بلکہ اس وجہ سے ہے کہ اسلامی جمہوریہ کی پیشرفت سے، اسلامی جمہوریہ کو حاصل ہونے والی عظمت سے، ملت ایران کی استقامت سے اس پر سراسیمگی اور جھنجھلاہٹ طاری ہے۔ وہ سراسیمہ ہے۔ یہ حرکتیں اسی کا نتیجہ ہیں۔

تیسرا عنوان ہے امیر المومنین کے دشمنوں کی علامتوں کا تعین۔ یہ بھی سبق آموز ہے۔ آپ امیر المومنین کے مد مقابل محاذ کو ملاحظہ کیجئے جس کا تاریخ میں تعین ہو چکا ہے؛ قاسطین، ناکثین، مارقین۔ قاسطین یعنی امیر المومنین کی حکومت کے بنیادی دشمن، ناکثین یعنی کمزور ارادے اور کمزور عقیدے کے وہ افراد جنہوں نے دنیاوی چمک دمک کی خاطر، دنیاوی خواہشات اور آلودگیوں کی وجہ سے آپ کی بیعت توڑ دی۔ مارقین یعنی وہ کج فہم، نادان اور جاہل افراد جو اسلام کے خیال میں اور قرآن کے اتباع کے خیال میں امیر المومنین کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے جو قرآن مجسم تھے۔ یہ امیر المومنین کے مد مقابل محاذ تھا۔ قاسطین تو بنیادی دشمن تھے۔ وہ امیر المومنین کی حکومت کے ہی مخالف تھے۔ بعد میں تاریخ نے ثابت کر دیا کہ امیر المومنین کی حکومت کا جو متبادل وہ پیش کرتے وہ کیا ہوتا؛ حجاج ابن یوسف جیسے افراد، عبید اللہ ابن زیاد جیسے افراد، یوسف بن عمر ثقفی جیسے افراد وہ لوگ تھے جو انھیں قاسطین کی طرف سے، ان بنیادی دشمنوں کی جانب سے علوی حکومت کے متبادل بنائے گئے۔ حمایت کی قیمت چاہنے والے اور دنیا پرست افراد کسی اور طرح سے اور کج فہم افراد کسی الگ انداز سے۔ البتہ کج فہمی مارقین میں جو عام لوگ تھے ان کے یہاں تھی ورنہ اس گروہ کے سرغنہ افراد  غالبا دشمنوں سے ساز باز سے لا تعلق نہیں تھے۔ چنانچہ تاریخ میں خوارج کے بارے میں یہ بات کہی جاتی ہے، یہ دعوی موجود ہے۔

امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے سلسلے میں بھی یہی تین گروہ موجود تھے۔ یعنی مرحوم امام کے مخالفین کے محاذ میں بھی یہ تین حصے شامل تھے۔ امریکہ، صیہونی حکومت اور ملک کے اندر ان سے وابستہ آلہ کار، امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے مد مقابل قاسطین تھے۔ یہ ایسے افراد تھے جو خود اسلامی جمہوری حکومت، اسلامی نظام اور امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) جیسی ہستی کی حاکمیت کے مخالف تھے۔ وہ بھی اس حکومت کے متبادل کی کوشش میں تھے اور ہیں۔ ان کے مد نظر جو متبادل ہیں وہ اس زمانے کے حجاج ابن یوسف ہیں۔ اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ کون سے افراد ہیں۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے مخالف محاذ میں ناکثین یعنی بیعت شکنی کرنے والے افراد وہی کمزور ارادے والے ساتھی تھے۔ وائے ہو ان کمزور ارادہ ساتھیوں پر جو دنیاوی خواہشات کی رو میں بہنے سے خود کو بچا نہ سکے۔ تسابُق‌ الی ‌الخیرات (4) نیکیوں میں ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑ دینے کے میدان کو اقتدار کی جنگ اور دنیاوی ملبے کے حصول کی جنگ میں تبدیل کر دیا۔ ان کے درمیان بھی ہر طرح کے لوگ تھے۔ امیر المومنین کے زمانے میں بھی طلحہ اور زبیر جیسے افراد تھے، اسی طرح ناکثین کی جماعت میں معمولی افراد بھی شامل تھے۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے زمانے میں بھی صورت حال یہی تھی اور امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے اس متنوع اور وسیع محاذ کا سامنا کیا۔ مارقین یعنی ناواقف افراد وہ تھے جو ہمارے امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے سامنے ملک کی پوزیشن کو، انقلاب کی پوزیشن کو، ملت ایران کی  پوزیشن کو نہیں سمجھ پائے۔ دشمنوں کی محاذ بندی کو نہیں سمجھ پائے۔ دشمنوں کی معاندانہ روش کو نہیں سمجھ پائے۔ معمولی چیزوں میں الجھ گئے۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے مشن کی عظمت کا ادراک نہیں کر سکے۔ اگر ہم اپنے اس زمانے میں اس کی کچھ مثالیں دیکھنا چاہتے ہیں تو داعش وغیرہ کا نام لیا جا سکتا ہے۔ اوائل انقلاب میں منافقین اور ان کے جیسے گروہ تھے جنکے سرغنہ خائن اور نچلے درجے  کے افراد جاہل اور فریب خوردہ تھے۔

