قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آئین کے مطابق ڈاکٹر محمود احمدی نژاد کے صدارتی حکومت کی توثیق کی اور اس موقع پر اپنے خطاب میں بارہ جون دو ہزار نو کے صدارتی انتخابات کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ قائد انقلاب اسلامی کے بقول انتخابات سے متعدد تجربات ہوئے اور کئی اہم پیغام ملے۔ تفصیلی خطاب مندرجہ ذیل ہے۔

بسم‏اللَّه‏الرّحمن‏الرّحيم‏

آج کا دن ہماری قوم کے لئے اور ہمارے مستقبل کے تعلق سے انشاء اللہ بہت مبارک دن ثابت ہوگا۔ یہ نشست بھی بہت با وقار اور محترم نشست ہے۔ خدا وند عالم کی بارگاہ میں خاکسارانہ التجاء کرتا ہوں کہ اس نئے مرحلے پر ملک کے انتظامی امور کے اس نئے دورے میں جو آج سے شروع ہو رہا ہے ملت ایران کو اپنی رحمتوں اور برکتوں سے مستفیض فرمائے۔
ہمارے محترم صدر کا بیان بالکل درست، بر محل اور قابل احترام تھا۔ یہی توقع ہے کہ انہوں نے جن اہم عناوین کی جانب اشارہ کیا ہے آئندہ چار برسوں میں اس پر توجہ دی جائے گی۔ اسلامی جمہوری نظام میں عوام کے کردار اور انتخابات کا موضوع جو نئی اور دلچسپ شکل میں دنیا کے سامنے آیا ہے، بہت اہم مسئلہ ہے۔ مناسب ہوگا کہ اس کے بارے میں زیادہ غور و خوض کیا جائے، بحث اور مذاکرہ ہو۔ یہ مسئلہ دینی جمہوریت کا مسئلہ ہے۔ یعنی اسلامی و الہی معیاروں اور اصولوں کے ساتھ ساتھ عوام کی بھرپور شرکت، سنجیدہ رقابت اور عوام کی پرزور سعی و کوشش۔ یہ حیرت انگیز ترکیب اور تال میل، وہی چیز ہے جس کی انسانیت کو شدید احتیاج ہے اور انسانیت جس کے لئے تشنہ ہے۔ خود ہمارے ملک میں بھی انقلاب کی کامیابی سے قبل اہم فیصلوں میں عوام کا برائے نام بھی کوئی کردار اور شراکت نہیں ہوتی تھی۔ ایسے حکمراں تھے جو استبداد اور اسلحے کے زور پر عوام پر مسلط ہو گئے تھے وہ خود بھی عوام پر مسلط رہتے اور جب دنیا سے چلے جاتے تو اس عظیم الہی امانت یعنی عوام پر حاکمیت و ولایت کو اپنی ذاتی ملکیت کی مانند میراث کے طور پر چھوڑ جاتے اور یہ میراث ان کی اولاد کو مل جاتی۔ عوام کا کہیں کوئی رول نہیں ہوتا تھا۔ یہی لوگ جو آج دنیا بھر میں جمہوریت، ڈیموکریسی اور انسانی حقوق کی باتیں کرتے نہیں تھکتے اس استبدادی اور غیر انسانی طور طریقے والی حکومت سے بھرپور تعاون کرتے تھے۔ اسی کی حمایت کرتے تھے۔ جن ملکوں میں نام کے لئے ہی سہی عوام کا حکومت میں اگر کچھ رول تھا بھی تو وہاں الہی و روحانی اقدار ناپید تھیں۔
اسلامی جمہوریہ کو جو چیز حیرت انگیز اور ممتاز بنا دیتی ہے وہ یہی عوام کا بھرپور کردار، روحانیت و حکم الہی سے گہرا رشتہ اور پروردگار کے مقابلے میں خاکساری کی خصوصیت ہے۔ ان دونوں چیزوں (عوام کا کردار اور روحانیت) نے مل کر ایک حقیقت کو وجود بخشا ہے۔ یہ بحث کہ اسلامی نظام میں جمہوریت مقدم ہے یا اسلام نوازی، بے معنی بحث ہے۔ اسلام پسندی اور جمہوریت دو مختلف حقیقتیں نہیں ہیں جو آپس میں مل گئی ہوں اور ان سے مل کر ایک نئی حقیقت معرض وجود میں آ گئی ہو۔ اسلام نوازی کے بطن سے ہی جمہوریت کا چشمہ ابلتا ہے۔ الہی احکام پر اتکاء کے مرکزی نقطے سے عوام پر تکیہ کرنے اور ان کی خواہش و مرضی کا احترام کرنے کا درس ملتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایک متحدہ حقیقت ہے جو اسلامی انقلاب سے ملت ایران کو ایک تحفے کے طور پر حاصل ہوئی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس کا گزشتہ تیس برسوں میں بڑا کامیاب تجربہ کیا گيا ہے۔
جو لوگ جمہوریت کے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں وہ ذرا بتائیں تو سہی کہ ان کے حکومتی ڈھانچے میں کس حد تک حقیقی جمہوریت پائی جاتی ہے۔ یہ عوامی میلان اور یہ جذبہ ایمانی جو ملت ایران کے دلوں میں موجزن ہے اور انہیں فریضے کی ادائیگی کا احساس دلاکر پولنگ مراکز تک لاتا ہے یہ جذبہ ان کے یہاں کہاں پایا جاتا ہے؟ (دنیا کی ) ان جمہوریتوں میں کہاں اس کی مثال پیش کی جا سکتی ہے؟ حکومت کا یہ انوکھا انداز اسلام سے ہمیں حاصل ہونے والا عطیہ ہے۔ اس حقیقت کے ساتھ ساتھ ہمیں اس بات پر بھی توجہ رکھنی چاہئے کہ اسلامی جمہوریت اور اس نظرئے پر استوار نظام کی صلاحیت کتنی زیادہ ہے!
انقلاب کوتیس سال ہو رہے ہیں، اس عرصے میں تقریبا تیس بار انتخابات منعقد ہوئے۔ ملک کے اجرائی عہدوں سے لیکر قانون سازی کے عہدوں اور ملک کے شہری نظم و نسق کے ذمہ داران تک سب انتخابات کے مرحلے سے گزرے ہیں۔ خود اسلامی نظام عوامی رائے، آئين عوامی ووٹوں اور بنیادی انتظامی عہدے عوامی ووٹوں کے ذریعے طے پائے ہیں۔ ایسے نظام کی صلاحیت جو اتنی عظیم حقیقت پر استوار ہے بہت زیادہ وسیع اور اس سے کہیں بالاتر ہے
جو باہر بیٹھے ہوئے لوگ اندازہ لگاتے، تجزیہ کرتے اور اس نظام کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں۔ جو باتیں خود غرضی کی بنا پر کہی جاتی ہیں وہ تو در کنار معاندانہ جذبے کے بغیر بھی کی جانی والی قیاس آرائی اسلامی جمہوریہ کی حقیقت کے عدم ادراک کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ اسلامی نظام میں یہ عظیم صلاحیت موجود رہی ہے۔ ان تیس برسوں میں مختلف سیاسی طر‌ز فکر اور میلان والے حلقے اس عظیم وادی میں یکے بعد دیگرے آئے ہیں۔ اقتدار کی منتقلی امن و سکون، مہربانی و محبت اور احترام و توقیر کے ساتھ انجام پائی اور ان تیس برسوں میں اجرائی اختیارات ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل ہوتے رہے ہیں۔ مختلف نظریات کے لوگ آئے۔ ان تیس برسوں میں بعض اوقات بالکل نئے نظریات آئے لیکن اسلامی انقلاب کے وسیع دامن میں ان سب کو جگہ ملی۔ سب انقلاب کی بھٹی میں پگھل کر نکھرے۔ ان سے انقلاب کا دامن اور وسیع ہوا اور انقلاب نے زیادہ توانائی کے ساتھ پیش قدمی کی۔ جو لوگ اس نظام کے اندر رہ کر اسلامی جمہوری نظام پر ضرب لگانا چاہتے تھے وہ ناکام رہ گئے۔ انقلاب اپنی پوری توانائی اور آب و تاب کے ساتھ اپنے صراط مستقیم پر گامزن ہے۔ الگ الگ نظریات کے افراد جو اس نظام کے اندر موجود ہیں بہر صورت اس نظام کی توانائی میں اضافے کا باعث ہیں۔ اس حقیقت پر پوری باریک بینی سے توجہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ عظیم ظرف اسی جمہوریت اور اسلامیت کا ثمرہ ہے۔ اسی دینی جمہوریت کی اپج ہے۔ اسی چیز نے یہ وسعت پیدا کی ہے۔ اسلامی جمہوریہ کی پائیداری و دوام اور مضبوطی و استحکام کا راز بھی یہی ہے۔ یہ چیز اسلامی جمہوریہ کی ذات میں شامل ہے جو انشاء اللہ ہمیشہ محفوظ رہے گی۔
