9 اکتوبر 2019 کے اس خطاب میں رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات پر زور دیا کہ ایران کے علمی و تعلیمی ادارے ایجادات اور جدت عملی کی طرف بڑھیں۔ (1)

رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاھرین سیّما بقیّت اللہ فی الارضین. السّلام علی الحسین و علی علیّ‌ بن‌ الحسین و علی اولاد الحسین و علی اصحاب الحسین الّذین بذلوا مھجھم دون الحسین (علیہ‌ السّلام).

میرے عزیزو! ہمارے جوانو اور ملک کے مستقبل کی امیدو! آپ سب کا خیر مقدم ہے۔ مجھے بڑی خوشی ہے کہ اس سال بھی خداوند متعال نے توفیق عطا کی اور ہم اس نشست کا  انعقاد کر سکے جس کے نتیجے میں آپ سے ملاقات کا موقع ملا اور ہم نے آپ کی باتیں سنیں۔ جو باتیں دوستوں نے بیان کیں، وہ بہت اچھی تھیں، یعنی جو تقریریں ہوئيں ان کے بارے میں میرا نظریہ یہ ہے۔ ان کی باتوں میں قابل توجہ نکات تھے اور ممکن ہے کہ ان میں سے بعض سے مجھے اتفاق نہ ہو لیکن یہ بات میرے لئے انتہائي خوش کن ہے کہ ہمارا نوجوان ایک موضوع پر، جو اس کے لیے اہم ہے، بیٹھ کر سوچتا ہے، اس کے بارے میں تیاری کرتا ہے اور پھر اسے انتہائي خوبصورت انداز میں پیش کرتا ہے۔ واقعی جب انسان نظر ڈالتا ہے اور ایسی خصوصیات والے ان نوجوانوں کو دیکھتا ہے تو بہت خوش ہوتا ہے۔ یہ بات بھی جان لیجئے کہ اگر ایسا ہو سکتا کہ آپ سب، یہ مجمع جو یہاں موجود ہے، اس میں سے ہر ایک اپنی بات کہتا اور میں سنتا رہتا، تو یقینی طور پر میں ایسا کرتا لیکن افسوس کہ ایسا ممکن نہیں ہے۔ بہرحال باتیں بہت اچھی تھیں۔

تو ساتھیوں نے کچھ باتیں کہیں ہیں جن پر توجہ دی جانی چاہیے، میں اپنے دفتر کے متعلقہ افراد سے سفارش کرتا ہوں کہ وہ ان پر توجہ دیں۔ ہم باتوں کے بارے میں جو سفارش کرتے ہیں وہ حکم کی صورت میں نہیں ہوتی کہ میں اداروں کو حکم دوں، ان کی اپنی ذمہ داریاں ہیں، ان کے اپنے کام ہیں، جو انھیں انجام دینے ہوتے ہیں، حکم دینا ہمارا کام نہیں ہے، لیکن ہم رہنمائي کریں گے، نصیحت کریں گے اور پوچھتے رہیں گے تاکہ ان شاء اللہ یہ سارے کام ہو جائيں۔ کچھ باتیں وزارت صحت کے مسائل کے بارے میں تھیں، ان شاء اللہ ان پر توجہ دی جائے گي، ایک بات ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل سے متعلق تھی اور اس کونسل کے محترم سیکریٹری (2) یہاں موجود ہیں جو یقینی طور پر ان تجاویز پر دستخط کے مسئلے پر توجہ دیں گے۔ ایک مسئلہ تعلیم و تربیت کی اعلی کونسل کے منظور شدہ بلوں پر دستخط کا تھا اور محترم وزیر (3) یہاں موجود ہیں جو ضرور اس پر کام کریں، ایک اور مسئلہ ہیپاٹائٹس کے ٹیکوں کا تھا جس کے بارے میں اس نوجوان نے ابھی بتایا، اس پر بھی ضرور توجہ دی جائے اور جو دوسرے مسائل اور باتیں ہیں، ان شاء اللہ ہم ان پر توجہ دیتے رہیں گے تاکہ وہ بھی انجام پا جائيں۔

عزیزو! جو بات اہم ہے وہ یہ ہے کہ ملک میں یہ علمی و سائنسی پیشرفت، جو تقریبا دو عشرے قبل شروع ہوئي ہے، جاری رہنی چاہیے۔ ہم بعض نئے سائنسی شعبوں میں دنیا میں بڑے اچھے نمبر پر ہیں، یعنی پانچویں، چھٹے نمبر پر۔ یہ بہت ہی فخر کی بات ہے لیکن یہ کسی بھی صورت میں کافی نہیں ہے۔ نینو میں، بایو ٹیکنالوجی میں اور بعض دوسری چیزوں میں ہم کافی آگے ہیں لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ دنیا میں سائنس کی پیشرفت ایک تیز پیشرفت ہے، ہمارے سامنے ماضی سے چلی آ رہی پسماندگي بھی ہے لہذا سائنسی پیشرفت میں تیز رفتاری جاری رہنی چاہیے۔ البتہ اب تک اچھا کام ہوا ہے۔ ان سولہ سترہ برسوں میں، جب سے ہم نے ان شعبوں پر توجہ دی ہے، ان پر کام کر رہے ہیں اور بڑی تندہی سے مشغول ہیں، سائنسی پیشرفت بھی ہوئي ہے، سائنس سے حاصل ہونے والی ٹیکنالوجیوں میں بھی ترقی ہوئي ہے اور دولت کی پیداوار کی اس سائیکل میں بھی پیشرفت ہوئي ہے جس کے بارے میں اپنی تقریروں میں (4) کئي بار میں اشارہ کر چکا ہوں جس میں ٹیکنالوجی کا کمرشیلائزیشن شامل ہے۔ کل یہاں ایک نمائش (5) لگائي گئي تھی، میں نے اس میں جا کر دو گھنٹے تک ان کاموں کا مشاہدہ کیا جو انجام دئے گئے ہیں۔ کل یہاں جو نالج بیسڈ کمپنیاں تھیں ان کے ذمہ داروں کی باتوں میں، میں نے شوق اور خود اعتمادی دیکھی، ان کے حرکات و سکنات میں بھی دیکھی اور ان کے کاموں میں بھی دیکھی۔ یہ بہت خوش آئند اور مبارک چیز ہے۔ ان میں اشتیاق بھی ہے اور خود اعتمادی بھی، ان کا ماننا ہے کہ وہ ہر کام کر سکتے ہیں، ان کا ماننا ہے کہ وہ آگے بڑھیں گے اور ان میں آگے بڑھنے کا جذبہ ہے۔ البتہ یہ ملک میں موجود کئي ہزار نالج بیسڈ کمپنیوں میں سے صرف تیس کمپنیاں تھیں، ہمیں جو اعداد و شمار دیے گئے ہیں ان کے مطابق ملک میں چار ہزار سے زیادہ نالج بیسڈ کمپنیاں موجود ہیں، یہ کم ہیں۔ ملک میں یہ تعداد ایک طے شدہ اور محدود مدت میں چار ہزار سے بڑھ کر کم سے کم چار لاکھ یا اس سے زیادہ ہو جانی چاہئے۔ البتہ اس کے لیے کچھ شرطیں اور خصوصیات ہیں جن میں سے بعض کی جانب میں اشارہ کروں گا۔

