آپ نے فرمایا کہ گزشتہ تینتیس برسوں میں ملت ایران گوناگوں امتحانوں اور آزمائشوں سے گذرتے ہوئے آج ہمیشہ سے زیادہ طاقتور بن چکی ہے اور محکم ارادے، پختہ عزم، مکمل اتحاد اور ہوشیاری کے ساتھ سعادت و کمالات کی بلندیوں اور دنیا و آخرت میں حیات طیبہ کی سمت اپنی پیش قدمی جاری رکھے گی۔ قائد انقلاب اسلامی نے انیس دی سن تیرہ سو چھپن ہجری شمسی مطابق نو جنوری انیس سو اٹھتر عیسوی کے دن شاہی حکومت کے خلاف اہل قم کے تاریخی قیام کی سالگرہ پر منعقد ہونے والے اس اجتماع میں اس عظیم واقعے کو بصیرت، فرض شناسی اور بر وقت اقدام کے سلسلے میں اہل قم کے پیش پیش رہنے کی علامت قرار دیا اور فرمایا کہ نو جنوری انیس سو اٹھتر کا اہل قم کا یہ قدم طاغوتی شاہی حکومت اور سامراجی محاذ کے منہ پر طمانچہ تھا جو امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی قیادت و رہنمائی میں گيارہ فروری انیس سو اناسی کو اسلامی انقلاب کی فتح کی تمہید بن گیا۔ آپ نے زور دیکر کہا کہ قم کے عوام اور اس شہر میں واقع دینی علوم کے مرکز کے سلسلے میں دشمنوں کی حد سے زیادہ تشویش کی وجہ اہل قم کی یہی بصیرت، فرض شناسی اور بر وقت اقدام ہے۔ آپ نے فرمایا کہ رہبر انقلاب کے دورہ قم کے دوران شہر کے عوام، دینی علوم کے مرکز، علماء اور نوجوانوں کی اپنی توانائی کی نمائش پر دشمن کے رد عمل سے بھی دشمن کی کمزوری اور عاجزی ثابت ہوئی۔ قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی انقلاب کی کامیابی اور گزشتہ بتیس برسوں کے دوران دنیائے کفر و استکبار کے روئے اور برتاؤ کو اسلامی نظام کے دشمنوں اور بدخواہوں کی کمزوری کی ایک اور علامت اور ملت ایران کی عظیم تحریک کا شاخسانہ قرار دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے ملت ایران کے کارہائے نمایاں اور مختلف میدانوں میں سرخروئی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ قوم الہی آزمائشوں میں کامیاب ہوکر خود کو مادی و روحانی معیاروں کے مطابق بہت بلندی پر پہنچا چکی ہے اور ملک کے اندر سائنس و ٹکنالوجی کے میدانوں میں بڑی کامیابیاں اور لوگوں کی خدمت مادی پیشرفت کی علامتیں ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛

بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌

عزیز بھائیو اور بہنو! آپ سب کو خوش آمدید کہتا ہوں اور آپ سب کا فردا فردا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ یہ راستہ طے کرکے یہاں تک تشریف لائے اور اس حسینیہ کو اپنی گرمی محبت و اخلاص سے جو قمی بھائیوں اور بہنوں میں ہمیشہ صاف نظر آتی ہے، معمور کر دیا۔
اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں اور بہت مسرور ہوں کہ قم کے میرے دورے کے کچھ ہی دنوں کے بعد آپ سے دوبارہ ملاقات کی سعادت نصیب ہوئی۔ اس سفر میں قم کے عزیز عوام نے، قم کے نوجوانوں نے، قم کے مرد حضرات اور حواتین سب نے اسلام سے اپنی وفاداری کا، دین کے تئیں اپنے خلوص کا، اسلامی نظام سے اپنے لگاؤ کا اور اپنی بصیرت و بیداری کا اس انداز سے ثبوت پیش کیا کہ ملت ایران کے دشمن تک اس پر خاموش نہ رہ سکے اور انہیں بھی اس کا معترف ہونا پڑا۔
دشمن کے رد عمل سے ہمیشہ کام کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اقدامات، موضوعات اور مفاہیم کی اہمیت کی تشخیص کا یہ ایک طریقہ ہے۔ مثال کے طور پر آپ سڑک پر چلے جا رہے ہیں، کوئی شخص آکر آپ کو کہنی مار دیتا ہے تو آپ اس پر کوئی خاص رد عمل ظاہر نہیں کریں گے۔ لیکن اگر با قاعدہ حملہ کر دے، مکا مار دے یا اسلحہ لیکر آپ پر ٹوٹ پڑے تو آپ یقینا جوابی کارروائی کریں گے، آپ کی طرف سے بھی کارروائی ہوگی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے ساتھ ہونے والی وہ پہلی حرکت کوئی خاص نہیں تھی، قابل اعتناء نہیں تھی۔ دوسری دفعہ والی حرکت بڑی کارروائی تھی۔ معلوم ہوا کہ رد عمل سے کام اور اقدام کے اہم یا غیر اہم ہونے کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ انقلاب سے متعلق معاملات میں خواہ وہ بڑے مسائل ہوں یا چھوٹے امور ہوں، روزمرہ کے واقعات ہوں یا دائمی بنیاد پر پیش آنے والے بڑے مسائل، ہر جگہ یہ بات نظر آتی ہے۔ اسلامی انقلاب کی فتح اور اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل کے خلاف عالم کفر و استکبار کی جانب سے جو رد عمل سامنے آيا اس سے اس معاملے کی عظمت کا پتہ چلتا ہے۔
اسلامی جمہوریہ کی تشکیل کے پہلے ہی دن سے ان حلقوں نے جن کے ہاتھوں میں پوری دنیا کی طاقت ہے، جن کے ہاتھوں میں دولت ہے، جن کے ہاتھوں میں اسلحہ ہے، جن کے ہاتھوں میں تشہیراتی وسائل ہیں، جن کے ہاتھوں میں میڈیا ہے، انہوں نے متحد ہوکر اس نظام کے خلاف گوناگوں اقدامات شروع کر دئے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ تبدیلی اور یہ واقعہ دنیا کے ارباب استبداد و استکبار کے لئے بہت اہم واقعہ تھا جسے تحمل کر پانا ان کے لئے ناممکن ہے۔ یہ حقیقت بھی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اسلام دین عدل و انصاف ہے، اسلام دین انسانیت ہے، اسلام نا انصافی، ظلم و استبداد اور حق تلفی سے محو پیکار رہنے والا دین ہے تو ظاہر ہے کہ جن کا وجود ہی دوسروں کی حق تلفی پر ٹکا ہوا ہے، جو سراپا ظلم ہیں، جن کا فلسفہ وجود ہی انسانوں کی سرکوبی، انسانی جذبات کی پامالی اور انسانی وجود کی فنا ہے وہ اسلام کو دیکھ کر وحشت زدہ ہوں گے، ان پر خوف طاری ہو جائے گا اور اس کے خلاف وہ سرگرم عمل رہیں گے۔ اسلامی جمہوریہ سے ان کی دشمنی کی وجہ بھی یہی ہے، بہانے خواہ کچھ بھی تراشے جائیں۔ تھوڑے تھوڑے عرصے پر کوئی نیا بہانہ پیش کیا جاتا ہے لیکن حقیقت حال کہاں پوشیدہ رہتی ہے؟!