یہ تینوں گروہ اور ان تینوں گروہوں کی دشمنی امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے زمانے تک محدود نہیں تھی۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے بعد بھی جاری رہی۔ آج بھی اسلامی نظام کے مد مقابل، امام کی عظیم میراث یعنی اسلامی جمہوریہ کے مد مقابل وہ محاذ آرا ہیں البتہ اسلامی جمہوریہ کے  پیکار، مزاحمت اور استقامت کی وجہ سے ان کا کوئی وار کامیاب نہیں ہو پا رہا ہے۔ البتہ یہ مخلوط محاذ اپنی تمام تر توانائياں اسلامی جمہوریہ کے خلاف مشکلات اور رکاوٹیں پیدا کرنے کے لئے استعمال کر رہا ہے۔ ملت ایران کی پیش قدمی کو مشکل بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن وہ ملت ایران کی پیشرفت کے عمل کو روک نہیں پا رہا ہے۔

اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہم ایسے دور میں زندگی بسر کر رہے ہیں جس میں ہم نے ایسے عظیم انسان کو دیکھا جس کے اندر مولائے متقیان اور تاریخ کے حریت  پسندوں کے قائد امیر المومنین سے مشابہتیں تھیں اور آپ نے ملت ایران کو عظمتوں کی یہ میراث دی۔

اب دل آمادہ اور اذہان تیار ہیں۔ اس صورت حال میں امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی کیا روش ہوتی تھی؟ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کا نمونہ عمل کیا ہوتا تھا؟ میں یہ بات بہت اختصار سے عرض کرنا چاہتا ہوں۔ یہ سب ہمارے لئے درس ہیں۔ میں اس طرح کے حالات میں امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے طریقہ کار کی چند خصوصیات بیان کرنا چاہتا ہوں۔

پہلی چیز تو یہ ہے کہ ان مخاصمتوں اور دشمنیوں کا سامنا ہونے پر امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کا رد عمل بہت شجاعانہ اور فعالانہ ہوتا تھا۔ کبھی کمزوری اور پسپائی کا مظاہرہ نہیں کرتے تھے۔ کبھی گھبراتے نہیں تھے، نہ کمزوری کا احساس کرتے تھے، نہ کبھی کمزوری ظاہر کرتے تھے۔ دشمنوں کے مد مقابل بڑے مقتدرانہ اور سرگرم انداز میں ڈٹ جاتے تھے۔

دوم؛ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کبھی بھی ہیجانی کیفیت میں مبتلا نہیں ہوتے تھے۔ الگ الگ حالات میں کبھی بھی وہ مضطرب اور ہیجان زدہ نہیں ہوتے تھے، کبھی بھی عقل و منطق سے عاری جذبات کی بنیاد پر کام نہیں کرتے تھے۔ آپ کے فیصلے ہمیشہ شجاعانہ اور محکم جذبات پر مبنی ہوتے تھے لیکن ساتھ ہی ساتھ عقلی تخمینوں پر استوار ہوتے تھے۔

سوم؛ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) ہمیشہ ترجیحات کی ترتیب کا خیال رکھتے تھے۔ ہمیشہ ترجیحات پر زور دیتے تھے۔ مثال کے طور پر انقلابی تحریک کے زمانے مین آپ کا مقابلہ سلطنتی نظام سے تھا تو کبھی بھی فروعی مسائل کو کام کے میدان میں نہیں آنے دیتے تھے۔ مسلط کردہ جنگ کے زمانے میں آپ کی ترجیح جنگ تھی تو آپ نے یہ بات بارہا کہی کہ تمام امور میں جنگ سر فہرست ہے، مقدس دفاع سر فہرست ہے (6) اور امر واقعہ بھی یہی تھا۔ ہمیشہ ترجیحی مسئلے پر توجہ مرکوز کرتے تھے اور فروعی مسائل کو اپنی توجہ کے دائرے میں نہیں آنے دیتے تھے۔ ابتدائے انقلاب میں، انقلاب کے ابتدائی دنوں اور شروعاتی ہفتوں میں امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی جو روش ہے اس میں انسان دیکھ سکتا ہے کہ آئین کی تدوین، نظام کی تشکیل اور قانونی اقدامات و انتظامات پر آپ کی توجہ مرکوز تھی۔ یعنی اس محوری نقطے پر آپ کی توجہ مرکوز تھی۔

