رہبر انقلاب اسلامی نے 12 جولائی 2020 کو ویڈیو لنک کے ذریعے ہونے والے اپنے خطاب میں فرمایا کہ پارلیمنٹ کو چاہئے کہ مسائل کی درجہ بندی کرے اور فروعی مسائل میں الجھے بغیر عوام کے لئے خلوص نیت کے ساتھ کام کرے اور مشکلات کو حل کرنے کے لئے موثر کردار ادا کرے۔ (1)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاہرین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین.

میں خداوند عالم کا شکر گزار ہوں جس نے ایرانی قوم کو یہ توفیق عطا کی کہ وہ مقررہ اور معینہ وقت پر مجلس شورائے اسلامی کو تشکیل دے اور اپنے منتخب نمائندوں کو اس اہم  اور مؤثر قومی ادارے میں بھیجے۔ اسی طرح میں خداوند متعال کا اس بات کے لیے بھی شکر گزار ہوں کہ اس نے آج مجھے اس بات کی توفیق عطا کی کہ ملک کی موجودہ صورتحال ، بیماری کے حالات اور موجودہ پابندیوں کے پیش نظر آپ سے یہ ملاقات کر سکوں اور کچھ باتیں عرض کر سکوں۔ میں مجلس (شورائے اسلامی) کے محترم اسپیکر جناب ڈاکٹر قالیباف کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنھوں نے بہت اچھی اور اہم باتیں بیان کیں۔ خداوند عالم سے دعاگو ہوں کہ وہ آپ کو منجملہ اسپیکر، پارلیمنٹ کی صدارتی کمیٹی اور تمام اراکین پارلیمنٹ کو یہ توفیق عطا کرے کہ ان اہم اور بنیادی باتوں کو ان شاء اللہ صحیح قانونی راستوں سے آگے بڑھائيں اور نتیجے تک پہنچائيں۔

سب سے پہلے تو میں خود اس پارلیمنٹ کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں، جس کے بعد کچھ باتیں ملک کے عمومی حالات کے بارے میں عرض کروں گا اور پھر میری کچھ سفارشات اور معروضات ہیں جو میں آپ اراکین پارلیمنٹ کے سامنے پیش کروں گا اور اگر آخر میں کچھ وقت بچا تو ملک میں جاری اس بیماری یعنی کورونا کے مسئلے میں بھی کچھ باتیں دوبارہ عرض کرنا چاہوں گا۔

پہلی بات جو آپ کی پارلیمنٹ سے متعلق ہے اس کے سلسلے میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ پارلیمنٹ یعنی گیارہویں پارلیمنٹ لوگوں کی امیدوں اور توقعات کی پارلیمنٹ ہے، لوگوں کی امید کا مرکز اور ان کی امید کا مظہر ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ وہ انتہائي سخت معاشی حالات میں بھی ووٹ ڈالنے کے لیے آئے اور انھوں نے آپ ارکین محترم کو ووٹ دیا۔ اس کے علاوہ بیرونی دشمنوں کی جانب سے مختلف طرح کے منفی پروپیگنڈے ہو رہے تھے، تھوڑے بہت لوگ ملک کے اندر بھی تھے، باتیں کی جا رہی تھیں، پروپیگنڈے کیے جا رہے تھے جو مایوس کرنے والے اور ظاہر ہے کہ لوگوں کو پولنگ اسٹیشنوں کی طرف آنے سے روکنے والے تھے۔ ان سب کے باوجود لوگوں نے ایک اچھی خاصی تعداد میں، جو دنیا میں انتخابات میں شرکت کے اچھی شرحوں میں سے ایک ہے، حق رائے دہی کا استعمال کیا اور اپنے نمائندوں کا انتخاب کیا یعنی آپ کو ووٹ دیا؛ کیوں؟ اس لیے کہ وہ پرامید تھے۔ ان تمام مشکلات کے باوجود جو سب اکٹھا ہو گئي تھیں تاکہ لوگوں کو بیلٹ باکس، پارلیمنٹ اور انتخابات کی جانب سے مایوس کر دیں، لوگ آئے اور انھوں نے بڑی امید کے ساتھ مجلس شورائے اسلامی کی تشکیل کے لیے ووٹ دیا اور آپ کو منتخب کیا۔ بنابریں یہ پارلیمنٹ لوگوں کی امید کا مظہر ہے، ان کی توقع کا مظہر ہے؛ یہ بہت ہی اہم نکتہ ہے۔

خوش قسمتی سے جو پارلیمنٹ تشکیل پائي ہے وہ اب تک کی سب سے مضبوط اور سب سے انقلابی پارلیمانوں میں سے ایک ہے۔ بحمد اللہ اس پارلیمنٹ میں کام کے جذبے اور ایمان سے لبریز اراکین، توانا اراکین اور نوجوان اراکین کی بڑی تعداد ہے۔ آپ میں تعلیم یافتہ اور انقلابی نوجوان بھی زیادہ ہیں جو کام کرنا جانتے ہیں اور اجرائي مسائل سے بھی بیگانہ نہیں ہیں، ایسے نوجوان بھی ہیں جو پرجوش ہیں، توانا ہیں اور ساتھ ہی کام بھی جانتے ہیں اور اسی کے ساتھ گزشتہ ادوار کے انقلابی افراد بھی ہیں جو کام کر چکے ہیں، اجرائي امور انجام دے چکے ہیں اور ان امور سے بخوبی واقف ہیں، عملی میدان کے مکمل شناسا ہیں۔ آپ کے درمیان اس طرح کے بھی کچھ لوگ ہیں جن کا وجود غنیمت ہے۔ اس کے ساتھ ہی مقننہ کے کچھ تجربہ کار افراد بھی ہیں یعنی وہ لوگ جو پہلے بھی رکن پارلیمنٹ رہ چکے ہیں اور پارلیمنٹ کے طریقۂ کار سے واقف ہیں۔ ان تینوں گروہوں کا مجموعہ، یعنی نوجوانوں، اجرائی کاموں سے واقف لوگوں اور پارلیمنٹ کے تجربہ کار اراکین کا مجموعہ بحمد اللہ اس پارلیمنٹ کے لیے ایک بہت ہی اچھا، کارآمد اور مفید مجموعہ ہے۔ بنابریں، یہ پارلیمنٹ ایک بہت ہی اچھی پارلیمنٹ ہے۔ بحمد اللہ انقلاب کے مسائل کے سلسلے میں بھی حساس ہے۔ نئي پارلیمنٹ کی تشکیل کے اسی ایک ڈیڑھ مہینے کے عرصے میں ہی انسان کو محسوس ہو گيا کہ پارلیمنٹ انقلاب کے مسائل کے سلسلے میں حساس ہے۔ آپ لوگوں نے اپنے کام میں تیز رفتاری بھی دکھائي ہے، پریزائڈنگ کمیٹی کی تشکیل میں بھی، اہم کمیشنوں کی تشکیل اور ان کے سربراہوں کے تعین میں بھی۔ بحمد اللہ آپ نے کام تیزی سے آگے بڑھایا ہے اور یہ سب باتیں قابل تحسین ہیں۔