اسلام اور اسلامی جمہوریہ نے انسانیت کے سامنے ایک نیا راستہ پیش کیا، دنیا کی قوموں کو ایک نئی روش سے روشناس کرایا۔ یہ ثابت کر دیا کہ ایک ایسی قوم جس کے پاس کچھ خاص اسلحے بھی نہ ہوں، جس کے پاس کچھ خاص مادی وسائل بھی نہ ہوں دنیا کی سب سے استبدادی طاقتوں کے سامنے بھی ڈٹ سکتی ہے، ان کے دباؤ میں آئے بغیر اپنا سفر جاری رکھ سکتی ہے، پرچم عدل و انصاف بلند کر سکتی ہے، پرچم انسانیت لہرا سکتی ہے۔ یہ چیز عصر جدید میں ایک نئی چیز ہے۔ یہ باب آپ نے کھولا ہے۔ انقلاب سے متعلق تمام معاملات میں یہ حقیقت آپ دیکھ سکتے ہیں۔
آپ اہل قم کے سلسلے میں انقلاب دشمن اور ملک دشمن عناصر کے ہاں بڑی پرخاشگری دیکھنے میں آتی ہے۔ یہ لوگ قم، اہل قم، قم کے دینی علوم کے مرکز، قم کے نوجوانوں اور اہل قم کے خاص جذبات و خیالات کے شدید مخالف ہیں، کیوں؟ اس لئے کہ قم سے ان پر طمانچہ پڑا ہے۔ استکبار کو، اسلام مخالف محاذ کو، ملت ایران کے دشمن محاذ کو قم سے منہ کی کھانی پڑی ہے۔ جن مواقع پر ان پر طمانچے پڑے ہیں ان میں ایک یہی نو جنوری کا واقعہ ہے۔ قم والوں نے دوسروں سے پہلے ہی اپنی ذمہ داری کو محسوس کر لیا، حالات کو پرکھ لیا، فرائض کا ادراک کر لیا اور میدان میں اتر پڑے، یہ بہت بڑی بات ہے۔ حالات کی نباضی بھی بہت اہمیت کی حامل ہے۔ اس کے لئے بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے، فرض شناسی اور ذمہ داری کا احساس بھی بہت بڑی بات ہے، اس کے لئے جذبہ ایمانی اور تعہد کی ضرورت ہوتی ہے تب جاکر انسان اپنے فریضے کو محسوس کر پاتا ہے۔ بعض افراد ایسے ہیں جو واقعات کو دیکھتے ہیں، دہلا دینے حوادث کا مشاہدہ کرتے ہیں، دشمن کی سازشوں کو سمجھتے ہیں لیکن ان میں جنبش پیدا نہیں ہوتی وہ اپنی ذمہ داری محسوس نہیں کر پاتے۔ بعض ایسے ہیں جو دیکھ رہے ہیں کہ دشمن نے محاذ آرائی کر لی ہے، ایسے مواقع پر جب دشمن محاذ آرا ہو گيا ہے تو ہمیں بھی بھاگ دوڑ شروع کر دینا چاہئے، یہ تعہد اور فرض شناسی کا تقاضا ہے، یہ ایمان کا تقاضا ہے لیکن بعض لوگ اس ذمہ داری کو محسوس نہیں کرتے۔ البتہ عزیز ملت ایران میں یہ جذبہ بدرجہ اتم موجود رہا ہے جو اسلامی تحریک اور اسلامی قیام سے اور بھی مضبوط ہو گیا، اس کی جڑیں اور گہری ہو گئیں اور اسلامی انقلاب میں اس کے جوہر دکھائی دئے تاہم الگ الگ جگہیں تھیں (جہاں یہ جذبہ دیکھنے میں آیا) اور قم والے سب سے آگے تھے۔ انہوں نے انیس دی (مطابق نو جنوری) کو اپنی ذمہ داری کا بھرپور احساس کرتے ہوئے فورا میدان میں قدم رکھے۔ یہ میدان کوئی آسان میدان نہیں تھا۔ بڑا دشوار میدان تھا، گولیوں کا سامنا کرنا تھا، شاہ کی پولیس اور سیکورٹی ایجنسیوں کی بے رحمانہ کارروائی کا سامنا کرنا تھا۔ لیکن اہل قم نے آگے بڑھ کر اس میدان میں قدم رکھے۔