سب سے پہلے تو ان نالج بیسڈ کمپینوں کا قانونی انفراسٹرکچر تیار کیا جانا چاہیے۔ اس وقت ان کا بہت سا قانونی انفراسٹرکچر واضح نہیں ہے، اور دوستوں نے ابھی جو باتیں کہی ہیں، ان میں بھی اس کی طرف اشارہ تھا۔ یہ حکومت، پارلیمنٹ اور متعلقہ حکام کا کام ہے۔ وہ بیٹھیں اور طے کریں اور ابھی تقریر کرنے والے ایک بھائي کے الفاظ میں منافع بخش کمپنیوں اور ضروری کام والی کمپنیوں کو ایک دوسرے سے الگ کیا جائے، یہ طے کیا جائے کہ کون سا کام ہونا ہے اور اس کی حدود طے کی جائيں۔

دوسرے یہ کہ رکاوٹیں دور کی جائيں، جن میں سے بعض کا ذکر دوستوں نے کیا۔ اتفاق سے "چھے مہینے" (3) والے اس موضوع کے بارے میں، جس کا کسی نے ابھی ذکر کیا، کل مجھے بتایا گيا۔ ایک نالج بیسڈ کمپنی نے مجھ سے کہا کہ ہم نے یہ پروڈکٹ، جو واقعی بہت عمدہ اور اہم پروڈکٹ تھا، آٹھ مہینے کے اندر تیار کیا، جو اس طرح کے پروڈکٹ کی تیاری کے لیے بڑی مختصر مدت ہے لیکن اس کا لائسنس لینے میں چھے مہینے لگے! مطلب یہ کہ جو لائسنس ایک دو ہفتے میں مل جانا چاہیے، اسے جاری ہونے میں چھے مہینے کا عرصہ لگتا ہے۔ یہ چیز ختم ہونی چاہیے۔ یہ چیزیں روزگار میں رکاوٹ ہیں، کام اور روزگار کے ماحول میں اصلاح کا مطلب، جس پر میں بار بار تاکید کرتا ہوں، یہ ہے کہ ان رکاوٹوں کو دور کیا جائے۔ ایک ہی طرح کے کام کئي جگہ نہ کیے جائيں۔ اسی طرح اجارہ داری بھی ختم ہونی چاہیے اور دوستوں نے اپنی باتوں میں اجارہ داری کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔

میں نے کچھ باتیں نوٹ کی ہیں، جنھیں میں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ ایک بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں غیر معمولی صلاحیت کے حامل افراد کے امور کی ایک اسٹریٹیجک دستاویز ہے جسے ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل نے منظور کیا ہے۔ یہ بہت اچھی اور اہم دستاویز ہے۔ اس دستاویز کو پوری سنجیدگي سے عملی جامہ پہنانا چاہیے یعنی اس پر کام کیا جانا چاہیے۔ اب تک اس اہم دستاویز کے بعض حصوں پر عمل ہوا ہے لیکن پوری دستاویز پر عمل نہیں ہوا ہے۔ اگر اس دستاویز پر پوری طرح سے عمل کیا جائے تو سائنسی پیشرفت کے میدان میں اور سائنسی و تکنیکی پروڈکٹس کے کمرشیلائزیشن کے میدان میں آنے والی بہت سی مشکلات اور دیگر رکاوٹیں دور ہو جائيں گي۔ غیر معمولی صلاحیت کے حامل افراد کی سوسائٹی کو بھی اس دستاویز پر عمل کرنا چاہیے اور یہیں پر میں یہ کہتا ہوں کہ ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل کو بھی اس کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل ایک اہم ادارہ ہے اور اس میں مجریہ، مقننہ اور عدلیہ کے سربراہان بھی شامل ہیں اور کئي وزراء اور اہم شخصیات بھی اس کی رکن ہیں، انھیں یہ مطالبہ کرنا چاہیے کہ اس دستاویز کو عملی جامہ پہنایا جائے۔ ہمارے خیال میں ان میں سے بہت سی مشکلات صرف اس وجہ سے ہیں کہ اس دستاویز پر عمل نہیں ہو رہا ہے۔ البتہ اس دستاویز کو تیار ہوئے کئي برس ہو چکے ہیں اور اسے اپ ٹو ڈیٹ بھی کیا جانا چاہیے۔ آج جو نئے نئے روزگار سامنے آ رہے ہیں اور دنیا میں جو سائنسی پیشرفت ہو رہی ہے، جو کسی حد تک ہمارے ملک میں بھی ہوئي ہے، اس کے پیش نظر یقینی طور پر اس دستاویز کو اپ ٹو ڈیٹ کیا جانا چاہیے، اس کی جدید کاری ہونی چاہیے۔