آپ کے سامنے چار سال ہیں۔ چار سال کوئي کم مدت نہیں ہے، کافی بڑی مدت ہے۔ ہاں! امور کا اجرا آپ کے ہاتھ میں نہیں ہے لیکن آپ اجرا کی پٹری ہیں، آپ ملک کے مسائل، ملک کی پیشرفت اور ملک کے مستقبل پر بہت زیادہ اثر ڈال سکتے ہیں اور وہ بھی چار سال تک جو کہ کم مدت نہیں ہے۔ آپ عزیزوں کے کندھوں پر بھاری ذمہ داریاں ہیں اور اپنے بیان کے اگلے حصے میں سفارشات کے عنوان سے جو چیزیں میرے ذہن میں ہیں، انھیں عرض کروں گا۔ تو یہ تو وہ بات تھی جو اس پارلیمنٹ سے متعلق ہے۔

جہاں تک ملک کے عمومی حالات کی بات ہے تو کچھ مشکلات اور مسائل ہیں جو آپ سے پوشیدہ نہیں ہیں؛ معاشی مشکلات۔ ثقافتی مسائل کی بات، ایک الگ بحث ہے جس کے لیے ایک دوسرے وسیع باب کی ضرورت ہے، میں آج زیادہ تر معاشی مسائل پر بات کروں گا۔ ملک میں معاشی لحاظ سے کافی مسائل ہیں لیکن ملک کی بنیاد اور ڈھانچہ مستحکم ہے جو کہ بہت اہم بات ہے۔ بیماری ہے لیکن مریض کا ڈھانچہ مضبوط ہے، اس کی دفاعی طاقت کافی زیادہ ہے اور اس میں بیماری پر غلبہ پانے کی قوت ہے۔ اگر آپ ملک کو ایک انسانی جسم فرض کریں تو یہ مشکلات، جیسا کہ میں نے عرض کیا، ایک بیماری کی طرح ہیں لیکن بیماری کا خطرہ سبھی کے لیے یکساں نہیں ہے۔ اب دیکھیے کہ ملک میں کورونا ہے لیکن کورونا کا خطرہ سب کے لیے ایک جیسا نہیں ہے۔ اگر کوئي بوڑھا ہو، ناتواں ہو، جسمانی تقویت کی توانائي نہ رکھتا ہو اور اس وائرس کو بڑھانے والی بیماریاں اس میں ہوں تو یہ بیماری اس کے لیے خطرناک ہے، خطرہ بڑھانے والی ہے، ڈاکٹر بھی جب اس طرح کے مریض کو دیکھتا ہے تو زیادہ پرامید نہیں ہوتا لیکن اگر یہ مریض نوجوان ہو، جسمانی توانائي رکھتا ہو اور وائرس کو بڑھانے والی بیماریاں اس میں نہ ہوں جیسے وہ اسپورٹس مین ہو اور جسمانی لحاظ سے طاقتور ہو تو یہ بیماری اس کے اندر ہے لیکن اسے زیادہ خطرہ نہیں ہے۔ ڈاکٹر بھی جب ایسے مریض کو دیکھتا ہے تو زیادہ امید سے اس کی طرف بڑھتا ہے۔ تو ملک میں بیماریاں ہیں لیکن ان بیماریوں کے ساتھ ہی کچھ توانائياں بھی ہیں جن کی طرف میں اشارہ کروں گا۔

معاشی مسائل میں، جنھیں میں نے بیماری سے تشبیہ دی، سب سے بڑی مشکل افراط زر ہے، قومی کرنسی کی قدر میں کمی ہے، بلاوجہ کی مہنگائي ہے، پیداواری یونٹوں کے مسائل ہیں اور غیر ملکی پابندیاں ہیں، جن کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور ان سب کا نتیجہ متوسط اور نچلے طبقوں کی معیشت میں تنگی ہے۔ یہ تو بیماریاں ہیں لیکن ملک کی بنیاد مضبوط ہے۔ ہم کیوں یہ کہتے ہیں کہ ملک کی بنیاد مضبوط ہے؟ اس لیے کہ ملک میں بہت زیادہ توانائیاں اور گنجائشیں ہیں جن میں سے بعض کی طرف جناب قالیباف نے اشارہ کیا۔ ان میں سے بعض گنجائشیں قدرتی ہیں اور بعض انسانی ہیں۔ انھیں گنجائشوں کی وجہ سے معیشت کے شعبے میں سخت ترین پابندیوں اور ملک کے خلاف ہمہ گیر دباؤ کے باوجود ملک کئي ہزار نالج بیسڈ کمپنیاں بنانے اور سیکڑوں بنیادی منصوبے تیار کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ انھیں پابندیوں کے دوران اور تیل کی آمدنی میں کمی کے باوجود ایران نے 'ستارۂ خلیج فارس ریفائنری' بنانے جیسا بڑا کام انجام دیا ہے، توانائي، پانی اور بجلی کے شعبوں میں بے شمار کام انجام دیے گئے ہیں، بہت سے منصوبوں کا افتتاح ہوا ہے اور اب بھی ہو رہا ہے، یہ سب آپ دیکھ رہے ہیں، یہ حقیقی ہیں اور انجام پا رہے ہیں۔ فوجی صنعتوں کے میدان میں حیرت انگیز کام ہو رہے ہیں، خلائی مسائل کے میدان میں بھی اسی طرح کام ہو رہا ہے۔ ہمارے دشمن، ہمارے مخالفین اور وہ تمام لوگ، جنھوں نے یہ پابندیاں ہم پر مسلط کی ہیں اور انھیں امید تھی کہ ایران ان پابندیوں کے سبب گھٹنے ٹیک دے گا، اب وہی یہ بات تسلیم کر رہے ہیں، اعتراف کر رہے ہیں کہ وہ اپنے منصوبوں میں کامیاب نہیں رہے اور ایران اپنے پیروں پر کھڑا ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ ملک کی بنیاد اور اس کا ڈھانچہ بہت مضبوط ہے۔