یہ بصیرت، یہ فرض شناسی، میدان میں یہ موجودگی، دشمنوں پر پڑنے والا طمانچہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اچانک تبریز میں بھی اس کی بازگشت سنائی پڑی اور دوسری طرف یزد میں بھی آواز بلند ہوئی اور دوسرے شہروں کے عوام نے بھی رد عمل دکھایا۔ اس طرح یہ عظیم تحریک جس کے لئے ہمارے عظیم امام (خمینی رحمت اللہ علیہ ) نے کئی برسوں سے زمین ہموار کی تھی معرض وجود میں آ گئی۔ یہ کسی طمانچے سے کم نہیں۔ دشمن کو جب طمانچہ پڑتا ہے تو اس کے دل میں کینہ بیٹھ جاتا ہے اور وہ شدید تر عناد پر اتر آتا ہے۔ اگر ہمیں اپنا جائزہ لینا ہے تو ہم اس بات پر نظر رکھیں کہ دشمن کب ہم پر غرانا شروع کرتا ہے؟ جب ایسا ہو تو ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ ہماری توانائی اور طاقت کافی ہے اور ہم دشمن پر کاری ضرب لگا سکتے ہیں۔
اس حقیر کے حالیہ دورہ قم کے دوران اہل قم نے جن جذبات کا مظاہرہ کیا، دینی تعلیمی مراکز نے جو اقدام کیا، علماء نے جو انداز اپنایا، نوجوانوں نے جو کچھ کیا وہ دشمنوں کے لئے طمانچہ تھا جس سے وہ تلملا کر رہ گئے۔ انہوں نے خود ہی ظاہر کر دیا کہ عوام کی اس زبردست شراکت، اس بصیرت اور اس طاقت کے سامنے وہ کمزور ہیں، ایرانی قوم کے لئے یہ ایک اہم درس ہے۔
جہاں بھی ہم نے صحیح ادراک کیا ہے، ہماری تشخیص درست رہی ہے، یعنی ہم نے بصیرت سے کام لیا ہے اور اس بصیرت کی بنیاد پر اپنی ذمہ داریوں کو ہم نے محسوس کیا ہے اور پھر ذمہ داریوں کے احساس اور فرض شناسی کے جذبے کے تحت ہم میدان میں اتر پڑے ہیں وہاں فتح نے ہمارے قدم چومے ہیں۔ «فاذا دخلتموه فانّكم غالبون» (1) جب بھی آپ میدان کارزار میں ایمان اور بصیرت کے ساتھ قدم رکھیں گے فتح آپ کا مقدر ہوگی، فاتح آپ ہوں گے۔ کیوں؟ اس لئے کہ آپ کا حریف قوت ایمانی سے محروم ہے، دین سے محروم ہے، گہرے معنوی و روحانی جذبات سے محروم ہے۔ اس کی طرف سے میدان میں جو لوگ محو پیکار ہیں وہ خریدے ہوئے لوگ ہیں، فریب خوردہ افراد ہیں جبکہ منصوبہ ساز اور پالیسی ساز خود بھی دین و ایمان سے بے بہرہ لوگ ہیں۔ ایسے میں جب آپ قوت ایمانی کے ساتھ میدان میں اتریں گے تو آپ کی فتح یقینی ہے، ملت ایران نے اس کا تجربہ کیا ہے۔
ان اکتیس بتیس برسوں میں ملت ایران اپنے اسی تجربے کی بنیاد پر بڑے بڑے کارنامے انجام دینے میں کامیاب رہی ہے۔ مادی لحاظ سے بھی وہ خود کو بہت اوپر لے گئی ہے، سائنس و ٹکنالوجی کے میدانوں میں یہ بڑی بڑی کامیابیاں، ملک بھر میں نظر آنے والی کاموں کی مصروفیت، یہ سب مادی پیشرفت و ترقی کی علامتیں ہیں۔ اس قوم نے روحانی و معنوی لحاظ سے بھی خود کو بہت بلند مقام پر پہنچایا ہے۔ ہم نے آیات خداوندی کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہے، ہم نے نصرت الہی کو باقاعدہ دیکھا ہے۔ اس سے قبل تک ہم نے نصرت الہی اور دست قدرت خداوندی کی پشت پناہی کی باتیں صرف کتابوں میں پڑھی تھیں لیکن آج ہم اسے میدان میں دیکھ رہے ہیں، محسوس کر رہے ہیں، جیسا کہ ہمارے بزرگوار امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے اسے محسوس کیا اور مجھ سے فرمایا تھا کہ ان کا دل مطمئن تھا کیونکہ وہ دست قدرت الہی کا مشاہدہ کر رہے تھے۔
ملت ایران نے مختلف مواقع پر نصرت خداوندی کو، تائيد غیبی کو باقاعدہ محسوس کیا ہے۔ مسلط شدہ جنگ کے دوران کسی انداز میں اور دیگر معاملات میں کسی اور انداز سے اور سیاسی سرگرمیوں اور آشوب و فتنے میں کسی اور انداز سے۔ سنہ دو ہزار نو کے اسی فتنے میں بھی دست قدرت خداوندی نے عوام کو بیدار کر دیا اور وہ میدان میں اتر پڑے اور ایک بہت بڑی سازش ناکام ہو گئی۔
دشمن نے جو سازش رچی تھی اس کے مختلف پہلوؤں کا ابھی اور بھی تفصیل سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ دشمن نے بڑی باریک بینی سے اندازے لگائے تھے لیکن اس کے یہ اندازے غلط ثابت ہوئے کیونکہ وہ ملت ایران کو نہیں پہچان سکا۔ دشمن نے پردے کے پیچھے تمام باتوں پر نظر رکھی تھی۔ جن افراد کو آپ فتنے اور آشوب کے سرغنہ کا نام دیتے ہیں یہ وہ لوگ تھے جنہیں دشمن نے دھکا دیکر میدان میں کھڑا کر دیا تھا۔ گناہ تو خیر ان سے بھی سرزد ہوا کیونکہ انسان کو دشمن کے ہاتھوں کا کھلونا نہیں بننا چاہئے، حقیقت کا فورا ادراک کر لینا چاہئے۔ اگر شروع میں غلطی ہو گئی ہے تو بعد میں جیسے ہی حقیقت حال کا علم ہو فورا اپنا راستہ بدل لینا چاہئے، ان لوگوں نے ایسا نہیں کیا۔ تاہم اصلی عناصر دوسرے لوگ تھے جنہوں نے منصوبہ سازی کی تھی، جنہوں نے بخیال خود اندازے لگائے تھے، ان کے زعم ناقص میں اسلامی جمہوریہ کی بساط لپیٹ دی جانی تھی۔ منصوبہ یہ تھا کہ حقیقی دین ہی نہیں دینی ماہیت والے نعرے تک ختم کر دئے جائیں۔ منصوبہ یہ تھا کہ اگر ممکن ہو تو اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق نظام کا ڈھانچہ ہی تبدیل کر دیں اور پھر آگے وہ کیا کرتے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ (ان کا منصوبہ یہ تھا کہ) اگر نظام کا ڈھانچہ تبدیل کرنا ممکن نہ ہو پائے اور ان کی مرضی کی حکومت نہ بن سکے تو ملک کو فتنہ و آشوب کی آگ میں جھونک دیا جائے اور جیسا کہ میں نے ایک موقعے پر عرض کیا تھا کہ وہ اسلامی انقلاب کا کارٹون تیار کرنا چاہتے تھے، جیسے کچھ نقلچی کسی چیمپین کی نقل کرتے ہیں اسی طرح وہ انقلاب کی نقل اتارنا چاہتے تھے، ان کا منصوبہ یہ تھا۔ ملت ایران نے ان کے منہ پر طمانچہ رسید کیا اور ان کی بساط لپیٹ دی۔
آج اس ملک میں انقلاب، اسلامی جمہوریہ، ملت ایران اور صحیح دینی روش گزشتہ سال کے واقعات سے قبل کی نسبت کئی گنا زیادہ قوی ہو چکی ہے، زیادہ واضح اور روشن ہو چکی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالی کوئی امتحان لیتا ہے تو (کامیابی کی صورت میں) ایک نمبر دیتا ہے۔ جب کسی امتحان میں کوئی شخص، کوئی جماعت یا کوئی قوم پوری اترتی ہے تو اللہ تعالی اسے نمبر دیتا ہے۔ نمبر یہ ہے کہ انہیں بلندی عطا کرتا ہے۔ الہی امتحان اس انداز سے ہوتے ہیں۔ اسی طرح اگر ہم نے امتحان میں ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور ناکام ہو گئے تو اللہ تعالی ہمیں فیل کر دیتا ہے۔ یہ فیل ہونا عبارت ہے انسان کی تنزلی اور انحطاط سے۔ یعنی انسان اپنے مقام سے اور بھی نیچے گر جاتا ہے جبکہ کامیابی کی صورت میں قوموں کو بلندی حاصل ہوتی ہے۔
ایک زمانے مین لوگ ایک امتحان میں ناکام ہو گئے۔ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کو محراب عبادت میں خاک و خوں میں غلطاں کر دیا، ظاہر ہے کہ یہ امتحان میں ناکامی ہے۔ آخر معاشرہ اتنی پستی میں کیوں گر جائے کہ عدل و انصاف، روحانیت و معنویت اور توحید و یکتا پرستی کا پیکر، شقی ترین شخص کے ہاتھوں قتل کر دیا جائے؟! یہ اس دور کے امتحان میں لوگوں کی بدترین کارکردگی کی علامت ہے۔ ان لوگوں نے اس امتحان میں ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کیا، فیل ہو گئے۔ نتیجتا اللہ تعالی نے انہیں پستی میں پہنچا دیا۔ حد یہ ہو گئی کہ ان کی آنکھوں کے سامنے حسین ابن علی علیہما السلام کو شہید کر دیا گیا! جب آپ امتحان میں کامیاب ہوں گے تو اللہ تعالی آپ کو سربلندی عطا کرے گا۔ آج ملک میں ہماری قوم میں اسلام پسندی، ایمان باللہ اور انقلاب سے محبت اس فتنے سے قبل کے دور کی نسبت زیادہ نظر آ رہی ہے۔ اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام امتحان میں پورے اترے تو اللہ کی جانب سے یہ انعام ملا ہے۔ یہ ہمارے لئے لائحہ عمل ہے اور ہر معاملے میں ہمیں اسی طرح عمل کرنا چاہئے۔ صحیح طور پر دیکھنا، پرکھنا اور جائزہ لینا ضروری ہے۔ محتاط رہنا چاہئے کہ ہم سے تشخیص کی غلطی نہ ہونے پائے، اصلی امور کو فروعی باتوں سے خلط ملط نہیں ہونے دینا چاہئے۔ بڑی باتوں اور اہم واقعات کو معمولی سمجھ کر نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ چھوٹی باتوں کو حد سے زیادہ بڑھانا نہیں چاہئے۔ ہماری تشخیص درست ہونی چاہئے، یہ پہلا قدم ہے، اس کے بعد ہمیں اپنے فریضے اور اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہئے۔ ایک زندہ قوم کی حیات طیبہ کا، مثالی زندگی کا یہی مطلب ہوتا ہے۔ یہ وہ پاکیزہ زندگی ہے جس کا وعدہ اللہ تعالی نے مومنین سے کیا ہے۔ و لنحيينّه حياة طيّبة (2) کا مطلب یہی ہے۔ یعنی اسی طرح روز بروز گوناگوں امتحانوں کا سامنا کرنا اور آگے بڑھتے رہنا۔ اس راستے پر چلتے ہوئے جو لوگ دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں وہ لقاء اللہ کے مستحق قرار پاتے ہیں، وہ سعادت و خوش بختی کی بلند منزل پر فائز ہوتے ہیں اور جو لوگ اس دنیا میں باقی رہ جاتے ہیں وہ یہیں مادی و روحانی پیشرفت اور ترقی کرتے ہیں۔ مادی پیشرفت بھی ہوتی ہے۔
ملت ایران نے ایک راستے کا انتخاب کیا ہے۔ وہ بہت سے امتحانوں میں کامیاب ہوئی ہے۔ مسلط کردہ جنگ ایک بہت بڑا امتحان تھا اور قوم اس امتحان میں سرخرو ہوئی۔ یہ جنگ میں صرف فتح حاصل کرنے کی بات نہیں ہے، فتح تو خیر حاصل ہوئی ہی، اس سے بڑھ کر الہی اور روحانی معیاروں پر اس کا پورا اترنا زیادہ اہم تھا کیونکہ اس قوم نے اپنے صبر و ضبط کا مظاہرہ کیا، اپنے ایثار و فداکاری کو ثابت کیا، اپنی بصیرت و آگاہی کا ثبوت پیش کیا، راہ خدا میں آگے بڑھنے کی اپنی آمادگی ثابت کی۔ اللہ تعالی نے بھی اس قوم کو اب تک مسلسل ترقی عطا کی، بلندی عطا کی اور آئندہ بھی یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہنے والا ہے۔ جو دشمن ملت ایران کے مقابلے پر آتے ہیں وہ ان حقائق کو نہیں سمجھتے، اس کے ادراک سے قاصر ہیں۔
آج ملت ایران اپنی داخلہ پالیسیوں میں پوری طرح کامیاب ہے، اپنی خارجہ پالیسیوں میں پوری طرح کامیاب ہے، اس کے اندر علاقے پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت و توانائی ہے، عالمی مسائل پر اثر انداز ہونے کی طاقت ہے۔ یہ حقائق ہیں، یہ اٹل سچائی ہے۔ دشمن کی خواہش ہے کہ ملت ایران سے الجھ پڑے اور اس پر بندش لگا دے لیکن یہ اس کے بس کی بات نہیں ہے۔ دشمن چاہتا ہے کہ اقتصادی میدان میں عوام الناس کو مشکلات سے دوچار کر دے، ملک کے حکام کو مسائل میں الجھا دے، چنانچہ آپ ان پابندیوں کی باتیں سنتے رہتے ہیں لیکن وہ اس میں بھی ناکام ہو گئے۔ بیرونی امور میں ان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ قوموں کو، ملکوں اور حکومتوں کو ایران سے ہراساں کر دیں۔ انسانی حقوق کے بارے میں، ایٹمی امور کے بارے میں اور تخیلاتی ایٹم بم کے بارے میں امریکی اور صیہونی جو وسیع پیمانے پر تشہیراتی مہم چلا رہے ہیں اور یورپی ممالک ان کے پیچھے پیچھے چل رہے ہیں اور بعض بڑی حقیر اور لاچار حکومتیں ان کی کاسہ لیسی میں لگی ہوئی ہیں ان کا مقصد یہ ہے کہ دنیا کی ذہنیت کو اور علاقے کی ذہنیت کو ملت ایران کے سلسلے میں منفی رخ پر ڈال دیں لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئے۔ ان کی ناکامی کی دلیل یہ ہے کہ آج ہمارے اسی علاقے میں امریکا فلسطین کے معاملے میں شکست کھا چکا ہے، لبنان کے معاملے میں ہزیمت سے دوچار ہو چکا ہے، افغانستان کے معاملے میں ناکام ہو چکا ہے، عراق کے معاملے میں بھی اسے شکست ملی ہے۔ کس سے شکست ملی ہے؟ قوموں کے درست موقف سے شکست ملی ہے۔ وہ (امریکی) کہتے ہیں کہ اس علاقے کے تمام معاملات میں ایران ان کے خلاف کارروائیاں کر رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایران ان کے خلاف کارروائياں نہیں کر رہا۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے (علاقے کی قوموں پر) بس معنوی و روحانی اثرات مرتب کئے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ نے قوموں کو بیدار ضرور کیا ہے، اس میں کوئي شک و شبہ نہیں ہے۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ عراق میں ایسی حکومت تشکیل پائی ہے جسے اقتدار سے دور رکھنے کے لئے امریکیوں نے ہر ممکن حربہ اپنایا لیکن عوام کی بیداری و ہوشیاری کی وجہ سے یہ حکومت تشکیل پا گئی۔ اسلامی جمہوریہ کی تاثیر اس طرح کی ہے۔ دوسری جگہوں پر بھی یہی عالم ہے۔
ہم اسی راستے پر گامزن رہیں گے۔ ہم نے بلندیوں کی شناخت کر لی ہے۔ ہمیں علم ہے کہ ہم کو کہاں جانا ہے۔ «لتكونوا شهداء على النّاس»(3) یہ وہ راستہ ہے جو ہماری قوم کو حقیقی اور کامل اسلام سے ہمکنار کرے گا۔ جس میں دنیا و آخرت کی تمام نیکیاں اور خوبیاں موجود ہیں۔ دنیا و آخرت کی حیات طیبہ اور پاکیزہ زندگی حقیقی اسلام میں مضمر ہے۔ ہم ابھی ابتدائے سفر میں ہیں، ابھی بہت سی خامیاں اور نقائص ہیں، اسلام کامل تک پہنچنے کے لئے ابھی طویل راستہ طے کرنا ہے۔ تا ہم ہم نے بلندیوں کو پہچان لیا ہے اور بحمد اللہ خداوند عالم نے ہمیں ان بلندیوں تک پہنچنے کا راستہ بھی دکھا دیا ہے۔ ملت ایران اور ملک کے حکام کا عزم و ارادہ بھی اس سفر کے تعلق سے بہت مستحکم اور قوی ہے۔
البتہ ہمیں بیدار رہنے کی ضرورت ہے، سب کو ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ پسند نہیں ہے اور نہ ہی یہ مناسب ہے کہ نرم تکئے پر سر رکھ کر خود کو تسلی دیتے رہیں کہ دشمن تواب شکست کھا چکا ہے، دشمن کمزور پڑ چکا ہے اور ہم قوی و توانا ہیں۔ ہمیں بیدار رہنا چاہئے۔ جیسا کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ «و انّ اخا الحرب الأرق و من نام لم ينم عنه» (4) جب لڑائی چل رہی ہو تو بیدار رہئے۔ جنگ ہماری اور آپ کی مرضی کی پابند نہیں رہتی۔ دشمن جنگ جاری رکھنا چاہتا ہے، خواہ وہ سیاسی جنگ ہو، معاشی جنگ ہو یا سیکورٹی کی لڑائی ہو، کیونکہ ہمیشہ فوجی جنگ ہی نہیں ہوتی۔ جب جنگ چل رہی ہے تو بیدار رہنا چاہئے۔ نوجوان بیدار رہیں، علمائے کرام بیدار رہیں، یونیورسٹیاں بیدار رہیں، ملک کے حکام بیدار رہیں۔ حکام کی بیداری یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو عوام کی خدمت کریں، کام کریں اور جہاں تک ہو سکے اس اتحاد کو جو دشمن کی آنکھوں میں کانٹا بن کر کھٹک رہا ہے، قائم رکھیں۔

اللہ آپ کو کامیاب رکھے۔ پروردگارا! محمد و آل محمد کا صدقہ ان عزیز عوام کو اپنے لطف و فیض کے چشمے سے سیراب فرما۔ ہمیں اس راہ پر ثابت قدم رکھ ۔ پالنے والے! شہدا اور ہمارے امام(خمینی رحمت اللہ علیہ) کی ارواح کو اپنے الیاء کے ساتھ محشور فرما۔

و السّلام عليكم و رحمة اللَّه‌

1) مائده: 23
2) نحل: 97
3) بقره: 143
4) نهج البلاغه،نامه‌ى 62