اسی ضمن میں قائد انقلاب اسلامی نے انقلاب کی سالگرہ سے ایک دن قبل یعنی اکیس بہمن تیرہ سو اسی کو اپنے درس کے اختتام کے بعد حاضرین سے خطاب میں اسلامی انقلاب کی خصوصیات پر روشنی ڈالی۔ آپ نے ملت ایران کی انقلاب سے قبل اور انقلاب کے بعد کی صورت حال کا موازنہ کیا۔
تفصیلی خطاب مندرجہ ذیل ہے:
 

بسم‏اللَّه‏الرّحمن‏الرّحيم‏

آج میں علمی بحث کے ایک حصے میں، بائيس بہمن (اسلامی انقلاب کی کامیابی کی تاریخ) کے نہایت اہم واقعے کے بارے میں جو آنے والا ہے، چند جملے عرض کروں ۔
اسلامی انقلاب کی کامیابی اور بائیس بہمن کے بارے میں بہت سی باتیں کہی گئ ہیں اور برسوں سے کہی جا رہی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب بھی اس واقعے کی اہمیت و عظمت کے تمام پہلو خود ہمارے لئے بھی پوری طرح سے واضح نہیں ہوئے ہيں۔ ہم جانتے ہيں اور دیکھتے بھی ہیں کہ یہ بہت بڑا واقعہ ہے لیکن جب تک اس کے قریب ہیں، اس کے تمام پہلوؤں کو صحیح طور پر سمجھ نہيں سکتے۔ تاریخ فیصلہ کرے گی۔ جو لوگ اس واقعے کو دور سے دیکھ رہے ہیں اور اسے تاریخی واقعات کے زمرے میں ایک تاریخی لمحے کی خيثیت سے دیکھنے کی قدرت رکھتے ہیں وہ سمجھ سکتے ہيں کہ یہ واقعہ کتنا بڑا ہے۔
بائیس بہمن کا واقعہ اور انقلاب کی کامیابی، ایرانی قوم کی تحقیر کا خاتمہ تھا۔ ایرانی قوم کی صدیوں تک تحقیر کی گئ ہے۔ کچھ مدت تک آمر بادشاہوں کی طرف سے اس کی تحقیر کی گئ یعنی قدیم ایام میں جب سامراج اور غیر ملکی نفوذ کی ابتداء نہیں ہوئی تھی، بادشاہت کا دور تھا کچھ طاقتور تھے اور کچھ کمزور اور نا اہل لیکن بغیر کسی استثنا کے وہ سب اس قوم کی تحقیر کرتے تھے۔ اگر آپ کچھ بادشاہوں، ان کے فرزندوں یا شہزادوں کی تحریریں پڑھیں تو آپ کو بخوبی نظر آئے گا کہ ان کا یہ خیال تھا کہ ایران، ان کی ذاتی ملکیت ہے۔ اس میں آباد رعایا کے لئے کچھ کرنا ہے۔ اس کے کچھ حقوق ہیں؟ نہیں ۔ اس کی خواہش کی کوئی وقعت و اہمیت ہے؟ نہیں۔ اس بنا پر ملک و قوم و خود اپنے بارے میں ان کا تصور اتنا زيادہ غلط اور خراب تھا۔ وہ سچ مچ یہ سمجھتے تھے کہ یہ ملک ان کی ملکیت ہے۔ اگر کوئی شخص کچھ کرتا ہے، کوئی خدمت انجام دیتا ہے تو وہ گویا اپنا فریضہ ادا کر رہا ہے اور جو لوگ کوتاہی کرتے ہیں وہ ایسے سرکش قرار پاتے ہیں جو طاقت پرست و آمر بادشاہ کے مفادات کو نقصان پہنچاتے ہيں!
