اس موقع پر حاضرین سے قائد انقلاب اسلامی نے بھی خطاب کیا اور اہم ملکی و عالمی مسائل میں پارلیمنٹ کی جانب سے اختیار کئے جانے والے موقف کی تعریف کی۔ قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے پارلیمنٹ اور حکومت کے درمیان دوستانہ اور پر خلوص تعاون کی ضرورت پر زور دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے حکومت کی جانب سے پیش کردہ بل پر پارلیمنٹ میں بحث کے دوران حکومت کے وسائل اور زمینی حقائق کو مد نظر رکھنے کی ضرورت پر زور دیا ۔ آپ نے حکومت کے لئے پارلیمنٹ مین منظور شدہ قانون پر عمل آوری کو لازمی قرار دینے کے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ نہ تو حکومت کے اندر پارلیمنٹ کی نافرمانی کا جذبہ ہونا چاہئے اور نہ ہی پارلیمنٹ میں حکومت کو تعطل میں ڈالنے اور پریشان کرنے کا خیال پیدا ہونا چاہئے۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسی تناظر میں ایوان میں زیر بحث پانچویں ترقیاتی پروگرام کے تعلق سے بھی اہم ہدایات دیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے پارلیمنٹ اور ارکان پارلیمان کی کارکردگي کی نگرانی کے لئے ایک سسٹم وضع کرنے کی دعوت دی۔
تفصیلی خطاب مندرجہ ذیل ہے؛
بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌

خداوند عالم کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اس نے یہ موقع عنایت فرمایا کہ دشوار امتحان، زندہ رہنے اور زندگی گزارنے کے امتحان کے میدان میں مزید ایک سال گزاروں اور اللہ تعالی کے فضل و کرم، توفیق و قبولیت کی امید کے ساتھ پارلیمنٹ کے رکن بھائیوں اور بہنوں سے (پارلیمنٹ کے) انتخابات اور تشکیل کی سالگرہ کی مناسبت سے ملاقات کروں۔
سب سے پہلے تو ہم شکریہ ادا کرنا چاہیں گے پارلیمنٹ کے محترم ارکان اور سربراہ کا جنہوں نے آج بھی اپنے اطمینان بخش خطاب کے ذریعے مفید باتیں بیان کیں۔ آپ (پارلیمنٹ کے) محترم ارکان نے قانون سازی، نگرانی اور دیگر قانونی فرائض کی انجام دہی کے علاوہ، جس کی رپورٹ پارلیمنٹ کے محترم اسپیکر نے پیش کی اور کل کے اجلاس میں بھی محترم نے زیادہ تفصیلات بیان کی تھیں، اہم داخلی اور بیرونی سیاسی مسائل کے تعلق سے بھی اہم کردار ادا کیا جس پر ہم دل کی گہرائیوں سے آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ ایسے موقع پر بھی جب نظام کو عالمی سطح پر خصومت اور کینہ توزی کے وسیع محاذ کا سامنا ہوتا ہے اور یہ محاذ مختلف مواقع پر اپنے وجود اور موذیانہ اقدامات کو سامنے لاتا ہے تو دیکھنے میں آتا ہے کہ پارلیمنٹ ایک فعال اور بیدار عضو کی مانند اپنے موقف کا اعلان کرتی ہے۔ فلسطین کے مسئلے میں، ایٹمی معاملے میں، گوناں گوں داخلی مسائل میں جیسا کہ بعض فتنہ انگیزیوں اور بد اخلاقیوں کی جانب اشارہ کیا گيا، پارلیمنٹ نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ اس کی قدردانی اور اظہار تشکر لازمی ہے۔
پارلیمنٹ کے ارکان کو دیکھئے تو الگ الگ سیاسی رجحانات اور موقف رکھنے کے باوجود جو ایک فطری امر ہے، پارلیمنٹ ایک شاداب با ایمان اور احساس ذمہ داری سے سرشار مجموعہ معلوم ہوتے ہیں اور یہی مناسب بھی ہے۔
آج آپ کا ملک بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ آپ کی تاریخ ہماری اور آپ کی رفتار و گفتار پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ ہم اس وقت تاریخی لحاظ سے بے حد نازک دور میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ہمارا کردار، ہمارا فیصلہ، ہمارا عمل، ہمارا انکار آئندہ نسلوں اور ملک کی تقدیر اور مستقبل پر اثرات مرتب کرنے والا ہے۔ ویسے انقلاب کا پورا دور ہی اسی طرح کا رہا ہے۔ یہ تیس سال ہمارے مستقبل کے سلسلے میں بہت موثر واقع ہوں گے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ آج کا وقت یہ چند سالوں کے حالات الگ ہی خصوصیت کے حامل ہیں۔ دنیا کے حالات بدل رہے ہیں۔ دنیا کے سیاسی حالات، عالمی سطح پر طاقت کا توازن اور سیاسی توازن دگرگونی کے دور سے گزر رہا ہے اور ایک نئی صورت حال کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ آپ حضرات تو سیاست کے میدان سے تعلق رکھتے ہیں، آپ کو بخوبی علم ہے کہ ان حالات میں میدان عمل میں موجود تمام عناصر اور عوامل اپنے اہداف اور مقاصد کے لئے سرگرمیاں انجام دے سکتے ہیں اور خاموش اور لا تعلق ہوکر بیٹھے بھی رہ سکتے ہیں۔ جس وقت تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں، جب عالمی حالات بدل رہے ہوتے ہیں تو ایسے میں ناکارہ عناصر، کام سے بھاگنے والے اور غفلت کا شکار عناصر یقینی طور پر مستقبل کی تبدیلیوں اور دنیا میں سیاسی سطح پر سامنے آنے والی نئی صورت حال میں کمزور کردار اور رول کے مالک ہوں گے۔ جو عناصر فعال ہیں، ہوشیار ہیں، بیدار ہیں، حلات کی نباضی کر رہے ہیں، عمل اور رد عمل کو دیکھ رہے ہیں، اندازے اور تخمینے لگا رہے ہیں وہ نئے حالات میں اپنی جگہ اور پوزیشن زیادہ مضبوط اور خود کو اپنے اہداف و مقاصد سے زیادہ قریب کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ آج کے حالات کچھ اسی طرح کے ہیں۔
خود ہمارے اسی علاقے مشرق وسطی کو دیکھئے! آج مشرق وسطی میں مسئلہ فلسطین کے تعلق سے جو واقعات رونما ہو رہے ہیں وہ پہلے کبھی نہیں ہوئے، ماضی میں اس کی کوئی مثال نہیں ہے، یہ اس بات کی علامت ہے کہ کوئي تبدیلی رونما ہو رہی ہے، کچھ بدل رہا ہے۔ عالمی سطح پر بھی دیکھئے تو امریکا کی پوزیشن بعض یورپی ممالک کی پوزیشن، دنیا میں ان کا اثر و نفوذ اور ان کا کردار بہت بڑی دگرگونی سے دوچار ہے۔ ان تیس برسوں میں کبھی کبھار ہم نے اس طرح کی چیزیں دیکھیں ہیں جن میں سے ایک مثال اس وقت میرے ذہن میں ہے، لیکن آج انسان اس چیز کو واضح طور پر محسوس کر رہا ہے۔
