3 نومبر 2019 کو آپ نے اپنے خطاب میں توانائی، نشاط اور عزم و حوصلے سے لبریز نوجوان نسل کو ملک کے لئے ایک عظیم اور گرانقدر نعمت سے تعبیر کیا۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

والحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ و السلام علی سیدنا و نبینا ابی القاسم المصطفی محمد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین

عزیز نوجوانو! اس قوم کے عزیز اور محبوب فرزندو! نئي نسل اور پرجوش اور سعی و کوشش کے تشنہ نوجوانو! آپ سب کا خیر مقدم ہے۔ بحمد اللہ آج ہمارے ملک کی نوجوان نسل میں یہ خصوصیت پائي جاتی ہے کہ وہ توانائي  و صلاحیت و جذبات سے بھري ہوئي ہے اور ہر اس کام کو انجام دینے کے لیے پوری طرح تیار ہے جس کے بارے میں اسے یہ احساس ہو جائے کہ اسے کرنا اس کی ذمہ داری ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو آج ملک کی نوجوان نسل میں واضح طور پر دکھائي دیتی ہے۔ یہ بہت اہم سرمایہ ہے، یہ بہت گرانقدر ہے، ایک ایسے ملک میں، جس میں کام اور جد و جہد کی اتنی زیادہ گنجائش ہو، نوجوانوں کی کثیر تعداد، یعنی دسیوں لاکھ نوجوانوں کی موجودگي ایک بڑی نعمت ہے۔

میں یہیں پر متنبہ کر دوں اور یہ بات میں نے متعدد بار دوہرائي ہے  کہ ایرانی قوم سے یہ نعمت سلب کرنے کی ایک سازش ہو رہی ہے۔ یعنی بڑی تعداد میں نوجوانوں کی موجودگی کی نعمت کو ختم کرنے کی۔ نئی نسل کو محدود کرنے کی اس پالیسی کا نتیجہ اگلے دس پندرہ سال میں یہ ہوگا کہ آپ ملک میں نوجوان نسل کی کثرت نہیں دیکھیں گے۔ میں اس بات کو جو اتنا دوہراتا ہوں، اس پر تاکید کرتا ہوں، انتباہ دیتا ہوں، اس کی وجہ یہ ہے۔ کچھ خطرے اور خطرناک اقدامات ہیں جن کا اثر دس سال بعد یا بیس سال بعد سامنے آئے گا، اس وقت کچھ نہیں کیا جا سکے گا۔ البتہ محترم عہدیداروں نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ وہ پوری سنجیدگي سے اس مسئلے پر کام کریں گے اور مشکلات کو دور کریں گے، ان شاء اللہ انھیں ایسا ہی کرنا چاہیے اور وہ کریں گے، ہم بھی اس مسئلے پر نظر رکھیں گے۔

بہرحال آپ نوجوانوں کا وجود، آپ عزیزوں کا وجود، ملک کے لیے ایک نعمت ہے۔ اپنے آپ کو سیدھے راستے پر، صراط مستقیم پر باقی رکھیے۔ اس ملک کو آپ کی ضرورت ہے، حقیقی معنی میں ضرورت ہے۔ آپ اس ملک کو تعمیر کریں، آپ اس ملک کو آگے لے جائيں، نوجوان نسل یہ کام کرے۔ البتہ ان نوجوانوں سے، جو حقیر مادی امور اور منشیات وغیرہ جیسے مسائل میں پھنسے ہوئے ہیں، کوئي توقع نہیں رکھی جا سکتی؛ وہ نوجوان جو جوش و جذبے سے سرشار ہے، احساسات سے بھرا ہوا ہے، جذبات رکھتا ہے، جو ذمہ داری محسوس کرتا ہے، یعنی آپ لوگ، یعنی ملک کے تمام دیندار نوجوان، یہ لوگ ہیں جو ملک کا مستقبل سنواریں گے۔

آج امریکا کے بارے میں ایک بات عرض کروں گا، کیونکہ ہماری اس نشست اور ہماری ملاقات کی مناسبت وہ مسئلہ ہے جو امریکا سے جڑا ہوا ہے، اگر وقت رہا تو ان شاء اللہ ایک دوسری بات اپنے داخلی مسائل کے بارے میں، ملک کے مسائل کے بارے میں عرض کروں  گا۔