یہ چیزیں جو میں نے عرض کیں، ملک کی گنجائشوں اور توانائيوں کا صرف ایک حصہ ہیں۔ اب آپ فرض کیجیے کہ کانوں، جنگلوں، جغرافیائي پوزیشن اور موسمیاتی تنوع سے لے کر تاریخ اور قومی تشخص وغیرہ جیسی مادی گنجائشوں کو بھی ان میں شامل کر لیا جائے۔ یہ ساری انتہائي اہم اور بنیادی توانائياں ہیں جن میں سے بعض تو بحمد اللہ صرف ہمارے ملک سے مختص ہیں یعنی کسی دوسرے ملک میں ان کا وجود نہیں ہے۔ یہ مادی گنجائشیں ہیں، لیکن ان کے ساتھ بہت سی معنوی توانائیاں بھی ہیں۔ میرا اصرار ہے کہ ہم ان معنوی توانائيوں پر توجہ دیں، ان سے مدد حاصل کریں، ان گنجائشوں میں سے جن کو سامنے لانے کی ضرورت ہے، سامنے لایا جائے۔ ہمارے ملک کی ان معنوی توانائيوں کی، سب کی سب یا تقریبا سبھی کی جڑ، مذہبی اور انقلابی ایمان ہے؛ یعنی یہ کہ عوام کا مذہبی اور انقلابی ایمان بہت مضبوط ہے۔ یہ ایمان ملک میں ایسی گنجائش پیدا کرتا ہے اور ایسی توانائیوں کو وجود میں لاتا ہے جن سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ اسلامی انقلاب کے دوران، انقلاب کے آغاز سے مسلط کردہ جنگ اور آج تک اس کے نمونے ہم نے دیکھے ہیں۔ ان اہم قومی اور انقلابی و مذہبی ایمان پر مبنی توانائیوں کا سب سے تازہ نمونہ کورونا کی بیماری کی پہلی لہر کے  دوران قوم کا بر وقت اور ایثار بھرا تعاون ہے۔ یہ مذاق تھا؟ پورا میڈیکل ڈپارٹمنٹ، صف اول کے مجاہدوں میں تھا، ان کے پیچھے عوام کے تمام طبقے کھڑے تھے۔ نوجوان مختلف جگہوں پر اور مختلف طریقوں سے میدان میں اتر آئے، خدمت کی، کام کیا اور اس خطرناک بیماری کے مقابلے میں ایرانی قوم کے مسائل کی تخفیف میں ان کا کام بہت مؤثر تھا۔ یا مومنانہ امداد کی تحریک میں، عوام سے اپیل کی گئي کہ وہ سماج کے کمزور طبقوں کی مدد کے میدان میں آئيں۔ البتہ اگر ہم نہ بھی کہتے تب بھی لوگ مدد کے میدان میں آ ہی گئے تھے، ہمارے کہنے سے پہلے ہی انھوں نے کام شروع کر دیا تھا، بعد میں پورے ملک میں وسیع پیمانے پر کام ہوا۔ آپ نے دیکھا کہ کتنے بڑے بڑے کام ہوئے، کمزور گھرانوں کی کتنی گرانقدر خدمات انجام دی گئيں اور رمضان کے مبارک مہینے کی شروعات سے پہلے لوگوں کی یہ عمومی تحریک انجام پائي۔ یہ ملک کی معنوی گنجائشیں ہیں، یہ چیزیں بہت اہم ہیں۔ اس معنوی گنجائش کا ایک اور نمونہ، ان واقعات سے تھوڑا پہلے، شہید سلیمانی کو الوداع کہنے کے لیے عوام کی شاندار موجودگي ہے۔ آپ نے دیکھا کہ ایرانی قوم نے کیا کیا؛ تہران میں کیا کیا، دیگر صوبوں اور اضلاع میں کیا کیا۔ لوگوں نے ایک ممتاز کمانڈر کی شہادت کے اہم واقعے کے سلسلے میں کیا شاندار کام کیا؟! اگر ہم یہ سوچیں تو غلط ہوگا کہ یہ صرف ایک جذباتی قدم تھا؛ ہاں جذبات کا بھی اثر تھا لیکن یہ قدم، محض ایک جذباتی قدم سے کہیں آگے تھا۔ اس سے جہاد پر عوام کا ایمان نمایاں ہوا۔ لوگوں نے دکھا دیا کہ وہ استقامت کے میدان میں جہاد پر یقین رکھتے ہیں، جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں، سامراج کے مقابلے میں استقامت پر یقین رکھتے ہیں۔ لوگوں نے دکھا دیا کہ وہ اس شخص کا احترام کرتے ہیں جو ایران کے قومی اقتدار اور جہادی قوت کا مظہر ہے۔ شہید سلیمانی اس قوت و طاقت کا مظہر تھے، وہ پورے خطے میں ایران کے قومی اقتدار کو اس ملک کے دشمنوں اور انقلاب کے دشمنوں کے سامنے ڈنکے کی چوٹ پر پیش کرتے تھے، وہ اس قومی اقتدار کے جذبے کے مظہر تھے، لوگوں نے اس کا احترام کیا۔ یہ بات، بہت اہم ہے۔ اس طرح کی گنجائش بہت گرانقدر ہے۔ اس نے دکھا دیا کہ لوگ اپنے قومی ہیرو کو کس حد تک اہمیت دیتے ہیں، ان کی موجودگی، ان لوگوں کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ تھا، جو اس روشن چہرے کے سلسلے میں ہرزہ سرائی کرتے ہیں اور ایسی باتیں کرتے ہیں جو خود کے لائق ہوتی ہیں، جیسے امریکی حکام اور دنیا میں ان جیسے افراد۔ اس معنوی گنجائش، عوام کی معنوی موجودگي اور ایرانی قوم کی آمادگي کے بہت سے دوسرے نمونے بھی ہیں اور ان سب کی جڑیں اسلامی ایمان اور انقلابی ایمان میں پیوست ہیں۔ ان کا انکار نہیں کیا جا سکتا، اگر کوئي ان کا انکار کرتا ہے تو یہ ایسے ہی ہے جیسے وہ بھری دوپہر میں سورج کا انکار کر دے۔ آپ دیکھیے کہ ان برسوں میں جہاں بھی ملک کے نظام کو کوئي پریشانی ہوئي، لوگ میدان میں آ گئے، جب بھی کچھ لوگوں نے دشمنوں کے بھڑکانے پر، چاہے وہ سن انیس سو ننانوے ہو، چاہے، سن دو ہزار نو ہو یا بعد کے برسوں میں ہو، کچھ ایسی حرکتیں کیں جو نظام کے لیے نقصان دہ تھیں تو جس نے میدان میں آ کر دشمن کو مایوس کیا، وہ عوام تھے۔ اس سے بڑی کوئي توانائي ہو سکتی ہے؟ اس سے بہتر کوئي مضبوط ڈھانچہ ہو سکتا ہے؟ بنابریں جب انسان ان حقائق کو دیکھتا ہے تو سمجھ جاتا ہے کہ اس طرح کے مختلف واقعات کے مقابلے میں ملک کا ڈھانچہ مستحکم ہے۔

