بسم اللہ الرحمان الرحیم

سید البشر، خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت با سعادت اور فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی ولادت پر تمام معزز مہمانوں مسلم ممالک کے سفراء کرام ، ایرانی قوم اور مسلم امہ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
یہ نام اور یہ مناسبت ہمارے درمیان نقطہ اتحاد ہے۔ اس لئے بارہ ربیع الاول سے [جو بعض اقوال کی بنا پر آنحضرت (ص) کی تاریخ ولادت ہے۔] سترہ ربیع الاول تک [ جو آنحضرت (ص) کی ولادت کے سلسلے میں دوسرا قول ہے ] کی مدت کو ہفتہ وحدت کا نام دیا گيا ہے۔ سب سے پہلے تو اس لئے کا اتحاد آج کے دور میں اور ہمیشہ ہی امت مسلمہ کی سب سے بڑی ضرورت رہی ہے۔ دوسرے اس لئے کہ مسلمانوں کے اتحاد کا محور اور معیار نبی اکرم (ص) کی پاکیزہ ذات، ان کا تذکرہ اور آپ کا اسم مبارک ہے۔
اتحاد کے سلسلے میں ہم نے بہت باتیں کی ہیں۔ ہم نے جو باتیں کی ہیں ان میں بعض پر بھی عمل کیا ہوتا تو مسلمانوں کی حالت اس سے بہتر ہوتی جو آج ہے۔ یہ فطری بات ہے کہ اتحاد کے راستے میں بعض رکاوٹیں ہیں۔ فرقہ وارانہ اختلافات، مذہبی اختلافات، گروہی اختلافات اور سیاسی اختلافات ہیں، جن کا مقابلہ کیا جانا چاہئے۔ پیغمبر اکرم کے اسم مبارک اور آپ کے تذکرے کو جو امت مسلمہ کے اتحاد کا محور ہے، ان اختلافات پر غلبہ حاصل ہونا چاہئے۔ سب سے دشوار مرحلہ تفرقےکے ان اسباب کا مقابلہ کرنا ہے جو امت مسلمہ پر مسلط کئے جا رہے ہیں۔ انہیں فرقہ وارانہ، مذہبی اور گروہی اختلافات کو بنیاد قرار دے کر اسلام دشمن طاقتیں اپنی دیرینہ پالیسی کے تحت مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پیدا کرتی ہیں۔ ان اختلافات کے پس پردہ دشمن کے ہاتھ، اس کی سازشوں اور تدبیروں کو واضح طور پر دیکھا جا سکتاہے۔ اس مسئلے کو حل کیا جانا چاہئے۔ تمام فرقوں کے دانشوروں کو چاہئے کہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف کی اس لہر پھیلنے نہ دیں جو اسلام دشمن عناصر پیدا کرتے ہیں ، انہیں چاہئے کہ مسلمانوں کے درمیان روز افزوں محبت و الفت اور آرام سکون کو عام کریں۔
قرآن نے ہمیں اتحاد کی تعلیم دی ہے۔ قرآن نے ہمیں خبردار کیا ہے کہ اگر تم نے اپنے اتحاد و یکجہتی کو گنوا دیاتو تمہارا وقار، تشخص اور طاقت سب نابود ہو جائیں گے۔ افسوس کا مقام ہے کہ دنیائے اسلام میں یہ مسائل دیکھنے میں آرہے ہیں ۔ اس وقت دنیائے اسلام کے خلاف بہت بڑی سازش ہو رہی ہے۔ اگر اس وقت اسلام کے خلاف دشمنوں کی سازش پوری شدت کے ساتھ جاری رہی تو دشمن کو جس بات کا خوف ہے وہ مسلم امہ کی بیداری ہے۔ دنیا کی سامراجی طاقتیں، مسلم ممالک کو حریص نگاہوں سے دیکھنے والے ممالک اور مسلم ممالک اور حکومتوں میں مداخلت کے لئے کوشاں عناصر آج مسلم امہ کے اتحاد سے خائف ہیں۔