چوتھے: عوام الناس کی توانائیوں پر اعتماد۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) ایرانی قوم کو بہت عظیم، آگاہ اور توانا قوم مانتے تھے۔ اس پر انھیں بھرپور اعتماد تھا۔ عوام کے بارے میں بہت اچھی رائے رکھتے تھے خاص طور پر نوجوانوں کے بارے میں۔ آپ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے فرمودات میں دیکھئے کہ آپ کس قدر عوام کی طرف سے پرامید رہتے تھے، نوجوانوں کے بارے میں کتنے پرامید نظر آتے تھے۔

پنجم: دشمن پر عدم اعتماد۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے اسلامی نظام کے سربراہ کی حیثیت سے گزارے گئے اپنے دس سال کے عرصے میں ایک لمحے کے لئے بھی دشمن پر اعتماد نہیں کیا۔ دشمن کی تجاویز کو ہمیشہ مشکوک نظر سے دیکھتے تھے۔ ان کے دکھاوے پر کوئی توجہ نہیں دیتے تھے۔ دشمن کو حقیقی معنی میں دشمن سمجھتے تھے اور اس پر کبھی اعتماد نہیں کرتے تھے۔

ششم: عوام کی یکجہتی اور اتحاد پر توجہ۔ اس دشمنی کے مقابلے میں امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی روش کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی نظر میں ہر وہ چیز مسترد کر دینے کے قابل تھی جو عوام کے درمیان تفرقہ پیدا کرے اور عوام کو دو حصوں میں تقسیم کر دے۔

ہفتم: نصرت خداوندی اور وعدہ پروردگار پر گہرا یقین و ایمان۔ یہ بھی بڑا بنیادی نکتہ تھا۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نصرت خداوندی پر تکیہ کرتے تھے۔ وہ جی جان سے محنت کرتے تھے، اپنے پورے وجود سے میدان میں سرگرم عمل رہتے تھے لیکن ساری امیدیں نصرت خداوندی اور قدرت پروردگار سے وابستہ رکھتے اور قوت الہیہ پر تکیہ کرتے تھے۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کا 'اِحدی‌ الحُسنَیین' پر گہرا ایقان تھا۔ ما لنا الّا اِحدی الحُسنَیین (7) ان کا یہ نظریہ تھا کہ اگر اللہ کے لئے کام کیا جائے تو نقصان اور خسارے کے سارے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ اگر کام اللہ کی خاطر انجام دیا جائے تو اس میں نقصان کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہتی۔ یا تو اس میں پیشرفت حاصل ہوگی اور اگر پیشرفت حاصل نہ ہوئی تب بھی ہم نے اپنا جو فریضہ تھا اسے پورا کر دیا، بنابریں بارگاہ خداوندی میں ہم سرخرو ہیں۔

میں آپ کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میرے عزیز بھائیو اور بہنو! عظیم ملت ایران! امام (خمینی رضوان اللہ علیہ) کے بعد ہم نے مو بہ مو آپ کے راستے پر قدم بڑھایا ہے اور ان شاء اللہ اسی راہ پر گامزن رہیں گے۔ ہرگز کسی کمزوری اور پسپائی میں مبتلا نہیں ہوں گے۔ نصرت خداوندی سے ہم دشمنوں اور اغیار کے تحکمانہ انداز اور بے جا مطالبات کا مقابلہ کریں گے۔ فروعات میں بھی نہیں الجھیں گے، ان میں نہیں پھنسیں گے۔ توفیق خداوندی سے اور ہدایت پروردگار سے ہم اپنی ترجیحات کو پہچانیں گے۔ فضل پروردگار سے ہم اپنے عوام پر، ان کی توانائیوں پر، اپنے عزیز نوجوانوں پر اعتماد کریں گے۔ دشمن پر ہرگز اعتماد اور اطمینان نہیں کریں گے۔ اپنے عزیز عوام کو تفرقے اور آپسی محاذ بندی سے خبردار کرتے رہیں گے۔ نصرت الہیہ پر پورا اعتماد رکھیں گے۔ ہمیں ذرہ برابر شک نہیں ہے کہ ملت ایران جو اس جذبے کے ساتھ اور اپنے اس احساس کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے، اس ایمان کے ساتھ، اس امید کے ساتھ، آگے بڑھ رہی ہے وہ نصرت خداوندی سے فتحیاب ہوگی۔