امریکا کے بارے میں، میں یہ عرض کروں کہ امریکا میں نومبر سن انیس سو چونسٹھ سے لے کر، جب ایران میں اس کی پٹھو حکومت نے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کو جلا وطن کیا، نومبر سن دو ہزار انیس تک، جو آج کا دن ہے، کوئي تبدیلی نہیں آئي ہے؛ امریکا، وہی امریکا ہے، اس وقت جو بھیڑیا صفت تھا، وہی آج بھی امریکا میں ہے، وہی عالمی اور بین الاقوامی ڈکٹیٹر آج بھی امریکا میں موجود ہے۔ اس وقت بھی امریکا ایک عالمی ڈکٹیٹر تھا اور دنیا کے مختلف علاقوں میں اس کے پٹھو اور سپاہی موجود تھے، اس خطے میں اس کا پٹھو اور سپاہی محمد رضا پہلوی تھا، دوسرے مقامات پر دوسرے لوگ تھے، آج بھی وہی آمریت موجود ہے لیکن نئے طریقوں کے ساتھ، نئے وسائل کے ساتھ، وہی بھیڑیا صفت، وہی عالمی آمریت، وہی خباثت، وہی سرحدوں کا عدم احترام، آج بھی وہ کسی بھی حد پر رکنا نہیں چاہتے، امریکا وہی امریکا ہے۔ ہاں، آج امریکا زیادہ کمزور ہو گيا ہے، سن چونسٹھ سے امریکا زیادہ کمزور ہوا ہے لیکن وہ زیادہ سفاک بھی ہو گيا اور زیادہ ڈھیٹ بھی ہو گيا ہے۔ یہ امریکا ہے۔

امریکا نے ایران سے دشمنی کی، ایران سے امریکا کے تعلقات کی پوری تاریخ میں امریکا نے ہمیشہ ایران سے دشمنی کی، یہاں تک کہ اس طاغوتی حکومت میں بھی۔ اسلامی انقلاب سے پہلے ایران سے امریکا کی دشمنی یہ تھی کہ اس نے ایک قومی حکومت کو سن انیس سو ترپن میں ایک بغاوت کے ذریعے گرا دیا۔ امریکی ایجنٹ ڈالروں کا بریف کیس لے کر تہران آيا، برطانیہ کے سفارتخانے میں جا کر چھپ گيا اور وہاں سے اس نے پیسے تقسیم کرنا اور ڈالر دینا شروع کیا۔ کچھ لوگوں کو خریدا گيا اور ایک بغاوت شروع کرا کے قومی حکومت کو گرا دیا گيا۔ البتہ اس حکومت کا بھی قصور تھا، اس کا قصور یہ تھا کہ اس نے امریکا پر بہت زیادہ بھروسہ کر لیا تھا، لیکن امریکیوں نے وہ حکومت گرا دی اور پھر ایران میں اپنی پٹھو اور بدعنوان حکومت کو اقتدار میں پہنچا دیا۔ اس سے بڑی دشمنی نہیں ہو سکتی۔ امریکی، ہماری مسلح افواج پر مسلط ہو گئے، ملک کی پالیسیوں پر مسلط ہو گئے، ہماری ثقافت پر مسلط ہو گئے اور وہ بھی مکمل تسلط۔ سن انیس سو ترپن سے لے کر، جس کے اگست مہینے کی  انیس کو بغاوت کی گئي، اسلامی انقلاب تک یعنی سن انیس سو اناسی تک، یہی صورتحال جاری رہی۔ یہ اس دور میں ایرانی قوم اور ہمارے ملک سے امریکا کی دشمنی تھی، اسلامی انقلاب کے بعد کی صورتحال تو پوری طرح عیاں ہے، آج کی تاریخ تک یا دھمکیاں تھیں، یا پابندیاں تھیں، یا ہرزہ سرائی تھی، یا رکاوٹیں ڈالی گئيں یا اسلامی نظام میں در اندازی کی کوشش کی گئی؛ ان لوگوں نے ہمیشہ ایران اور ایرانیوں کے ساتھ دشمنی کی۔

