بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس مبارک اور‏عظیم دن کی تمام منتظرين( مہدی عج ) تمام عاشقوں اوراہلبیت کے شیدائیوں اوربالخصوص آپ بہن بھائیوں کی خدمت میں جویہاں تشریف فرماہیں مبارکباد پیش کرتاہوں
درحقیقت اس عظيم ہستی کی ولادت ایک حقیقی عید ہے لہذا اس روزکا جشن منانا اورپرمسرت گھڑی کی یاد منانا ہرگزمہدویت کے معتقدین فراموش نہیں کرسکتے ۔ یہ فقط شیعہ نہيں ہیں جومہدی موعود( سلام اللہ علیہ ) بلکہ منجی اور مہدی کا انتظار سبھی مسلمانوں کے عقید ے میں ہے ۔ صرف دوسروں اورشیعوں میں فرق یہ ہے کہ شیعہ اس عظیم ہستی کواس کے نام ونشان اورمختلف خصوصیات سے جانتے ہيں لیکن دوسرے مسلمان جو منجی کے معتقد ہیں وہ منجی کونہیں پہچانتے فرق یہاں پر ہے
وگرنہ اصل مہدویت پرتمام مسلمانوں کا اتفاق ہے ۔دوسرے ادیان کے لوگ بھی آخرزمان میں ایک منجی کی آمد اوراس کے انتظار پر عقیدہ رکھتے ہیں ان لوگوں نے بھی کم ازکم اس سلسلے میں ایک چیزپرتویقین رکھتےہیں کہ آخرزمان میں ایک منجی یا نجات دہندہ آئے گا اوریہاں تک وہ صحیح سمجھے ہیں لیکن اصل مطلب میں جو منجی کی معرفت کا مسئلہ ہے وہاں پر انھوں نےسمجھنے میں غلطی کی ہے ۔شیعہ اپنی قطعی اور مسلّمہ روایتوں کی بدولت نجات دہندہ اورمنجی کو اس کے نام ، نشان ، خصوصیات اورتاریخ ولادت سے پہچانتے ہيں ۔
اعتقاد مہدویت کے بارے میں چند نکات کو میں یہاں پر اجمالی طورپرعرض کررہاہوں ۔
ایک نکتہ یہ ہے کہ حضرت بقیہ اللہ ( ارواحنافداہ )کاوجود مقدس اول تاریخ سے اب تک نبوتوں اورالہی دعوتوں کاہی تسلسل ہے ، یعنی جیساکہ ہم دعائے ندبہ پڑھتے ہيں ( فبعض اسکنتہ جنتک ) سے کہ جس سے مراد حضرت آدم ہيں ( الی ان انتہی الامر ) تک کہ جس سے مراد خاتم الانبیاء تک پہنچناہے - اوراس کے بعد وصایت اوراہل بیت کا مسئلہ یہاں تک کہ امام زمانہ تک یہ موضوع پہنچتاہے یہ سب کچھ ایک ہی سلسلہ ہے جو تاریخ بشریت میں بہم مرتبط اورمتصل ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سلسلہ نبوت کی وہ عظیم تحریکيں اورپیغمبروں کے ذریعہ دعوت الہی کا وہ سلسلہ کھبی بھی متوقف نہيں ہوا ہے انسان کو پیغمبروں اوردعوت الہی اورداعیان الہی کی ہمیشہ ضرورت ہے اوریہ احتیاج آج تک باقی ہے اورجتنابھی زمانہ گذراہے انسان انبیاء الہی کی تعلیمات سے نزدیک ہواہے
آج انسانی معاشرہ اپنی فکرمیں ترقی وپیشرفت اورتہذیبوں میں بالیدگي اورمعرفت میں پختگي کی بدولت انبیاء الہی کی بہت سی تعلیمات کوجو دسیوں صدیاں قبل انسان کے لئے قابل درک نہیں تھیں درک کررہاہے ۔ اسی انصاف کے معاملے کولے لیجئے یا آزادی اورانسانی شرافت واحترام کے موضوع کولے لیجئے اورجوباتیں آج رائج ہیں دنیامیں یہ سب تعلیمات انبیاء ہيں ۔ اس دورمیں عام لوگ اوررائے عامہ ان مفاہیم کودرک نہیں کرتی تھی ۔