دشمن کی چالوں کو بھی ہم بخوبی سمجھتے ہیں۔ دشمن کے منصوبوں سے ہم پوری طرح واقف ہیں کہ وہ کیا ہیں اور ہم عوام کو ان سے آگاہ بھی کرتے رہتے ہیں۔ البتہ ہمارے عوام خود بھی ان چیزوں کو جانتے، سمجھتے اور محسوس کرتے ہیں۔ آج دشمن کے یہ تین منصوبے ہیں؛ اقتصادی دباؤ، نفسیاتی دباؤ اور عملی دباؤ۔ تینوں طرح کے دباؤ کا مقصد ہے ہمارے وطن عزیز ایران پر تسلط قائم کرنا۔ جس طرح وہ علاقے کے بعض رو سیاہ اور بدبخت ممالک پر مسلط ہیں۔

اقتصادی دباؤ پابندیاں ہیں۔ اقتصادی میدانوں میں ہم سے تعاون کرنے سے دیگر ممالک کو روکنا۔ دشمن یہ دباؤ ڈال رہا ہے۔ اقتصادی دباؤ سے وہ جو نتیجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں، اس بات کو ذرا غور سے سنئے! اقتصادی دباؤ اور پابندیوں سے ان کا مقصد صرف حکومت اور سرکاری سسٹم کو پریشان کرنا نہیں ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ملت ایران کو تھکا ماریں اور بہ خیال خویش وہ کہتے بھی ہیں کہ ملت ایران کو تھکا دینا چاہتے ہیں تاکہ اسلامی نظام مجبور ہوکر ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دے۔ ان کا مقصد یہ ہے۔ انھیں نہ تو ملت ایران کی شناخت ہے اور نہ اسلامی نظام کی شناخت ہے۔ وہ اس مقصد کے تحت اقصادی دباؤ ڈال رہے ہیں۔ ان شاء اللہ توفیق خداوندی اور فضل پروردگار سے اور حکام کی محنتوں اور عوام کی بلند ہمتی کی برکت سے دشمن کا یہ ہدف بھی ادھورا ہی رہے گا۔

نفسیاتی دباؤ؛ یہ بڑا اہم اور قابل توجہ نکتہ ہے۔ اسلامی جمہوریہ کی قوت و توانائی کے کچھ عوامل ہیں، وہ عوامل جو ملک کے لئے اور ملت کے لئے باعث فخر ہیں ان کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان عوامل کو وہ اپنے پروپیگنڈوں اور اقدامات میں بحران ساز عوامل ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ملت ایران ان کی طرف سے بد دل ہو جائے۔