کچھ لوگ تاریخ میں تحریف کرتے ہیں، خود امریکی یہ کام کرتے ہیں، جس سال یہ حقیر ملک کا صدر تھا اور اقوام متحدہ گيا تھا تو اس وقت کے ایک معروف امریکی رپورٹر نے اقوام متحدہ میں مجھ سے انٹرویو کیا اور ایران اور امریکا کے درمیان اختلافات کی شروعات کو امریکی سفارتخانے یا جاسوسی کے اڈے پر طلبہ کے قبضے سے جوڑ کر کہنے لگا کہ ہاں جب سے آپ کے نوجوانوں نے سفارتخانے پر قبضہ کر لیا، اس وقت سے ایران اور امریکا کے درمیان اختلاف پیدا ہو گيا۔ یہ تاریخ میں تحریف ہے، معاملہ یہ نہیں ہے۔ ایرانی قوم اور امریکا کے درمیان اختلاف، انیس اگست سن انیس سو ترپن بلکہ اس سے پہلے ہی شروع ہو چکا تھا، انیس اگست سن ترپن کو یہ اختلاف، عروج کو پہنچ گیا۔ یہ امریکی تھے جنھوں نے بزدلی کی، خباثت کی، بغاوت کے ذریعے ایرانی قوم پر ایک بدعنوان اور پٹھو حکومت مسلط کر دی، یہ کوئي معمولی بات نہیں ہے، برسوں تک یہ ملک امریکا کی پٹھو حکومت کے دباؤ کی چکی میں پستا رہا۔ تو دشمنی کی ابتدا انیس اگست سن انیس سو ترپن ہے، اس وقت سے ہے۔ البتہ اس سے پہلے بھی کچھ پروگرام تھے، ٹرومین  کے پروگرام جو ہماری نوجوانی کے زمانے کی بات ہے اور مجھے کسی حد تک یاد ہے؛ امریکا بظاہر دوست تھا اور بباطن دشمنی کر رہا تھا لیکن انیس اگست کے واقعے میں ہر چیز پوری طرح واضح اور عیاں تھی؛  امریکی میدان میں آ گئے اور ایک خودمختار ملک جس کی حکومت قومی اور عوامی تھی اور جو ان پر اعتماد بھی کرتی تھی، مصدق نے امریکیوں پر بھروسہ کیا اور اس کا تاوان بھی ادا کیا، امریکیوں نے ایک ایسے ملک میں بغاوت کروائي اور ایک بدعنوان، خبیث، ظالم اور بے رحم حکومت کو اقتدار میں پہنچا دیا۔ اسی وقت ایرانی قوم نے امریکا کے سلسلے میں دلی اور حقیقی موقف اختیار کیا۔ آپ دیکھیے کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے سن دو ہزار ترسٹھ میں، یعنی انیس اگست سن انیس سو ترپن کی بغاوت کے دس سال بعد، جب یہ اسلامی اور عوامی تحریک شروع ہوئي تو کہا کہ ایرانی قوم کی نظر میں پوری دنیا میں امریکی صدر سے زیادہ نفرت انگيز کوئي بھی نہیں ہے، یعنی سن ترپن میں امام خمینی اپنی قوم کو پہچانتے تھے، تو اس طرح کی حالت تھی۔

اسلامی انقلاب بنیادی طور پر امریکا کے خلاف تھا؛ یہ بات آپ عزیز نوجوان جان لیجیے! یہ اسلامی انقلاب بنیادی طور پر امریکا کے خلاف تھا جو سن انیس سو اناسی میں امام خمینی کی قیادت میں کامیاب ہوا۔ عوام میدان میں آ گئے تھے، انھوں نے بدعنوان شاہی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا اور اسلامی جمہوریہ کو اقتدار میں لے آئے تھے۔ عوام کے نعرے، سڑکوں پر آنے اور اپنے آپ کو خطرے میں ڈالنے والے گروہوں کے نعرے، امریکا مخالف نعرے تھے، امریکا نے اس عرصے میں یعنی سن انیس سو اناسی سے لے کر آج تک یعنی پچھلے اکتالیس برس میں ایرانی قوم سے دشمنی میں اسے جو کچھ آتا تھا وہ کیا ہے، جو کام وہ کر سکتا تھا اور جو کچھ اسے آتا تھا، وہ اس نے ایرانی قوم کے خلاف کیا ہے؛ بغاوت، لوگوں کو ورغلانا، علیحدگي پسندی، محاصرہ اور اسی طرح کی دوسری باتیں، آپ دیکھ ہی رہے ہیں۔ بحمد اللہ آج کے نوجوان ذہین ہیں، ہماری نوجوانی کے زمانے میں جو نوجوان تھے وہ عام طور پر آج کے نوجوانوں کی طرح چوکنا اور حالات سے اس طرح واقف نہیں تھے۔ آپ دیکھیے کہ امریکیوں نے اس عرصے میں ہر وہ کام کیا، جو وہ کر سکتے تھے، خاص طور پر انقلاب کے ذریعے وجود میں آنے والے اداروں کے خلاف، اسی طرح خود اسلامی نظام کے خلاف، خود اسلامی جمہوریہ کے خلاف، جو انقلاب کے بطن سے نکلا ہے، جتنی بھی دشمنی وہ کر سکتے تھے، انھوں نے کی ہے۔ البتہ ہم بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے نہیں رہے ہیں۔ ہم نے بھی امریکا کے خلاف، جو کچھ ہم کر سکتے تھے، کیا ہے۔ بہت سارے موقعوں پر ہم حریف کو اس طرح رنگ (ring) کے کونے میں لے گئے ہیں کہ وہ اپنا دفاع نہیں کر سکا ہے، یہ بات بھی پوری طرح سے واضح ہے، پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔

البتہ اسلامی جمہوریہ نے امریکا کی سازشوں کے مقابلے میں امریکا کو جو سب سے اہم جواب دیا ہے، اور میں چاہتا ہوں کہ آپ نوجوان اس نکتے پر توجہ دیں، یہ ہے کہ اس نے ملک میں امریکا کے دوبارہ سیاسی اثر و رسوخ اور دراندازی کے راستے کو بند کر دیا ہے، اسلامی جمہوریہ نے ملک میں امریکا کے دوبارہ داخلے اور ملک کے بنیادی اداروں میں اس کی دراندازی کا راستہ بند کر دیا۔ مذاکرات پر یہ قدغن کہ "ہم امریکا سے مذاکرات نہ کریں، مذاکرات نہ کریں" ان وسائل میں سے ایک ہے جس کے ذریعے امریکا کے داخلے کی راہ کو بند کیا گيا ہے۔ البتہ یہ امریکیوں کے لیے بہت سخت ہے۔ گھمنڈی اور سامراجی امریکا جو ملکوں کے سربراہوں اور ملکوں کے عہدیداروں پر ان سے گفتگو کرنے پر، مذاکرات کرنے پر احسان جماتا ہے، وہ برسوں سے اس بات پر اصرار کر رہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ کے حکام سے مذاکرات کرے اور اسلامی جمہوریہ ایران انکار کر رہا ہے، یہ امریکا کے لیے بہت سخت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں ایک ایسی قوم بھی ہے، ایک ایسی حکومت بھی ہے جو امریکا کی غاصبانہ طاقت، امریکا کی طاغوتی طاقت اور امریکا کی عالمی ڈکٹیٹرشپ کو تسلیم نہیں کرتی اور اس کے سامنے نہیں جھکتی۔ مذاکرات پر یہ قدغن، صرف ایک جذباتی کام نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے ایک مضبوط منطق ہے جو دشمن کی دراندازی اور اثر و رسوخ کے راستے کو بند کرتی ہے، اسلامی جمہوریہ ایران کی طاقت کو، اس کی عظمت کو عیاں کرتی ہے اور فریق مقابل کی کھوکھلی شان کو پوری دنیا کی آنکھوں کے سامنے مٹی میں ملا دیتی ہے، کیونکہ وہ ان کے ساتھ سیاسی مذاکرات کی میز پر نہیں بیٹھتی۔