ہماری مشکلات کا سبب حقیقت میں یہ ہے کہ ہم نے خود بے توجہی سے کام لیا ہے: ظھرَ الفَسادُ فِی البَرِّ وَ البَحرِ بِما کَسَبَت اَیدِی النّاس.(2) خود ہم نے بعض جگہوں پر بے توجہی کی ہے۔ مثال کے طور پر فرض کیجیے کہ ہم نے پروڈکشن کو اہمیت نہیں دی، سرمایہ کاری کو اہمیت نہیں دی، اچانک ہی ہمیں کارخانوں کے ٹھپ ہو جانے کا سامنا کرنا پڑا یا ملک میں پروڈکشن کی کمی کے مسئلے سے دوچار ہونا پڑا۔ تو جب انسان کام نہیں کرے گا تو کام نہ کرنے کا نتیجہ، سامنے ہے۔ مختلف اوقات میں جن جگہوں پر ہم عہدیداروں نے بے توجہی کی یا صحیح طریقے سے توجہ نہیں دی تو اس کے نتائج یہی ہوں گے۔ اگر خود پر بھروسہ اور خود اعتمادی کی یہ سوچ اور یہ جذبہ، جو آج بحمد اللہ عام ہو چکا ہے اور خاص طور پر پڑھے لکھے اور پر عزم نوجوانوں میں بڑھا ہے اور اسی طرح معیشت میں ملکی قوت پر یہ اعتماد اسی طرح آگے بڑھتا رہے اور وہ بے بنیاد امیدیں، جو سرحدوں کے پار دیکھی جا سکتی ہیں اور جو ملک کی معیشت کو اغیار کے فیصلوں پر منحصر کر دیتی ہیں، ختم ہو جائيں یا کمزور پڑ جائیں اور قومی اعتماد میں اضافہ ہو جائے تو میرے خیال میں یہ تمام مسائل جو آج معیشت میں موجود ہیں، ختم کیے جا سکتے ہیں۔ ملک کے اس مضبوط ڈھانچے سے استفادہ کیا جانا چاہیے۔ وہ باتیں جو جناب ڈاکٹر قالیباف کی تقریر میں تھیں اور اسی طرح کی جو دوسری باتیں ہیں، ان کو ان شاء اللہ پوری شدت اور سنجیدگي سے اور پارلیمنٹ کے دائرۂ اختیار میں اور پارلیمنٹ کے قانونی راستوں سے آگے بڑھائيے، تو ان شاء اللہ مشکلات برطرف ہو جائيں گي۔ مجھے پورا یقین ہے کہ یہ ساری مشکلات قابل حل ہیں۔

جہاں تک آپ عزیزوں اور اراکین پارلیمنٹ کی ذمہ داریوں کی بات ہے اور جو حقیقت میں اصل بات ہے اور میں یہاں اس سلسلے میں زیادہ بات نہیں کرنا چاہتا بس کچھ باتوں کو نصیحت کے طور پر عرض کروں گا۔ برادران و خواہران عزیز! پہلی بات یہ ہے کہ اپنی نیتوں کو خالص کیجیے اور لوگوں کے لیے کام کیجیے۔ دنیا کی پارلیمانوں میں عوام کے نام پر بہت باتیں کی جاتی ہیں لیکن لوگوں کے لیے کام نہیں ہوتا۔ ایک پچھڑی ہوئي پارلیمنٹ وہ پارلیمنٹ ہے جس میں ذاتی مسائل اور جماعتی مسائل، قومی مسائل اور عوامی مسائل سے زیادہ مؤثر ہوں۔ سب سے پہلا مسئلہ یہ ہے، سب سے پہلی نصیحت یہ ہے۔ خدا کے لیے، یعنی حقیقت میں خالص نیت کے ساتھ فیصلہ کیجیے کہ عوام کے لیے کام کرنا ہے۔ ماحول سازی اور اس طرح کی باتوں میں نہ پھنسیے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اس طرح کا ماحول تیار کر دیا جاتا ہے کہ جو انسان کو ایک طرف کھینچ لے جاتا ہے، نہیں، یہ دیکھیے کہ وہاں آپ کی ذمہ داری کیا ہے؟ فرض کیا ہے؟ کون سی چیز عوام کے لیے مفید ہے؟ وہی کام کیجیے، چاہے وہ اس ماحول کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ ماحول سے بالکل متاثر نہ ہوں!

ایک اور مسئلہ آپ کی حلف کا ہے۔ یہ جو پارلیمنٹ کے آغاز میں اجتماعی طور پر حلف لیا جاتا ہے یہ ایک شرعی قسم ہے، یہ صرف ظاہری پروٹوکول نہیں ہے۔ قسم کھانے سے ایک فریضہ عائد ہو جاتا ہے۔ آپ نے اس قسم میں یہ عہد کیا ہے کہ اسلام کی حفاظت کریں گے، انقلاب کے ثمرات کی حفاظت کریں گے، یہ چیزیں آپ کے حلف کے متن میں ہیں۔ آپ پوری سنجیدگی سے ان چیزوں کے پابند رہئے۔ یعنی انقلاب کے ثمرات کی پاسبانی اور اس فریضے کی پوری سنجیدگی سے پابندی کرنے والے اور اسلام کے وقار کی محافظ بنئے۔ اس قسم کی خلاف ورزی شرعی احتساب کی وجہ بنے گی، الہی احتساب کی وجہ بنے گی۔ یعنی قیامت کے دن اللہ تعالی سوال کرے گا۔ یہ کوئی عام او معمولی قسم نہیں ہے۔ البتہ عام قسم کی خلاف ورزی پر بھی کفارہ واجب ہو جاتا ہے۔ اس کے بارے میں بھی اللہ تعالی کی جانب سے باز پرس ہوگی۔ لیکن یہ بالکل الگ صورت ہے کہ ہم نے اپنے کسی ذاتی کام کے لئے قسم کھائی ہو۔ یہاں عمومی مسئلے کا معاملہ ہے، عوامی معاملہ در پیش ہے، اس پر جواب دینا پڑے گا، یہ قسم بہت اہم ہے۔

