*فروعی اور ذیلی مسائل سے سختی کے ساتھ پرہیز کیجئے۔ افسوس کی بات ہے کہ میں دیکھ رہا ہوں، البتہ یہ آج اور کل کی بات نہیں ہے بلکہ بیشتر ادوار میں یہی رہا کہ ہم فروعات اور ذیلی مسائل میں الجھتے رہے۔۔۔۔ لیکن اب سوشل میڈیا کا زمانہ آ گیا ہے تو یہ فروعی اور ذیلی مسائل بہت زیادہ موضوع بحث رہتے ہیں۔ آپ جہاں تک ممکن ہو ان سے پرہیز کیجئے۔

٭یہ ملک کے لئے ایک مصیبت ہے، آمدنی کا بڑا آسان راستہ ہے کہ ہم کنوئیں سے تیل نکالیں اور جاکر اسے ایک قیمت پر فروخت کر دیں، یہ آسان اور مفت آمدنی! شروع سے، ماضی کے ادوار سے ہمیں اسی کی عادت پڑ گئی اور اس سے ہمیں نقصان پہنچا۔ واقعی یہ ہمارے لئے نقصان دہ عادت ثابت ہوئی۔ ایسے ممالک ہیں جہاں تیل کا ایک قطرہ بھی پیدا نہیں ہوتا لیکن انھوں نے محنت کی اور نئے راستے تلاش کر لئے، وہ فائدے میں رہے۔ تیل کے امور کے اختیارات بھی ہمارے ہاتھ میں نہیں ہیں، اس کے اختیارات تیل پیدا کرنے والے ممالک کے ہاتھ میں نہیں ہیں۔ آپ تو دیکھ ہی رہے ہیں۔ یہ صرف پابندیوں کے دور کی بات نہیں ہے۔ پابندیاں تو ایک عارضی مسئلہ ہے، اس دور میں بھی جب پابندیاں نہ ہوں، تیل کے اختیارات ان جابر طاقتوں کے ہاتھ میں ہیں جن سے سب واقف ہیں، تیل کے امور امریکہ، یورپ اور ان کے ہمنواؤں کے ہاتھ میں ہیں۔ قیمت کا تعین ان کے ہاتھ میں ہے۔ دوسرے گوناگوں امور ان کے ہاتھ میں ہیں۔ ان کی سازش ہے، ان کی طرف سے حملے ہوتے ہیں۔۔۔۔ بنابریں ہمیں ملک کے اندر اس مشکل کو حل کرنا ہوگا۔

٭ملک کے اقتصادی شعبے میں بعض فیکٹرز ایسے ہیں جو انجن کا کام کرتے ہیں کہ اگر وہ حرکت میں آ جائیں تو پورا اقتصادی شعبہ آگے بڑھنے لگتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک فیکٹر ہے تعمیرات کا شعبہ۔ اگر تعمیرات کا شعبہ حرکت میں آ  جائے اور مناسب انداز میں آگے بڑھے تو یہ خود ہی ملک کے اقتصادی شعبے کے ایک بڑے حصے کو متحرک کر دے گا۔ ایک فیکٹر ہے زراعت، ایک فیکٹر ہے کار انڈسٹری، ایک فیکٹر ہے نالج بیسڈ کمپنیاں، ایک فیکٹر ہے گھریلو استعمال کی اشیاء۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جو کسی بھی ملک میں معیشت کو آگے لے جانے والے انجن کا کام کرتی ہیں۔ ان پر خاص محنت کرنا چاہئے۔ مختلف ادارے جو ان شعبوں کے ذمہ دار ہیں انھیں چاہئے کہ جہاں تک ممکن ہو اس میدان میں محنت کریں، کام کریں۔ انجن کا درجہ رکھنے والے یہ شعبے اگر آگے بڑھنے لگے تو پوری معیشت کی پیش قدمی کا انداز بالکل بدل جائے گا۔

٭پیداواری شعبے میں مصروف کار افراد کے بارے میں ہماری سوچ اور ہمارا نقطہ نگاہ مناسب اور ٹھیک نہیں ہے۔ میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ حکومت اور ملک کے حکام پیداواری شعبے میں کام کرنے والے شخص کو ایک مجاہد کے طور پر دیکھیں۔ آپ اقتصادی جنگ کی بات کر رہے ہیں تو اس اقتصادی جنگ کا مجاہد کون ہے؟ وہ شخص جو ملکی معیشت کو تقویت پہنچا رہا ہے، ملکی معیشت کی تقویت کا راستہ ہے پیداوار کا فروغ، لہذا آپ اس شخص کو ایک مجاہد کی حیثیت سے دیکھئے۔۔۔۔۔ میں نے اسی اجلاس میں جو آپ دوستوں کے ساتھ ہوتے ہیں، خواہ وہ حکومت کے ساتھ ہونے والا اجلاس ہو یا اقتصادی اجلاس ہو جس میں آپ میں سے بیشتر شریک ہوئے، بارہا کہا ہے کہ کوئی سرمایہ کار اگر کوئی کام شروع کرنا چاہتا ہے تو اسے 'ہفت خوان' (رستم کی سات اہم جنگیں) سے عبور کرنا پڑتا ہے، میں 'ہفت خوان' کہہ رہا ہوں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسے ستر جنگوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ قوانین، ضوابط، ایک ادارہ آکر کچھ کہتا ہے، دوسرا ادارہ آکر کوئی اور مطالبہ کرتا ہے، تیسرا ادارہ آکر کسی لائسنس کے بارے میں سوال کرتا ہے، ان چیزوں کی کیا ضرورت ہے؟ ان چیزوں پر سنجیدگی سے توجہ دینا چاہئے۔

٭ملک کا اقتصادی نمو، ملک کی اقتصادی پیشرفت کا اصلی مقصد کیا ہے؟۔۔۔۔ مقصد یہ ہے کہ ہم معاشرے میں سماجی انصاف کو یقینی بنا سکیں، غربت کا خاتمہ کر سکیں تاکہ ملک کے دولت مند ہونے کا نتیجہ غربت کے ازالے اور خاتمے کی صورت میں نکلے۔ ورنہ آج آپ دیکھئے کہ دنیا کا سب سے دولت مند ملک امریکہ ہے، لیکن وہاں دسیوں لاکھ افراد غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو سڑکوں کے کنارے بھوک یا سردی یا گرمی سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ ہمیں یہ نہیں چاہئے کہ بس ملک دولت مند ہو جائے۔ یہ وہ صورت حال نہیں ہے جو اسلام کو پسند اور مطلوب ہے۔ یہ دولت غربت کے خاتمے کے لئے استعمال ہونا چاہئے، مساوات کے فروغ کے لئے استعمال ہونا چاہئے۔ اس سوچ اور اس طرز فکر کے ساتھ آگے بڑھنا چاہئے۔

٭ثقافتی شعبے میں، ہمارے جو احباب ثقافت کے مسائل سے تعلق رکھتے ہیں وہ توجہ سے سنیں، کہ ہمیں ایک وسیع یلغار کا سامنا ہے۔ ایک وسیع محاذ ہے جو ثقافتی اعتبار سے ہمارے اوپر حملے کر رہا ہے۔ یہ بات ان کے بیانوں میں نظر آتی ہے۔ البتہ ہمیں یہ بات پہلے سے ہی معلوم تھی، تاہم اب وہ اپنی زبان سے صریحی طور پر کہتے ہیں کہ "اسلامی جمہوریہ پر، اسلامی حکومت پر فوجی لشکر کشی اور اقتصادی پابندیوں کے ذریعے غلبہ حاصل کرنے میں کامیابی نہیں ملے گی، بلکہ ثقافتی پہلو سے اور ثقافتی دراندازی کے ذریعے غلبہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ذہنوں کو بدلنا چاہئے، دماغوں پر کام کرنا چاہئے، ان کی ہوس اور خواہشات کو ہوا دینا چاہئے۔" یہ بات اب وہ پوری صراحت کے ساتھ کہنے لگے ہیں۔

٭دشمن سے واقعی آپ ہراساں نہ ہوئيے! آج جو دشمن ہمارے سامنے ہے، یہ آج وجود میں نہیں آیا ہے، اوائل انقلاب سے یہ دشمن موجود تھا۔۔۔۔ اگر امریکہ، یورپ، سابق سوویت یونین یا بقیہ طاقتوں کے بس میں اسلامی جمہوریہ کو نقصان پہنچانا ہوتا تو وہ اب تک پہنچا چکی ہوتیں، آپ خود دیکھ رہے ہیں کہ وہ ناکام رہیں۔ البتہ ہاں، انھوں نے پریشان ضرور کیا تاہم انھوں نے اپنی عزت بھی گنوا دی۔۔۔۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس ملک میں اسلامی جمہوری نظام اور اسلام کی حکمرانی کے خلاف کچھ بھی کر پانے میں وہ ناکام رہے اور اب تک ناکام ہیں۔ بے شک ہمارے کاموں میں تعطل پیدا ہوا، رکاوٹ پڑی، مشکلات پیدا ہو گئیں، مشکلات موجود ہیں، لیکن پیش قدمی کا عمل رکا نہیں۔ ہم آگے بڑھتے رہے، پیشرفت کی منزلیں طے کرتے رہے، دشمن ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اسلامی جمہوریہ آج کہاں ہے، بیس سال اور تیس سال پہلے کہاں تھا؟! زمین آسمان کا فرق ہو گيا ہے۔ ہماری پیشرفت، ہماری اقدامی توانائی، ہماری گوناگوں صلاحیتیں، سیاسی اعتبار سے بھی، فوجی اعتبار سے بھی، ملک کے گوناگوں اقتصادی شعبوں کے اعتبار سے بھی ملک آگے جا چکا ہے، دشمن ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اس پہلو سے آپ دشمن کی ذرہ برابر فکر نہ کیجئے۔ یعنی واقعی پہلے چالیس سال میں دشمن جو نہیں کر سکا وہ توفیق خداوندی سے دوسرے چالیس سال میں تو ہرگز نہیں کر پائے گا۔ دوسرے چالیس سال ہمارے لئے پہلے چالیس سال سے بہتر اور دشمنوں کے لئے بدتر ہوں گے۔ اس سلسلے میں آپ مطمئن رہئے، اس میں کوئی شک نہ کیجئے۔

* مجھے کشمیر کے حالات کے بارے میں تشویش ہے۔ اس وقت یہاں وزارت خارجہ کے ہمارے احباب موجود نہیں ہیں، واقعی کشمیر کے مسلمان عوام کے ساتھ جبر ہو رہا ہے۔ واقعی ان پر سختی کی جا رہی ہے۔ وہاں کے نجیب و شریف عوام کے بارے میں حکومت ہندوستان کی جانب سے منصفانہ سیاست اپنائی جانی چاہئے۔ البتہ ہندوستان کی حکومت سے ہمارے روابط اچھے ہیں، تاہم ان لوگوں کے بارے میں ہمیں یہ توقع ہے۔ یہ بھی آپ سے عرض کر دوں کہ یہ خبیث برطانیہ کی کارستانی ہے۔ یہ وہ زخم ہے جو بر صغیر کو انیس سو سینتالیس میں انگریزوں نے دیا۔ جس وقت انگریز نکل رہے تھے  اور  بر صغیر ہند دو حصوں ہندوستان اور پاکستان میں منقسم ہوا، اسی وقت انھوں نے کشمیر کا  یہ زخم لگایا، انھوں نے عمدی طور پر ایسا کیا، کہ یہ زخم مندمل نہ ہو اور ہمیشہ ان دونوں ملکوں کے درمیان یہ مشکل اور اختلاف موجود رہے۔ یہ اس کا نتیجہ ہے، دباؤ عوام پر پڑ رہا ہے۔