آپ نے ذرائع ابلاغ کی طاقت اور اہمیت پر روشنی ڈالی اور اس طاقت کو مناسب طریقے سے استعمال کئے جانے کی ضرورت پر زور دیا۔ تفصیلی خطاب پیش خدمت ہے۔
 

بسم‏الله‏الرّحمن‏الرّحيم

تمام بھائیوں کا خیر مقدم کرتا ہوں اور امید ہے کہ آپ کا یہ اجلاس عالم اسلام خاص طور پر فلسطین کے مظلوم عوام کے لئے با برکت ثابت ہوگا۔
میں دو باتيں عرض کروں گا ایک بات مسئلہ فلسطین کے بارے میں کہ جو آج عالم اسلام کا سب سے اہم مسئلہ ہے اور دوسری بات ذرائع ابلاغ، ان کے کردار اور ذمہ داریوں کے بارے میں ہے۔
اس میں کوئی شک نہيں ہے کہ یہ ایام ، فلسطین کے لئے فیصلہ کن ہیں۔ یقینا فلسطین، حالیہ سو برسوں میں خاص طور پر حالیہ پچاس برسوں میں اسلام اور اس کے دشمنوں کے درمیان میدان کارزار بنا رہا ہے۔ اسلام دشمن طاقتوں کے خلاف جنگ کا پہلا محاذ رہا ہے۔ در حقیقت فلسطین کو مختلف صدیوں میں تاریخ اسلام کے واقعات کا ایک مظہر کہا جا سکتا ہے لیکن آج جو فلسطین میں ہو رہا ہے، اس معاملے کے تمام پہلوؤں کے پیش نظر وہ تقریبا مختلف نوعیت کا مسئلہ ہے۔ سب سے پہلے تو فلسطینی عوام پر آج دباؤ پڑ رہا ہے اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ دوسری بات یہ کہ آج فلسطینی عوام جس طرح سے جد و جہد کر رہے ہيں اس کی بھی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ ہم نے فلسطینی قوم کو اس سے قبل کبھی بھی میدان عمل میں اتنی سنجیدگی اور تندہی کے ساتھ اپنی جان و مال و اولاد کے ساتھ اترتے نہیں دیکھا۔ یہ خصوصیت اس با برکت تحریک انتفاضہ کی ہے۔
امریکا اور بہت سے مغربی ممالک اسرائیل کی بھرپور اور کھل کر حمایت کر رہے ہيں، بین الاقوامی قوانین کو پامال کر رہے ہيں اور ایک بار پھر دنیا کے سامنے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ عالمی قوتیں ، بین الاقوامی معاہدوں اور اداروں کو حربے کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ وہ لوگ بین الاقوامی اداروں اور معاہدوں کو صرف اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے ہی استعمال کرتے ہيں اور اس قسم کے معاہدوں کو بالکل خاطر میں نہیں لاتے۔ یقینا اسرائیل بڑی عالمی طاقتوں کی اقتصادی، سیاسی و تشہیراتی مدد کے بغیر آج اور کبھی بھی، اپنا وجود قائم نہ رکھ پاتا اور نہ ہی رکھ سکے گا۔ اس پورے معاملے میں مجرم، صرف اسرائیل نہیں ہے۔ امریکا اسرائیل کے تمام جرائم میں شریک ہے۔
