دنیا کے نظام خلقت کو دیکھ کر اللہ کی معرفت کے حصول کو 'برہان نظم' کے نام سے شہرت حاصل ہے۔ 23 جنوری 2019 کو ہونے والی اس ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی نے علم و دانش اور سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں پیشرفت کی رفتار مزید تیز کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اللہ کی معرفت کے حصول کے موضوع پر 1974 میں تفسیر کے درس میں قرآنی آیات کی روشنی میں اہم دلائل پیش کئے۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی ویب سائٹ KHAMENEI.IR اس بحث کے کچھ حصے قارئین کے لئے شائع کر رہی ہے۔

* وجود خدا کے قرآنی دلائل

* پہلا مرحلہ: کہو کون دنیا کا خالق اور چلانے والا ہے؟

قرآن کا استدلال اسی انداز کا ہے۔ قضیئے کے کسی ایک گوشے اور ایک  پہلو سے پوری بات کو ثابت کر دیا جاتا ہے۔ کبھی کبھی خود استدلال نہیں کرتا بلکہ ایسی  تمہید باندھ دیتا ہے کہ خود انسان کا ذہن محکم استدلال کی جانب متوجہ ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالی ان آیتوں میں یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ صرف اللہ تعالی کی عبادت و اطاعت کی جانی چاہئے تو اس سمت سے وارد ہوتا ہے؛ «قُلْ مَن یَرْزُقُکُم مِنَ السَّماء وَ الأرضِ»  بتاؤ! آسمان و زمین سے تمہیں کون روزی دیتا ہے؟ حیات بخش اور زندگی بخش بارش زمین سے زندگی کے مواد پیدا کرتی ہے؛ «أمَّن یَمْلِکُ السَّمْعَ والأبْصارَ» یا وہ کون ہے جو سماعتوں اور بصارتوں کا مالک ہے؟ سماعت اور کان کا فرق مد نظر رہنا چاہئے! یہ عضو جسے فارسی میں گوش اور عربی میں اُذُن کہا جاتا ہے وہ سماعت سے الگ چیز ہے۔ سماعت در حقیقت سننے کی قوت کا نام ہے۔ اگر اس عضو کے لئے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے تو اسی وجہ سے ہوتا ہے۔  «وَ مَن یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ» وہ کون ہے جو مردے سے زندہ کو باہر نکالتا ہے۔ ظاہری طور پر مردہ انسان سے زندہ انسان باہر نکالتا ہے۔ ایک عورت مر جاتی ہے۔ وہ حاملہ ہوتی ہے اور اس کا بچہ اس کے شکم سے زندہ باہر آتا ہے۔ مردہ ماں کے بطن سے زندہ بچے کو باہر نکالا جاتا ہے۔ اس کا دوسرا ممکنہ مفہوم یہ ہو سکتا ہے کہ مردہ نطفے سے، مردہ جسم سے، ایسی چیز سے جس میں جان نہیں ہے، ہم زندہ مخلوق باہر نکالتے ہیں۔ اس مردہ زمین سے، اس زمین سے جو یوں تو ہزاروں حیات بخش و زندگی افزآ مادوں کا سرچشمہ ہے، لیکن وہ خود مردہ ہے۔ اسی کے بطن سے ہم نے تم کو باہر نکالا اور اس وقت بھی انسانوں کو اس سے باہر نکال رہے ہیں۔ بہرحال یہ اللہ تعالی کے کمال قدرت کی نشانیاں ہیں۔ مردہ چیز کے اندر سے زندہ شئے نکالتا ہے۔ ایک مردہ چیز سے زندہ چیز باہر نکالنا، اسی طرح ایک مردہ شئے کو کسی زندہ شئے سے باہر نکالنا کمال قدرت اور قبضہ قدرت کی نشانی ہے۔

