بسم الله الرّحمن الرّحیم

الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی‌ القاسم المصطفیٰ محمّد و علی آله الطّیّبین الطّاهرین و صحبه المنتجبین و من تبعهم باحسان الیٰ یوم الدّین.

عزیز بھائیوں اور بہنوں کو، فریضہ حج اور توفیقات پانے والے معزز حاجیوں کے خدمت گزاروں کو خوش آمدید کہتا ہوں، یہ خدمت بہت بڑا افتخار ہے۔ مقدمات کی فراہمی، باعظمت فریضہ حج کہ جس کے گوناگوں پہلو ہماری توصیف سے سے کہیں زیادہ ہیں، اس کی ادائیگی میں مدد کرنا اور اس کے لئے حالات سازگار کرنا، اس فریضے کی ادائیگی کے سلسلے میں خدمات انجام دینا بہت بڑے ثواب کا کام ہے، بہت بڑا عمل ہے، بڑی گراں قدر خدمت ہے۔ بعثہ (سعودی عرب میں حجاج کے سفر اور قیام کے امور کا ذمہ دار نمائندہ ادارہ) ہو، ادارہ حج ہو، یا کارواں ہوں یا دیگر متعلقہ ادارے، جو لوگ بھی ان سے منسلک ہیں اور اس کام میں تعاون کر رہے ہیں، ان سب کو میں سفارش کرتا ہوں کہ اس توفیق کی قدر کریں جو انھیں حاصل ہوئی ہے۔  اللہ کا شکر ادا کریں، شکر ادا کریں کہ انھیں یہ توفیق عطا ہوئی ہے اور اس کام کو بنحو احسن انجام دینے کی کوشش کریں۔ جناب قاضی عسکر اور ادارہ حج کے سربراہ نے جو رپورٹیں پیش کیں، بہت اچھی تھیں۔ اب اگر مثال کے طور پر ان میں سے کچھ کام بیچ میں ہی رک گئے تب بھی مجموعی طور پر جو کام ہوا ہے وہ قابل توجہ ہے۔ تاہم میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جو کچھ بھی بیان کیا گيا ہے وہ حج ابراہیمی،  حج نبوی اور حج قرآنی کی ادائیگی کے لئے جو چیزیں ضروری ہیں ان کی نسبت ادھورا ہے اور بہت کچھ کرنا ابھی باقی ہے۔

آج میں جو بات عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ حج میں، اس عظیم فریضہ الہی میں گوناگوں پہلو اور جہتیں ہیں تاہم ان سب کے علاوہ حج کی یہ خصوصیات بھی ہیں کہ یہ روحانیت و سیاست، روحانیت و مادیت اور دنیا و آخرت کی آمیزش کا مظہر بھی ہے۔ وَ مِنهُم مَن یَقولُ رَبَّنا ءاتِنا فِی الدُّنیا حَسَنَةً وَ فِی الأخِرَةِ حَسَنَةً وَ قِنا عَذابَ النّار؛(۲) جو لوگ حج میں اس انداز سے دعا کرتے ہیں اور دنیا کی نیکیوں اور آخرت کی نیکیوں کا اللہ تعالی سے سوال کرتے ہیں وہ اللہ کے پسندیدہ اور مقبول بارگاہ افراد ہیں۔ یعنی دنیا و آخرت دونوں، حج میں مجتمع ہیں۔ حج اس چیز کا مظہر ہے۔ کچھ لوگوں نے برسوں سے کوشش کی اور آج بھی کر رہے ہیں کہ اسلام میں روحانیت و دینداری کو زندگی کے معاملات سے، سماجوں کا نظم و نسق چلانے سے متعلق امور سے جدا کر دیں۔ یعنی سیاست اور دین میں جدائی۔ برسوں سے، شاید یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ دسیوں سال سے، سو سال یا اس سے زیادہ عرصے سے دشمنان اسلام نے اور ایسے نادانوں نے جنہیں اسلام کا کوئی علم نہیں تھا، اس پر کام کیا۔ جب اسلامی جمہوریہ وجود میں آئی اور اسلامی انقلاب کامیاب ہوا تو یہ ساری خیال آرائیاں باطل ثابت ہوئیں اور پتہ چلا کہ نہیں، اسلام تو سیاست کے میدان کو بھی، زندگی کے میدان کو بھی، امور مملکت کو بھی، عوام کو ان کی پوری توانائیوں اور صلاحیتوں کے ساتھ میدان میں لانے کے مشن کو بھی بنحو احسن سنبھال سکتا ہے۔ کمیونسٹ جو نعرے بازی کرتے تھے، یا لبرل نظریات کے افراد کے جو نعرے تھے اور اہل مغرب جو نعرے دیتے تھے اسلام نے ان سب سے زیادہ کامیابی کے ساتھ عمل کیا۔ تو جو کوششیں ایک عرصے سے وہ کر رہے تھے سب رائیگاں گئیں لیکن انھوں نے دوبارہ کوشش شروع کر دی۔ کچھ  لوگوں نے یہ کوششیں شروع کر دیں کہ نئی نسل کو دین و سیاست کی آمیزش، دین و علم کی آمیزش، دنیا و آخرت کی آمیزش اور روحانیت و مادیت کی آمیزش سے منصرف کر دیں۔ یعنی ذہنوں کو اس آمیختگی سے دور کر دیں۔ حج اس آمیزش کی عکاسی کرنے والا ایک عملی میدان ہے۔