پیغمبروں کا یکی بعد ديگری آنا اورپیغمبروں کے ذریعہ دعوت الہی کی ترویج نے ان افکارکولوگوں کے ذہنوں اورعوامالناس کی فطرت اورانسانوں کے دلوں میں نسل درنسل مستحکم کیابٹھایاہے اوران داعیان الہی کاسلسہ آج تک منقطع نہیں ہواہے اورحضرت بقیہ اللہ الاعظم ارواحنافداہ کا وجود مقدس داعیان الہی کے سلسلے کی ہی کڑی ہے جیساکہ زیارت آل یاسین میں بھی پڑھتےہیں ( السلام علیک یاداعی اللہ وربّانی آیاتہ ) یعنی آپ اسی جناب ابراہیم کی دعوت یاحضرت موسی کی دعوت حضرت عیسی کی اسی دعوت اورتمام پیغمبروں ومصلحان الہی کی دعوتوں اورپیغمبرخاتم کی دعوت کوحضرت بقیہ اللہ کے وجود میں مجسم دیکھ رہے ہیں یہ عظیم ذات ان تمام نبیوں اورمصلحان الہی کی وارث ہے اوران سب کی دعوت اوران پرچم کواپنے ہاتھ میں لئے ہوئے ہے اورپوری دنیاکوانہی تعلیمات سے روشناس کرارہی جوان نبیوں نے متعارف کرایاتھا یہ ایک اہم نکتہ ہے
باب مہدویت میں دوسرانکتہ انتظارفرج ہے ۔ انتظارفرج ایک بہت ہی وسیع وعریض مفہوم ہے ۔ایک انتظار، آخری فرج کا انتظارہے ،یعنی یہ ہے کہ اگرانسان دیکھے کہ طواغیت زمانہ ظلم وستم کررہے ہيں لوٹ مارکررہے ہیں اورکھلے عام لوگوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں تواسے یہ نہیں سمجھناچاہئے کہ دنیااسی کانام ہے اوراس کا انجام بھی یہی ہے اسے یہ نہیں سمجھ لیناچاہئے کہ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہيں ہے اوراسی صورت حال پر صبر کرکے بیٹھ جاناچاہئے نہیں ایساہرگزنہیں ہے بلکہ اسے یہ جانناچاہئے کہ یہ وقتی حالات ہیں جو گذرجائیں گے (للباطل جولہ ) اورجوچیزاس دنیاسے متعلق ہے اوراس عالم طبیعت سے متلعق ہے وہ عبارت ہے عدل وانصاف کی حکومت کے قیام سے ، اوروہ آئیں گے ۔انتظارفرج اورراحت وآرام اوربالآخروہ دورجس میں ہم زندگی گذاررہے ہيں اورانسان ظلم وستم کا شکارہے وہ انتظارفرج کا ایک مصداق ہے لیکن انتظارفرج کے اوربھی مصداق ہيں ۔ جب ہم سے کہتےہیں کہ فرج کاانتظارکرو تو اس کامطلب صرف یہ نہيں ہے کہ آخری فرج کا انتظارکرو بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہرمشکل کا حل ہے اورہرمشکل کوحل کیاجاسکتاہے فرج کا مطلب یہ ہے ۔ یعنی مشکلات کے بعد راحت وآرام ۔ مسلمان درس انتظارسے فرج کوسیکھتاہے اوراس سے تعلیم لیتاہے کہ انسان کی زندگي میں کوئی بھی ایسی مشکل نہیں ہے جو قابل حل نہ ہو یا اسے حل نہ کیاجاسکتاہو ۔ جب انسان کی زندگي کے آخری دورمیں ان تمام ظالمانہ اورستمگرانہ اقدامات کامقابلہ کرنے کے لئے خورشید فرج ظہورکرے گا تو اس جاری زندگي کے دوران بھی جومصا‏ئب ومشکلات ہيں ان کے مقابلے میں اسی طرح کے ایک فرج کی توقع رکھنی چاہئے ۔یہ تمام انسانوں کے لئے درس امید ہے ، یہ تمام انسانوں کےلئے حقیق انتظارکادرس ہے اسی لئے انتظارفرج کوسب سے افضل اعمال میں قراردیاگیاہے تواس سے یہ معلوم ہواکہ انتظار ایک عمل ہے بے عملی نہيں ہے اس سلسلے میں غلطی اورغلط فہمیوں کا شکارنہیں ہوناچاہئے یہ نہیں سمجھناچاہئے کہ انتظارکامطلب یہ ہے کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہيں اوراس بات کاانتظارکریں کہ کوئی حل نکل آئے گا اورخود سے سب ٹھیک ہوجائےگا