ہماری ایک اور سفارش یہ ہے کہ کلیدی مسائل پر توجہ مرکوز کیجئے۔ بنیادی مسائل کو ترجیحات میں رکھئے۔ کبھی فروعی اور دوسرے درجے کے مسائل پر بھی توجہ دینا ضروری ہوتا ہے لیکن دوسرے درجے کے مسائل کے سلسلے میں یہ روش نہیں ہونی چاہئے کہ کلیدی مسائل کی جانب سنجیدہ اور متحدہ کوشش میں رکاوٹ آنے لگے۔ مثال کے طور پر اقتصادیات میں اگر ہم کلیدی امور کو پیش کرنا چاہتے ہیں تو پیداوار کا مسئلہ بہت کلیدی اور بنیادی ہے۔ ہم نے اس سال کو پیداوار میں تیز رفتار پیشرفت کا سال قرار دیا ہے۔ اس وقت سال کا چوتھا مہینہ چل رہا ہے۔ اس سال میں نظر آنان چاہئے کہ پیداوار میں تیز رفتار پیشرفت ہوئی ہے۔ روزگار کا مسئلہ بنیادی مسائل میں ہے۔ البتہ اس کا ربط بھی پیداوار سے ہے۔ افراط زر پر کنٹرول واقعی کلیدی مسئلہ ہے۔ افراط زر کی شرح میں اضافے اور گرانی کے سلسلہ وار علل و اسباب کی شناخت کیجئے اور ان وجوہات کو سامنے لائیے۔ مالیاتی نظام کا صحیح انتظام و انصرام کلیدی مسائل میں ہے۔ ملکی معیشت کا تیل پر انحصار سے آزاد ہونا کلیدی مسائل میں ہے۔ یہ اہم مسائل ہیں۔ یہ اقتصادی میدان کے مسائل ہیں۔

سماجی مسائل وغیرہ کے سلسلے میں مکان کا مسئلہ بہت اہم اور کلیدی ہے۔ خاندانوں کے اخراجات میں مکان کی حیثیت بہت کلیدی ہوتی ہے، مکان کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ نوجوانوں کی شادی کا مسئلہ بھی بنیادی مسائل میں ہے۔ ان مسائل میں ہے جن کی طرف سے ہرگز غفلت نہیں ہونا چاہئے، شادی کو آسان بنانے کے طریقوں اور نوجوانوں کے لئے شادی کے امکانات کی فراہمی پر غور کیا جانا چاہئے۔ ان میں بعض راستے ایسے ہیں جن میں زیادہ خرچ بھی نہیں ہے، صرف ضروری فیصلے کرنے کی ضرورت ہے، توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بچے پیدا کرنے اور نسل بڑھانے کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ یہ ایسا موضوع ہے جس پر ان چند برسوں میں میں نے زور دیا ہے، (3) تاکید کی ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ اب جب نتیجے پر غور کرتا ہوں تو پتہ چلتا ہے کہ اس تاکید کا کچھ خاص اثر نہیں ہوا ہے۔ اس کے لئے قانون کی ضرورت ہے، اجرائی اداروں کی طرف سے اس پر سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے، بچے پیدا کرنے کے مسئلے کی اہمیت پر پوری سنجیدگی سے توجہ دینا چاہئے، آبادی کے بڑھاپے کے مرحلے میں پنہچ جانے کی بابت ڈرنے کی ضرورت ہے۔ غیر ملکیوں سے ہمیں مطلب نہیں، دشمن تو دشمن ہوتا ہے، لیکن ملک کے اندر بھی کچھ کج فکری نظر آتی ہے، میں نے ایک جگہ پڑھا کہ کہتے ہیں کہ جناب! آبادی اگر بوڑھی ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے! کوئی کیسے کہہ سکتا ہے کہ حرج نہیں ہے! کسی بھی ملک کا بہت مفید سرمایہ اس ملک کی نوجوان آبادی ہوتی ہے اور ہم بحمد اللہ اوائل انقلاب سے اب تک اس سرمائے سے بہرہ مند رہے ہیں، اگر مستقبل میں ہمارے پاس یہ سرمایہ نہ رہا تو یقینا ہم پیچھے رہ جائیں گے۔ ورچوئل اسپیس کو سنبھالنے کا مسئلہ بھی کلیدی مسائل میں ہے، یہ کوئی دراز مدتی مسئلہ بھی نہیں ہے۔ کوتاہ مدتی یا میانہ مدتی مسئلہ ہے، یہ ہمارے نزدیک کے مسائل میں ہے۔ اس پر توجہ دینا چاہئے۔ اسی طرح دوسرے کلیدی مسائل ہیں۔ آپ ان پر دھیان دیجئے اور فروعی مسائل میں نہ الجھئے، غیر اہم اور غیر ترجیحی مسائل میں نہ الجھئے۔

ایک اور اہم سفارش دیگر اداروں کے ساتھ تعاون اور امداد باہمی کے تعلق سے ہے۔ تعاون کا کلی روڈمیپ اس حقیر کی نظر میں یہ ہے: مجریہ اور عدلیہ کی جانب سے تعاون یہ ہو کہ وہ آپ کے ذریعے منظور کئے گئے قوانین اور بل پر من و عن عمل کریں، یعنی پارلیمنٹ سے پاس ہونے والے بل پر عملدرآمد میں کوئی بھی تاخیر جائز نہیں، پارلیمنٹ کے منظور کردہ بل کو ملتوی کرنا یا اس کے بارے میں بے اعتنائی برتنا جائز نہیں ہے۔ ان دونوں محکموں کی ذمہ داری ہے کہ آپ کے ذریعے پاس ہونے والے بل پر عمل کریں۔ آپ کی طرف سے تعاون کا یہ مطلب ہے کہ آپ کوئی بھی بل اور قرارداد ملکی وسائل اور صلاحیتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے پاس کیجئے۔ بہت سی چیزیں ہیں کہ انسان کا دل چاہتا ہے کہ پارلیمنٹ سے پاس ہوں، ان پر عمل ہو، یہ بہت اچھی چیز ہے، لیکن ملک کی صلاحیتیں، ملک کی  توانائياں اور ملک کے اندر زمینی حقائق ساتھ نہیں دے رہے ہیں۔ مجریہ کی توانائیوں، عدلیہ کی توانائیوں اور ملکی صلاحیتوں اور  حقائق کو مد نظر رکھا جانا چاہئے اور ان کو مد نظر رکھتے ہوئے بل پاس کیا جانا چاہئے۔ اس انداز میں کام کرنے سے بہت اچھا دو طرفہ تعاون شروع ہو سکتا ہے۔