مثال کے طور پر ایٹمی پیشرفت کا مسئلہ ہے۔ ایٹمی پیشرفت ٹیکنالوجی کے میدان میں ملکی پیشرفت کا طرہ امتیاز ہے۔ ملک کے اندر ایٹمی پیشرفت ٹیکنالوجی کے میدان میں ملک کی ٹیکنالوجیکل پیشرفت ایک افتخار ہے۔ اس سے ہمارے نوجوانوں کی علمی لیاقت کا مظاہرہ ہوا۔ یہ کوئی معمولی چیز نہیں ہے۔ شاید آپ کو یاد ہو جب ہمیں بیماریوں کے علاج کے لئے بیس فیصدی کے گریڈ کا افزودہ یورینیم درکار تھا۔ ملک کے اندر بیس فیصدی کے گریڈ کا افزودہ یورینیم ختم ہونے کے قریب تھا۔ ہمیں اس کا بندوبست کرنا تھا۔ سوال یہ تھا کہ کہاں سے اس کا بندوبست کیا جائے؟ ہمیں اس کا بندوبست امریکا یا یورپی ممالک سے کرنا تھا جنہوں نے ہمارے راستے میں ہزار طرح کی مشکلات پیدا کر رکھی تھیں، انھوں نے ہمارے سامنے گوناگوں رکاوٹیں اور شرطیں رکھ دی تھیں۔ اس لئے کہ وہ سمجھ گئے تھے کہ ہمیں ضرورت ہے۔ جب کسی ملت کو کسی چیز کی ضرورت پیش آ جائے تو وہ حیاتی احتیاج ہوتی ہے، اسے بیچنے والے کی شرطوں اور مطالبوں کو مجبورا قبول کرنا پڑتا ہے۔ وہ اس موقع سے غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش میں تھے۔ انھوں نے پے در پے ہمارے سامنے شرطیں رکھیں۔ مہینوں بلکہ شاید ایک سال سے زیادہ عرصہ آمد و رفت اور مذاکرات کا سلسلہ چلا۔ وہ اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں تھے، اپنے مطالبات بار بار دہراتے تھے۔  اسلامی جمہوریہ نے اپنے نوجوانوں پر تکیہ کیا اور انھیں یہ کام انجام دینے کی ذمہ داری سونپی۔ ہمارے نوجوان کام میں لگ گئے اور اغیار کی مبہوت نظروں کے سامنے ملک کے اندر بیس فیصدی کے گریڈ کا افزودہ یورینیم تیار کر لیا وہ بھی باہر سے کوئی نمونہ حاصل کئے بغیر! انھوں نے سب کو تعجب میں ڈال دیا۔ یہ ہے صورت حال۔ ہمارے ماہرین، ہمارے سائنسدانوں اور ہمارے نوجوانوں کی سائنسی اور ٹیکنالوجیکل پیشرفت نے دشمن کو آگ بگولہ کر دیا، خشمگیں کر دیا، آج وہی نوجوان، وہی سائنسداں ملک کے اندر موجود ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ ہمارے ملک کے لئے بہت عظیم سرمایہ اور بڑی طاقت ہے۔ ساتھ ہی ہمارے وقار و اعتبار کی ضمانت بھی ہے اور اس کے علاوہ عملی طور پر ملک کی ترقی کا باعث بھی ہے۔ اس چیز کو جو ایک قومی توانائی ہے انھوں نے آکر اپنے وسیع پروپیگنڈے کے ذریعے بعض لوگوں کے ذہنوں میں ایک بحران اور نقص کے طور پر پیش کیا۔ انھوں نے کہا کہ ملک کا نیوکلیئر پروگرام ہی کشیدگی کا اصلی سبب ہے۔ دشمن کی جانب سے شدید دباؤ کی اصلی وجہ ہے۔  ہمارے لئے اس کا کیا فائدہ ہے؟! ایک قوت اور سرمائے کو بحرانی مسئلہ بنا دیتے ہیں تاکہ ملک سے اس توانائی کو سلب کر لیں، اس سے چھین لیں۔ یہ ان کی ایک چال ہے۔ یہ نفسیاتی حربہ ہے۔ یہ نفسیاتی حربہ بہت کلیدی اور اہم حربہ ہے جو ملت کو اس کی عظیم کامیابیوں اور حصولیابیوں سے بد ظن کر دیتا ہے۔

ایک اور مثال میزائل کے مسئلے کی ہے۔ گوناگوں میزائلوں کی ساخت اور میزائلی توانائی سے ملکی سلامتی محفوظ ہوئی ہے۔ ہمارے نوجوانوں کو شاید یاد نہیں ہوگا، یہی شہر تہران شب و روز دشمن کے میزائل حملوں کی آگ میں جل رہا تھا۔ گھر کھنڈرات میں تبدیل ہو جاتے تھے۔ لوگ مارے جاتے تھے۔ اسی شہر تہران میں۔ محاذ جنگ کے قریب واقع شہروں جیسے دزفول، اہواز، شوش اور دیگر شہروں کی تو بات ہی الگ تھی۔ محاذ سے کافی دور واقع شہروں تک دشمن کے میزائل پہنچ رہے تھے۔ ہمارے پاس میزائل نہیں تھے۔ دفاعی وسائل نہیں تھے۔ ہاتھ پر ہاتھ رکھے تماشائی بنے رہنے پر ہم مجبور تھے۔ آج ہمارے نوجوانوں نے ملک کو علاقے کی پہلے نمبر کی میزائل طاقت میں تبدیل کر دیا ہے۔ دشمن بخوبی جانتا ہے کہ ایک مارے گا تو دس کھائے گا! بنابریں میزائل ہماری طاقت اور قوت ہے۔ تو آپ دیکھئے کہ دشمن کس طرح میزائل کے موضوع پر نگاہ لگائے ہوئے ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ ملک کے اندر بھی کچھ لوگ دشمنوں والی باتیں دہرا رہے ہیں کہ "جناب اس کا کیا فائدہ ہے؟"

