منگل 14 مئی 2019 مطابق آٹھ رمضان المبارک کے اس خطاب میں رہبر انقلاب اسلامی نے روحانی و دینی نکات و تعلیمات پر روشنی ڈالی اور اقتصادی مسائل کے ازالے اور پیداواری شعبے کے فروغ کے لئے عہدیداران کے  بنیادی فرائض کی نشاندہی کی۔ رہبر انقلاب اسلامی نے امریکہ کے خبیثانہ اقدامات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ دشمن کے سامنے ملت ایران کا واضح موقف ہے تمام شعبوں میں مزاحمت، کیونکہ امریکہ کی موجودہ حکومت سے مذاکرات کئی گنا زیادہ زہریلے ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ جنگ نہیں ہونے والی ہے، یہ ارادوں کی جنگ ہے اور ملت ایران اور اسلامی نظام کا عزم و ارادہ دشمن سے زیادہ قوی ہے(1)۔

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین.

عزیز بھائیوں اور بہنوں کو، محترم عہدیداران کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ ان شاء اللہ برکات الہیہ آپ سب اور تمام ملت ایران کے شامل حال ہوں اور ماہ رمضان حقیقی معنی میں آپ سب کے لئے مبارک مہینہ قرار پائے۔

رمضان کا مہینہ تقوی کا مہینہ ہے۔ ہم اور آپ عہدیدار ہیں تو ہم کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ تقوی کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔ چند منٹ، چند باتیں اس سلسلے میں آپ کی خدمت میں عرض کرنا چاہوں گا۔ آیہ کریمہ «یا ایّھا الَّذینَ آمَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیامُ کَما کُتِبَ عَلَی الَّذینَ مِنْ قَبْلِکُم لَعَلَّکُم تَتَّقُون»،(۲) میں یہ «لَعَلَّکُم تَتَّقُون» یعنی شاید تم تقوی اختیار کر لو، امید ظاہر کر رہا ہے۔ یعنی امید یہ ہے کہ یہ اتفاق ہو جائے۔ اللہ تعالی کے سلسلے میں تو 'شاید اور امید ہے' جیسی چیزوں کا کوئی معنی و مفہوم نہیں ہے وہ تو اسرار و رموز تمام چیزوں سے واقف ہے۔ 'امید' اور 'شاید' کا وہاں کوئی مفہوم نہیں ہے۔ لہذا مراد یہ ہے کہ ہم نے رمضان کے مہینے کو، اس الہی قانون کو اس لئے قرار دیا ہے کہ ایک زمین ہموار ہو، سازگار حالات بنیں تقوی کی ترویج کے لئے۔ یہاں خطاب بھی عمومی ہے۔ یعنی آپ عوام الناس کے درمیان تقوی رائج ہو۔ یعنی یہ کہ رمضان کا مہینہ تقوی کی ترویج کا مہینہ ہے۔

تقوی کیا ہے؟ تقوے کا جو رائج ترجمہ ہے اور صحیح ترجمہ ہے 'چوکنا رہنا'۔ ہم لوگ عام طور پر اسے 'خیال رکھنا' بھی کہتے ہیں۔ مثال کے طور پر بولتے ہیں کہ فلاں صاحب فلاں کا بڑا خیال کرتے ہیں۔ یا آپ فلاں شخص کا لحاظ کرتے ہیں۔ لحاظ رکھنا، خیال رکھنا ہی تقوی ہے۔ اِتَّقُوا اللہ (۳) یعنی اللہ کا خیال رکھئے، اس کی ہمیشہ پروا کیجئے۔ حیات بشری کے اس عظیم سفر میں جو گوناگوں مشکلات سے روبرو ہے، آپ کو ایک سیدھا راستہ دکھایا گيا ہے۔ مثال کے طور پر کوئی میدان ہے جس کے گوشے گوشے میں بارودی سرنگیں لگی ہوئی ہیں۔ اس میدان میں ایک راستہ بنایا جاتا ہے اور آپ کو بتایا جاتا ہے کہ یہ راستہ محفوظ راستہ ہے، پرامن راستہ ہے۔ آپ اس راستے سے جائیے، صراط مستقیم یہی ہے۔ اللہ کا خیال رکھنا۔ اِتَّقُوا الله، کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے حواس درست ہوں اور آپ اس راستے سے بھٹکیں نہیں، اس سے منحرف نہ ہوں ورنہ مصیبت میں پڑ جائیں گے، آپ کے لئے مشکلات کھڑی ہو جائیں گی۔

اگر آپ اس راستے پر چلے تو آپ کو بڑے اچھے نتائج حاصل ہوں گے۔ ان نتائج کے بارے میں اللہ تعالی نے مختلف آیات میں بار بار بتایا ہے۔: اِتَّقُوا الله لَعَلَّکُم تُرحَمون (۴) رحمت الہی حاصل ہوگی، لَعَلَّکُم تُفلِحون(۵) فلاح و رستگاری، تقوی کے نتیجے میں انسان کو رستگاری اور نجات حاصل ہوگی، لَعَلَّکُم تَھتَدون (۶) بعض آیتوں میں اس کا ذکر ہے کہ تقوی سے ہدایت ملتی ہے۔ جب آپ نے تقوی کا راستہ اختیار کر لیا تو آپ کے راستے سے مشکلات اور رکاوٹیں دور ہو جائیں گی۔ راستہ آپ کی نظروں کے سامنے بالکل واضح اور روشن ہو جائے گا۔ اگر آپ کے پاس تقوی ہے تو آپ کو 'فرقان' حاصل ہوگا۔ یَجعَل لَکُم فُرقانًا؛(۷) فرقان یعنی تشخیص اور شناخت کی صلاحیت۔ یہ بہت اہم چیز ہے۔ ہمیں زندگی کے تمام مسائل میں تشخیص کی، صلاحیت کی ضرورت پڑتی ہے کہ ہم سمجھ سکیں کہ صحیح اور غلط راستہ کیا ہے، حق کیا ہے اور باطل کیا ہے۔ تقوی سے فرقان حاصل ہوتا ہے، تشخیص کی صلاحیت حاصل ہوتی ہے۔ ایک اور چیز بھی ہے۔: وَ مَن یَتَّقِ اللهَ یَجعَل لَهُ مَخرَجاً (۸)، «مَخرَج» یعنی بند راستے کو کھولنا۔ اگر تقوی ہو تو کوئی بند راستہ نہیں ہوگا، کوئی بند گلی نہیں ہوگی۔ آپ کا راستہ کبھی مسدود نہیں ہوگا۔ اگر آپ تمام میدانوں میں تقوی پر کاربند رہیں، خیال رکھیں، لحاظ رکھیں، اللہ کی پروا کرتے رہیں تو آپ کے سامنے کوئی بھی راستہ اور دروازہ مسدود نہیں ہوگا۔ اس سے انسان کو بصیرت بھی ملتی ہے۔ یہ سب تقوی کے سلسلے میں قرآنی وعدے ہیں۔ وَمَن اَصدَقُ مِنَ اللہ قیلًا (۹) کوئی بھی وعدہ کرنے والا اللہ تعالی سے زیادہ سچا نہیں ہو سکتا۔ جب اللہ کوئی وعدہ کرتا ہے تو وہ ضرور پورا ہوتا ہے۔ وہ یقینی ہوتا ہے، اس میں کسی شک کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔

قرآن میں شروع سے آخر تک ہمیں بار بار تقوی کی دعوت دی گئی ہے اور تقوی کی دعوت کے ساتھ ہی ساتھ، اس کارساز اور مشکل کشا حقیقت کی دعوت کے ساتھ ساتھ ایک مخالف حقیقت یعنی غیر خدا کے تقوے کا بھی ذکر ہے، میرے خیال میں یہ سورہ نحل کی آیت ہے؛ وَ لَہ الدّینُ واصِبًا اَفَغَیرَ اللہ تَتَّقون (۱۰) کیا تم غیر خدا کا خیال کر رہے ہو؟ غیر خدا سے مراد کیا ہے؟ اگر انسان اپنے والد کا لحاظ کرتا ہے، اگر والدہ کا لحاظ کرتا ہے تو یہ تو اچھی بات ہے، اگر آپ اپنے مومن بھائی کا خیال رکھتے ہیں تو یہ اچھی بات ہے۔ یہاں یہ مراد نہیں ہے۔ یہاں مراد غیر خدائی طاقتوں سے ہے، اللہ کی مخالف طاقتیں یہاں مراد ہیں۔ تو جب ہم تقوا کے پابند ہو گئے تو پھر ہمیں غیر خدا کی کوئی پروا نہیں رہے گی۔ غیر خدائی طاقتوں کا ہمیں کوئی خیال نہیں رہے گا، ہم ان کا لحاظ نہیں کریں گے۔ یہ مطلب نہیں ہیں کہ ہم اپنے حواس جمع نہ رکھیں، کیوں نہیں، حواس بجا رکھنے ہیں لیکن ان سے خوفزدہ ہرگز نہیں ہونا ہے۔ ہم یہ نہیں سوچیں گے کہ ہماری زندگی، ہماری سعادت، ہمارا مستقبل، ہماری قسمت ان کے ہاتھ میں ہے۔ یہ تقوی کا لازمہ ہے۔ آپ دیکھئے کہ یہ سب ملت کی فتحیابی و کامرانی کے راستے ہیں۔ یعنی اگر کسی اسلامی امت میں تقوی ہوگا، یہ طرز فکر ہوگا اور یہ طرز عمل ہوگا تو اس کا ارتقا اور شگوفائی طے ہے، اس کے اندر تحرک پیدا ہوگا، پیش قدمی، علو اور ارتقا  حاصل ہوگا اور اس کے بعد « لِیُظھرَہ عَلَی الدّینِ کُلِّہ» (۱۱) کی منزل آئے گی جس کا اللہ تعالی نے قرآن میں بار بار کئی جگہ ذکر کیا ہے۔

تقوا کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ یعنی آپ کے دل کی خلوتوں تک تقوا کا دائرہ ہے۔ یعنی آپ دل میں بری خواہشات کو داخل نہ ہونے دیجئے۔ حق بات کے بارے میں شک و تردد کو داخل نہ ہونے دیجئے۔ نفس کے خواہشات کو خود سے دور کیجئے۔ یعنی یہی ساری مشکلات جن میں ہم گرفتار ہیں۔ گزشتہ شب ٹیلی ویزن پر امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کے بارے میں ایک پروگرام دکھایا جا رہا تھا۔ واقعی امام (خمینی) حقیقی معنی میں صاحب حکمت تھے۔ جب وہ کوئی بات کہتے تھے تو اس کے اندر سے حکمت جاری ہوتی تھی۔ البتہ ہم اس نشست میں موجود تھے لیکن پھر بھی (اس طرح کے پروگراموں کے ذریعے) یاد دہانی بہت ضروری ہے۔ آپ ایک جملہ کہتے تھے: "ماہ رمضان ایک وجہ بن جاتا ہے کہ ہم خود کو اپنی خواہشات سے دور کر لیں" خاص طور سے فکری خواہشات، فکری خواہشات زیادہ دشوار ہوتی ہیں، اقتدار پسندی، جاہ طلبی، یہ سب فکری خواہشات ہیں۔ یہ جو انسان ہر میدان میں اپنی زندگی کو مستحکم بنانے کی کوشش کرتا ہے یہ اسی فکری خواہش کی بنا پر ہے، یہی وہ فکری خواہش ہے۔ ظاہری، مادی اور اخلاقی خواہشات کی تو خیر ایک الگ ہی بحث ہے۔ تقوا کا آغاز یہاں سے ہوتا ہے اور پھر معاشرے کی سطح 0تک اور جنگ کے میدان تک جاتا ہے۔ سیاسی سرگرمیوں میں بھی تقوی اپنا اثر رکھتا ہے، اقتصادی سرگرمیوں بھی اس کا اپنا اثر ہے۔ اب چونکہ ہم اور آپ ملک کے عہدیداران ہیں، مختلف شعبوں کا انتظام ہمارے ذمے ہے تو ہمارے اقدام، ہمارے قول، ہمارے فعل، ہمارے ضمیر، ہمارے فیصلے کا عوام کے مستقبل سے سیدھا ربط ہے، یہیں سے تقوا کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ میں نے جو عرض کیا کہ ہمارے اور آپ کے اندر تقوی کی اہمیت و ضرورت عام لوگوں سے زیادہ ہے تو اسی وجہ سے۔ ہمیں توجہ رکھنا چاہئے، تقوی پر عمل کرنا چاہئے۔ حکومت کا کارگزار عوام الناس کے حقوق سے بہت قریبی طور پر مربوط رہتا ہے۔ اب اگر اس کے اندر تقوی کا فقدان ہو تو عوام کے حقوق پامال ہوں گے اور اس کی بھرپائی نہیں ہو سکتی۔ اگر کسی نے ذاتی طور پر کوئی خلاف ورزی کر دی، اپنے اوپر ظلم کیا، انسان سے ایسا عمل سرزد ہو جاتا ہے، تو وہ توبہ کرتا ہے اور اس غلطی کا کسی حد تک تدارک ہو جاتا ہے، لیکن جب عوام الناس کے حقوق پامال ہوتے ہیں تو انسان ان کی بھرپائی کیسے کرے گا؟

