29 مئی 2019 کو ہونے والی اس ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی نے ایران پر دباؤ بڑھانے کے مقصد سے مذاکرات کی ٹیکٹک کو آگے لے جانے کے لئے امریکہ کی فریب دہی کی کوشش کے مقابلے میں ملت ایران کی ہوشیاری کا حوالہ دیا اور فرمایا کہ اس سال کا یوم قدس گزشتہ تمام برسوں سے زیادہ اہم ہے کیونکہ امریکہ اور اس کے بعض حاشیہ بردار سنچری ڈیل کے ذریعے دنیا میں مسئلہ فلسطین کو پوری طرح بھلا دئے جانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن وہ ناکام رہیں گے (1)۔

رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ

بسم الله الرّحمن الرّحیم

الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین سیّما بقیّة الله فی الارضین.

آپ سب کا خیر مقدم ہے۔ واقعی بڑی مفید نشست ہے۔ اساتذہ، دانشوروں، ماہرین، گوناگوں شعبوں کے اہل نظر افراد، ان میں مرد حضرات اور خواتین دونوں شامل ہیں، یہ عظیم اجتماع ملک کے لئے اللہ کی ایک بڑی نعمت ہے۔ میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس سال بھی ہمیں یہ توفیق عنایت فرمائی کہ آپ کی خدمت میں حاضر ہو سکوں۔

یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور اکیڈمک بورڈ کے ارکان کے دوش پر فرائض کا جو سنگین بوجھ ہے اس کا موازنہ پورے ملک میں واقعی بہت کم ہی عہدوں اور فرائض سے کیا جا سکتا ہے۔ اگر یونیورسٹی کے استاد اور طلبہ و نوجوانوں کی تربیت کرنے والی اس ہستی کے مقام و منزلت پر توجہ دی جائے تو بہ آسانی ہر کوئی تسلیم کرے گا کہ یہ مقام و مرتبہ واقعی کم نظیر ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ بے نظیر ہے لیکن واقعی کم نظیر تو ضرور ہے۔ یہی حساس منزلت اس بات کا سبب بھی ہے یعنی اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ خود محترم اساتذہ بھی اور ہائیر ایجوکیشن مینیجمنٹ ادارے بھی زیادہ توجہ سے اور زیادہ ہوشیاری کے ساتھ عمل کریں، اقدام کریں اور فیصلہ کریں۔

جو تقاریر ہوئیں بہت اچھی تھیں۔ گوناگوں موضوعات اٹھائے گئے۔ اس حقیر کو بھی واقعی کسب فیض کا موقع ملا۔ بعض چیزیں ایسی ہیں کہ ممکن ہے انسان ان سے مطلع ہو لیکن جب وہی بات کسی دوسرے کی زبان سے سنتا ہے تو اس موضوع کی اہمیت کے بہتر ادراک میں اس سے مدد ملتی ہے۔ بہت سی چیزیں آپ نے ایسی بھی بیان کیں جو شاید ہم نے پہلی بار سنیں اور ہمارے لئے مفید باتیں تھیں۔ برادران عزیز نے بھی بہت اچھی گفتگو کی اور محترم بہنوں نے بھی جنہوں نے تقریریں کیں بہت اچھے نکات بیان کئے۔ میں نے کلیدی عناوین کو نوٹ کر لیا ہے۔ ان موضوعات پر ان شاء اللہ معمول کے مطابق ہمارا دفتر کام کرے گا۔ ہمارے ذمے جو کام ہیں وہ ہم ان شاء اللہ انجام دیں گے، جو کام دیگر اداروں کے حوالے کرنا ہیں وہ ان کے حوالے کئے جائیں گے۔ میں جو باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں ان کا ایک حصہ یونیورسٹی سے متعلق ہے اور اگر وقت بچا تو ان دنوں در پیش عالمی مسائل کے تعلق سے بھی چند جملے عرض کروں گا۔ تاہم بنیادی طور پر میری گفتگو اسی پہلے حصے سے مربوط ہے۔

یونیورسٹیوں کی پیشرفت حقیقی معنی میں بالکل واضح اور نمایاں ہے۔ اس سے ہرگز غافل نہیں ہونا چاہئے۔ میں جو اس نکتے پر اتنی تاکید کرتا ہوں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ایران ہی نہیں بلکہ دنیا میں ایک نیا سلسلہ یہ شروع ہو گیا ہے کہ وطن عزیز کی عظیم علمی تحریک کو معمولی، بے وقعت اور غیر اہم ظاہر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ آج دنیا میں اس تصور کو پھیلانے کے لئے کام ہو رہا ہے، پیسہ خرچ کیا جا رہا ہے، منصوبہ کرتے ہیں۔ اس کی ایک مثال اسٹنفورڈ یونیورسٹی کا 2040 پروگرام ہے(2)۔ اس سے یقینا آپ آگاہ ہوں گے اور نہیں ہیں تو بعد میں پتہ چل جائے گا۔ یہ سنہ 2040 کے ایران کے بارے میں ہے۔ یہ سنہ 2040 تک ایران کی جو علمی پیشرفت ہوگی اس پر سوالیہ نشان لگانے اور ایران کی یونیورسٹیوں کے عظیم کارناموں کو شک کے دائرے میں لانے کے لئے ہے۔ ایران میں بھی کچھ لوگ موجود ہیں جو ان کی آواز سے آواز ملاتے ہیں، 'ایران کے خلاف گول کرنے کے لئے انھیں پاس دیتے ہیں۔' یہاں بھی اس طرح کے کام ہو رہے ہیں۔

میرا اصرار ہے اور میری تاکید ہے کہ خباثت اور خیانت سے آمیختہ یہ مشن ہرگز درست نہیں ہے۔ یونیورسٹیوں نے حقیقت میں بہت زیادہ پیشرفت حاصل کی ہے۔ ملک کے اندر بہت بڑے کام انجام پائے ہیں۔ اگر ہم ان کا موازنہ انقلاب سے قبل کی یونیورسٹی سے کرنا چاہیں تو زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ انقلاب سے پہلے کی یونیورسٹی کے بارے میں کہنا چاہئے کہ یونیورسٹی تو تھی لیکن بہت کمزور، دنیا کے مسائل کے بارے میں بے اثر، بین الاقوامی سطح پر علم و دانش کے میدان میں بے نام و نشان، اغیار کی محتاج اور ان پر منحصر، ہمیں تعلیمی و علمی خدمات کے لئے اکثر و بیشتر غیر ملکیوں کی، اہل مغرب کی مدد لینی پڑتی تھی! وہ تو قابل ذکر ہی نہیں ہے۔ اگر آج کی یونیورسٹیوں کا موازنہ بیس سال قبل، پچیس سال قبل اور تیس سال قبل کی یونیورسٹیوں سے کیا جائے تب بھی فرق بہت واضح ہے۔ آج یونیورسٹی نے واقعی پیشرفت حاصل کی ہے۔ درجہ بندی (رینکنگ) پر کام کرنے والے اداروں کے بیانوں کے مطابق ہماری یونیورسٹیوں میں ایک اچھی تعداد دنیا کی نمایاں یونیورسٹیوں میں شمار ہوتی ہے۔ آج ہمارے ملک میں یونیورسٹیوں سے تعلیم یافتہ چودہ ملین افراد موجود ہیں۔ چودہ ملین ایک بڑی تعداد ہے۔ اس وقت ملک کی کل آبادی کا پانچ فیصدی حصہ بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ ہی یونیورسٹی طلبہ پر مشتمل ہے جو یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یہ بڑی تعداد ہے۔

الزام عائد کرتے ہیں، اب مجھے نہیں معلوم کہ آپ تک یہ خبریں پہنچی ہیں یا نہیں، یقینا آپ کو اس کی اطلاع ہوگی، ہمارے علمی کام کو بھی اور ہمارے اعلی تعلیم یافتہ افراد کو بھی مورد الزام قرار دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر کوئی سعودی ضمیر فروش مقالہ نگار ہمارے پیشرفتہ دفاعی وسائل کے بارے میں جو دنیا کے عقلمند انسانوں کو ہراساں کر رہے ہیں، مقالہ لکھتا ہے کہ یہ تو کچھ بھی نہیں ہے، یہ وسائل دوسروں کے بنائے ہوئے ہیں، ایران کے نہیں ہیں، ان کے اپنے نہیں ہیں! بالکل کچھ پتہ ہی نہیں ہے۔ وہ شخص تو اس طرح کی باتیں کرتا ہے اور غیر ملکی مقالہ نگار، امریکی یا یورپی مقالہ نگار کچھ خائن ایرانی افراد کی مدد سے یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل افراد کی اس کثیر تعداد پر، آج یونیورسٹیوں میں تدریس میں مصروف اساتذہ کی اس عظیم تعداد پر کم علمی کا الزام اور علم میں گہرائی نہ ہونے کا الزام لگاتا ہے! اگر ان کے علم میں گہرائی نہیں ہے تو اس ملک میں بیس فیصدی کے گریڈ تک یورینیم کی افزودگی کس نے کی؟ ملک میں نینو ٹیکنالوجی کو مسلسل آگے کون لے جا رہا ہے؟ اسٹیم سیلز کے شعبے میں پیشرفت جس کا ذکر آپ نے کیا کس کے ذریعے حاصل ہو رہی ہے؟ پیشرفت کے یہ مناظر آنکھوں کو خیرہ کر دیتے ہیں۔ البتہ آگاہ، با شعور اور مہارت رکھنے والے افراد کی آنکھوں کو۔ خلاصہ یہ ہے کہ یونیورسٹیوں نے بحمد اللہ بہت بڑے کارنامے انجام دئے ہیں، یہاں تک کہ یہی افراد جو بظاہر غیر سیاسی لیکن بباطن مکمل طور پر سیاسی مقاصد کے تحت وطن عزیز کے علمی امور کے بارے میں تبصرے کرتے ہیں، خود اپنی رپورٹوں میں مجبورا ملک کی علمی پیشرفت کا اعتراف بھی کرتے ہیں۔ بنابریں یہ ایک حقیقت ہے جو موجود ہے اور ہمیں اس حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے غور کرنا چاہئے، کام کرنا چاہئے اور منصوبہ بندی کرنا چاہئے۔

یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے، دوستوں میں سے ایک صاحب نے اپنی گفتگو میں ذکر بھی کیا کہ ملک کے اندر یونیورسٹی کا قیام اور اس کی منصوبہ بندی شروع ہی سے ایسی تھی کہ وطن عزیز دوسروں پر منحصر ہو جائے، ملک کی علمی خود مختاری کے لئے نہیں۔ بنیادی طور پر یونیورسٹی کی تشکیل ہی اسی نہج پر کی گئی۔ تقی  زادہ کی اسی سوچ کے مطابق کہ "ایرانی کو سراپا مغربی بن جانا چاہئے!" ملک میں اس نظر اور اس زاویہ نگاہ کے ساتھ یونیورسٹی قائم کی گئی۔ آج وہی یونیورسٹی علمی خود مختاری اور آزاد علمی پیشرفت کا پرچم لہرا رہی ہے، یہ وہی یونیورسٹی ہے۔ یہ بہت عظیم حقیقت ہے۔ ایک نکتہ یہ ہے کہ یونیورسٹی نے بحمد اللہ اس پہلو سے بھی پیشرفت حاصل کی ہے۔

البتہ یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ ان حالات میں جن کا ہم نے ذکر کیا یونیورسٹی کی پیشرفت اس طرح ہوئی ہے کہ اس کی بڑی مزاحمت بھی کی گئی۔ یعنی مختلف شعبوں میں نوجوان طلبہ کی علمی تربیت اور علمی پیشرفت ایسے عالم میں ہوئی کہ سامنے رکاوٹیں موجود تھیں۔ یعنی خود ہماری یونیورسٹیوں کے اندر ایسے افراد موجود تھے، مثال کے طور پر بعض ایسے اساتذہ تھے جو طلبہ کو اکساتے تھے کہ یہاں اپنا تعلیمی سفر جاری نہ رکھ کر بیرون ملک چلے جائیں۔ یا بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے والے طالب علم کو جس نے وہاں جاکر تعلیم حاصل کی ہے، خود کو مضبوط بنایا ہے، اب جب وہ ملک میں آکر رہنا اور خدمت کرنا چاہتا ہے، ملک کو فائدہ پہنچانا چاہتا ہے تو ایسے ضوابط، ایسے افراد اور ایسے عہدیداران کا سامنا کرنا پڑا جنہوں نے اس طالب علم کے ساتھ ایسی بدسلوکی کی کہ وہ اپنے آنے کے فیصلے پر پچھتانے پر مجبور ہو گيا۔ یہ جو باتیں میں عرض کر رہا ہوں ان کی مثالیں اور ان کے نمونے خود میرے پیش نظر ہیں۔ دنیا کے ایک پیشرفتہ ملک سے اعلی تعلیم حاصل کرنے والا ممتاز طالب علم، نامور یونیورسٹیوں میں علم حاصل کرنے والا طالب علم اپنے وطن لوٹا ہے تو بعض اوقات اس کے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا ہے یا اس کے راستے میں ضوابط و قوانین کا ایسا جال بچھا دیا جاتا ہے کہ واقعی وہ وطن واپس آنے کے فیصلے پر پشیمان ہونے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ان تمام تر رکاوٹوں کے باوجود ہماری یونیورسٹیوں نے بحمد اللہ یہ پیشرفت حاصل کی ہے۔

یونیورسٹی کی بجا طور پر تعریف اور یونیورسٹی پر فخر محسوس کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم پیشرفت کی موجودہ حد اور سطح پر مطمئن ہوکر بیٹھ گئے ہیں۔ اسی طرح اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ اس وقت ہماری یونیورسٹیوں میں کوئی خامی، کوئی نقص اور کوئی مشکل نہیں ہے۔ جی نہیں، ہم قدردانی کرتے ہیں، تعریف کرتے ہیں، اس یونیورسٹی پر فخر کرتے ہیں تاہم ساتھ ہی ساتھ ہماری یہ تاکید بھی ہے کہ پیشرفت کی موجودہ حد اور سطح ملت ایران کو اور ایرانی معاشرے کو دنیا میں اس علمی پوزیشن میں نہیں پہنچاتی جو اس کے شایان شان ہے۔ ہم ہنوز پیچھے ہیں۔ میں نے بارہا یہ بات کہی ہے(3)۔ ہمارا ملک ایک بے حد تلخ تاریخی دور میں ملک کے سیاستدانوں اور عہدیداروں کی خراب کارکردگی کی وجہ سے علمی کارواں سے کافی پیچھے رہ گیا۔ ہم اس پچھڑے پن کی بھرپائی کر رہے ہیں۔ جہاں ہمیں ہونا چاہئے اس منزل تک پہنچنے کے لئے ابھی ہمیں کافی راستہ طے کرنا ہے۔ میں نے اس سلسلے میں کچھ چیزیں نوٹ کی ہیں، اپنی گفتگو کے دوران اگر مجھے یاد آیا تو ان شاء اللہ آپ کی خدمت میں عرض کروں گا۔ علم کے میدان میں ہم اپنے شایان شان پوزیشن پر نہیں ہیں۔ ہمیں اس 'دوسرے مرحلے میں' (رہبر انقلاب اسلامی نے انقلاب آنے کے بعد چالیس سال کے دور کو پہلا قدم اور اس کے بعد شروع ہونے والے دور کو دوسرا مرحلہ قرار دیا ہے۔) خود کو نقطہ اوج پر پہنچانا ہے۔ ہمارے ایک دوست نے ابھی کہا کہ "ملک کو علمی اعتبار سے پشرفت نہیں جست لگانے کی ضرورت ہے۔" یہ بات صحیح ہے۔ ہمیں جست لگانے کی ضرورت ہے۔ البتہ یہ جست پوری طرح ممکن ہے۔ یعنی کوئی محال مطالبہ نہیں ہے۔ البتہ اس میں کچھ تکالیف ہیں، پریشانیاں ہیں، زحمتیں ہیں، تاہم ایک طرح کی شیرینی بھی ہے۔ شیریں زحمتیں ہیں۔ یہ بات تو اس سلسلے میں ہے۔

نقائص اور مشکلات کے بارے میں بھی عرض کروں کہ بے شک ہماری یونیورسٹیوں کی فضا میں مشکلات موجود ہیں۔ علم کے میدان میں بھی، ثقافت کے میدان میں بھی، تربیت کے میدان میں بھی اور مینیجمنٹ کی نوعیت میں بھی مشکلات ہیں۔ آپ سب یونیورسٹیوں کے افراد ہیں، ان مشکلات کے تعلق سے جن چند لوگوں نے یہاں گفتگو کی وہ بالکل درست اور پوری طرح آگاہانہ انتباہ ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس قضیئے کو بہت قریب سے دیکھا جا رہا ہے۔

ایک مسئلہ تعلیمی سرگرمیوں کی کوالٹی کا ہے، اس میں ضرور بہتری آنی چاہئے۔ البتہ ہم نے جو عرض کیا کہ علمی کوالٹی کے اعتبار سے ہماری سطح کافی اونچی ہے تو وہ بھی اپنی جگہ بالکل صحیح بات ہے۔ اس میں تضاد نہیں ہے۔ اس وقت ہماری یونیورسٹیوں میں ایسی ڈگریاں بھی دی جاتی ہیں جو علمی گہرائی کا آئینہ نہیں قرار پا سکتیں۔ یعنی اس کی زیادہ علمی قدر و قیمت نہیں ہے تاہم رسمی اور انتظامی اہمیت ہے۔ یعنی اگر کسی کے پاس یہ ڈگری ہے تو رسمی طور پر اور نوکری وغیرہ حاصل کرنے کے اعتبار سے اس کی اہمیت ہے، جبکہ اس ڈگری میں کہیں کوئی علمی گہرائی نہیں ہے۔

یونیورسٹی پر اپنے داخلی امور کے علاوہ سماج کے تعلق سے بھی ایک فریضہ ہے۔ داخلی فرائض میں یہی علمی تحقیقات و اختراعات، سائنسی پیشرفت، علمی تربیت وغیر ہیں۔ بیرونی فریضہ ہے پورے معاشرے میں اپنی تاثیر پھیلانا۔ یونیورسٹی خود کو معاشرے کے مسائل سے جدا اور الگ تھلگ نہیں رکھ سکتی۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے جو میں محترم اساتذہ، اپنے بھائیوں اور بہنوں کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں: کوشش کیجئے کہ یونیورسٹی سماجی مسائل میں دخیل ہو۔ البتہ میں عرض کروں گا کہ مختلف اداروں کی ذمہ داری یہ ہے کہ اس سلسلے میں یونیورسٹی سے تعاون کا مطالبہ کریں، رہنمائی کا مطالبہ کریں، کام کا مطالبہ کریں اور یونیورسٹی ان کی مدد کرے۔ لیکن وہ اداروں اور یونیورسٹی کے مابین رابطے اور رشتے کا قضیہ ہے۔ یہ بات جو میں اس وقت کہہ رہا ہوں وہ یونیورسٹیوں اور عوام کے درمیان رابطے کا مسئلہ ہے، سماج کے مسائل سے رابطے کا قضیہ ہے۔

