اس ملاقات میں طلبہ نے گوناگوں علمی، ثقافتی، سماجی، سیاسی اور طلبہ کی صنف سے متعلق مسائل کے بارے میں اپنے نظریات، تنقیدیں اور تجاویز بیان کیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے ان مسائل کے بارے میں اپنی رائے پیش کرنے کے ساتھ ہی اس نکتے پر بھی روشنی ڈالی کہ اسلامی انقلاب کے روشن افق تک ملک کو لے جانے کے لئے عمومی سعی و کوشش میں تیزی لانے کے مقصد سے نوجوان کس طرح میدان میں اتر سکتے ہیں اور اپنا تعاون دے سکتے ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ؛

بسم الله الرّحمن الرّحیم

و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین سیّما بقیّة ‌الله فی الارضین.

شکر ہے خدا کا کہ ہمارا آج کا یہ جلسہ بھی جوش و جذبے سے معمور ہے۔ نوجوانی کی سب سے بڑی خصوصیت یہی تازگی اور جوش و خروش ہے اور یہ خصوصیت ان شاء اللہ پیشرفت کا ذریعہ اور ملک میں موجود مواقع کے بہتر استعمال کا وسیلہ بنے گی۔

البتہ جن عزیز نوجوانوں نے تقریریں کیں انھوں نے بیشتر تشویش اور درد و تکلیف بیان کی۔ یہ اچھی بات ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ میں تشویش کے مسائل اور نقائص و اعتراضات بیان کئے جانے کا مخالف نہیں بلکہ پوری طرح اتفاق رکھتا ہوں کہ ان چیزوں کو بیان کیا جانا چاہئے، پیش کیا جانا چاہئے، لیکن انھیں بیان کرنے کے لئے جو الفاظ اور عبارت استعمال ہو اس کے انتخاب میں دقت نظری سے کام لینا چاہئے۔ اس لئے کہ اظہار اور پیشکش میں اگر توجہ اور دقت نظری سے کام نہ لیا جائے تو ممکن ہے کہ اللہ کی بارگاہ میں جواب بھی دینا پڑے اور اس کا خارجی اثر بھی مناسب نہ ہو۔ تنقید بہت توجہ سے کرنا چاہئے۔ یہ جوش و خروش اور مطالبات پیش کرنے کا جذبہ بہت اچھا ہے، میں اس کے بارے میں ابھی گفتگو کروں گا۔

اپنی بحث کا آغاز کرنے سے پہلے میں آپ دوستوں کی جانب سے جو باتیں ذکر کی گئیں اور میرے خیال میں میں نے ان میں سے اکثر کو نوٹ کر لیا ہے، ان میں سے دو تین باتیں یہاں بیان کرنا جاہوں گا۔ یہاں گفتگو کرنے والے ان دوستوں میں سے ایک نے سوال کیا کہ آج ہم معاشرے میں جو مشکلات دیکھ رہے ہیں، یہی جو خامیاں اور نقائص ہیں جن میں بعض کا آپ نے ذکر کیا، ان کی وجہ ڈھانچے میں پائی جانے والی کمی ہے یا کارگزاروں کی خامی؟ آئین کا جو ڈھانچہ ہے وہ بہت اچھا ڈھانچہ ہے۔ یعنی اس میں کوئی نقص نہیں ہے۔ البتہ ڈھانچہ بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تکمیل کے مراحل طے کرتا ہے۔ اس کے نقائص کو دور اور خلا کو پر کیا جاتا ہے۔ یہ فطری بھی ہے۔ مثال کے طور پر کسی زمانے میں ہمارے یہاں تشخیص مصلحت نظام کونسل نہیں تھی تو یہ ایک کمی تھی، ایک خلا تھا، آج ہمارے پاس یہ کونسل ہے۔ اسی طرح پیشرفت کی دیگر مثالیں ہیں۔ دنیا کے تمام نظاموں میں یہی ہوتا ہے۔ ابھی چند سال قبل میں پڑھ رہا تھا کہ امریکہ جیسے ایک صدارتی نظام میں جہاں اس کی تشکیل کو 200 سال سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے، کچھ چیزیں قائم کر رہے ہیں، تشکیل دے رہے ہیں، یا ہٹا رہے ہیں، یعنی نظام تکمیل کے مراحل طے کرتا ہے۔ مختصر یہ کہ نظام کے ڈھانچے میں کوئی کمی نہیں ہے، ڈھانچہ اچھا ہے۔ البتہ ممکن ہے کہ اس میں کچھ کمی یا اضافہ کیا جائے۔ پارلیمانی نظام کے موضوع کے بارے میں دوستوں میں سے ایک صاحب نے گفتگو کی، اس بارے میں پہلے بحث ہو چکی ہے۔ ہم نے ان چیزوں پر آئین پر نظر ثانی کی نشستوں میں بہت تفصیل سے بحث کی اور اس نتیجے پر پہنچے جو آج موجود ہے۔ کم از کم ہمارے لئے تو پارلیمانی نظام کی مشکلات صدارتی نظام سے زیادہ ہیں۔ بہرحال میں ڈھانچے میں تو کوئی خلا محسوس نہیں کرتا۔ البتہ ہم کارگزاروں میں خامیاں ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ کارکنان کوتاہی کرتے ہیں، الگ الگ رجحان اور پسند ہے، کمزوریاں ہیں، خامیاں ہیں، اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعض اوقات ہم عمل اور اقدام میں غلطی کر دیتے ہیں۔ ہماری غلطیاں عام افراد کی غلطیوں جیسی نہیں ہوتیں۔ جب ہم غلطی کرتے ہیں تو ہماری غلطی سے معاشرے کے اندر ایک بڑا شگاف پیدا ہوتا ہے۔

ایک بات اور جو دوستوں میں سے ایک صاحب نے بیان کی کہ "نجکاری کا سلسلہ بند کیا جانا چاہئے۔" یہ صحیح ہے کہ نجکاری کے میدان میں بہت بڑی غلطیاں ہوئی ہیں جن میں بعض کا ذکر ہمارے ان برادر عزیز نے کیا اور اس حقیر نے بھی بارہا انتباہ دیا ہے اور کچھ جگہوں پر ان غلطیوں کی اصلاح بھی ہوئی، کچھ جگہوں پر ان میں بعض خامیوں کا سد باب کیا گيا۔ نجکاری کے عمل میں خامیاں موجود ہیں لیکن خود نجکاری ملکی معیشت کی بڑی اہم ضرورت ہے۔ یہ ان چیزوں میں ہے جو اس ڈھانچے کی تکمیل کرنے والی ہیں جو پہلے موجود نہیں تھا۔ ہم نے اس سلسلے میں آئین میں موجود آرٹیکل کو استعمال کیا اور اس استعمال کے بارے میں پیشگی اعلان کیا، تمام اہل نظر افراد نے ہر پہلو سے اس کی حمایت کی اور کہا کہ بہت اچھی چیز ہے۔ واقعی یہ بہت اچھی چیز ہے، اسے روکا نہیں جانا چاہئے، مگر عملدرآمد کی سطح پر دوسرے بہت سے منصوبوں کی طرح اس میں بھی خامیاں ہیں، غلطیاں ہوئی ہیں، بے توجہی برتی گئی ہے، شاید اس معاملے میں کچھ لغزشیں بھی ہوئی ہیں، ان لغزشوں کا سد باب کیا جانا چاہئے۔ ہمارا فریضہ یہ ہے کہ ان لغزشوں کا ہم سد باب کریں۔