اسے آپ انتظامی عہد کے طور پر ذہن میں رکھئے کہ آپ جب بھی کسی شخص کو کسی عہدے پر منصوب کرنا چاہتے ہیں، کسی کو کوئی کام سونپنا چاہتے ہیں اس خصوصیت کو یعنی عوام سے مربوط امور میں اس کے اندر تقوا اور فرض شناسی کو مینیجمنٹ کی صلاحیتوں کے لازمی جز کے طور پر دیکھئے۔ کسی کو انتظامی عہدہ دینا چاہتے ہیں تو اس کی لازمی صلاحیتوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس شخص کے اندر تقوا ہو۔ یعنی جو کام آپ اسے سونپ رہے ہیں اسے وہ دیانت داری سے انجام دے سکتا ہے یا نہیں۔ اگر یہ ہو جائے تو ہمارے تمام فیصلوں میں سب سے اہم عنصر ہوگی رضائے پروردگار۔ یہ جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے لئے کام کریں تو وہ اسی طرح ممکن ہے۔ اس صورت میں آپ کا عمل عبادت قرار پائے گا۔ اسلامی حکومت اور اسلامی نظام کے لئے کام کرنے کی ایک بڑی خصوصیت یہی ہے کہ اگر اللہ کی خاطر کام کیا ہے تو یہی کام عبادت بن جاتا ہے۔ آپ جو دستخط کریں گے، کاغذ پر آپ جو تحریر لکھیں گے، آپ اپنی زبان سے جو باتیں بیان کریں گے، یہ سب کچھ عبادت بن جائے گا۔ دعائے مکارم الاخلاق میں یہ جملہ ہے؛ وَ استَعمِلنی‌ بِما تَسأَلُنی غَداً عَنه یہ صحیفہ سجادیہ کی بیسویں دعا ہے جو بہت اچھی دعا ہے۔ میری سفارش یہ ہے کہ آپ اس دعا کو زیادہ سے زیادہ پڑھئے۔ احباب بے شک پڑھتے ہیں لیکن اس دعا کو اور بھی پڑھئے۔ ہمیں بعض کام ضرور کرنا چاہئے، ہم توجہ نہیں دیتے، غفلت ہو جاتی ہے، تساہلی ہو جاتی ہے اور لوگوں کا خیال کرکے ہم ان کاموں کو ترک کر دیتے ہیں، اس کے بارے میں ہم سے باز پرس کی جائے گی۔

جن جگہوں پر تقوی واضح طور پر نظر آنا چاہئے وہ جگہیں یہ ہیں۔ ایک تو بیت المال کا خیال رکھنے کا مسئلہ ہے، ایک نفس کی سرکشی پر قابو رکھنے کا مسئلہ ہے، مال اندوزی، اخلاقی مشکلات، پر تعیش زندگی اور اشرافیہ کلچر کا رجحان، یہ ایسی چیزیں ہیں جن کے بارے میں ہم اسلامی جمہوریہ کے عہدیداران کو بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ وَ سَکَنتُم فی مَساکِنِ الَّذینَ ظَلَموِا (12)، اگر ہم بھی اسی عمارت میں جس میں وہ طاغوت (شاہ) حکومت کرتا تھا حکمرانی کریں اور اسی کے انداز میں کام کریں تو یہ درست نہیں ہے۔ ایسی صورت میں ہم میں اور اس میں کیا فرق رہ جائے گا۔ ہماری روش شیطان کے بندوں اور شیطان کے پیروکاروں سے مختلف ہونا چاہئے۔

اقتدار تک پہنچنے والوں کے دو طریقے اور دو راستے ہیں۔ جو لوگ بھی اقتدار حاصل کرتے ہیں ان سب میں یہ چیز ضرور ہوتی ہے۔ ایک طریقہ تو اہل دنیا کا ہے کہ اقتدار حاصل ہونے اور حکومت ملنے کے انتظار میں رہتے ہیں تاکہ اپنے ذاتی مفادات تک رسائی حاصل کریں۔ یعنی انسان محنت کرتا ہے کہ عہدہ صدارت مل جائے اس لئے کہ صدر مملکت بن جانے کے بعد ایسے حالات فراہم ہو جاتے ہیں جن میں اس کی زندگی بہتر ہو سکتی ہے۔ یعنی اس کے لئے اقتدار تک رسائی ذاتی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ ہے، مال و دولت اور دلی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ ہے۔ ایک روش یہ ہے اور اقتدار حاصل کرنے والوں میں اکثریت کی یہی روش رہی ہے، اس لئے کہ ان میں اکثریت دنیا پرستوں کی رہی ہے، وہ دنیا کی فکر میں تھے، ان کے لئے اقتدار بھی بس دنیاوی چیز ہے اور ان کی حکومت کا نتیجہ بھی اس دنیا کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے۔ یہ ایک طرز عمل اور روش ہے ان لوگوں کی جو اقتدار تک پہنچتے ہیں۔ ایک روش اور طرز عمل انبیا کا ہے۔ پیغمبر اکرم کے بارے میں منقول ہے: یَجلِسُ جَلسَةَ العَبِیدِ یَأکُلُ اَکلَ العَبِید (13) وہ غلاموں کی طرح زمین پر بیٹھتے تھے۔ یعنی اتنے عظیم مرتبے پر فائز ہونے کے باوجود کھانا تناول کرنے میں، دوستی کا برتاؤ کرنے میں اپنے لئے کسی طرح کا امتیاز پسند نہیں کرتے تھے۔ یا امیر المومنین فرماتے ہیں؛ اَلا و اِنَّ‌ اِمامَکُم قَدِ اکتَفىٰ مِن دُنیاهُ بِطِمرَیهِ وَ مِن طُعمِهِ بِقُرصَیه (14) یہ امیر المومنین کی زندگی ہے۔ ایک نمونہ یہ ہے۔ البتہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اور آپ پیغمبر یا امیر المومنین کی طرح عمل کریں۔ یہ تو ہمارے بس میں ہی نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت فرماتے ہیں؛ اَلا وَ اِنَّکُم لا تَقدِرونَ عَلىٰ ذٰلِک (15) تم اس طرح عمل نہیں کر سکتے۔ وَ لٰکِن اَعینونی بِوَرَعٍ وَ اجتِهاد (16) لیکن کوشش کرو، دنیا پرستوں کی روش نہ اپناؤ۔

بنابریں اسلامی جمہوری نظام میں جن لوگوں کے پاس کوئی عہدہ ہے ان کے لئے جن چیزوں پر حقیقت میں توجہ دینا بہت ضروری ہے اور جو تقوا کا لازمی تقاضا بھی ہے وہ یہ ہے کہ شان و شوکت اور نمائش کی طرف ہرگز مائل نہ ہوں۔ معمولی زندگی بسر کریں، اسراف وغیرہ ہرگز نہ ہو۔ تقوا کے موضوع پر بیان کرنے کے لئے بہت کچھ ہے،  تاہم ہمیں جو بنیادی باتیں عرض کرنی تھیں وہ یہی ہیں۔ البتہ سب سے زیادہ ان باتوں پر خود مجھے توجہ دینا چاہئے، مجھے ان باتوں پر عمل کرنے کی ضرورت آپ سے زیادہ ہے۔ ہمیں اپنا اصلی ہدف، اپنا اصلی راستہ اور اپنا سب سے بنیادی ذریعہ اور وسیلہ تقوا کو سمجھنا چاہئے، تقوا کی فکر میں رہنا چاہئے۔ بنیادی طور پر ہمیں یہی بات کہنا تھی۔

اب ملکی مسائل کے بارے میں چند باتیں۔ اقتصادی مسائل کے بارے میں کچھ اہم باتیں جن میں بعض کا میں ابھی تذکرہ کروں گا۔ یہ جو صدر محترم نے بیان کیا کہ انتظامی سرگرمیاں اور منصوبہ بندی میں مزید سنجیدگی پیدا ہو، تبدیلی آئے، یہ بالکل صحیح بات ہے۔ یہ ہونا چاہئے، یہ کام کریں! ان کاموں کو واقعی انجام دینا چاہئے۔ جیسا کہ بیان کیا گیا، واقعی جن شعبوں کا ذکر کیا گیا ان میں سنجیدہ طور پر عملی اقدامات کی کوشش کیجئے، راستہ کھلا ہوا ہے۔

آجکل ملک کی بنیادی اور فوری مشکل اقتصادی مشکل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا دباؤ عوام پر پڑ رہا ہے۔ اس کا دباؤ عوام کی معیشت پر، خاص طور پر کمزور طبقات پر پڑ رہا ہے، یہاں تک کہ مڈل کلاس بھی کسی حد تک دباؤ میں ہے لیکن زیادہ دباؤ کمزور طبقات پر پڑ رہا ہے، وہ سخت دباؤ میں ہیں۔ جب بھی ملکی معیشت مشکلات میں مبتلا ہو جاتی ہے تو معاشرے میں عوام اور کمزور لوگ بڑی سختی میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور دشمن کی حریصانہ آنکھیں چمکنے لگتی ہیں۔ اس صورت حال کی ایک خرابی یہی ہے کہ دشمن لالچ میں پڑ جاتا ہے، اس کے اندر امید جاگ جاتی ہے۔ ملک کا اعتبار بھی کم ہوتا ہے۔ یعنی واقعی اگر کسی ملک میں اقتصادی مشکلات ہیں، اگر اچھے اقتصادی پروگرام نہیں ہیں، اقتصادی پیشرفت نہیں ہے تو اس ملک کے اعتبار کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ اقتصادی مسائل پر پوری سنجیدگی سے توجہ دی جائے۔ میں یہ بھی عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ ملک میں حقیقی معنی میں کوئی لا ینحل مشکل نہیں ہے۔ یعنی واقعی کوئی راستہ مسدود نہیں ہے۔ بے شک مشکلات ہیں، رکاوٹیں ہیں لیکن راستے مسدود نہیں ہیں۔

ہمارے دشمنوں نے اور ان میں سر فہرست امریکہ نے اس امید میں کہ اس راستے سے اسلامی جمہوریہ پر ضرب لگا سکتے ہیں، پابندیوں کو سخت کر دیا۔ بقول خویش ایسی پابندیاں لگائیں جن کی ماضی میں مثال نہیں ہے۔ وہ صحیح کہہ رہے ہیں۔ انھوں نے اسلامی جمہوریہ پر جو پابندیاں عائد کی ہیں ان کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسلامی جمہوریہ سیسہ پلائی دیوار کی مانند ہے۔ بعض عالمی مبصرین یہ بات کہہ چکے ہیں کہ اگر یہ پابندیاں اور یہ دباؤ کسی اور ملک کے خلاف استعمال کیا گيا ہوتا تو اس پر بڑا گہرا اثر ڈالتا لیکن اسلامی جمہوریہ نے عوام پر تکیہ کرکے، توفیق  خداوندی سے، ملک کے گوشہ و کنار میں مصروف خدمت عہدیداران کی بلندی ہمتی کی وجہ سے خود کو کافی مستحکم بنا رکھا ہے، ورنہ یہ حقیقت ہے کہ دباؤ پڑ رہا ہے۔ وہ اپنا کام کر گزرے ہیں۔ دشمن نے اپنی پوری کوشش کر لی ہے، وہ اپنا کام کر گزرا ہے، اس نے اپنی خباثت اور بد طینتی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے، ان کا مقصد یہ ہے کہ عہدیداران کو جھک جانے پر مجبور کر دیں، ان کے اندازوں اور تخمینوں میں ایسی تبدیلی لائیں جو انھیں سر جھکا دینے پر مجبور کر دے۔ یعنی امریکہ کے سامنے سجدہ ریز ہو جائيں۔ دشمن کا مقصد یہ ہے کہ عوام کو اسلامی نظام کے مد مقابل کھڑا کر دیں۔ دشمن کا ہدف یہ ہے۔