مثال کے طور پر ہم نے سماجی مشکلات و خطرات کے بارے میں ایک اجلاس منعقد کیا۔ تقریبا دو تین سال سے تھوڑے تھوڑے وقفہ سے منظم طور پر اجلاس منعقد ہو رہے ہیں جس میں میں بھی شرکت کرتا ہوں، ملک کے اعلی حکام بھی شرکت کرتے ہیں۔ سماجی مشکلات جیسے نشہ، جیسے طلاق، جیسے مضافات میں غریب بستیوں کا مسئلہ، اس طرح کے مسائل پر ان اجلاسوں میں بحث ہوتی ہے، فیصلے کئے جاتے ہیں۔ بہت اچھا کام ہوا ہے، اچھی پیشرفت ہوئی ہے۔ یہ ہمارے سماجی مسائل ہیں۔ ان مسائل میں یونیورسٹی کیا رول ادا کر رہی ہے۔

یونیورسٹیوں اور خاص طور پر اساتذہ کو چاہئے کہ عوام سے رابطہ رکھیں۔ اس کا کیا راستہ ہو سکتا ہے؟ اساتذہ کس طرح سماجی مسائل سے اپنا رابطہ بنا سکتے ہیں؟ یہ ایسا موضوع ہے کہ جس کے سلسلے میں یونیورسٹی سے باہر کسی کو کچھ بتانے اور معین کرنے کی ضرورت نہیں ہے، مجھے بھی اس سلسلے میں کوئی نکتہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ کام خود یونیورسٹی کا ہے۔ خود یونیورسٹی میں، گروپس، علمی تحقیقاتی ٹیمیں، اکیڈمک بورڈ کے اراکین بیٹھیں، غور کریں اور دیکھیں کہ سماج کے مسائل و مشکلات سے اساتذہ کا رابطہ کیسا ہونا چاہئے اور یہ رابطہ بنانے کا طریقہ کیا ہے؟ اگر ایسا نہ ہوا اور اساتذہ نے خود کو سماج کے مسائل سے الگ تھلگ رکھا تو یہ مطالبہ کہ یونیورسٹی معاشرے کے مسائل کے حل میں اپنا کردار ادا کرے ہرگز پورا نہیں ہو سکے گا۔ اساتذہ کو معاشرے سے الگ تھلگ نہیں رہنا چاہئے۔ جیسے ہمارے ملک کے روشن خیال افراد ایک زمانے میں اسی مصیبت میں مبتلا تھے۔ روشن خیال افراد کا طبقہ اپنی تشکیل کے آغاز سے ہی خود انھیں کے بقول کسی محل کے اندر جاکر بیٹھ گیا۔ عوام الناس سے اس نے کوئی رابطہ نہیں رکھا، وہ عوام کے ساتھ نہیں آئے، اس کا اعتراف وہ خود بھی کرتے تھے۔ یہ بات انھوں نے خود کہی ہے۔ میں نے چند سال قبل یونیورسٹی کے اندر طلبہ کے درمیان یہ بات کہی (4) کہ اس ڈرامے میں جسے اس شخص نے (5) لکھا تھا اور جس کا عنوان تھا 'با کلاہ، بی کلاہ' ایک شخص کسی ایوان سے کھڑے ہوکر واقعات کو دیکھتا ہے، مسائل کا مشاہدہ کرتا ہے لیکن اس کی جانب سے کوئی بھی اقدام انجام نہیں پاتا، کوئی بھی اقدام! یہ روشن فکر ہے۔ مغربی روشن فکر جس نے مغرب سے ہی سب کچھ سیکھا ہے اس کی یہ حالت ہے، اس کا یہی کام ہے، اس کا انداز اس ڈرامے کے اسی شخص کی مانند ہے جو ایوان کے اندر سے باہری حالات کو دیکھتا ہے اور کوئی اقدام نہیں کرتا، کوئی کام نہیں کرتا۔ صرف دیکھتا ہے۔ اچھی طرح دیکھتا ہے۔ مسائل کو سمجھ بھی سکتا ہے، تشخیص کی صلاحیت رکھتا ہے لیکین کوئی جوکھم اٹھانے کے لئے تیار نہیں ہے۔ میدان عمل میں نہیں آنا چاہتا۔ اپنے لئے کوئی مشکل اور درد سر نہیں پالنا چاہتا۔ بس کبھی کبھار کوئی لفظ اس کی زبان سے نکل جاتا ہے۔ انقلاب کے دوران بھی یہ چیز دیکھنے میں آئی۔ اسلامی انقلاب میں، اس عظیم عوامی تحریک میں عوام تو صف اول میں تھے لیکن بعض روشن فکر افراد تھے جو پیچھے پیچھے چلتے تھے، بعض تو میدان میں آئے ہی نہیں، آخر تک نہیں آئے۔ ہمیں یہ نہیں ہونے دینا چاہئے کہ یونیورسٹی کے اساتذہ اور یونیورسٹی سے وابستہ اس بڑے طبقے کی وہی حالت ہو جائے۔ یعنی وہ عوام سے پوری طرح الگ ہو جائیں، عوام پر کوئی توجہ نہ دیں، عوام کے مسائل سے غافل رہیں۔

میں نے یونیورسٹیوں کے مسائل کے بارے میں چند نکات نوٹ کئے ہیں جو آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔ ایک نکتہ یہ ہے کہ پیشرفت کی ایک اہم شرط ہے امید۔ آج ملک کے اندر اور باہر ایک حلقہ ایسا ہے جو امید کا جذبہ بیدار کرنے کے بجائے مایوسی پھیلانے میں مصروف ہے۔ میں نے اپنی گفتگو کے آغاز میں بھی اشارہ کیا کہ ملک کے باہر بیٹھے ہوئے ہیں اور ایران کے مسائل کے بارے میں بحث کرتے ہیں۔ معاندانہ تجزیوں اور بسا اوقات جھوٹی خبروں، یعنی ایسی خبروں کی بنیاد پر جو حقیقت کے خلاف ہیں، وہ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ایران میں علمی تحریک آگے نہیں بڑھ پا رہی ہے اور اس کی پیشرفت کی اب کوئی امید بھی نہیں ہے۔ مایوسی پھیلانا۔ ظاہر ہے وہ بڑی کامیابیوں کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں اور اس کا طلبہ پر بھی اثر ہوتا ہے۔ مایوسی کو جنم دینے والا یہ حلقہ طلبہ کے ذہن پر اثر ڈالتا ہے۔ جب طالب علم مایوس ہو جائے تو وہ کام نہیں کرتا۔ اگر ممتاز صلاحیت رکھنے والا الیٹ طالب علم ہے، ایک محدود تعداد ایسی بھی ہے، جس کے پاس توانائی ہے، وسائل فراہم ہیں تو وہ ملک چھوڑ کر باہر چلا جاتا ہے اور پھر مڑ کر نہیں دیکھتا۔ تاہم بیشتر طلبہ کے پاس یہ وسائل نہیں ہیں تو وہ مایوس ہو جاتے ہیں اور رسمی طور پر اعتبار رکھنے والی ایک ڈگری کی فکر میں لگ جاتے ہیں خواہ اس کی کوئی خاص علمی اہمیت نہ ہو۔ مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ کوئی نوکری مل جائے، کوئی روزگار حاصل ہو جائے۔ ایسی صورت میں علمی تحریک آگے نہیں بڑھے گی۔ مایوسی کا یہ نتیجہ ہوتا ہے۔ اس کا طالب علم پر اثر پڑتا ہے۔ اساتذہ پر اس کا اثر کم ہوتا ہے لیکن بعض اوقات یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ استاد بھی اس سے متاثر ہے۔ یعنی یہ پروپیگنڈا استاد کو بھی جو در حقیقت یونیورسٹی کے اندر میدان عمل میں کھڑا ہے اور یونیورسٹی کے امور اس کے ہاتھ میں ہیں، یونیورسٹی کی علمی پیشرفت کی جانب سے مایوس کر دیتا ہے۔ مایوسی پھیلانا بہت خطرناک کام ہے۔ اغیار اور غیر ملکی افراد جب یہ باتیں کرتے ہیں تو وہ خاص منصوبے کے تحت کرتے ہیں۔ آپ دیکھئے کہ انھوں نے مقالہ جات لکھے ہیں اور اپنے مقالوں میں صراحت کے ساتھ کہتے ہیں کہ ایران کی علمی پیشرفت تشویشناک ہے۔ یہ بات صریحی طور پر لکھ رہے ہیں: "ایران کی علمی پیش رفت تشویش کا سبب ہے۔" کس کی تشویش کا سبب ہے؟ ظاہر ہے کہ استعماری طاقتوں، جارح قوتوں اور تسلط پسند نظاموں کی تشویش کا سبب ہے جن کی زندگی کمزوروں پر تحکمانہ تسلط قائم رکھنے پر ٹکی ہوئی ہے۔ ان سے دیکھا نہیں جا رہا ہے کہ ایران جیسے بے حد حساس علاقے میں ایک معاشرہ خود کو کمزوری سے باہر نکال کر مستحکم اور طاقتور پوزیشن میں پہنچا رہا ہے۔ یہ ان کی تشویش کا سبب ہے۔ یہ لوگ بڑی آسانی سے کامیابیوں کو اور بڑی پیشرفت کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور بعض افراد ہیں جو واقعی بھول جاتے ہیں۔ میں اس شخص اور اس استاد پر جس کے بارے میں ہمیں اطلاع ملتی ہے، رپورٹیں ملتی ہیں کہ فلاں صاحب کلاس کے اندر یا طلبہ سے ملاقات میں مایوسی پھیلانے والی باتیں کرتے ہیں، واقعی بہت تعجب کرتا ہوں کہ کیسے یہ لوگ ملک کی عظیم پیشرفت کو دیکھ نہیں پا رہے ہیں۔ ملک کی یہ عظیم پیشرفت، یہ عظیم علمی تحریک جو خاص طور پر دو عشروں کے دوران تقریبا سترہ اٹھارہ سال سے شروع ہوئی ہے اور جس نے عالمی سطح پر علم کی پیداوار اور نئی اختراعات میں ایران کی شراکت کو بڑھایا ہے اور ایران کی علمی توانائیوں کو ساری دنیا میں متعارف کرایا ہے، کیسے ان افراد کو نظر نہیں آتی اور مایوسی و قنوطیت سے وہ متاثر ہو جاتے ہیں؟ یہ حیرت کی بات ہے۔