دوسری بات یہ ہے کہ افسوس کہ ملک میں بعض جگہ ایسی سوچ بھی موجود ہے جو سائنسی تحریک کے سلسلے میں غلط رویہ رکھتی ہے۔ یہ بھی ایک سوچ ہے۔ یہ جو میں آپ سے عرض کر رہا ہوں وہ اس لیے ہے کہ آپ، جو خود اس سائنسی تحریک کے اجزاء ہیں، اس بات کی جانب متوجہ رہیں کہ آپ کے سامنے ایک ایسی سوچ ہے جو بد اندیشی اور بد دلی پر مبنی ہے۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ مایوس نہ ہوں۔ اس سوچ کا ایک کام جسے میں، سائنسی تحریک کے لیے بد اندیشی اور بد دلی کی سوچ کہتا ہوں، یہ ہے کہ سائنسی سوچ کا سرے سے انکار کر دیا جائے، گویا ایسی کوئي چیز ہے ہی نہیں۔ میں نے کچھ مہینے پہلے ایک نشست میں یہیں پر اسٹینفورڈ یونیورسٹی کا وہ ماجرا بیان کیا اور کہا (6) کہ ان کا یہ کہنے کا ارادہ اور اصرار ہے کہ "جی نہیں، کچھ نہیں ہوا ہے" جبکہ آپ اپنی آنکھوں کے سامنے وہ واقعہ دیکھ رہے ہیں۔ آپ، جو خود علمی و سائنسی پیشرفت کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں، اس کا انکار کر رہے ہیں اور کہہ رہے کہ ایسی کوئي چیز نہیں ہے۔ یہ جو آپ کہہ رہے ہیں کہ یونیورسٹی اور عوام کے درمیان ایک رابطے کی کڑی وجود میں آنی چاہیے، جس کا ذکر ابھی ایک دوست نے یہاں کیا ہے، اور ہم مسلسل اس بات پر اصرار کر رہے ہیں کہ "سائنسی کام، سائنسی پیشرفت اور سائنسی جست کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے" اور حقیقت میں بھی ایسا ہی ہے تو کچھ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ " جی نہیں، کچھ نہیں ہوا ہے" اور افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ لوگ بھی یونیورسٹیوں کے اندر سے بد اندیشی کا یہ کام کر رہے ہیں۔ لوگ شک و شبہے میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ تو ان کا ایک کام انکار کرنا ہے۔

اس کے علاوہ، ان کا ایک برا کام ملک کے غیر معمولی صلاحیت کے حامل افراد کو دوسرے ممالک تک پہنچانا بھی ہے اور یہ کام ہو رہا ہے۔ وہ لوگ غیر معمولی صلاحیت کے حامل شخص کو ملک میں رہنے کی طرف سے مایوس کرتے ہیں کہ "کیوں یہاں رک رہے ہو؟ بے کار میں اپنا وقت ضائع کر رہے ہو، تمھاری عمر ضائع ہو رہی ہے۔" جبکہ وہ یہیں کا ہے، ایران کے جسم کا ٹکڑا ہے، ملک کی پیشرفت سے اس کی ترقی ہوتی ہے، اس کی ترقی سے ملک پیشرفت کرتا ہے، وہ اپنی ذمہ داری پوری کر رہا ہے۔ یہ لوگ اسے یہاں رہنے کی طرف سے مایوس کر رہے ہیں اور اسے ملک سے باہر کا کوئي لالچ دکھا کر، جو پیسوں کا بھی ہو سکتا ہے، کسی اور چیز کا بھی ہو سکتا ہے اور موہوم بھی ہو سکتا ہے، یہاں سے لے جانا چاہتے ہیں کہ اس یونیورسٹی سے کسی دوسری جگہ چلا جائے۔ یہ بھی ان کاموں میں سے ہے جو اس وقت ہو رہے ہیں۔ وزارت تعلیم اور وزارت صحت کی ذمہ داری ہے کہ یونیورسٹیوں کی دیکھ بھال کریں، انھیں غلط اور بری سوچ والے افراد سے پاک کریں۔ وہ لوگ نوجوانوں کو ناامید بناتے ہیں اور جب ان پر اعتراض کیا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ "مجھ تک، حکام تک یا ملک کے اعلی حکام تک جو خبریں پہنچتی ہیں، وہ یکطرفہ خبریں ہیں، ان میں صرف مثبت پہلوؤں کی بات کی جاتی ہے، منفی پہلوؤں کو نہیں بتایا جاتا۔" منفی زاویے کیا ہیں؟ مثال کے طور پر فرض کیجیے کہ علمی سرقہ یا بہت سے مقالوں کا معیاری نہ ہونا۔ کیوں؟ کہتے ہیں کہ ضرورت نہیں ہے، ہمیں خود پتہ ہے۔ اس طرح کی مختلف نقصان دہ باتوں میں سے بہت سی باتوں کا ذکر طلباء نے اور یونیورسٹیوں کے افراد نے خود مجھ سے بھی کیا ہے۔ معیاری نہ ہونا، علمی سرقہ یا غیر مفید علم ایسی باتیں ہیں جن کی طرف سے ہم ان سے پہلے ہی متنبہ کر چکے ہیں اور ہمیں اس سلسلے میں ان سے زیادہ معلوم ہے لیکن جب انسان مثبت پہلوؤں کو دیکھتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ ان منفی پہلوؤں سے کہیں برتر ہیں۔ ہاں، یہ منفی پہلو بھی ہیں، ہمارے سامنے مسائل بھی ہیں، ابھی ہمارے انہی نوجوانوں نے ان میں سے بعض مسائل کا ذکر کیا ہے۔ اس طرح کی بہت سی باتیں، حکام تک پہنچتی ہیں، ایسا نہیں ہے کہ نہیں پہنچتیں لیکن امر واقعی، اصل بات، ملک کی اصل سوچ، مثبت اور مطلوبہ سوچ، اچھی سوچ ہے۔

آج ہم علم و سائنس میں کہاں ہیں؟ اور بیس سال پہلے کہاں تھے؟ بہت زیادہ فرق آيا ہے۔ البتہ میرے پاس کچھ اعداد و شمار بھی ہیں اور اگر موقع ملا تو شاید ان میں سے کچھ پیش بھی کروں گا۔ یہ انقلاب کا ہنر ہے، انقلاب نے ملک میں یہ ہنر پیدا کیا کہ عورت مرد اور پیر و جواں کو یہ ہمت و جرات عطا کی کہ وہ سنگلاخ اور دشوار گزار وادیوں میں قدم رکھیں۔ آج یہ ہمت پائي جاتی ہے، ہمارا نوجوان پوری ہمت اور جرات کے ساتھ ایک دشوار اور پیچیدہ علمی و سائنسی میدان میں قدم رکھتا ہے، اہم کام انجام دیتا ہے، دوسرے یہاں تک کہ دشمن بھی ان اہم کاموں کو سراہتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ کچھ سال پہلے، البتہ ابھی حال میں بھی ایسا ہوا تھا لیکن میں اس کی مثال نہیں دینا چاہتا، ایک صیہونی مصنف اور سائنسداں نے ہمارے ایک میزائیل کے بارے میں جس کا ہم نے تجربہ کیا تھا، ایک صیہونی جریدے میں ایک مقالہ لکھا تھا اور مجھے وہ مقالہ لا کر دیا گيا تھا۔ اس نے لکھا تھا کہ میں ایران کا دشمن ہوں لیکن اس شخص کے سامنے، جس نے اس میزائیل کو تیار کیا ہے، احترام سے سر جھکاتا ہوں۔ ان لوگوں نے پابندیوں کے باوجود، تمام تر مشکلات کے باوجود، سائنسی لین دین کے دروازے بند ہونے کے باوجود اس طرح کا شاہکار تیار کیا ہے۔ یہ ہمارے ان دشمنوں کی رائے ہے جو ہماری واضح باتوں کا بھی انکار کرتے ہیں۔

میں نے یہاں جو چیز نوٹ کی ہے وہ یہ ہے کہ ایران کے دو سو سے زیادہ سائنسداں اور محققین، دنیا کے برترین سائنسدانوں کا ایک فیصد ہیں، یہ انتہائي قابل فخر بات ہے۔ البتہ گنجائش اور صلاحیت اس چیز سے کئي گنا زیادہ ہے جو آج تک یہاں آئي ہے۔ یقینی طور پر یہ چیز اگلے پانچ برس میں اس سے کہیں زیادہ ہوگي، اگلے دس سال میں اس سے کئي گنا زیادہ ہوگي۔ دیکھیے! یہ اعداد و شمار بہت اہم ہیں: ایرانی سائنسدانوں کے وہ مقالے جن کی طرف زیادہ رجوع کیا جاتا ہے، یعنی صرف نام کے مقالے نہیں بلکہ دنیا میں جن کی طرف بہت زیادہ رجوع کیا جاتا ہے اور ان کا حوالہ دیا جاتا ہے، ان کی تعداد سن دو ہزار دس میں اٹھہتر تھی لیکن سن دو ہزار اٹھارہ میں وہی تعداد بڑھ کر چار سو اکسٹھ ہو گئي یعنی صرف کچھ ہی سال میں کئي گنا بڑھ گئي۔ یہ بہت اہم چیزیں ہیں جن کا وہ انکار کرتے ہیں۔ ہماری آبادی دنیا کی تقریبا ایک فیصد ہے، اسی طرح ہم آباد دنیا کا بھی ایک فیصد ہیں لیکن ہمارے یہاں علم کی پیداوار دنیا کی دو فیصد ہے یعنی ملک سے جو توقع ہے اس سے دوگنا زیادہ ہمارے یہاں علم کی پیداوار ہو رہی ہے۔ بہرحال ملک کی ترقی و پیشرفت کے لیے آج تک کے علم سے استفادہ کیا گيا ہے، میں نے یہاں اس سلسلے میں کچھ باتیں نوٹ کر رکھی ہیں جو صرف نمونہ ہیں جبکہ اصل اعداد و شمار اس سے کہیں زیادہ ہیں: ملک کی دفاعی طاقت کو بڑھانے کے لیے علم و سائنس سے استفادہ کیا گيا ہے، پیشرفتہ میڈیکل اور علاج و معالجہ، اور ہمارا میڈیکل شعبہ خطے میں سب سے نمایاں ہے، بیماریوں پر کنٹرول، تکنیکی اور انجینیرنگ کے مسائل میں یعنی آج ملک میں جو بڑے بڑے تعمیراتی کام ہو رہے ہیں، بایو ٹیکنالوجی میں، نینو ٹیکنالوجی کے ذریعے مضبوط اور ٹھوس پیداوار میں، پرامن ایٹمی ٹیکنالوجی میں اور اسی طرح کے متعدد دیگر کاموں میں۔ آج ہم سائنس سے ملک کے مفادات اور ملک کی ترقی و پیشرفت میں اور ان تمام شعبوں میں جن کا ابھی میں نے ذکر کیا اور شاید دسیوں دیگر شعبوں میں استفادہ کرنے میں کامیاب رہے ہیں، یہ سب اسلامی جمہوریہ کی برکتیں ہیں۔

یہ بھی ایک نکتہ تھا جو میں بیان کرنا چاہ رہا تھا کہ یہ بد فکر لوگ پتہ نہیں کس وجہ سے اس سائنسی تحریک کے مخالف ہیں؟ انسان کچھ اندازہ تو لگا سکتا ہے لیکن یقین سے دعوی نہیں کر سکتا کہ یہ لوگ کیوں اس سائنسی تحریک کا انکار کرتے ہیں، اس کی شبیہ بگاڑتے ہیں تاکہ رکاوٹیں ڈالیں، مسائل پیدا کریں۔ کچھ عرصے پہلے مجھے رپورٹ دی گئي کہ اہم فیصلوں کے ایک حساس مرکز میں بعض سائنسی کاموں کو مختلف بہانوں سے روک دیا جاتا ہے؛ یہ سب ختم ہونا چاہیے۔ البتہ یہ ذمہ داری یونیورسٹیوں اور دیگر شعبوں کے سربراہوں کی ہے جن میں سے کچھ آج یہاں موجود ہیں، اور یہ بات میں آپ لوگوں سے کہہ رہا ہوں تاکہ آپ اس انحرافی رجحان کے مقابلے میں اپنا کام پورے اشتیاق، طاقت اور دگنی رفتار سے جاری رکھیے۔