یہ اندازے پوری طرح غلط ہیں۔ یعنی امریکہ کے اندازے پوری طرح غلط ہیں۔ گزشتہ برسوں کے دوران، ان چالیس برسوں میں بھی امریکی اسی طرح اندازے کی غلطی کرتے آئے ہیں، چنانچہ وہ کوئی نتیجہ حاصل نہیں کر سکے، انھیں نقصان اٹھانا پڑا وہ اسلامی جمہوریہ ایران پر وہ ضرب نہیں لگا سکے جیسی وہ چاہتے تھے۔ آج بھی یہی صورت حال ہے۔ اس دفعہ بھی شکست ہی ان کا مقدر بنے گی۔ اس میں تو کوئی شک ہے ہی نہیں۔ تاہم اسلامی جمہوریہ کے خلاف جو بغض و کینہ ان کے دلوں میں ہے، اس نے انھیں اندھا کر دیا ہے۔ یعنی ان کے تمام تخمینوں کو خراب کر دیا ہے، اب وہ صحیح اندازے نہیں لگا سکتے۔ ان کے اس بغض و کینے نے واقعی انھیں اندھا بنا دیا ہے۔ ورنہ خود امریکہ کے اندر بہت سے افراد ہیں جو ایران کے سلسلے میں، مسلمان تنظیموں کے سلسلے میں، مزاحمتی تنظیموں کے سلسلے میں اختیار کئے جانے اولے خبیثانہ اور وحشیانہ طرز عمل سے اتفاق نہیں رکھتے، لیکن ان کے اختیار میں کچھ نہیں ہے۔ ہم ان کے مقالے اور ان کے بیان پڑھتے ہیں، ان کے اقدامات کو دیکھتے ہیں اور ان کے بارے میں پڑھتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ وہ کیا کہتے ہیں۔ لیکن ان کی سمجھ میں نہیں آتا، امریکہ کے موجودہ حکمرانوں میں واقعی شعور نہیں ہے، وہ کچھ نہیں سمجھتے۔

میں یہیں یہ بھی عرض کر دوں کہ کسی کو بھی امریکہ کی ظاہری ہیبت سے ہراساں ہونے کی ضرورت نہیں ہے، کسی کو بھی۔ یعنی یہ واقعی بہت بڑی غلطی ہے۔ محسوس ہو رہا ہے کہ کچھ لوگ اس ظاہری ہیبت سے، رجز خوانی اور شور شرابے سے ہراساں ہو جاتے ہیں، وحشت زدہ ہو جاتے ہیں۔ اس ظاہری ہیبت سے ڈرنا غلط ہے۔ بڑی طاقتیں اسی طرح اپنا کام نکال لیتی ہیں۔ شور شرابا کرکے۔ حالانکہ وہ جتنا ہنگامہ کرتی ہیں ان کی توانائی اتنی نہیں ہے۔ بہت کمتر ہے۔ لیکن پھر بھی وہ دھونس جماتے رہتے ہیں، شور شرابا کرتے ہیں، دھمکیاں دیتے ہیں۔ کبھی کسی کو اور کبھی کسی اور کو ہراساں کرتے ہیں۔ کسی کو بھی ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ نہ تو ان سے ڈرنے کی ضرورت ہے اور نہ خلیج فارس کے 'قارونوں' سے، ان قارونوں سے جو ہمارے ارد گرد موجود ہیں۔ وہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ اب تک مختلف شعبوں میں انھوں نے ہمارے خلاف اربوں خرچ کئے اور کچھ ہاتھ نہ آیا۔ یعنی واقعی انھیں کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔ امریکہ 1979 میں جو ہمارے ملک میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کا سال ہے، آج کی نسبت کہیں زیادہ طاقتور تھا۔ جمی کارٹر جو اس وقت امریکہ کے صدر تھے، آج جو صاحب اقتدار میں ہیں (17) ان سے کہیں زیادہ سمجھدار تھے۔ ان کی طاقت بھی زیادہ تھی۔ موجودہ صدر کی تو طاقت بھی کافی کمتر ہے۔ مالیاتی توانائی بھی کمتر ہے، سیاسی طاقت بھی کمتر ہے۔ ایران میں ان کا ایک مہرہ بھی تھا جو تمام امور پر مسلط تھا۔ محمد رضا پہلوی ان کا مہرہ  تھا۔ انھیں کے لئے کام کرتا تھا۔ ان کا طرفدار تھا اور یہاں تمام امور مملکت اس کے ہاتھ میں تھے۔ یہ چیز بھی ان کے پاس تھی۔ لیکن پھر بھی ملت ایران نے خالی ہاتھ امریکہ کو شکست کا مزہ چکھایا۔ ممکن ہے کہ آپ کہیں کہ "وہ انقلاب تھا" تو آج بھی انقلاب ہے۔ آج بھی جوشیلے انقلابی نوجوانوں کی تعداد اس زمانے کے مقابلے میں جب اسلامی انقلاب فتح سے ہمکنار ہوا تھا کم نہیں ہے۔ بلکہ آج کے نوجوانوں کی انقلابی فکر کی گہرائی زیادہ ہے۔ یہ صورت حال ہے۔ اس کے نمونے آپ ملک میں پیش آنے والے گوناگوں واقعات میں دیکھ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر انقلاب کی سالگرہ کی تقاریب میں دیکھ سکتے ہیں۔ آج انقلابی تحریک، انقلابی جذبہ ضرورت کے وقت بخوبی نظر آتا ہے۔ بہرحال امریکہ کی ہیبت سے کسی کو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ امریکہ کا قضیہ میں اپنی گفتگو کے آخر میں اگر وقت بچا تو ان شاء اللہ چند جملوں میں بیان کروں گا۔

ملک کی معیشت کا مسئلہ آج ہمارا سب سے اہم مسئلہ ہے۔ اس پر ہمیں بھرپور توجہ دینا چاہئے۔ ہماری معیشت دنیا کی بڑی معیشتوں میں سے ایک ہے۔ ہماری معیشت کا انفراسٹرکچر بہت اچھا ہے۔ جیسا کہ ابھی بتایا گيا، امور کو اس طرح مینیج کیا جائے کہ موجودہ وسائل کا بنحو احسن استعمال ہو سکے۔ فراموش کر دی جانے والی صلاحیتوں کو اور ان توانائیوں کو جن سے غفلت برتی گئی ہے بروئے کار لائیں۔ ہماری معیشت میں چند دیرینہ بیماریاں ہیں۔ اگر ہم اس موقع پر ان بیماریوں کو حل کرنے میں کامیاب ہو گئے، اس موقع پر جب ہم تیل کے مسئلے کا سامنا کر رہے ہیں اور پابندیوں وغیرہ کی بات ہو رہی ہے تو میرے خیال میں ہماری معیشت بڑی تیز رفتاری سے آگے بڑھے گی۔

ایک مسئلہ تیل پر انحصار کا ہے۔ ہماری معیشت کی ایک بڑی خامی تیل پر اس کا انحصار ہے۔ ہم اس سیال کو زمین کے نیچے سے باہر نکالتے ہیں اور بغیر کسی ایڈڈ ویلیو کے اس نقدی کو، یہ تیل نقد پیسے کی مانند ہے، ہم دے دیتے ہیں اور ڈالر لے لیتے ہیں اور یہ پیسے معمول کے اخراجات اور ضروریات زندگی پر صرف کرتے ہیں۔ یہ غلط ہے۔ ہم نے یہ جو ترقیاتی فنڈ قائم کیا ہے۔ اس کا یہی مقصد تھا کہ بتدریج ہم خود کو تیل کے انحصار سے آزاد کر لیں۔ اس وقت پھر بڑا اچھا موقع آیا ہے۔ ہمارے اقتصادی عہدیداران کے دراز مدتی منصوبوں میں جو چیزیں ضرور مد نظر رکھی جانی چاہئیں ان میں سے ایک یہی ہے۔ ہمیں اس سمت میں آگے بڑھنا ہے کہ روز بروز تیل پر ہمارا انحصار کم ہوتا جائے۔

ایک اور مسئلہ اقتصادی امور میں حکومتی اداروں کی غیر ضروری مداخلت کا ہے۔ یہ بھی ہماری مشکلات میں سے ایک ہے۔ آرٹیکل 44 کی پالیسیاں بنیادی طور پر اسی لئے وضع کی گئی تھیں کہ یہ دروازہ بند کر دیا جائے۔ کچھ کام بھی ہوا لیکن اس میدان میں جتنا کام ہونا چاہئے وہ نہیں ہوا۔ حکومت کا رول نگرانی، نظارت اور رہنمائی کا ہونا چاہئے۔ اسے خود ان سرگرمیوں میں شامل نہیں ہونا چاہئے جہاں اس کی ضرورت نہیں ہے۔ بعض سرگرمیاں ایسی ہیں جن میں حکومت کی مداخلت ضروری ہے اور حکومت کے علاوہ کوئی اور وہ کام انجام نہیں دے سکتا تو وہ ایک الگ صورت حال ہے۔ لیکن بہت سے مواقع ہیں جہاں اس کی مداخلت کی ضرورت نہیں ہے۔ تو ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے۔

ایک اور مسئلہ تجارتی سرگرمیوں کی فضا اور ماحول کو خراب کرنے کا ہے۔ یہ پیچ و خم، یہ پیچیدگیاں اور حکومتی اداروں کی جانب سے یہ عجیب و غریب رکاوٹیں جو اس بات کا سبب بنتی ہیں کہ تجارتی فضا خراب ہو، یہ بھی ہماری مشکلات کا حصہ ہے۔ میں نے سنا ہے کہ دنیا کے بعض ممالک میں کوئی پروڈکشن یونٹ شروع کرنے کے لئے مثال کے طور پر آدھے دن کا وقت درکار ہوتا ہے۔ یہاں اس میں بہت مشکل پیش آتی ہے۔ یہ چیز حکومت کے ہاتھ میں ہے، پارلیمنٹ کے ہاتھ میں ہے اور عہدیداران کے ہاتھ میں ہے۔ کام اور تجارت کے لئے ماحول سازگار بنایا جائے۔ میں بعد میں کچھ باتیں پیداوار کے سلسلے میں بھی عرض کروں گا کہ یہ کتنی اہم چیز ہے۔