بعض لوگ سوچتے ہیں کہ امریکا سے مذاکرات سے ملک کے مسائل حل ہو جائيں گے، یہ بہت بڑی بھول ہے، وہ لوگ سو فیصد غلطی کر رہے ہیں۔ فریق مقابل، ایران کی جانب سے مذاکرات کی بات ماننے اور مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کو، اسلامی جمہوریہ ایران کو جھکانے کے مترادف سمجھتا ہے، وہ یہ کہنا چاہتا ہے کہ آخرکار ہم نے معاشی دباؤ اور شدید پابندیوں سے ایران کو گھٹنے ٹیکنے اور اپنے ساتھ بیٹھ کر مذاکرات کرنے پر مجبور کر دیا۔ وہ دنیا کو یہ بات سمجھانا چاہتا ہے، یہ بات ثابت کرنا چاہتا ہے کہ "زیادہ سے زیادہ دباؤ" کی پالیسی ایک صحیح پالیسی ہے، اس نے اپنی افادیت ثابت کر دی ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران کو آخرکار مذاکرات کی میز پر لے آیا ہے۔ اس کے بعد وہ ایران کو کوئي بھی پوائنٹ نہیں دے گا، کوئي بھی رعایت نہیں دے گا، یہ میں آپ کو بتا دوں۔ قطعی اور یقینی طور پر اگر اسلامی جمہوریہ ایران کے حکام سادہ لوحی سے کام لیتے اور جا کر امریکی حکام سے مذاکرات کرتے تو انھیں کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا؛ نہ تو پابندیاں کم ہوتیں اور نہ ہی دباؤ میں کمی آتی۔ جیسے ہی وہ مذاکرات شروع کرتے، ویسے ہی نئی نئي توقعات اور نئے نئے مطالبے پیش کیے جاتے؛ جیسے یہ کہا جاتا کہ آپ کے میزائل ایسے ہوں، آپ کے پاس اتنے میزائل ہی ہوں، آپ کے میزائلوں کی رینج سو کلو میٹر، ڈیڑھ سو کلو میٹر سے زیادہ نہ ہو۔ آج خداوند عالم کی توفیق سے ہمارے نوجوان اتنے پوری درستگي سے صحیح نشانہ لگانے والے میزائل بنا رہے ہیں جن کی رینج دو ہزار کلو میٹر ہے اور دو ہزار کلو میٹر کی دوری پر صرف ایک میٹر کی ممکنہ غلطی سے، ان کے ذریعے جہاں چاہے وہاں نشانہ لگایا جا سکتا ہے، تو یہ ان کے لیے بہت سخت ہے۔ فریق مقابل کہتا ہے کہ آپ ان میزائلوں کو ختم کر دیجیے، تباہ کر دیجیے، آپ کے میزائلوں کی رینج صرف ڈیڑھ سو کلو میٹر ہونی چاہیے، اس طرح کے مطالبے پیش کرتے ہیں۔ اگر آپ نے مان لیا تو آپ کی شامت آ گئي اور اگر نہیں مانا تو پھر وہی کہانی، یہی سلسلہ دوبارہ شروع کر دیں گے اور یہی چیزیں جو وہ آج کہہ رہے ہیں، اس دن بھی کہیں گے۔ فریق مقابل آپ کو کوئي پوائنٹ اور کوئي رعایت نہیں دے گا۔