مغرب اور مغربی طاقتیں، اس علاقے میں اسرائیل نامی کینسر کے پھوڑے کی شروعات سے ہی، حامی و دوست رہی ہیں، اس سے ان کے تعلقات رہے ہیں۔ اسرائيل کا کام یہ تھا کہ وہ اسلامی علاقوں میں مغربی تسلط پسند طاقتوں کے مفادات کا تحفظ کرے یعنی ہمیشہ اسلامی اور علاقائی ملکوں کے سامنے مستقل خطرے کی شکل میں موجود رہے اور اسلامی ملکوں کو ہمیشہ تشویش میں مبتلا رکھے تاکہ وہ آپس میں متحد ہوکر یک رنگ و ہماہنگ گروہ نہ بنا سکیں اور اپنے ذخائر اور اپنی دولت کو ایک دوسرے کے مفاد کے لئے استعمال نہ کر سکیں ۔ اس کے بدلے میں ان مغربی ممالک کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ اس کینسر کے پھوڑے کو اپنی پوری طاقت لگا کر علاقے میں قائم رکھیں ۔ البتہ اب یہ ذمہ داری سب سے زیادہ امریکا کی ہو گئ ہے۔ عالم اسلام کے اس بڑے مسئلے اور المیۓ کے آغاز میں، تھوڑی غفلت برتی گئ اور اس مسئلے کے حل کے لئے صحیح تدبیریں نہيں کی گئيں۔ البتہ فلسطین کے اندر اور باہر کچھ ایسی شخصیتيں تھیں جن کی زحمتوں کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے۔ مثال کے طور پر مرحوم عزالدین قسام۔ مرحوم حاج امین الحسینی، مرحوم شیخ محمد حسین کاشف الغطاء۔ ان سب لوگوں نے علاقے میں صیہونی حکومت کی موجودگی کے خطرے کو پہچان لیا تھا اور اس کی جانب توجہ بھی دلائي تھی اور جد و جہد بھی کی تھی لیکن عالم اسلام اور عالم اسلام کے ذمہ دار، اپنا فرائض نہيں ادا کر پائے۔ اسی لئے اس نہایت خطرناک صورت حال کے خلاف فلسطین کی جنگ میں مختلف زمانے میں بہت سے نشیب و فراز آئے۔
عصر حاضر کی جدو و جہد کی دو خصوصیات ہيں جو کسی بھی زمانے میں فلسطینیوں کی جد و جہد اور ان کے لئے کی جانے والی حمایت میں نظر نہیں آتیں۔ پہلی خصوصیت، اس جدوجہد کی اسلامی ماہیت کا حامل ہونا ہے اور دوسری خصوصیت، اس جد و جہد کا عوامی اور وسیع ہونا ہے۔ ان دو خصوصیات کے اکٹھا ہو جانے سے صیہونی لرزہ بر اندام ہو گئے ہيں۔ پورے صیہونی ڈھانچے میں خطرے کو محسوس کیا جا رہا ہے۔ وہ جانتے ہیں اور یہ سمجھتے ہيں کہ اہم اور بنیادی خطرہ آج پیدا ہوا ہے۔ آج جو صیہونیت کے سامنے کھڑے ہيں وہ گروہ نہيں ہيں، سیاسی شخصیات نہيں ہیں کہ جنہيں مذاکرات کی میز پر مطمئن کیا جا سکے۔ آپ کو علم ہے کہ مذاکرات کی میز پر۔ مختلف طریقوں سے لوگوں کو مطمئن کرنا ممکن ہے۔ دھمکی سے، لالچ اور جھوٹے وعدوں سے۔ لیکن جب جد و جہد عوامی ہو جائے اور لوگوں میں بیداری پیدا ہو جائے اور لوگ اپنے پورے وجود سے یہ محسوس کرنے لگیں کہ ان حالات کا مقابلہ کرنا ان کا فرض ہے نہيں تو مکمل طور پر تباہ ہو جائيں گے اور دوسری طرف جد و جہد کی روش کا منبع و سرچشمہ، اسلامی عقیدہ و ایمان ہو اور(یہ جد و جہد) دل و جان سے کی جائے، تو اس صورت میں، دشمن کے لئے جنگ بہت خطرناک ہو جاتی ہے۔ آج ایسی ہی صورت حال ہے۔ امریکا کے سامراجی حکام بھی اسی وجہ چراغ پا ہیں اور اپنی حقیقت ظاہر کر رہے ہیں۔ وہ جو کچھ اپنے دلوں میں چھپائے رکھتے تھے، جو کچھ ریاکاری کے ضخیم پردوں میں چھائے رہتے تھے آج وہ سب ان کے بیانات سے ظاہر ہو رہا ہے۔ آج امریکی، نہ صرف سفاک صیہونی حکومت کی بلکہ اس کے کھلے جرائم کی بغیر کسی شرم و حیا اور پردہ داری کے، حمایت کر رہے ہيں ۔ صرف قتل کا معاملہ نہيں ہے بلکہ آشکارہ ایک بہت بڑا جرم کیا جا رہا ہے۔ امریکی اس کی حمایت کرتے ہيں۔ گلی کوچوں میں ٹینک لانے کی حمایت کرتے ہيں، عام لوگوں کے گھروں کی تباہی کی حمایت کرتے ہيں۔ یہ سامراجی حکومت کی اصلیت ہے۔ سامراج کا لفظ جو اسلامی انقلاب کی اصطلاحات میں بار بار دہرایا جاتا ہے اس کے یہی معنی ہيں ۔