دنیا کی آبادی میں تقریبا ڈیڑھ ارب مسلمان ہیں اور ان کی جائے سکونت دنیا کا اہم ترین اور قیمتی خطہ ہے۔ بے پناہ قدرتی ذخائر، یہ عظیم ثقافتی میراث، یہ با استعداد و با صلاحیت افرادی قوت، مغربی ممالک کی مصنوعات کے لئے یہ بڑا بازار، یہ گران قیمت تیل اور گیس جو ان ممالک میں ہے، سامراجی طاقتیں اس کو دیکھ کر اپنے حرص و طمع پر قابو نہیں رکھ پاتیں، وہ چاہتی ہیں کہ ان ذخائر پر ان کا مکمل تسلط قائم ہو جائے۔ لیکن مسلم امہ کی بیداری ان کے لئے بہت بڑی رکاوٹ بن گئی ہے۔ مسلم امہ کا اتحاد ان دشمنوں کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس رکاوٹ کو دور کرنے کے لئے بھرپور کوششیں کر رہی ہیں۔
ایران میں اسلامی حکومت کی تشکیل اور ملک میں توحید کا پرچم لہرائے جانے کے بعد مسلم امہ میں ہیجان آیا اور نئی بیداری پیدا ہوئی۔ مسلمانوں کو اپنے مستقبل اور اپنی طاقت کے سلسلے میں نئي امید ملی ان میں خود اعتمادی پیدا ہوئی۔ اس بیداری اور خود اعتمادی کے بعد دشمن مزید پیچیدہ سازشیں رچنے کے لئے مجبور ہوا اور یہ سازشیں آج ہمارے سامنے ہیں۔ وہ پوری دنیائے اسلام کے مخالف ہیں، اسلام کے وجود کے مخالف ہیں، اسلامی تعلیمات کے مخالف ہیں۔ امریکی صدر نے آشکارہ صلیبی جنگ کی بات کہی۔ سامراجی نظام( امریکہ اور صیہونزم) مسلسل زہریلے پروپیگنڈے سے فضا کو مکدر کر رہا ہے، تاکہ اسلامی ممالک اور مسلم حکومتوں کے درمیان اختلاف پیدا ہو۔
اسلام دشمن طاقتیں فکری دیوالئے پن کا شکار ہیں، ان کے پاس کوئی نظریہ نہیں ہے جو وہ عالم اسلام میں پیش کریں۔ وہ بلند نظریہ اور خیال جو اسلامی دنیا کی برجستہ شخصیات کی توجہ کا مرکز بن سکے، وہ ایسا نظریہ پیش بھی نہیں کر سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ غفلت میں پڑے لوگوں کو ورغلانے کے لئے انسانی حقوق اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نعرہ لگاتے ہیں۔ جبکہ امریکہ، اسرائیل اور خود یہ سامراجی طاقتیں سب سے بڑھ کر انسانی حقوق کو پائمال اور دنیا کو لہو لہان کرتی رہی ہیں۔
کون سی حکومت اور کون سا گروہ ہوگا جس نے اسرائیل کی طرح ، ایک پوری قوم اور پورے انسانی معاشرے کے ساتھ بربریت کا برتاؤ روا رکھا ہو۔ کس سامراجی طاقت نے اس طرح مسلمان اقوام کے ساتھ تکبر کا رویہ اپنایا ہے جو آج امریکہ اپنا رہا ہے؟ آج انہوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف اپنی تشہیراتی مہم شروع کررکھی ہے۔ کیوں کہ ایران میں اسلام کا دفاع کرنے والی عظیم شخصیات موجود ہیں۔ یہاں ان طاقتوں کے مفادات ہر جگہ سے زیادہ خطرے میں ہیں لیکن ہدف صرف اسلامی جمہوریہ ایران نہیں ہے وہ پوری دنیائے اسلام پر غلبہ پانا چاہتی ہیں۔ پورے مشرق وسطی پر تسلط قائم کرنا چاہتی ہیں۔ ان کا ناپاک ارادہ تمام مسلم ممالک پر قبضہ کرنے کا ہے۔ اگر وہ اپنے اہداف تک رسائی میں کامیاب ہو جاتیں تو ایک ایک کرکے حکومتیں ان کے نشانے پر آتیں۔ اگر مسلمانوں نے کوتاہی کی تو شام، مصر، سعودی عرب، سوڈان ، افریقی ممالک، مشرق وسطی کے ممالک، مشرقی ایشیا کے مسلم ممالک، کوئی بھی ملک ، دنیا کو ہڑپ جانے کی خواہاں ان طاقتوں سے محفوظ نہیں رہے گا۔ یہ دنیائے اسلام کے لئے انتباہ ہے۔
آج عالم اسلام کے دانشوروں اور سیاستدانوں کے کاندھوں پر بہت بڑی ذمہ داری آن پڑی ہے کہ اپنے زیر اثر خطے اور ممالک میں سامراجی طاقتوں کو ذلت و رسوائی سے دوچار کر دیں۔ اسلام کے خلاف جاری ان کی زہریلی تشہیراتی مہم کو اپنے عزم راسخ کے ذریعے نقش بر آب کر دیں۔ ان کے منصوبوں کو خاک میں ملادیں ۔ یہ سب کی ذمہ داری ہے۔
بڑی طاقتیں اتنی مضبوط نہیں ہیں جتنا وہ دکھاوا کرتی ہیں۔ ایک زمانے میں وہ اسلامی جمہوری نظام کے وجود کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں تھیں، لیکن آج اسلامی جمہوری نظام کی عمر چھبیس سال ہو چکی ہے، خدا وند عالم کی مہربانی اور مدد سے ہم آج ماضی کے مقابلے میں آگے بڑھ چکے ہیں۔ وہ طاقتور ہونے کا دکھاوا کرتی ہیں تاکہ قوموں کو اپنی دھونس میں لے لیں۔ لیکن حقیقت میں ان کے پاس طاقت نہیں ہے۔ آج امریکہ عراق و افغانستان میں پھنس کر رہ گيا ہے۔
عالم اسلام میں بڑی طاقت نہفتہ ہے۔ علما، دانشوروں، سیاستدانوں، تنظیموں، جماعتیں، اہل قلم حضرات، سخنوروں اور عالمی یا قومی سطح پر کوئی مقام رکھنے والے تمام افراد کی ذمہ داری بہت زیادہ ہے۔
مسلمانوں کی حوصلہ ا‌فزائی کیجئے، ان میں ان کی توانائی کے تئیں اعتماد پیدا کیجئے۔ علم و عقل و تدبیر کے ذریعے اندرونی طور پر ان کی تقویت کیجئے۔ انہیں دنیا کی طاقتوں کی زور زبردستی کے مقابلے ڈٹ جانے کا حوصلہ دیجئے۔ اللہ تعالی نے وعدہ کیا ہے کہ ( من کان لللہ کان اللہ لہ) ( واللذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلناو ان اللہ لمع المحسنین) اللہ تعالی مدد کرے گا، رہنمائی فرمائے گا۔ امام خمینی (رح) نے قول و فعل کے ذریعے ایرانی قوم کہ یہ درس دیا اور ہماری قوم نے اس کا نتیجہ اپنی آنکھوں سے دیکھا، اور دنیا نے بھی اس کا مشاہدہ کیا۔
اللہ تعلی کے وعدے میں ہمیں کوئی شک نہیں ہے جس نے فرمایا ہے کہ ( وعد اللہ اللذین آمنوا منکم و عملوا الصالحات لیستخلفنھم فی الارض کما استخلف اللذین من قبلھم ولیمکنن لھم دینھم اللذی ارتضی لھم) یہ عملی وعدہ ہے اور یقینی طور پر عملی شکل اختیار کرےگا۔ اس کی شرط، پائداری، استقامت، راستے سے نہ بھٹکنا ہدف کو فراموش نہ کرنا، اتحاد کی برقراری اور اللہ تعالی پر توکل ہے۔
پروردگارا ہمارے دلوں ہماری نفوس اور ہماری ہدایت فرما۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