ہماری ایک اور قوت ہے عالمی سطح پر اسلامی جمہوریہ کا انصاف پسندی پر زور۔ یہ اسلامی جمہوریہ کی آبرو کی ضمانت ہے۔ مظلوم اقوام کا طرفدار ہونا اسلامی جمہوریہ کے لئے باعث عزت ہے۔ وہ ملت فلسطین کی طرفدار ہے تو یہ باعث عزت ہے۔ اسلامی جمہوریہ نے علاقے میں صیہونی حکومت کے مقابلے میں مزاحمتی محاذ کو تقویت پہنچائی ہے۔ عراق اور شام میں داعش اور النصرہ اسی طرح دوسرے ناموں سے دشمنوں اور مسائل پیدا کرنے والے گروہوں کی تشکیل کر دی گئی۔ اسلامی جمہوریہ نے اس علاقے میں مزاحمتی محاذ کی حمایت کی۔ یہ عدل و انصاف کی طرفداری ہے۔ یہ ملت فلسطین کا دفاع ہے۔ یہ علاقے کے ملکوں کی خود مختاری کا دفاع ہے۔ یہ ملکوں کی ارضی سالمیت کا دفاع ہے۔ یہ مثبت پہلو ہے۔ اس تعمیری پالیسی کو اسلامی جمہوریہ کی مداخلت کا نام دیکر اسے ایک متنازعہ موضوع میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ اسے متنازعہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں اور اس پر بہت زور دیتے ہیں۔ آج دشمنوں کے ساتھ  ہمارا یہ تنازعہ چل رہا ہے۔ ان کے مہرے ملک کے اندر بھی اپنے کام میں مصروف ہیں۔ ایک دن انھوں نے یوم قدس کے موقع پر تہران کی سڑکوں پر "نہ غزہ نہ لبنان" کے نعرے لگائے تھے۔ ملک کے اندر دشمن کی نفسیاتی جنگ میں مدد کرنے والے عناصر بہت برے افراد ہیں، بڑے حقیر لوگ ہیں، یہ شرم کی بات ہے۔

آج بھی کچھ لوگ اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ ایٹمی ڈیل کی ایک معیوب شکل کو وطن عزیز پر مسلط کر دیں۔ بیرونی حکومتیں اس کوشش میں ہیں اور ملک کے اندر کچھ لوگ یہ پروپیگنڈا کرنے لگے ہیں کہ اگر اسے قبول نہ کیا گیا تو جنگ ہو جائے گی۔ جی نہیں! یہ سراسر جھوٹ ہے۔ یہ دشمن کے مفاد میں کیا جانے والا پروپیگنڈا ہے۔ دشمن کا مقصد واضح ہے۔ دشمن یہ چاہتے ہیں کہ جو چیزیں ہماری طاقت سمجھی جاتی ہیں ان سے ہم دست بردار ہو جائیں۔ انھوں نے یہ سوچ رکھا ہے اور ملت ایران اس سازش کے مقابلے میں ثابت قدمی سے کھڑی ہے۔ یہ نفسیاتی دباؤ کا معاملہ ہے۔

عملی دباؤ کی جہاں تک بات ہے تو اس بارے میں ملت ایران سے مجھے بس چند جملے عرض کرنے ہیں۔ سارے ملک میں عملی دباؤ سے مراد یہ ہے کہ ملک کے اندر آشوب پیدا کریں۔ یہ ان کا طے شدہ منصوبہ ہے البتہ اس بار بھی ان کا سر پتھر سے ٹکرائے گا۔ جس طرح آج تک ان کے ساتھ یہی ہوا ہے۔ دشمن کی چال یہ ہے کہ عوامی مطالبات سے غلط فائدہ اٹھائے۔ ممکن ہے کہ کسی شہر میں، کسی جگہ پر کچھ لوگوں کے مطالبات ہوں۔ کچھ لوگ جمع ہو جائیں جو اپنے مطالبات بیان کرنا چاہتے ہیں۔ مثال کے طور پر کچھ مزدور ہیں جو اپنے مطالبات پورے کروانا چاہتے ہیں۔ یا کسی شہر کے لوگ اپنے شہر کی ضرورتوں کے پورے کئے جانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ایسے مواقع کے لئے دشمن منصوبہ تیار کر لیتا ہے اور فورا اپنے مہروں کو، شر پسند اور خبیث عناصر کو ان اجتماعات کے اندر پہنچا دیتا ہے تاکہ وہ ان پرامن اجتماعات اور احتجاج کو تشدد اور آشوب کی طرف لے جائیں اور اس طرح وطن عزیز کو، ملت ایران کو اور اسلامی جمہوری نظام کو بدنام کریں۔ ملک بھر میں عوام اس چیز پر توجہ رکھیں۔ یہ دشمن کی چال ہے۔ ہمیں خبر ہے۔ اس کے لئے انھوں نے بیٹھ کر منصوبہ بندی کی ہے۔ البتہ میرے خیال میں بلکہ مجھے پورا یقین ہے کہ یہ دشمن پوری طرح اندھیرے میں ہے۔ ہمارے عزیز عوام ان کی سازشوں اور منصوبوں کے مقابلے میں پوری قوت، شجاعت اور ہوشیاری کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ عوام سے میری سفارش یہ ہے کہ وہ اسی طرح ہوشیار رہیں جس طرح اب تک انہوں نے ہمیشہ ہوشیاری سے عمل کیا ہے۔