حماس، جہاد اسلامی اور حزب اللہ تنظیموں کو دہشت گرد کہا جا رہا ہے، کیوں؟ ان لوگوں نے کیا کیا ہے ؟ ان لوگوں کا جرم یہ ہے کہ یہ اپنے وطن، اپنے لوگوں اور گھروں کا دفاع کر رہے ہيں۔ امریکیوں کی مرضی یہ ہے کہ اسرائیل اپنے جلادوں کے ذریعے، چھوٹے چھوٹے بچوں کو ان کے والدین کے سامنے قتل کرے اور کوئی اعتراض نہ کرے، کوئي کچھ نہ بولے، جواب نہ دے، اسے جوش نہ آئے۔
حماس، جہاد اسلامی اور حزب اللہ لبنان اور میدان جنگ میں لڑنے والے تمام حقیقی مجاہدین کا جرم صرف اتنا ہے کہ وہ اس قسم کے بے رحمانہ جرائم کا جواب دیتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کا جرم یہ ہے کہ وہ کھل کر حق و عدل و انصاف کا دفاع کرتا ہے۔ ہم نے سامراجی طاقتوں کی خواہش کی وجہ سے کبھی بھی حق و عدل و انصاف کے دفاع سے گریز نہيں کیا ہے۔ ہم نے کھبی بھی اس سلسلے میں کوئي سمجھوتا اور ریاکاری نہيں کی۔ ہم نے کھل کر حق و عدل و انصاف کو پیش اور اس کا دفاع کیا ۔ یہ ہمارا جرم ہے ۔
امریکیوں نے اپنی اصلیت دکھا دی۔ امریکی صدر نے اپنے حالیہ بیان میں، انسانوں کے خوں کے پیاسے درندے کی طرح بات کی ہے۔ ملکوں اور اقوام عالم کو دھمکی دی۔ ان پر الزام عائد کئے۔ پوری دنیا کو معلوم ہے کہ شیطان بزرگ امریکا ہے۔ اس کے اپنے دلائل ہیں۔ امریکا کو جو شیطان بزرگ کہا گیا ہے اس کے دلیلیں موجود ہيں۔ آپ گزشتہ تیس چالیس برسوں کی تاریخ پر نظر ڈالیں۔ خودمختار عوامی تحریکوں کے خلاف زيادہ تر کاروائیاں امریکا نے کی ہیں۔ دنیا کی اکثر با ایمان و صاف دل شخصیتوں کو امریکی خفیہ ایجنسی نے قتل کیا ہے۔ دنیا میں عوام مخالف حکومتوں کی زيادہ تر حمایت امریکا نے کی ہے۔ پوری دنیا میں تباہ کن اسحلے سب سے زيادہ امریکا نے فروخت کئے ہيں۔ اقوام عالم کی دولت سب سے زيادہ امریکا نے لوٹی ہے۔ یہی شیطانیت ہے۔ اسی لئے وہ سب سے بڑا شیطان ہے۔ البتہ یہ کام دنیا میں دیگر شیطان بھی کرتے ہيں لیکن ان میں سے کوئي بھی امریکا سے آگے نہيں ہے۔ اسی لئے وہ صحیح معنوں میں شیطان بزرگ ہے۔ یہ شیطان بزرگ جسے تمام اقوام، میں تمام حکومتیں نہيں کہہ رہا ہوں، شیطان بزرگ کہتی ہيں، اسلامی جمہوریہ ایران پر شیطنت کا الزام لگاتا ہے۔ ہمیں فخر ہے کہ دنیا کا سب سے زيادہ نفرت انگیز شیطان، ہم سے اس لہجے میں بات کرتا ہے۔ ہمیں امریکی حکام کی تعریفوں سے قطعی خوشی نہيں ہوتی۔ امریکہ ہمارے ملک کے حکام پر الزام عائد کرتا ہے کہ وہ عوام کی جانب سے منتخب نہيں ہیں! اسلامی جمہوریہ ایران میں، تمام حکام عوامی انتخاب سے بر سر اقتدار آئے ہيں۔ وہ بھی کسی خشک و نام نہاد انتخاب کے نتیجے میں نہيں بلکہ ایک بھاری اکثریت آراء اور جذبات سے معمور انتخاب کے نتیجے میں بر سر اقتدار آئے ہيں۔ مختلف اقوام کے بارے میں تجربے کا فقدان اور حقائق سے عدم آگاھی وہ چیزیں ہیں جس کا خمیازہ اب تک امریکا کو بھگتنا بڑا ہے اور اسی طرح مستقبل میں بھی وہ بھگتے گا۔ امریکا کے موجودہ نا تجربہ کار حکام ، اپنے بڑے ملک کو ، اپنی ان باتوں اور کامو‎ں سے لحظہ بہ لحظہ سقوط سے قریب کر رہے ہيں۔ ان لوگوں کا معنویت، انسانیت اور انسانی حقوق سے دور دور کا واسطہ نہيں ہے۔ مظلوم اقوام کے خلاف، اگر ان کے بس میں ہو تو نہایت شدت و تشدد آمیز رویہ اختیار کرتے ہيں۔ جو اقوام ان کے سامنے گھٹنے نہيں ٹیکتیں اگر ان کے بس میں ہوتا ہے تو ان کے ساتھ وہی سلوک کرتے ہيں جو آج صیہونی حکومت فلسطینیوں کے ساتھ کر رہی ہے لیکن ان کے بس میں نہيں ہے اور پھر وہ اپنی طاقت کا اندازہ لگانے میں بھی غلطی کا شکار ہوتے ہيں۔
صیہونی حکومت امریکا کی حمایت سے، درحالیکہ دونوں معنویت، حقیقت، عدل و انصاف اور انساینت سے بہت دور ہيں، فلسطینی قوم کو گھنٹے ٹیکنے پر مجبور کرنا چاہتی ہے، اسے اپنی صحیح بات زبان پر نہ لانے اور اپنا حق نہ مانگنے پر مجبور کرنا چاہتی ہے۔ یقینا اسے اس میں کامیابی حاصل نہيں ہوگي۔
آج کی جد و جہد اور فلسطین کی تحریک انتفاضہ کی خصوصیت یہ ہے کہ فسلطینی قوم حقیقی معنوں میں اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔
اب ذرائع ابلاغ کے کردار اور کارکردگی کی طرف آتے ہيں۔ یہ جد و جہد کا میدان ایک عام میدان ہے۔ پورے عالم اسلام میں ہر ایک کا فرض ہے کہ اپنی توانائی بھر، کردار ادا کرے۔ آج کی دنیا، ذرائع ابلاغ اور تشہراتی پروپیگنڈوں کی دنیا ہے۔ آج آپ کے سامنے اسلام دشمن طاقتوں کی ذرائع ابلاغ کی سلطنت ہے، جن میں سے اکثر پر صیہونیوں کا قبصہ ہے۔ آج ذرائع ابلاغ کی طرف سے عالمی رائے عامہ کی سمت میں جس میں عرب و اسلامی ممالک اور خود مسلمان رائے عامہ شامل ہے، یک طرفہ بہاؤ نظر آتا ہے۔ صیہونیوں نے اپنے کام کی شروعات سے ہی ذرا‏ئع ابلاغ کا سہارا لیا۔ ان کی ایک پالیسی یہ تھی کہ عالمی ذرائع ابلاغ پر قبضہ کیا جائے۔ آج ایسا ہی ہے۔ انہوں نے شروع سے ہی ایک تشہیراتی حربے کا انتخاب کر لیا تھا جو بہت اہم اور فیصلہ کن تھا اور آج تک موثر ہے۔ وہ تشہراتی حربہ، خود کو ستم دیدہ اور مظلوم ظاہر کرنا تھا۔ اس کے لئے بہت سے افسانے اور قصے گڑھے گئے۔ خبریں بنائی گئيں اور مسلسل کوشش کی گئی ۔ آج بھی نہایت بے رحمی سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ یعنی آج بھی، ذرائع ابلاغ میں صیہونیوں کا سب سے بڑا مشن، خود کو مظلوم ظاہر کرنا ہے۔ ان لوگوں نے یہودیوں کی ذہنی تشویش کی بات پیش کی اور کہا کہ چونکہ یہودی مختلف زمانوں میں دباؤ میں رہے ہيں اس لئے نفسیاتی لحاظ سے انہيں تشویش ہے اور انہيں نفسیاتی امن کی ضرورت ہے۔ صیہونیوں نے مغربی ممالک کے سربراہوں اور پھر اسلامی و عرب ممالک کے حکام سے اپنے مذاکرات میں نفسیاتی سکون و اطمینان کا موضوع پیش کیا اور کہا کہ ہمیں ذہنی احساس تحفظ کی ضرورت ہے اور ہمیں نفسیاتی تحفظ فراہم کیا جانا چاہئے۔ یہ نفسیاتی سلامتی کیا ہے؟ اس کا کوئي معین و واضح معنی و مفہوم نہيں ہے۔ جو چیز ان کے فائدہ میں نہ ہو وہ نفسیاتی تحفظ کے بہانے اسے روک سکتے ہيں۔ انہوں نے دنیا میں بہت سے لوگوں کو قائل کر لیا کہ صیہونیوں کو نفسیاتی تحفظ کی ضرورت ہے اور یہ چیز انہيں ملنی چاہئے۔ نفسیاتی تحفظ کی اسرائیل کی ضرورت کو پورا کرنا، اپنے علاقوں کو چھوڑ دینے سے زيادہ مشکل کام ہے۔ آپ جب اپنا کوئی علاقہ گنواتے ہيں تو آپ کو علم ہوتا ہے کہ آپ نے کیا گنوایا ہے لیکن جب نفسیاتی تحفظ و سلامتی کے بارے میں اسرائیل کے مطالبے کو پورا کرنا چاہتے ہيں تو آپ کو علم نہيں ہوتا کہ کہاں تک جھکنا ہے اور کتنی مراعات دینی ہیں۔ یہ مراعات دینے کا سلسلہ کبھی ختم ہونے والا نہيں ہے۔ مسلسل مراعات دینی ہوگی۔ اس سلسلے میں یورپ کا تجربہ سبق آموز ہے۔ جرمنی کی حکومت نے ڈیڑھ سو ارب مارک، تاوان کی شکل میں یہودیوں کو دئے لیکن جرمنی سے تاوان لینے کا سلسلے ابھی تک ختم نہيں ہوا۔ صیہونی اب بھی تاوان کا مطالبہ کر رہے ہيں کہ یہ تاوان انہيں ادا کیا جانا چاہئے۔ یہودیوں نے جو مطالبہ جرمنی سے کیا کم و بیش دوسرے یورپی ممالک ، جیسے آسٹریا ، سوئٹزرلینڈ ، فرانس ، بلکہ کچھ برسوں پہلے ویٹیکن سے بھی اس کا وہی مطالبہ ہے۔ سب کو تاوان دینا ہے۔ یہ تاوان ختم ہونے والا نہیں ہے ۔
نفسیاتی پہلوں سے اسرائيلیوں کی سرگرمیاں بہت اہم ہیں۔ مغرب کے تمام سیاست دانوں، صحافیوں، دانشوروں، کمپنیوں کے مالکین اور علمی شخصیتوں کو گیس چیمبر کی یاد میں بنائی جانے والی علامت کے سامنے سر جھکانا چاہئے، یعنی سارے لوگ اس کہانی کی تائيد کریں جس کی صحت مصدقہ نہيں ہے۔ وہ سر جھکائے اور خود کو اس کہانی کے سلسلے میں شرمندہ محسوس کریں۔ یہ ان کی تشہیراتی روش ہے اور ان سب کا مقصد، مظلومیت ظاہر کرنا ہے ۔
البتہ دنیا کے ایک دوسرے حصے میں، انہوں نے توریت میں مذکور داستانوں کے سہارے اور یہ کہہ کر کہ یہ وہی جگہ ہے جو فرزندان اسرائیل کو بخشی گئ ہے، بہت سے عیسائیوں کو بھی اپنا ہم نوا بنانے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ جو اعداد و شمار میں نے دیکھے ہیں اس کے مطابق تو یہ لوگ کچھ ملکوں میں، خاص طور پر امریکا میں، رائے عامہ کی ہمدردی حاصل کرنے کے لئے، انہی پروپیگنڈوں کے ذریعے، لاکھوں افراد کو صیہونی بنا لیا ہے! یہ لوگ برسہا برس سے یہ پروپیگنڈہ مہم چلا رہے ہيں اور آج بھی پوری شدت کے ساتھ یہی پروپیگنڈہ پوری دنیا میں جاری ہے۔