یہ جو میں علمی پیشرفت کی بات کرتا ہوں، یہ صرف ہمارا دعوی نہیں ہے۔ البتہ ہم نے یہ بات مختلف برسوں میں اس نشست میں عرض کی ہے(6)۔ یہ دنیا میں سائنسی پیشرفت کے اعتبار سے درجہ بندی کرنے والے مراکز کا بیان ہے، انھوں نے ایک زمانے میں کہا کہ علم کے میدان میں ایران کی پیشرفت کی رفتار دنیا کی اوسط رفتار سے تیرہ گنا زیادہ ہے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ علمی پیشرفت کی رفتار دنیا کی اوسط رفتار سے تیرہ گنا زیادہ۔ انسان سائنس کے میدان میں بعض شعبوں بہت بلند علمی و سائنسی پوزیشن کا مشاہدہ کرتا ہے، سنگل دیجٹ پوزیشن، مثال کے طور پر چوتھا نمبر، پانچواں یا چھٹا نمبر۔ بعض شعبوں میں مجموعی طور پر دنیا میں ہماری پوزیشن سولہویں یا پندرہویں ہے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ اسے نہیں دیکھتے۔ ان کامیابیوں کا مشاہدہ نہیں کرتے۔ لہذا ہماری ایک گزارش یہ ہے کہ ایسے پروگرام ترتیب دئے جائیں کہ علمی میدانوں میں یونیورسٹیوں کی قابل قدر کامیابیاں نگاہوں کے سامنے آئیں، سب دیکھیں۔ استاد اور طالب علم کے لئے علمی گشت کا پروگرام رکھا جائے جس کے تحت وہ مختلف میدانوں میں علمی گشت لگائیں، علمی پیشرفت کو دیکھیں، اس کا قریب سے مشاہدہ کریں۔ مثال کے طور پر کبھی کسی انڈسٹری کی مصنوعات کی نمائش لگائی جاتی ہے، سب جاتے ہیں دیکھتے ہیں اور باخبر ہوتے ہیں۔ اسی طرح علمی پیشرفت کو بھی متعارف کرائیں تاکہ سب دیکھیں۔ یہ بھی واضح کر دیں کہ یہ کارنامہ کس کا ہے، کن برسوں میں اور کتنی مدت میں یہ پیشرفت حاصل ہوئی ہے۔ تاکہ امید پیدا ہو۔ میں امید کے موضوع پر خاص تاکید کرتا ہوں۔ میری گزارش یہ ہے کہ برادران عزیز، خواہران گرامی، محترم اساتذہ اسے درس کی کلاسوں میں، طلبہ سے روبرو ہوتے وقت ضرور مد نظر رکھیں۔ اس انداز سے پیش آئیں کہ نوجوان کے اندر امید کا جذبہ بیدار ہو۔ دشمن مایوسی پھیلانا چاہتا ہے اور افسوس کا مقام ہے کہ ملک کے اندر ایک رجحان ایسا بھی ہے جو دشمن کی مدد کر رہا ہے۔ یہ چیز موجود ہے۔ اس خائن اور خبیث رجحان کے مد مقابل ڈٹ جائیے اور امید کا جذبہ پیدا کیجئے۔ یہ پہلا نکتہ۔

دوسرا نکتہ: ہم نے 'مفید علم' کے بارے میں بہت گفتگو کی (7)۔ یونیورسٹی سے متعلق افراد اور طلبہ سے مختلف ملاقاتوں میں ہم نے اس کے بارے میں بحث کی۔ نفع بخش علم کا مطلب وہ علم و سائنس ہے جو ملکی مسائل کو حل کرے۔ ملکی مسائل کا حل ہے علم نافع۔ یعنی ملک کے اندر جو گوناگوں مسائل موجود ہیں ان سے علمی و سائنسی روش سے نمٹا جائے۔ ہماری مشکل صرف صنعتی میدان کی مشکل نہیں ہے۔ بے شک صنعت اور یونیورسٹی کے باہمی رابطے کا مسئلہ بہت اہم اور خاص تھا چنانچہ کافی پہلے ہم نے اس پر تاکید کی۔ میں نے اس وقت کے صدر محترم سے بات کی جس کے نتیجے میں سائنس و ٹیکنالوجی کے امور میں صدر جمہوریہ کے معاون کا عہدہ قائم کیا گيا تاکہ صنعت اور یونیورسٹی کے درمیان علمی رابطہ پیدا ہو(8)۔ یہ صنعت سے متعلق اقدام تھا، لیکن یہ صرف صنعت تک محدود نہیں ہے۔ مختلف اور گوناگوں شعبوں میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو نظروں سے پوشیدہ ہیں۔ مثال کے طور پر اقتصادیات کے شعبے میں کچھ دیرینہ بیماریاں ہیں جیسے پروڈکٹیوٹی کا کم ہونا۔ ہماری معیشت کی ایک بڑی مشکل سرگرمیوں کی پروڈکٹیوٹی کا کم ہونا ہے۔ اس مشکل کو علمی طریقے سے حل کیا جا سکتا ہے۔ اس پر علمی کام ہونا چاہئے۔ اس کا سائنسی حل موجود ہے۔ مثال کے طور پر انرجی کے استعمال میں اسراف کا مسئلہ ہے، ہمارے یہاں توانائی کا استعمال دنیا کے اوسط استعمال سے کئی گنا زیادہ ہے۔ یہ بہت بڑا نقصان اور گھاٹا ہے، اس کا کوئی حل ہونا چاہئے۔ البتہ یہ بات میں نے چند سال قبل اپنی تقریر میں کہی تھی (9)، لیکن کہہ دینے اور نصیحت کر دینے سے تو مسئلہ حل ہو نہیں جاتا۔ اس کے لئے علمی راہ حل تلاش کرنا چاہئے اور معین کرنا چاہئے۔ اس مسئلے میں اور اسی طرح کے دیگر مسائل میں یونیورسٹی کی مدد لی جانی چاہئے۔

یا مثال کے طور پر تیل پر ہماری معیشت کے انحصار کا مسئلہ ہے، اقتصادیات کے سرکاری ہونے کا مسئلہ ہے، ٹیکس کے نظام کی مشکلات ہیں، بجٹ کے نظام کی مشکلات ہیں، یہ سب مشکلات ہیں۔ ان تمام میدانوں میں حکومتی اداروں اور یونیورسٹی کا رابطہ بہت ضروری ہے۔ مثال کے طور پر پابندیوں کو ناکام بنانے کے منصوبے ہیں۔ ہمارا ملک دنیا کا واحد ملک نہیں ہے جس پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ ایسے بہت سے ممالک ہیں۔ پابندیوں سے نمٹنے کا طریقہ ہوتا ہے، منصوبے ہوتے ہیں۔ پابندیوں کا علمی طریقے سے مقابلہ کیا جاتا ہے۔ اس راہ حل کو تلاش کرنا چاہئے، اس کی جستجو کرنا چاہئے اور اس کی نشاندہی کرکے عہدیداران کے سامنے پیش کرنا چاہئے۔ یا پابندیوں کو بہترین انداز میں استعمال کرنے کا مسئلہ ہے۔ پابندیاں بیشک کچھ مشکلات اور درد کا سبب بنتی ہیں لیکن اس کے کچھ فوائد اور منفعتیں بھی ہیں جو ہمیں اس کے لئے مجبور کرتی ہیں کہ اپنی داخلی توانائیوں پر توجہ دیں۔ تو یہ ایسے کام ہیں جو انجام دئے جا سکتے ہیں۔ یا یہی پیداوار کے فروغ کا مسئلہ ہے جسے ہم نے اس سال کا نعرہ منتخب کیا ہے، اس کے علمی طریقے ہیں، ان کا یونیورسٹی کے اندر جائزہ لیا جانا چاہئے۔ اس کے لئے محکم قوت ارادی ضروری ہے۔