وہ کیسے؟ حج میں آپ تضرع بھی کرتے ہیں، دعا بھی کرتے ہیں، توسل بھی کرتے ہیں، گریہ بھی کرتے ہیں، طواف بھی کرتے ہیں، سعی بھی کرتے ہیں، نماز بھی پڑھتے ہیں اور اجتماعات بھی ہوتے ہیں۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ سب غور کریں کہ اگر اللہ تعالی کا لوگوں کو حج کی دعوت دینے کا مقصد صرف یہ ہوتا کہ لوگ وہاں پہنچیں اور چند روز روحانی ماحول میں بسر کریں تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ سب کو ایک خاص وقت پر جمع کیا جاتا۔ پورے سال جب بھی جس کا دل چاہتا چلا جاتا۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ حج کا خاص وقت معین ہے۔ اس معین وقت پر تمام عالم اسلام سے لوگ آئیں۔ ایک سال نہیں، دو سال نہیں، بلکہ پوری تاریخ میں ہر سال چند دن کے لئے تمام عالم اسلام سے جو افراد استطاعت رکھتے ہیں ایک خاص جگہ جمع ہوں۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کا ایک ساتھ جمع ہونا اللہ تعالی کو مطلوب ہے۔ اللہ  تعالی یہ چاہتا ہے۔ یہی امت اسلامیہ کی تشکیل ہے۔ یہ مسلمانوں کی اجتماعیت کو اہمیت دینا ہے۔ حج اس کا مظہر ہے۔

اور جب آپ وہاں پہنچ جائیں تو،  ثُمَّ اَفیضوا مِن حَیثُ اَفاضَ النّاس؛(۳) یہاں بھی 'ناس' کی بحث ہے۔ «سَواءً العـاکِفُ فیهِ وَ الباد» (۴) اہل مکہ اور غیر اہل مکہ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ سب کی سرزمین ہے۔ یہ سرزمین تمام مسلمانوں کی ہے۔ کوئی اس گمان میں نہ رہے کہ یہ سرزمین اس کی ہے اور وہ جیسا چاہے اس جگہ پر تصرف کرے۔ ہرگز نہیں۔ کعبہ شریف، مسجد الحرام، اس باشرف سرزمین اور حرمین شریفین کی مقدس فضا کے تعلق سے تمام مسلمان یکساں حق رکھتے ہیں۔ آیہ کریمہ میں تو مکہ کا نام لیا گیا ہے لیکن مدینہ کا بھی یہی عالم ہے۔ وہ بھی تمام مسلمانوں کا ہے، اس لئے کہ پیغمبر سب کے ہیں۔