اگلا نکتہ؛ غیر معمولی صلاحیت کے حامل افراد کی سوسائٹی اور مختلف علوم کے سلسلے میں کام کرنے والے غیر معمولی صلاحیت کے حامل افراد سے متعلق تمام اداروں سے میرا اصرار ہے اور میں تاکید کے ساتھ ان سے کہتا ہوں کہ وہ 'بشریات' پر بھی کام کریں؛ معیشت پر کام کریں، قانون پر کام کریں، مینیجمینٹ پر کام کریں، ان شعبوں میں ہمیں ایسے افراد کی ضرورت ہے۔ کل جب میں یہاں نمائش کا معائنہ کر رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ ایک مشین بنائی گئي ہے۔ اسے بنانے والے نے کہا: "یہ مشین صرف امریکا میں ہے اور امریکا کے علاوہ دنیا میں کہیں بھی یہ مشین نہیں ہے، اسے ہم نے خود تیار کیا ہے۔" تو یہ بڑی اہم بات ہے۔ یہ غیر معمولی صلاحیت والا نوجوان، جو تکنیکی اور انجینیرنگ کے شعبوں میں اس طرح سے نمایاں کام کر سکتا ہے، کچھ کام ہم نے دیکھے ہیں اور کچھ کے بارے میں جانتے ہیں جبکہ کچھ لوگ انجام پا چکے انتہائي اہم کاموں کے بارے میں ابھی نہیں جانتے، تو یہ نوجوان ملک کے سماجی مسائل کے بارے میں اور معاشی مسائل کے سلسلے میں بھی سوچ سکتا ہے، راہ حل پیش کر سکتا ہے۔

معاشی میدان میں ملک کے بعض مسائل علمی و سائنسی تحقیقات میں کمی کی وجہ سے ہیں، ہمارے نوجوانوں کو اس میدان میں اترنا چاہیے۔ آج فرض کیجیے کہ معیشت کے میدان میں، افراط زر کا مسئلہ، قومی کرنسی کی قدر میں کمی کا مسئلہ، روزگار کا مسئلہ، رہائش کا مسئلہ، سماجی مسائل، شادی کا مسئلہ، سماجی مشکلات، نشے کی لت اور اسی طرح کے دیگر مسائل ہمارے غیر معمولی صلاحیت کے حامل افراد کے علم سے اور ان کی کوششوں سے بہت اچھی طرح حل ہو سکتے ہیں۔ اگر یہ کام ہو گيا تو اس وقت ملک کی سائنسی جسم سازی، ایک مناسب اور اچھی جسم سازی ہوگي۔ مطلب یہ کہ علمی و سائنسی کام ایسا نہیں ہو سکتا کہ کسی شعبے میں غیر معمولی ترقی ہو اور کسی دوسرے شعبے میں وہ نحیف و ناتواں ہو، نہیں بلکہ علمی کام ہمیشہ ایک اچھے جسم کی طرح ہوتا ہے جس کا ہر عضو دوسرے عضو کی طرح مناسب ہوتا ہے جیسا کہ ملک کے سائنس میپ میں اس بات کا خیال رکھا گيا ہے۔ میں ایک بار پھر ملک کے سائنس میپ پر تاکید کرتا ہوں جو انتہائي اہم کام اور گرانقدر دستاویز ہے جسے تیار کیا گيا ہے، اسے مد نظر رکھا جانا چاہیے اور اس پر عمل کیا جانا چاہیے۔

میرے عزیزو! ایک دوسری بات یہ ہے کہ اگر علم، صحیح کلچر سے الگ ہوا تو وہ غلط راستے پر چل پڑے گا۔ ایک پیچیدہ لیکن انتہائي مفید علم، ایٹمی سائنس ہے، چونکہ یہ صحیح کلچر اور انسان دوستی کی ثقافت کے ہمراہ نہیں رہا بلکہ اقتدار پرستی کی غلط ثقافت کے ساتھ رہا، اس لیے ایٹم بم پر منتج ہوا اور ایٹم بم آج بھی دنیا کے لیے خطرہ ہے، انسانیت کے لیے خطرہ ہے، جیسا کہ یہ خطرہ ایک روز عملی جامہ بھی پہن چکا ہے۔ آج بھی پوری دنیا اس سے ڈرتی ہے، غیر محفوظ ہے۔ اگرچہ ہم اس راہ میں قدم اٹھا سکتے تھے لیکن ہم نے پوری سختی سے اور شجاعت سے اسلامی حکم کے مطابق اعلان کیا کہ ہم اس راستے پر نہیں چلیں گے؛ اس کا بنانا بھی غلط ہے، اسے رکھنا بھی غلط ہے کیونکہ اس کا استعمال حرام ہے۔ انسان ایک ایسی چیز بنائے جسے وہ استعمال نہیں کر سکتا تو پھر اسے ویسے ہی رکھنا ہوگا۔ یقینی طور یہ یہ حرام ہے، مطلب یہ کہ اگر کبھی ہمارے پاس ایٹمی ہتھیار ہوتا تب بھی یہ چیز واضح ہوتی کہ ہم اسے کہیں بھی استعمال نہیں کر سکتے تھے کیونکہ اسلامی قوانین کے مطابق وہ یقینی طور پر حرام ہے۔ تو جو چیز حرام ہے اسے بنانے کے لیے انسان پیسہ کیوں خرچ کرے؟ اس کی نگہ داشت پر کیوں خرچ کرے؟ کیونکہ اس کی نگہ داشت پر بھی بہت خرچ آتا ہے۔ جن کے پاس ہے وہ اس کی نگہ داشت پر کافی رقم خرچ کرتے ہیں۔ تو دیکھیے کہ یہ بغیر تہذیب والا علم تھا جس نے انتہائي مفید اور حساس ایٹمی صنعت کو جو انسانیت کے لیے بہت مفید صنعت ہے، پرامن راستے سے ہٹا کر غیر محفوظ راستے پر ڈال دیا، اس غلط راستے پر جس سے ایٹم بم نکل آیا۔ علم ایسا ہوتا ہے کہ اگر صحیح ثقافت کے ساتھ نہ ہو، صحیح طرز فکر کے ساتھ نہ ہو تو وہ ایک خطرناک چیز بن جائے گا۔ اسی وجہ سے ہمارا ماننا ہے کہ غیر معمولی صلاحیت کے حامل افراد کے مجموعے میں دین و قومیت یعنی دین کی سنجیدگي سے پابندی اور سنجیدہ قومی عزت پر پوری طرح سے عمل کیا جانا چاہیے۔ ایرانی سائنسداں جب اسلامی و ایرانی ثقافت سے جڑا ہوا ہے تو وہ ایک قوم کی حیات کا اہم حصہ ہے اور قوم کو روح عطا کرتا ہے، طاقت عطا کرتا ہے۔