ایک چیز اور بھی ہے اور وہ یہ کہ انقلابی نوجوانوں کے خلاف کارروائی کی بات اس حقیر سے منسوب کی گئی ہے۔ آپ اس پر ہرگز یقین نہ کیجئے۔ میں انقلابی نوجوانوں کے خلاف کبھی بھی کارروائی نہیں کر سکتا۔ خاص طور پر انقلابی رجحانات کی میں ہمیشہ حمایت کرتا آیا ہوں اور آئندہ بھی کرتا رہوں گا۔ البتہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مثال کے طور پر اگر کچھ انقلابی نوجوان کبھی کوئی خلاف قانون اقدام کریں، کوئی غلط کام انجام دیں تو ہم اس کی بھی حمایت کریں گے! ہرگز نہیں۔ یہ حقیر بھی کسی زمانے میں اس ملک کا ایک انقلابی نوجوان تھا، اس وادی میں ایک عمر گزاری ہے۔ میں اپنا جائزہ لیتا ہوں تو محسوس کرتا ہوں کہ مجھ سے کتنی غلطیاں ہوئی ہیں۔ اسی طرح ممکن ہے کہ کسی اور انقلابی نوجوان سے کبھی کچھ غلطیاں ہوں۔ میں اس غلطی کی ہرگز حمایت نہیں کرتا، لیکن انقلابی نوجوان کی میں ضرور حمایت کروں گا۔ اگر اس سلسلے میں کوئی افواہ پھیلائی جا رہی ہے تو اس پر آپ ہرگز یقین نہ کیجئے۔

دوستوں میں سے ایک صاحب نے کہا کہ ایٹمی معاہدے کی منظوری کو رہبر انقلاب سے منسوب کیا جاتا ہے۔ جی ہاں، لیکن آپ کے پاس آنکھیں ہیں، ما شاء اللہ قوت فہم ہے، آپ ساری چیزوں کو سمجھتے ہیں! وہ خط جو میں نے لکھا تھا اسے آپ دیکھئے۔ آپ دیکھئے کہ منظوری کس انداز کی ہے۔ کچھ شرائط ذکر کی گئی ہیں کہ ان کے پورے ہونے کی صورت میں اس معاہدے کو منظور کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر ان شرائط اور خصوصیات پر عمل نہیں ہوا، انھیں نافذ نہیں کیا گيا تو رہبر انقلاب کا فریضہ یہ نہیں ہے کہ سامنے آ جائے اور کہے کہ ایٹمی معاہدے پر اب عملدرآمد نہیں کیا جانا چاہئے۔ البتہ یہ ایک بحث ہے کہ ایسے اجرائی امور میں رہبر انقلاب کا فریضہ منصبی کیا ہے؟ ہمارا نظریہ یہ ہے کہ اجرائی امور میں رہبر انقلاب کی مداخلت نہیں ہونی چاہئے کہ کسی چیز کو اجرائی مراحل سے گزارے اور کسی عمل کا سد باب کرے۔ ہاں جب انقلاب کے مجموعی مشن اور پیش قدمی کے عمل کا معاملہ ہو تو کیوں نہیں، وہاں ہم میدان میں اتریں گے، تاہم دیگر معاملات میں نہیں۔ بنابریں یہ کہنا چاہئے کہ نہیں، ایٹمی معاہدے پر جس طرح عمل ہوا اور جس طرح اسے نافذ کیا گیا اس سے اس حقیر کا زیادہ اتفاق نہیں تھا اور بارہا متعلقہ عہدیداران سے، جناب صدر محترم سے، محترم وزیر خارجہ سے اور دیگر عہدیداران سے بھی ہم نے یہ بات کہی ہے اور بہت سی چیزوں کے بارے میں انتباہات بھی دئے ہیں۔

بعض دوستوں نے کچھ تنقیدیں کی ہیں جو بہت اچھی ہیں۔ بہت سی تنقیدیں بالکل درست ہیں، لیکن تنقید کا لہجہ بہت تند نہ ہونے دیجئے! یعنی دو چیزوں پر توجہ رکھئے! ایک یہ کہ تنقید میں یہ کوشش کیجئے کہ فریق مقابل کو اپنی کوئی کمزوری نہ دیجئے، یعنی اس انداز سے بات نہ کیجئے کہ کسی عدالتی مرکز میں آپ کو قصوروار ثابت کیا جا سکے۔ اس پر توجہ رکھئے! میں نے شاید ایک دفعہ یا دو دفعہ نوجوانوں کے درمیان اس نکتے کی جانب توجہ دلائی ہے۔ توجہ رکھئے کہ بات اس انداز سے بیان نہ کی جائے کہ فریق مقابل عدالت میں آپ کو قصوروار ثابت کرنے کے لئے اسے استعمال کرے۔ یہ رہی ایک بات۔

دوسری بات یہ ہے کہ کچھ بھی کرنے میں انتہا پسندی سے اجتناب کیجئے۔ آپ توجہ فرمائیے کہ قرآن مین جب مثال کے طور پر کفار کے بارے میں یا پیغمبر اکرم کے مخالفین کے بارے میں کوئی بات بیان کی جاتی ہے تو اس کے بعد کہا جاتا ہے؛ وَلٰکِنَّ اَکثَرَهُم یَجهَلون؛(۲) قرآن یہ نہیں کہتا: «و لٰکنّهم یجهلون»، بلکہ کہتا ہے: اَکثَرَهُم یَجهَلون۔ یعنی ان کے درمیان بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جن پر اس حکم کا اطلاق نہیں ہوتا۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ آپ کسی جماعت کی پوری طرح نفی کر دیں یا ان سب پر اعتراض کر دیں، جبکہ یہ امکان ہو کہ ان میں سے بعض کے سلسلے میں آپ کا اعتراض درست نہ ہو۔ یہ کچھ انتباہات ہیں جو بہت اہم ہیں۔ آپ سب میرے بچے ہیں، یعنی واقعی میری اولاد کی مانند ہیں، میرا دل چاہتا ہے کہ آپ کا عمل اور آپ کی وہ سمت جس میں آپ آگے بڑھ رہے ہیں درست ہو۔

اب وہ باتیں جو آپ کی خدمت میں عرض کرنے کے لئے میں نوٹ کرکے لایا ہوں، مجھے نہیں معلوم کتنا وقت ملے گا (3)، بہرحال میں کچھ دیر گفتگو کروں گا۔

میں نے جو چیزیں نوٹ کی ہیں ان میں سب سے پہلے تو یہ عرض کر دوں کہ ماہ رمضان کی صورت میں جو موقع ہاتھ آتا ہے اس سے جوانی کے ایام میں کما حقہ مستفیض ہوا جا سکتا ہے۔ میرے عزیزو! ماہ رمضان دل و جان کو پاکیزہ بنانے کا بڑا اچھا موقع ہے، اللہ سے رابطے کو مستحکم بنانے کا بڑا اچھا موقع ہے۔ آپ کو اس محکم رشتے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ ہم سب کو ضرورت ہے۔ ماہ رمضان بڑا سنہری موقع ہے۔ قرآن سے انسیت، نماز سے انسیت، دعا سے انسیت، یہی روزہ جو آپ رکھتے ہیں یہ آپ کے لئے اللہ کی خاص نعمت ہے۔ روایتوں میں جس الہی ضیافت کی بات کہی گئی ہے اس ضیافت کے مواد یہی سب ہیں۔ یعنی روزہ ایک آسمانی دسترخوان ہے جس پر اللہ تعالی آپ کو مہمان بناتا ہے، آپ کی ضیافت کرتا ہے۔ دعا بھی ایک دسترخوان ہے۔ اسی طرح نماز بھی ہے اور یہ آپ کے لئے جو نوجوان ہیں اس حقیر کے مقابلے میں جو بڑھاپے کے سن میں اور آخری منزل میں ہے، دس گنا زیادہ موثر ہے۔ یہ حقیقت ہے، اس کی قدر کیجئے۔ نوجوانی کا ایک دور جو آپ کے پاس ہے یہ دوبارہ آنے والا نہیں ہے۔ اس موقع کو بخوبی استعمال کرکے اللہ سے انس، نماز سے انس اور قرآن سے انس کو اپنی خصلت کا حصہ بنا لیجئے، پسندیدہ و مستحسن عادت بنا لیجئے۔ پھر عمر کے آخری پڑاؤ تک یہ آپ کے ساتھ رہے گا۔ یہ ممکن ہے لیکن مشکل کام ہے، تاہم اگر ابھی سے آپ نے عمل شروع کر دیا تو مشکل نہیں ہے۔ یہ آپ کے لئے ایک ملکہ کی صورت میں باقی رہے گا اور یہ آپ کے لئے آپ کی نوجوانی کا ایک سرمایہ بن جائےگا۔ بنابریں ان ایام کو، ان عبادتوں کو، ان نمازوں کو غنیمت جانئے۔ اللہ تعالی سے اپنا رابطہ مستحکم کیجئے اور ماہ رمضان کے بعد بھی اسے جاری رکھئے۔ یہ آپ کو میری پہلی نصیحت ہے۔

