ہمارا منطقی مطالبہ پابندیوں کا خاتمہ ہے جو ایرانی قوم کا غصب شدہ حق ہے۔  یہ جملے رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب کے آخر میں کہے گئے اور انہوں نے اسے اسلامی جمہوریہ ایران کی حتمی اور آخری بات قرار دیا ۔

 KHAMENEI.IR وب سائٹ نے 'حتمی بات' کے ذیل میں پابندیوں اور جے سی پی او اے کے سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے موقف پر رہبر انقلاب اسلامی کے مشیر اور تشخیص مصلحت نظام کونسل کے رکن ڈاکٹر علی لاریجانی  سے گفتگو کی ہے۔

 

سوال: رہبر انقلاب اسلامی نے حالیہ دنوں میں فرمایا کہ اصل مسئلہ ، پابندیوں کا خاتمہ ہے نہ کہ جے سی پی او اے میں امریکہ کی واپسی  اور جے سی پی او اے میں امریکہ کی واپسی کا مفہوم اس وقت واضح ہوگا جب پابندیاں ختم ہو چکی ہوں ورنہ اس واپسی سے ہمیں نقصان بھی ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں آپ کا تجزیہ کیا ہے؟

جواب: یہ جو رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا ہے کہ امریکیوں نے آغاز سے ہی ایٹمی معاہدے پر عمل نہيں کیا ہے، پوری طرح سے صحیح ہے؛ مطلب اوباما کے زمانے میں بھی امریکیوں نے عمل کے وقت صحیح طور پر اس پر عملدرآمد نہيں کیا یعنی تمام شقوں پر عمل درآمد نہیں کیا۔ اسی زمانے میں امریکی وزارت خزانہ جسے اصل میں سازگار حالات فراہم کرنے تھے، پس پردہ مختلف ملکوں اور کمپنیوں کو یہ پیغام دیتی تھی کہ ایران کے ساتھ معاہدہ نہ کیا جائے لیکن ٹرمپ کے زمانے میں یہ معاملہ ذرا زیادہ واضح ہو گیا۔ ایران کا موقف یہ تھا کہ ان کی پابندیاں، ان کے وعدوں کے خلاف تھیں۔ حقیقت میں بھی ایسا ہی تھا اور انہيں اس کے بر عکس کام کرنا تھا۔ اب یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے حالات بدل گئے ہيں لیکن سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر حالات بدل گئے ہیں تو اچھی بات ہے پابندیاں ہٹا دیں اور جو کچھ غیر قانونی کام ایران کے خلاف کیا ہے اسے واپس کالعدم کریں تاکہ آپ کی خواہش کے مطابق ایران بھی واپس ہو جائے اور اپنے کمٹمنٹس پر پھر سے عمل کرنے لگے۔

اگر پابندیاں نہ ہٹائيں تو جے سی پی او اے میں واپس نہيں آ سکتے کیونکہ ان لوگوں نے خود ہی کہا ہے اور جے سی پی او اے میں بھی موجود ہے کہ ہم یہ وعدہ کرتے ہيں کہ پابندیاں اٹھا ليں گے۔ یورپی بھی آج جے سی پی او اے کا حصہ اسی لئے ہیں کیونکہ وہ کہتے ہيں کہ ہم امریکی رویے کے خلاف ہيں۔ اب جہاں تک یہ بات ہے کہ انہوں نے عملی طور  پر کیا کیا ہے تو وہ ایک الگ موضوع ہے۔  لیکن بظاہر تو یہی کہتے ہيں کہ ہم پابندیوں کے خلاف ہيں۔ امریکیوں کی پابندیاں، پوری طرح ان کے وعدوں کے بر خلاف ہيں اور اسی لئے وہ واپس نہيں آ سکتے۔ یہ جو کہتے ہيں کہ ہم پہلے واپس آئيں گے بعد میں مذاکرات کرتے رہیں گے! یہ کسی بھی حالت میں قابل قبول نہیں ہے۔ ان کی واپسی اس بات پر منحصر ہے کہ وہ اپنے وعدوں پر عمل کریں جیسا کہ ہم نے اپنے کمٹمنٹس پر عمل کیا۔