ہم نہیں چاہتے کہ ہماری یونیورسٹیاں، امریکا کی فلاں یونیورسٹی کی نقل کریں اور وہی کچھ کریں جو وہ کرتی ہے۔ ہم ایسا نہیں چاہتے۔ ہم علم چاہتے ہیں، زانوئے ادب بھی تہہ کرتے ہیں، سیکھتے ہیں مطلب یہ شاگردی کرنے اور سیکھنے پر ہمیں بالکل بھی بے عزتی محسوس نہیں ہوتی لیکن ہم یہ نہیں چاہتے کہ ہماری یونیورسٹی تہران میں یا کسی دوسرے شہر میں امریکا کی فلاں یونیورسٹی کی نقل ہو اور وہی کچھ کرے جو وہ کرتی ہے، ہم نہیں چاہتے کہ اسی ثقافت کی یہاں بھی نقل کی جائے۔ ملک کا علمی و سائنسی ماحول، ایرانی و اسلامی علمی ماحول ہونا چاہیے۔ بحمد اللہ اس وقت ایسا ہی ہے۔ جب انسان ملک میں ہونے والے نمایاں اور پیشرفتہ علمی و سائنسی کاموں کو دیکھتا ہے، جیسے یہی چیزیں جن کا شہرہ بھی ہے، اسٹیم سیلز، نینو، بایو ٹیکنالوجی، ایٹمی ٹیکنالوجی وغیرہ تو ان میں سے زیادہ تر کے مذہبی محرکات ہیں۔ اس لیے کہ دین، علمی تحریک کو جہاد بتاتا ہے، تو وہ در حقیقت ایک جہادی کام انجام دے رہے ہیں۔ یہی جذبہ ملک کی یونیورسٹیوں کے ماحول پر حاوی ہونا چاہیے۔ ہمارے ملک کے حالات اس ملک کے حالات سے الگ ہیں جس کے یہاں بھی ایک پیشرفتہ اور نمایاں یونیورسٹی ہے۔ ہمیں اپنی ثقافت یعنی ایرانی ثقافت کے ساتھ زندگي گزارنی چاہیے، ایرانی کی حیثیت سے سوچنا چاہیے اور پیشرفت کے اسلامی و ایرانی آئيڈیل کا علمی و سائنسی امور میں بھی پوری طرح سے لحاظ کرنا چاہیے اور یہ میرے خیال میں بہت ہی اہم ہے۔ میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ اگر ہم دنیا کی برتر یونیورسٹیوں جیسے امریکا، کاناڈا اور دوسرے ملکوں کی یونیورسٹیوں کے کلچر کی نقل کرنا چاہیں گے تو علمی لحاظ سے جو نئي نئي باتیں ہمارے یہاں سامنے آتی ہیں وہ ختم ہو جائيں گي، اس پر بھی ضرور توجہ ہونی چاہیے۔ اس کی اور اس کی نقل کرنے اور اندھی تقلید سے ہماری علمی و سائنسی پیشرفت، سائنسی ایجادات اور نئے علمی و سائنسی نظریات ختم ہو جائيں گے۔

اگلی بات یہ ہے کہ ملک میں غیر معمولی صلاحیت کے حامل افراد کی سوسائٹی جو اہم کام انجام دے سکتی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ عمومی ڈپلومیسی میں کردار ادا کرے۔ اتفاق سے کسی صاحب نے ابھی اپنی تقریر میں اس کی جانب اشارہ کیا تھا اور میں نے بھی نوٹ کر لیا ہے: عمومی  ڈپلومیسی۔ مطلب یہ ہے کہ آپ اس میدان میں بھی اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ جیسے ثقافتی شعبے کے غیر معمولی صلاحیت والے افراد کو اکٹھا کرنا، یعنی گزشتہ صدیوں میں ایران کا وسیع و عریض ثقافتی قلمرو جو اس وقت تھوڑا تبدیل ہو چکا ہے۔ اس ثقافتی مجموعے میں، جس میں ہمارے کچھ ہمسایہ ممالک بھی شامل ہیں، ہم غیر معمولی صلاحیت والے افراد کو اکٹھا کر سکتے ہیں۔ یا مغربی ایشیا کے خطے کے غیر معمولی صلاحیت والے افراد کو اکٹھا کیا جا سکتا ہے یا پھر استقامتی محاذ کے غیر معمولی صلاحیت والے لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر لایا جا سکتا ہے۔ اس وقت ہمارے اسی خطے میں اور شمالی افریقا میں استقامت کے محور کے نام سے ایک اہم مجموعہ ہے، اس مجموعے میں بھی غیر معمولی صلاحیت کے حامل افراد ہیں، ان سب کو اکٹھا کرنا اور ان سے رابطہ قائم کرنا یا پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دنیا کے کسی بھی ملک کے، یورپ کے، امریکا کے اور دوسری جگہوں کے حق کے متلاشی غیر معمولی صلاحیت کے حامل افراد کو اکٹھا کرنا، ان جگہوں پر ایسے لوگ ہیں جو حق کی تلاش میں ہیں، حق پرست ہیں، صحیح اور حق بات کو ڈھونڈتے ہیں، اگر آپ ان سے تعاون کریں، آپ کے اور ان کے درمیان افہام و تفہیم ہو اور وہ آپ کی بات تسلیم بھی کرتے ہیں تو آپ ان سے رابطہ قائم کر سکتے ہیں۔ پھر آپ اس رابطے کے ذریعے پاکیزہ اور باوقار علم اور صحیح سوچ منتقل کر سکتے ہیں۔