دوسرے دور میں جو تقریبا، آئینی انقلاب کے بعد شروع ہوا۔ یہ تصور پوری طرح سے ختم نہیں ہوا اور سلطنتی نظام کے آخری دور تک جاری رہا۔ مثال کے طور پر پہلوی حکام، حالانکہ جدت پسندی کا دعوی کرتے تھے اور خود کو جدید عالمی تقاضوں سے آشنا ظاہر کرنا چاہتے تھے لیکن ان کے ذہنوں میں اس کے علاوہ دوسرا کوئی تصور نہیں تھا اور ملک کو اپنی ملکیت اور خود کو اس ملک و قوم کے مستقبل کا مالک سمجھتے تھے۔
اس دور میں ایک چیز کا اور اضافہ ہو گیا اور وہ تھا غیر ملکیوں کا نفوذ جو قاجاریہ دور کے آخری ایام سے شروع ہوا اور پہلوی دور میں اپنے اوج پر پہنچا۔ کیونکہ رضا خان کو انگریزوں نے اقتدار تک پہنچایا تھا اور اس کی حکومت کے مقدمات فراہم کئے تھے۔ انہوں نے اس کے امور سنبھال رکھے تھے اور اسے بتاتے تھے کہ کیا کرنا چاہئے۔ اس کے بعد بھی اس کے بیٹے کو بھی انگریزوں نے اقتدار تک پہنچایا۔ یہ باتیں تاریخی مسلمات میں ہيں۔ صرف دعوی نہیں ہے۔ ہم ماضی میں کبھی اس قسم کی باتیں اندازے اور قیاس کی بنا پر کہتے تھے لیکن بعد میں بہت سے شواہد و دساویزات سامنے آئے اور واضح ہو گیا کہ ان لوگوں کو وہی (انگریز) اقتدار تک لائے تھے۔ یہ لوگ ان کی خارجہ پالیسی پر عمل در آمد کرنے والے تھے، کچھ دنوں تک انگریزوں کی خارجہ پالیسی پر عمل در آمد کرتے رہے اور مصدق کے دور کے بعد امریکا کی خارجہ پالیسی کے تابع ہو گئے۔ کبھی یہ بھی ہوتا تھا کہ کچھ معاملات میں اپنے مفادات کی وجہ سے، قوم کے مفادات کی وجہ سے نہیں، اس بات سے انہیں تکلیف بھی ہوتی تھی کہ امریکا ان پر کوئی کام مسلط کر رہا ہے لیکن ہر حال میں انہیں امریکی احکامات کی پابندی کرنی پڑتی تھی، اس سے مفر نہيں تھا۔ حکومت کا تعین امریکی کرتے تھے اور وزیر اعظم ان کی مرضی کا ہوتا تھا۔ امریکی کبھی کبھی، شاہ کو سبق سکھانے کے لئے، تاکہ سرکشی کا خیال بھی اس کے دل میں نہ آئے، ایسے وزیر اعظم کا تعین کرتے تھے جسے شاہ پسند نہیں کرتا تھا لیکن امریکی اسے شاہ پر مسلط کر دیتے تھے۔ یہ کئ بار ہوا یعنی ایسا شخص جسے شاہ بہت زیادہ پسند نہيں کرتا تھا امریکی کہتے تھے اسے وزیر اعظم ہونا چاہئے اور شاہ کو بھی مجبورا منظور کرنا پڑتا تھا۔ ملک اسی طرح غیرملکیوں اور امریکی پالیسیوں کے زیر اثر چلتا تھا۔ یہ صورت حال صرف تیل سے متعلق پالیسیوں کے بارے میں ہی نہیں تھی۔ تمام حکومتی امور میں، انہی کی پالیسی اثرانداز تھی اور اسی پر عمل در آمد ہوتا تھا۔ چاہے تیل سے متعلق امور ہوں، چاہے ملک کو صنعتی بنانے کے امور ہوں، چاہے ملکی انتظام ہو یا دیگر ملکوں کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کا معاملہ۔ اگر ملک کے اندر کوئی سرکاری عہدے دار یہ سوچتا کہ کسی طرح کسی اور کا سہارا لے لے۔ مثال کے طور پر اس زمانے کے مشرقی بلاک سے جڑ جائے یا کسی اور طاقت سے تو اگر امریکیوں کو علم ہو جاتا تو اسے یا تو عہدے سے ہٹوا دیتے یا پھر اسے اپنی مرضی کے ادارے میں منتقل کرا دیتے تھے۔ اس طرح سے یہ ملک مختلف طاقتوں کا اکھاڑا بن گیا تھا اور ہر طاقات اپنا اثر بڑھانے کی کوشش کرتی تھی لیکن تسلط امریکا کو ہی حاصل تھا اور قوم اور اس کی مرضی کی کوئی حیثیت نہیں رہ گئی تھی-