میدان میں عوام کا موجود رہنا بہت ضروری ہے۔ یوم قدس نزدیک ہے۔ جمعے کو یوم قدس ہے۔ یوم قدس کے موقع پر ساری دنیا ملت ایران کی بھرپور شراکت کا مشاہدہ کرے گی۔ توفیق خداوندی سے، اس دفعہ کا یوم قدس، حالانکہ عوام روزے سے ہیں اور گرمی بھی زیادہ ہے، ہمیشہ عوام روزے کی حالت میں یوم قدس مناتے ہیں، یوم قدس گزشتہ برسوں سے زیادہ جوش و جذبے کے ساتھ اور زیادہ وسیع پیمانے پر منایا جائے گا۔

میں نے ایٹمی ڈیل کا نام لیا۔ اس کے بارے میں بھی اختصار سے چند باتیں عرض کر دوں۔ بعض یورپی ممالک کے کچھ بیانوں سے یہ تاثر ملتا ہے کہ انھیں توقع ہو گئی ہے کہ ملت ایران پابندیاں بھی برداشت کرے، پابندیوں سے بھی روبرو رہے اور ایٹمی سرگرمیوں سے بھی دور رہے جو ملک کی آئندہ ضرورت ہے۔ ایران کے ایٹمی پروگرام کو جس طرح محدود کر دیا گيا ہے وہ محدودیت اسی شکل میں جاری رہے۔ میں ان حکومتوں کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ یاد رکھئے آپ کا یہ آشفتہ خواب کبھی پورا نہیں ہوگا۔ ملت ایران، اور حکومت ایران اسے ہرگز برداشت نہیں کرے گی کہ پابندیاں بھی عائد رہیں اور ایٹمی سرگرمیوں کی محدودیت بھی جاری رہے، ایٹمی حصار بھی جاری رہے۔ یہ نہیں ہوگا۔ ایٹمی توانائی کے ادارے کا فرض ہے کہ فورا  ایک لاکھ نوے ہزار  Separative work units (swu) کی منزل تک رسائی کی تمام ضروری تیاریاں فی الحال ایٹمی ڈیل کے دائرے میں رہتے ہوئے، مکمل کرے اور بعض دیگر مقدمات کو جن کا حکم صدر محترم نے دیا ہے کل سے شروع کر دے۔ میں یہاں چند جملے عرب نوجوانوں سے عرض کرنا چاہتا ہوں؛

 

و أحبّ أن أخاطب الشّباب الغیارى العرب فی خاتمة حدیثی هذا؛ و أقول لهم: إنّ شعوبکم الیوم تعقد الأمل علیکم، أنتم أیّها الشّباب! أعدّوا أنفسکم لغدٍ تنعم فیه بلدانکم بالحرّیّة و التّقدّم و الاستقلال. الخضوع للهیمنة الأمریکیّة، عدم اتّخاذ موقف حازم و حاسم من العدوّ الصّهیونیّ الغاصب، المواقف العدائیّة من الإخوة، والتّزلّف للأعداء، کلّ ذلک قد جعل من بعض الحکومات العربیّة عدوّة لشعوبها. و أنتم أیّها الشّباب تتحمّلون مسؤولیّة إلغاء هذه المعادلة الباطلة.