حکومتی عہدیداروں سے اپنے روابط کے سلسلے میں بھی بہت خیال رکھئے۔ اس لئے کہ آپ کا سروکار حکومتی عہدیداروں سے ہے۔ ایک بہت اچھا کام یہ انجام پایا کہ محترم وزراء ایوان میں آئے اور انھوں نے اپنے اپنے شعبے کے حالات کی تفصیلات آپ کے سامنے پیش کیں۔ اس ایک مہینے سے کچھ زیادہ مدت میں جو بہت اچھے کام ہوئے ان میں ایک یہی ہے۔ حکومتی عہدیداران سے آپ کے روابط قانون سے بھی مطابقت رکھتے ہوں اور شریعت کے دائرے میں بھی ہوں، یہ قانونی بھی ہوں اور شرعی بھی ہوں۔ یعنی سوال کرنا معاملات کو کھنگالنا جو قانون میں ذکر ہے، آپ کا حق ہے یہ آپ کو حاصل ہونا چاہئے۔ لیکن توہین کرنا نہیں، بدکلامی نہیں، بغیر صحیح معلومات کے کوئی بات کہنا نہیں، یہ آپ کا حق نہیں ہے، ان میں بعض عمل تو شرعا حرام بھی ہیں، جائز نہیں ہیں۔ کوئی انسان کسی وزیر کی مثلا توہین کر دے، گالیاں دے، تہمت لگائے تو یہ ہرگز جائز نہیں ہے۔ تو آپ ان دو چیزوں میں فرق رکھئے۔ اس میں جو آپ کی ذمہ داری ہے اور اس چیز میں جو آپ کے لئے شرعا ممنوع ہے فرق رکھئے۔ شریعت اور قانون نے کچھ چیزوں کو آپ کی ذمہ داری قرار دیا ہے اور کچھ چیزوں سے آپ کو روکا ہے۔ کچھ فرائض ہیں اور کچھ چیزیں اجتناب کی ہیں، دونوں پر آپ توجہ دیجئے۔ جذبات میں آکر کوئی اقدام نہیں کرنا چاہئے، غیر منطقی اقدام نہیں کرنا چاہئے، برتاؤ میں متانت ہو، دانشمندی ہو، جس کا جواز پیش کیا جا سکے، خواہ انداز محکم ہو۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آپ فریق مقابل کی بات سے سو فیصدی عدم اتفاق رکھتے ہیں، یعنی اسے پوری طرح مسترد کرتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن مخالف رائے اور نظر اس انداز سے پیش کی جانی چاہئے کہ پارلیمنٹ کے باہر اگر کوئی اس عمل کو دیکھ رہا ہو تو وہ باور کر سکے کہ آپ حق بجانب ہیں، یعنی آپ متانت کے ساتھ اور دانشمندی کے ساتھ بات کیجئے۔

اداروں اور حکومتی عہدیداروں سے تعاون کے سلسلے میں مزید دو نکتے ہیں وہ بھی عرض کر دینا چاہتا ہوں۔ ایک نکتہ تو یہ ہے کہ ان گزشتہ برسوں کے تجربات سے ثابت ہو چکا ہے کہ اعلی سطح پر ٹکراؤ، تنازعہ اور بحث و جدال رائے عامہ کے لئے ضرر رساں ہے۔ اس سے عوام فکرمند ہوتے ہیں۔ بے شک عوام کو آپ سے، حکومت سے اور عدلیہ سے یہ توقع ہے کہ سچائی بیان کیجئے اور حق بات کی حمایت کیجئے لیکن انھیں یہ توقع نہیں ہے کہ آپ آپس میں الجھ پڑیں گے اور دست و گریباں ہو جائيں گے۔ اسے عوام ہرگز پسند نہیں کرتے۔ خاص طور پر اعلی سطح پر کشیدگی سے عوام کو تکلیف پہنچتی ہے، تشویش ہوتی ہے، اس کا رائے عامہ پر منفی اثر پڑتا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ آج آپ مشاہدہ کر رہے ہیں، دیکھ رہے ہیں کہ عیار دشمن، یہ دشمن محاذ، یعنی صرف امریکہ نہیں ہے، بے شک ان میں امریکہ سب سے خبیث اور سب سے پست ہے لیکن امریکہ اکیلا نہیں ہے، دشمنوں کا ایک پورا محاذ ہے۔ اس نے اپنی پوری طاقت اسلامی جمہوریہ کو پسپائی پر مجبور کرنے پر مرکوز کر دی ہے۔ البتہ یہ بھی ہمارے لئے فخر کی بات ہے۔ دنیا کے طاقتور سیاسی اور اقتصادی محاذ اپنی تمام توانائیاں اگر کسی انسان کے خلاف استعمال کریں تو اس سے آپ کے اندر موجود توانائی کا بھی پتہ چلتا ہے۔ اگر آپ طاقتور نہ ہوتے، اگر آپ مقتدر نہ ہوتے تو ان کے لئے اتنے سارے وسائل اور افراد کو جمع کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ اس کی ضرورت نہ پڑتی کے اتنے بڑے لاؤ لشکر کو جمع کریں اور آپ کے مقابلے کے لئے آئيں۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ آپ طاقتور ہیں۔ تاہم یہ تو حقیقت ہے کہ دشمن نے اپنی تمام تر توانائیاں متحرک کر دی ہیں۔ اپنی اقتصادی توانائیاں، اپنی سیاسی قوت، اپنی تشہیراتی طاقت سب۔ آپ خود دیکھ رہے ہیں کہ ہر دن یا ہر دوسرے تیسرے دن امریکہ کے یہ مہمل بیانی کرنے والے عہدیداران، ان کا وزیر خارجہ یا وہ دوسرا شخص یا خود ان کا صدر ضرور ایران کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ کبھی انٹرویو میں، کبھی کسی بین الاقوامی کانفرنس میں یا اگر کوئی جگہ نہیں ملی تو کم از کم صیہونیوں کی لابی میں، اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف کوئی نہ کوئی بیان، کوئي نہ کوئی بات، کوئي نہ کوئی شکوہ یا گلہ ضرور کرتے ہیں، کوئی مہمل بات ضرور کہتے ہیں۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انھوں نے پوری سنجیدگی سے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ اپنے تمام تر تشہیراتی وسائل کو متحرک کریں گے۔ اقتصادی وسائل کے ساتھ ہی ان وسائل کو بھی استعمال کریں گے۔ اب ان شرایط میں ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ ہماری ذمہ داری ہے داخلی سطح پر اتحاد و یکجہتی قائم رکھنا جس سے دشمن کے سامنے ہماری وحدت نظر آئے۔ بے شک پسند اور رجحان کا اختلاف ہے، اختلاف رائے ہے، ہم میں کچھ لوگ ممکن ہے کہ بعض دیگر افراد سے متفق نہ ہوں لیکن دشمن کا سامنا ہے تو ہم سب ایک دوسرے کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہو جائیں، ہماری ایک ہی آواز ہو، ایک ہی اقدام ہو، ایک ہی عمل انجام دیں۔

بے شک میری نظر میں پارلیمنٹ کا نگرانی و نظارت کا کام بہت اہم ہے۔ یعنی واقعی نگرانی و نظارت کے سلسلے میں پارلیمنٹ کا رول بہت کلیدی اور حیاتی ہے، اس سلسلے میں کوئي بے توجہی نہیں ہونا چاہئے لیکن میرا یہ ماننا ہے کہ متانت کے ساتھ یہ کردار ادا کیا جائے۔ دانشمندی کے ساتھ، متانت کے ساتھ اور غیر ضروری باتوں میں پڑے بغیر یہ کام ہونا چاہئے۔