اس سال کے انتخابات خاص اہمیت کے حامل تھے۔ خاص پیغام کے حامل تھے۔ ان میں پیغام بھی پوشیدہ تھا اور تجربہ بھی تھا۔ یہ ایک امتحان بھی ثابت ہوا۔ ہماری آزمائش ہو گئی۔ ہمیں پرکھا گیا۔ میری نظر میں یہ یہت با برکت انتخابات تھے۔ سب سے پہلے درجے میں تو انتخابات کے پیغامات کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔
انتخابات کا پہلا پیغام یہ تھا کہ تیس سال گزر جانے کے بعد بھی اسلامی جمہوریہ میں عوام کو میدان میں لانے اور انہیں منظم کر دینے کی توانائی اس حد تک ہے کہ اس نے دنیا میں ٹرن آؤٹ کا نیا ریکارڈ قائم کر دیا۔ سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ ان برسوں میں بعض لوگ یہ آس لگائے بیٹھے تھے کہ وقت بیتنے کے ساتھ ساتھ اسلامی نظام پرانا ہوکر لوگوں کی نظروں سے اتر جائے گا اور عوام کو متحد کر دینے کی اپنی توانائی کھو بیٹھے گا لیکن انتخابات نے ثابت کر دیا کہ ہر گزرنے والے دن کے ساتھ عوام کو متحد و منظم کرنے اور ان کا اعتماد جیتنے کی اسلامی نظام کی توانائی بڑھتی ہی رہی ہے۔ یہ بڑی اہم حقیقت ہے۔ بعض ضمنی اور ذیلی باتیں ان حقائق کے حاشئے پر چلے جانے کا باعث بنتی ہیں۔ اس دفعہ کے انتخابات کی سب سے بڑی اور بنیادی حقیقت یہ ہے کہ اسلامی انقلاب اور اسلامی نظام اس طرح زند و پایندہ اور جذاب و پر کشش ہے کہ تین عشرے کے بعد بھی عوام کو میدان میں لانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پچاسی فیصدی کا ٹرن آؤٹ عالمی سطح پر ایک بے مثال یا کم از کم کم نظیر ٹرن آؤٹ ہے۔
انتخابات اور اس میں عوام کی اس پر شکوہ شرکت کا ایک اور اہم پیغام اسلامی نظام اور عوام کے درمیان پائے جانے والے دو طرفہ اعتماد کے وجود کا پیغام تھا۔ یہ انتخابات جو گفتگو و بحث اور الگ الگ طر‌ز فکر کے افراد کی جولان گاہ ثابت ہوئے یہ نظام کی خود اعتمادی کی دلیل اور اس بات کی علامت ہے کہ اسلامی نظام کو اپنے عوام پر پورا اعتماد ہے اور دوسری طرف عوام کو بھی نظام پر پورا اعتماد و بھروسہ ہے۔ عوام نے بڑھ چڑھ کر اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا۔ اگر انہیں نظام پر اعتماد اور بھروسہ نہ ہوتا تو یہ عوامی استقبال اور پذیرائی نظر نہ آتی۔ جو لوگ عوام کی بے اعتمادی کی بات کرتے ہیں اگر مخصوص ہدف کے تحت نہیں تو سادہ لوحی اور نا واقفیت کا نتیجہ ضرور ہے۔ اس سے بڑھ کر کیا اعتماد ہو سکتا ہے کہ عوام آئیں انتخابات میں شرکت کریں اپنے نظام اور حکومت پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ووٹ ان کے حوالے کریں اور پھر انتخابات کا نتیجہ جاننے کے لئے منتظر رہیں؟! یہ بھرپور عوامی اعتماد کی علامت ہے، یہ توفیق الہی پر بھروسہ ہے، بحمد اللہ یہ چیز بدستور برقرار ہے اور ہمیں ملک کے حکام اور مختلف اداروں کے ذمہ دار افراد سے توقع ہے کہ اپنے طرز عمل سے اس اعتماد میں اضافہ کریں گے۔ یہ اسلامی نظام کا اصلی سرمایہ ہے۔
