بسم‌اللَّہ الرّحمن‌الرّحيم

میں ملک کے زرعی امور سے منسلک تمام افراد کا، چاہے وہ عہدیدار ہوں یا کسان ہوں، خیر مقدم کرتا ہوں اور اس مبارک و مسعود موقع پر آپ سب کی خدمت میں ہدیۂ تبریک و تہنیت پیش کرتا ہوں۔ بم کا زلزلہ خاص طور سے ہماری زراعت کے شعبے میں ایک بہت ہی افسوسناک اور درد انگيز حادثہ تھا؛ کیونکہ اس حادثے میں جاں بحق ہونے والے بہت سے مومن بھائی اور بہن، وہ لوگ تھے جو زراعت، باغبانی اور اسی قسم کے پیشوں سے منسلک تھے۔ ہمیں امید ہے کہ یہ حادثات اور مصائب ہمیں آگے بڑھنے کی ترغیب دلائیں گے؛ ہمیں ان غفلتوں سے باہر نکالیں گے جو ہم اپنی زندگی اور لوگوں کے امور چلانے کے سلسلے میں برت رہے تھے نیز رحمت الہی کے نزول کی راہ ہموار کریں گے۔
زراعت کا شعبہ ہمارے ملک میں بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے کیونکہ کسی بڑے، زیادہ آبادی والے اور بلند اہداف کے حامل ملک کے لیے غذائی اشیاء کی مسلسل فراہمی کی ضمانت، بہت زیادہ اہم ہے۔ لہذا ہمارا زراعت اور مویشی پالنے کا شعبہ ایک خاص اور غیر معمولی شعبہ ہے اور سبھی کو اس کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ اسلام میں بھی پوري آگاہی اور توجہ کے ساتھ زراعت کرنے پر زور دیا گيا ہے۔ کسانوں کے بارے میں بہت سی اعلی' مندرجات اور مضمون والی حدیثیں نقل ہوئی ہیں۔ (( الزارعون کنوز اللہ فی ارضہ )) کسان اللہ کی زمین پر اس کے خزانے ہیں۔ یعنی زراعت کرنے والے ایسے لوگ ہیں جو زمین کے نیچے سے اللہ کے خزانوں کو باہر نکالتے ہیں۔ زمین اور خاک میں خدا کا سب سے اہم خزانہ ان مواد سے عبارت ہے جو انسان اور حيوانوں کی زندگی جاری رہنے کا سبب ہیں۔ یہ سونے اور تیل سے بھی زیادہ اہم ہیں۔ سونا اور تیل، زندگی کے لیے ضروری اشیاء کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہے تاہم غذائی اشیاء، زندگی کی اہم ترین ضرورت ہے۔ یہ میں اس لیے عرض کر رہا ہوں کہ ملک کے تمام حکام اور خصوصا زراعتی جہاد کی وزارت کے حکام اس بات پر توجہ دیں کہ، جیسا کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے آغاز سے ہی بارہا کہا جا چکا ہے؛ زراعت، ہمارے ملک میں ترقی و پیشرفت کے سب سے بنیادی نکات میں سے ایک ہے؛ زراعت کا شعبہ، کوئي ذیلی شعبہ نہیں ہے۔ صنعت پر توجہ کہ جو ایک ضروری امر ہے، اس بات کی موجب نہیں بننی چاہیے کہ زراعت کی جانب سے توجہ ہٹ جائے۔ زراعت، بنیاد اور اساس ہے۔ اس کام کی کچھ تمہیدیں ہیں؛ ان تمہیدوں پر عمل کرنا چاہیے۔ ذمہ دار حکام نے اس سلسلے میں اچھی کوششیں کی ہیں۔
اسلامی جمہوری نظام میں اور اسلامی انقلاب کی برکت سے تمام کوششوں کی رفتار اور ان کی افادیت میں کئي گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ اسلامی انقلاب نے جو چیز عوام کو عطا کی ہے وہ جہاد کی ثقافت ہے۔ جہاد کی ثقافت تمام شعبوں اور میدانوں میں کام آتی ہے اور زراعت، مویشی پالنے اور اسی طرح کے دوسرے بنیادی شعبوں میں اسلامی انقلاب کے آغاز سے ہی جہاد کی روح اور ثقافت، میدان میں آ گئي تھی۔ بعض اصحاب نظر نے دنیا کے انقلابوں کے بارے میں اس طرح سے اظہار خیال کیا ہے کہ کامیابی کے بعد تمام انقلابوں کا جوش، جذبہ، روانی، حرکت اور پیشرفت ختم ہو جاتی ہے اور وہ جمود کا شکار اداروں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ ممکن ہے کہ بعض انقلابوں کے بارے میں ایسا ہی ہو، ہم ان کے بارے میں کوئي فیصلہ نہیں کریں گے، تاہم ہمارے انقلاب کے سلسلے میں ایک ایسے امر کا مشاہدہ کیا گیا ہے کہ جو اس فرضیے کے صحیح ہونے پر مکمل طور پر خط بطلان کھینچ دیتا ہے اور یہ بات ثابت کر دیتا ہے کہ یہ فرضیہ یہاں پر غلط ثابت ہو گيا ہے۔ کیونکہ خود اسلامی انقلاب نے ایسے اداروں کو جنم دیا ہے جن کی ماہیت میں ہی تحرک اور انقلابی و جہادی جوش و خروش شامل تھا۔ ان میں سے ایک ادارہ تعمیراتی جہاد کا تھا، ایک دوسرا سپاہ کا تھا، ایک دیگر بسیج کا تھا۔ یہ ایسے ادارے ہیں جن کی ماہیت میں جمود، تحجر، سکوت اور دفتری شکل کا وجود نہیں تھا۔ اگرچہ ان میں نظم و ضبط، انتظامی امور اور اسی قبیل کے دوسرے امور تھے تاہم جو تحرک، پیشرفت اور تیزی سے آگے بڑھنے کی صفت خود اسلامی انقلاب میں تھی، وہ ان میں بھی تھی اور ہم نے اس کا اثر باہر دیکھا بھی۔ آپ نے آٹھ سالہ مقدس دفاع میں لوگوں کے اتحاد و یکجہتی نیز تحرک کو دیکھا۔ کام، تعمیر اور پیشرفت کے میدان میں جہاد کے جذبے کو دیکھا، البتہ یہ جذبہ صرف تعمیری جہاد سے مختص نہیں رہا؛ بلکہ بہت سے دوسرے اداروں میں بھی یہ جذبہ گھر کر گيا۔ آج بھی آپ بم کی امداد کرنے میں اسی جذبے کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ یہ جذبہ دنیا میں ہر جگہ نہیں ہے، مصیبت زدہ لوگوں کے ساتھ مہربانی، تعاون اور ہمدردی، جو تمام انسانوں سے متعلق ہے، ایک بات ہے؛ لیکن رسمی اقدامات کی کسی ترتیب کے بغیر صرف خدمت کرنے کے لیے جوش، تحرک، نشاط اور میدان میں آ جانا، ایک دوسری بات ہے۔ جو بات ایران میں دیکھی گئي وہ یہ تھی کہ: سب لوگ میدان میں آ گئے اور متحرک و سرگرم ہو گئے۔ حقیر نے اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے زلزلے اور سیلاب جیسے حادثات کو قریب سے دیکھا تھا۔ میں نے خود جا کر امداد رسانی اور خدمت کا کام کیا تھا۔ اجتماعی طور پر حرکت میں آ جانے کا یہ جذبہ، یہ ہمدردی، یہ کام اور جدت طرازی کے میدان میں آنا اور وسیع سطح پر یہ امدادی کام، اس قوم سے مخصوص ہیں جس کا دل جہادی کاموں سے لبریز ہے اور جہادی جوش و جذبہ اس کے دل میں موجود ہے۔ یہ وہی مقدس دفاع کے دوران پایا جانے والا اجتماعی لام بندی کا جذبہ ہے، یہ تعمیری جہاد کے بے محاذ، محاذ سازوں کا جذبہ ہے جو غسل شہادت کرتے تھے، بلڈوزروں پر بیٹھتے تھے تاکہ محاذ تیار کریں۔ ہمیں اس جذبے کا تحفظ کرنا چاہیے۔ یہ جذبہ، کسی بھی طرح سے علمی و سائنسی کاموں اور ادارہ جاتی نظم و نسق کے منافی نہیں ہے؛ بلکہ در حقیقت یہی جہاد کا جذبہ علمی و سائنسی کاموں کو بھی بہتر بناتا ہے۔
میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ ہم نے مختلف شعبوں میں بہت زیادہ علمی و تحقیقاتی پیشرفت کی ہے اور ان شعبوں کے اصلی ستون یہی انقلابی نوجوان اور مومن افراد ہیں۔ یہی لوگ تھے جو میدان میں اترے اور اسی جذبے کی بنیاد پر انہوں نے بڑے بڑے سائنسی اور تحقیقاتی کاموں کو آگے بڑھایا۔ جی ہاں! معنویت، انسان کی دنیا کو بھی زیادہ آباد کرتی ہے لیکن اچھی اور صحیح و سالم دنیا کو۔ جہاں جہاد کی ثقافت نہیں ہوتی اور مادی ثقافت حکمفرما ہوتی ہے، وہاں ہر انسان اکیلے ہی دنیا کی تمام تبدیلیوں کا محور ہوتا ہے؛ اپنے لیے فائدہ چاہتا ہے اور نقصان کو دور کرتا ہے۔ یہ اس کا بنیادی اصول ہے؛ اسی وجہ سے ٹکراؤ، دشمنی، عدم صداقت اور بے ضابطگی سامنے آتی ہے۔ جہاں تحرک اور جہاد کی روح ہوتی ہے وہاں انسان ایمان، ہدف اور دوسروں کی خدمت میں مدغم ہو جاتا ہے اور اپنے آپ کو فراموش کر دیتا ہے۔ معاشرے میں اس جذبے کو مضبوط بنانا چاہیے۔ ہمارا زراعت اور مویشی پالنے کا شعبہ بھی اسی جذبے کے تحت اپنی حقیقی رونق کو حاصل کر لے گا۔
جیسا کہ آپ جانتے ہیں، ہمارے ملک میں پانی، زمین کے جتنا نہیں ہے۔ مشہور ہے کہ ایران، کم پانی والا ملک ہے؛ تاہم اگر ہم ع‍قل و تدبیر اور انتھک کوششوں کے جذبے سے آگے بڑھیں تو اسی پانی سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ برباد ہونے والے پانی کو کنٹرول کیا جائے۔ پانی کا صحیح استعمال کیا جائے۔ پانی کے استعمال میں فضول خرچی نہ کی جائے۔ علمی اور مدبرانہ روشوں کے ذریعے ہر چیز سے صحیح اور بھرپور استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ اسلامی انقلاب سے قبل بہت سے لوگوں کی نظریں ہمارے زرخیز جنگلوں پر تھیں۔ جو لوگ، اس ملک کی ہر چیز کی نسبت غیر تھے، انہوں نے قزوین اور مغان کے جنگلوں کے سلسلے میں منصوبے بنا رکھے تھے؛ ہم کیوں نہیں منصوبے بنا کر ان زرخیز زمینوں اور حقیقت میں مادی قیمتوں سے کہیں با ارزش اس مٹی سے استفادہ کر سکتے؟ یہ کام کیے جا سکتے ہیں اور ہمیں کرنا بھی چاہیے؛ جہاد کے جذبے سے یہ کام ممکن ہے۔
بعض لوگ غلطی کرتے ہیں اور اہداف کے حصول کے نظریے کے مقابلے میں حقیقت پسندی کی بات کرنے کا تاثر دیتے ہیں۔ ان کی نظر میں حقیقت پسندی، اہداف کے حصول کے نظریے کی ضد ہے۔ یہ بہت بڑی غلطی ہے کیونکہ اہداف کے حصول کا نظریہ خود ہی معاشرے میں حقائق کو وجود عطا کرتا ہے۔ اعلی اہداف کا حامل ایک سماج، حقائق کو اپنے اہداف کے مطابق ڈھال کر انہیں وجود میں لا سکتا ہے۔ دنیا اسی طرح سے آگے بڑھی ہے۔ حقیقت پسندی کے بہانے، اپنے اعلی اہداف کو الگ رکھ دیا جائے؟! یہ غفلت کی انتہا ہے۔ اعلی اہداف کے حصول کا نظریہ، شیریں ہے جو اچھے حقائق کو وجود میں لاتا ہے۔ جب ایک انسان، ایک سماج اور ایک قوم اپنے حکام اور عہدیداروں کے ساتھ اپنے اہداف پر ڈٹ جائے، ان اہداف سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہ ہو اور ان اہداف کے لیے کام کرتی رہے تو کیا ہوگا؟ حقائق، اہداف کی سمت مڑنے لگیں گے۔ یہ خود زندگی کی سب سے بڑی حقیقت اور قانون ہے؛ کیوں بعض لوگ اسے بھول جاتے ہیں؟ جہاد سازندگی یا تعمیری جہاد کی وزارت کے نام کے شروع میں لفظ جہاد کی موجودگی کا ایک مطلب ہے؛ یعنی کام، جہاد کے جذبے سے ہونا چاہیے۔ یہ وزارت، آج اسی جذبے کے ساتھ وارد عمل ہو سکتی ہے اور اسے ایسا ہی کرنا چاہیے۔ یہ کام بھی جن کا ذکر کیا گيا، اچھے ہیں؛ تاہم بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے؛ ابھی بہت سی کمیاں اور نقائص موجود ہیں۔ ان محترم دہقان نے یہاں پر جو باتیں بیان کی ہیں ان میں سے ان کے چودہ پندرہ مطالبے انتہائي ضروری ہیں اور ان کے سلسلے میں کام ہونا چاہیے اور زرعی جہاد کی وزارت، حکومت، عہدیداروں، پارلمینٹ وغیرہ کو انہی باتوں کو عملی جامہ پہنانا چاہیے۔
ان میں سے ایک بنیادی کام یہ ہے کہ زراعت اور زرعی پیداوار کے میدان میں، پالیسیاں پائیدار، ٹھوس اور آزمودہ ہوں اور زرعی پیداوار کرنے والوں کے مسائل پر توجہ دی جائے۔ ایسا نہ ہو کہ کسی سال ہم پیاز کی کمی کی وجہ سے پیاز درآمد کریں لیکن اگلے سال جب ہمارے کسان پیاز کی پیداوار کریں تو وہ گوداموں میں سڑ جائے۔ ہمارا ملک زراعت کے لیے بہت مناسب ہے۔ آپ نے دیکھا کہ گزشتہ سال بحمداللہ اچھی بارش ہوئي اور ملک گیہوں کی پیداوار میں تقریبا خود کفیل ہو گيا۔ یہ وہی بات تھی جس پر میں زور دیتا تھا اور بحمد اللہ متعلقہ حکام نے گیہوں کی پیداوار میں خود کفیل ہونے کے معاملے میں بھرپور کوششیں کیں۔ البتہ گیہوں، ہماری ضرورت کی ایک چیز ہے۔ دودھ سے تیار ہونے والی اشیاء، تیل اور گوشت جیسی دوسری چیزوں کے میدان میں بھی ملک کو پوری طرح سے خود کفیل و مستغنی ہونا چاہیے بلکہ اسے ان چیزوں کو برآمد کرنا چاہیے۔ ہمیں اس مسئلے پر سنجیدگی سے کام کرنا چاہیے اور ہماری نظر میں یہ بات پوری طرح سے ممکن بھی ہے۔ ہمارے ملک میں بڑے بڑے اور اچھے میدان اور جنگلات ہیں۔ اسی بم کے علاقے میں بہت ہی اچھا اور وسیع دشت موجود ہے۔ خوزستان میں بہت بڑے بڑے اور زبردست میدان موجود ہیں جنہیں زیر استعمال لانا چاہیے۔ زرعی تیاری کے لحاظ سے ہمارا ملک ایک آمادہ ملک ہے؛ بنابریں ہمیں کمر ہمت کس لینی چاہیے۔
میں آپ معزز دہقانوں سے عرض کرتا ہوں کہ اس کام کو ایک تعمیری، مؤثر اور مقدس کام کی نظر سے دیکھیے۔ انشاء اللہ حکام کی پالیسیاں بھی آپ کی مدد کریں گی اور جیسا کہ انہوں نے اشارہ کیا، زرعی پیداواروں کو اقتصادی، سودمند اور سرمایہ کاری کے لیے ترغیب کا باعث ہونا چاہیے اور اس عظیم تحریک کےسائے میں لوگوں کو سکون کا احساس ہونا چاہیے اور انہیں یہ محسوس ہونا چاہیے کہ غذائي اجناس کے لحاظ سے وہ پوری طرح محفوظ ہیں اور ملک اپنے کام جاری رکھ سکتا ہے۔
زرعی جہاد کی وزارت کے محترم عہدیداروں کو بھی اپنی خدمت کو مقدس سمجھنا چاہیے۔ ان کا کام انتہائی اہم اور انسانیت کے لیے ضروری ترین کاموں میں سے ایک ہے۔ انشاء اللہ خداوند متعال بھی لطف و کرم کرے گا۔ جہاں کہیں بھی آپ کوشش اور جد و جہد کریں گے، یقین رکھیے کہ خدائي امداد فورا آپ تک پہنچے گی۔ ہاں! اگر ہم کاہلی سے کام لیں گے، ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے، غلط اندازے لگائيں گے اور فریب کھا جائيں گے تو خدائي امداد ہم سے سلب ہو جائے گی۔ پھر ہمیں خدا سے شکایت نہیں کرنی چاہیے کہ کیوں اس نے ہماری مدد نہیں کی؛ ہمیں اپنے آپ سے شکوہ کرنا چاہیے اور اپنے آپ کو ملامت کرنی چاہیے۔ جن لوگوں کی کوششیں مؤثر ہیں، اگر وہ میدان عمل میں اتر جائيں اور جد و جہد کریں، اپنے عزم، ارادے، افکار اور جسم و جان سے کوشش کریں تو یقینا انہیں خدائي امداد حاصل ہوگی۔
ہمیں امید ہے کہ خداوند متعال اپنے فضل و کرم کو ہماری قوم پر نازل کرے گا اور حضرت امام زمانہ ارواحنا فداہ کی دعائیں آپ سب کے شامل حال ہوں گی۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