ایک اور اہم مسئلہ بجٹ کے ڈھانچے میں اصلاحات کا ہے جس کا ذکر بھی کیا گيا۔ میں بھی اس پر تاکید کرتا ہوں۔ طے یہ پایا اور فیصلہ یہ ہوا کہ رواں سال 98 (ہجری شمسی مطابق 2019-2020) کے شروعاتی چار مہینوں میں حکومت اور پارلیمنٹ باہمی تعاون سے بجٹ کے ڈھانچے کی مشکل کو حل کریں گی۔ دو مہینے گزر چکے ہیں اور دو مہینے سے زیادہ وقت نہیں بچا ہے۔ یہ ایک کلیدی اور بنیادی کام ہے جسے انجام دیا جانا ضروری ہے۔ بینکنگ سسٹم کی اصلاح کے سلسلے میں بھی بہت سی باتیں ہیں، تاہم ان باتوں کے لئے یہ نشست مناسب نہیں ہے۔ ہم نے متعلقہ عہدیداران سے بار بار اس سلسلے میں بات کی ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ موجودہ وقت میں ہم ڈھانچے کی اصلاح کا کام انجام دے سکتے ہیں۔ اس کے لئے کسی حد تک شجاعانہ انتظامی اقدامات کی ضرورت ہے، حکومتی عہدیداران اس مسئلے میں شجاعت کے ساتھ قدم رکھیں اور فریضے، قانون اور ملکی مصلحت کے علاوہ کسی بھی چیز کو مد نظر نہ رکھیں۔ میں نے یہاں نوٹ کرکے رکھا ہے؛ "شجاعانہ اور پرامید مینیجمنٹ، میدان میں جاکر مشکلات کی نگرانی، کیونکہ بہت سی مشکلات دفتر کے کمرے میں بیٹھ کر اور میز پر بیٹھ کر نہیں سمجھی جا سکتیں، انھیں سمجھنے کے لئے میدان میں جانا چاہئے، پلیٹ فارم پر جانا چاہئے تاکہ مشکلات کو باقاعدہ محسوس کیا جا سکے، دشمن کے مقابلے میں ہرگز دفاعی پوزیشن نہ لینا، ملکی معیشت کو اغیار کے فیصلوں کے آسرے پر نہ رکھنا۔" ایک بہت اہم مسئلہ یہی ہے۔ ہمیں اس آسرے میں نہیں رہنا چاہئے کہ امریکہ نے کچھ ملکوں کو جو چھوٹ دی ہے اس کی مدت میں توسیع کرے گا یا نہیں۔ یہ بالکل بے معنی ہے۔ ہماری ایک مشکل شروع سے ہی یہی تھی۔ ان چند برسوں کے دوران بار بار اس کا سامنا کرنا پڑا۔ خود ہم لوگ جو حکومتی عہدیداران ہیں، ہم نے بھی اپنی بہت سی سرگرمیوں کو اس بات پر ٹال دیا ہے کہ دیکھیں وہ فریق جو ہمارے اختیار میں نہیں ہے کیا فیصلہ کرتا ہے۔ ظاہر ہے جب ہم ایسا کریں گے تو کوئی تاجر، کوئی سرمایہ کار، کوئی انٹرپرینیور بھی اسی طرح عمل کرے گا۔ بہت سے اہم کام اور ترقیاتی اقدامات صرف اس لئے ادھورے رہ گئے کہ ہماری نگاہ دوسروں پر لگی رہی کہ وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ بالکل نہیں، ملکی معیشت کو دوسروں کے اقدامات سے مشروط نہیں کرنا چاہئے۔

ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ ہمیں عوامی صلاحیتوں کو واقعی متحرک کرنا چاہئے۔ یہ بات ہم بارہا عرض کر چکے ہیں اور ایک بار پھر اس کا اعادہ کرتے ہیں۔ یہ بات میں اس آشنائی اور شناخت کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں جو بحمد اللہ مجھے ان صلاحیتوں کے تعلق سے حاصل ہوئی ہے، میں جانتا ہوں کہ ہمارے یہاں عوام کے اندر بڑی وسیع صلاحیتیں موجود ہیں۔ بڑے اچھے نوجوان موجود ہیں، فاضل اور اعلی تعلیم یافتہ نوحوان، روزگار پیدا کرنے والے نوجوان، اچھی فکر اور اختراعی ذہن رکھنے والے نوجوان، مختلف شعبوں میں ہمیں ان پر اعتماد کرنا چاہئے۔ انھیں دعوت دینا چاہئے، مختلف کاموں کے لئے کسی جگہ پر جمع کرنا چاہئے۔ مثال کے طور پر حکومت کسی خاص اقتصادی مسئلے پر جیسے ملکی کرنسی کی قدر کے موضوع پر توجہ مرکوز کرے اور ان نوجوانوں کو یہ مشن سونپے کہ وہ بیھ ر غور کریں، سوچیں، محنت کریں، کام کریں اور راہ حل پیش کریں، اقدام کریں، یہ ساری صلاحیتیں ہیں۔ اللہ پر توکل، یہ سارے کام آپ اللہ پر توکل کرتے ہوئے انجام دیجئے تو میرے خیال میں یہ کام ضرور انجام پا جائے گا۔

ایک اور چیز جو بہت ضروری ہے، یہ ہے کہ حکومت معیشت کے مختلف شعبوں میں کام کرنے والے تخریبی عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرے اور اس کارروائی میں سب حکومت کی پشت پناہی کریں۔ آج اسمگلنگ کا مسئلہ ہے، ذخیرہ اندوزی کا مسئلہ ہے، بڑی مضر دلالی کا مسئلہ ہے۔ گندم، گوشت اور عوام کے استعمال کی دیگر چیزوں کی خائنانہ انداز میں خریداری کی خبریں مل رہی ہیں اور عہدیداران کو اس سے آگاہ کیا گیا۔ یہ خیانت ہے، ان کے خلاف کارروائی ہونا چاہئے۔ کسی سامان کو امپورٹ کیا ہے اور گودام میں روک کر رکھا ہے۔ یہ ذخیرہ اندوزی ہے۔ اس کے خلاف کارروائی ہونا چاہئے۔ بے شک یہ تو ہے کہ جب آپ کارروائی کریں گے تو ایک شور مچے گا، کچھ لوگ ہنگامہ کریں گے، شور مچائیں گے۔ سب لوگ حکومت کی پشت پناہی کریں، اس کی مدد کریں تاکہ حکومتی تعزیرات حقیقی معنی میں کام کر سکیں۔

میں نے چند بنیادی اقدامات یہاں نوٹ کر رکھے ہیں جن پر توجہ دینا چاہئے۔ تمام عہدیداران بحمد اللہ یہاں تشریف فرما ہیں۔ پارلیمنٹ کے ارکان بھی ہیں اور حکومت کے اعلی عہدیداران بھی ہیں، عدلیہ کے عہدیدران بھی تشریف رکھتے ہیں۔ یہ اقدامات آپ سے مربوط ہیں۔ چند بنیادی کام ہیں۔ اگر ان کو ایک عام فکر کے طور پر پذیرائی مل جائے تو پھر ہم ایک دوسرے کی مدد کر سکتے ہیں، ایک دوسرے کا ہاتھ بٹا سکتے ہیں۔

ایک بنیادی کام ہے پیداوار کے راستے کی رکاوٹوں کا ازالہ۔ یہ جو ہم نے اس سال کے لئے نعرہ منتخب کیا ہے 'پیداوار کا فروغ' (18) یہ ہماری بہت سی اقتصادی مشکلات کا حل ہے۔ پیداوار کی یہ خصوصیت ہوتی ہے۔ اگر واقعی ہم پیداوار کو فروغ دینے میں کامیاب ہو جائیں۔ اگر ہم پیداوار کے راستے کی رکاوٹیں جو کافی زیادہ ہیں، دور کرنے میں کامیاب ہو جائیں، یہ کام جہادی عزم کے ذریعے ہی ممکن ہے، نوجوان ماہر افرادی قوت کی مدد سے ممکن ہے، تو روزگار سمیت اقتصادی شعبے کی گوناگوں مشکلات حل ہو جائیں گی، افراط زر کا مسئلہ حل ہو جائے گا، رفاہ عامہ کی مشکل حل ہو جائے گی، عوام الناس کی آمدنی کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ برآمدات کو بھی فروغ ملے گا۔ پیداوار کا مسئلہ ہمارے موجودہ اقتصادی مسائل کی بنیادی وجہ ہے۔ میری نظر میں اس مشکل کو اس طرح حل کیا جا سکتا ہے۔ ہم نے جہاں بھی اپنے نوجوانوں پر تکیہ کیا ہے، اعتماد کیا ہے، انھیں ضروری وسائل فراہم کئے ہیں، بس ضرورت کے مطابق وسائل مہیا کرا دئے ہیں، عام طور پر نوجوان ایسے ہی ہوتے ہیں کہ بہت محدود وسائل کے ساتھ کام کرتے ہیں، تو وہاں ہمیں پیش رفت حاصل ہوئی ہے۔ اس کے نمونے گزشتہ چند سال کے دوران آپ  نے ملاحظہ فرمائے ہیں۔ ایک نمونہ دفاعی وسائل اور ساز و سامان کی پیداوار ہے۔ یہ دفاعی وسائل تیار کرنے کا موضوع جس پر دشمن کو بہت اعتراض ہے، بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ باریکی سے اپنے ٹارگٹ کو تباہ کرنے والے یہ میزائل، خواہ وہ بیلسٹک میزائل ہوں یا کروز میزائل ہیں، جو مثال کے طور پر ڈیڑھ ہزار یا تین ہزار کلومیٹر کی دوری تک مار کرتے ہیں اور محض پانچ یا چھے میٹر کے اختلاف سے اپنے معینہ ٹارگٹ کو تباہ کرتے ہیں، یہ بہت بڑ کارنامہ ہے۔ یہ جو آپ دیکھتے ہیں کہ اس پر اتنا ہنگامہ مچا رہے ہیں، میزائل وغیرہ کے مسئلے پر جو اتنا شور مچاتے ہیں تو اس کی وجہ یہی پیش رفت ہے۔ یہ کارنامہ کس نے کیا؟ انھیں نوجوانوں نے کیا۔ مومن اور جوش و جذبے سے سرشار نوجوانوں نے کیا، وہ کام کرتے ہیں اور کبھی تھکتے نہیں۔

یا جس زمانے میں ہمیں تہران میں اور دوسری جگہوں پر موجود مشینوں کے لئے جو دوائیں بناتی ہیں اور میڈیکل اہداف کے لئے استعمال ہوتی ہیں، بیس فیصدی کے گریڈ کے افزودہ یورینیم کی ضرورت تھی۔ اس سے پہلے ہم بیس فیصدی کے گریڈ کا افزودہ یورینیم دیگر ممالک سے امپورٹ کرتے تھے۔ ہم نے اس کی کچھ مقدار کئی سال قبل امپورٹ کی تھی اور اب وہ ذخیرہ ختم ہونے کے قریب تھا۔ اگر ختم ہو جاتا تو یہ نیوکلیئر میڈیسن جو نیوکلیئر ریڈیئیشن کے ذریعے تیار کی جاتی ہیں اور بہت سے مقاصد کے لئے استعمال ہوتی ہیں، ان سب کا پروڈکشن بند ہو جاتا۔ عہدیداران کو اس صورت حال سے آگاہ کیا گیا۔ انھوں نے محنت شروع کی، کوشش کی۔ فریق مقابل نے پہلے ہم سے کہا کہ ہم فروخت کریں گے۔ لیکن پھر شرطیں لگانا شروع کر دیا۔ کبھی کوئی شرط رکھی تو کبھی کوئی اور شرط رکھی۔ ہم نے محسوس کیا کہ مشکلات پیدا ہو رہی ہیں اور فریق مقابل ہمیں یہ چیز دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔ ہم نے اپنے ملک کے عہدیداران سے بات کی کہ اس پر کام کریں، محنت کریں۔ کسی کو یقین نہیں ہو رہا تھا۔ مگر انھوں نے محنت شروع کر دی اور اتنا عظیم کارنامہ، اتنا عظیم کام انجام دیا! یعنی یورینیم کو بیس فیصدی کے گریڈ تک افزودہ کر دیا۔ میں نے اسی وقت غالبا اسی اجلاس میں کہا تھا کہ یورینیم افزودگی کے پورے عمل کا یہ حصہ، یعنی بیس فیصدی کے گریڈ تک افزودہ کرنے والا حصہ ہی سب سے زیادہ مشکل ہے۔ اس کے بعد کے جو مزید اور اونچے گریڈ کی افزودگی ہے وہ اتنی مشکل نہیں ہے۔ اس سے کافی آسان ہے۔ اس مشکل حصے کو، اس دشوار کام کو انجام دینے میں وہ کامیاب ہوئے۔ کس نے یہ کام کیا؟ ہمارے نوجوانوں نے۔ تو یہ لوگ ہماری صنعتوں کی مشکل کو کیوں نہیں حل کر سکتے؟ بعض تجارتی اور صنعتی کاموں کی سائيکل کے بعض ادھورے مراحل کو کیوں پورا نہیں کر سکتے؟ بالکل کر سکتے ہیں۔ ان پر اعتماد کرنا چاہئے۔ یہ ایک بنیادی کام ہے۔