ان مسائل میں یونیورسٹی کے اساتذہ، محققین، علما و فضلا کی خدمات حاصل کرنے کے لئے لائحہ عمل طے کیا جانا چاہئے۔ یعنی ایسا کوئی نظام تیار کیا جائے جو واضح کرے کہ کس طرح وہ ان مسائل میں مداخلت کریں۔ یہ نظام تیار کرنا بھی خود یونیورسٹی کا کام ہے۔ مثال کے طور پر صنعت کے تعلق سے ایک تجویز یہ ہے کہ کسی صنعتی مرکز میں اساتذہ کو تحقیق کا موقع فراہم کیا جائے تاکہ متعلقہ استاد اس صنعتی مرکز میں جائے اور وہاں کے مسائل سے بخوبی آگاہ ہو، مشکلات کا مشاہدہ کرے۔ یہ غالبا چند ہفتے قبل کا ذکر ہے (10) ہم نے یہ بات کی کہ مختلف ادارے اپنی علمی و سائنسی ضرورتوں کی فہرست تیار کریں۔ خوش قسمتی سے وزارت صنعت نے فہرست تیار کرکے پیش کر دی، قومی میڈیا میں اسے دکھایا بھی گیا۔ بہت اچھی بات ہے۔ وزارت صنعت کہہ رہی ہے کہ اسے یہ مشکلات در پیش ہیں، ہمارے سامنے یہ مسائل موجود ہیں، ہماری یہ ضرورتیں ہیں۔ اب یونیورسٹی کو آگے آنا چاہئے۔ آپ بھی پیش کیجئے۔ وزارت علوم ایک صحیح انتظامی تدبیر کے ساتھ اس مسئلے کو سنبھالے اور نشاندہی کرے کہ وزارت صنعت کی طرف سے مدد کی اس درخواست کے جواب میں یونیورسٹی کیا کر سکتی ہے۔ یہ صنعت کے لئے بھی مفید ہوگا اور خود یونیورسٹی کو بھی اس سے فائدہ پہنچے گا۔ ہم نے عرض کیا کہ نفع بخش علم ملک کی ضرورت ہے اور مختلف شعبوں میں، خواہ وہ صنعتی شعبہ ہو، اقتصادی شعبہ ہو، زراعت کا شعبہ ہو یا دیگر گوناگوں انتظامی شعبے وغیرہ ہوں جہاں کہیں بھی پوشیدہ مشکلات ہیں یونیورسٹی کی تحقیقات کے ذریعے اور یونیورسٹی کے ریسرچ پیپر کے ذریعے انھیں روشنی میں لایا جائے۔ اس سے بہت مدد ملے گی۔ یہ ہوگا نفع بخش اور مفید علم۔ ہم یہ بات کہہ چکے ہیں اور اس وقت ایک بار پھر عرض کر رہے ہیں، دہرا بھی رہے ہیں، اس پر تاکید بھی کر رہے ہیں۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ عمیق اور دراز مدتی تحقیقات پر بھی ضرور توجہ دی جائے۔ بہت سے نہایت اہم کام ایسے ہیں جن کا فوری فائدہ نہیں ملتا، فوری نتیجہ حاصل نہیں ہوتا لیکن وہ ملک کی علمی پیشرفت کی بنیاد بنتے ہیں اور زمین ہموار کرتے ہیں۔ یعنی محقق اور سائنسداں کو یہ موقع ملنا چاہئے، اسے اتنی فرصت ہونی چاہئے کہ بلند پروازی کر سکے۔ علمی میدانوں میں عمیق اور بنیادی تحقیقات اس کے مد نظر ہوں اور وہ کام کر سکے۔ مختصر یہ کہ دو رجحان ایک ساتھ موجود ہیں۔ علم نافع جسے ہم کہتے ہیں ضروری نہیں ہے کہ اس کا فوری فائدہ ملے بلکہ ایک قسم یہ بھی ہو سکتی ہے، وہ کلیدی اور اساسی علمی کاموں کا ایک رجحان ہو سکتا ہے۔

اسی ضمن میں میں فنڈامنٹل ریسرچ کا بھی ذکر کرتا چلوں۔ اس سے پہلے بھی میں ایک دو دفعہ یونیورسٹی سے متعلقہ افراد سے اپنی ملاقات میں اس موضوع کو اٹھا چکا ہوں (11)۔ بنیادی ریسرچ کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ چونکہ اس کا فوری فائدہ اور فوری نتیجہ نہیں ملتا اس لئے اس کی جانب طلبہ کا رجحان اور موضوعات منتخب کرنے والے افراد کا رجحان کم ہوتا ہے۔ ایسی تدابیر اختیار کی جائیں کہ بیسک ریسچ کی جانب طلبہ کے رجحان اور ان کی دلچسپی میں اضافہ ہو۔ بیسک ریسرچ کے لئے حکومت کی طرف سے سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ جب حکومتوں کو مالی مشکلات در پیش ہوتی ہیں تو سب سے پہلے جن چیزوں کا بجٹ کاٹا جاتا ہے ان میں یہی علم و ثقافت کا شعبہ ہے۔ اس میں کوئی مشکل اور کوئی درد سر نہیں ہے۔ پہلے ان شعبوں کا بجٹ کاٹتے ہیں۔ آکر مجھے بتایا کہ اس سال علمی شعبوں کا بجٹ پچاس فیصدی کم کر دیا گيا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک کی پچاس فیصدی علمی سرگرمیاں روک دی جائیں۔ حکومت کو چاہئے کہ مدد کرے، اسی طرح مفکرین اور دانشور حضرات بھی مدد کریں۔ تعلیم و تربیت کے شعبے کی بھی اس سلسلے میں ذمہ داریاں ہیں۔ تدریسی اور تعلیمی رہنمائی کی جانی چاہئے تعلیم و تربیت کے شعبے کی طرف سے۔ نوجوان کو اس طرح آگے بڑھایا جائے اور اس طرح اس کی رہنمائی کی جائے کہ وہ بیسک ریسرچ کی جانب مڑے اور اس طرح کے میدانوں میں کام کرے۔ ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے جسے میں نے یہاں پر نوٹ کیا ہے۔

فنڈامینٹل ریسرچ کے شعبے میں ہمیں دائمی طور پر سرمایہ کاری کرنا چاہئے۔ ہمارا پروگرام اختراعی پہلو کا حامل ہونا چاہئے۔ یعنی ہم دنیا کے ان حقائق کی جانب اپنی تحقیق کو لے جائیں جو دنیا میں ہنوز منکشف نہیں ہوئے ہیں۔ عالم ہستی میں بے شمار حقائق ہیں جو ہنوز نا شناختہ ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ مثلا الیکٹریسٹی پاور اچانک پیدا ہوا ہو۔ یہ پاور دنیا کی تخلیق کے وقت سے ہی موجود تھا۔ تاہم کچھ لوگوں نے بلند ہمتی کا مظاہرہ کیا، دانشمندی کا مظاہرہ کیا اور اس نہفتہ راز کا پتہ لگا لیا۔ ہمیں عالم وجود کے غیر منکشف اسرار کی  تلاش میں رہنا چاہئے۔ ہمارا ایک بنیادی کام یہی ہے۔ بیسک ریسرچ اور  فنڈامینٹل ریسرچ پر توجہ دینے کی خصوصیت یہی ہے کہ وہ سائنسدانوں کی صنف کو غیر منکشف اسرار و حقائق کی جانب لے جاتی ہے۔ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ ہم صرف ان حقائق کے ارد گرد گھومتے رہیں جن کا انکشاف ہو چکا ہے اور جنھیں دوسروں نے پہلے سے دریافت کر لیا ہے۔

ایک اور مسئلہ یونیورسٹیوں کے ایویلوئیشن اور درجہ بندی کا ہے۔ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ ہماری اس بات کا تعلق ہائير ایجوکیشنل مینیجنگ انسٹی ٹیوٹس سے ہے۔ یعنی وزارت علوم، وزارت صحت، سپریم کونسل برائے ثقافتی انقلاب اور دوسرے گوناگوں انتظامی اداروں سے ہم یہ بات کہہ رہے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی یونیورسٹیوں کا ایویلوئیشن بھی کریں، البتہ بین الاقوامی ایویلوئیشن موجود ہے وہ بھی اپنی جگہ درست ہے لیکن بین الاقوامی سطح پر یونیورسٹیوں کا ایلویلوئیشن بسا اوقات ہمارے داخلی حالات، وسائل اور روایات کو مد نظر رکھ کر نہیں کیا جاتا۔ ایسی چیزوں کو مثبت پوائنٹ کے طور پر دیکھتے ہیں جنھیں شاید ہم سرے سے قبول ہی نہ کرتے ہوں۔ ملک کے اندر خود ہمیں بھی رینکنگ کرنا چاہئے، پوائنٹ دیں، یونیورسٹیوں کے اوصاف کا تعین کریں۔ البتہ ان اوصاف میں سے ایک ثقافتی پہلو بھی ہے جس پر میں بعد میں مختصر گفتگو کروں گا۔ ہمیں یہ کام کرنا چاہئے تاکہ ان کی رینکنگ معلوم ہو سکے۔ اس سے یونیورسٹیوں کے درمیان مثبت مقابلہ آرائی شروع ہوگی۔ درجہ بندی بھی کریں اور ایویلوئیشن بھی کریں۔ مثال کے طور پر ہم یہ کہیں کہ اس یونیورسٹی کی کارکردگی بہت اچھی رہی، اس نے بڑی اچھی پیشرفت حاصل کی۔ یونیورسٹیوں کو نمبر دیں۔ یہ میرے خیال میں ہائیر ایجوکیشنل مینیجمنٹ کی سطح پر انجام پانے والے لازمی کاموں میں ہے، اسے انجام دیا جانا چاہئے۔ اس سے کوالٹی بھی بڑھے گی اور مسابقتی کیفیت بھی پیدا ہوگی۔