انتظارایک عمل ہے ،خود کوآمادہ کرنے کانام ہے اوردل اپنے باطن کی تقویت کانام ہے ایک جذبے اورتحرک کانام ہے جوتمام میدانوں سے متعلق ہوتاہے ۔ یہ درحقیقت قرآن کریم کی ان آیات کریمہ کی تفسیرہے کہ (ونریدان نمن علی الذین استضعفوا فی الارض ونجعلھم آئمہ ونجعلھم الوارثين ) یا ( ان الارض للہ یورثھا من یشاءمن عبادہ والعاقبہ للمتقین ) یعنی کبھی بھی امتوں اورقوموں کوفرج اورراحت سے مایوس نہیں ہوناچاہئے ۔
جس دن ملت ایران نے قیام کیااورتحریک چلائی اس نے امید حاصل کی کہ قیام کیا اورآج وہ امید پوری ہوگئی ہے اسی قیام کے نتیجے میں ۔ اوراس نے وہ عظیم نتیجہ حاصل کرلیاہے اورآج بھی مستقبل کی بابت پرامیدہے اورپوری امید اورنشاط کے حرکت کررہی ہے ۔یہ نورامید ہے جوجوانوں کوحوصلہ عطاکررہاہے اوران کے اندر تحرک ونشاط پیداکررہاہے اوران کے حوصلوں کے پست اوران پر پژمردگی طاری ہونے سے روکتاہے اورمعاشرے میں تحرک وآگے بڑھنے کا جذبہ پیداکرتاہے یہ انتظارفرج کا نتیجہ ہے ۔بنابریں ہمیں آخری فرج کا بھی منتظررہناچاہئے اورزندگي کے تمام مراحل میں بھی فرج وآسانی کی امید اوراس کامنتظررہناچاہئے خواہ وہ انسان کی انفرادی زندگی ہویاپھر اجتماعی زندگي ہو ۔ آپ اپنے اوپر ہرگزمایوسی کوطاری نہ ہونے دیں اوریہ جان لیجئے کہ یہ مشکل حل ہوکررہے گی اورآسانی آپ کومیسرہوگی البتہ اس کے شرط یہ ہے کہ آپ کا انتظارحقیقی معنوں میں انتظارہو۔یہ انتظارعمل ہو، کوشش ہو، جذبہ ہو، اورتحرک ہو۔
مسئلہ مہدویت میں ایک اورنکتہ یہ ہے کہ ہماراعقیدہ یہ ہے کہ امام زمانہ (ارواحنافداہ) ہمارے اعمال ورفتارپر ناظرہیں ، ہمارے اعمال ان کے سامنے پیش کئے جاتے ہيں ۔یہ ہمارے مومن جوجوان جومختلف میدانوں میں خواہ وہ معنویت معرفت کامیدان ہویا کام وکوشش کا میدان ،جدوجہدکامیدان ہویاسیاست کامیدان ، یاپھرجہاد کامیدان ہو جب اس کی ضرورت ہوئی تھی جب اس طرح سے اپنے اخلاص اورشادابی کامظاہرہ کرتے ہيں تو امام زمانہ خوش ہوتے ہيں ۔ یہ جو اسلامی ملک میں مثال کے طورپرہمارے مسلمان ملک میں اس بات کی کوشش ہورہی ہے کہ ملک کے نظم ونسق پرنگرانی رکھی جائے ، ملک کی پیشرفت پر دھیان دیاجائے،
اس سلسلے میں فیصلے کئے جائیں اوراقدامات کئے جائیں اوراس بات کی اجازت نہیں دی جاتی کہ ملک کے اندر استکباری اورسامراجی مقاصد عملی جامہ پہن سکے ان تمام باتوں سے امام زمانہ خوش ہوتے ہیں کیونکہ امام زمانہ ناظرہیں اوران کی خدمت میں ہمارے اعمال پیش کئے جاتے ہيں
آپ کے انتخابات کوامام زمانہ نے دیکھاہے آپ کے اعتکاف کوامام زمانہ نے دیکھاہے پندرہ شعبان کے موقع پر سڑکوں اورگھروں اورديگرمقامات پر چراغانی وسجاوٹ جو آپ لوگوں اورہمارے جوانوں نے کی ہے ان سب کوامام زمانہ نے ملاحظہ فرمایاہے ۔ آپ تمام خواتین وحضرات کی مختلف میدانوں میں بھرپورموجودگی کوامام زمانہ نے دیکھاہے اوردیکھتے ہيں ،
اسی طرح ہمارے ملک کے حکام کے اعمال اوران کی کارکردگي جومختلف میدانوں میں ہوتی ہے امام زمانہ کے سامنے پیش ہوتی ہے اوران کاموں میں ہمارے عزم راسخ کی اگرجھلک ہوتی ہے اورکوئی کام ایساہوتاہے جوایک مسلمان کے شایان شان ہوتو امام زمانہ اس سے خوش ہوتےہیں اوراگرخدانخواستہ اس کے برخلاف ہم سے کوئی کام اورغلطی سرزد ہوجائے تو امام زمانہ کوہم سے تکلیف پہنچتی ہے ۔آپ ذراملاحظہ کیجئے کہ یہ سب کتنابڑاعامل ومحرک ہے ۔
ایک اورنکتہ اورآخری بات یہ ہے کہ جومعاشرہ مہدویت پریقین رکھتاہے اسے قوت قلب حاصل ہوتی ہے ۔ قوموں کے لئے یہ قوت قلب بہت ہی اہم ہے ۔ آپ یہ جان لیجئے کہ اسلامی ملکوں پر سامراجی طاقتو ں کا تسلط اسی وقت ہواجب انھوں نے ان کے دلوں کوہرطرح کے جذبات سے عاری کردیا اورجب ان کے اندر ضعف وکمزوری کااحساس ہونے لگا جب ان کے اندر توانائی کے فقدان کا احساس پنپنے لگا ، اس کے بعد سامراجی طاقتوں آئیں اوران پر مسلط ہوگئیں ۔اورآج بھی ایساہی ہے ۔آج ہم دنیاکے سیاسی اورسفارتی تعلقات کے میدان میں اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہيں کہ عالمی استکبارکا ایک سب سے بڑاہتکنڈہ یہ ہے کہ مختلف ملکوں اوراب خاص طورپراسلامی ملکوں کے حکام کے دلوں کوہرطرح کے جذبات سے خالی کردے اوران کے اندریہ احساس پیداکرے کہ ان کی مددکرنے والاکوئی نہيں ہے تاکہ وہ یہ سمجھ لیں کہ ان کے پاس اس کے علاوہ اورکوئی چارہ نہيں ہے کہ امریکہ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں ۔ یہ احساس کمزوری ایک بہت بڑی مصیبت ہے قومیں حرکت نہيں کررہي ہیں کیونکہ وہ خود کوکمزورمحسوس کررہی ہيں ۔فلسطینی قوم دسیوں سال خاموش اورہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی تھی کیونکہ وہ یہ سمجھ رہی تھی کہ وہ کمزورہے اورکچھ بھی نہيں کرسکتی اورجس دن فلسطینی قوم میں کچھ کرگذر نے کا جذبہ پید ہوگيا وہ اٹھ کھڑی ہوئی اوراس انے اپنے اس قیام سے یہ تمام کامیابیاں حاصل کیں( فلسطینی قوم ) مشکلات ومصائب برداشت کررہی ہے مگرآگے بڑھ رہی ہے ۔اس قوم میںجوحرکت نہیں کررہیہے ،طمانچے بھی کھارہی ہے لیکن رووبروزپسماندگي کا شکارہورہی ہے اوربدبخت وزیردست ہورہی ہے اوراس بات پرخوش ہے کہ اس کوطمانچے نہيں لگ رہے ہيں اوراس قوم میں فرق ہے جو اپنے راستے کی سختیاں برداشت کررہی ہے اس کے راستوں میں کانٹے ہيں اورخونی بھی ہوجاتےہيں لیکن کامیابی اورسعاد ت وخوش بختی کی راہ کی جانب گامزن ہے اوراپنی عزت وسربلندی حاصل کررہی ہے ۔ ملت فلسطین نے آج اپنے دلوں میں امید کی شمع روشن کررکھی ہے اب وہ آگے بڑھ رہی ہے اورآگے کی سمت جارہی ہے اورآگے کی جانب یہ حرکت جب تک پائی جاتی رہے گی اس بات کاباعث بنتی رہے گی کہ فرج وآسانیوں کے دروازے اس کے سامنے کھلتے جائیں اوراس کے راستے آہستہ آہستہ طے ہوتے جائیں اوریہاں تک کہ انشاءاللہ اپنے آخری مقصد کوپہنچے ۔
کسی بھی قوم کے لئے احساس کمزوری ایک بہت ہی خطرناک احساس ہے اورزہرقاتل ہے ۔
مہدویت پراعتقاد کی ایک برکت یہ ہے کہ انسان احساس اطمینان کرتاہے ،اسے قوت قلب کااحساس ہوتاہے اسے قوت وطاقت کااحساس ہوتاہے اوربحمداللہ ہماری قوم اسی طرح ہے