ان انتخابات کا ایک اور پیغام عوام میں امید و نشاط کے جذبے کی موجودگی کا پیغام ہے۔ البتہ ہمارے ملک اور ہمارے معاشرے میں یہ ایک فطری چیز ہے کیونکہ ہمارے ملک کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے اور نوجوان امید و نشاط کا مظہر ہوتے ہیں۔ اگر مستقبل کے تعلق سے امید نہ ہو اور دل پژمردہ و مایوس ہو تو انسان کبھی وارد میدان نہیں ہوتا۔ عوام اور نوجوانوں کی میدان عمل میں بھرپور موجودگی ان کی امید و نشاط کی علامت ہے۔
ان انتخابات سے کچھ تجربات بھی حاصل ہوئے۔ یہ ہمارے عوام اور حکام کے لئے اہم تجربہ تھا جس کے بارے میں میری سفارش یہ ہے کہ اسے پوری سنجیدگی سے لیں۔ حکام بھی اسے سنجیدگی سے لیں اور عوام بھی سنجیدگی سے لیں۔ وہ تجربہ یہ ہے کہ ہمیں یہ یقین رکھنا چاہئے کہ انقلاب کے دشمنوں اور ایران اسلامی کے دشمنوں کی جانب سے وار کئے جانے کا اندیشہ ہر لمحہ موجود ہے۔ بہترین پوزیشن اور حالات میں بھی ہمیشہ دشمن کی چال پر نظر رکھنا چاہئے۔ ملت ایران کی عمومی پیشقدمی پر کبھی بھی ضرب لگ سکتی ہے اس بات سے غفلت بہت خطرناک ہے۔ ہوشیار رہئے۔ یہ امیر المومنین علیہ السلام کی سفارش بھی ہے، آپ نے فرمایا: و من نام لم ینم عنہ(1) سیاسی زندگی میں خواب غفلت کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔ محاذوں پر ہمیں نیند نہ آ جائے۔ اگر آپ سو رہے ہیں تو یہ دھیان رہے کہ دشمن ممکن ہے بیدار ہو۔ یہ جو میں عرض کر رہا ہوں تجزیہ اور قیاس آرائیں نہیں (موثق) اطلاعات ہیں۔ اسلامی جمہوری نظام کے دشمنوں نے مسلسل کوشش کی کہ اسلامی نظام سے عوام کو ملنے والی آزادانہ فضا اور ماحول میں خوف و ہراس اور تشویش و فکرمندی پھیلا دیں۔ انہوں نے کوشش کی، پیسہ خرچ کیا، ذرائع ابلاغ کی خدمات حاصل کیں، بے شمار عناصر کو با قاعدہ منظم کیا کہ اس واقعے کو جو ملت ایران کے لئے عید اور عظیم قومی جشن تھا ناسازگار واقعے میں تبدیل کر دیں۔
یہ تجربہ ہمارے لئے، تمام لوگوں کے لئے بیدار کرنے والا تجربہ ثابت ہونا چاہئے۔ اگر سیاسی و سماجی میدان میں ہم ایک دوسرے کے سلسلے میں بد گمانی کا شکار ہوئے، ایک دوسرے کو دشمن سمجھنے لگے تو ہمارے دشمنوں کے لئے یہ سنہری موقع ہوگا۔ اگر عقل و نظر سے کام نہ لیا اور اگر دور اندیشی کا ثبوت نہ دیا، اگر ہم نے فراموش کر دیا کہ دشمن انقلاب کے لئے گھات لگائے بیٹھا ہے تو یقینا ہم چوٹ کھا جائیں گے۔ یہ ہمارے لئے اہم تجربہ رہا۔ آغاز انقلاب سے اب تک کبھی بھی ہم نے انتخابات میں چار کروڑ یا پچاسی فیصد ٹرن آؤٹ کا مشاہدہ نہیں کیا تھا۔ اس بار کے انتخابات میں پہلی دفعہ یہ عظیم موقع آیا لیکن اسی عظیم موقع اور عظیم شادمانی کے وقت کچھ ہاتھ ملت ایران پر ضرب لگانے کے لئے حرکت میں آ گئے۔ بیدار رہنا چاہئے۔ بیداری صرف زبان کی حد نہیں ہونا چاہئے۔ عوام، مختلف سیاسی حلقے، وطن پرست افراد، اسلامی نظام کے چاہنے والے، سب کے سب حقیقی معنی میں بیدار رہیں، کسی فریب میں نہ آئيں۔ کچھ ہاتھ ایک عرصے سے سرگرم عمل تھے، تیاریاں کر رہے تھے کہ انتخابات کے موقع کو ملت ایران کے خلاف استعمال کریں۔ خوش قسمتی سے ملت ایران ہوشیار وبیدار تھی۔ فضا کو غبار آلود کیا گيا، تلخی پھیلائی گئی لیکن وہ اس کام میں کامیاب نہیں ہوئے جو ان کی خواہش تھی۔ یہ عوام کی بیداری و ہوشیاری کا نتیجہ تھا۔ یہ ہمارے لئے تجربہ رہا کہ یاد رکھیں کہ ہمارا دشمن ہر لمحہ گھات میں بیٹھا ہوا ہے۔
ہمارے دشمن کو بھی ان انتخابات سے ایک سبق ملا ہے اور اگر اس نے یہ سبق نہیں لیا تو اسے اب لے لینا چاہئے اور وہ یہ ہے کہ انہیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ وہ کس حقیقت کے روبرو ہیں۔ اسلامی نظام اور اسلامی انقلاب کو سمجھنے میں غلطی نہ کریں۔ اس خیال میں نہ رہیں کہ اسلامی انقلاب اور اسلامی نظام کو ان بالکل عامیانہ حربوں سے گھٹنے ٹیکنے پرمجبور کر دیں گے۔ اسلامی نظام ایک زندہ نظام ہے۔ اس فکر میں نہ رہیں کہ سال انیس سو اناسی کے عظیم انقلاب کی غلط طریقے سے نقل اتار کر اسلامی نظام اور اسلامی انقلاب کی عظمت پر وار کر سکتے ہیں۔ یہ تجربہ دشمنوں کو بھی ہو گيا ہوگا۔ غلط فہمی میں نہ رہیں۔ اسلامی نظام ان افواہوں سے شکست کھانے والا نہیں ہے۔ اس انقلاب کی عظمت اور اس نظام کی عظمت اور اسلامی جمہوری نظام کی جڑوں کی گہرائی ان ایک دو مہینوں میں دشمنوں کے لئے اور بھی آشکارا ہو گئی ہوگی۔ یہ قوم زیور ایمان سے آراستہ قوم ہے، یہ آگاہ قوم ہے، یہ با استعداد قوم ہے۔ مسجد ضرار سے اس قوم کو شکست نہیں دی جا سکتی۔ ہماری تاریخ میں اس کی کئی مثالیں ہیں۔ والذین اتخذوا مسجدا ضرارا و کفرا و تفریقا بین المومنین و ارصادا لمن حارب اللہ و رسولھ(2) انقلاب کے عظیم الشان بانی ہمارے عظیم امام (خمینی رہ) کی نقل اتار کر جو دل و جان اور اپنے پورے وجود سے قرآن میں غرق تھے، عوام کو فریب نہیں دیا جا سکتا۔ عوام کے دل نور ایمان سے روشن ہیں، یہ عوام با خبر ہیں، ہمارے نوجوان آگاہ ہیں، یہ ہمارے دشمن کے لئے ایک تجربہ ہے۔
انتخابات میں کچھ امتحان بھی پیش آئے۔ ایک امتحان عوام کا امتحان تھا۔ میری نظر میں قوم اس امتحان میں کامیاب ہوئی، سروخرو ہوکر باہر نکلی۔ عوام کی شاندار شرکت ایک عظیم امتحان تھا جس نے انہیں سرفراز کر دیا۔ بیشتر عوام اور سیاسی حلقوں نے اپنے فریضے پر عمل کیا۔ البتہ بعض شخصیات ناکام ہو گئیں۔ انتخابات میں کچھ لوگ مسترد کر دئے گئے۔ ہمارے بعض نوجوان جو صداقت کے ساتھ اپنے فریضے کے میدان میں اترے تھے، اپنی تمام تر ہوشیاری کے باوجود بعض مواقع پر غلطی کر بیٹھے۔ ملک کے بہت سے نوجوانوں نے اسی ایمان و صداقت کے ساتھ صحیح سمت میں حرکت کی، کسی پر انہیں اعتماد ہوا اور انہوں نے اسے ووٹ دیا۔ اب وہ شخص اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوا یا نہیں ہوا یہ الگ بات ہے۔ معیار یہ ہے کہ انسان کسی پر اعتماد کرے اور پھر پوری آگاہی اور احساس ذمہ داری و فرض شناسی کے ساتھ سیاسی عمل میں شامل ہو اور قانون کی بالادستی کو تسلیم کرے۔ ہمارے عوام کی اکثریت ہمارے نوجوانوں، علمی شخصیات اور عام لوگوں کی اکثریت اسی زمرے میں آتی ہے اور یہ لوگ کامیاب ہوئے ہیں۔ کچھ لوگ فریب کھا گئے۔
ملک کے حکام کا بھی امتحان ہوا۔ وہ اس نعمت کی قدر کریں۔ ہمارے منتخب صدر محترم جو واضح اکثریت سے، بے مثال ٹرن آؤٹ میں عوام کی جانب سے چنے گئے ہیں، وہ اس نعمت کی قدر کریں۔ آئندہ حکومت میں ان کے ساتھی بھی اس کی قدر کریں۔ اس اسلام، اس ایمان اور اس شمع فروزاں کی قدر کریں جس نے عوام کے دلوں کو منور کر رکھا ہے اور انہیں میدان عمل میں پہنچایا ہے۔ اس انقلاب کی عظمت کی قدردانی کا تقاضا یہ ہے کہ ملک کے حکام عوام کی خدمت اور انقلاب کے اہداف کی سمت پیش قدمی کے لئے اپنی پوری صلاحیت اور توانائی کو بروئے کار لائیں۔
صدر محترم نے (اپنی تقریر میں) جو ترجیحات بیان کیں، بہت اچھی ہیں۔ پوری منصوبہ بندی کے ساتھ ان پرعمل ہونا چاہئے۔ میں ملک کے حکام اور آئندہ حکومت سے سفارش کروں گا کہ اپنے کاموں میں منصوبہ بندی کو خاص اہمیت دیں۔ منصوبہ بندی سے عوام کو یہ مدد ملے گی کہ وہ اس چیز پر اعتماد کریں گے جو ان کے سامنے ہے۔ اس سے وہ ملک کی پیشرفت کے سلسلے میں صحیح فیصلہ کر سکتے ہیں۔ منصوبے کے مطابق عمل، قانون پر عمل اور تینوں شعبوں (عدلیہ، مجریہ، مقننہ) کے مابین تعاون بنیادی فرائض ہیں اور ان پر عمل آوری اس شکر کا تقاضا ہے جو ہم سب کو ادا کرنا ہے۔ ہمیں اللہ تعالی کا شکر گزار ہونا چاہئے۔

اللہ تعالی یہ مواقع عنایت فرماتا ہے، ہمیں یہ نعمتیں عطا کرتا ہے۔ اس کا شکر صرف زبان سے ادا نہیں ہوتا۔ عہدہ داروں کا عملی شکر یہ ہے کہ اپنے دوش پر عائد فرائض اور ذمہ داریوں کو پورا کریں۔ ان ذمہ داریوں کی جو لازمی شرطیں ہیں جیسے عدلیہ، مقننہ اور مجریہ میں ہم آہنگی، پارلیمنٹ حکومت کی مدد کرے، حکومت پارلیمنٹ کے ساتھ تعاون کرے، عدلیہ اپنی جگہ پر حکومت اور پارلیمنٹ کی مدد کرے۔ تینوں محکمے ایک دوسرے کے شانہ بشانہ رہیں۔ انتخابات میں رائے دہندگان کی اتنی بڑی تعداد نے شرکت کی، حکومت کا ان سب سے تعلق اور رشتہ ہے۔ صدر ان سب سے متعلق ہے۔ اس چیز پر منصوبوں اور عملی اقدامات میں توجہ دینی چاہئے۔
البتہ صدر محترم کے چاہنے والوں کے ساتھ ساتھ، کہ ملک کے اندر جن کی تعداد حتی ملک کے باہر بہت زیادہ ہے، دوسرے دو دھڑے بھی ہیں جن پر توجہ رکھنے کی ضرورت ہے، یعنی ان کی موجودگی کا احساس کرنا چاہئے۔ ایک دھڑا خشمگیں اور زخم خوردہ مخالفین کا ہے۔ یقینی طور پر یہ لوگ اس چار سالہ دور میں حکومت کی مخالفت کرتے رہیں گے۔ مخالفت کی ہے اور آگے بھی کریں گے۔ دوسرا دھڑا ان لوگوں کا ہے جو نظام کا حصہ ہیں، انہیں صدر اور نظام سے کوئی دشمنی اور شکایت نہیں ہے، ہاں یہ ممکن ہے کہ وہ ناقدین میں ہوں۔ ان ناقدین پر توجہ دینا چاہئے، ان کے نظریات سننا چاہئے اور جو باتیں قابل قبول ہیں انہیں قبول کرنا چاہئے۔ مجھے امید ہے کہ اسی طرح عمل کیا جائے گا، انشاء اللہ۔
عوام آپس میں ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ جو کام انجام پانا چاہئے ان میں یہ بھی ہے کہ حالیہ پر تشدد واقعات میں جن افراد کو نقصان پہنچا ہے، مالی نقصان، جانی نقصان یا خدانخواستہ ناموس کا نقصان، ملک کے عہدہ داروں کو چاہئے کہ فورا ان کی مدد کے لئے بڑھیں۔ متاثرین کی مدد کی جانی چاہئے۔ اور جنہوں نے یہ نقصان پہنچایا ہے ان کی شناخت ہونی چاہئے اور پھر ان سے باز پرس کی جانی چاہئے، خواہ وہ کوئی بھی ہو۔ ہمارا ملک بے پناہ وسائل سے مالامال ہے اور ضرورتیں بھی بہت زیادہ ہیں، ہمارے سامنے بلند اہداف بھی ہیں۔ ہمارے پاس وسائل بہت ہیں، قدرتی ذخائر ہیں، معدنی ذخائر ہیں، افرادی قوت ہے جو سب سے زیادہ اہم ہے۔ ہمارے ملک میں افرادی قوت دنیا کے اوسط درجے سے زیادہ ہے۔ یہ بہت بڑا سرمایہ ہے۔ ہماری احتیاج بھی بہت زیادہ ہے، ہم طویل عرصے سے جاری پسماندگی کا شکار ہیں، ہر شعبے میں اس پسماندگی کو ختم کیا جانا چاہئے، سائنسی شعبے میں بھی، ٹکنالوجی کے شعبے میں بھی، سماجی شعبے میں بھی اور ثقافتی شعبے میں بھی۔ اس کے لئے بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے، محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ بحمد اللہ حکومت اور صدر مملکت انتہائی محنتی ہیں، یہ چیز عوام کو معلوم ہے، انہوں نے دیکھا ہے، محسوس کیا ہے اور سمجھ لیا ہے۔ واضح اکثریت ملنے کی ایک وجہ نویں حکومت اور صدر مملکت کی سخت کوشی اور محنت ہے۔ یہ چیز آگے بھی جاری رہنا چاہئے۔ دستیاب وسائل سے ہر خلا کو پر کر دینے کی ضرورت ہے۔ بڑے کام انجام دینا چاہئے، پائیدار کام انجام دینا چاہئے اور سب کو ایک دوسرے کی مدد کرنا چاہئے۔ اگر ہم مطلوبہ اہداف حاصل کرنا چاہتے ہیں تو سب کو تعاون کرنا ہوگا۔ نظریات کے اختلاف کو درکنار کر دینا چاہئے۔ جب ایک حکومت منتخب ہوکر میدان میں آ گئی تو پھر سب کو اس کی مدد کرنا چاہئے خواہ سیاسی نظرئے کے لحاظ سے آپ اس سے متفق نہ ہوں۔ ممکن ہے آپ اس پر تنقید بھی کریں لیکن آپ کو مدد کرنا چاہئے۔ مجریہ پر ملک کے اجرائی محکمے کے دوش پر بڑی سنگین ذمہ داریاں ہیں۔ اس کی مدد کرنا چاہئے، سب مدد کریں تاکہ وہ اس بوجھ کو منزل تک لے جا سکے۔ انشاء اللہ وہ اس میں کامیاب ہوگی۔
امام زمانہ علیہ السلام کی دعائیں ملک کے حکام اور عوام کے شامل حال ہوں کہ جن کی ولادت با سعادت کے موقع پر اس تقریب( صدارتی حکم کی توثیق) کا انعقاد ہوا ہے۔ انشاء اللہ امام (خمینی رہ) اور عزیز شہدا کی ارواح طیبہ عالم ملکوت میں ملت ایران کے لئے دعا کریں گی۔ میری دعا ہے کہ یہ ارواح طیبہ ہم سب سے راضی و خوشنود رہیں۔

والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته‏

1) نهج‏البلاغه، نامه‏ى 62
2) توبه: 107