میں نے یہاں ایک بات اور بھی نوٹ کر رکھی ہے وہ بھی عرض کر دوں کہ یونیورسٹی میں دیندار اور انقلابی اساتذہ کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ ہماری یونیورسٹیوں کے اساتذہ میں کثیر تعداد انقلاب کو دل کی گہرائیوں سے ماننے والے اور چاہنے والے اساتذہ کی ہے جو دیندار ہیں اور تمام شعبوں اور میدانوں میں انقلاب کی پیشرفت دیکھنا چاہتے ہیں۔ میرے خیال میں ان انقلابی اساتذہ کو چاہئے کہ کمر ہمت کسیں اور ملک کے اندر یہ نئی مہم شروع کر دیں۔ یہ میرے خیال میں بہت اہم ہے۔ بعض ثقافتی مشکلات کی وجہ سے یونیورسٹی کا ماحول وہ نہیں ہے جو اسلامی نظام اور اسلامی جمہوریہ کو مطلوب ہے۔ یعنی ایسا بہت ہوتا ہے کہ مذہبی پس منظر، انقلابی پس منظر اور اچھے فکری پس منظر والا نوجوان یونیورسٹی میں پہنچتا ہے مگر جب فارغ ہوکر نکلتا ہے تو ان میں سے بہت سے پس منظر سے خالی ہوتا ہے۔ یہ چیز ہو رہی ہے۔ یہ ہماری یونیورسٹیوں کی پرانی میراث کی دین ہے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ شروع ہی سے ہمارے ملک میں یونیورسٹی کا قیام اس لئے نہیں تھا کہ وہاں دینداری اور فکری و ثقافتی خود انحصاری پروان چڑھے، بلکہ اس کے برعکس ہوا اور یہ چیز آج بھی بد قسمتی سے ہماری یونیورسٹیوں میں موجود ہے۔ آپ انقلابی و دیندار اساتذہ کو ایسا کچھ کرنا چاہئے کہ یونیورسٹی میں انقلابی، فکری اور اسلامی رجحان ایک غالب اور اکثریتی رجحان بن جائے۔

اس کے لئے یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ پولیس اور سیکورٹی کو استعمال کیا جائے۔ کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ کام ایک انسانی کام ہے، اسلامی کام ہے، ثقافتی کام ہے، یہ رجحان سازی کا معاملہ ہے۔ بے شک طلبہ کے کچھ سوالات ہوں گے، وہ نوجوان ہیں، انقلابی اساتذہ ان سوالوں کے جواب دیں۔ گزشتہ ہفتے (12) طلبہ کی ایک تعداد یہاں تھی، ان میں سے کچھ نے تقریریں بھی کیں۔ یہی طلبہ کے سوالات ہیں، طلبہ کے سوالات ایسے ہی ہوتے ہیں۔ ان سوالات کا جواب دیا جانا چاہئے۔ جواب دینے کی بہترین جگہ یونیورسٹی ہے، درس کی کلاس ہے۔ جواب دینے والا سب سے بہتر اور سب سے موزوں شخص خود آپ ہیں، یونیورسٹی کے اساتذہ۔ مختلف میدانوں کے بارے میں نوجوان کے ذہن کو کھولئے۔

یونیورسٹی میں رجعت پسندانہ روش کا بھی مقابلہ کرنا چاہئے، نادرست افکار کا بھی مقابلہ کیا جانا چاہئے، منحرفانہ سوچ کا بھی مقابلہ کیا جانا چاہئے۔ آج یونیورسٹیوں میں بائیں بازوں کی مارکسی سوچ کے لوگ بھی بولنے کی ہمت کر رہے ہیں۔ مارکسی سوچ کے اصلی و بنیادی مظاہر دنیا کے حقائق اور زمینی سچائیوں کے دباؤ میں منہدم ہو چکے ہیں، نابود ہو چکے ہیں۔ سوویت یونین کو امریکہ نے تباہ نہیں کیا، سوویت یونین کو مارکسی فکر کی غلط بنیادوں کی وجہ سے نابودی سے دوچار ہونا پڑا۔ بے شک امریکیوں نے اس کا فائدہ اٹھایا، مغربی ممالک نے اس کمزوری کو استعمال کیا۔ یہ بنیادیں نابود ہو چکی ہیں اس کے باوجود آج کچھ لوگ ہیں جو بائیں بازو کے مارکسی نعرے لگاتے ہیں۔ البتہ یہ کوئی سنجیدہ لوگ نہیں ہیں۔ میرے خیال میں تو آجکل جو لوگ بائیں بازو اور مارکسی مسائل کے بارے میں باتیں کرتے ہیں، وہ لوگ ہیں کہ جن کی باتوں کی گہرائی میں جانے پر یہی نظر آتا ہے کہ وہ امریکہ کے بائیں بازو کے نظریات رکھنے والوں جیسے ہیں۔ بالکل ان افراد کی مانند جن کا ظاہر تو لفٹسٹ لوگوں جیسا تھا لیکن باطن امریکی اور مغربی تھا۔ یہ لوگ بھی ایسے ہی ہیں۔ ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے۔

ایک اور نکتہ جو میں آپ کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یونیورسٹیوں کے ثقافتی ماحول سے متعلق ہے، ثقافتی سرگرمیوں کے فروغ سے متعلق ہے۔ یہ ضروری چیز ہے لیکن اس پر توجہ نہیں دی جاتی۔ بعض یونیورسٹیوں میں تو سرے سے ثقافتی سرگرمیاں ہو ہی نہیں رہی ہیں۔ یہ ایک کمی ہے۔ عزیز بھائیو اور بہنو! یونیورسٹی کی غرض و غایت صرف یہ نہیں ہے کہ نوجوان کو اطلاعات دے دی جائيں۔ مقصد نوجوان کی تعمیر کرنا ہے، اسے ایک عالی صفت انسان بنانا ہے جو علم کے ہتھیار سے لیس ہو۔ بنابریں اخلاقیات، تربیت اور طرز زندگی بھی ان چیزوں میں ہیں جو یونیورسٹی کے اندر علم کے ساتھ نوجوان کو ضرور دی جانی چاہئیں تاکہ اس کی شخصیت کی تعمیر ہو۔ یہ بہت ضروری چیز ہے۔ یونیورسٹیوں کو ثقافتی اعتبار سے مستغنی کرنے کی ضرورت ہے۔ یونیورسٹی میں ثقافتی استغنا پیدا کرنا ضروری ہے۔ البتہ بعض یونیورسٹیوں میں کسی حد تک ہے بھی تاہم بعض میں نہیں ہے اور بعض میں تو اس کے برعکس حالات ہیں۔ نوجوان کی تربیت ایسی ہو کہ وہ انقلابی، مومن، پاکیزہ سرشت، ملک کا شیدائی اور عوام کی خدمت کا جذبہ رکھنے والا بنے۔ اگر وہ ایسا نوجوان بن کر نکلے جسے ذمہ داری کا احساس نہیں ہے ملک کے مستقبل سے اسے کوئی دلچسپی نہیں ہے تو اگر اعلی تعلیم لیکر یونیورسٹی سے نکلتا ہے تب بھی اس کا کیا فائدہ ہوگا؟ ایک نکتہ یہ ہے۔ البتہ یونیورسٹی کے مسائل کے بارے میں چند نکات اور بھی ہیں لیکن اب وقت نہیں بچا ہے لہذا عرض نہیں کروں گا۔ اپلائیڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی یونیورسٹی کا مسئلہ ہے، ٹیچرز ٹریننگ یونیورسٹی کا مسئلہ ہے جس کے بارے میں کچھ باتیں عرض کرنا تھیں، انٹر سبجیکٹ ریسرچ کا مسئلہ ہے جس کے بارے میں دوستوں میں سے ایک صاحب نے گفتگو بھی کی اور کہا کہ ان علوم سے استفادہ کرنا، ان علوم کا باہمی تعاون بہت سے فائدے پہنچا سکتا ہے۔ بالکل صحیح بات کہی ہے۔ آج دنیا میں اسی بنیاد پر انٹر سبجیکٹ ریسرچ کو فروغ ملا ہے۔ مختلف علمی میدانوں کے ماہرین ایک ساتھ بیٹھتے ہیں اور بڑے عظیم کام انجام دیتے ہیں۔  