ہم نے محاذجنگ پر اپنے جوانوں کودیکھاہے کہ انھیں امدادغیبی اورحضرت ولی عصر کے لطف وتوجہ پراعتقاد رہتاتھا اوراسی اعتقاد اوراسی قوت قلب سے استفادہ کرتےتھے اوران کے اندردوگنی قوت کا احساس پیداہوتاتھا اوراسی کے سہارے آگے بڑھتے ۔البتہ امداد غیبی کامطلب اگریہ لیاجائے کہ انسان بیکاربیٹھارہے تمام دروازے اپنے اوپربندکرلے اوراس انتظارمیں رہے کہ غیب سے اس کی مددہوجائے گی تواسے یہ معلوم ہوناچاہئے کہ غیب سے اس کی مدد نہیں ہوگی (وجعلہ اللہ الّا بشری لکم ولتطمئن قلوبکم بہ ) میدان جنگ میں ، سیاسی مشکلات کے میدان میں اورقوموں کے اٹھ کھڑے ہونے کی صورت میں غیبی مدد انسانوں کے شامل حال ہوتی ہے اگرانسان اٹھ کھڑاہوتو اس کی غیب سے مدد ہوتی ہے ۔ آج عالمی استکبار نے اپنی توجہ قوموں کے نقاط قوت یا مضبوط پوائنٹ کونشانہ بنارکھاہے تاکہ قوموں سے ان کا یہ مضبوط پوائنٹ چھین لے البتہ وہ کہیں کہیں پر کامیاب بھی ہواہے اورکہیں کہیں پر اسے منھ کی بھی کھانی پڑی ہے اورجن جگہوں پر اللہ تعالی کی مدد ونصرت کے طفیل عالمی استکبارکوکا میابی نصیب نہيں ہوسکی ان میں اسلامی جمھوریہ ایران ہے اورملت ایران ہے ۔بحمد اللہ اقوام متحدہ کے ڈائس سے اوردنیابھر کے سربراہان مملکت کی آنکھوں کےسامنے ہمارے محترم صدرصاحب نے ایرانی عوام کے دل کی بات بیان کردی ۔ استحکام ومتانت وقوت بیان اوراپنے موقف کا ستحکام اس عالمی اسٹیج سے ایرانی عوام کی نمائندگی میں پوری دنیاکی آنکھوں کے سامنے بیان کردیاگیا اس کا کیا مطلب ہے ؟ اس کا مطلب یہی ہے کہ ملت ایران دھونس ودھمکی اورکسی کے دباؤ میں نہيں آئے گی ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ملت ایران نے گذشتہ ستائیس برس سے جب سے اسلامی انقلاب کامیاب ہواہے دباؤ برداشت کرکے نہ صرف یہ کہ کمزوری کا احساس نہيں کیاہے اوراس کے عزم وارادے متزلزل نہیں ہوئے ہيں بلکہ آج وہ پہلے سے بھی کہیں زیادہ مضبوط وتواناہے اورمضبوط عزم وارادے کے ساتھ اپنے اہداف ومقاصد کوآگے بڑھانےکے لئے کہ جن میں ان کے قومی مفاد ات پوشیدہ ہيں بدستورمستحکم اندازمیں ڈٹی ہوئی ہے
خداوندعالم کی ذات پربھروسہ اورقوم پر حضرت بقیہ اللہ (ارواحنافداہ ) کے لطف وشفقتوں پر اعتقاد نے ہماری زندگی اورہمارے اعمال وکردارپر یہ اثرمرتب کیاہے کہ جس کی وجہ سے ہمارے اندرقوت قلب پیداہوتی ہے جو مختلف قسم کی امواج کے مقابلے میں ہمیں استقامت وپائمردی عطاہوتی ہے ۔ملت ایران کوشکست نہیں دے سکتے ۔ خداوندعالم کی تائید ونصرت کی بدولت ملک کے حکام مومن وصابر ملکی عہدیداراپنی پوری کوشش و سعی جمیل کے ذریعہ یکی بعد ديگری تمام مشکلات کوحل کرلیں گے ۔ انھیں اپنے ملک کی علمی سطح کو اتنے اوپرلے جاناہوگا کہ دشمنوں کی حریصانہ نگاہيں کلی طورپر اس قوم اوراس ملک سے دورہوجائیں ۔
خداوندعالم سے دعاکرتاہوں کہ حضرت بقیہ اللہ (ارواحنافداہ ) کی دعائیں ایرانی عوام اوردنیا کی تمام مستضعف قوموں کے شامل حال ہوں اورآپ لوگوں کوروزبروزاپنی عزت وجلال کے صدقے میں اوراپنے اولیاء کرام کی عزت کے طفیل باعزت ومقتدر قراردے
والسلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