اگر ہم ان حالات میں اپنا کردار ادا کریں تو وہ یقینا ملک اور نظام کے مستقبل اور ہماری آئندہ تاریخ کے لئے بیحد مفید ہوگا۔ کردار ادا کرنے کا دارومدار بھی اس پر ہے کہ داخلی سطح پر مکمل یکجہتی ہو، مضبوطی ہو، بھرپور جذبہ ہو، دوستانہ اور نزدیکی تعاون ہو۔ ملک کے مسائل، قانون سازی کے امور، حکومت اور پارلیمنٹ کے رابطے، مختلف داخلی اور بیرونی امور میں ہر موقف کو اس نقطہ نگاہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس زاوئے سے ان تمام مسائل کو دیکھنا چاہئے۔ ایسا ہو جائے تو بہت سے امور جو ہمیں پہلی نظر میں بیحد اہم نظر آ رہے ہوں گے، معمولی محسوس ہونے لگیں گے اور ان کی اتنی زیادہ اہمیت باقی نہیں رہے گی۔ بنابریں میرا ماننا ہے کہ موجودہ پارلیمنٹ، جس کا ترکیبی ڈھانچہ بہت اچھا، انقلابی، با ایمان، با صلاحیت، مسائل سے واقف ہے اور آپ کے درمیان اعلی تعلیم یافتہ افراد بہت ہیں اور ملک کے مسائل بھی بہت اہم اور نازک مسائل ہیں، اپنی دو سال کی باقی ماندہ مدت میں تمام مواقع کا بھرپور استعمال کرے تاکہ جو مناسب ہے، حق اور سزاوار ہے وہ اس پارلیمنٹ کے ہاتھوں رو بہ عمل آئے۔
خوش قسمتی سے ملک کے عوام نظام کے مخالفوں اور دشمنوں کی توقعات کے برخلاف واقعی بہت اچھی پوزیشن میں ہیں۔ عوام نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) سے گہری عقیدت رکھتے ہیں۔ یہی جو (امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی برسی کے پروگراموں میں عوامی شرکت کے ) اعداد و شمار ہر سال ہمیں دئے جاتے ہیں ان کے مطابق اس سال عوام کی شرکت گزشتہ سال اور اس سے بھی پہلے کے برسوں کے مقابلے میں زیادہ تھی۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ تہران اور مختلف صوبوں سے اتنی بڑی تعداد میں لوگ آکر دھوپ میں جمع ہو جائیں اور گھنٹوں سورج کی تپش برداشت کریں، (امام خمینی کے مزار پر) جس جگہ میں تھا وہاں تو پھر بھی ایک سايبان بھی تھا، جبکہ اس بڑے میدان میں، راستے پر، سڑکوں پر، بہشت زہرا (تہران کے قبرستان) میں عورتوں اور بچوں نے میں نے سنا سات گھنٹے، آٹھ گھنٹے دھوپ برداشت کی۔ واقعی عوام کا شکریہ ادا کرنا چاہئے۔ میں یہیں اپنے عزیز عوام اور (امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی برسی کے پروگاموں کے) تمام شرکاء کا اس وفاداری کے لئے تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔
یہ چیزیں بہت اہمیت کی حامل ہیں، امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی رحلت کو بیس سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد ہنوز عوام امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) سے اس قدر قلبی وابستگی رکھتے ہیں۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) انقلاب کا مظہر ہیں، دین کا مظہر ہیں۔ ان اہداف اور مقاصد کا مظہر ہیں جن کی جانب آپ نے عوام کو بلایا اور پہلی بار ہمیں ان اہداف سے روشناس کرایا اور ان کی جانب ہماری رہنمائی کی، وہ اعلی مدارج طے کرنے کے لئے قوم کو اپنی صلاحیتیں بروئے کار لانے کی دعوت دینے والے تھے۔ جب لوگ ان خصوصیات کے حامل انسان کا احترام کریں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان ہداف اور مقاصد کا احترام کر رہے ہیں۔ یہ اہداف و مقاصد در حقیقت ایسی چیزیں ہیں جو ایک قوم کی خوشبختی کو یقینی بناتی ہیں۔ جس قوم میں جوش و جذبہ ہو، جو زیور ایمان سے آراستہ ہو، جو قوم اسلام کو اپنے وجود کی گہرائیوں سے قبول کر چکی ہو، جس قوم کے اندر خود اعتمادی پیدا ہو گئي ہو، جس کا اپنے پروردگار پر عقیدہ ہو اسے کوئی بھی راہ کمال پر آگے بڑھنے سے نہیں روک سکتا۔ ان چیزوں کی بڑی ارزش اور اہمیت ہے۔ آپ ایسی (خصوصیات کی مالک) قوم کے نمائندے ہیں۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) سے روحانی، جذباتی، احساساتی اور منطقی رشتے کا یہ عالم ہے اور گزشتہ سال انتخابات میں چالیس ملین کی شرکت بھی اپنی جگہ ہے، یہ چیزیں بہت با معنی ہیں۔ ہم اور آپ اس قوم کے خدمت گزار ہیں۔ اگر کوئی لاپروا قوم ہو، محنت کرنے سے بھاگتی ہو تو اس کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں لیکن جب قوم پوری طرح سرگرم عمل ہے، دلچسپی کا مظاہرہ کر رہی ہے، پر جوش، جذباتی اور مدبر و شجاع ہے تو اس کے تقاضے کچھ اور ہوں گے۔
ہمارے اوپر بڑی ذمہ داری ہے۔ مجھ پر بھی، آپ پر بھی، حکومت پر بھی اور تمام حکام پر بھی اور ہم سب پر بھی۔ جس طرح میں نے اس دن (امام خمینی کی رحلت کی برسی پر) امام کے مزار پر بھی عرض کیا کہ روحانی پہلوؤں کو بھی ملحوظ رکھنا چاہئے۔ صرف یہی کافی نہیں ہے کہ انسان فکری اور عقلی لحاظ سے تیار ہو جائے کہ ٹھیک ہے، ہمیں کچھ کرنا چاہئے۔ اللہ تعالی ہمارا مواخذہ کرے گا۔ ہمیں جو وسائل اور جو نعمتیں اس نے عطا کی ہیں انہیں کے مطابق ہم سے مواخذہ کرے گا۔
اگر ہم بفضل الہی اس طرح کام کرنے میں کامیاب ہو جائیں کہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں سرخروئی مل جائے تو ( جلسے کے آغاز میں) قاری محترم نے خوش الحانی سے جس آيت کی تلاوت کی لا یحزنھم الفزع الاکبر و تتلقیھم الملائکۃ (1) وہ ہمارے بھی شامل حال ہوگی۔ فزع اکبر؛ جب اللہ تعالی کسی چیز کو بہت بڑی شئے قرار دے دے تو واقعی وہ اس کی نظر میں بہت بڑی اور بھیانک چیز ہے۔ جو لوگ کام کرتے ہیں، محنت کرتے ہیں، اپنے فرائض پر عمل کرتے ہیں، وہ ذہنی طور پر پر سکون رہیں گے۔ ان چیزوں پر ایمان رکھنا چاہئے۔
پارلیمنٹ کے بارے میں بہت سی باتیں بیان کی جا چکی ہیں، ایوان کے اندر بھی اور ایوان کے باہر بھی۔ انتباہات بھی دئے جا چکے ہیں، ہم بھی (کچھ باتیں) عرض کر چکے ہیں۔ میں کچھ باتیں جن میں ممکن ہے کہ بعض تکراری باتیں ہوں، یہاں عرض کروں گا۔
ملک کے مسائل کے تعلق سے، جن میں آپ کی ذمہ داریوں میں قانون اور قانون سازی کا حصہ آتا ہے، آپ کے زاویہ نگاہ میں دو خصوصیات، زمینی حقائق پر نظر اور اعلی اہداف پر توجہ کا ہونا ضروری ہے۔ آپ کی نظر اعلی اہداف پر مرکوز نظر ہونا چاہئے۔ اعلی اہداف سے پسپائي اختیار نہ کیجئے، پیچھے نہ ہٹئے۔ آپ کی نظر اعلی اہداف پر مرکوز نظر ہونی چائے لیکن زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے۔ ہمیں ایک حد کا تعین کرنا چاہئے۔ ہم اپنے لئے، حکومت کے لئے یا کچھ عہدہ داروں کے لئے اگر کوئی فریضہ معین کریں تو زمینی حقائق کو ضرور مد نظر رکھیں لیکن اس کے ساتھ ہی رخ اعلی اہداف کی جانب ہونا چاہئے تاکہ توانائیوں میں مسلسل اضافہ کیا جاتا رہے۔ اگر حقیقت پسندی کو اعلی مقاصد اور اعلی اہداف پر توجہ کی ضد کے مفہوم میں لیا جائے تو درست نہیں ہے۔ ہونا یہ چاہئے کہ ہم ان اہداف تک پہنچنے کے خواہشمند رہیں لیکن ساتھ ہی زمینی حقائق پر بھی نظر رکھیں تاکہ کسی غلطفہمی میں نہ پڑیں۔ کبھی ممکن ہے کہ انسان فیصلہ کرتے وقت اس چیز کے سلسلے میں شک و شبہے میں پڑ جاتا ہے جسے انجام دیا جانا ہے، یہ بھی ٹھیک نہیں ہے۔ اعلی مقاصد ہمارے پیش نظر رہیں اور زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم ایک ایک زینہ اوپر چڑھیں اور اعلی مقاصد کی طرف بڑھیں۔ یہ تو رہا ایک نکتہ۔ دوسرا نکتہ جس پر بہت بات ہو چکی ہے، ہم نے بھی کچھ باتیں عرض کی ہیں، آپ بھی بیان کرتے رہتے ہیں، حکومت بھی کہتی ہے، وہ ہے مجریہ اور مقننہ کے مابین تعاون کا۔ یہ عملی طور پر انجام پانا چاہئے۔ پارلیمنٹ یہ کہہ دے کہ ہماری طرف سے کام مکمل ہو چکا ہے اب حکومت کو آگے آنا چاہئے اور دوسری جانب حکومت کہے کہ ہم نے تمام ضروری اقدامات کر دئے اب پارلیمنٹ کی باری ہے، یہ ٹھیک نہیں ہے۔ خلوص کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے، مجریہ کو بھی اور مقننہ کو بھی۔ قانون میں سب کے لئے حدیں معین کر دی گئی ہیں البتہ ان میں بعض حدیں غیر واضح ہیں، بعض حد بندیاں روشن اور عیاں نہیں ہیں جو ہمارے قوانین کی خامیوں میں ہے۔ ہمیں ان حدود کو معین اور واضح کرنا چاہئے۔ آج ملک کو تعاون کی ضرورت ہے، یعنی نہ تو حکومت میں پارلیمنٹ کی نافرمانی کا جذبہ پیدا ہونا اور نہ پارلیمنٹ میں حکومت کو تعطل میں ڈالنے اور پریشان کرنے کا خیال پیدا ہونا چاہئے۔ دونوں خلوص کے ساتھ، ایک دوسرے کی پوزیشن کو مد نظر رکھتے ہوئے حقیقی معنی میں ایک دوسرے سے تعاون کریں، یہ بہت اہم فریضہ ہے۔
مثلا قانون کے سلسلے میں جو اس وقت موضوع بحث بھی بنا ہوا ہے، دونوں فریق ایک دوسرے سے کچھ باتیں کہہ رہے ہیں۔ ایک طرف تو یہ بات بجا ہے کہ حکومت کو قانون پر عمل کرنا چاہئے، یعنی جو چیز قانون کی شکل اختیار کر گئی ہے اس پر عملدرآمد کرنا حکومت کا فریضہ ہے، دوسری طرف قانون ساز کو بھی چاہئے کہ مجریہ کے سربراہ کے کردار کو مد نظر رکھے۔ اجرائی کام دشوار ہوتے ہیں۔ خود آپ حضرات میں بعض لوگ اجرائی ذمہ داریاں نبھا چکے ہیں، وزیر رہ چکے ہیں یا دوسرے اجرائی شعبے میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ اجراء اور اجرائي منصوبہ بندی کے مابین بڑا فرق ہے۔ منصوبے اور عملدرآمد کے درمیان بہت فاصلہ ہوتا ہے۔ بنابریں حقائق پر توجہ رکھنی چاہئے۔ حکومت، بیچ میدان میں موجود ہے جو امور کی انجام دہی سے عہدہ برآ ہونا چاہتی ہے، ہمیں چاہئے کہ حکومت کے کام کو آسان بنائیں، اس کی محنتوں کو ملحوظ رکھیں۔ یہ بات بالکل بجا ہے کہ حکومت کو قانون پر عمل کرنا چاہئے لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ پارلیمنٹ کو اس انداز سے عمل کرنا چاہئے کہ حکومت قانون کو عملی جامہ پہنا سکے۔ ورنہ دوسری صورت میں مثال کے طور پر ہم فرض کریں کہ حکومت کو ایک ذمہ داری سونپ دی گئی لیکن اس کے لئے بجٹ کو منظوری نہیں دی گئی تو یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اس سے تو مشکلات پیدا ہوں گی۔ یا فرض کیجئے کہ حکومت پارلیمنٹ میں کوئی بل لاتی ہے، ظاہر ہے کہ اس نے اپنے وسائل، اپنی توانائی، سازگار حالات اور بجٹ کو مد نظر رکھ کر اسے تیار کیا ہے، پارلیمنٹ اس بل میں ایسی تبدیلیاں کر دے کہ وہ بالکل الگ چیز بن جائے۔ حکومت عام طور پر ہم سے یہ شکایت کرتی ہے۔ مجھے خود بھی امور کی اطلاع ہے، میں حکومت میں بھی اور پارلیمنٹ میں بھی شامل رہ چکا ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ کیسے کام کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے، ٹھیک کیا جا سکتا ہے اور کیسے بالکل مخالف انداز میں قدم اٹھایا جا سکتا ہے۔ ان نکات پر توجہ دی جانی چاہئے۔
واقعی دوستانہ انداز میں کام کریں۔ یہ سیاسی رجحانات کے اختلاف سے بالاتر چیز ہے۔ ہمارا خطاب صرف ان سے نہیں ہے جو سیاسی لحاظ سے مجریہ کے ہم خیال ہیں۔ جی نہیں، وہ لوگ بھی جو سیاسی فکر کے لحاظ سے حکومت سے متفق نہیں ہیں، وہ لوگ بھی برادران ایمانی ہیں، مسلمان ہیں، انقلابی ہیں۔ یہ انقلاب کا مسئلہ ہے۔ یہ ملک کے مفادات کا مسئلہ ہے۔ سب کے اندر احساس ذمہ داری بیدار رہنا چاہئے۔ ایک طرف قانون سازی کا عمل اس طرح انجام دیا جائے اور دوسری طرف حکومت اپنے لئے قانون پر عمل آوری کو لازمی سمجھے۔ اس طرح حکومت کو قانون کے اجراء پر مامور کیا جا سکتا ہے۔ یہ تعاون دو طرفہ ہونا چاہئے۔
ایک اور بات بھی عرض کرنا ہے جسے پارلیمنٹ کے بہت سے تجربہ کار اور صاحب نظر افراد بھی مانتے ہیں۔ پارلیمنٹ کے اندر کمیشنوں کی ذمہ داری اور ان کا کردار بہت اہم ہے۔ کمیشنوں کو بہت زیادہ محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ ایوان تو فیصلہ کرنے کی جگہ ہے لیکن بنیادی کام کمیشنوں میں انجام پاتا ہے۔ ہم نے ان برسوں میں یہاں تک دیکھا ہے کہ پارلیمنٹ کے بعض ارکان کمیشن میں آکر اظہار خیال کرنے سے قبل موضوع کا مکمل مطالعہ کرتے تھے، جائزہ لیتے تھے، تمام ممکنہ پہلوؤں پر نظر دوڑاتے تھے۔ اس طرح کی باتیں واقعی بہت اچھی ہیں۔ اس طرح جب آپ ایوان میں قدم رکھیں گے اور جب قانون کے حق میں یا اس کے خلاف بولیں گے تو بات قابل توجہ اور قابل غور ہوگی۔ یہ نہیں کہ انسان خالی الذہن ہو۔ ایسی صورت میں تو یہ ہوگا کہ مخالفت یا موافقت میں کہی جانے والی بات بے معنی ہوگی اور جو فیصلہ کیا جائے گا وہ بھی حجت نہیں بن سکے گا۔ چاہے وہ قانون کے بارے میں ہو یا دوسرے امور سے متعلق جیسے وزراء اور دیگر افراد کا تعین وغیرہ۔ جب انسان پہلے سے مطالعہ کر چکا ہو تو مدلل بیان کے ساتھ بحث میں شریک ہوتا ہے۔ کبھی ممکن ہے کہ ایسا بھی ہو کہ دس لوگ مخالفت میں بول رہے ہیں، ماحول مخالفت کا بنا ہے لیکن آپ موافقت میں بول رہے ہیں اور آپ کے پاس دلیل ہے، فکر و نظر ہے، آپ موضوع کے مکمل ادراک کے ساتھ عمل کر رہے ہیں تو یہ ٹھیک ہے۔ یعنی میں خواتین و حضرات کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کمیشنوں کے اندر بلکہ اس سے پہلے ہی آپ موضوع کا مکمل جائزہ لینے کے مسئلے پر سنجیدگی سے توجہ دیں۔ بنابریں کمیشنوں میں حاضر رہنا، ٹھیک وقت پر پہنچنا اور پورے وقت موجود رہنا بہت اہم ہے۔