یہ کیوبا کا تجربہ اور کوریا کا تجربہ آپ کی آنکھوں کے سامنے ہے، شمالی کوریا کے حکام کے سامنے بچھے جا رہے تھے، مذاکرات کی تو بات ہی چھوڑیے! یہ کہہ رہے تھے میں ان کا عاشق ہوں، وہ کہہ رہے تھے میں بھی ہوں! نتیجہ کیا ہوا؟ پابندیوں میں سے ایک ذرہ بھی کم نہیں کیا۔ یہ ایسے ہی لوگ ہیں، رعایت نہیں دیں گے، آپ کو اپنے موقف سے پیچھے ہٹا دیں گے اور پھر دنیا کو بتائیں گے کہ ہم نے ایران کو جھکا دیا اور زیادہ سے زیادہ دباؤ کی ہماری پالیسی کامیاب تھی، آخر میں آپ کے ہاتھ کچھ بھی نہیں لگے گا، مذاکرات یہ ہیں۔ پھر کچھ حکومتیں، فرض کیجیے کہ فرانس کی حکومت، آ کر ثالثی کرنے کی کوشش کرتی ہیں، خط، ٹیلی فون، دورے، نیویارک وغیرہ میں متعدد ملاقاتیں اور مسلسل اصرار کہ ضرور ملاقات کیجیے۔ فرانس کے صدر  نے کہا تھا کہ اگر آپ ایک ملاقات کر لیجیے تو سارے مسائل حل ہو جائيں گے۔ واقعی بہت تعجب ہوتا ہے، یا تو یہ کہا جائے کہ یہ صاحب بہت بھولے ہیں یا پھر یہ کہا جائے کہ یہ بھی ان سے ملے ہوئے ہیں، ان دونوں میں سے ایک بات ضرور ہے۔ ملاقات اور مذاکرات سے کوئي بھی مشکل حل نہیں ہوگي۔ مجھے یقین تھا کہ یہ نہیں ہوگا لیکن سبھی کے سامنے اس بات کے واضح ہونے کے لیے میں نے کہا کہ ٹھیک ہے، ان لوگوں نے جو غلطی کی اور ایٹمی معاہدے سے نکل گئے، اس میں واپس آ جائيں اور تمام پابندیوں کو ہٹا لیں، پھر ایٹمی معاہدے کے تحت ہونے والے مذاکرات میں شرکت کریں، ہمیں کوئي اعتراض نہیں ہے۔ مجھے معلوم تھا کہ یہ نہیں ہوگا اور نہیں ہوا، انھوں نے  اسے تسلیم نہیں کیا۔ اگر ان میں کوئي کھوٹ نہیں ہے اور وہ سچ بول رہے ہیں تو پھر اسی بات کو تسلیم کر لیں، جی نہیں وہ کسی بھی مشکل کو برطرف نہیں کرنا چاہتے۔ وہ نئے مطالبات پیش کر رہے ہیں جنھیں یقینی طور پر ایرانی فریق تسلیم نہیں کرے گا، بالکل واضح ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ خطے میں سرگرم نہ رہیں، آپ استقامتی محاذ کی مدد نہ کریں، آپ فلاں اور فلاں ملک میں موجود نہ رہیں، آپ کے پاس میزائل نہیں ہونے چاہیے؛ اس طرح کے مسلط کرنے والے مطالبوں کے بعد بتدریج وہ دوسرے مطالبوں تک پہنچیں گے اور کہیں گے آپ حجاب پر زور نہ دیجیے، دینی قوانین پر تاکید نہ کیجیے، اس طرح کی باتیں پیش کریں گے، ان کے مطالبوں کی کوئي آخری حد نہیں ہے۔ میں نے کچھ سال پہلے اسی جگہ، اسی امام بارگاہ میں کچھ ذمہ داروں سے کہا تھا کہ آپ لوگ مجھے وہ جگہ بتائیے جہاں امریکا رک جائے گا اور پھر کوئي دوسری توقع پیش نہیں کرے گا، وہ جگہ کہاں ہے، ہمیں بھی بتائیے۔ کوئي آخری حد نہیں ہے۔ یہ لوگ وہی صورتحال چاہتے ہیں جو ملک میں اسلامی انقلاب سے پہلے تھی۔ یہ انقلاب، امریکا کے خلاف تھا؛ یہ لوگ وہی حالت لوٹانا چاہتے ہیں لیکن انقلاب، ان باتوں سے کہیں زیادہ مضبوط ہے۔ اسلامی جمہوریہ ان باتوں سے کہیں زیادہ مستحکم ہے، خداوند عالم کی توفیق سے اسلامی جمہوریہ کا ارادہ فولادی ارادہ اور عزم محکم ہے، وہ اس بات کی اجازت نہیں دے گی کہ امریکا دوبارہ ان ہتھکنڈوں سے ملک میں لوٹ آئے۔ تو فی الحال امریکا کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔

اب ہم داخلی مسائل پر بات کریں۔ داخلی مسائل کے بارے میں، میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں جو محترم عہدیداروں اور حکومت کے مختلف شعبوں کے عہدیداروں کے لیے قابل توجہ ہے جو واقعی کام کرنا چاہتے ہیں۔ داخلی سطح پر ہمارے سامنے متعدد مسائل ہیں۔ معیشت کے میدان میں، ثقافت کے میدان میں، سائنس و تحقیقات کے میدان میں، سماجی امور کے میدان میں ہمارے سامنے مسائل ہیں لیکن میں ایک مسئلے پر تاکید کرنا چاہتا ہوں اور وہ وہی موضوع ہے جس کا ذکر میں نے ایرانی قوم کے نام نئے ہجری شمسی سال کے پہلے پیغام میں اس سال کے نعرے کے طور پر کیا تھا اور وہ پیداوار کے فروغ کا مسئلہ ہے۔ آٹھ مہینے گزر گئے! ہاں اس آٹھ مہینے میں اچھے کام ہوئے ہیں، یہ میں عرض کر رہا ہوں، کافی اچھے کام ہوئے ہیں، کچھ شعبے ایسے ہیں جن میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ میں نے رواں سال کے آغاز میں ایرانی قوم سے عرض کیا تھا کہ ملک کے معاشی مسائل کے حل کی کنجی، پیداوار ہے۔ میں ماہر معاشیات و اقتصاد نہیں ہوں، یہ ماہرین اقتصاد کی بات ہے، ان سب کی متفق علیہ بات ہے۔ جب میں نے نئے سال کے نعرے کا اعلان کیا تو اس کے بعد ماہرین اقتصاد میں سے جس نے بھی اخبارات میں اور سائبر اسپیس وغیرہ پر بات کی، اسی کی تصدیق کی اور کہا کہ پیداوار میں اضافہ، ملک کے معاشی مسائل کے حل کی کنجی ہے۔ اس سے روزگار پیدا ہوتا ہے، نوجوانوں کی بے روزگاری ایک بڑا مسئلہ ہے جو روزگار سے ختم ہو جائے گا، اس سے قومی ثروت میں اضافہ ہوتا ہے،  عمومی آسائش پیدا ہوتی ہے، یہاں تک کہ علمی و سائنسی پیشرفت ہوتی ہے۔ جب پیداوار میں رونق آتی ہے تو کارخانوں، صنعتی یونٹوں اور زرعی شعبوں کو سائنسی طریقوں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، جب یونیورسٹیاں میدان میں آتی ہیں تو علمی و سائنسی رونق بھی پیدا ہوتی ہے، یعنی ملک کی معاشی مشکلات کے حل کی کنجی، پیداوار میں رونق ہے جس کا ہم نے اس سال اعلان کیا۔ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ملک کے معاشی میدان میں ہمیں بہرحال مشکلات کا سامنا ہے۔ یہ مہنگائي، یہ افراط زر، یہ قومی کرنسی کی قیمت میں کمی، ان سب سے لوگوں پر دباؤ آتا ہے، اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہ سارے مسائل ختم ہو جائیں تو اس کا واحد راستہ یہ ہے کہ ہم قومی پیداوار پر پوری توجہ دیں۔

محترم وزیر صنعت نے ایک بہت اچھی بات کہی جس سے مجھے خوشی ہوئي، انھوں نے وعدہ کیا اور کہا کہ جہاں بھی، کسی بھی پیداواری یونٹ کے سامنے کوئي دشواری ہو، مسئلہ ہو اور وہ بند ہونے والی ہو تو ہم خود اس کے پاس جائیں گے اور اسے بند نہیں ہونے دیں گے۔ اچھی بات ہے، یہ وعدہ ہے اور اسے پورا کیا جانا چاہیے، یہ بہت اچھی بات ہے، یہ صنعت کے شعبے کی بات ہے لیکن ملک کے حکام کو مختلف شعبوں میں اسی طرح ہونا چاہیے، کوئي دوسرا راستہ نہیں ہے۔