آپ دیکھئے کہ مسلمانوں کا یہ اجتماع، مسلمانوں کی یہ ہمدلی، مسلمانوں کی یہ ہم آہنگی، حج کے اہم اہداف میں سے ہے جس پر توجہ دینا چاہئے۔ حجاج کرام اور متعلقہ عہدیداران کے تمام پروگراموں میں اس ہدف کو ملحوظ رکھا جانا چاہئے۔ رابطہ، اتصال، تفاہم اور اتفاق رائے۔ البتہ اس سرزمین پر مسلط حکومت یہ نہیں چاہتی۔ جس طرح بھی ممکن ہو رکاوٹ پیدا کرتی ہے۔ آج کے زمانے میں وسائل بھی زیادہ ہو گئے ہیں تو رابطہ قائم ہونا چاہئے۔ امت اسلامیہ کا اجتماع ہونا چاہئے۔ تو جو لوگ سیاست کو اسلام سے جدا کرتے ہیں، اس کی نفی کرتے ہیں انھوں نے در حقیقت اسلام کو سمجھا ہی نہیں ہے، آیات قرآن کو سمجھا ہی نہیں ہے۔ قرآن کی آیتیں، خواہ وہ حج سے متعلق ہوں، یا جہاد سے متعلق ہوں، یا سماج کے اندر عوام کے باہمی روابط سے متعلق ہوں، سماج میں اسلامی حکمرانی سے متعلق ہوں، یہ سب کچھ اسلام کی سیاست ہے۔ اسلامی جمہوریت جس کی بات ہم نے کی وہ متن اسلام اور متن قرآن سے ماخوذ ہے۔ وَ اَمرُهُم شورىٰ بَینَهُم (5) یہ حج کے موقع کا کلیدی نکتہ ہے۔

ایک بات یہ بھی ہے کہ حج کے جو مفاہیم ہیں اور حج کے اندر جو نکات و مضمرات ہیں کوئی بھی ان کا سد باب کرنے اور ان کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرنے کی کوشش نہ کرے۔ کیونکہ؛ «اِنَّ الَّذینَ کَـفَروا وَ یَصُدّونَ عَن سَبیلِ اللهِ وَ المَسجِدِ الحَرام» (6) جو لوگ «صدّ عن ‌سبیل ‌الله»  کرتے ہیں اور «صدّ عن المسجد الحرام» کرتے ہیں۔ صدّ  یعنی روکنا، منع کرنا صرف یہ نہیں ہے کہ آپ لوگوں کو مکہ جانے سے روک دیجئے۔ یہ بھی اسی ممانعت کے زمرے میں آتا ہے کہ آپ مکہ جانے دیں لیکن لوگوں کو حج کے حقیقی مفاہیم پر عمل کرنے سے روکیں۔ یہ بھی راہ خدا پر گامزن ہونے سے دوسروں کو روکنا ہے۔ یہ بھی صدّ عن المسجد الحرام ہے۔ جو لوگ یہ کام کرتے ہیں، جو حکومت اور جو مملکت یہ بڑی غلطی کر رہی ہے وہ در حقیقت  صدّ عن سبیل ‌الله کا ارتکاب کر رہی ہے۔ حج کے مفاہیم کو سمجھنا چاہئے، جاننا چاہئے اور اسی کے مطابق پیش آنا چاہئے اور عمل کرنا چاہئے۔

حاصل کلام یہ ہے کہ کعبہ تو سب کا ہے۔ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد ملت ایران نے ہمارے عظیم قائد (امام خمینی) کی ہدایت کی برکت سے حج کا ایک نیا مفہوم سمجھا، اس سے آگاہی حاصل کی اور اس سے واقف ہوئی۔ انقلاب کی فتح کے بعد پہلے ہی سال جو لوگ حج کے لئے گئے اور امام خمینی رحمۃ اللہ  نے انھیں جو پیغام دیا اس سے ملت ایران کے سامنے حج کے بارے میں نئے مفاہیم آئے، ان کا انکشاف ہوا۔ عوام نے اس پر توجہ دی اور اس راستے پر چلے۔ اعلان برائت سے آراستہ حج، مسلمانان عالم کے ساتھ افہام و تفہیم کے عمل سے آراستہ حج، ایسا حج جو «اَشِدّاءُ عَلَی الکُفّار» اور «رُحَماءُ بَینَهُم» (7) کا مصداق ہے۔ حج کو «اَشِدّاءُ عَلَی الکُفّار» اور «رُحَماءُ بَینَهُم» کا مظہر ہونا چاہئے۔ اس کے برخلاف صورت یہ ہے کہ بھائیوں کے درمیان اختلاف پیدا کریں، جدائي ڈالیں، لیکن عالمی استکبار اور امریکہ سے خود کو وابستہ رکھیں۔ یہ اس کے بالکل برخلاف صورت ہے جس کا مطالبہ فریضہ حج عوام الناس سے کرتا ہے، عوام کے لئے اس فریضے نے جو مطالبہ رکھا ہے اور شریعت کے مقدس بانی نے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے معین کیا ہے۔ حج کو اس جذبے کے ساتھ اور اس حالت میں انجام دینا چاہئے۔