 

أدعوکم أیّها الأعزّة إلى أن تکونوا مفعمین بالأمل و الابتکار و العمل و بناء شخصیّاتکم. اهتمّوا ببناء شخصیّاتکم. المستقبل یکون لکم إن کنتم أنتم الّذین یبنونه الیوم. إن بنیتم المستقبل فتنعّمه سیعود علیکم. لا تهابوا هیمنة عالم الکفر، وثقوا بوعد الله عزّوجلّ و هذا قوله سبحانه و تعالى یقرّر بکلّ صراحة و وضوح: أم یُریدونَ کَیدًا فَالَّذینَ کَفَروا هُمُ المَکیدون.(8) یوم الجمعة هو یوم القدس، و الدّفاع فیه عن الشّعب الفلسطینیّ المقاوم و المجاهد و المضحّی خطوة رحبة على هذا الطّریق. ادعو الله تعالى لکم و لتوفیقکم و لبقاء صمودکم فی هذا الطّریق الواضح.

(عرب نوجوانوں سے عربی زبان میں رہبر انقلاب کے خطاب کا ترجمہ؛ میں چاہتا ہوں کہ اپنے اس خطاب کے آخر میں غیور عرب نوجوانوں سے کچھ عرض کروں۔ میں ان سے کہنا چاہتا ہوں کہ آج آپ کی قوموں کی امیدیں آپ نوجوانوں سے وابستہ ہیں۔ خود کو اس آنے والے کل کے لئے آمادہ کیجئے جب آپ کے ملک آزادی، پیشرفت اور خود مختاری کی نعمت سے بہرہ مند ہوں گے۔ امریکہ کے تسلط میں رہنا، غاصب صیہونی دشمن کے سلسلے میں دو ٹوک موقف اختیار نہ کرنا، بھائیوں کے سلسلے میں معاندانہ موقف اپنانا، دشمنوں کی خوشامد کرنا، ان چیزوں نے بعض عرب حکومتوں کو خود وہاں کی قوموں کی نظر میں دشمن بنا دیا ہے۔ اس غلط صورت حال کو ختم کرنا آپ نوجوانوں کی ذمہ داری ہے۔ میں آپ نوجوانوں کو سفارش کرنا چاہتا ہوں کہ امید، اختراعی سرگرمیوں اور سخت کوشی سے مزین ہوئیے اور اپنی شخصیت کو سنوارئے۔ اپنی شخصیتوں کو سنوارنے پر توجہ دیجئے۔ مستقبل آپ کا ہوگا بشرطیکہ آپ آج اسے سنوارنے پر توجہ دیجئے۔ اگر آپ نے مستقبل کو سنوار لیا تو اس کی نعمتوں سے بہرہ مند ہونا آپ کے ہاتھ میں ہوگا۔ دنیائے استکبار کے غلبے سے نہ ڈرئے۔ اللہ تعالی کے وعدے پر یقین رکھئے جس نے فرمایا ہے اور بڑی صراحت کے ساتھ کہہ دیا ہے کہ' یا وہ فریب دینا چاہتے ہیں جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ہے وہ خود فریب خوردہ ہیں۔' جمعے کے دن یوم قدس ہے۔ اس دن ثابت قدم، مجاہد اور فداکار ملت فلسطین کا دفاع اس راہ میں ایک بڑا قدم ہے۔ اللہ تعالی سے آپ کے لئے، آپ کی کامیابی کے لئے اور اس راہ میں ثابت قدم رہنے کے لئے دعا کرتا ہوں۔ )

والسّلام علیکم و رحمة ‌الله و برکاته

 

۱) یہ پروگرام 19 رمضان المبارک کو امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے روضے کے اندر منعقد ہوا۔

۲) سوره‌ فتح، آيت ۴‌« وہ وہی ہے جس نے مومنین کے قلوب کو طمانیت عطا کی تاکہ ان کے ایمان میں اضافہ ہو۔ آسمانوں اور زمین کے لشکر خدا کے ہیں اور اللہ علیم و حکیم ہے۔

۳) نهج‌ البلاغه، خطبه‌ ۲۷

4) نیک اعمال اور اخروی اجر میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانا۔

5) خس و خاشاک جیسی چھوٹی موٹی چیزیں، یہ مال و ثروت کا کنایہ ہے۔

6) منجملہ پارلیمنٹ کے ارکان سے مورخہ 4 نومبر 1983 کا خطاب صحیفہ امام جلد 17 صفحہ 254

7) ہمیں ہر حال میں دو نیکیوں میں سے ایک ملنا ہے۔ (آیت قرآنی سے ماخوذ؛سوره ‌توبه، آیت ۵٢)

8) سوره‌ طور، آیت ۴۲