 

سوال: تکنیکی اعتبار سے، پابندیوں کے خاتمے اور کمٹمنٹس پر عمل در آمد کے لئے معینہ اقدامات ضروری ہیں۔ امریکیوں کو کیا کرنا ہوگا جس سے یہ ثابت ہو کہ ان کی پالیسی بدل گئی ہے؟

اصل بات یہ ہے کہ پابندیوں کا خاتمہ ہونا چاہئے، اس میں تو کوئي شبہ ہی نہیں اور اگر یہ کام انہوں نے نہیں کیا تو معاہدے کا حصہ بھی نہيں بن سکتے۔ کیونکہ انہوں نے اپنے وعدے پورے نہيں کئے۔ اب جہاں تک اس بات کا سوال ہے کہ یہ کام کیسے ہوگا تو خود اس کے لئے ایک روڈ میپ کی ضرورت ہے اور اگر وہ یہ سوچتے ہيں کہ مثال کے طور پر ایک لالی پوپ سے ایران کو دھوکا دے سکتے ہيں تو یہ ان کی سادہ لوحی ہے ۔ ایران ڈٹا ہوا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ آپ لوگوں کو، جو ہمیں معاشی نقصان پہنچا ہے اس کی تلافی کے علاوہ کم سے کم پابندیوں کا خاتمہ تو کرنا ہی ہوگا  اس کے بعد پانچ جمع ایک کا حصہ بنیں اور وہاں پھر باقی باتيں ہوتی رہيں گی۔

یقینا ان لوگوں نے اس دوران ایران کو نقصان پہنچایا، یعنی ایسا نہیں ہے کہ اس کا کوئي نقصان نہیں ہوا، لیکن پھر بھی اس پر گفتگو کی ضرورت ہے۔ اب اگر اس پر گفتگو کو کوئی قبول نہ کرے، تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ یہ لوگ ظاہری اقدام کرتے ہوئے کچھ عہدیداروں پر عائد پابندیاں ختم کر دیں گے اور پھر کہیں گے کہ باقی پابندیوں پر مذاکرات ضروری ہيں۔  یہ ہمارے نقصان میں ہے اور ہم کسی بھی صورت میں اس معاملے پر بات چیت نہيں کر سکتے۔

سوال: رہبر انقلاب اسلامی کے بیانات میں "جے سی پی او اے  کا تجربہ"  بار بار دہرایا جانے والا اہم لفظ ہے۔ رہبر انقلاب  نے 9 جنوری کے قیام کی سالگرہ کے موقع پر ٹی وی پر اپنے خطاب میں بھی "کمٹمنٹس پر عمل کے مقابلے میں کمٹمنٹس پر عمل"  کا ذکر کیا۔ اب اگر ہم اس تجرباتی نظریے کے ساتھ اس موضوع پر توجہ دیں اور نئی حکمت عملی میں اس تجربہ کو قومی مفادات کے مزید تحفظ کے لئے استعمال کریں تو آپ کی نظر میں ذمہ داریوں پر عمل کے مقابلے میں ذمہ داریوں پر عمل کیسے ممکن ہوگا؟

جواب: اس سلسلے میں مختلف نشستوں میں گزشتہ بیس برسوں کے دوران مجھے جو تجربہ حاصل ہوا ہے اس کے پیش نظر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جو شخص حقیقت میں قوم کے حقوق کا عقل مندی اور باریک بینی کے ساتھ تحفظ اور ان کی نگرانی کرتا ہے وہ رہبر انقلاب ہيں۔ انہوں نے حقیقت میں سخت حالات میں بھی عوام کے حقوق کا تحفظ کیا ہے اور حالات میں لا ینحل پیچیدگی بھی پیدا نہيں ہونے دی۔ ایک بات جس پر رہبر انقلاب اسلامی نے ہمیشہ زور دیا ہے وہ یہ ہے کہ یہ مذاکرات کا پرچم ہمیشہ آپ کے ہاتھوں میں ہونا چاہیۓ۔ یعنی ہم نے ہر حال میں یہاں تک کہ جب ہم سنٹری فیوج مشینیں لگانے جا رہے تھے تب بھی مذاکرات کا پرچم نیچے نہیں جھکایا، یہاں تک کہ کبھی ہمارے داخلی مسائل بھی تھے جنہیں آسانی سے حل نہيں کیا جا سکتا تھا لیکن ان حالات میں بھی رہبر انقلاب اسلامی کا یہی نظریہ قائم رہا۔