ان گزشتہ ایک دو برسوں میں مجھے موصول ہونے والی رپورٹوں کے مطابق طلبہ یونینوں نے، طلبہ تنظیموں نے گوناگوں مسائل کے سلسلے میں بڑا اچھا کام کیا ہے۔ خواہ وہ ملکی مسائل ہوں، یا بین الاقوامی مسائل ہوں۔ مثال کے طور پر جو بات یہاں ہمارے اس بھائی نے نجکاری کے تعلق سے کہی کہ طلبہ نجکاری کے قضیئے میں وارد ہوئے، اسی 'ہفت تپّے گنا مل' اور گوناگوں مشینیں اور آلات بنانے والی 'ماشین سازی تبریز کمپنی' کے مسئلے میں طلبہ ہی گئے اور انھوں نے واقعی ایک بڑی مشکل حل کر دی۔ یعنی نہ ان کے پاس پیسہ ہے، نہ قانونی اختیارات ہیں لیکن پھر بھی ان کی موجودگی ایک بڑا کام انجام دے سکتی ہے اور ایک مشکل کو رفع کر سکتی ہے۔ اس طرح کے بعض دیگر معاملات بھی ہیں، جیسے مزدوروں کی حمایت میں، اداروں کے سامنے مطالبات رکھنے کے سلسلے میں، ان مطالبات کا اثر بھی ہوا۔ یعنی اگر طلبہ کی کوئی جماعت عدلیہ سے، مقننہ سے یا تشخیص مصلحت نظام کونسل سے کسی چیز کا مطالبہ کرتی ہے تو اس کا اثر ہوگا۔ اس کا اثر ہوا اور یہ کام آپ نے انجام دیا جو بہت اچھا ہے۔ یہ حالیہ ایک دو سال کی بات ہے کہ انسان طلبہ کی صنف میں اس تحرک اور جذبہ عمل کو بخوبی دیکھ سکتا ہے۔

یا بین الاقوامی امور اور علاقائی سرگرمیوں سے متعلق میدانوں میں۔ مثال کے طور پر یمن کے سلسلے میں (4)، کچھ عرصہ قبل نیوزی لینڈ میں پیش آنے والے واقعے کے سلسلے میں (5)، نائیجیریا کے مسئلے میں (6)، طلبہ نے اپنی بیداری کا ثبوت دیا۔ اسی طرح دوسرے بھی بہت سے مسائل میں یہی ہوا۔ اپنی موجودگی کا یہ اظہار بہت اچھا ہے۔ یا مثال کے طور پر بعض اوقات سفارت خانے کے سامنے کوئی مظاہرہ بھی اچھا اقدام ہے، البتہ متانت کے ساتھ، توجہ کے ساتھ، دانشمندی کے ساتھ، فکری و روحانی قوت کے اظہار کے لئے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمیشہ سفارت خانے کی دیوار پھلانگ جانا اچھا عمل ہو۔ بعض مواقع پر یہ چیز اچھی ہے۔ جاسوسی کے مرکز (تہران میں امریکی سفارت خانہ) پر قبضہ کرنے کے معاملے میں بہت اچھا اقدام ہوا لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔ تاہم آپ کی موجودگی، آپ کا مطالبہ، آپ کا منطقی موقف، آپ کا اپنی قوت کا مظاہرہ کرنا، اپنی اجتماعیت کا مظاہرہ کرنا موثر ہے۔ ممکن ہے کہ آپ کو اس کی تاثیر فوری طور پر نظر نہ آئے لیکن یاد رکھئے کہ ان چیزوں کا اثر ہوتا ہے۔ بنابریں یہ موجودگی ان چیزوں میں سے ہے جن پر میں تاکید کرتا ہوں، جن کی میں حمایت کرتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ یہ جاری رہے۔

البتہ جو رپورٹ مجھے ملی ہے اس کے مطابق ایک سفارش جس پر میں ہمیشہ تاکید کرتا رہا ہوں یعنی مطالعے اور کتب بینی کا مسئلہ، مطالعے کی تحریک کا مسئلہ تو طلبہ کے درمیان یہ مطلوبہ انداز میں رائج نہیں ہو سکا ہے۔ میں اس بات پر ایک بار پھر تاکید کرنا چاہتا ہوں۔ آپ کے لئے پڑھنا ضروری ہے، اپنے علم میں اضافہ کرنا ضروری ہے۔ اگر موقع ملا تو میں اس بارے میں کچھ باتیں عرض کروں گا۔ آپ کتب بینی کی تحریک چلائيے، واقعی کتاب پڑھئے، مطالعہ کیجئے۔ طلبہ کے ساتھ اس سے پہلے کی نشستوں میں میں نے بار بار شہید مطہری کی کتابوں کی بات کی ہے (7)، لیکن میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ صرف وہی، بلکہ آپ خود، آپ کی مفکر ٹیمیں، آپ میں جو سینیئر افراد ہیں وہ بیٹھیں اور مطالعے کی کتب کی فہرست اور مختلف جگہوں کے لئے، مختلف طبقات کے لئے مطالعے کا نظام اور پروگرام تیار کریں، منصوبہ بندی کریں، تعارف کروائیں، اس طرح کے کام کریں۔ یہ بہت ضروری چیز ہے۔

میرے ذہن میں چند باتیں تھیں جو میں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے ان باتوں کو 'اعلامیہ اگلا قدم' میں ذکر کیا ہے، (اسلامی انقلاب کے چالیس سال مکمل ہونے کے بعد اس دورانیہ کو انقلاب کا پہلا قدم قرار دیتے ہوئے رہبر انقلاب اسلامی کی جانب سے دوسرے قدم کے لئے حکمت عملی اور تدابیر پر مبنی ایک اعلامیہ جاری کیا گیا جسے اعلامیہ اگلا قدم قرار دیا گيا ہے۔) میں اس اعلامئے کے بارے میں گفتگو نہیں کرنا چاہتا، تاہم اس عنوان کی مناسبت سے میں یہاں چند باتیں آپ کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں۔

دیکھئے 'اعلامیہ اگلا قدم' انقلاب کے ماضی، زمانہ حال اور مستقبل کی ایک تصویر تھی۔ انقلاب کو چالیس سال ہو چکے ہیں۔ یہ  ایک کلی خاکہ ہے۔ ہم تفصیلات میں نہیں گئے ہیں۔ انقلاب کے بنیادی مسائل کے بارے میں ایک کلی تصویر ہے۔ اس اعلامئے میں چار کلیدی نکات ہیں جن پر تاکید کی گئی ہے۔

پہلا نکتہ: انقلاب کے واقعے کی عظمت۔ بہت سے لوگ اس پر توجہ نہیں دیتے۔ ہم نے سوچا کہ اس پر توجہ دلائی جائے اور لوگ غور کریں۔ انقلاب کا واقعہ، اس اہم  تاریخی دور میں خود اس جغرافیائی محل وقوع میں اس انقلاب کا رونما ہونا اور اس کے بعد اس انقلاب کا باقی رہ جانا۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے؛ انقلاب کی عظمت، وقوع پذیر ہونے کے اعتبار سے بھی اور پائیدار رہنے کے اعتبار سے بھی۔