پیداوار کے فروغ کے مسئلے پر بہت سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ عہدیداران کو چاہئے کہ کارخانوں اور ورکشاپ  کے بند ہو جانے اور ٹھپ پڑ جانے کے مسئلے کو بہت زیادہ حساسیت کے ساتھ دیکھیں۔ اس پر بہت توجہ دیں۔ بعض اوقات ایسی خبریں ملتی ہیں جو بڑی تلخ ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر سننے میں آتا ہے کہ فلاں کارخانہ جو مشہور ہے اور اچھی پیداوار کر رہا ہے یکبارگی کسی خاص مشکل کی وجہ سے بند ہو جاتا ہے۔ البتہ میں نے اسے بعد میں بیان کرنے کے لئے نوٹ کیا تھا لیکن اسی وقت ذکر آ گیا ہے تو عرض کرتا چلوں۔ واقعی وزارت صنعت کے عہدیداران اس پر توجہ دیں اور دیکھیں کہ کمی کہاں پر ہے؟ کیا ضروری مشینوں یا پرزوں کی کمی ہے، یا خام مال اور ضروری مواد کی کمی ہے؟ ایک فہرست تیار کریں اور اعلان کر دیں، ملک کے گوناگوں عہدیداران سے مدد لیں۔ اس وقت جب اشیاء کو امپورٹ کرنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں تو ان میں بہت سا خام مال ملک کے اندر ہی تیار کیا جا سکتا ہے۔ کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کا ایٹمی شعبے یا اس طرح کے کسی اور حساس شعبے سے کوئی تعلق بھی نہیں ہے، لیکن بد طینتی اور خباثت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے امپورٹ پر روک لگا دی ہے اور اسے نہیں آنے دے رہے ہیں۔ تو کوئی بات نہیں، اسے ملک کے اندر ہی تیار کیا جائے۔ ہمارے نوجوان تیار ہیں۔ ان کے اندر اختراعی صلاحیت ہے۔ ان کی خدمات لیجئے۔ ایک دائمی نمائش لگائی جائے۔ وہاں ضرورتوں اور احتیاجات کے بارے میں بتایا جائے اور اسی کے مطابق پیداوار کا کام ہو۔ یہ بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔

اقتصادی شعبے میں ایک اور بنیادی ہدف ہے خود انحصاری۔ انقلاب کے اوائل سے اب تک خود انحصاری کا مسئلہ زیر بحث رہا۔ اوائل انقلاب میں ہی فوج کے گوناگوں شعبوں میں، دفاعی شعبوں میں خود انحصاری کا جہاد شروع ہو گیا تھا۔ بعد میں جب پاسداران انقلاب فورس میدان میں آ گئی تو اس نے اس سلسلے میں مختلف اہم کام انجام دئے۔ تعمیراتی جہاد میں ہمارے نوجوان انھیں کاموں میں مصروف رہے۔ ملک کے اند خود انحصاری کے لئے حالات واقعی سازگار تھے۔

پیداوار کے مسئلے میں زراعتی شعبے کے عہدیداران سے یہ تقاضا کیا گيا کہ آپ گندم کی پیداوار میں ملک کو خود کفیل بنائیں۔ سب نے ہمت دکھائی اور الحمد للہ ملک خود کفیل بن گيا۔ حالیہ ایک دو سال میں بھی اور اس اسے پہلے بھی ایک دو سال ایسا ہوا کہ گندم کی پیداوار میں خود انحصاری رہی۔ ہر شعبے میں خود انحصاری تک پہنچا جا سکتا ہے۔ کام کیا جا سکتا ہے۔ محنت کی جا سکتی ہے۔ غذائی اشیاء میں بنیادی طور پر یہی چیزیں ہیں: گندم، جو، روغنی اجناس اور مویشی پالنا۔ ان چیزوں میں خود انحصاری تک پہنچنا ہے۔

بد قسمتی سے ایک جدید فکر، ایک نیا نظریہ ایک زمانے میں ہمارے منصوبہ ساز اور فیصلے کرنے والے اداروں میں پیدا ہوا جس نے ہمیں خود انحصاری سے دور کر دیا، وہ اقتصادی اعتبار سے منفعت بخش ہونے کا نظریہ تھا۔ کہا گيا کہ گندم کی  پیداوار اور گندم کے شعبے میں خود انحصاری اقتصادی اعتبار سے منفعت بخش نہیں ہے۔ اقتصادی اعتبار سے منفعت بخش یہ ہوگا کہ گندم کو امپورٹ کیا جائے۔ جی ہاں، معلوم ہے، ممکن ہے کہ کسی وقت اس کی پیداوار اقتصادی اعتبار سے منفعت بخش نہ ہو لیکن جب آپ کو برآمد کئے جانے والے گندم کا راستہ روک لیں گے، درآمدات پر پابندی لگا دیں گے، آپ کو گندم فروخت کرنے سے انکار کر دیں گے تو اس وقت آپ کیا کریں گے؟ دنیا کی کون سی سمجھدار حکومت یہ کام کرتی ہے؟ کہا گیا کہ جائیے زعفران کی کھیتی کیجئے اور گندم باہر سے امپورٹ کر لیجئے اس لئے کہ ‌زعفران دنیا میں مہنگا بکتا ہے تو اقتصادی اعتبار سے اس کی کھیتی بہتر ہے۔

تیل کے سلسلے میں بھی یہی چیز ہے۔ ابھی صدر مملکت نے ذکر کیا کہ بندر عباس میں ستارہ خلیج فارس کے نام سے جو گیس کنڈنسیٹ ریفائنری شروع ہوئی ہے یہ بھی خود کفالت کی ایک مثال ہے۔ آج ہم فضول خرچی کے ساتھ جو پیٹرول استعمال کر رہے ہیں وہ اسی سسٹم سے اور اسی ریفائنری سے ہمیں مل رہا ہے۔ اس وقت ملک میں پیٹرول کے استعمال میں اسراف ہو رہا ہے۔ یہی یومیہ دس کروڑ لیٹر، نو کروڑ لیٹر، کبھی کچھ کم اور کبھی زیادہ، یہ اسراف ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ اس کا تقریبا ایک تہائی پیٹرول اسی ریفائنری سے آتا ہے۔ اس ریفائنری کی تعمیر 1386 (ہجری شمسی مطابق 2007) میں شروع ہوئی تھی۔ کچھ عرصہ کام رکا رہا، بعد میں سپاہ کی محنت و بلند ہمتی کے نتیجے میں بحمد اللہ اس نے کام شروع کر دیا اور آج یہ موجود ہے۔ خود انحصاری اسی کو کہتے ہیں۔ اسے بہت اہمیت دینا چاہئے۔ تمام میدانوں میں ہمیں خود انحصاری کے بارے میں سوچنا چاہئے۔ ملک کی طاقت خود انحصاری میں ہے۔ ملک کی قوت اور ملک کا وقار خود انحصاری میں ہے۔ ہمیں اپنی ضرورت کے لازمی وسائل خود مہیا کرنا چاہئے۔

ایک تیسرا مسئلہ جو کلیدی مسائل میں ہے تجارت کے ماحول اور تجارت کے لئے سہولیات کی فراہمی کا ہے جس کا ہم نے پہلے ذکر کیا۔ یعنی واقعی الگ الگ اداروں میں موجود گوناگوں اور متضاد ضوابط مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ ہم نے حکومتی عہدیداران کے ساتھ دو تین اجلاسوں میں یہ بات کہی، ان سے مطالبہ کیا، لیکن ضروری مقدار میں کام نہیں ہوا۔ میری گزارش ہے کہ اس مسئلے پر بہت سنجیدگی سے کام کیجئے۔ ایسے حالات پیدا کیجئے کہ پیداوار کو فروغ ملے۔ آج سب کو معلوم ہے کہ ملک کے اندر لیکویڈٹی بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔ یہ نقدی مصیبت بن سکتی ہے، افراط زر کی شرح میں اضافے کا سبب بن سکتی ہے۔ جس سمت بھی اس کا رخ ہوگا وہاں تباہ کن سیلاب جیسے حالات پیدا کر دے گی۔ اسی نقدی کو اگر پیداوار کی جانب موڑا جائے تو یہ کسی جھیل کی مانند یا کسی بڑے حوض کی مانند اللہ کی رحمت بن سکتی ہے۔ اس سمت میں کیوں نہیں جاتی؟ اس کی ایک وجہ یہی ہے کہ سرمایہ کار کو مشکلات پیش آتی ہیں۔ اسے کوئی پروڈکشن شروع کرنے میں اپنا فائدہ نظر نہیں آتا۔ میں نے اس سال کے آغاز میں عید نوروز کے دن کی اپنی تقریر میں (19) کہا تھا کہ کچھ لوگ تھے جو پیداوار کے شعبے کی مشکلات صرف رضائے پروردگار کی خاطر برداشت کرتے تھے۔ خود میں نے بھی ایک شخص کو دیکھا جو یہ کہتے تھے کہ میں اپنا سرمایہ بینک میں رکھ کر اس سے ملنے والے انٹریسٹ کو استعمال کر سکتا ہوں۔ طویل المیعاد ڈیپازٹ میں کافی فائدہ ہے اور کسی طرح کا کوئی اندیشہ بھی نہیں ہے۔ لیکن میں چاہتا ہوں کہ خوشنودی پروردگار کی خاطر پروڈکشن کے شعبے میں مصروف رہوں۔ اس لئے کہ ملک کو اس کی ضرورت ہے۔ ایسے افراد کم ہیں، ہمیں اس طرح کے حالات بنانا چاہئے کہ ان افراد کی تعداد بڑھے۔ پروڈکشن کے راستے کی رکاوٹیں ہمیں دور کرنا چاہئے۔

ملکی معیشت کے میدان میں ایک اہم مسئلہ زراعت کے شعبے کو ترجیح دینے کا ہے۔ زراعت کا شعبہ اہم ہے اس اعتبار سے بھی کہ عوام الناس کی خوراک اور غذائی اشیاء اسی شعبے سے فراہم ہوتی ہیں جو اولیں ترجیح بھی ہے اور اس اعتبار سے بھی کہ آج سب سے زیادہ روزگار کے مواقع زراعتی شعبے میں ہیں۔ مجھے جو رپورٹ ملی ہے اس کے مطابق تقریبا تیس فیصدی روزگار زراعت کے شعبے میں ہے۔ اب اگر زراعت کے شعبے پر توجہ دی جائے۔ گاوؤں کے مسائل، گاوؤں کی مشکلات کا ازالہ، متعلقہ صنعتوں اور کارخانوں کو دیہی علاقوں میں لے جانا، ان علاقوں کے لوگوں کو اپنی مصنوعات فروخت کرنے میں پیش آنے والی مشکلات کا ازالہ اگر آپ کر دیں تو میرے خیال میں معیشت کی پیشرفت میں اس سے بڑی مدد ملے گی۔ اس سے زراعتی شعبے کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ بعض اوقات پیداواری یونٹوں کے بند ہونے کی خبریں ملتی ہیں، کسی بھی یونٹ کے بارے میں ملنے والی یہ خبر بہت تلخ ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں بڑے اہم کام انجام دئے جانے ہیں جو میں نے نوٹ کر لئے ہیں، انھیں بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے، یعنی ہمارے پاس وقت کم ہے۔

صنعتوں اور معدنیات کے شعبے میں جیسا کہ میں نے عرض کیا، بعض اوقات صنعتی کاموں کے لئے کسی پرزے، کچھ خاص مواد، خام مال وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے جسے بیرون ملک سے امپورٹ کرنا ہوتا ہے۔ بینکوں کے ذریعے ٹرانزیکشن نہیں ہو پاتا، مشکلات ہیں، یہ کام نہیں ہو پاتا۔ ہمیں ہمت سے کام لینا چاہئے اور اسے ملک کے اندر ہی پیدا کرنا چاہئے۔ یعنی اقتصادی مسائل کے میدان میں جن کاموں کا انجام دیا جانا بہت ضروری ہے اور جو وزارت صنعت کی ذمہ داری ہے یہ ہے کہ ایسے اقدامات انجام دئے جائیں کہ ہماری صنعتیں اور ہمارا معدنیاتی شعبہ پرسکون انداز میں اپنا کام کر سکے۔ آج بحمد اللہ ہمارے یہاں بہت سی تحقیقاتی ٹیمیں ہیں۔ اس وقت ملک میں شاید ہزاروں تحقیقاتی ٹیمیں ہیں۔ یونیورسٹیوں کے اندر بھی ہیں اور یونیورسٹیوں کے باہر بھی ہیں۔ ان میں اکثریت نوجوانوں کی ہے۔ ان میں بعض سے میرا رابطہ بھی ہے۔ وہ آتے ہیں، بیٹھتے ہیں۔ ہم ان سے سوالات کرتے ہیں۔ یہ سب بڑے جوش و جذبے والے ہیں، بڑی اچھی فکر کے حامل ہیں۔ وہ ایسی چیزوں کے بارے میں بات کرتے ہیں کہ مجھ جیسا شخص جسے حکومت کے مسائل و مشکلات کا علم ہے یہ محسوس کرتا ہے کہ جس چیز کے بارے میں یہ نوجوان کہہ رہا ہے: "میں اسے تیار کر سکتا ہوں" وہ وہی چیز ہے جس کی حکومتی اداروں کو ضرورت ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوا کہ ہم نے ان دونوں کی ملاقات بھی کروا دی۔ ہمارے دفتر نے یہ ذمہ داری سنبھالی۔ ہم نے کہا کہ اقدام کیجئے۔ اس تحقیقاتی ٹیم کا رابطہ وزارت سے کروا دیا اور کام شروع ہو گیا۔ اس پہلو سے دیکھا جائے تو ہمارے پاس آج ایک عظیم ثروت موجود ہے، بے مثال سرمایہ موجود ہے۔ ماہر اور جوش و جذبے سے سرشار افرادی قوت کا سرمایہ۔ نوجوان میں جوش و جذبہ ہوتا ہے، تھکن کا احساس نہیں ہوتا، ہمت و حوصلہ ہوتا ہے، اختراعی صلاحیتیں ہوتی ہیں۔ جن لوگوں سے یہ حقیر آشنا ہے، جنھیں پہچانتا ہے اور جن کے بارے میں اطلاعات رکھتا ہے ان میں اکثریت دیندار، انقلابی، ہمدرد اور جوش و جذبے سے بھرے ہوئے نوجوانوں کی اکثریت ہے۔ اداروں کو چاہئے کی ان کی خدمات حاصل کریں۔ وزارت صنعت کو چاہئے کہ ایک واضح پروگرام تیار کریں۔ صنعتوں کی گم شدہ کڑیوں کی نشاندہی کر لیں اور اعلان کر دیں، ان سے مطالبہ کریں، انھیں وسائل فراہم کریں۔ اس طرح بہت کم پیسے میں کام شروع ہو جائے گا۔

اس وقت جو اہم کام ہیں ان میں ایک سیلاب سے ہونے والے نقصانات کی بھرپائی ہے۔ سیلاب سے لوگوں کی زندگی کے وسائل کو بڑا نقصان پہنچا ہے۔ ہمارے کارخانوں کو دوبارہ شروع کرنا ضروری ہے۔ ایک ضروری کام یہ بھی ہے کہ ہم سیلاب زدہ علاقوں کے لئے جو رقم مختص کر رہے ہیں اسے اس طرح تقسیم کیا جائے، اس کی اس طرح منصوبہ بندی کی جائے، اسے اس سمت میں لے جایا جائے کہ ملک کے کارخانوں کا کام تیز ہو۔ یہ ہے پروڈکشن۔ دوبارہ بے تحاشا امپورٹ کا رخ ہمیں نہیں کرنا چاہئے۔ مثال کے طور پر سیلاب زدہ علاقوں میں ہم کوئی خاص چیز تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ وہ چیز ملک میں کم ہے یا سرے سے ہے ہی نہیں تو ہم اسے امپورٹ کرنا شروع کر دیں! بالکل نہیں، ہمیں پروڈکشن کی جانب بڑھنا چاہئے، ملک کے اندر اس کا پروڈکشن کرنے والی افرادی قوت تلاش کرنا چاہئے۔ امداد اور سہولیات کو اس انداز سے مہیا کرایا جائے۔ ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے۔

ایک اور اہم مسئلہ رہائشی مکانات کا ہے۔ ملک کے اندر رہائشی مکانات کا شعبہ بھی روزگار کے مواقع پیدا کرنے والا شعبہ ہے۔ ان چند برسوں میں ایک غفلت یہ ہوئی کہ اس شعبے پر توجہ نہیں دی گئی۔ خود عمارتوں کی تعمیر بہت سی صنعتوں کو متحرک کر دیتی ہے۔ عمارتوں کی تعمیرات میں بہت سی صنعتوں کو استعمال میں لایا جاتا ہے۔ یعنی اس سے کام اور پروڈکشن کی ڈیمانڈ بڑھتی ہے اور یہ پروڈکشن کے شعبے کو حرکت میں لاتا ہے۔ اس وقت ہمیں سیلاب زدہ علاقوں میں رہائشی مکانات کی ضرورت ہے۔ کچھ مکانات کی مرمت کی جانی ہے اور کچھ مکانات تعمیر کئے جانے ہیں۔ یہ ایک اچھا موقع ہے۔ اسے استعمال کرنا چاہئے۔ ان میدانوں میں جو ادارے حکومت کی مدد کر سکتے ہیں اور جن کی تعداد کم بھی نہیں ہے، وہ نجی سیکٹر کے ادارے ہیں۔ جن نوجوان ٹیموں کا میں نے ذکر کیا آپ انھیں دعوت دے سکتے ہیں۔ ان سے کہئے کہ آکر مدد کریں۔ اس طرح ملک میں روزگار کے مواقع پیدا ہونے کا ایک عظیم سلسلہ شروع ہو جائے گا۔

آپ توجہ فرمائیے کہ دشمن کے مقابلے میں اسلامی جمہوریہ اور اسلامی انقلاب کا نعرہ ہے مزاحمت۔ دشمن جارحیت کرنا چاہتا ہے، چڑھائی کرنا چاہتا ہے تو اس دشمنی سے نمٹنے کے دو طریقے ہو سکتے ہیں۔ ایک راستہ یہ ہے کہ آپ پسپائی اختیار کر لیجئے۔ لیکن جب تک آپ پسپا ہوتے رہیں گے وہ آگے بڑھتا چلا آئے گا۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ اپنی جگہ پر ڈٹ جائیے اور استقامت کا مظاہرہ کیجئے۔ اسلامی جمہوریہ کے اندر ہمارا جو تجربہ ہے، اب میں یہاں تاریح اور صدر اسلام وغیرہ جیسے ادوار کے تجربات کا ذکر نہیں کرنا چاہتا، وہ ثابت کرتا ہے کہ دشمن کے مقابلے میں ڈٹ جانا بہت کارگر ہوتا ہے۔ ہم نے جہاں بھی استقامت کا مظاہرہ کیا ہے ہمیں نتیجہ ملا ہے۔ مقدس دفاع میں، گوناگوں شعبوں میں، ان اشتعال انگیزیوں میں جو دشمن سیکورٹی کے شعبے میں ہمارے خلاف کرتا تھا، اقتصادی مسائل میں۔ ایک زمانے میں تیل سے حاصل ہونے والی ہماری سالانہ آمدنی، تقریبا چھے ارب (ڈالر) تھی اور اس وقت آمدنی کا واحد ذریعہ تیل ہی تھا۔ کیا اس سے زیادہ سخت حالات ہو سکتے ہیں؟ البتہ اس وقت ملک کی آبادی آج کی نسبت کافی کم تھی لیکن پھر بھی پورے ملک کے لئے پانچ ارب اور چھے ارب کی آمدنی تو کچھ بھی نہیں ہے۔ لیکن ہم پھر ڈٹے رہے، ہم نے استقامت کا مظاہرہ کیا، عوام نے مزاحمت کی۔ بہت زیادہ دشوار بھی نہیں تھا۔ استقامت اتنی زیادہ دشوار بھی نہیں تھی۔ مزاحمت!

عسکری میدان میں مزاحمت ایک الگ چیز ہے اور اقتصادی میدان کی مزاحمت مختلف ہوتی ہے۔ اقتصادی میدان میں استقامت کا مطلب یہی ہے جو ہم نے عرض کیا۔ یعنی معیشت کی داخلی عمارت کو مستحکم کرنا، بنیادوں کو مضبوط بنانا، مسائل کا پوری سنجیدگی کے ساتھ سامنا کرنا، مسائل کے تصفئے تک ان پر نظر رکھنا۔ ہماری ایک مشکل یہی ہے کہ آخر تک نظر نہیں رکھتے، بیچ میں ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ کسی کام کی شروعات تو ہم بہت اچھی کرتے ہیں اور کسی حد تک آگے بھی بڑھتے ہیں لیکن پھر رفتہ رفتہ اسے ترک کر دیتے ہیں۔ تندہی کے ساتھ لگے رہنا چاہئے۔ یہ تمام باتیں جو بیان کی گئیں یہ مزاحمت کے مصادیق ہیں۔

اپنے امور کی اصلاح کے لئے ہمیں بیرون ملک سے آس نہیں لگانی چاہئے۔ دوسرے لوگ ہماری کوئی مدد نہیں کریں گے بلکہ ضرب لگائیں گے۔ بیرون ملک ہم پر وار کریں گے۔ یورپ کو آپ دیکھ رہے ہیں؟ یہ یورپی ممالک تو امریکہ سے الگ تھے۔ ان سے تو ہمارا کوئی تنازعہ نہیں تھا۔ ان سے تو ہمارا کوئی اختلاف نہیں تھا۔ ان میں بعض سے ہمارے اچھے دوستانہ روابط بھی تھے۔ مگر آپ دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح پیش آ رہے ہیں۔ اسی ایٹمی معاہدے اور اس کے تحت اپنی ذمہ داریوں پر عمل کرنے کے سلسلے میں۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ بار بار کہتے ہیں کہ  "ہم ایٹمی معاہدے کے پابند ہیں"۔ آخر جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے ایٹمی معاہدے کے پابند رہنے کا کیا مطلب ہے؟ کوئی ان سے سوال کرے کہ آپ اس کے پابند ہیں تو کیا عمل انجام دے رہے ہیں؟ ایٹمی معاہدے کے سلسلے میں آپ کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ آپ نے کس ذمہ داری پر عمل کیا ہے؟ بس یوں ہی کہے جا رہے ہیں کہ ہم پابند ہیں۔ اس کا کیا مطلب ہوا کہ آپ پابند ہیں؟! تو یہ صورت حال ہے۔ تو بیرون ملک کہیں سے آس نہیں لگانا چاہئے۔ امور کی اصلاح کے لئے داخلی توانائیوں کا جائزہ لینا چاہئے۔ اصلی توانائی یہاں ہے۔

افرادی قوت بھی بحمد اللہ یہاں کم نہیں کافی زیادہ ہے۔ ملک کافی بڑا ہے، آبادی اچھی خاصی ہے۔ نوجوان ورک فورس اور فعال افرادی قوت زیادہ ہے۔ ان اقتصادی مسائل میں عوام کو بھی اپنی ذمہ داری پوری کرنا چاہئے۔ یعنی ہمارا خطاب صرف حکومت سے نہیں ہے، صرف عہدیداروں سے نہیں ہے بلکہ بنیادی طور پر اس کا تعلق عوام الناس سے ہے۔ عوام کو چاہئے کہ مدد کریں، حکومت کی مدد کریں۔ اسی پیداوار کے مسئلے میں جس کا ذکر ہوا عوام واقعی سرمایہ کاری کر سکتے ہیں، مدد کر سکتے ہیں۔ عوام داخلی مصنوعات کو خرید سکتے ہیں۔ ہم نے گزشتہ سال (سنہ 1397 ہجری شمسی مطابق 2018-2019) کا نعرہ ملک کے اندر تیار ہونے والی مصنوعات کو قرار دیا تھا۔ بہت لوگوں نے اس پر عمل کیا۔ بڑا اچھا کام ہوا۔ لیکن یہ کام رکنا نہیں چاہئے۔ اس میں روز بروز وسعت آنا چاہئے۔ یعنی واقعی داخلی سامان اور داخلی مصنوعات کو ہر ایرانی کی نظر میں، غیر ملکی امپورٹڈ اشیاء پر ترجیح ملنا چاہئے۔ اگر ملک کے اقتصادی حالات کو سدھارنا چاہتے ہیں تو اس کا ایک راستہ یہی ہے۔

ایک اور اہم کام ہے اشیا کی خریداری میں زیادہ روی سے پرہیز۔ کبھی دیکھنے میں آتا ہے کہ محض افواہ کی بنیاد پر، مثال کے طور پر سوشل میڈیا میں کہیں کسی شخص نے، کسی جھوٹے انسان نے آکر کسی چیز کے بارے میں کہہ دیا کہ فلاں چیز ممکن ہے کہ مہنگی ہو جائے لوگ اس کی خریداری کے لئے ٹوٹ پڑتے ہیں۔ اس کی کیا ضرورت ہے؟ خریداری میں زیادہ روی نہیں ہونا چاہئے۔ افواہوں پر توجہ نہیں دینا چاہئے، فضول خرچی نہیں کرنا چاہئے۔ کچھ معاملات میں واقعی فضول خرچی ہوتی ہے جو نہیں ہونا چاہئے۔ ان چیزوں کے بارے میں عوام کی ذمہ داری ہے۔ اب اقتصادی مسائل میں کچھ باتیں بینکوں وغیرہ کے تعلق سے ہیں، یہ باتیں بینکنگ شعبے کے افراد سے ان شاء اللہ بعد میں عرض کروں گا، کیونکہ اب وقت نہیں بچا ہے۔

امریکہ کا مسئلہ۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ امریکہ نے انقلاب کے پہلے دن سے دشمنی شروع کر دی جو آج بالکل آشکارا طور پر جاری ہے۔ آپ توجہ فرمائیے! اگر ہم یہ سوچیں کہ آج امریکہ کی دشمنی بڑھ گئی ہے تو یہ درست نہیں ہے بلکہ یہ ہوا ہے کہ دشمنی آشکارا ہو گئی ہے۔ پہلے بھی یہی عناد تھا لیکن دشمن اتنا کھل کر یہ بات نہیں کہتے تھے۔ آج تو کھلے عام اظہار کر رہے ہیں۔ کہہ رہے ہیں کہ ہم یہ کرنا چاہتے ہیں، وہ کرنا چاہتے ہیں! دھمکیاں دیتے ہیں۔ انسان کو یہ یقین ہونا چاہئے کہ جو شخص بلند آواز میں دھمکیاں دے رہا ہے اس کی قوت و توانائی اس کی بلند آواز جتنی نہیں ہے۔ جو دھمکیاں نہیں دیتا انسان کو چاہئے کہ اس سے زیادہ خوفزدہ رہے، جو دھمکیاں دیتا ہے اس سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس وقت امریکیوں نے اپنی دشمنی کو برملا کر دیا ہے۔ صیہونی حکومت کے مفادات کی فکر موجودہ امریکی حکومت کو تمام سابقہ حکومتوں سے زیادہ ہے۔ یعنی واقعی یہ کہنا درست ہوگا کہ امریکہ کی بہت سی پالیسیوں کی باگڈور صیہونیوں کے ہاتھ میں ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ مقبوضہ فلسطین میں جو صیہونی حکومت ہے اس کے ہاتھ میں ہو تاہم صیہونی نیٹ ورک کے ہاتھ میں ضرور ہے جو ان کے امور پر مسلط ہے۔ خود انھیں اس کی بہت ضرورت ہے۔ یعنی امریکہ کی موجودہ حکومت کے لئے بہت ضروری ہے کہ دھمکیاں دیتی رہے۔ آپ نے تو دیکھا ہے کہ اب تک کئی دفعہ اس نے کہا ہے کہ ہماری ان پالیسیوں نے ایران کو تبدیل کر دیا۔ آج کا ایران ماضی کے ایران سے مختلف ہے۔ یعنی میری پالیسیوں کا ایران پر اثر ہوا ہے۔ جی ہاں، یہ بات وہ صحیح فرما رہے ہیں۔ تبدیلی ہوئی ہے۔ تبدیلی یہ ہوئی ہے کہ امریکہ سے عوام کی نفرت دس گنا بڑھ گئی ہے۔ ان سے عوام کی نفرت بڑھی ہے، اسلامی جمہوریہ کے مفادات کو نقصان پہنچانے کا دشمنوں کا ہدف اب ان کے لئے اور بھی دشوار ہو گيا ہے۔  ملک کو آمادہ رکھنے کے لئے، ہمارے نوجوانوں کا حوصلہ بڑھا ہے۔ ہماری دفاعی فورسز پوری طرح الرٹ ہیں، ہماری سیکورٹی فورسز پوری طرح بیدار ہیں۔ بے شک جن تبدیلیوں کی بات وہ کر رہے ہیں وہ اسی طرح کی تبدیلیاں ہیں۔ آپ ذرا دیکھئے کہ دشمن کے اندازے اور تخمینے لگانے والے ادارے کتنی بڑی غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ ایک صدر یہ بات کہہ رہا ہے کہ ہر جمعے کو تہران میں اسلامی ںظام کے خلاف جلوس نکل رہے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جلوس جمعے کو نہیں ہفتے کو نکل رہے ہیں اور تہران میں نہیں بلکہ پیرس میں (20) نکل رہے ہیں (21)۔ اَلحَمدُ لله الَّذی جَعَل اَعدائَنا مِنَ الحُمَقاء (22) یہ لوگ یہ دشمنی کر رہے ہیں۔ یہ دشمنی تو موجود ہے۔

ایک اور اہم نکتہ جس پر عام طور پر توجہ نہیں رہتی یہ ہے کہ امریکہ اس وقت اپنے بڑے سماجی و اقتصادی مسائل اور دیگر مشکلات میں الجھا ہوا ہے۔ البتہ اقتصادی میدان میں اسے کچھ پیشرفت بھی حاصل ہوئی ہے لیکن مفکرین کہتے ہیں کہ یہ پیش رفت وقتی اور کوتاہ مدتی ہے۔ جاری نہیں رہنے والی ہے۔ لیکن ان کی بنیادی سماجی مشکلات اپنی جگہ پر موجود ہیں۔ ان کی حکومت کی حالت بھی مستحکم نہیں ہے۔ یہ جو متضاد بیان دیتے ہیں۔ ان کا کوئی عہدیدار کوئی بیان دیتا ہے اور کوئی دوسرا عہدیدار کچھ اور بیان دیتا ہے۔ آج کوئی بیان دیتا ہے اور کل کوئی اور بیان دیتا ہے، ان کی آشفتہ حالی کی علامت ہے۔ میں نے یہاں ایک بات نوٹ کی ہے یہ امریکہ کی وزارت زراعت کی رپورٹ ہے کہ چار کروڑ دس لاکھ امریکی بھکمری میں مبتلا ہیں۔ انھیں غذائی سیکورٹی تک میسر نہیں ہے۔ یہ امریکہ کی حالت ہے۔ یعنی یہ سارا شور شرابا، یہ دھمکی آمیز بیان، بخیال خویش ملت ایران پر سخت اقتصادی دباؤ ڈالنے کی کوشش اس حکومت کی جانب سے ہو رہی ہے جس کے اپنے ملک میں خود ان کے اعداد و شمار کے مطابق چار کروڑ دس لاکھ افراد بھکمری میں مبتلا ہیں۔

سماجی حالات کی بات کی جائے تو ان کے یہاں ایک مرکز ہے جس کا نام ہے سینٹر فار نیشنل وائیٹل اسٹیٹسٹکس، یہ ادارہ کہتا ہے کہ امریکہ میں چالیس فیصدی بچوں کی پیدائش ناجائز طریقے سے ہوتی ہے۔ امریکہ میں بائیس لاکھ قیدی جیلوں میں ہیں۔ اس کی ساری دنیا میں کوئی اور مثال نہیں ہے۔ یعنی آبادی کے تناسب کے اعتبار سے اس کی کوئی مثال نہیں ہے۔ دنیا میں کہیں بھی آبادی کے تناسب کے اعتبار سے اتنے قیدی جیلوں میں نہیں ہیں۔ دنیا بھر میں سب سے زیادہ منشیات کا استعمال بھی امریکہ میں ہی ہوتا ہے۔ آپ غور کیجئے! سماجی مشکلات یہی تو ہوتی ہیں۔ ان میں وہ مبتلا ہیں۔ دنیا بھر کے ماس شوٹنگ کے 31 فیصدی واقعات امریکہ میں ہوتے ہیں۔ آپ آئے دن سنتے ہیں اور دیکھتے ہیں، اخبارات میں پڑھتے ہیں کہ فلاں اسکول میں، فلاں کلب میں، فلاں میٹرو اسٹیشن پر فائرنگ ہوئی ہے۔ یہ ان کی سماجی حالت ہے۔ پھنسے ہوئے ہیں۔ واقعی وہاں کے عوام کے لئے دل جلتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی آپ دیکھئے کہ کیسا شخص ان کا صدر بن گیا ہے؟! یہ کیسے لوگ ہیں جو حقائق سے اس قدر دور ہیں۔ تو بعض افراد دشمن کے خطرے کو کئی گنا بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی کوشش نہ کریں! ہمارا دشمن ایسا ہے کہ وہ خود بری طرح الجھا ہوا ہے۔

البتہ ہم یہ نہیں چاہتے کہ دشمن کی دشمنی کی جانب سے کوئی غفلت برتی جائے۔ ارشاد ہوتا ہے؛ «دشمن نتوان حقیر و بیچاره شمرد» (23)، یہ صحیح ہے لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ دشمن کو اتنا زیادہ طاقتور اور خطرناک نہیں مان لینا چاہئے کہ یہ محسوس ہونے لگے کہ اس کا مقابلہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔ جی نہیں، دشمن اتنا طاقتور بھی نہیں ہے۔ دشمن ایسا ہے جو خود بھی مشکلات میں گرفتار ہے، اس کی پالیسیاں بھی غلط ہیں۔ موجودہ صدر نے ان چند برسوں میں جو پالیسیاں اختیار کی ہیں، سیاسی اور سیکورٹی پہلو سے تقریبا ساری کی ساری ان کے لئے نقصان دہ ثابت ہوئی ہیں۔ ہمارے علاقے میں امریکہ کی پالیسیوں کا یہ عالم ہے۔ یورپ کے سلسلے میں اس کی پالیسیوں کا حال بھی واضح ہے۔ بعض ایشیائی طاقتوں کے مقابلے میں بھی اس کی پالیسیاں اس کے لئے نقصان دہ ہی ثابت ہوئی ہیں۔ امریکی حکام کی پالیسیاں ایسی رہی ہیں کہ ان کی کوئی مدد نہیں کر سکیں۔ یہ سات ٹریلین ڈالر کے قضیئے کی جو بات یہ شخص انتخابی کیمپین میں کر رہا تھا (24) وہ اب بھی جاری ہے۔ اب بھی وہ پیسے خرچ کر رہے ہیں۔ البتہ ان کے ہاتھ سعودیوں کی جیب میں بھی ہیں۔ تو انھیں اپنی پالیسیوں میں کامیابی نہیں ملی ہے۔

اسلامی جمہوریہ سے ٹکراؤ کی ان کی پالیسی کے سلسلے میں میں آپ کی خدمت میں عرض کر دوں کہ امریکہ کو یقینا شکست ہوگی اور ہمیں اس سے فائدہ پہنچے گا۔ آج امریکہ کے اندر کچھ مفکرین خبردار کر رہے ہیں، یہ ان کے اخبارات و جرائد میں شائع ہو رہا ہے کہ آپ ایران پر جو دباؤ ڈال رہے ہیں وہ اس ملک میں ایک بڑی اقتصادی جست کا سبب بنے گا۔ یہ بات وہ کہہ رہے ہیں اور حقیقت امر بھی یہی ہے۔ وہ شکست کھائیں گے۔ ان کی پوزیشن کمزور ہے۔ اسلامی جمہوریہ کا روز افزوں استحکام بحمد اللہ ہمارے فریق مقابل کو ہراساں کر رہا ہے اور وہ اپنی کمزوری کا احساس کرتے ہوئے اس طرح کے اقدامات کر رہے ہیں۔ تو اس پر بھی توجہ رکھنا چاہئے۔

آج کل دیکھنے میں آتا ہے، سننے میں آتا ہے کہ وہ تو (25) مذاکرات کی بات کر رہے ہیں۔ ملک کے اندر بھی کچھ لوگ کہتے ہیں: "آخر مذاکرات میں کیا حرج ہے؟" مذاکرات زہر ہیں۔ جب تک امریکہ کی یہی حالت رہے گی جو آج ہے، امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے بقول جب تک وہ انسان نہیں بن جاتا، امام (خمینی) نے یہ جملہ استعمال کیا تھا۔ تب تک ہمارے اور امریکہ کے درمیان مذاکرات زہر کے مترادف ہیں، موجودہ حکومت کے ساتھ مذاکرات تو کئی گںا زیادہ زہریلے ہیں۔

مذاکرات کا مطلب ہوتا ہے سودا کرنا۔ یعنی آپ کوئی چیز دیجئے اور کچھ حاصل کیجئے۔ اس سودے میں اس کی نظر جس چیز پر ہے وہ عین وہی چیز ہے جو اسلامی جمہوریہ کی طاقت کی بنیاد ہے۔ وہ اس چیز پر مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ تو نہیں کہہ رہے ہیں کہ آئیے آب و ہوا کے بارے میں گفتگو کریں، قدرتی وسائل کے بارے میں گفتگو کریں، ماحولیات کے بارے میں مذاکرات کریں۔ وہ کہتے ہیں کہ آئیے آپ کے دفاعی ہتھیاروں کے بارے میں گفتگو کریں۔ آپ کے پاس دفاعی وسائل کیوں ہیں؟ ظاہر ہے کہ کسی بھی ملک کے لئے دفاعی وسائل کا ہونا ضروری ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ آئيے اس پر بات کرتے ہیں۔ بات کرتے ہیں کا کیا مطلب ہے؟ یہ مطلب ہے کہ اگر مثال کے طور پر آپ فلاں رینج کے میزائل بنا رہے ہیں جو مکمل درستگی کے ساتھ نشانے کو تباہ کرتے ہیں تو اس رینج کو آپ اتنا کم کر دیجئے کہ وہ میزائل ہمارے یعنی امریکہ کے فوجی ٹھکانوں تک نہ پہنچ سکیں، تاکہ اگر کبھی ہم آپ پر حملہ کرنا چاہیں تو آپ ہم پر جوابی حملہ نہ کر سکیں! اس پر سودا ہونا ہے۔ آپ اسے قبول کر سکتے ہیں یا قبول نہیں کر سکتے؟! ظاہر ہے کہ آپ ہرگز قبول نہیں کریں گے۔ اگر آپ قبول نہیں کریں گے تو پھر کچھ بھی نہیں بدلنے والا ہے۔ یہی تنازعہ، یہی شور شرابا رہے گا۔ یہ دین، انقلاب وغیرہ کی بات نہیں ہے، کوئی بھی با شعور اور غیرت مند ایرانی اپنی طاقت کی بنیادوں کے بارے میں فریق مقابل سے کبھی سودا نہیں کرے گا۔ اس فریق مقابل سے ان کے بارے میں کوئی سودا نہیں کرے گا جو ان وسائل کو اس کے ہاتھ سے چھین لینا چاہتا ہے۔ ہمیں ان وسائل کی احتیاج ہے۔ علاقے میں ہماری اسٹریٹیجک ڈیپتھ بہت اہم ہے۔ ہر ملک کے لئے یہ چیز بہت اہم ہوتی ہے۔ تمام حکومتوں اور اقوام کی پرامن زںدگی کے لئے بہت بنیادی فیکٹر ہے سیاسی و سیکورٹی اسٹریٹیجک ڈیپتھ۔ بحمد اللہ علاقے میں ہمارے پاس اسٹریٹیجک ڈیپتھ بہت اچھی ہے۔ انھیں اس پر بڑی تکلیف ہے۔ کہتے ہیں کہ آئیے علاقائی مسائل کے بارے میں بات کریں! یعنی آپ اپنی اسٹریٹیجک ڈیپتھ ختم کر دیجئے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس پر بات کیجئے۔

بنابریں خود مذاکرات ہی اپنے آپ میں غلط ہیں۔ اگر فریق مقابل کوئی قاعدے کا آدمی ہو تب بھی غلط ہیں تو اس وقت یہ جو حضرات ہیں یہ تو قاعدے کے لوگ بھی نہیں ہیں۔ ایسے لوگوں سے مذاکرات جو خود اپنے وعدوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں، اپنے عہد اور پیمان توڑتے ہیں، کسی چیز کے بھی پابند نہیں ہیں، نہ کسی اخلاقی اصول کے پابند ہیں، نہ قانون کے پابند ہیں، نہ کسی بین الاقوامی ضابطے کے پابند ہیں، کسی بھی چیز کے پابند نہیں ہیں۔ لہذا یہ تو مسخرہ پن ہوگا۔ البتہ ہمارے یہاں اہل فکر افراد میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو اس طرف مائل ہو۔ عوام الناس کی منشا بھی بالکل واضح ہے۔ اب کبھی کبھار کسی گوشے سے کوئی آواز آ جاتی ہے۔ تو اس بنیاد پر مذاکرات بالکل بے معنی ہیں۔ میں اس سے پہلے بھی کئی بار کہہ چکا ہوں کہ ایسی کوئی چیز سرے سے موجود نہیں ہے۔ ان سے پہلے جو حکومت تھی جس کا ظاہری روپ کافی صاف ستھرا اور بہتر تھا، اس میں بھی اوباما نے ہمیں 'بڑا پرخلوص' خط بھیجا۔ ہم نے بھی کچھ عرصہ بعد اس کا جواب دے دیا۔ فورا انھوں نے دوسرا خط لکھ دیا۔ میں اس خط کا بھی جواب دینا چاہتا تھا کہ اسی اثنا میں 2009 کے صدارتی انتخابات کے بعد کا فتنہ شروع ہو گیا۔ یہ جناب بہت خوش ہوکر آشوب پسندوں اور فتنے کے دفاع میں لگ گئے، اس فتنے کی حمایت کی۔ تو جن لوگوں کا ظاہر ایسا تھا ان کا باطن اتنا خراب نکلا کہ جیسے ہی یہاں فتنہ شروع  ہوا وہ اپنی تمام باتیں جو اس سے پہلے کر رہے تھے، جو عقیدت کا اظہار کر رہے تھے، وہ سب کچھ بھول گئے اور اسلامی جمہوریہ کے خلاف جاری فتنے سے وابستہ ہو گئے۔ تو اس وقت جو لوگ سامنے ہیں ان کی حقیقت تو بالکل واضح ہے۔

لہذا امریکہ کے مقابلے میں ملت ایران کا حتمی انتخاب ہے مزاحمت اور اس مقابلہ آرائی میں، اس مزاحمت میں دشمن پسپائی پر مجبور ہوگا۔ مزاحمت کی جو بات ہے تو یہ عسکری تصادم نہیں ہے۔ یہ جو اس وقت بعض لوگ اخبارات میں اور سوشل میڈیا وغیرہ پر جنگ کی باتیں کر رہے ہیں بالکل بے بنیاد ہے۔ کوئی جنگ ہونے والی نہیں ہے، توفیق خداوندی سے کوئی بھی جنگ نہیں ہوگی۔ نہ ہم جنگ کی طرف مائل ہیں اور نہ ان کے لئے جنگ کی آگ بھڑکانے میں کوئی فائدہ ہے۔ انھیں پتہ ہے کہ یہ فائدے کا سودا نہیں ہے۔ ہمارا تو اصول ہی یہ ہے کہ ہم جنگ کا آغاز نہیں کرتے۔ ہم کبھی بھی جنگ پر مائل نہیں رہے اور آج بھی نہیں ہیں۔ یہ تصادم در حقیقت ارادوں کا تصادم ہے۔ یہ ارادوں کی جنگ ہے اور ہمارا ارادہ ان سے زیادہ قوی ہے۔ محکم ارادے کے ساتھ ہی ہمارے پاس اللہ پر توکل کا جذبہ بھی ہے۔ ذلِکَ بِاَنَّ اللهَ مَولَی الَّذینَ ءامَنوا وَ اَنَّ الکافِرینَ لا مَولی لَهُم؛(26) ان کا کوئی آقا و مولا نہیں ہے۔ جبکہ ہمارا تکیہ ارادہ خداوندی پر ہے۔ بنابریں مستقبل ان شاء اللہ بہت اچھا ہوگا اور سختیاں بھی اس طرح کی نہیں ہیں جیسا کہ بعض لوگ تصویر کشی کرتے ہیں اور بیان کرتے ہیں اور نہ ہی اتنی زیادہ ہوں گی۔ ان شاء اللہ ہماری حکومت، ملک کے عہدیداران ہمت و حوصلے کے ساتھ، قدرت و طاقت کے ساتھ، محکم ارادے کے ساتھ، حسن انتظام کے ساتھ، نئی نئی تدابیر کے ساتھ حالات و واقعات کا سامنا کریں گے اور فتحیاب ہوں گے۔

پروردگارا! محمد و آل محمد کا صدقہ ملت ایران کو ان تمام مقابلوں میں فتحیاب کر۔ پروردگارا ہمارے بزرگوار امام کو جنہوں نے ہمارے سامنے یہ راستہ کھولا اپنے اولیاء کے ساتھ محشور فرما۔ محمد و آلہ محمد کا واسطہ ہم نے جو کچھ کہا اور جو کچھ ہماری نیت ہے اور ہم جو عمل کریں گے اسے اپنے لئے اور اپنی راہ میں قرار دے اور اسے قبول فرما۔

و السّلام علیکم و رحمة ‌الله و برکاته

۱) اس ملاقات کے آغاز میں صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی نے بھی تقریر کی اور بعض نکات بیان کئے۔

۲) سوره‌ بقره، آیت نمبر ۱۸۳

۳) منجملہ، سوره‌ بقره، آیت نمبر ۱۸۹

۴) سوره‌ حجرات، آیت نمبر ۱۰ کا ایک حصہ

۵) منجملہ، سوره‌ بقره، آیت نمبر ۱۸۹

۶) منجملہ‌ سوره‌ بقره، آیت نمبر ۵۳

۷) سوره‌ انفال، آیت نمبر ۲۹  کا ایک حصہ؛ «...اگر اللہ کا خوف رکھوگے تو وہ تمارے لئے (حق و باطل کی) تشخیص کی صلاحیت قرار دے گا۔

۸) سوره‌ طلاق، آیت نمبر ۲ کا ایک حصہ « ...جو اللہ کی پروا کرے گا اللہ اس کے لئے باہر نکلنے کا راستہ قرار دے گا۔

۹) سوره‌ نساء، آیت نمبر ۱۲۲ کا ایک حصہ

۱۰) سوره‌ نحل، آیت نمبر ۵۲ کا ایک حصہ

۱۱) منجملہ سوره‌ فتح، آیت نمبر ۲۸ کا ایک حصہ؛ «...تاکہ اسے تمام ادیان پر فتحیاب کرے۔ ...»

12) سوره‌ ابراهیم، آیت نمبر ۴۵ کا ایک حصہ

13) مستدرک الوسائل، جلد ۱۶، صفحہ ۲۲۸ قدرے تفاوت کے ساتھ

14) نهج البلاغه، مکتوب نمبر ۴۵؛« آگاہ رہو کہ تمہارے امام نے اپنی پوری دنیا سے بس دو پرانے کپڑوں اور خوراک کے نام پر دو روٹیوں پر قناعت کی۔

15) ایضا

16) ایضا

17) ڈونالڈ ٹرمپ

18) مورخہ 21 مارچ 2019 کو سال نو کی آمد کی مناسبت سے رہبر انقلاب کی تقریر سے رجوع کریں۔

19) مورخہ 21 مارچ 2019 کو مشہد مقدس میں حرم امام رضا علیہ السلام میں رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب

20) پیرس میں فرانس کے عوام کے مظاہروں کی جانب اشارہ ہے۔

21) رہبر انقلاب اور سامعین ہنس پڑے

22)  امام سجاد علیہ السلام سے منسوب ہے؛ «شکر ہے خدا کا کہ اس نے ہمارے دشمنوں کو احمق قرار دیا ہے۔

23) سعدی. گلستان، باب اوّل، حکایت نمبر ۴؛ «دانی که چه گفت زال با رستم گرد / دشمن نتوان حقیر و بیچاره شمرد»

24) مشرق وسطی میں امریکہ کے ذریعے خرچ کی جانے والی رقم کی جانب اشارہ ہے۔

25) امریکہ کے صدر

26) سوره‌ محمّد، آیت نمبر ۱۱؛ «اس لئے کہ اللہ تعالی ان لوگوں کا سرپرست ہے جو ایمان لائے لیکن کفار کا کوئی سرپرست و مددگار نہیں ہے۔