رہبر انقلاب مختلف نشستوں میں  باریک بینی اور مکمل فہم و ادراک کے ساتھ موضوعات کو حل کرتے رہے۔ اسی جے سی پی او اے کے سلسلے میں رہبر انقلاب اسلامی کے ساتھ کئی نشستوں کا انعقاد ہوا۔ وہ جو بھی اصول بتاتے اس پر بہت غور کیا گیا ہوتا تھا اور بے حد متوازن بھی ہوتا تھا جس کی وجہ سے مذاکرات کاروں کو بحث و گفتگو کے لئے باریک بینی سے تیار شدہ ایک دائرہ مل جاتا تھا۔ اس لئے ان کا کردار یقینی طور پر قوم کے حقوق کے محافظ کا ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ اس کا تحفظ کیسے کیا جا سکتا ہے؟  اور کون سا طریقہ اختیار کیا جائے جس کے بعد وہ لوگ اپنی حرکت دوہرائيں نہ؟ اس طرح کی تمام نشستوں میں میرا نظریہ ہمیشہ یہ رہا کہ ہمیں چاہيے کہ ہم جزوی امور پر توجہ دینے کے بجائے ان سے کہيں کہ مجموعی طور پر آپ پابندیاں ختم کریں اور اس کا واضح طور پر اور سند کے ساتھ اعلان کریں۔ اس کے بعد ہم اپنا کام کریں۔ اب یہ چیز ذرا مختلف طریقے سے آگے بڑھی۔ میرا خیال ہے کہ مرحلہ وار کام کرنے میں ہمارا فائدہ نہيں ہے۔ یعنی یہ کہ وہ ایک چھوٹا قدم اٹھائيں اور پھر اس کے بدلے ہم کوئي قدم اٹھائيں اس میں ہمارا کوئي فائدہ نہیں ہے۔ جب مذاکرات ہوتے ہیں اور بات تفصیلات کو طے کرنے پر شروع ہوتی ہے تو جب دونوں فریقوں کے ماہرین کی ٹیمیں بیٹھتی ہیں تو کچھ ایسی خباثتیں  بھی کی جاتی ہیں جن کا حل مشکل ہو جاتا ہے۔ میرے خیال میں مجموعی اقدام زیادہ بہتر ہے، انہیں ایک ساتھ پابندیوں کا خاتمہ تسلیم کرنا چاہيے۔

 

سوال: کچھ لوگ ٹرمپ اور امریکہ کے سیاسی نظام کو الگ الگ سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹرمپ ایک شخصیت تھے کہ جنہیں امریکی جمہوریت قابو میں کرنے اور ہٹانے میں کامیاب رہی، وہ ایک ناسور تھے جسے کاٹ کر نکال دیا گیا۔ ملک کے اندر اور بین الاقوامی سطح پر بھی اس طرح کی باتیں کی جاتی ہيں۔ اس سلسلے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