کسی بھی ملک اور قوم کے لئے سب زیادہ افسوسناک صورت حال یہ ہوتی ہے کہ اسے نظر انداز کیا جائے اور اسے اس کے گھر میں ہی ذلیل و رسوا کیا جائے۔ اس کے ساتھ دوسری بہت سی چیزیں جڑی ہوئی ہيں ۔ اقتصادی مسائل، ثقافتی مسائل، عقائد و امنگوں اور قومی ثقافت سے لاپروائی جڑی ہے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو ملک پر غیر ملکیوں کے تسلط کے حتمی نتائج ہيں۔
عوامی تحریک اور عظیم اسلامی انقلاب کا ایک اہم ترین مقصد اسی تسلط کا خاتمہ تھا۔ اسی لئے آپ ملاحظہ کرتے ہیں کہ لوگوں کے نعروں میں عالمی مسائل بھی شامل تھے اور لوگ امریکا، برطانیہ، شاہ کے حامیوں اور اسرائیل کے خلاف نعرے لگاتے تھے۔ تمام ادوار میں عام لوگوں کے دل غیر ملکیوں کے تسلط سے دکھے ہوئے تھے لیکن جب یہ عظیم انقلاب، اسلامی نعروں اور اسلام، دین و قومی تشخص کی جانب واپسی کے پرچم تلے شروع ہوا، جس کی قیادت علماء کر رہے تھے، تو عوام میں خودمختاری کی جو چاہ تھی وہ پوری ہو گئی۔ لوگ یہ سمجھ گئے کہ اسلام کے سہارے وہ تذلیل کو ختم کر سکتے ہيں۔ اسی لئے جد و جہد کا ایک پہلو یہ بھی قرار پایا ۔
یقینا لوگ اسلام چاہتے تھے۔ لوگ جو قربانی و ایثار کرتے تھے وہ اسلام کے لئے تھی ورنہ اگر صرف خودمختاری کی بات ہوتی اور اسلامی جذبہ نہ ہوتا تو یقینا یہ عظیم قربانیاں و جد و جہد بھی نہ ہوتی پھر خدا جانے تحریک کا کیا حشر ہوتا۔ اسی لئے پہلے دن سے ہی، اس تحریک، اس کے نتائج، اثرات اور برکتوں کے ساتھ ہی، جو اسلامی جمہوری نظام کی شکل میں ہمارے سامنے ہے اور جس چیز کو انہوں نے اس تحریک کی بنیاد سمجھا تھا، یعنی ایمان، خدا پر توکل اور دین کی حکومت کی آرزو اس کے ساتھ، سخت جد و جہد شروع ہو گئی۔ یہ نہيں سمجھنا چاہئے کہ اسلامی جمہوری نظام کو ختم کرنے کے لئے جو منظم پروگرام ہے وہ ابھی حالیہ عرصے میں شروع ہوا ہے۔ نہيں، اس نظرئے کی شروعات سے ہی، یعنی اسی وقت سے جب انہيں محسوس ہوا کہ یہ نظام اسلام سے جڑا ہوا ہے، اس پروگرام پر عمل در آمد شروع ہو گيا۔ البتہ ہمارے دشمنوں کا مسئلہ یہ رہا ہے اور آج بھی کافی حد تک یہ مسئلہ برقرار ہے کہ انہيں ایرانی قوم کے امور کا علم نہيں ہے۔ وہ ایرانی قوم کو پہچانتے نہیں۔ وہ صحیح طور پر اسلامی و معنوی نظریات کے لوگوں پر پڑنے والے اثرات کو سمجھ نہیں سکتے۔ وہ علماء دین کے کردار، ان کے مقام، ان کے اثرات اور اس کی کیفیت کو صحیح طور پر سمجھ نہیں سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ ان حقائق سے ان کی عدم اطلاع ان کے لئے مسائل کا باعث رہی اور آج تک ہے۔