بین الاقوامی سیاست کے تعلق سے جو باتیں بیان کرنا ہیں ان کے بارے میں میں بس چند جملے عرض کرنا چاہوں گا۔ اس سلسلے میں میری گفتگو زیادہ طولانی نہیں ہوگی۔ مذاکرات کے تعلق سے جو بات ہو رہی ہے، غیر ملکی جس کے بارے میں مسلسل بیان دے رہے ہیں، اخبارات لکھ رہے ہیں، پروپیگنڈا کرنے والے مذاکرات کی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔ وہ جو کہتے ہیں کہ ایران کو مذاکرات کی میز پر لوٹنا چاہئے اس سے مراد ہے امریکی حکومت سے مذاکرات۔ ورنہ دیگر ممالک کے ساتھ، یورپی ممالک کے ساتھ تو ہمارے مذاکرات چل ہی رہے ہیں۔ اس میں ہمیں کوئی مشکل ہی نہیں ہے۔ ہاں یورپیوں سے اور دوسرے ممالک سے ہمارے جو مذاکرات ہو رہے ہیں وہ آئندہ مذاکرات کے موصوع کا تعین کرنے کے بارے میں ہیں۔ ہم ہر موضوع کے بارے میں مذاکرات نہیں کر سکتے۔ انقلاب کی عزت و ناموس کا جہاں معاملہ ہو، میں یہ اصطلاح استعمال کر رہا ہوں جو زیادہ واضح اور روشن ہے، وہاں ہم کسی سے کوئی بات نہیں کریں گے۔ اپنی عسکری توانائیوں کے بارے میں ہم کسی سے کوئی بات نہیں کریں گے۔ اس لئے کہ مذاکرات کا مطلب ہوتا ہے سودا کرنا۔ یعنی مثال کے طور پر وہ کہتے ہیں کہ "آپ مان جائیے اور آپ کے یہ دفاعی وسائل جو ہیں جن سے آپ اتنے طاقتور بن گئے ہیں اور جن کی وجہ سے آپ اپنے دفاع پر قادر ہو گئے ہیں، انھیں ضائع کر دیجئے!" ظاہر ہے کہ اس پر تو کوئی بات نہیں ہو سکتی۔ اس طرح کے مسائل کے بارے میں مذاکرات دو جملوں سے زیادہ آگے نہیں بڑھیں گے۔ "وہ مطالبہ کریں گے کہ ہمیں یہ چاہئے اور ہمارا جواب یہ ہوگا کہ ہمیں ہرگز قبول نہیں ہے۔" مذاکرات اس سے آگے نہیں بڑھ پائیں گے، سودا نہیں ہو پائے گا۔ بالکل اسی منگنی کی رسم والے حالات ہوں گے کہ سوال کیا گيا کہ آپ کی منگنی کا قضیہ کہاں تک پہنچا؟ جواب دیا کہ سب کچھ ہو چکا ہے بس دو جملے باقی رہ گئے ہیں۔ وہ دو جملے یہ ہیں کہ ہم کہہ رہے ہیں کہ ہمیں آپ کی بیٹی کا رشتہ چاہئے اور لڑکی والے جواب دے رہے ہیں کہ تمہاری ہمت کیسی ہوئی رشتہ مانگنے کی؟! (13) بنیادی مسائل پر بس دو جملوں میں بات تمام ہو جائے گی۔ یعنی ان مسائل پر گفتگو نہیں ہو سکتی۔ مذاکرات کا مطلب ہے سودا اور لین دین، یہ صرف بیٹھنے اور گپیں لڑانے کا معاملہ نہیں ہوتا۔ تو مذاکرات سے ان کی مراد جو وہ کہتے ہیں کہ ایران مذاکرات کی میز پر واپس آئے، خود امریکی بھی کہہ رہے ہیں اور دوسرے ممالک بھی کہہ رہے ہیں، امریکی حکومت سے مذاکرات ہے۔ جہاں تک امریکہ سے مذاکرات کا سوال ہے تو ہم نے بارہا کہا ہے (14) کہ ہم مذاکرات نہیں کریں گے۔ وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ بھی میں نے مختلف بحثوں کے دوران ذکر کر دی ہے: پہلی چیز یہ ہے کہ امریکہ سے مذاکرات کا ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہے اور دوسری چیز یہ ہے کہ اس سے ہمیں نقصان بھی پہنچتا ہے۔ یعنی ایسی چیز ہے کہ جس کا فائدہ کوئی نہیں ہے نقصان ضرور ہے۔ ان چیزوں کی ہم تشریح کر چکے ہیں۔

میں یہاں ایک اور بات کی جانب بھی اشارہ کرنا چاہوں گا۔ جب امریکی کسی حکومت یا کسی ملک کے سلسلے میں اپنا کوئی ہدف طے کر لیتے ہیں تو ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ جبرا اور دباؤ ڈال کر اپنا یہ مقصد پورا کر لیں، ایسی صورت میں ڈباؤ ڈالنا ان کی ایک اسٹریٹیجی ہوتی ہے۔ اس اسٹریٹیجی کے ساتھ ساتھ کچھ ٹیکٹک بھی وہ استعمال کرتے ہیں اور وہ ٹیکٹک ہے مذاکرات۔ اتنا دباؤ ڈالتے ہیں کہ فریق مقابل تھک جائے۔ جب انھیں محسوس ہوتا ہے کہ فریق مقابل تھک چکا ہے اور اب مطالبہ قبول کرنے ہی والا ہے تو کہتے ہیں کہ اچھی بات ہے اب آئیے مذاکرات کر لیتے ہیں۔ یہ مذاکرات اسی دباؤ کی اگلی کڑی ہے۔ مذاکرات صرف اس لئے کئے جاتے ہیں کہ اس دباؤ کا نتیجہ حاصل کیا جائے، اسے بھنایا جائے، اسے اور محکم کر دیا جائے۔ مذاکرات وہ اس لئے کرتے ہیں۔ دباؤ ڈالتے رہتے ہیں، جب فریق مقابل تھک گیا اور اسے محسوس ہونے لگا کہ اب کوئی چارہ اس کے پاس نہیں بچا ہے تب امریکی کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے اب آئیے مذاکرات کر لیتے ہیں، مذاکرات کی میز پر بیٹھئے۔ وہ اسی نتیجے کو جو دباؤ کے ذریعے حاصل ہوا مذاکرات میں اور محکم کرتے ہیں، اسے کیش کراتے ہیں۔ امریکہ سے مذاکرات کی یہ حقیقت ہے۔ اس کی اسٹریٹیجی مذاکرات کرنا نہیں ہے، اس کی اسٹریٹیجی ہے دباؤ ڈالنا، مذاکرات دباؤ کی اس اسٹریٹیجی کا ایک ذیلی حربہ ہے۔

اس چال سے نمٹنے کا بس ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ دوسرے فریق کے پاس بھی اگر دباؤ ڈالنے کے ذرائع موجود ہیں تو انھیں استعمال کرے۔ صرف یہی راستہ ہے۔ اگر دباؤ ڈالنے کے وسائل کا استعمال کیا تو فریق مقابل کو روکا جا سکتا ہے۔ اس کے دباؤ کو یا تو کم کیا جا سکتا ہے یا پوری طرح ختم بھی کیا جا سکتا ہے، بشرطیکہ اپنے وسائل کو استعمال کیا جائے۔ لیکن اگر یہ نہ کیا بلکہ مذاکرات کی دعوت کے فریب میں آ گئے، یہ سوچنے لگے کہ "اب تو یہ مذاکرات کی باتیں کر رہے ہیں تو کیا ضرورت ہے کہ اپنے پاس موجود دباؤ کے وسائل کو استعمال کیا جائے، اس کی کیا ضرورت ہے؟ چلو مذاکرات کر لیتے ہیں۔" اگر اس فریب میں آ گئے تو پھسل جانا یقینی ہے، یعنی شکست حتمی ہے۔

بس ایک ہی راستہ ہے۔ امریکہ کی جانب سے پڑنے والے دباؤ کے مقابلے میں ہمارے پاس بھی جوابی دباؤ ڈالنے کے وسائل ہیں۔ دباؤ کے یہ وسائل وہ نہیں ہیں جن کے بارے میں وہ پروپیگںڈا کرتے ہیں اور بیان دیتے ہیں۔ یہ عسکری وسائل وغیرہ کی بات نہیں ہے۔ البتہ اگر ضرورت پڑ جائے تو یہ وسائل بھی موجود ہیں، لیکن سر دست ہمارے مد نظر جو چیز ہے وہ یہ مسائل نہیں ہیں، یہ وسائل نہیں ہیں۔ یہ نہیں، اس کے علاوہ بھی ہمارے پاس دباؤ ڈالنے کے وسائل موجود ہیں۔ یہی کام جو حال ہی میں قومی سلامتی کی سپریم کونسل نے انجام دیا اور جس کی اطلاع بھی دی گئی۔ یہ دباؤ ڈالنے کا ایک ذریعہ ہے۔ کہہ دیا کہ اب جب آپ اس روئے پر اتر آئے ہیں اور یورپی ممالک بھی اپنے فرائض پر عمل نہیں کر رہے ہیں تو ہم بھی اس حصے میں اور اس معینہ دائرے میں اپنے التزامات پر عمل نہیں کریں گے۔ یعنی ہم بھی ان اقدامات کی پابندی سے باہر نکل رہے ہیں۔ بڑا مناسب قدم تھا۔ یہ عمل بالکل درست تھا۔ ایک راستہ یہی ہے۔ اگر آپ فریق مقابل پر دباؤ ڈالنے والے اپنے وسائل کو استعمال نہیں کریں گے، دباؤ کے ذرائع کو بروئے کار نہیں لائیں گے تو وہ مطمئن ہوگا، اسے کسی چیز کی جلدی نہیں ہوگی۔ یونہی کاموں کے انجام دینے کے بجائے طول دیتے رہیں گے۔ اس لئے کہ اسے معلوم ہے کہ اسے کوئی نقصان پہنچنے والا نہیں ہے۔ لیکن اگر آپ نے بھی دباؤ کے وسائل کو استعمال کیا تو وہ بھی سوچ میں پڑ جائے گا کہ اسے بھی کچھ کرنا چاہئے۔

ایٹمی مسائل میں ہماری سائنسی و تکنیکی توانائياں کافی زیادہ ہیں۔ ہم ایٹمی ہتھیار بنانے کی مطلق کوئی کوشش نہیں کر رہے ہیں۔ امریکہ کی وجہ سے نہیں یا پابندیوں کے ڈر سے نہیں بلکہ اپنے موقف اور نقطہ نگاہ کی وجہ سے ہم اس کوشش سے دور ہیں۔ ہمارا زاویہ فکر ہمیں عام تباہی کے ہتھیاروں، جیسے ایٹمی ہتھیار، کیمیکل ہتھیار اور اس طرح کے دیگر ہتھیاروں کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ سب شرعی اعتبار سے حرام ہیں۔ کچھ لوگوں نے ہم سے کہا کہ آپ بھی کہہ دیجئے کہ یہ ہتھیار بنائیں بس استعمال نہ کریں۔ جی نہیں، یہ بھی غلط کام ہے۔ اس وجہ سے کہ اگر ہم نے بنا لیا تو گویا ہم نے ایک بڑا بجٹ خرچ کیا ہے جبکہ ہم اس سے کوئی فائدہ اٹھانے والے نہیں ہیں۔ جب فریق مقابل کو معلوم ہے کہ ہم اس ہتھیار کو استعمال نہیں کریں گے تو یہ ایسا ہی ہے کہ گویا ہمارے  پاس یہ ہتھیار موجود ہی نہیں ہے، ہونے نہ ہونے میں کوئی فرق نہیں ہے۔ بنابریں جب ہم نے استعمال نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو اسے بنانا ہرگز منطقی اور عاقلانہ کام نہیں سمجھا جائے گا۔ لہذا ہم بنیادی طور پر اس کے مخالف ہیں۔ ہمارا فقہی، دینی اور شرعی موقف یہی ہے کہ ہم ایٹمی ہتھیار بنانے کی کوشش میں نہیں ہیں۔ تاہم یورینیم افزودہ کرنے کی ہمیں بے شک ضرورت ہے۔ آج ممکن ہے کہ اس ضرورت کا زیادہ احساس نہ ہو لیکن دس سال بعد یقینا یہ ضرورت محسوس ہوگی۔ اگر ہم نے آج ہی آمادگی مکمل نہ کی اور اس میدان میں ملک کی توانائیوں کو اوپر نہ پہنچایا تو دس سال بعد ہمیں صفر سے شروع کرنا پڑے گا۔ یہ ہمارا نقطہ نگاہ ہے۔ بنابریں ہم ان توانائیوں کو بخوبی استعمال کر سکتے ہیں، ان توانائیوں کو تقویت پہنچا سکتے ہیں۔ یہ دباؤ ڈالنے کے ہمارے وسائل ہیں۔ فریق مقابل کو ان کے ذریعے روکا جا سکتا ہے۔ بنابریں یہ خیال، کہ اب ہم مذاکرات شروع کر دیں، درست نہیں ہے۔

خوشی کی بات ہے کہ ملک کے تمام عہدیداران اس بات پر اتفاق رائے رکھتے ہیں۔ یعنی اجرائی عہدیداران، سفارتی عہدیداران، ملک کے سیاسی اجرائی عہدیداران سب کا اتفاق رائے ہے کہ امریکیوں سے بالکل مذاکرات نہ کئے جائیں۔ یہ صرف امریکہ کی موجودہ حکومت کی بات نہیں ہے۔ امریکہ کی سابقہ حکومت، اوباما حکومت کے روئے میں کوئی بنیادی فرق نہیں تھا، صرف ظاہری فرق تھا، باطن وہی تھا۔ بنابریں آج سبھی کا اس پر اتفاق رائے ہے۔ سب متوجہ رہیں کہ ہمیں اس مسئلے میں امریکیوں کی چال کے فریب میں ہرگز نہیں آنا ہے۔ فی الحال قومی سلامتی سپریم کونسل کی قرارداد یہی کہتی ہے۔ بعد میں حالات کا جو بھی تقاضا ہوگا، یعنی ہمیشہ اسی نقطے پر ٹھہرے رہنے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ سر دست یہی موقف ہے۔ اگر ضرورت پڑی، اگر حالات کا تقاضا ہوا تو آئندہ وقت میں دباؤ کے دیگر وسائل کو بھی استعمال کیا جائے گا۔

اس سال یوم قدس کا مسئلہ بھی ہر سال سے زیادہ اہم ہے۔ البتہ مسئلہ فلسطین ایک کلیدی مسئلہ ہے۔ یہ اسلامی حکومتوں اور ملکوں تک محدود نہیں ہے۔ فلسطین کا مسئلہ ایک انسانی مسئلہ ہے۔ ملت فلسطین پر جو مظالم ڈھائے گئے ہیں انھیں دیکھ کر انسانی ضمیر مضطرب ہو جاتا ہے۔ یہ صرف اسلامی مسئلہ نہیں ہے۔ البتہ مسلمانوں کے لئے اس کی اہمیت دو چنداں ہے، ان کے نزدیک اسے زیادہ ترجیح حاصل ہے۔ ان کے لئے انسانی مسئلہ ہونے کے ساتھ ہی شرعی اور دینی مسئلہ بھی ہے۔ تاہم یہ ایک انسانی مسئلہ بھی ہے۔ بنابریں یوم قدس کی ریلیاں جو فلسطین کے دفاع میں نکلتی ہیں اور عوام الناس کی زوردار موجودگی سے انجام پاتی ہیں وہ بہت اہم ہیں۔ اس سال اس کی اہمیت اور بھی سوا ہے کیونکہ علاقے میں امریکہ کے بعض حاشیہ بردار خیانت آمیز سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں کہ سنچری ڈیل کو مضبوط کریں (15)۔ البتہ یہ ہو نہیں پائے گا۔ اسے ہرگز عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکے گا۔ امریکہ اور اس کے حاشیہ بردار یقینا اس قضیئے میں شکست سے دوچار ہوں گے۔ اپنے پیشروؤں سے ان کا فرق بس اتنا ہے کہ یہ صریحا کہہ رہے ہیں کہ ہم مسئلہ فلسطین کو مٹا دینا چاہتے ہیں، دنیا کے زیر بحث مسائل کی فہرست سے اسے خارج کر دینا چاہتے ہیں۔ البتہ وہ ایسا ہرگز نہیں کر پائیں گے، انھیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔

پروردگارا! محمد و آل محمد کا واسطہ ہم نے جو کچھ بیان کیا اور جو کچھ ہماری نیت میں ہے، جو کچھ ہم کرتے ہیں، اس سب کو اپنے لئے اور اپنی راہ میں قرار دے۔ پروردگارا! ہماری یونیورسٹیوں کو روز بروز اسلامی معیار کی یونیورسٹیوں کے نمونے سے قریب کر۔ اساتذہ، عہدیداران، طلبہ اور تمام متعلقہ افراد پر اپنے لطف اور اپنی رحمت کا سایہ کر۔

و السّلام علیکم و‌ رحمة‌ لله و‌ برکاته

۱) اس ملاقات کے آغاز میں کچھ حاضرین نے اپنے نظریات اور تجاویز بیان کیں۔

۲) اس پروجیکٹ کا مقصد دراز مدتی اور پائيدار ترقی سے مربوط فنی و اقتصادی موضوعات کے بارے میں تحقیقات انجام دینا اور عالمی سطح پر ان کے ممکنہ نتائج و اثرات کا مطالعہ کرنا اور جائزہ لینا ہے۔

۳) منجملہ ملک بھر کے ہزاروں طالب علموں اور طلبہ یونینوں کے نمائندوں سے مورخہ 7  جون 2017 کا خطاب۔

۴)  تہران یونیورسٹی کے طلبہ سے مورخہ 12 مئی 1998 کا خطاب

۵) غلام حسین ساعدی

6) منجملہ نالج بیسڈ کمپنیوں کے عہدیداران، ملک کے ممتاز طلبہ اور دانشوروں کے اجتماع سے مورخہ 19 اکتوبر 2016 کا خطاب

7) منجملہ ملک کی یونیورسٹیوں کے اساتذہ سے مورخہ 23 اگست 2011 کا خطاب

8) نویں حکومت کے دور میں یہ ڈائریکٹوریٹ تشکیل پایا جو سائنس و ٹیکنالوجی کے امور میں صدر مملکت کو رپورٹ کرتا ہے۔

9) منجملہ مشہد مقدس میں حضرت امام رضا علیہ السلام کے حرم اقدس میں زائرین اور مجاورین سے مورخہ 21 مارچ 2011 کا خطاب

10) اسلامی نظام کے عہدیداران اور کارگزاروں سے مورخہ14 مئی 2019 کا  خطاب

11) منجملہ یونیورسٹیوں کے اساتذہ محققین اور سائنسدانوں سے مورخہ 10 جون 2018 کا خطاب

12) طالب علموں اور طلبہ یونینوں کے نمائندوں سے مورخہ 22 مئی 2019 کا خطاب

13) رہبر انقلاب اسلامی اور حاضرین ہنس پڑے۔

14) منجملہ اسلامی نظام کے عہدیداران اور کارکنان سے مورخہ 14 مئی 2019 کا خطاب

15) امریکہ کی جانب سے تیار کردہ منصوبہ جس کا مقصد فلسطین اور اسرائیل کے ما بین مصالحت و مفاہمت قرار دیا گیا ہے لیکن اصلی ہدف اسرائیل کو بے تحاشا مراعات دلانا اور غرب اردن کے آدھے حصے، مشرقی بیت المقدس کے کچھ محلوں اور غزہ پٹی کو ملا کر ایک فلسطینی ریاست کی تشکیل کروانا ہے۔