ملک کی مشکلات کو دور کرنے کے لیے دوسروں اور غیر ملکیوں کے انتظار میں نہیں بیٹھا جا سکتا بلکہ یہ انتظار ملک کی معاشی پیشرفت کو نقصان پہنچاتا ہے۔ کچھ عرصہ ہم ایٹمی معاہدے کی وجہ سے انتظار کریں، کچھ عرصہ اس وجہ سے انتظار کریں کہ دیکھیں امریکا کے صدر، اس تین مہینے کی مہلت یا ویور  کو، جو افسوس کہ جے سی پی او اے (Joint Comprehensive Plan of Action) میں رکھ دی گئي تھی، بڑھاتے ہیں یا نہیں؟ یعنی امریکی صدر کے ویور کی مدت میں اضافہ کیا جاتا ہے یا نہیں؟ کچھ عرصہ ہم اس لیے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں کہ دیکھیں فرانسیسیوں اور فرانس کے صدر کے پروگرام کا کیا ہوتا ہے؟ تو یہ تو صرف انتظار ہی ہوا۔ انتظار کی حالت میں معاشی سرمایہ کار سرمایہ کاری نہیں کرتا، کیونکہ اس کی کوئي بھی چیز واضح نہیں ہے، اقتصادی میدان میں کام کرنے والا بھی سرگرداں ہیں، یہ انتظار خود ہی ملک کو کساد بازاری اور پسماندگی کی طرف لے جاتا ہے۔ کتنا انتظار کریں؟ چھوڑ دیجیے؛ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کے تعلقات ہی توڑ لیجیے، نہیں، تعلقات بھی ہونے چاہیے، اگر کوئي کچھ کر سکتا ہے تو کرے، لیکن ان کے بھروسے نہ رہیے، ملک کے بھروسے رہیے، ملک کے اندر بہت زیادہ گنجائش ہے۔ ایک صوبے کے گورنر نے ابھی کچھ عرصے پہلے ہی مجھ سے کہا کہ میں کچھ ماہ کے اندر ہی اس صوبے میں نوے ہزار ارب تومان کے معاہدے کرنے میں کامیاب رہا ہوں۔ جانتے ہیں کہ نوے ہزار ارب تومان کا کیا مطلب ہوا؟ یعنی ملک کے کل بجٹ کا ایک چوتھائي۔ یہ بات ایک صوبے کا گورنر کہہ رہا ہے۔ تو ہماری گنجائش اس طرح کی ہے۔ اب اگر اس نوے ہزار ارب میں سے فرض کیجیے کہ پچاس فیصد عملی جامہ نہیں پہنتا ہے، پچھتر فیصد بھی عملی جامہ نہیں پہنتا ہے تب بھی کیا تیس ہزار ارب تومان کم ہے؟ یہ صرف ایک صوبے کا ہے، بنابریں کام کیجیے، تحقیق کیجیے، کوشش کیجیے، ملک کی گنجائش اس طرح کی ہے، اس گنجائش سے فائدہ اٹھایا جانا چاہیے۔

جہاں تک پیداوار کی رونق کی بات ہے تو اس کی ایک راہ ملک میں تیار ہونے والی اشیاء کی درآمد کو روکنا ہے، کیوں نہیں روکا جاتا؟ محترم عہدیداروں سے یہ میرا سنجیدہ سوال ہے، ایسا نہ ہونے دیجیے۔ کچھ لوگ ہیں جو درآمدات پر ہی جیتے ہیں۔ ان کی زندگي، ان کی بے پناہ دولت اور ان کے وسائل، سب کچھ درآمدات پر منحصر ہے۔ اسی لیے وہ بے تحاشا درآمدات کو روکنے نہیں دیتے۔ کیا انھیں، اس بے روزگار نوجوان پر ترجیح حاصل ہے؟ ملک کا بے روزگار نوجوان، بے تحاشا درآمدات کی وجہ سے، جو ملکی پیداوار کو شکست سے دوچار کرتا ہے، بے روزگار ہی رہ جاتا ہے۔ حتمی علاج یہی ہے کہ ہم ان صحیح پروگراموں پر اور ان پالیسیوں پر، جو محترم عہدیداروں کو ارسال کی گئي ہیں، چاہے وہ حکومت ہو یا پارلیمنٹ ہو، عمل درآمد کریں اور انھیں عملی جامہ پہنائيں۔ یہ مشکلات سے ملک کے باہر نکلنے کا راستہ ہے۔

اپنی بات کے آخر میں، میں آپ سے عرض کروں کہ ہماری گنجائش زیادہ ہے، ملک کی گنجائش بہت زیادہ ہے، ہم خداوند عالم کی مدد سے ان تمام مشکلات اور مسائل سے باہر نکل آئیں گے چاہے ان لوگوں کو کتنا ہی برا کیوں نہ لگے جو یہ نہیں دیکھ سکتے۔ خداوند عالم، ملک کے لیے آپ کو باقی رکھے، آپ سب کی حفاظت کرے، خداوند عالم ان شاء اللہ ملک کے تمام دردمند عہدیداروں کو اس بات کی توفیق عطا کرے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو بہترین طریقے سے انجام دیں۔

و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

  -  رواں ہجری شمسی سال (1398) کے پہلے دن مشہد مقدس میں عوامی اجتماع سے خطاب میں بھی اس بات کا ذکر ہوا تھا۔

2-  امریکا کے سابق صدر ہیری ٹرومین

3-   امانوئل میکراں

4- Waiver یعنی نظر انداز کرنا، پابندیاں اٹھانا