البتہ سعودی عرب کی حکومت افسوس کی بات ہے کہ رکاوٹیں پیدا کرتی ہے اور بعض فرائض و اعمال کی ادائیگی میں مشکلات کھڑی کرتی ہے جبکہ حق تو یہ ہے کہ ان اعمال کو انجام دیا جانا چاہئے۔ ان چیزوں کو مومنین اور مسلمانوں کے مطالبات کی حیثیت سے ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے۔ ممکن ہے کہ اس میں رکاوٹ ایجاد کریں۔ جب رکاوٹ ہوگی تو ظاہر ہے مشکل بھی پیدا ہوگی۔ لیکن پھر بھی اس مطالبے کو اور اس ضرورت کو ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ جیسا کہ حضرات نے بھی بیان کیا مسجد الحرام اور منی میں 2015 میں پیش آنے والے سانحے کے بارے میں بھی، اس ناقابل فراموش سانحے کے بارے میں بھی ہمیشہ پیروی کی جائے، اس پر کام کیا جائے۔ تحقیقاتی کمیٹی اصلی مدعی یعنی اسلامی جمہوریہ کی شرکت سے تشکیل پائے، عالمی اداروں سے رجوع کیا جائے۔ جہاں سے بھی ممکن ہو مدد حاصل کی جائے تاکہ انصاف ملے۔ بہت بڑا ظلم ہوا ہے۔ سرزمین حج پر مسلط افراد کی گردن پر حجاج کرام کا سب سے بڑا حق یہ ہے کہ ان کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔ یہ ان کا اصلی مطالبہ ہے۔ امن ان خصوصیات میں سے ایک ہے جو اللہ تعالی نے اپنے گھر کے لئے اور شہر مکہ و حرم کے لئے قرار دی ہیں۔  جَعَلنَا البَیتَ مَثابَةً لِلنّاسِ وَ اَمنا (8) وہاں سب جمع ہوں، امن و امان رہے، تحفظ کا احساس رہے۔ لوگوں کا تحفظ اور سلامتی بالکل بنیادی کام ہے۔ اس تحفظ کو ملحوظ رکھا جانا چاہئے۔ یہ مطالبہ بہت ضروری ہے۔ اس کی مسلسل پیروی ضروری ہے۔ اس قضیئے کی پیروی سے ہرگز نہ تھکئے۔ اس کی پیروی کرتے رہئے۔ اس کا مطالبہ کیجئے۔ بعثہ (سعودی عرب میں حجاج کے سفر اور قیام کے امور کا ذمہ دار نمائندہ ادارہ) ادارہ حج، دیگر متعلقہ اداروں، وزارت خارجہ اور عدلیہ وغیرہ کے عہدیداران کو چاہئے کہ اس کیس کی پیروی کریں۔ جو رپورٹ مجھے ملی ہے اس کے مطابق ان شہیدوں کے اہل خانہ کو جنہیں وہیں دفن کیا گيا ہے، اپنے ان عزیزوں، ان شہیدوں کی قبر پر جانے اور زیارت کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے! ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ ان مسائل پر کام ہونا چاہئے۔ مقتولین کا خون بہا بھی ایک  اہم مسئلہ ہے۔