ایک اور نکتہ پارلیمنٹ کی نظارتی ذمہ داری کے تعلق سے ہے۔ پارلیمنٹ اپنے ملک کے اجرائی محکموں کی نگرانی کرتی ہے۔ جو بہت اہم چیز ہے۔ اسی طرح خود پارلیمنٹ پر نگرانی اور نظارت کے لئے بھی ایک سلسلہ شروع کیا جانا چاہئے۔ آپ مزید دو سال پارلیمنٹ میں ہیں اس کے بعد (پارلیمانی الیکشن کے انعقاد کے بعد) معلوم نہیں کہ پارلیمنٹ میں باقی رہیں گے یا نہیں۔ ممکن ہے کہ پھر کبھی بھی آپ کا پارلیمنٹ میں گزر نہ ہو لیکن سیکڑوں لوگ اس جگہ سے گزریں گے، کچھ لوگ آئيں گے اور (ایوان کی) ان نشستوں پر بیٹھیں گے۔ اگر آپ آج رکن پارلیمنٹ کی کارکردگی کی نگرانی کے لئے کوئی محکم اور مضبوط نظارتی سسٹم قائم کر لے گئے تو جب تک یہ ادارہ بحسن و خوبی عمل کرتا رہے گا، اس کا ثواب آپ کو ملے گا، اس کا الہی اجر آپ کے نام لکھا جائے گا۔ بد قسمتی سے دوسری صورت بھی ایسی ہی ہے۔ یعنی اگر آج آپ نے اللہ تعالی کی عطا کردہ اس طاقت کو جس سے آپ نظارتی سسٹم تشکیل دے سکتے ہیں، استعمال نہ کیا تو آپ کا مواخذہ کیا جائے گا۔ قیامت کے دن اللہ سوال کرے گا۔ سب کچھ یہی نہیں ہے کہ ہم سوچیں کہ عدالت کو پسند آنے والی باتیں ہمارے پاس ہیں یا نہیں؟ یہ عدالت تو کوئی چیز ہی نہیں ہے۔ انسانی عدالتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ الہی عدالت سب سے اہم ہے، یعلم خائنۃ الاعین و ما تخفی الصدور (2) ہمارے دلوں کی گہرائیاں بھی اللہ تعالی کے سامنے عیاں ہیں۔ ہم نے کوئی کام اپنے فریضے سے بھی آگے بڑھ کر انجام دے دیا ہے تو خواہ کوئی اسے سمجھے یا نہ سمجھے، اظہار تشکر کرے یا نہ کرے، اللہ تعالی یقینا سمجھے گا، کرام الکاتبین اسے لکھیں گے اور اللہ تعالی ضرور تشکر کرے گا۔ اسی طرح کوئی کوتاہی ہم نے کی جسے کوئی بھی سمجھ نہیں سکا، ہم نے اس طرح سے دکھاوا کیا کہ لوگوں کو لگا کہ ہم نے بہت اچھی طرح سے کام انجام دیا ہے، جبکہ در حقیقت ہم سے کوتاہی سرزد ہوئی ہے۔ تو کوئی سمجھے یا نہ سمجھے، کوئی ملامت کرے یا نہ کرے کرام الکاتبین یقینا اسے ضبط تحریر میں لائيں گے اور اللہ ہمارا مواخذہ کرے گا۔ میری نظر میں یہ بہت اہم چیز ہے۔
ہم سب کی طرح (عوامی) نمائندہ بھی اس طرح کی لغزشوں اور تزلزل کے خطرے سے دوچار رہتا ہے۔ مال و دولت فتنہ انگیز شئے ہے۔ یہ میں نہیں کہہ رہا ہوں، حضرت امام سجاد علیہ السلام کا قول ہے؛ المال الفتون (3) مال فتنہ انگیز ہے، پیسہ فتنہ انگیز ہے۔ دلوں کو بیچ راہ میں گمراہ کر دیتا ہے، بہتوں کو لغزش میں مبتلا کر دیتا ہے، ایسے لوگ بھی جن کے بارے میں انسان سوچتا ہے کہ کبھی نہیں بہک سکتے انہیں بھی ورغلا دیتا ہے۔ طاقت بھی اسی طرح کی شئے ہے اور تکلف و رو رعایت میں بھی ایسا ہوتا ہے، محبت میں بھی یہ صفت پائی جاتی ہے اور دشمنی میں بھی یہ چیز ہوتی ہے، یہ چیزیں ہمیں ورغلا دیتی ہیں۔ کوئی سسٹم ایسا ہونا چاہئے جو نگرانی کرے۔ میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ آپ بھائیوں اور بہنوں کی جانب سے اس چیز کا خیر مقدم کیا جا رہا ہے۔