ٹرمپ نے اس نظام کے بدن پر ایک نشتر لگایا۔ اس بدن میں کچھ تو ہے۔ مطلب بغیر کسی چیز کے تو یہ مسائل پیدا نہيں ہو سکتے تھے۔ ارسطو نے بہت اہم بات کہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کسی سماج کے لئے جو مسائل پیدا ہوتے ہیں اگر اندر کوئي مسئلہ نہ ہو تو باہری عنصر اکیلے ہی مسائل نہیں پیدا کر سکتا۔ ہمیشہ اندر بھی کوئي مسئلہ ہوتا ہے۔ بہرحال ٹرمپ کو سات کروڑ بیس لاکھ ووٹ ملے اب اگر ہم کہیں کہ وہ پاگل تھے تو بھی وہ سات کروڑ لوگ تو پاگل نہیں تھے۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی مقصد کی تکمیل کے لئے کوشاں تھے اور حکومت کے ڈھانچے اور نا انصافیوں کے خلاف غم و غصہ کہیں موجود تھا جس کی وجہ سے انہوں نے ایک محور بنا لیا تھا۔

اگر کوئي امریکہ کے مسائل کی جڑوں اور وہاں کی سیاست پر غالب تھیوری پر نظر ڈالے تو اسے پتہ چلے گا کہ امریکی عام طور پر مفاد پرست ہوتے ہیں۔ یہ سب مفاد پرستی کا نتیجہ ہے۔ یعنی ہر چیز سے فائدہ کے حصول کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کی وجہ سے کچھ مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں جن پر مغربی مفکرین کے درمیان بھی غور کیا جا رہا ہے۔ اس لئے بات کا تعلق وہاں کے ماحول سے ہے لیکن وہ خود بھی موثر رہے ہیں۔

سوال: جن برسوں میں آپ خود ایٹمی معاملے میں دخیل تھے، یقینا رہبر انقلاب اسلامی  کے پاس کافی آمد و رفت رہتی ہوگی۔ اگر رہبر انقلاب نے مذاکرات کاروں یا ملک کے اعلی حکام کو مذاکرات یا سفارت کاری کے سلسلے میں کچھ ایسی ہدایات دی ہوں جو آپ کے لئے دلچسپ ہوں تو بیان کر دیں۔

میرے لئے ایک بے حد خوشگوار چیز یہ ہے کہ رہبر انقلاب، مشورے کو بہت اہمیت دیتے ہيں۔ یعنی اپنی الگ رائے ہونے کے باوجود، اس پر بحث و گفتگو کراتے ہیں اور سب کی رائے سنی جاتی۔ اس کے بعد فیصلہ کرتے۔ یہ بہت اہم ہے۔ سیرت نبوی میں بھی ذکر ملتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حالانکہ دنیا میں عقل کل تھے اور ہر چیز کے پہلے اور بعد کے حالات کی انھیں خبر رہتی تھی مگر اپنے صحابیوں کے ساتھ مشورے کو اہمیت دیتے تھے۔ رہبر انقلاب اسلامی بھی اس کے پابند ہیں۔

ایک اور بات جو میری نظر میں اہم تھی، رہبر انقلاب کی حقیقت پسندی ہے۔ مطلب ان کے فیصلوں میں بلند پروازی اور حقیقت پسندی کا امتزاج ہے۔ ہمیشہ مقصد پر نظر رہتی ہے اور حقائق پر بھی توجہ دیتے ہيں۔

ایک اور بات جس پر رہبر انقلاب اسلامی بہت توجہ دیتے ہیں اور ہمیشہ یہ چیز ان کے لئے اہم رہی ہے، یہ ہے کہ ہمیشہ وہ مسئلہ کے حل کے لئے ضروری عناصر پر توجہ دیتے ہیں۔ یعنی وہ  یہ کبھی نہیں چاہتے کہ بات ایسے مقام پر پہنچ جائے جہاں سے نکلنے کا کوئي راستہ نہ ہو۔ اس کے ساتھ ہی کسی بھی مسئلے کے حل کے لئے ان کا کہنا تھا کہ تمام وسائل کو بروئے کار لایا جائے اور باریک بینی کے ساتھ جائزہ لیا جائے لیکن اس کے لئے ایسا راستہ اختیار کرتے جو جاری رہے اور کہیں جاکر مسدود نہ ہو جائے۔ کچھ لوگ تھے جو یہ کہا کرتے تھے کہ بس مذاکرات ہونے چاہيے لیکن رہبر انقلاب، ہر پہلو پر نظر رکھتے تھے۔