عزیز بھائیو اور بہنو! آج دنیائے اسلام کو یکجہتی کی ضرورت ہے۔ تفرقہ پیدا کرنے والی، نفاق ڈالنے والی ہر آواز اللہ تعالی کے نزدیک ناپسندیدہ ہے۔ کسی بھی طرف سے، کسی بھی شکل میں، کسی بھی طرح کا تفرقہ ممنوع ہے، کیوں؟ اس لئے کہ پورا عالم اسلام، دشمن کے نشانے پر ہے۔ آج دیکھئے کہ عالم اسلام میں کیا حالات ہیں؟ ایک طرف سے یمن پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے، ایک مظلوم قوم کئی سال سے مسلسل حملوں کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے۔ البتہ یہ قوم شجاع ہے، طاقتور ہے، مزاحمت کر رہی ہے لیکن سختیوں میں ہے۔ دوسری طرف مسئلہ فلسطین ہے اور یہ شیطانی اور خباثت آلود منصوبہ فلسطین کے سلسلے میں تیار کیا گيا ہے اور اس کا نام رکھا ہے صدی کا معاہدہ۔ وہ یاد رکھیں کہ یہ صدی کا معاہدہ بھی جس کے بارے میں وہ سوچ رہے ہیں، توفیق خداوندی سے ہرگز کامیاب نہیں ہوگا۔ بہ کوری چشم عمائدین آمریکہ جو مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں کچھ کر گزرنے کی کوشش میں ہیں، یہ مسئلہ ہرگز فراموش نہیں کیا جائے گا۔ بیت المقدس فلسطین کا دار الحکومت بنا رہے گا اور مسلمانوں کا قبلہ اول ہمیشہ ان کا پہلا قبلہ رہے گا۔ یہ خواب جو انہوں نے دیکھا ہے کہ بیت المقدس کو ہڑپ لیں، جس کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ شہر کا اوپری حصہ، نیچے کا حصہ، مشرقی حصہ اور مغربی حصہ سب کچھ یہودیوں کے ہاتھ میں ہونا چاہئے، یہ ان کی احمقانہ سوچ ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ یقینا ملت فلسطین اس سازش کا مقابلہ کرے گی اور مسلم اقوام ملت فلسطین کی پشت پناہی کریں گی اور توفیق خداوندی سے اس سازش کو ہرگز کامیاب نہیں ہونے دیں گی۔

البتہ بعض اسلامی حکومتیں اسلام پر عقیدہ نہ رکھنے کی وجہ سے، مسئلہ فلسطین کی تو خیر بات ہی الگ ہے، امریکیوں کے لئے خود کو قربان کر رہی ہیں۔ صرف ان کے پیچھے پیچھے نہیں چلتیں بلکہ خود کو امریکہ پر قربان کر رہی ہیں حماقت کی وجہ سے، جہالت کی وجہ سے، دنیاوی لالچ اور اغراض و مقاصد کی وجہ سے۔ افسوس کا مقام ہے کہ بعض حکومتوں، بعض عرب حکومتوں کی یہی حالت ہے۔ مگر اس کا بھی کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہوگا، اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ وہ بھی ناکام ہو جائیں گی۔ توفیق خداوندی سے امت اسلامیہ اور فلسطین کی مسلمان قوم اپنے دشمنوں پر یقینا غلبہ حاصل کرے گی اور سب وہ دن دیکھیں گے کہ اس سرزمین سے جعلی صیہونی حکومت کی مکمل بیخ کنی کر دی گئی ہے۔

ان شاء اللہ آپ کا حج مقبول بارگاہ ہو۔ ان شاء اللہ ہمارے عزیز حاجی امن و سلامتی کے ساتھ جائیں اور دامن بھر کر واپس ہیں اور ہم سب خدا کا شکر ادا کریں۔

و السّلام علیکم و‌ رحمة‌ الله‌

۱) اس ملاقات کے آغاز میں امور حج و زیارات میں ولی امر مسلمین کے نمائندے حجت الاسلام و المسلمین سید علی قاضی عسکر اور ادارہ حج و زیارات کے سربراہ جناب حمید محمدی نے اپنی رپورٹیں پیش کیں۔

۲) سوره‌  بقره، آیت نمبر ۲۰۱؛ «اور ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ پروردگارا! اس دنیا میں ہمیں نیکی دے اور آخرت میں بھی نیکی عطا کر اور ہمیں آتش جہنم سے محفوظ رکھ۔»

۳) سوره‌ بقره، آیت نمبر۱۹۹ کا ایک حصہ؛ «تو جہاں سے سب لوگ روانہ ہوں وہیں سے تم بھی روانہ ہو جاؤ۔...»

۴) سوره‌ حج، آیت نمبر ۲۵ کا ایک حصہ؛ «... بشمول وہاں بسنے والوں اور بادیہ نشینوں کے۔..»

5) سوره‌ شورا، آیت نمبر ۳۸ کا ایک حصہ؛ «...اور ان کی روش آپس میں مشورہ کرنا ہے۔...»

6) سوره‌ حج، آیت نمبر ۲۵ کا ایک حصہ

7) سوره‌ فتح، آیت نمبر ۲۹ کا ایک حصہ «...کفار کے ساتھ سخت گیر اور آپس میں مہربان ہیں۔...»

8) سوره‌ بقره،آیت نمبر ۱۲۵ کا ایک حصہ؛ «... ہم نے کعبہ کو لوگوں کے لئے اجتماع کی جگہ اور پرامن مقام قرار دیا۔ ...»