ان چند برسوں میں ان سے جو بن پڑا کیا ، ایسے کام کئے جس کے لئے انہيں زيادہ خرچ نہ کرنا پڑے اور بھاری خرچ نہ اٹھانا پڑے اور ان کے مقاصد بھی پورے ہو جائيں ۔ سچ مچ انسان جب غور کرتا ہے تو اسے نظر آتا ہے کہ انہوں نے ہر وہ کام کیا جو ان کے بس میں تھا۔ فوجی بغاوت کی تیاری، ملک کے اندر کچھ لوگوں کو ورغلانا، نظام کے خلاف تحریک چلانا، نعرے بازی، رقم مہیا کرنا، منصوبہ سازی میں تعاون، فوجی حملہ اور فوجی حملہ آور کی برسوں تک حمایت، سب کچھ کیا۔
حالیہ دنوں میں جو صورت حال ہے اس میں یہ لوگ زبانی دھونس اور جنگ کی دھمکی کا پھر سے سہارا لینے لگے ہیں۔ ایک طرف تو یہ خوشخبری ہے کیونکہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کی سیاسی، حفاظتی و تشہیراتی مہم سے ان کا مقصد پورا نہيں ہوا ہے ورنہ اگر یہ لوگ سیاسی اور تشہیراتی حربوں کے ذریعے، کہ جس میں انہيں مہارت حاصل ہے، اپنا مقصد حاصل کر لیتے تو یقینا زيادہ خرچ والے راستے اختیار نہ کرتے۔ کیونکہ دنیا میں کسی بھی حکومت کے لئے فوجی تصادم، بہت زيادہ خرچ والا اور خطرناک کام ہوتا ہے۔ یہ جو لہجہ سخت کر لیا ہے اور یہ جو امریکی صدر اس طرح سے ایران، ہماری قوم اور اسلامی نظام کے خلاف باتیں کر رہے ہيں اس بات کا ثبوت ہے کہ اتنے برسوں میں وہ سیاسی و تشہیراتی راستوں سے جس مقصد تک پہنچنا چاہتے تھے اس مقصد تک پہنچنے میں ناکام ہو چکے ہیں ۔ ان سب حرکتوں کا یہی مقصد ہے کہ وہ سمٹ چکی بساط کو دوبارہ بچھانا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے ناجائز تسلط و اثر و نفوذ کو دوبارہ ایران اور ایرانی قوم پر عصر حاضر کی ضرورتوں کے مطابق مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں امید ہے کہ شاید اسلامی جمہوریہ ایران کے حکام مرعوب ہو جائيں۔ انہیں امید ہے کہ شاید ان کے درمیان اختلاف پیدا ہو جائے۔ انہیں امید ہے کہ شاید وہ عوام میں شکوک و شبہات پیدا کر لے جائيں۔
ہمیشہ دھمکی کا مطلب، عملی اقدام نہیں ہوتا۔ دھمکی کا ایک فائدہ یہ ہے کہ شاید دوسرا فریق مرعوب ہوجائے اور میدان سے ہٹ جائے اور شکست قبول کر لے۔ یا شاید اس طرح سے متحد حکام کے درمیان یا حکام اور عوام کے درمیان، یا عوام کے دلوں میں اختلاف اور شکوک و شبہات پیدا ہو جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ کل، یعنی بائیس بہمن کو عوامی مظاہرے ، ایران کی عوامی تحریک میں غیر معمولی اور فیصلہ کن اہمیت کے حامل ہیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ خدا وند عالم کے لطف سے ہم دیکھيں گے کہ عوام ، عہدے داروں کے شانہ بشانہ، اس میدان میں بھی تمام دیگر میدانوں کی طرح ، عزم محکم ، اتحاد، تازگی و شادابی کے ساتھ حاضر ہوں گے اور ایک پھر ایران کے دشمنوں کے منہ پر طمانچہ لگائيں گے ۔
امید ہے کہ خداوند متعال ہمیں، جو اس قوم کے سلسلے میں کچھ ذمہ داریاں قبول کی ہیں، یہ آگاہی عنایت کرے گا کہ عوام ، ان کے شعور و فیصلے اور اقدام کی قدر کریں اور ان کے سلسلے میں اپنے فرائض پر عمل کریں -

والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته