بسم الله الرّحمن الرّحیم
و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین.
آپ سب کو خوش آمدید کہتے ہیں! بڑا مفید پروگرام رہا، تلاوت اور بہترین پروگرام جو یہاں پیش کئے گئے ان سے ہم نے کسب فیض کیا، مفید پروگرام تھے۔ خدا کا شکر ہے کہ سال بہ سال اور روز بروز ہماری قوم، ہمارے نوجوان، ہمارے قاریان قرآن ترقی حاصل کر رہے ہیں، آگے بڑھ رہے ہیں اور اس پر ہمیں ہمیشہ شکر ادا کرنا چاہئے۔ الحمد للہ بہت اچھا پروگرام تھا۔ ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ایک بار پر توفیق ملی، زندگی نے ساتھ دیا اور یہ موقع ملا کہ اس محفل کو، اس نشست کو اور اس اجتماع کو دیکھ سکھیں۔ خداوند عالم ان شاء اللہ آپ سب کو قرآن کے ساتھ محشور فرمائے۔
قرآن ایک بے مثال فن پارہ ہے۔ یعنی قرآن کی عظمت و اہمیت کا ایک پہلو قرآن کی فنکارانہ کشش ہے اور اتفاق یہ ہے کہ جو چیز دلوں کو سب سے پہلے مقناطیسی انداز میں اسلام کی جانب کھینچتی تھی وہ قرآن کا یہی فنکارانہ پہلو تھا۔ عرب الفاظ کی موسقیت کو بھی سمجھتے تھے اور ادبی زبان سے بھی آشنا تھے۔ اس عرب ماحول میں یہ صورت حال تھی۔ اچانک انھوں نے کیا دیکھا کہ ایک ایسی چیز سامنے آ گئی ہے جس کی کوئی اور مثال ان کے پیش نظر نہیں ہے۔ نہ تو شعر ہے، نہ نثر ہے لیکن پھر بھی ایک غیر معمولی فنپارہ ہے۔ یہ وہی چیز ہے جس کے تعلق سے امیر المومنین علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔: ظاھِرُہُ اَنیقٌ وَ باطِنُہُ عَمیق(۲) «اَنیق» یعنی حیرت انگیز کشش۔ وہ خوبصورتی کہ جب انسان اسے دیکھتا ہے تو مبہوت رہ جاتا ہے۔ قرآن کے اندر اس طرح کی خوبصورتی ہے۔ البتہ ہم فارسی زبان افراد یعنی غیر عرب افراد بلکہ بہت سے عرب افراد کو بھی یہ توفیق حاصل نہیں ہے کہ اس کشش کو محسوس کر سکیں۔ لیکن قرآن سے اگر بہت انس پیدا ہو جائے تو اسے محسوس کیا جا سکتا ہے۔ جب انسان خود کو قرآن سے مانوس بنا لیتا ہے، زیادہ تلاوت کرتا ہے، زیادہ تلاوت سنتا ہے تب اس کی سمجھ میں آتا ہے کہ روحانی پہلو کے علاوہ بھی یہ زبان، یہ جملے کس قدر شائستہ اور کتنے پرکشش ہیں۔
اس فن پارے کو فنکارانہ انداز میں پیش کرنا چاہئے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم اور آپ اپنے گھر میں قرآن پڑھتے ہیں۔ وہاں ہم نے جس طرح بھی پڑھا کوئی حرج نہیں ہے۔ بلند آواز میں پڑھیں، دبی آواز میں پڑھیں۔ البتہ غالبا ایسی احادیث بھی ہیں کہ گھروں سے قرآن کی تلاوت کی آواز باہر سنائی دینی چاہئے۔ یہ پورے معاشرے میں قرآنی فضا بنانے کے لئے ہے۔ گھروں سے تلاوت کلام پاک کی آوازیں بلند ہوں۔ لیکن جب انسان تنہائی میں قرآن پڑھتا ہے، صرف اپنے لئے پڑھ رہا ہے تو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ بغیر آواز کے پڑھے یا بلند آواز میں پڑھے۔ آہستہ پڑھے یا آواز سے پڑھے۔ لیکن جب آپ کے سامنے سامعین موجود ہیں۔ مثال کے طور پر کسی نشست میں تلاوت کر رہے ہیں تو یہاں آپ اپنے سامعین کو اپنی تلاوت سے متاثر کرنا چاہتے ہیں۔ یہاں فن استعمال کیا جانا چاہئے۔ یہاں فن اپنا رول ادا کرے۔ سامعین کو فن کے ذریعے متاثر کیا جا سکتا ہے۔ یہ تلاوت جو ہم سنتے ہیں، جس کی ترغیب دلاتے ہیں، حمایت کرتے ہیں وہ اس لئے ہے کہ اس بے مثال فنپارے کو آپ فنکارانہ انداز میں پیش کریں۔ ہنرمندانہ انداز میں اس کی تلاوت کیجئے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کی تاثیر کئی گنا بڑھ جائے گی۔ البتہ اس شرط کے ساتھ کہ فن و ہنر کا یہ پہلو صحیح انداز میں بروئے کار لایا جائے، توجہ کے ساتھ انجام دیا جائے۔ مثال کے طور پر آپ دیکھئے کہ میں دوستوں کو ہمیشہ سفارش کرتا ہوں کہ قرآن کی تلاوت اس کے معانی سمجھ کر کریں۔ اس طرح پڑھئے کہ گویا آپ اس کے معانی کو سمجھانا چاہتے ہیں۔ ہم یہ چیز فارسی شعر خوانی کے پروگراموں میں دیکھتے ہیں۔ مدح سرائی کرنے والا آتا ہے اور خوش الحانی کے ساتھ شعر پیش کرتا ہے۔ اسے دو طرح سے پڑھا جا سکتا ہے۔:
هان ای دل عبرت بین از دیده نظر کن هان ایوان مدائن را آئینهی عبرت دان(۳)
(اے عبرت حاصل کرنے والے دل غور سے دیکھ لے مدائن کے ایوان کو اور اسے عبرت کا آئینہ سمجھ)
اسی شعر کو اس طرح بھی پڑھا جا سکتا ہے؛
هان ای دل عبرتبین! از دیده نظر کن هان! ایوان مدائن را، آئینهی عبرت دان
(اے عبرت حاصل کرنے والے دل غور سے دیکھ لے مدائن کے ایوان کو اور اسے عبرت کا آئینہ سمجھ)
پڑھنے کے یہ دو انداز کیا ایک جیسے ہیں؟ یہ دونوں ایک جیسے نہیں ہیں۔ دوسرا شعر ایسا ہے کہ اس میں آپ جملے پر، کلمات پر مناسب انداز میں ٹھہر رہے ہیں اور زور دے رہے ہیں۔ یہی انداز شیخ عبد الفتاح شعشاعی اپناتے ہیں، مصطفی اسماعیل اپناتے ہیں۔ یہ ان کی خاصیت ہے۔ یعنی مصر کے قدیمی قاریوں میں بھی سب ایک جیسے نہیں ہیں۔ سب کو یہ ہنر نہیں آتا۔ یا اس جانب متوجہ نہیں ہیں۔ تاہم بعض قاری ایسے ہیں کہ جو بخوبی سمجھتے ہیں کہ انھیں کس انداز سے پڑھنا ہے۔ قاری جب قرآن پڑھتا ہے تو جس جگہ زور دینا ہے زور دیتا ہے۔ اس انداز سے تلاوت کرتا ہے کہ گویا کلام خدا کا خطاب آپ سے ہے۔ آپ کا دل اس جانب کھنچنے لگتا ہے۔ ہماری جو تلاوت ہے، خاص طور پر آپ حضرات جو الحمد للہ خوش الحان بھی ہیں، ہم تو دیکھ رہے ہیں، الحمد للہ آپ سب کی آواز بہت اچھی ہے، آپ کی آواز بھی اچھی ہے اور سانس بھی طویل ہے، کئی پہلوؤں سے آپ مہارت رکھتے ہیں تو محافل اور پروگراموں میں قرآن کی تلاوت کے وقت اس نکتے پر توجہ ہونا چاہئے۔
البتہ وہ دوسرا پہلو بھی؛ 'وَ باطِنُہُ عَمیق' اسی فنکارانہ روش سے مربوط ہے۔ یعنی تلاوت کا انداز کافی حد تک ہمیں معانی کی گہرائی کی جانب متوجہ کر سکتا ہے۔ قرآن کے باطن پر توجہ دینا ضروری ہے۔ قرآن کے باطن سے میری مراد وہ باطن نہیں ہے کہ جس کا علم صرف اہل الذکر کو ہے، ائمہ معصومین علیہم السلام کے پاس ہے۔ اس کا ادراک ہمارے بس کی بات نہیں ہے۔ اس کا علم ہمیں روایتوں کی مدد سے، ائمہ علیہم السلام کے فرامین کی مدد سے حاصل کرنا ہوگا۔ میری مراد یہی ظاہری عبارت ہے۔ مثال کے طور پر قرآن کہتا ہے۔: وَ العاقِبَۃ لِلمُتَّقین؛(۴) تو عاقبت یعنی انجام کا کیا مطلب ہے؟ انجام اور عاقبت متقین کے لئے ہے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں بھی اچھا انجام متقین کے لئے ہے اور آخرت میں بھی اچھا انجام متقین کے لئے ہے۔ اسی طرح جدوجہد بھی اگر آپ اس میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو وہ بھی متقین کے لئے ہے۔ میدان جنگ میں اگر آپ دشمن پر فتحیاب ہونا چاہتے ہیں تو آپ کو متقی ہونا چاہئے۔ آپ دیکھئے! اگر آپ غور کریں تو آپ کو نظر آئے گا کہ عاقبت تو متقین کی لئے ہی ہوتی ہے۔ اس پر ذرا ہمیں گہرائی سے غور کرنا ہوگا، اس پر توجہ دینا ہوگی۔ سرسری طور پر آگے نہ بڑھ جائیں۔ یا مثال کے طور پر: وَ لَنَبلُوَنَّکُم بِشَیءٍ مِنَ الخَوفِ وَالجوعِ وَ نَقصٍ مِنَ الاَموالِ وَ الاَنفُسِ وَ الثَّمَراتِ وَ بَشِّرِ الصابِرین (۵) یہاں یہ خوف کیا ہے؟ یہ بھوک کیا ہے؟ انسان کو ان کلمات پر غور کرنا چاہئے، ان مفاہیم پر توجہ دینا چاہئے۔ اس کا مطلب وہی تدبر ہے جس کا ذکر قرآن میں ہے۔ قرآن میں تدبر کا یہی مطلب ہے۔
بَاطِنُہ عَمیق؛ اس گہرائی میں ہر شخص اپنی توانائی کے مطابق، اپنی آگاہی کے مطابق، اپنے مطالعات کے مطابق، اپنے فہم و ادراک کے مطابق اتر سکتا ہے۔ ہر شخص یکساں مقدار میں آگے نہیں بڑھتا۔ ہم بھی تو ہاتھ پاؤں مار سکتے ہیں۔ ہاتھ پاؤں مارنے سے مراد یہ ہے کہ ہم قرآنی معارف کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ قرآن سے ہمیں زندگی کا سبق سیکھنا چاہئے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مثلا ہم قرآن میں ٹریفک کے اصول و قوانین بھی تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ نہیں، قرآن ہمارے اذہان کو عالی معارف سے آراستہ کرتا ہے۔ جب انسان کا ذہن عالی معارف کے ساتھ بلندیوں پر پہنچتا ہے تو پھر وہ دنیا کے تمام اسرار سے باخبر ہو جاتا ہے، وہ حکمت سے آراستہ ہو جاتا ہے؛
آن که در او جوهر دانایی است بر همه کاریش توانایی است(۶)
(جس کے اندر علم کا جوہر ہے وہ تمام کام انجام دینے پر قادر ہے۔)
جب آپ سمجھ گئے کہ قرآنی معارف کیا ہیں اور یہ معارف ہمارے معاشرے میں، اس ملک کے پورے معاشرے کے ذہنوں میں، کم از کم قرآنی صنف کے ذہنوں میں پختہ ہو چکے ہیں تو پھر انسان کے سامنے گوناگوں معارف بشری کے دروازے کھلنے لگتے ہیں۔
میری نظر میں ایک اہم کام یہ ہے کہ ہم قرآنی نشستوں اور تلاوت کے پروگراموں کو مزید بڑھائیں۔ البتہ اس وقت قرآن کی طرف جو توجہ نظر آتی ہے اس کا ماضی سے کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ پہلے اس کی ایک فیصدی توجہ دی جاتی تھی بلکہ اس کے ہزارویں حصے کے برابر بھی نہیں تھی۔ جس وقت ہم لوگ اس میدان میں تھے اور جائزہ لیتے تھے تو واقعی اس وقت آج کی نسبت ہزارواں حصہ بھی نہیں تھا۔ لیکن بعض بڑی اچھی عادتیں تھیں۔ لیکن اب قرآنی ٹی وی چینل اور قرآن کی ریڈیو نشریات کی وجہ سے کہ جو اپنی جگہ بہت اچھی چیز ہے، یہ عادتیں اور روایتیں قدرے پیچھے چھوٹ گئی ہیں ان پر دوبارہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
ایک چیز یہی قرآن کے گھریلو دورے تھے۔ ایک اچھی روایت مساجد یا امام بارگاہوں میں تلاوت کے پروگرام تھے۔ مساجد کو قرآنی مراکز بنائیے۔ قرآنی نشست دو طرح کی ہو سکتی ہے۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ سب لوگ ایک ساتھ جمع ہوں اور ایک استاد بھی وہاں بیٹھے، سب لوگ باری باری تلاوت کریں اور استاد لوگوں کی غلطیوں کی تصحیح کرتا رہے، ضروری نکات کو بیان کرے، جو چیزیں بتانے کی ہیں بتائے۔ ایک روش یہ ہے۔ ایک روش یہ ہے کہ لوگ جمع ہوں۔ ایک شخص منبر پر جائے اور قرآن کی تلاوت کرے۔ آدھا گھنٹا، ایک گھنٹا قرآن پڑھے۔ خطبا کی مانند وہ بھی منبر پر جائے اور آپ نیچے بیٹھ کر اس قاری کی، اس تلاوت کرنے والی کی تلاوت سنیں۔ آپ نیچے بیٹھ کر قرآن اپنے سامنے رکھیں اور اس کی تلاوت سنتے ہوئے قرآن کی وہ آیتیں دیکھتے جائیں۔ یہ روش بھی رفتہ رفتہ رائج ہو گئی ہے۔ میں جب ٹیلی ویزن پر دیکھتا ہوں کہ یہ عمل جو ماہ رمضان میں مشہد میں، قم میں، اسی طرح دوسرے بہت سے شہروں میں شروع ہو گیا ہے کہ لوگ جمع ہوتے ہیں صحن کے اندر اور وہاں قرآن کا ایک پارہ پڑھتے ہیں، سب سنتے ہیں۔ واقعی مجھے دیکھ کر بڑا لطف آتا ہے۔ یہ عمل قم سے شروع ہوا اور دوسروں نے بھی اس کی تقلید کی۔ یہ بہت اچھی روش ہے۔ یہ پروگرام صرف ماہ رمضان میں نہیں بلکہ پورے سال مختلف مساجد میں پابندی سے ہونا چاہئے۔ مساجد کو قرآن کے مراکز میں تبدیل ہو جانا چاہئے۔ اعلان کر دیا جائے مثال کے طور پر کہ شب جمعرات میں، شب جمعہ میں، ہفتے سے قبل والی رات میں، اگر ہر شب ممکن نہ ہو تب، ایک قاری قرآن وہاں آکر بیٹھے، آپ بھی وہاں جاکر جمع ہوں، قرآن کھولیں، وہ تلاوت کرے اور آپ ان آیتوں کو دیکھیں، اس کا ترجمہ دیکھیں، اچھے تراجم دیکھیں۔ ہمارے زمانے میں جب میں مشہد میں تفسیر کا درس دیتا تھا، دسیوں سال پہلے کی بات ہے تو اس وقت قرآن کے ایک دو ہی تراجم تھے وہ بھی ناقص۔ اس وقت الحمد للہ بہت ترجمے ہیں جو بہت اچھے ہیں، لوگوں کو دستیاب ہیں۔ ان تراجم کو لیں اور پڑھیں۔ ایک کام یہ ہے۔
ایک اور کام یہ ہے کہ تفسیر کی نششتیں ہوں۔ تفسیر قرآن بھی بے حد اہم ہے۔ جو لوگ کر سکتے ہیں، جنھیں علم ہیں، خاص طور پر محترم علمائے کرام، فضلائے کرام، وہ لوگ جو قرآن سے انسیت رکھتے ہیں، مطالعہ کریں، غور کریں، تفسیر بیان کریں۔ معاشرے کی علمی سطح کو بلند کریں۔ آخر قرآن میں جو یہ کہا گیا ہے؛ اِنَّ ھذا القُرءانَ یَھدى لِلَّتی ھیَ اَقوَم(۷) یہ قرآن «اقوَم» کی-«اَقوَم» یعنی سب سے محکم، بہتر، مضبوط اور با دوام راستے کی تمہیں نشاندہی کرتا ہے۔ «اقوَم» کس چیز میں؟ «اقوَم» آپ کی دنیاوی زندگی میں، «اقوَم» آپ کو وقار دلانے میں، «اقوَم» آپ کی حکومت تشکیل دینے میں، «اقوَم» آپ کی حقیقی اور اخروی زندگی میں جو آپ کی اصلی زندگی ہے۔ -لَهِیَ الحَیَوان-(۸) جب قرآنی تعلیمات ہمہ گیر ہو جاتی ہیں تو یہ ہوتا ہے۔ البتہ آج ہم اگر دیکھیں تو کافی پیشرفت حاصل ہو چکی ہے، تاہم ابھی کم ہے۔ جس مقام پر پہنچنا ہے اس کی نسبت کم ہے۔ البتہ ماضی کی نسبت حالات بہت بہتر ہوئے ہیں۔ مگر اس سے زیادہ کی ضرورت ہے۔ ایسا ہونا چاہئے کہ ہمارا معاشرہ، ہمارے مرد اور خواتین، ہمارے نوجوان قرآنی معارف و تعلیمات سے مانوس ہوں، ذہنوں میں قرآنی معارف بیٹھ جائیں۔ اگر یہ ہو گیا تو استدلال کی قوت حاصل ہوگی، دفاع کی طاقت حاصل ہوگی، ایمان کامل ہوگا اور اقدامات نتیجہ خیز ہوں گے۔
قرآن کی نشستوں کے بارے میں بھی ایک نکتہ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ اب آپ حضرات «اللہ اللہ» کہہ کر تلاوت کرنے والے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، کچھ لوگ ذرا بلند آواز میں کہتے ہیں۔ یہ چیز عربوں کی جو کیسٹیں آتی تھیں اور ان میں تلاوت کے وقت وہ ایک طرح کا شور مچاتے تھے جو ان کے مزاج کا حصہ ہے تو یہ چیز قرآن کی تلاوت کے لوازمات میں سے نہیں ہے۔ لوگوں نے وہی سیکھ لیا ہے اور اسی کی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ حوصلہ افزائی کرنا اچھی بات ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن میں دیکھتا ہوں کہ بعض اوقات بعض غیر ملکی قاری جب یہاں آکر تلاوت کرتے ہیں، عرب ملکوں سے جو آتے ہیں اور واقعی ان میں سے بعض بہت اچھے قاری ہیں، سب ایک جیسے نہیں ہیں، تو نشست میں موجود سامعین گویا اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں کہ ہر آیت یا نصف آیت کی تلاوت کے بعد اونچی آواز میں اس کی حوصلہ افزائی کریں۔ اس کی کیا ضرورت ہے؟ اس میں ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ اسے معلوم ہے کہ آپ تلاوت کو صحیح طریقے سے سمجھ نہیں رہے ہیں (9)، اس لئے کہ وہ خراب پڑھتا ہے تب بھی آپ کہتے ہیں؛ «الله الله»، اسے اندازہ ہے کہ آپ متوجہ نہیں ہیں۔ آپ یہ کوشش کریں کہ جہاں قاری اچھی تلاوت کرے وہاں آپ اس کی تعریف کریں۔ البتہ ہمارے اپنے قاری ہوں تو جتنی بھی تعریف اور حوصلہ افزائی کریں کوئی حرج نہیں ہے۔(۱۰) میں ان کے خلاف نہیں ہوں۔ لیکن جب غیر ملکی قاری آتا ہے اور یہاں تلاوت کرتا ہے تو یہ نہیں ہونا چاہئے کہ سامع اپنا فریضہ سمجھے کہ وہ جیسی بھی تلاوت کر رہا ہوں اس کی حوصلہ افزائی کرے۔ خاص طور پر بعض اوقات جب اس کی تلاوت کے انداز میں «الله الله» کہے ہیں تو اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن بہرحال قرآنی نشستوں کا رواج ہو گیا ہے جو بہت اچھی چیز ہے۔ بنابریں میں جو عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ قاری کے سامنے جب سامعین موجود ہیں تو فقرے کے اہم نکتے پر توجہ رکھے اور اس پر زور دے۔ تاکہ سامعین کے لئے قرآنی مفاہیم کو سمجھنا آسان اور بہتر ہو جائے۔
میرے عزیزو! ہمیں قرآن کی احتیاج ہے، یہ قرآن ہماری آج کی ضرورت ہے۔ صرف ملت ایران کے لئے نہیں بلکہ پورے اسلامی معاشرے اور پوری انسانیت کے لئے واقعی آج قرآن کی بہت ضرورت ہے۔ قرآن ہے جو استکبار کی مخالفت کرتا ہے، قرآن ہے جو ظلم کی آشکارا مخالفت کرتا ہے، قرآن ہی ہے جو کفر باللہ کا صریحی طور پر مقابلہ کرتا ہے، قرآن ہے جو طاغوت و سرکشی کا پوری قوت سے مقابلہ کرتا ہے۔: اَلَّذینَ ءامَنوا یُقاتِلونَ فی سَبیلِ اللہ وَالَّذینَ کَفَروا یُقاتِلونَ فی سَبیلِ الطّاغوتِ فَقاتِلوا اَولِیاءَ الشَّیطان(۱۱) قرآن کا یہ لہجہ کتنا مستحکم ہے۔ یہی آج انسانیت کی بڑی مشکلات ہیں۔ یہ جو آپ دیکھ رہے ہیں کہ کچھ لوگ کسی ملک کے صدر بن کر یا کسی ملک کے بادشاہ بن کر اقوام پر، عوام پر، امن و سلامتی پر، چین و سکون پر، حکومتوں اور ملکوں کے ثبات و استحکام پر غراتے ہیں یہ وہی لوگ ہیں جنہیں قرآن نے پھٹکارا ہے۔ عوام کو یہ چیز سمجھنا ہوگی۔ یہ جو قرآن ہم سے کہتا ہے؛ َلا تَرکَنوا اِلَی الَّذینَ ظَلَموا فَتَمَسَّکُمُ النّار (۱۲) ظالمین پر اعتماد نہ کرو، یہی آج کی دنیا کے لوگوں کی ایک بڑی مشکل ہے۔ اعتماد کر بیٹھتے ہیں اور پھر ان کی درگت ہو جاتی ہے۔ آپ نے دیکھا کہ ان بعض عرب ممالک میں ایک بڑا اچھا سلسلہ شروع ہوا ہے، بڑی اچھی جدوجہد دیکھنے میں آ رہی ہے، ایک شور مچا، ایک بیداری پیدا ہوئی، لیکن بالکل اس شعلے کی مانند جس پر راکھ ڈال دی جاتی ہے یا مٹی ڈال دی جاتی ہے، بجھ گیا۔ کیوں؟ اس لئے کہ «لا تَرکَنوا اِلَی الَّذینَ ظَلَموا» پر انھوں نے عمل نہیں کیا۔ امریکہ پر اعتماد کیا، اسرائیل پر اعتماد کیا۔ ان کی سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ کیا کرنا چاہئے۔ تو اس کا یہی نتیجہ ہوتا ہے۔
اگر اللہ نے کسی قوم کی مدد کی اور وہ قوم اس مدد کی قدر و قیمت سے واقف نہ ہو تو اسے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا، اس کا نقصان اٹھانا پڑے گا۔ اس کی قدر کرنا چاہئے۔ ہماری قوم نے بحمد اللہ روز اول سے ہی اس کی قدر کی۔ ہماری قوم کا یہ عظیم کارنامہ، اس انقلاب کی بقا، اس قوم کی یہ استقامت، اس کا روز افزوں وقار، اس ملک کی یہ غیر معمولی پیشرفت یہ سب اس وجہ سے ہے کہ عظیم قائد امام خمینی کی قیادت کی برکت سے ملت ایران نے ان چند آیتوں پر عمل کیا۔ انھوں نے ہی ہمیں یہ سکھایا۔ خود ان کا دل اللہ پر ایمان کے جذبے سے معمور تھا، اللہ پر ایمان اور قرآنی تعلیمات سے لبریز تھا۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے ہمیں سکھایا کہ کیا کرنا چاہئے اور پھر ہم چل پڑے۔ بحمد اللہ اس قوم نے استقامت کا مظاہرہ کیا۔ آج بھی راہ حل وہی ہے۔ آج بھی شیاطین، طاغوتی قوتوں اور کفار کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے علاوہ اس ملک کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔ ان شاء اللہ خداوند عالم اس ملت کی توفیقات میں اضافہ فرمائے گا۔
پروردگارا! ہمیں اہل قرآن میں قرار دے، پروردگارا! ہمیں قرآن کے زیر سایہ زندہ رکھ، ہمیں قرآن کے زیر سایہ موت دے، ہمیں قرآن کے ساتھ محشور کر۔ پروردگارا! محمد و آل محمد کا واسطہ ہمارے بزرگوار امام کو اپنے اولیا کے ساتھ محشور فرما، ہمارے گراں قدر شہیدوں کو شہدائے کربلا کے ساتھ محشور کر۔ پروردگارا! ہمارے نوجوانوں کو راہ راست کی ہدایت فرما۔ ہم سب کی عاقبت کو سنوار دے، ہماری مشکلات کو برطرف فرما۔
رحم الله من قرأ الفاتحة مع الصّلوات
۱) اس ملاقات کے آغاز میں کچھ قاریوں نے انفرادی طور پر اور کچھ نے گروہ کی شکل میں تلاوت کلام پاک کی، 'تواشیح' بھی پیش کی گئی۔
۲) نہج البلاغه، خطبه نمبر ۱۸
۳) خاقانی. دیوان اشعار، قصاید کی فصل، مدائن سے گزرنے اور طاق کسری کو دیکھنے کے وقت
۴) منجملہ سوره اعراف، آیت نمبر ۱۲۸؛ «...نیک انجام پرہیزگاروں کے لئے ہے۔»
۵) سوره بقره، آیت نمبر ۱۵۵؛ «اور یقینا ہم تم کو کسی چیز (جیسے) خوف، بھوک، مال، افراد اور پیداوار میں کمی کرکے آزمائیں گے اور بشارت دے دو صبر کرنے والوں کو۔»
۶) نظامی، مخزن الاسرار
۷) سوره اسراء، آیت نمبر ۹ کا ایک حصہ
۸) سوره عنکبوت، آیت نمبر ۶۴ کا ایک حصہ
۹) رہبر انقلاب اور حاضرین ہنس پڑے
۱۰) رہبر انقلاب اور حاضرین ہنس پڑے
۱۱) سوره نساء، آیت نمبر ۷۶ کا ایک حصہ؛ «جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ راہ خدا میں جنگ کرتے ہیں، جو لوگ کافر ہو گئے وہ طاغوت کی راہ میں جنگ کرتے ہیں، تو تم شیطان کے مددگاروں سے جنگ کرو۔»
۱۲) سوره هود، آیت نمبر ۱۱۳ کا ایک حصہ