آخری نکتہ پانچویں ترقیاتی پروگرام سے متعلق ہے۔ یہ بھی بہت اہم ہے۔ ویسے یہ منصوبہ پارلیمنٹ میں زیر بحث ہے اور آپ حضرات اس پر کام کر رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ پانچویں ترقیاتی منصوبے پر پارلیمنٹ میں اس انداز سے بحث کی جانی چاہئے کہ وہ مسائل جن کی جانب میں نے ذکر کیا ہے پیش نہ آئيں، یعنی منصوبہ اس بل سے جو پارلیمنٹ میں پیش کیا گيا ہے منظوری کے بعد بالکل الگ ہی شکل میں باہر نہ آئے۔ اس کی اصلاح ضرور کی جائے، اس کی تکمیل کا کام انجام پائے لیکن پوری طرح بدل نہ دیا جائے۔ اس کے لئے حکومت اور پارلیمنٹ کا تعاون ضروری ہے۔ ہمارے خیال سے تو اس معاملے میں حکومت کا بھی کردار ہے اور پارلیمنٹ کو بھی رول ادا کرنا چاہئے۔
بھائیو اور بہنو! مختصر یہ ہے کہ آپ اس نعمت کی قدر کیجئے۔ آپ عوام کے انتخاب پر رکن پارلیمنٹ کی نشست پر تشریف فرما ہیں امور مملکت میں قوم کے معاملات میں کردار ادا کر سکتے ہیں، یہ بہت بڑا موقع ہے، بہت بڑی نعمت ہے۔ آپ شب و روز اللہ تعالی کا شکر ادا کیجئے۔
یہ ملک عوام کے ہاتھ میں نہیں تھا، عوامی نمائندوں کے ہاتھ میں نہیں تھا، عوام کا کوئي کردار نہیں ہوتا تھا۔ آئینی انقلاب، ووٹ، قانون اور پارلیمنٹ کی تشکیل کے آغاز سے شروعاتی ایک دو پارلیمانوں کے علاوہ کبھی بھی ملک کی پارلیمنٹ کی کوئی حقیقت نہیں تھی اور جب پارلیمنٹ نہیں تھی تو عوام کا کوئی کردار بھی نہیں تھا۔ ملک کے عہدہ دار عوام کے منتخب کردہ تھے نہ قانون سازوں کا انتخاب عوام کے ہاتھوں ہوتا تھا اور نہ عوام کو کوئی کردار دیا جاتا تھا۔ یہ ملک تو کسی اور ہی شکل میں چل رہا تھا۔ یہ تو انقلاب کی برکت کہئے کہ یہ نئی صورت حال بنی، اس کی قدر کرنی چاہئے، بہت قدر کرنی چاہئے۔ اس نعمت عظمی پر انسان شب و روز شکر پروردگار بجا لائے تو بھی کم ہے۔
دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی شکر کی ادائیگی اور اس خدمت کی انجام دہی کی توفیق ہم سب کو کرامت فرمائے۔ دعا کرتا ہوں کہ ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی روح مطہرہ کو جو اس نئی راہ کے بانی ہیں شاد کرے، ان کے درجات کو بلند کرے۔ دعا کرتا ہوں کہ خدا وند عالم شہدائے عزیز اور ان اکتیس برسوں میں مجاہدانہ کوششیں کرنے والوں کے درجات کو بلند کرے جنہوں نے اس عمارت کو روز بروز زیادہ مستحکم اور اس درخت کو زیادہ تناور بنانے کی سعی کی۔ خدا وند عالم تمام خدمت گزاروں کو اجر عطا فرمائے اور آپ بھائيوں اور بہنوں کو بھی ماجور و مثاب قرار دے۔

والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ

(1) انبیاء: 103 دلوں پر طاری ہو جانے والا بڑا خوف انہیں محزون نہیں کرے گا اور فرشتے ان کا استقبال کریں گے
(2) غافر: 19 اللہ تعالی دزدیدہ نگاہوں کو اور جو کچھ وہ دلوں میں چھپاتے ہیں جانتا ہے
(3) صحیفہ سجادیہ: ستائیسویں دعا