«وَ مَن یُدَبِّرُ الأَمْرَ» کون ہے جو تخلیق کے امور کو چلاتا ہے؟  وہ کون ہے جس نے زمین میں کشش کی قوت رکھی ہے تاکہ انسان اس پر زندگی بسر کر سکے؟ کون ہے جس نے زمین میں، سمندر میں اور پہاڑوں میں زندگی کے وسائل قرار دئے ہیں؟ کون ہے جو انسان کو یہ وسائل باہر نکالنے کی توانائی دیتا ہے؟ کون ہے جس نے سورج، چاند، ستاروں اور چاروں سمت پھیلی کائنات کو حیرت انگیز نظم و ترتیب کے تحت رکھا ہے؟ کون ہے جس نے چاند کو زمین سے ایک معینہ فاصلے پر قرار دیا ہے؟ اگر فاصلہ اس سے کم ہوتا تو انسان کے لئے زمین پر زندگی بسر کر پانا ناممکن ہو جاتا کیونکہ ایسی صورت میں سمندر کا پانی پوری زمین پر پھیل جاتا، اگر یہ فاصلہ زیادہ ہوتا تب بھی زندگی بسر کر پانا ممکن نہ ہوتا کیونکہ پانی زمین پر باقی نہ رہتا بلکہ اس کی گہرائیوں میں چلا جاتا۔ کون ہے جو خورشید کو بناتا ہے اور زمین سے ایک معینہ فاصلے پر قرار دیتا ہے۔ اگر زمین سے اس کا فاصلہ اس سے ذرا سا بھی کم ہوتا تو زمین تباہ کن گرمی سے اور اگر فاصلہ زیادہ ہوتا تو زمین بے پناہ سردی کی وجہ سے زندگی بسر کرنے کے قابل نہ رہتی۔

طرح کلی اندیشه اسلامی در قرآن، صفحہ ۲۲۹ الی ۲۳۱

غیر متعصب انسان کائنات کے ظریف نظم و ترتیب کو دیکھ کر خالق کے وجود سے آگاہ ہو جاتا ہے

«مَن یُدَبِّرُ الأَمْرَ» یہ سوال ویسے تو نزول وحی کے زمانے کے مشرکین سے کیا گيا تھا لیکن بیسویں صدی میں یہ سوال مجھ سے اور آپ سے بھی ہے۔ «مَن یُدَبِّرُ الأَمْرَ» کون ہے جو ساری دنیا کو چلا رہا ہے؟ ذرات کے اندرونی امور سے لیکر کائنات کے دور دراز کے حصوں تک سب کچھ اسی کے دست قدرت سے چل رہا ہے۔ «مَن یُدَبِّرُ الأَمْرَ» کون ہے؟ بغیر کسی تعصب کے، بے لوث ہوکر سوچئے تو صحیح جواب تمہیں مل جائے گا۔ «فَسَیَقُولُونَ اللهُ» وہ کہیں گے کہ «الله»۔ کچھ لوگ ہیں جو بغیر سوچے سمجھے کہہ دیتے ہیں؛ «الله» چونکہ ان کا عقیدہ یہی ہے،  ہمیشہ سے ان کا یہی عقیدہ رہا ہے۔ میں جب ذرا غور کروں گا، توجہ سے سوچوں گا تو «فَسَیَقُولُونَ اللهُ» تو ہم کہیں گے کہ خدا ہے۔ عالم تخلیق کا یہ حیرت انگیز نظم و ترتیب صرف اور صرف اللہ کی جانب سے ہے۔ یہ اسی کا دست قدرت ہے جو اس طرح کائنات کو چلا رہا ہے۔ جو کچھ ہم دیکھتے ہیں، جس کا مشاہدہ کرتے ہیں اپنی فطری آنکھوں اور دیکھنے کے غیر فطری وسائل سے۔ دسیوں سال بعد سائنس کی پیشرفت کے نتیجے میں ہم دیکھیں گے کہ جو کچھ ہے وہ سب کچھ قدرت خداوندی سے پیدا ہوا اور وجود میں آیا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے؛ «فَسَیَقُولُونَ اللهُ»