دوسرا نکتہ: تا حال طے کئے جانے والے سفر کی عظمت اور انقلاب کی کارکردگی کی عظمت۔ یعنی ان لوگوں کی باتوں کے بالکل برخلاف جو کہتے ہیں کہ انقلاب کچھ نہیں کر پایا، اس حقیر نے اس اعلامئے میں اسے اجمالی طور پر اور اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے کہ جی نہیں، انقلاب کی کارکردگی مختلف میدانوں میں بے حد شاندار اور نمایاں رہی ہے۔ سیاسی میدان میں بھی، سماجی میدان میں بھی، علمی میدان میں بھی، انصاف و مساوات کے میدان میں بھی، آزادی کے میدان میں بھی۔ تمام انسانی، قومی اور بین الاقوامی اساسی مطالبات کے میدانوں میں انقلاب کی کارکردگی شاندار رہی ہے۔ تو دوسرا نکتہ ہے انقلاب کی کارکردگی کی عظمت۔

تیسرا نکتہ جو اس اعلامئے میں مد نظر رکھا گیا ہے اس افق کی عظمت ہے جہاں ہمیں پہنچنا ہے۔ اس منزل کی عظمت جہاں ہم پہنچنا چاہتے ہیں، اس کے لئے ہم جو کام کرنا چاہتے ہیں اور ہمارا ہدف جو ہے۔

چوتھا نکتہ: فرض شناس نوجوان افرای قوت کی عظمت۔ ہر نوجوان نہیں، وہ نوجوان جسے ذمہ داری کا احساس ہے، جسے فریضے کا ادراک ہے۔ اس طبقے کے کردار کی عظمت۔ یعنی اس سفر میں جو ہمیں در پیش ہے اور مطلوبہ منزل تک رسائی کے سلسلے میں فرض شناس نوجوان کے کردار کی عظمت۔

یہ چار نکات ہیں جنھیں ہم یہاں ذکر کرنا چاہتے تھے۔ البتہ میں نےعرض کیا کہ اجمالی طور پر۔ ایک اعلامئے میں ان چیزوں کی زیادہ تشریح نہیں کی جا سکتی۔ اس کے لئے پوری ایک کتاب یا دو کتابیں درکار ہیں۔ بہرحال اس کی تفصیل میں جانے، غور کرنے، مطالعہ کرنے اور گہرائی سے بحث وغیرہ کے لئے گنجائش باقی ہے۔

اس مطلوبہ افق کی جانب ایک عمومی پیش قدمی کی ہمیں ضرورت ہے۔ ملک میں ایک عمومی پیش قدمی کا عمل شروع ہو۔ یہ عمل جاری ہے لیکن اس میں مزید نظم و ضبط آنا چاہئے، مزید سرعت پیدا ہونا چاہئے، اس منزل کی جانب پیشرفت کو باقاعدہ محسوس کیا جانا چاہئے۔ یہ عمل فطری طور پر فرض شناس نوجوانوں کی مرکزیت میں انجام پا رہا ہے۔ فرض شناس نوجوان اس عمل کے محور ہیں۔ میں نوجوان کہتا ہوں تو میری مراد بائیس سالہ اور پچیس سالہ نوجوان ہی نہیں ہیں، البتہ بائیس سالہ اور اشہ،،،،چیس سالہ نوجوان بہت سارے کام انجام دے سکتے ہیں، یہ بات بالکل صحیح ہے جو ہماری اس عزیز بہن نے کہی اور بیس سال کے نوجوان کا موازنہ ساٹھ سال کے شخص سے کیا اور آپ سب نے ان کے لئے تالیاں بھی بجائیں۔ میں بیس سال اور پچیس سال کے نوجوانوں کے لئے بھی کہہ رہا ہوں تاہم جب میں نوجوان کا لفظ استعمال کرتا ہوں تو میری مراد صرف بیس سے تیس سال تک کے نوجوان ہی نہیں ہوتے بلکہ تیس سالہ، پینتیس سالہ اور چالیس سالہ نوجوان بھی ہوتے ہیں۔ یہ بھی نوجوان ہیں۔ یعنی یہ سب بھی ان میدانوں میں شاندار کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔ اس طبقے کے فرض شناس افراد ملک کے انتظامی میدان میں بہت عظیم تبدیلیاں پیدا کر سکتے ہیں۔

اب یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ اس عمومی مشن میں نوجوانوں کے شامل ہونے کا طریقہ کار کیا ہے؟ آپ ایک فرض شناس نوجوان ہیں، اس عمومی مشن کا حصہ بننا چاہتے ہیں، اس میں آپ کی شمولیت کا طریقہ کیا ہونا چاہئے؟ یہ وہ نکتہ ہے جو میں نے آپ کی خدمت میں عرض کرنے کے لئے نوٹ کر رکھا ہے۔ اس کی تھوڑی تشریح کرنا ہوگی۔

آپ دیکھئے، توجہ سے سنئے! ایک عمومی منطقی اور نظم و ضبط والی تحریک، نظم و ضبط والی! جب میں کہتا ہوں نظم و ضبط والی تو مراد یہ ہے کہ تحریک شور شرابے، ہنگامے اور بلوے سے دور ہونی چاہئے۔ کبھی کبھی عمومی تحریکوں میں شور شرابا، ہنگامہ خیزی اور اس طرح کی دیگر چیزیں ہوتی ہیں۔ ان تحریکوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اگر صحیح، معقول اور منظم تحریک چلانی ہے تو اس کے لئے کچھ چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔

پہلی چیز جو ضروری ہے وہ ہے میدان عمل کی شناخت ہونا۔ یعنی جو لوگ تحریک چلا رہے ہیں یا اس مہم کے محور کے طور پر کام کر رہے ہیں، یا اس تحریک کی حمایت کرنے والے ہیں، انھیں حالات اور میدان عمل کا بخوبی ادراک ہونا چاہئے۔ اس میدان میں موجود عناصر سے پوری آگاہی ہونا چاہئے۔ آج آپ اپنے ملک میں، اسلامی جمہوریہ میں ایک مہم چلانا چاہتے ہیں تو آپ کو یہ معلوم ہونا ضروری ہے کہ آج پوزیشن کیا ہے۔ آپ کا سامنا کس سے ہے، آپ کس سے روبرو ہیں، کیا مواقع ہیں اور کیسے اندیشے ہیں، اس مہم کے دشمن کون لوگ ہیں، اس کے طرفدار کون ہیں؟ یہ معلوم ہونا چاہئے، اس کا علم ہونا ضروری ہے۔

اس تحریک کے لئے ایک اور لازمی عنصر یہ ہے کہ اس کی ایک واضح سمت ہونا چاہئے، ایک منطقی اور قابل قبول سمت۔ ملت ایران کی ہمہ گیر تحریک میں ہماری جو تجویز ہے اور ہم جس کی پیشکش کرتے ہیں وہ اسلامی معاشرے اور اسلامی تمدن کی سمت ہے۔ یعنی ہم اسلامی معاشرے کی تشکیل کی سمت آگے جانا چاہتے ہیں۔ ہماری تحریک اس انداز سے آگے بڑھنا چاہئے کہ سرانجام ہم کو پیشرفتہ اسلامی تمدن تک پہنچائے۔ یہ دوسرا عنصر ہے۔

تیسرا عنصر جس کی اس تحریک کو ضرورت ہے یہ ہے کہ امید کی کرن پیدا کرنے والا ایک عنصر موجود رہنا چاہئے۔ ایک روشن نقطہ بھی موجود رہنا چاہئے۔ اگر کسی بھی تحریک میں یہ امید بخش عنصر اور روشن نقطہ نہ ہو تو تحریک آگے نہیں بڑھ پائے گی۔ خوش قسمتی سے ہمارے ملک میں، ہمارے معاشرے میں، ہمارے عوام کے اندر یہ چیز پوری طرح دسترسی میں ہے۔ روشن نقطہ عبارت ہے ان قومی صلاحیتوں سے جن کی ہمیں شناخت حاصل ہوئی ہے۔ یعنی آج آپ نوجوانوں کو بھی ملت کی صلاحیتوں کا ادراک ہو چکا ہے۔ ملت ایران نے ثابت کر دکھایا کہ بڑے کارنامے وہ بنحو احسن انجام دے سکتی ہے، انجام دینے پر قادر ہے۔ ملت ایران نے انقلاب کو کامیاب کیا۔ اسلامی جمہوری نطام کی تشکیل کی۔ یہ سب معجزے کی طرح ہیں۔ کیپیٹلزم اور کمیونزم کے درمیان دو حصوں میں منقسم اس زمانے کی دنیا میں اسلامی جمہوریہ کی تشکیل کسی معجزے سے کم نہیں تھی۔ واقعی یہ بنی اسرائیل کے دریا عبور کرنے یا عصائے موسی جیسا معجزہ تھا، یہ عین معجزے کی مانند ہے۔ ملت ایران نے یہ کارنامہ انجام دیا۔ یہ بہت عظیم توانائی ہے۔ اس کے بعد وہ اس کی حفاظت میں بھی کامیاب رہی۔ دوسرے لوگوں نے بھی اس طرح کے کام ابھی چند سال قبل انجام تو دئے، آپ نے تو دیکھا ہی، شمالی افریقا کے علاقے کے بعض ممالک اسی طرح کچھ دیگر ملکوں میں یہ کام ہوا (8) لیکن وہ اسے محفوظ نہیں رکھ پائے۔ جبکہ ملت ایران اس کی حفاظت کرنے پر قادر رہی۔ ملت ایران اپنے زمانے کی سپر طاقتوں کے مد مقابل سینہ سپر رہی اور انھیں پسپائی پر مجبور کر دیا۔ یہ بذات خود امید افزا حقیقت ہے۔ تو ہمارے پاس امید کا یہ سرچشمہ موجود ہے۔ البتہ امید پیدا کرنے والے پہلو بہت سے ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے۔ ہماری امید بڑھانے والے حقائق میں سے ایک حقیقت مد مقابل محاذ کی فرسودگی ہے۔ میں پورے وثوق سے یہ بات کہتا ہوں اور اسے میں ثابت بھی کر سکتا ہوں البتہ ابھی اس کا وقت نہیں ہے، آج مغربی تمدن انحطاط کا شکار ہے۔ یعنی واقعی زوال پذیر ہے۔ عَلیٰ شَفا جُرُفٍ هارٍ فَانهارَ بِه؛ فی نارِ جَهَنَّم (۹) گہرے گڑھے کے دہانے پر ہے۔ یہ صورت حال ہے۔ البتہ معاشروں کے تغیرات و واقعات بتدریج رونما ہوتے ہیں۔ یعنی جلدی محسوس نہیں ہوتے۔ اس زوال کو خود مغربی دانشوروں نے بھی محسوس کر لیا ہے، وہ اپنی زبان سے کہہ بھی رہے ہیں، بیان کر رہے ہیں۔ یہ بھی ہمارے لئے امید افزا چیز ہے۔ مغربی تمدن، مادی تمدن ہمارے مد مقابل ہے اور فرسودگی کا شکار ہے۔ یہ امید بڑھانے والی حقیقت ہے۔ اس کے علاوہ اللہ کا اٹل وعدہ ہے کہ «اِن تَنصُرُوا اللهَ یَنصُرکُم»(۱۰) اور ظاہر ہے کہ، وَمَن اَصدَقُ مِنَ اللهِ قیلًا؟ (۱۱) اللہ سے زیادہ سچا کون ہے؟ اللہ کے وعدہ سے زیادہ سچا وعدہ کس کا ہو سکتا ہے؟ اللہ فرماتا ہے: اِن تَنصُرُوا اللهَ یَنصُرکُم، اگر آپ نے اللہ کی نصرت کی، یعنی آپ اسلام کے تمدن کی جانب، اسلامی معاشرے کی جانب اور دین خدا کے نفاذ کی سمت میں آگے بڑھیں گے تو اللہ آپ کی نصرت کرے گا، یہ امید پیدا کرنے والی چیز ہے۔ تو تیسرا عنصر یعنی سرچشمہ امید بھی موجود ہے۔

چوتھا عنصر یہ ہے کہ ہر دور میں کچھ عملی تدابیر کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہر دور میں کچھ عملی تدابیر کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ہماری بحث کا مرکزی نکتہ بھی یہی ہے۔ جو سوال آپ کرتے ہیں، یعنی نوجوان نسل ممکن ہے کہ جو سوال کرے اور یہ سوال جو ذہنوں میں پوشیدہ رہتا ہے کہ ہم ایک نوجوان کی حیثیت سے میدان عمل میں اترنا چاہتے ہیں تو اس کی عملی تدبیر کیا ہے۔ تو یہ چار عناصر جن کا میں نے ذکر کیا، یہ سارے عناصر، کسی بھی عمومی تحریک کے لئے یہ چاروں عناصر ضروری ہوتے ہیں۔ ان عناصر کو بیان کرنے کے لئے متحرک ذہن اور زبان گویا کی ضرورت ہے۔ تاہم یہ آخری چیز یعنی عملی تدابیر کا جہاں تک سوال ہے تو اس کے لئے ضرورت ہوتی ہے رہنمائی کی، یکسوئی سے کام کرنے کی، تندہی سے لگے رہنے کی، مسلسل اقدام کرنے اور ہر لمحہ محنت کی تاکہ معاشرے کے اس عظیم کارواں کو اور سب سے بڑھ کر معاشرے کی نوجوان نسل کو آگے لے جایا جا سکے۔ یہ کس کا کام ہے؟ یہ یکسوئی، لائحہ عمل تیار کرنا، تدابیر تلاش کرنا، تدابیر پیش کرنا، منصوبہ بندی کس کی ذمہ داری ہے؟ یہ درمیانی کڑیوں کی پوزیشن رکھنے والے حلقوں کی ذمہ داری ہے۔ یہ نہ تو رہبر انقلاب کا فریضہ ہے، نہ حکومت کی ذمہ داری ہے اور نہ ہی دیگر اداروں کی ذمہ داری ہے۔ بلکہ یہ خود ملت کے اندر موجود گروہوں اور حلقوں کی ذمہ داری ہے جو خوش قسمتی سے آج ہمارے یہاں کم نہیں ہیں۔ ضرورت کے گوناگوں شعبوں میں نوجوانوں کے درمیان اور عہدیداران کے درمیان مفکرین اور ممتاز نظریہ پرداز موجود ہیں۔ وہ بیٹھ کر لائحہ عمل تیار کر سکتے ہیں، منصوبہ بندی کر سکتے ہیں، رہنمائی کر سکتے ہیں۔ طلبہ یونینیں بھی اسی زمرے میں آتی ہیں۔ ثقافتی و فکری اور دیگر میدانوں میں سرگرم عمل تجربہ کار ٹیمیں بھی اسی زمرے میں آتی ہیں، جو بھی ان میدانوں میں زیادہ فعال ہوگا وہ زیادہ موثر واقع ہوگا۔ یعنی باگڈور ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو سرگرم عمل ہیں۔ تساہلی، کاہلی اور کام کا حوصلہ نہ ہونا، اس طرح کی کیفیت میں کچھ بھی ہونے والا نہیں ہے۔

میں نے یہاں کچھ نمونے نوٹ کئے ہیں، یہ نمونے ہیں ان کاموں کے جو نوجوان نسل کو معاشرے کی عمومی پیش قدمی کے عمل میں ایک محور اور مرکز کی حیثیت دلانے میں مددگار واقع ہو سکتے ہیں اور انھیں لازمی صلاحیتیں مہیا کرا سکتے ہیں۔ میں نے اس کے کچھ نمونے یہاں نوٹ کئے ہیں۔ ایک ہے ثقافتی ورکنگ گروپس کی تشکیل۔ وہی کام جو اس وقت انجام پا رہا ہے۔ یہ کام آج ہو رہا ہے۔ ان میں مصروف بہت سے افراد سے میری واقفیت ہے، بعض سے رابطہ بھی ہے۔ ثقافتی ورکنگ گروپس ملک بھر میں، مساجد میں موجود ہیں، جن دوستوں نے یہاں تقریر کی ان میں ایک صاحب نے اتفاق سے اسی بارے میں گفتگو کی۔ تو ایک کام یہ ہے۔ میں نے کچھ عرصہ قبل «از خود اقدام» کی جو بات کہی (12) اس کا تعلق اسی گروپ سے ہے۔ یعنی ثقافتی میدانوں میں سرگرم عمل ٹیمیں جو بہت گہرا اثر ڈال سکتی ہیں۔ آغاز انقلاب سے یہی ہوتا آیا ہے اور آج بھی ایسا ہی ہے۔ آج بھی آپ جہاں کہیں کوئی نوجوان گروپ دیکھیں گے، صاحب فکر اور فعال ذہن والے نوجوانوں کا گروپ دیکھیں گے جو ثقافتی شعبے میں کام کر رہا ہو، مثال کے طور پر کسی مسجد میں، کسی عزاداری کی انجمن میں، جیسا کہ احباب نے ذکر بھی کیا، وہ نوجوانوں پر کافی حد تک اثر انداز ہو سکتے ہیں، محلے پر اثر انداز ہو سکتے ہیں، اپنے رشتہ داروں پر اثر انداز ہو سکتے ہیں، طلبہ کی صنف پر اپنی گہری چھاپ چھوڑ سکتے ہیں۔ ایک پوری صنف میں ایک نیا تحرک، نیا عزم، نئی سوچ اور بصیرت پیدا کر سکتے ہیں۔

ایک اور کام ہے سیاسی سرگرمیاں انجام دینے والی ٹیموں کی تشکیل۔ البتہ میری مراد سیاسی پارٹیاں بنانا نہیں ہے۔ سیاسی جماعتی رسہ کشی میں اس حقیر کو کہیں کوئی برکت نظر نہیں آتی۔ تاہم سیاسی کام صرف جماعتی و گروہی مفادات کی تگ و دو تک محدود نہیں ہے۔ بیٹھنا، سیاسی تجزیہ کرنا، سیاسی واقعات کو پہچاننا، سمجھنا، دوسروں تک منتقل کرنا، یہ ان بنیادی کاموں میں ہے جن سے معاشرے کی کلی پیشرفت کا عمل تیز ہوتا ہے، اسے منظم شکل ملتی ہے اور مدد حاصل ہوتی ہے۔ ایک کام یہ بھی ہے۔

یونیورسٹیوں میں گول میز بحثیں اور آزادانہ تفکر کے پلیٹ فارم بنانا جسے میں بارہا ذکر کر چکا ہوں اور تاکید کرتا رہا ہوں، سفارش کرتا رہا ہوں۔ اس کام میں زیادہ پیشرفت نہیں ہوئی ہے۔ یہ کام کسے کرنا ہے؟ اگر آپ اس انتظار میں رہیں گے کہ یونیورسٹی کے چانسلر یا کلچرل ڈائریکٹر آکر یہ کام کریں تو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ یہ کام آپ خود کیجئے۔ یونیورسٹیوں میں آزادانہ تفکر کے فورم تشکیل دیجئے۔ تاہم جیسا کہ میں نے عرض کیا یہ سارے کام نظم و ضبط کے ساتھ انجام پانے چاہئے، ڈسپلن کے ساتھ، پیش بینی کے ساتھ، فعال ذہن اور زبان گویا رکھنے والے افراد کی طرف سے بخوبی مطالعے اور جائزے کے بعد انجام دئے جانے چاہئے۔ ان چیزوں سے واقعی مدد ملے گی اور ان کا اثر ہوگا۔ اس وقت وہ طلبہ جو یونینوں اور تنظیموں سے تعاون کر رہے ہیں ملک کے کل طلبہ کے مقابلے میں فیصدی کے اعتبار سے دیکھا جائے تو زیادہ نہیں ہیں۔ اگر آپ یہ کام کرتے ہیں تو اس فیصدی میں بھی یقینا اضافہ ہوگا۔ جو طالب علم فرض شناس نہ ہو یا غیر ضروری سرگرمیوں میں مصروف ہو ملک کی پیشرفت کے سلسلے میں اگر مان لیں کہ منفی اثر نہیں ڈال رہا ہے تب بھی یہ کہنا پڑے گا کہ کوئی مثبت اثر بھی نہیں ڈال سکتا۔ آپ اسی عمل سے خود کو موثر بنا سکتے ہیں۔ ایک باب یہ بھی ہے، یعنی جو تدابیر ذکر کی جاتی ہیں ان میں ایک یہی ہے۔

ایک اور تدبیر بین الاقوامی مسائل اور دنیا کے مسائل کے تعلق سے تحریک چلانے والی ٹیموں کی تشکیل ہے۔ جیسا کہ میں نے ذکر کیا، بعض گروہوں نے یہ کام انجام دئے ہیں۔ مثال کے طور پر مزاحمتی محاذ میں شامل ملکوں کے سرگرم طلبہ کو تہران میں یا بعض دیگر شہروں میں مدعو کیا، جمع کیا اور بڑے اچھے اجلاس منعقد کئے۔ ہمیں بھی اس کی خبریں موصول ہوئیں۔ اس طرح کے کام کئے جا سکتے ہیں۔ یعنی عالم اسلام کے مسائل کے سلسلے میں سرگرم عمل ہو جانا۔ کچھ ٹیمیں تشکیل دی جائیں جو ان مسائل پر کام کریں۔ غزہ کے مسئلے پر، فلسطین کے مسئلے پر، یمن کے مسئلے پر، بحرین کے مسئلے پر، میانمار کے مسلمانوں سے متعلق مسائل پر، یورپ کے مسلمانوں سے متعلق مسائل پر، فعال طلبہ کے حلقوں میں زیر بحث موضوعات میں ایک موضوع یورپ کے مسلمانوں کا ہے جو ایک طویل قصہ ہے۔ ان واقعات کا قضیہ جو بعض ملکوں میں رونما ہوئے۔ مثال کے طور پر پیرس کے واقعات جائزہ لینے اور غور کرنے کے قابل ہیں، ان کے سلسلے میں کام کیا جا سکتا ہے۔ یعنی ان واقعات کے سلسلے میں اور علاقے میں رونما ہونے والے واقعات کے سلسلے میں طلبہ کے گروپس سرگرم عمل ہو سکتے ہیں، ایک طریقہ کار یہ بھی ہے۔

ایک اور طریقہ کار علمی ٹیموں کی تشکیل اور علمی مراکز سے تعاون ہے۔ ایک اور طریقہ کار نالج بیسڈ کمپنیوں سے تعاون کرنا اور اقتصادی سرگرمیاں انجام دینا ہے۔ ایک اور بڑا اہم طریقہ کار ہے خدمات فراہم کرنا یعنی ان جہادی ٹیموں جیسے کام جو مختلف علاقوں میں جاتی ہیں۔ یہ طلبہ کے بہترین کارناموں میں سے ایک ہے۔ اسے جتنی بھی وسعت دی جائے، تقویت پہنچائی جائے، زیادہ با ہدف اور با مقصد بنایا جائے بہتر ہے۔ یہ جسم و روح کو تقویت پہنچانے اور معاشرے میں ہمہ گیر تحرک پیدا کرنے والے کام ہیں۔

عوامی انٹیلیجنس سرگرمیاں۔ بہت سے کام ایسے ہیں جو ہمارے انٹیلیجنس ادارے یا تو انجام دینے پر قادر نہیں ہیں یا اگر اس کی قدرت رکھتے ہیں تب بھی گوناگوں وجوہات کی بنا پر وہ کام ادھورے رہ جاتے ہیں اور دیکھنے میں آتا ہے کہ بعض ہوشیار اور سرگرم عمل رہنے والے افراد کے ذریعے ان کی اطلاعات فراہم ہو جاتی ہیں اور اس کا بہت اثر ہوتا ہے۔ خود ہمیں بھی بعض اوقات اطلاعات دی گئیں اور ان کا بڑا اچھا نتیجہ نکلا، اس پر کام کیا گيا تو مثبت نتیجہ برآمد ہوا۔ مثال کے طور پر اسمگلنگ کے سلسلے میں کی جانے والی خلاف قانون سرگرمیوں کی اطلاعات دینا، گوناگوں اقسام کی اشیاء کے امپورٹ کی اطلاعات دینا، اسی چیز کی مانند جس کا ذکر یہاں ہمارے ایک دوست نے ابھی کیا، کتے کی غذا وغیرہ جیسی چیزیں، کچھ ٹیمیں ان میدانوں میں کام کر سکتی ہیں۔

سماجی کام۔ آپ دیکھئے کہ اس وقت میں نے جو فہرست پیش کی اس میں اب تک سات، آٹھ، دس، بارہ طریقہ کار کا ذکر آ گيا۔ اسی طرح کے پچاس طریقہ کار ہو سکتے ہیں۔ سماجی سرگرمیاں جیسا کہ میں نے ابھی ہفت تپّے گنا مل (13) کے سلسلے میں عرض کیا کہ یہ کام طلبہ نے انجام دیا، یہ بھی اچھی ہیں۔ ٹیمیں بنائی جائیں جو آپس میں اگر ایک دوسرے سے مربوط بھی نہ ہوں تب بھی ان کی رہنمائی کی جائے، کاموں کی منصوبہ بندی کی جائے۔ ان تمام کاموں کی منصوبہ بندی نوجوانوں کے ذریعے ہونا چاہئے۔ البتہ یہ سب کچھ جیسا کہ میں نے عرض کیا اس کلی نظرئے اور کلی سمت و جہت کو مد نظر رکھ کر کیا جائے یعنی مقصد ہو اسلامی معاشرہ اور اسلامی تمدن۔ ان تمام کاموں میں منصوبہ ساز افراد، منصوبے تیار کرنے والے مراکز اور ہدایت کا کام انجام دینے والے ادارے، میں نے عرض کیا کہ رابطے کی کڑیوں سے انھیں آپس میں جوڑنا چاہئے، یہ مراکز اور ادارے بھی اس اصلی ہدف کو مد نظر رکھیں۔

اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ یہاں میں نے اس طرح نوٹ کیا ہے کہ اس عمل کا آخری ہدف فرض شناس نوجوان نسل کو ملکی انتظام کے میدان میں پہنچانا ہے۔ ایک صاحب نے شکایت کی کہ نوجوانوں کو انتظامی میدان میں اترنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔ انتظامی میدان میں کیسے اترنا ہوتا ہے؟ انھیں راستوں سے نوجوان نسل ملکی مینیجمنٹ کے پلیٹ فارم پر پہنچے گی۔ ظاہر ہے جب نوجوان نسل مینیجمنٹ کے میدان میں قدم رکھے گی اور ملک کے اعلی عہدیداران فرض شناس نوجوان نسل سے ہوں گے جن کے بارے میں میں نے کہا ہے 'حزب اللہی فرض شناس نوجوان' یعنی واقعی وہ حزب اللہی ہوں، اسم با مسمی ہوں، تو اس صورت میں ملک کی کلی پیشرفت کا عمل آگے بڑھے گا، اس میں نئی رفتار پیدا ہوگی اور کام انجام پائیں گے۔ بنابریں جہاں تک یہ سوال ہے کہ نوجوان نسل عمومی پیشرفت کے میدان میں کس طرح وارد ہو تو میری نظر میں اس کا جواب واضح ہے۔ اس کا کچھ حصہ میں نے بیان بھی کر دیا۔

البتہ ان سرگرمیوں سے طلبہ کی صنف کی علمی کاوشوں کو نقصان نہیں پہنچنا چاہئے۔ دونوں میں کوئی تضاد بھی نہیں ہے۔ یعنی یہ جو آپ کہتے ہیں کہ اسلامی ںظام کی دراز مدتی حکمت عملی ہے علمی پیشرفت، علوم کی موجودہ حدود کو عبور کرکے آگے بڑھنا، تو یہ صحیح ہے۔ ہمیں بلا شبہ علم کی نئی چوٹیوں کو سر کرنا ہے، لیکن اس طرح کی سرگرمیاں ہمارے اس مشن میں رکاوٹ نہیں بننا چاہئیں۔ دونوں میں تضاد بھی نہیں ہے۔ یہ سرگرمیاں بھی انجام دی جا سکتی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ علمی سفر کو بھی جاری رکھا جا سکتا ہے۔ یہ پوری طرح ممکن ہے کہ انسان کسی بھی علمی موضوع میں ممتاز پوزیشن رکھنے والا طالب علم بھی ہو اور ساتھ ہی (محروم علاقوں میں رضاکارانہ طور پر تعمیراتی کام کرنے والی) جہادی ٹیم کا حصہ بھی ہو۔ طلبہ یونین کا حصہ بھی ہو، خدمات انجام دینے والی ٹیموں کا رکن بھی ہو، نشر و اشاعت کے شعبے میں سرگرم عمل ہو۔

دوستوں میں سے ایک صاحب نے اخبارات و جرائد کے بارے میں ایک بات کہی۔ میرا یہ ماننا ہے کہ جو لوگ طلبہ سے متعلق اخبارات و جرائد میں لکھتے ہیں اور کام کرتے ہیں، انھیں چاہئے کہ طالب علمی کا دور ختم ہو جانے کے بعد اپنے اس مشن کو جاری رکھنے کے مقصد سے ٹیمیں تشکیل دیں۔ جو بات آپ نے کہی وہ بالکل درست ہے۔ جو لوگ اس وقت اخبارات و جرائد میں لکھتے رہے ہیں وہ بھی کسی زمانے میں طالب علم تھے۔ لیکن یہ سب اپنی طالب علمی کے زمانے میں بھی اس کام میں مصروف تھے۔ طالب علمی کے دور کے بعد وہ اخبارات و جرائد میں تصنیف یا انتظامی امور میں وارد نہیں ہوئے ہیں۔ میرے خیال میں اس میدان میں بھی کام ہو سکتا ہے۔ میں نے یہاں نوٹ کیا ہے: "طلبہ سے متعلق اخبارات و جرائد میں سرگرم قلمکاروں کا ایک نیٹ ورک تیار کرنا تاکہ بعد میں بھی نشر و اشاعت کے شعبے میں ان سرگرمیوں کو جاری رکھا جا سکے۔"

طلبہ کے تعلق سے میں دو چار جملوں میں ایک اور بات بھی عرض کرنا چاہتا ہوں۔ آپ طلبہ سے، آپ عزیز نوجوانوں سے جھنیں واقعی میں دل سے چاہتا ہوں، میری توقع یہ ہے کہ آپ خود بخود حرکت میں آئیں، خود سے عمل کریں۔ اس انتظار میں نہ رہیں کہ آپ کو کسی کام کے لئے کہا جائے۔ خاص طور پر وہ طلبہ جو ان مختلف طلبہ یونینوں میں کسی کے رکن ہیں۔ آپ خود حرکت میں آئیے۔ جو بچے اہل فکر ہیں، بعض مفکرانہ مزاج کے ہوتے ہیں، بعض میں اجرائی خصوصیت ہوتی ہے، جو بھی جس شعبے میں بھی توانائی رکھتا ہے از خود کام کرے۔ طاغوت کے زمانے میں تحریک چلانے والے مجاہدین کی طرح۔ اگر آپ کو یقین آئے تو ہم بھی کسی زمانے میں آپ کے سن میں تھے (14)۔ کسی زمانے میں عمر کے اسی پڑاؤ میں تھے۔ اتفاق سے جب ہمارا یہ سن تھا تو انقلابی تحریک چل رہی تھی۔ واقعی ان دنوں ہم خود سے حرکت میں آتے تھے۔ اپنے بارے میں بات کرنا مجھے پسند نہیں ہے تاہم یہ حقیقت ہے۔ اس زمانے میں، تحریک کے برسوں میں کوئی بھی ہماری پشت پناہی کے لئے نہیں تھا۔ نہ پارٹی تھی، نہ تنظیم تھی، نہ کسی اور کی حمایت تھی۔ بس امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) تھے وہ بھی نجف میں یا ترکی میں۔ کبھی کبھی امام کی طرف سے کوئی پیغام آ جایا کرتا تھا، کوئی اعلامیہ جاری ہو جاتا تھا تو ہماری رگوں میں خون دوڑنے لگتا تھا اور ہمیں اس سے رہنمائی ملتی تھی۔ رکاوٹیں بھی زیادہ تھیں۔ پٹائی ہوتی تھی، جیل جانا پڑتا تھا، مالی مشکلات بھی تھیں، بھوک برداشت کرنا پڑتی تھی۔ یہ ساری چیزیں بھی تھیں۔ لیکن اس کے باوجود ہم کام کرتے تھے، آگے بڑھتے رہتے تھے۔ آج کے نوجوانوں کو بھی اسی انداز سے کام کرنا چاہئے۔ طاغوتی شاہی حکومت کے دور میں مجاہدین کی تحریک کے انداز میں۔ میں نے جن کاموں کا ذکر کیا، جو فہرست بتائی اگر اس پر عمل ہو جائے تو دشمن کی سازشیں ناکام ہو جائیں گی۔ وہ فکر و نفسیات کو نشانہ بنانے والی سازش جس کی آجکل سبھی بات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ سازش سب سے پہلے نوجوان نسل کو مفلوج کرتی ہے، یعنی اس وقت ہمارے ملک کے خلاف اور انقلاب کے خلاج جو بڑی سازشیں ہو رہی ہیں ان میں اہم سازش ہے نوجوان نسل کو ناکارہ بنا دینا، اسے شہوت رانی میں مبتلا کر دینا، عبث کاموں میں الجھا دینا، جیسے کمپیوٹر گیمز اور اسی طرح کے دوسرے کاموں میں الجھا دینا، اسے منشیات میں غرق کر دینا یا اسی طرح کی دوسری حرکتوں میں پھنسا دینا۔ یہ نوجوان نسل کو ناکارہ کر دینے والی سازشیں ہیں۔ میں نے جو روش بتائی اس سے یہ سازشیں بھی بے اثر ہو جائیں گی۔ ان سرگرمیوں سے جو امید اور نشاط کا جذبہ بیدار کرنے والی ہیں نوجوان نسل کو مایوسی میں مبتلا کر دینے کی سازش ناکام ہو جائے گی۔ بنابریں ان شاء اللہ اگر آپ نوجوان ان کاموں کو انجام دیتے ہیں اور حالات کو ایک نوجوان اور حزب اللہی حکومت کے اقتدار میں لانے کے لئے سازگار بناتے ہیں تو مجھے یقین ہے کہ آپ کی جو تشویش اور فکرمندی ہے یا آپ کو جو قلق ہے وہ کافی حد تک ختم ہو جائے گا۔ البتہ یہ قلق صرف آپ کو نہیں ہے۔

آخری نکتہ جو حد درجہ اہم ہے یہ ہے کہ آپ ممکن ہے کچھ چیزوں کا مشاہدہ کریں جو آپ کے لئے ناپسندیدہ ہو۔ مثال کے طور پر کسی شخصیت کا سیاسی رجحان یا کسی شعبے میں کسی عہدیدار کے کاموں میں نقص کا ہونا آپ کے لئے نا خوش آئند ہے۔ اگر آپ ایسی سو مثالیں بھی دیکھ لیں تب بھی مایوس ہرگز نہ ہوں۔ یہ میری کلیدی اور حتمی سفارش ہے۔ ہرگز مایوس نہ ہوئیے! ہمارے لئے ساری چیزیں امید افزا ہیں، ہمارے لئے ساری چیزیں بہت اچھی نوید دے رہی ہیں۔ جیسا کہ میں نے اشارتا ذکر بھی کیا کہ ہماری قوم ایسی ہے کہ اس کے اندر اور ارد گرد خوش خبری اور نوید دینے والی چیزیں مایوس کن اور امید شکن چیزوں سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ ان نوید دینے والے عوامل پر توجہ کیجئے،  انھیں تلاش کیجئے، ان سے اپنے دلوں کو حوصلہ دیجئے، اللہ پر توکل کیجئے، اپنے قصد اور اپنی نیت کو پاکیزہ بنائیے اور یاد رکھئے کہ اللہ تعالی آپ کی مدد فرمائے گا، آپ کی دست گیری کرے گا۔ ان شاء اللہ آپ سب بشریت کے دشمنوں کا زوال دیکھیں گے۔ یعنی اسی پست امریکی تمدن اور اسرائیل کا زوال لطف خداوندی سے آپ کی نظروں کے سامنے ہوگا۔

و السّلام علیکم و‌ رحمة ‌الله و‌ برکاته

۱)  اس ملاقات کے آغاز میں کچھ طالب علموں اور کچھ طلبہ یونینوں کے نمائندوں نے اپنی آرا، تجاویز اور تنقید بیان کی۔

۲) سوره‌ انعام، آیت نمبر ۱۱۱ کا ایک حصہ

۳) حاضرین نے درخواست کی کہ افطاری کے بعد بھی رہبر انقلاب اسلامی اپنی گفتگو جاری رکھیں تو اس کے جواب میں رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا: "افطار کے بعد تقریر تو زیادتی ہوگی!"

۴) سعودی الاینس کی افواج کے ہاتھوں اور مغربی ممالک کی حمایت سے یمن کے عوام کا قتل عام

۵) ایک دہشت گرد کے ہاتھوں مسجد میں نمازیوں کا قتل عام  ہوا لیکن عالمی اداروں نے اس قتل عام کے سلسلے میں دو ٹوک انداز میں اپنا موقف نہیں بیان کیا۔

۶) نائیجیریا میں شیعوں کا قتل عام، گرفتاریاں، ممتاز رہنما شیخ ابراہیم زکزکی سمیت بڑی تعداد میں افراد کو جیلوں میں ڈال دیا جانا۔

۷) منجملہ یونیورسٹی طالب علموں اور طلبہ یونینوں کے نمائندوں کے اجتماع سے رہبر انقلاب کا مورخہ 6 اگست 2012 کا خطاب

۸) بعض عرب ممالک میں شروع ہونے والے عوامی انقلابات کی جانب اشارہ جنھیں بہار عرب کا نام دیا گيا۔

۹) سوره‌ توبہ، آیت نمبر۱۰۹ کا ایک حصہ؛ «...وہ جس نے اپنی عمارت سقوط کے دہانے سے متصل مقام پر تعمیر کی ہے اور اس کے ساتھ آتش دوزخ میں گرتا ہے۔

۱۰) سوره‌ محمّد، آیت نمبر ۷ کا ایک حصہ

۱۱) سوره‌ نساء، آیت نمبر ۱۲۲ کا ایک حصہ

12) منجملہ 21 مارچ 2018 کو مشہد مقدس میں حرم امام علی رضا علیہ السلام میں زائرین اور مجاورین کے اجتماع سے خطاب

13) تہران اور بعض دیگر شہروں کی یونیورسٹیوں کے طلبہ نے ہفت تپّے گنا مل کے ملازمین کی ہڑتال کی حمایت کا اعلان کیا۔ یہ ہڑتال چار مہینے سے رکی تنخواہوں کی ادائیگی کے مطالبے کے لئے تھی۔ مظاہرین کا یہ بھی مطالبہ تھا کہ مل کو نجی سیکٹر سے واپس لیکر گورنمنٹ کے حوالے کیا جائے۔

14) رہبر انقلاب اور حاضرین ہنس پڑے