ایک بات اور بھی ہے جو میں آپ سے اور حکومتی عہدیداروں سے کہنا چاہتا ہوں۔ حکومتوں کا آخری سال عام طور پر بہت حساس سال ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں اس حقیر کو اب کافی تجربہ ہو چکا ہے۔ حکومتوں کا چوتھا سال، خاص طور پر اگر دوسرے دور کا چوتھا سال ہو تو بہت حساس ہوتا ہے۔ اگر پورا خیال نہ رکھا جائے تو اس سال میں عام طور پر کام سست روی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ ٹرم کے آخری دن تک ہر حکومت کی ذمہ داری ہے کہ پوری محنت کرے، پورا کام کرے، آخری لمحے تک۔ میرا یہ ماننا ہے کہ حکومتوں کو آخری دن تک محنت کرنا چاہئے، کام کرنا چاہئے اور اپنے فرائض پر عمل کرنا چاہئے۔ اس کے بعد امانت آئندہ حکومت کو سونپیں۔ میرا تو یہ نظریہ ہے کہ تمام تفصیلات کے ساتھ۔ جیسے کوئي انجینیئر جب کسی پروجیکٹ کو بیچ میں کسی دوسرے انجینیئر کو سونپتا ہے تو مکمل تفصیلات بھی دے دیتا ہے کہ یہ کام انجام دیا جا چکا ہے اور اس وقت یہ صورت حال ہے۔ آخری دن تک کام کرنا چاہئے۔ ان حساس حالات میں حکومت کا آخری سال جو آپ کی کارکردگی کا پہلا سال ہے اس میں دونوں کو، پارلیمنٹ کو بھی اور حکومت کو بھی امور کو اس طرح سنبھالنا چاہئے کہ کاموں کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ یہ خیال رکھا جائے اور حالات کو اس طرح سنبھالا جائے کہ ملک کے اہم کاموں کو کوئی نقصان نہ پہچے۔

پارلیمنٹ کے سلسلے میں آخری بات یہ عرض کرنا ہے کہ آپ کے پاس بڑے اہم مراکز ہیں۔ ان میں ہر ایک اپنی جگہ پر خاص اہمیت کا حامل ہے۔ ایک تو تحقیقاتی و مطالعاتی مرکز ہے جو بہت اہم ہے۔ اس مرکز کو بہترین انداز میں استعمال کیجئے۔ ماضی میں بھی خوش قسمتی سے بہت سے مواقع پر اس مطالعاتی مرکز کو بہت اچھی طرح استعمال کیا گيا۔ اس مرکز نے بعض اوقات ارکان پارلیمنٹ کی بڑی اہم مدد کی ہے۔ یہ بہت اہم مرکز ہے۔

دوسرا مرکز ارکان پارلیمنٹ کے طرز عمل پر نظر رکھنے والا مرکز ہے جو حالیہ کچھ سال سے کام کر رہا ہے۔ یہ بھی بہت اہم ہے۔ الحمد للہ آپ سب بہت اچھے ہیں لیکن اچھا ہونا ایک بات ہے اور اچھا بنا رہنا دوسری بات ہے۔ ہمیں کوشش کرنا چاہئے کہ ہم اچھے بنے رہیں۔ ہم سب سے غلطی کا امکان رہتا ہے۔ ہر آن  یہ امکان رہتا ہے کہ  خدانخواستہ ہم سے کوئی لغزش ہو جائے، ہم سب، میری  بھی یہی صورت حال ہے اور آپ کی بھی یہی صورت حال ہے کہ ہمارے لئے اس کا خطرہ رہتا ہے تو ہمیں بہت محتاط رہنا چاہئے۔ ہمیں خود بھی خیال رکھنا چاہئے اسی طرح «وَ تَواصَوا بِالحَقِّ ‌وَ تَواصَوا بِالصَّبر» (4) ارکان پارلیمنٹ کے طرز عمل پر نظارت کے مرکز کا یہی کام ہے؛ «تَواصَوا بِالحَقِّ ‌وَتَواصَوابِالصَّبر»۔ یہی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔ یہی سماجی احساس ذمہ داری ہے جس پر اسلام نے تاکید کی ہے۔

میں آخری بات کورونا کے تعلق سے عرض کرنا چاہتا ہوں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ کورونا کا دوبارہ پھیلاؤ بہت غم انگیز ہے۔ جب ٹی وی پر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ آج ایک سو اسی لوگ، چند دن پہلے دو سو بیس لوگ جاں بحق ہو گئے تو دل ٹوٹ جاتا ہے۔ اس سے بہت دکھ ہوتا ہے۔ چوبیس گھنٹے میں اتنے سارے افراد! تیس کی تعداد بھی بہت زیادہ تھی۔ جب اس میں کمی آ گئي تھی تو تعداد تیس تک پہنچ گئی تھی، وہ بھی زیادہ تعداد تھی۔ کیونکہ ان تیس افراد میں بھی ہر شخص کے کچھ اعزاء رہے ہوں گے، اس سے محبت کرنے والے لوگ ہوں گے، باپ ہوں گے، ماں ہوگی، بیوی ہوگی، بچے ہوں گے، بھائی ہوں گے، دوست ہوں گے، یہ سب کے سب سوگ میں ڈوب گئے ہوں گے۔ اب یہی تعداد اگر بڑھ کر دو سو، ایک سو اسی اور ڈیڑھ سو تک پہنچ جاتی ہے تو واقعی یہ بہت غم انگیز بات ہے۔ واقعی غم انگیز ہے۔ میں گزارش کروں گا کہ وہ سارے افراد جو اس سلسلے میں کوئی رول ادا کر سکتے ہیں بھرپور انداز میں اپنا رول ادا کریں۔