ہم نے اسلام کی برکت سے دنیا کو ایک تیسرے راستے کی تجویز دی ہے۔ نہ تو معیشت اور معاشی مسائل میں سوشلزم کی راہ اور نہ ہی لبرلزم کا راستہ جو مغربی ڈیموکریسی اور اس کے منفی نتائج سے عبارت ہے، بلکہ ہمارے سامنے ایک تیسرا راستہ بھی ہے اور یہ وہ راستہ ہے جس پر آج ہمارا ملک چل رہا ہے، یہ تیسرا راستہ ہے۔ البتہ ہم نے اس راستے کی مختلف جہات کو پیش کرنے میں کچھ تساہلی کی ہے لیکن یہ کوئي زیادہ وقت نہیں ہے۔ ایک نظام کو حرکت میں لانے اور ایک تمدن تک پہنچنے کے لیے چالیس سال کا عرصہ کوئي زیادہ وقت نہیں ہے۔ مغربی ممالک نے، جو آج ایک ٹھوس تمدن کے دعویدار ہیں، چار پانچ صدیوں تک مسائل کا سامنا کیا ہے، بنابریں چالیس سال کوئي بہت زیادہ وقت نہیں ہے۔ ان مسائل میں ہم نے کما حقہ کام نہیں کیا ہے لیکن ہم اس تیسرے راستے کو صحیح طریقے سے متعارف کرا سکتے ہیں، صحیح طریقے سے آگے بڑھ سکتے ہیں اور اپنے عمل کے ذریعے اور اپنی منطقی بات کے ذریعے دلوں کو اس طرف، اس راہ کی طرف مائل کر سکتے ہیں، لازمی طور پر اپنی طرف یا اپنے ملک کی طرف نہیں بلکہ اس عظیم تحریک کی طرف جو انسانیت کے لیے مفید ثابت ہو سکتی ہے اور اس طرح ہم ملکوں کو مغرب کی ثقافتی یلغار سے نجات دے سکتے ہیں جس کا دائرہ روز بروز کم ہوتا جا رہا ہے۔

مغربی ثقافت نے شروع سے ہی غلط راستے کا انتخاب کیا تھا لیکن وہ شروع سے اتنے انحطاط کا شکار نہیں تھی، شروع سے ہی ایسا نہیں تھا۔ مغربی ثقافت میں آج جو برائياں موجود ہیں وہ سو سال پہلے بلکہ پچاس سال پہلے مغربی ملکوں میں نہیں تھیں۔ تدریجی طور پر ان میں مسلسل اضافہ کیا گيا، انھیں شامل کیا گيا۔ یہ چیزیں آج مغربی ملکوں میں ہیں جن کے بارے میں بات کرتے ہوئے بھی انسان کو واقعی شرم آتی ہے، یعنی برائيوں کی ترویج اور نیکیوں کا خاتمہ۔ البتہ یہ ہماری بات نہیں ہے جو ان کے مخالف ہیں بلکہ خود ان کے بہت سے دانشوروں، مصلحوں اور مفکروں کا یہ کہنا ہے اور یہ باتیں لکھتے ہین لیکن صیہونیت اور سامراجیت کا ایک مخلوط اور انتہائي طاقتور سرمایہ دار و اقتدار پرست حلقہ امریکا اور اس کے زیر اثر یورپ میں اور ان کی پیروی کرنے والے دیگر ممالک میں اس سوچ کو آگے بڑھا رہا ہے۔ اگر ہم صحیح طریقے سے کام کر سکیں تو ہم بہت سے معاشروں کو اس ثقافت کی دراندازی اور اثر و رسوخ اور اس کے غلبے سے نجات دے سکتے ہیں۔

اگلا نکتہ امید پیدا کرنے کے بارے میں ہے۔ میرا اس پر بہت زیادہ اصرار ہے۔ میں آپ سے بھی، اساتذہ سے بھی اور علمی تحریک کے علمبرداروں سے بھی اصرار کے ساتھ کہتا ہوں کہ ملک میں علمی و سائنسی پیشرفت کے سلسلے میں جو امید پیدا ہوئي ہے، اسے خدانخواستہ ختم نہ ہونے دیں۔ ایسا نہ ہو کہ ہم صرف مشکلات اور مسائل کو پیش کریں اور بڑی بڑی کامیابیوں کو نہ دیکھیں۔ جی ہاں! ملک میں مشکلات ہیں، بعض لوگ یہ سوچتے ہیں کہ ہمیں مشکلات کا علم نہیں ہے، جی نہیں! ہم مشکلات اور مسائل کو بہت سے دوسرے لوگوں سے زیادہ جانتے ہیں، مشکلیں ہیں لیکن ان مشکلوں کے ساتھ ہی بڑی بڑی کامیابیاں بھی ہیں۔ جب ہم صرف مشکلات کو پیش کرتے ہیں، تو کبھی ایک خاص مشکل پر، جو بہت زیادہ اہم بھی نہیں ہے، مسلسل اٹکے رہتے ہیں، مسلسل اسے دوہراتے رہتے ہیں، مسلسل کہتے رہتے ہیں، مسلسل اس کا نوحہ پڑھتے رہتے ہیں تو اس سے نوجوان کے دل میں امید کم ہو جاتی ہے، جوانوں کے دل میں امیدیں دم توڑنے لگتی ہیں، یہ غلط بات ہے۔ آج بحمد اللہ ملک اس اہم تحریک کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ اسلامی انقلاب سے پہلے ہم ایک جمود کا شکار، ٹھہرے ہوئے اور دوسروں کے پیچھے پیچھے چلنے والے ملک میں تھے، پسماندہ ممالک بھی ہم سے آگے بڑھ گئے تھے۔ بدعنوان اور امریکا کی پٹھو حکومت نے ہمیں روک رکھا تھا۔ آج آپ ملک میں جو یہ صلاحیتیں دیکھ رہے ہیں، یہ آج وجود میں نہیں آئي ہیں، یہ ایرانی صلاحیت ایک فطری چیز ہے تو پھر اسلامی انقلاب سے پہلے ہمارے یہاں علم کی اتنی پیداوار کیوں نہیں تھی؟ یہ علمی تحریک انقلاب سے پہلے کیوں نہیں تھی؟ مجھے کچھ اعداد و شمار دیے گئے ہیں، جنھیں میں نے نوٹ نہیں کیا ہے کہ آپ کو بتاؤں لیکن یہ بہت ہی حیرت انگيز چیز ہے، ملک کی یونیورسٹیوں میں جیسے تہران یونیورسٹی میں، شریف یونیورسٹی میں، شیراز یونیورسٹی میں علمی و سائنسی پیداوار کے اعداد و شمار بتائے گئے ہیں کہ ان میں سے کتنے فیصد انقلاب سے پہلے کے ہیں اور کتنے فیصد انقلاب کے بعد کے ہیں۔ یہ اسلامی انقلاب، ملک کی عظیم انقلابی تحریک اور انقلابی و اسلامی طرز فکر کی حکمرانی تھی جس نے ملک کو حرکت عطا کی اور اسے آگے بڑھایا، یہاں تک پہنچایا اور ان شاء اللہ اسے اوج پر بھی پہنچائے گي۔ ہم اونچی چھلانگیں لگائیں گے، ابھی تو ہم راہ کی ابتدا میں ہیں۔ نوجوان کو اس امید کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے، یہ الگ چیز ہے۔ علمی کام، آسان نہیں ہوتا۔البتہ جو علم کا خواہاں ہوتا ہے، اس کے لیے یہ اشتیاق انگیز ہوتا ہے لیکن بہرحال یہ سخت اور دشوار کام ہے۔ کاموں کو آگے بڑھانا سخت ہے؛ اگر یہ سخت کام، امید کے ہمراہ ہو تو آگے بڑھے گا۔