طرح کلی اندیشه اسلامی در قرآن، صفحہ ۲۳۱

اس کتاب میں جس کا دو یا تین ایرانی افاضل نے ترجمہ کیا ہے اور جو کئی غیر ایرانی مصنفین کی اجتماعی تحریر ہے، جس کا نام ہے «اثبات وجود خدا» یہ بہت اچھی کتاب ہے۔ بہتر ہوگا آپ بھی اس کا مطالعہ کریں۔ آج کچھ سائنسداں یہ کہہ رہے ہیں کہ سائنس و ٹیکنالوجی کی پیشرفت کے ساتھ، مخلوقات کی حقیقت کی مزید گہرائی میں پہنچنے اور نئے منظم قوانین کے انکشاف کے بعد ہم سمجھ سکتے ہیں کہ اس دنیا کا کوئی خالق ہے۔ ہم ہر جگہ نظم و ترتیب دیکھتے ہیں، کار جہاں ہمیں نظم و ترتیب کے مطابق چلتا دکھائی دیتا ہے، اس سے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ دنیا کا کوئی خالق ہے، اسے کسی نے پیدا کیا ہے۔ تو دنیا کی تمام مخلوقات، اللہ کے سارے بندے اس کے ہاتھوں خلق ہوئے ہیں، سب کچھ اس کے اختیار میں ہے، سب اس کے قبضہ قدرت میں ہیں، دوسری مخلوقات کی طرح انسان بھی اسی کے قبضہ قدرت میں ہے۔

طرح کلی اندیشه اسلامی در قرآن،  صفحہ ۱۸

 

٭دوسرا مرحلہ؛ جس نے قدرت کے لئے قوانین وضع کئے ہیں وہی سماج کے لئے قانون کیوں نہ بنائے؟

جب ثابت ہو گیا کہ اللہ ہے تو «فَقُل» اے ہمارے پیغمبر، اے ہمارے پیغام کو پہنچانے والے، اے کمال انسانی کے ذمہ دار! آپ یہیں پر انھیں پکڑ لیجئے «فَقُل» کہئے؛ «أفَلا تَتَّقُونَ»؟ کیا تم میں تقوی نہیں ہے؟ کیا مطلب ہے؟ یعنی کیا تمہیں عظیم خالق کا خوف نہیں ہے، عظمتوں کے خالق کا خوف نہیں کہ اطاعت میں اور بندگی میں کسی اور کو اس کا شریک قرار دیتے ہو؟ آپ دیکھئے کہ جب کائنات کے تخلیقی امور اللہ کے ہاتھ میں ہیں تو دنیا کو چلانے کی تدابیر اور ضوابط اس کے ہاتھ میں کیوں نہیں ہوں گے؟ ایک دفعہ میں اس مسجد میں (مسجد کرامت میں) سورہ تبارک کا ترجمہ بیان کر رہا تھا، آپ کو یاد ہے؟ «تَبارَکَ الَّذی بِیَدِهِ المُلکُ وَ هُوَ عَلی کُلِّ شَیءٍ قَدیرٌ* الَّذی خَلَقَ المَوتَ وَ الحَیاةَ لِیَبلُوَکُم أیُّکُم اَحسَنُ عَمَلاً» اسی بحث میں میں کائنات، آسمانوں اور زمینوں وغیرہ کی تخلیق کی کیفیت پر بات کرنے لگا۔ لیکن اس کی شروعات کیسے ہوئی ہے؟ «تَبارَکَ الَّذی بِیَدِهِ المُلکُ» مُلک یعنی حکومت، یعنی قدرت اس کے ہاتھ میں ہے۔ کون سی قدرت؟ تخلیق کی قدرت اس کے پاس ہے تو قانون سازی کی قدرت بھی اسی کے پاس ہوگی۔ جو کائنات کو سنوارتا ہے وہ قوانین اور ضوابط بنانے کے امور کسی اور کو کیوں سونپے گا؟ وہ بھی اس کو جسے خود اسی نے پیدا کیا ہے۔ جس نے انسان اور جہان کے اندر فطری قوانین اور ضوابط وضع کئے ہیں وہ شہری قوانین اور تعزیراتی قوانین وغیرہ جیسی چیزوں کو کمزور افراد، ناقص عقول، محدود علوم اور کمزور ارادوں، عام انسانوں وغیرہ کے حوالے کیوں کرے گا؟ کیوں؟ وہ خود معاشرے کے امور کو کیوں نہیں چلائے گا؟ وہ خود امام کا انتخاب کیوں نہیں کرے گا؟ وہ اپنی جانب سے ولی کا انتخاب کیوں نہیں کرے گا؟ وہ اس ذمہ داری کو عوام الناس کی ناقص عقلوں کے حوالے کیوں کرے گا؟

 «فَذلِکُمُ اللهُ رَبُّکُمُ الحَقُّ فَماذا بَعدَ الحَقِّ اِلاَّ الضَّلالُ فَأنّی تُصرَفونَ».

طرح کلی اندیشه اسلامی در قرآن، صفحہ ۲۳۱-۲۳۲