یہ خوشی کی بات ہے کہ طبی شعبے نے بڑے خلوص سے کام کیا۔ اس شعبے کی فداکاری کو بیان کرنے سے اب زبان قاصر ہے۔ عوام کی خدمت کی راہ میں اس شعبے کے کتنے ایسے افراد ہیں جو خود وائرس سے مبتلا ہو گئے اور ان میں سے متعدد کی جانیں بھی چلی گئیں! ان چیزوں کی بڑی قیمت ہے، یہ بہت اہم بات ہے۔ تاہم صرف طبی شعبہ نہیں ہے۔ دوسرے بھی متعدد شعبے ہیں جو اس سلسلے میں اہم فیصلے کر رہے ہیں، وہ شعبے جو ان فیصلوں پر عمل کر رہے ہیں اور وہ شعبے جو ان کی پشت پناہی کا کام انجام دے رہے ہیں۔ یہ سب بھی ہیں۔ شروع کے مہینے میں ہمارے نوجوانوں کی ایک بڑی  تعداد میدان میں اتری، خدمات انجام دیں، پشت پناہی کی، ان (طبی شعبے) کی مدد کی اور خود عوام کی مدد کی۔ میں جب ٹی وی پر دیکھتا ہوں کہ کچھ لوگ راستے سے گزر رہے ہیں اور اس معمولی سی چیز یعنی یہی ماسک لگانے کی بھی پابندی نہیں کرتے تو واقعی مجھے ان نرسوں سے شرمندگی ہوتی ہے جو اس انداز سے قربانیاں دے رہی ہیں، ڈاکٹر، نرسیں سب۔ دوسری طرف یہ جناب، یہ نوجوان یا غیر نوجوان ماسک لگانے کے لئے بھی تیار نہیں ہے۔ یہ ہماری پہلی گزارش ہے۔ میں گزارش کروں گا کہ اس سلسلے میں جو موثر افراد ہیں، خواہ ملک کے اجرائی عہدیداران ہوں  یا وہ افراد ہوں جو خدمات انجام دے سکتے ہیں، سب اس میدان میں کام کریں تاکہ کمترین وقت میں ہم وائرس کے پھیلاؤ کے سلسلے کو توڑ سکیں اور ملک کو ساحل نجات پر لے جا سکیں۔ شروع میں ہم سب سے زیادہ کامیاب ممالک میں تھے لیکن آج وہ صورت حال نہیں ہے۔ آج بھی ہم بہت سے ممالک سے آگے ہیں، بہتر ہیں لیکن شروع میں جو پوزیشن تھی وہ اب نہیں ہے۔ اس سے تکلیف پہنچتی ہے۔ یہ رہا ایک نکتہ۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ کورونا کے اس بحران کے دوران کمزور طبقات،  بلکہ مڈل کلاس کو بھی زندگی اور معیشت کے لحاظ سے بڑا جھٹکا لگا ہے۔ ماہ رمضان کے موقع پر جو کام شروع ہوا تھا، مومنانہ خدمت کی تحریک کہ جس میں سب نے شرکت کی، وہ بہت اچھی تحریک تھی، اس نے بہت سے خاندانوں کے غم و اندوہ کو کم کیا۔ میرا یہ خیال ہے کہ اس وقت پھر امداد اور باہمی مدد کا یہ سلسلہ ہمارے عزیز عوام شروع کریں۔ البتہ یہ سلسلہ بند نہیں ہوا ہے۔ لیکن ضرورت ہے کہ اس میں کچھ وسعت آئے، اس کا دائرہ وسیع تر ہو۔ ملک کی فضا کو ایک بار پھر آپ تازگی عطا کیجئے۔ بچوں کو خوشیاں دیجئے، خاندانوں کی مدد کیجئے، ماں باپ کو بچوں کا پیٹ بھرنے کی فکر سے نجات دلائيے۔ عوام یہ کام کر سکتے ہیں۔ اس کا کیا انداز ہو، اسے کس انداز سے انجام دیا جائے؟ یہ کسی ایک مرکز سے کنٹرول ہونے والے کام نہیں ہیں، یہ کام عمومی سطح پر، پورے ملک کی سطح پر انجام دیا جانا چاہئے۔ الحمد للہ ہمارا ملک بڑا ملک ہے، عوام کی بڑی تعداد ہے، اس وسیع سطح پر جس کے پاس جتنی استطاعت ہے، جس طرح بھی ممکن ہے اس عمل میں ہاتھ بٹائے۔ یہ نہ کہئے کہ فلاں خاندان کو دو چینلوں سے تین چینلوں سے مدد پہنچ گئیں۔ پہنچ گئی تو پہنچ گئی! یہ اچھی بات ہے۔ اگر نظم و ترتیب کے ساتھ یہ کام انجام دیا جا سکتا ہے، منظم اور مرتب انداز میں ہو سکتا ہے تو اچھی بات ہے، لیکن اگر اس انداز سے نہ ہو سکے تب بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ مثلا یہ ہوگا کہ کسی خاندان کو دو تین جگہ سے مدد پہنچ جائے گی۔ اس پر اعتراض نہ کریں کہ اس صورت حال میں کسی خاندان کو ہو سکتا ہے کہ دو جگہ سے مدد پہنچ جائے۔ پہنچتی ہے تو پہنچ جائے! بس یہ کوشش ہونا چاہئے کہ کوئي چھوٹ نہ جائے۔ بس اتنا ہی۔ خیال رکھا جائے کہ کوئي محروم نہ رہے۔ عوام کو ضرورت کی چیزیں مل جائیں! اس سے ملک کے اندر تازگی پیدا ہوتی ہے، کاموں میں برکت ہوتی ہے، لطف و فضل پروردگار کا نزول ہوتا ہے۔

ایک اور چیز جس پر میں تاکید کرنا چاہوں گا، یہ آخری گزارش ہے، وہ توسل اور دعا کا مسئلہ ہے۔ ہم نے شروع سے ہی عرض کیا کہ اس قضیئے میں عمومی توسل بہت اہم چیز ہے۔ یہ صحیفہ سجادیہ کی ساتویں دعا تک محدود نہیں ہے جسے بحمد اللہ بہت سے لوگوں نے پڑھا اور عمل کیا، دوسری مختلف دعائیں ہیں۔ دعا کیجئے، اللہ سے طلب کیجئے، تضرع کیجئے، اللہ سے مانگئے۔ خاص طور پر نوجوان، خاص طور پر پاکیزہ قلوب جو پاکیزہ پانی کی مانند ہوتے ہیں۔ بعض دلوں میں نور ہوتا ہے، ان کی دعائیں پوری طرح مستجاب ہوتی ہیں۔ «دعای نیم‌ شبی رفع صد بلا بکند» ان‌شاءالله۔ میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی آپ سب کو کامیابی دے اور امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی روح مطہر اور شہدا کی پاکیزہ ارواح کو ہم سے راضی و خوشنود رکھے۔

و السّلام علیکم و رحمة ‌الله و برکاته

۱) اس ملاقات کے آغاز میں پارلیمنٹ کے اسپیکر ڈاکٹر محمد باقر قالی باف نے ایک رپورٹ پیش کی۔

۲) سوره‌ روم، آیت نمبر ۴۱ کا ایک حصہ «لوگوں نے جو کام کئے ہیں ان کی وجہ سے خشکی و سمندر فساد نمایاں ہو گيا ہے۔ »

۳) منجملہ نئے شادی شدہ جوڑوں سے خطاب 4  اگست 2019

4) سوره‌ عصر،آیت نمبر ۳ کا ایک حصہ «...ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کی اور ایک دوسرے کو تحمل کی نصیحت کی۔»