اس کے ساتھ ہی نیویارک اور واشنگٹن میں گیارہ ستمبر جیسے واقعات سے بھی زيادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا گیا اور فلسطین کے مسئلے کو عالمی واقعات سے الگ کرنے اور کنارے لگانے میں وہ کامیاب ہو گئے۔ اس سلسلے میں بھی صیہونیوں کو امریکیوں کی صد فیصد مدد ملی جبکہ دوسری طرف کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ فلسطینی بچوں اور عورتوں کے قتل عام کے خلاف لب کشائی کرے۔ یا اعتراض کرے یا فسلطینی قوم پر ڈھائے جا رہے مظالم کا ذکر تک کرے۔
دشمن کی اس تشہیراتی روش اور نفسیات سے آگاہی کے بعد اسلامی ممالک کے ذرائع ابلاغ کے ذمہ داروں کو اپنے فرائض کا احساس کرتے ہوئے اپنے راستے کا تعین کر لینا چاہئے۔ یہ بہت اہم کام ہے۔ آج یہ کام صرف فلسطینی قوم کے لئے ہی نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کے لئے حیاتی اہمیت کا حامل ایک نہایت اہم فریضہ ہے۔
مثال کے طور پر میں جنوبی لبنان کے تجربے کو، جس کے بارے میں دوستوں کو علم ہے، ایک نمونے کے طور پر پیش کر سکتا ہوں۔ لبنان کے با ایمان اور مجاہد نوجوان، تشہیراتی عنصر و حربے کو بہترین اور مناسب طور پر، صیہونیوں کے خلاف اپنی تحریک میں ، استعمال کرنے میں کامیاب ہوئے۔ وہ استقامت و قربانی کے تصور کو عالم اسلام میں صحیح طور پر پیش کرنے میں کامیاب رہے نتیجتا دشمن بدحواس ہو گيا۔ پورے عالم اسلام کو علم ہو گیا کہ استقامت کی تحریک جنوبی لبنان میں کیا کر رہی ہے؟ کیا کرنا چاہتی ہے اور اس کا مقصد کیا ہے؟ وہاں، تشہیراتی ذرائع کو اچھے اور صحیح طریقے سے استعمال کیا گيا۔ اپنوں میں جوش و ولولہ بھرا گیا اور دشمنوں کے حوصلے پست ہو گئے۔ وہ حواس باختہ ہو گئے۔ یہ ایسا کام ہے جو ہمیں ہمیشہ کرنا چاہئے۔ عالم اسلام ہمیشہ جنگ کی حالت میں اور حملوں کی آماجگاہ ہے۔ یہ عالم اسلام کا ایک ٹکڑا ہے جو آج صیہونیوں پنجے میں ہے۔ دن رات ان پر حملے ہوتے ہيں اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ذرائع ابلاغ کو فلسطین کے حق میں بھرپور طریقے سے استعمال کیا جائے۔
غاصب صیہونیون کے خلاف تشہیراتی حکمت عملی تیار کرنے کے لئے بنیادی منصوبہ بندی کی جانی چاہئے۔ یہ کافی نہیں ہے کہ ہم ٹکڑوں میں ہر موقع پر کچھ مظالم کو بیان کردیں۔ پورے عالم اسلام میں مشترکہ طور پر ایک وسیع حکمت عملی کا تعین اور اس پر عمل در آمد ہونا چاہئے۔ ہمارے پاس دنیا کے بڑے ذرائع ابلاغ نہيں ہیں لیکن جو ہیں وہ بھی کم نہيں ہیں، ہمیں اپنے سرمایئے اور موجودہ وسائل سے، جو عالم اسلام سے تعلق رکھتے ہيں، زيادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہئے۔ اس سلسلے میں سب پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور سب جوابدہ ہيں۔ تعلیم یافتہ افراد، سیاست داں، شعراء، مصنفین، فنکار اور اساتذہ سب لوگ ذمہ دار ہیں، یہ با اثر لوگ ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو صحیح طور پر ذرائع ابلاغ کے لئے مواد فراہم کر سکتے ہيں۔ آپ لوگ جو یہاں اکٹھا ہوئے ہيں ، یہی اجلاس ایک بڑی چیز ہے۔ آپ اسے ہی پورے عالم اسلام میں مشترکہ تشہیراتی اقدام کی بنیاد قرار دے سکتے ہيں۔ یہ ناممکن نہیں ہے۔ ہم کیوں اپنے وسائل کا استعمال نہیں کرتے؟ عالم اسلام کے بہت سے تعیلم یافتہ افراد اور مصنفین کچھ اسلامی ممالک اور حکومتوں کے سربراہوں پر جو صیہونیوں کے سلسلے میں مناسب موقف کے حامل نہيں ہے ، اعتراض کرتے اور کہتے ہيں : کیوں تیل و دولت اور سیاسی وسائل کو صیہونیوں کے خلاف استعمال نہيں کرتے؟ یقینا یہ اعتراض بالکل صحیح ہے اور ہماری نظر میں یہ اعتراض بجا ہے لیکن ٹھیک یہی سوال ، ان تعیلم یافتہ افراد اور اساتذہ و مصنفین سے بھی کیا جا سکتا ہے: آپ اپنے عظیم علمی سرمائے کو جیسا حق ہے ویسے کیوں نہیں استعمال کرتے؟ کبھی کبھی ایک شعر یا ایک قصیدہ ایسا اثر ڈالتا ہے کہ دولت کا ڈھیر اتنا موثر نہیں ہو پاتا۔ کسی زمانے میں ایک فلسطینی شاعر نے ایک قیصدہ کہا جس سے عالم عرب میں جوش و ولولہ بھر گیا۔ یہ سن سڑسٹھ یا اڑسٹھ کی بات ہے۔ کبھی کبھی ایک اچھی تشہراتی حکمت عملی یا ایک مشترک و ہماہنگی سے بھرپور قدم، تیل کی پائپ لائنیں بند کرنے سے زيادہ موثر واقع ہوتا ہے۔
آج ہمیں جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ جو لوگ جد و جہد میں مصروف ہيں، انہیں حوصلہ ملے اور یہ یقین ہو کہ مستقبل امید افزا ہے۔ لیکن افسوس کبھی کبھی اس کے برعکس منظر نظر آتا ہے۔ مغرب کی پروپیگنڈہ مشنری کی کوشش ہے کہ ان امیدوں کو ختم کر دے۔ انہی حالیہ مہینوں میں جب انتفاضہ تحریک کو مدد و حمایت کی سب سے زيادہ ضرورت تھی یہ دیکھا گیا کہ عالم اسلام میں کچھ صاحبان قلم ایسی سمت میں آگے بڑھے جو انتفاضہ تحریک کے لئے زہر تھی۔ انتفاضہ تحریک کی کمزوری کی باتیں کی گئيں، یہ زہر ہے۔ ان باتوں کے معنی یہ ہیں کہ فلسیطنی قوم کے پاس ہتھیار ڈالنے اور صیہونیوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کے علاوہ کوئی راستہ نہيں ہے ۔
البتہ امریکا اور اسرائیل بھی مکمل طور پر گھٹنے ٹیکنے سے کم کی بات سوچتے بھی نہيں لیکن وہ تو دشمن ہیں البتہ ان کی یہ سوچ بھی غلط ہے۔ یہ کبھی نہیں ہوگا۔ وہ فلسطینیوں کو پوری طرح سے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے سے کم پر خوش نہيں ہوں گے۔ فلسطینی فریق کے ساتھ ان کے روئے نے ایک بار اس بات کو ثابت کر دیا ہے۔ وہ فلسطینی فریق کو کسی بھی طرح کی مراعات دینے پر تیار نہيں ہیں۔ وہ تو فلسطینی فریق کو بھی، فلسطین کی انتفاضہ تحریک کو ختم کرنے کے ایک حربے کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ اس سے کم پر خوش نہيں ہوں گے۔ ہمیں، فلسطینیوں کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور اور انہیں نا امید کرنے کے عمل میں تعاون نہيں کرنا چاہئے۔ ہمیں حقائق بیان کرنے چاہئے۔ حقیقت، امید، نئے افق اور اپنے ایمان کے سہارے قدم بڑھانے والی ایک قوم کی عظیم تحریک کے سامنے، لرزہ بر اندام صیہونی اور ان کی حامی مجبور و بے دست و پا عالمی طاقتیں ہیں۔ وہ ملت جو متحد ہوکر قدم بڑھاتی ہے اور اپنے ایمان پر بھروسہ کرتی ہے اسے شکست نہيں ہوتی۔ ہمیں ان حقائق کو واضح کرنا چاہئے تاکہ میدان میں اور محاذ پر جو لوگ ہيں ان کے دلوں میں امیدوں کے چراغ مزید روشن ہوں اور استقامت کے لئے نفسیاتی ماحول سازگار ہو۔ ذرائع ابلاغ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ایسا کام کریں جس سے استقامت کے نفسیاتی مقدمات فراہم ہوں۔
آج دنیا میں، صیہونی ذرائع ابلاغ اسرائیل کی مسلسل اور آئے دن کی جارحیتوں کو معمولی بات کے طور پر بیان کرتے ہيں۔ اگر ان کے بس میں ہوتا تو اس کا بھی ذکر نہ کرتے لیکن ذرائع ابلاغ کے تقاضوں کے تحت وہ کچھ بیان کر دیتے ہيں لیکن بہت معمولی، بہت سطحی، بہت ناقص اور بہت ہی تعصب کے ساتھ۔ لیکن فلسطینیوں کی کارروائیوں کو جو در اصل اپنی سر زمین و وطن و قومی عزت و وقار کا دفاع ہے ، اسے اس طرح سے پیش کرتے ہيں کہ گویا اسرائیل پر ظلم ہو رہا ہے! حقیقی مظلوم کو، جو فلسطینی قوم ہے، دہشت گرد و مجرم کی حیثیت سے پیش کرتے ہيں لیکن سفاک و مجرم جارح کو مظلوم ظاہر کرتے ہيں۔ آج، عالمی ذرائع ابلاغ یہ کام کر رہے ہيں اور سیاستداں بھی اپنے بیانوں میں یہی سب کچھ دہراتے رہتے ہيں ۔
اسلامی اور عرب ذرائع ابلاغ کے نظام کو ایسی روش اختیار کرنی چاہئے جس سے یہ محسوس نہ ہو کہ میدان جنگ بہت دور ہے۔ آپ میدان جنگ کے قلب میں ہیں۔ چاہیں یا نہ چاہیں۔ آج وہ دن ہے جب ہمارا ہر اقدام ، مستقبل پر پر اثر انداز اور تاریخ میں ثبت ہو گا۔ ہمیں امید ہے کہ پورا عالم اسلام اس معاملے کو اس کے تمام پہلوؤں کے ساتھ واضح طور پر سمجھے گا اور اس کے تحت جو فرض بنتا ہے اس پر عمل کر ے گا ۔ مجھے امید ہے کہ خداوند عالم اپنا فضل و کرم و اپنی برکتیں، فلسطینی قوم اور عالم اسلام کے شامل حال کرے گا اور انہیں اپنی نگاہ لطف و کرم سے نوازے گا۔ ہمیں روشن مستقبل نظر آ رہا ہے۔ ہم استقامت کی مدد سے عالم اسلام اور فلسطین کے لئے روشن مستقبل کی پیشگوئی کرتے ہيں۔ ہمیں یقین ہے کہ وہ دن عالم اسلام کی ذلت آمیز موت اور انتہائی حقارت کا ہوگا جب وہ عالمی سامراج اور صیہونیوں کی طمع کے سامنے پیچھے ہٹ جائے گا اور ہتھیار ڈال دے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی عالم اسلام پر ایسا دن نہ لائے اور اسے اس حالت میں کبھی نہ پہنچنے دے۔

والسّلام عليکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