البتہ امید کا ایک اہم سہارا، خداوند متعال پر توکل ہے۔ العاقبۃ للمتقین (7) جب آپ متقی ہوں گے، پاکدامن ہوں گے، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا خیال رکھیں گے تو اللہ آپ کے ساتھ ہے۔ جب خدا، انسان کے ساتھ ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ فتح انسان کے ساتھ ہے، کامیابی انسان کے ساتھ ہے، کامرانی انسان کے ساتھ ہے اور معنوی مسرت انسان کے ساتھ ہے۔ میں آپ نوجوانوں کو، جو بحمد اللہ پاکدامن ہیں، آلودہ نہیں ہیں، ہم جیسے مسائل میں گرفتار نہیں ہیں، تاکید کے ساتھ نصیحت کرتا ہوں کہ اس پاکدامنی سے، اس پاکیزگي سے اور اس نورانیت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائيے، خداوند متعال کو اپنے دل میں، اپنے ذہن میں اور اپنے عمل میں ہمیشہ ساتھ رکھیے، ان شاء اللہ ضرور ترقی کریں گے۔

میں نے کچھ سال پہلے کہا تھا کہ ہماری ترقی ایسی ہونی چاہیے کہ اگلے پچاس سال بعد بھی، جس میں سے پانچ چھے سال گزر چکے ہیں، اگر کوئی دنیا کی تازہ علمی و سائنسی باتوں تک رسائی حاصل کرنا چاہے تو اسے فارسی سیکھنے پر مجبور ہونا پڑے (8)، ہمیں اس جگہ تک پہنچنا ہے۔ جیسا کہ اگر آج آپ لوگ نئي سائنسی تحقیقات تک پہنچنا چاہتے ہیں تو آپ فرض کیجیے کہ انگریزی سے واقفیت پر مجبور ہیں، قوانین اور اسی طرح کی دوسری باتوں میں مثال کے طور پر آپ کو فرانسیسی آنی چاہیے، ہمیں کام کو یہاں تک پہنچانا ہے۔ مطلب یہ کہ آپ لوگ اتنی ترقی کر جائيں اور اس مرحلے تک پہنچ جائیں، جس کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے، کہ دنیا میں جو بھی علم و سائنس کے مختلف شعبوں میں نئی باتوں تک پہنچنا چاہے اسے فارسی سیکھنے پر مجبور ہونا پڑے تاکہ وہ آپ کی تحریروں سے استفادہ کر سکے۔ البتہ آپ آج کے نوجوان، اس دن ملک کے حکام اور عہدیدار ہوں گے لیکن آپ کو اس طرح راہ ہموار کرنی ہے کہ اگلے بیس پچیس سال بعد کے نوجوان، جو آج آپ کے بچے ہیں، البتہ جنھوں نے شادی کی ہے اور جن کے بچے ہیں، ان شاء اللہ بہترین کام انجام دیں۔ مجھے امید ہے کہ خداوند متعال آپ سب کو توفیق عطا کرے گا، ان شاء اللہ۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

۱) اس ملاقات کے آغاز میں سائنس و ٹیکنالوجی کے امور کے نائب صدر سورنا ستاری نے ایک رپورٹ پیش کی اور مختلف شعبوں کے بارہ محققین اور ممتاز افراد نے اپنے نظریات بیان کئے۔

۲) حجّت‌الاسلام سیّد سعید رضا عاملی

۳) محسن حاجی‌ میرزایی

۴) منجملہ ملک کے فنی و صنعتی شعبے کے محققین اور انجینیئروں سے ملاقات، مورخہ 23 فروری 2005

۵) نالج بیسڈ کمپنیوں اور ہائی ٹیکنالوجی کی نمائش کا معائنہ  مورخہ 8 اکتوبر 2019

۶) یونیورسٹیوں کے اساتذہ، ممتاز ہستیوں اور محققین سے خطاب مورخہ 29 مئی 2019

7) منجملہ سورہ اعراف آیت 128، (نیک) انجام پرہیزگاروں کے لئے ہے۔

8) منجملہ الیٹ نوجوانوں کی نیشنل کانفرنس کے شرکاء سے خطاب مورخہ 9 اکتوبر 2013