آپ نے قوم اور اسلامی نظام کی فیصلہ کن استعداد اور صلاحیتوں کا ذکر کرتے ہوئے دشمن کی پیچیدہ سازشوں کے مقابلے کے لئے ضروری اقدامات کی تشریح کی۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی نظام کی تیز رفتار پیش قدمی کے عمل میں دشوار نشیب و فراز سے کامیابی کے ساتھ عبور کے لئے حقیقت پسندی کے ساتھ اعلی امنگوں کی باہمی ترکیب نیز ملک اور قوم کی صلاحیتوں اور توانائیوں کے درست ادراک کو لازمی شرط قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے اس خیال کو مسترد کر دیا کہ حقیقت پسندی اور بلند امنگیں یکجا جمع نہیں ہو سکتیں۔ آپ نے فرمایا کہ انقلاب کی بہت سے امنگیں فی الواقع بعینہ عوامی مطالبات ہیں اسی لئے انہیں معاشرے کے مسلمہ اور عینی حقائق میں شمار کیا جاتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے معاشرے کے حقائق کے سلسلے میں بے توجہی کو فیصلوں میں اشتباہ اور صحیح راستے کے انتخاب میں غلطی کے ارتکاب کا باعث قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ ہمیں حقائق کی بنیاد پر اپنے اقدامات کا تعین کرنا چاہئے اور اس عمل میں لغزشوں اور لغزش گاہوں کی جانب سے ہوشیاری کلیدی اہمیت کی حامل ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے بعض لغزش گاہوں کا ذکر کرتے ہوئے نمائشی حقیقت کے نکتے سے بحث کی۔ آپ نے فرمایا کہ انقلاب اور اسلام کے دشمنوں کی کوشش یہ ہے کہ کچھ غلط باتوں کو حقیقت کے طور پر پیش کرکے حکام اور عوام الناس کو ان کے اندازوں اور فیصلوں کے تعلق سے شک و تردد میں مبتلا کر دیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے اسی ضمن میں ملت ایران کی صلاحیتوں کو بہت محدود اور سامراجی محاذ کی قوت کو لا محدود ظاہر کرنے کی دشمن کی کوششوں کا ذکر کیا اور فرمایا کہ اگر ہم اس نمائشی حقیقت کے جال میں پھنس جائیں اور اپنی یا دشمن کی صلاحیتوں کے تخمینے میں غلطی کر بیٹھیں تو ہم غلط سمت میں مڑ جائیں گے۔
قائد انقلاب اسلامی نے دنیا کی چاہت اور نفس کے نقائص کو دوسری لغزش گاہ قرار دیا جو حقائق کا جائزہ لینے اور راستے کے انتخاب میں انسان کو غلطی سے دوچار کر دیتی ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے بغیر قیمت ادا کئے امنگیں پوری کر لینے کی خام خیالی کو بھی لغزش گاہ سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ صرف بعض حقائق تک اپنی نگاہیں محدود کر لینا اور تمام امور کو ایک دوسرے کے ساتھ رکھ کر صورت حال کا جائزہ نہ لینا بھی بڑی لغزش گاہ ہے جس کی طرف سے بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ملک کے تمام زمینی حقائق کو ایک دوسرے کے ساتھ رکھ کر لئے جانے والے کلی جائزے کو امید بخش قرار دیا اور فرمایا کہ ان حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ بلند امنگوں کی جانب ملت ایران کے اس سفر میں بیشک مشکلات موجود ہیں لیکن کبھی ایسا نہیں ہوگا کا سارے دروازے بند ہو جائیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے ملت ایران پر تمام دروازے بند ہو جانے کا تاثر دینے کی دشمنوں کی کوششوں کا ذکر کیا اور فرمایا کہ وہ آشکارا کہتے ہیں کہ پابندیوں اور دباؤ کے ذریعے ایران کے حکام کو ان کے فیصلوں پر نظرثانی کرنے پر مجبور کر دینا چاہتے ہیں تاہم حقائق پر نظر رکھی جائے تو ہم نہ صرف یہ کہ اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرنے پر مجبور نہیں ہوں گے بلکہ مزید اطمینان خاطر کے ساتھ قوم کے مد نظر راستے پر آگے بڑھیں گے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ایک اور حقیقت یہ ہے کہ اسلامی نظام سے ان چند سامراجی طاقتوں کی دشمنی کی اصلی وجہ خود اس نظام کا وجود ہے تاہم وہ ایسا ظاہر کرنے کی کوشش کرتی ہیں کہ ملت ایران کی مخالفت کی وجہ صرف ایٹمی مسئلہ اور انسانی حقوق کا معاملہ ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کے مطابق اسلامی نظام کو اس وقت در پیش چیلنجوں میں کسی نئی بات کا نہ ہونا بھی ایک حقیقت ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ایک زمانہ تھا کہ جب خلیج فارس میں ایران کے جہازوں پر حملے ہوتے تھے اور ہماری جیٹیوں اور صنعتی مراکز پر دشمن بمباری کرتا تھا لیکن آج اسلامی نظام کے دشمن ایران کے قریب پھٹکنے کی بھی جرئت نہیں کرتے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی نظام کے مخالف مغربی ممالک میں پھیلے بحران کو بھی ناقابل انکار حقیقت قرار دیا اور فرمایا کہ یورپی یونین اور یورو زون کے اندر اقتصادی بحران کے گہرے خطرات، متعدد یورپی ملکوں میں عدم استحکام، کئی یورپی حکومتوں کا سقوط، امریکا میں سرسام آور بجٹ خسارہ اور ننانوے فیصدی آبادی کی تحریک کا آغاز بہت اہم واقعات ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ قائد انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ مغربی ممالک کی اقتصادی مشکلات اور ہمارے ملک کے اقتصادی مسائل میں بڑا بنیادی فرق ہے۔ کیونکہ ہمارے ملک کی مشکلات کوہ پیمائی کرنے والی اس ٹیم کی مشکلات سے مشابہ ہیں جو پہاڑ کی بلند چوٹی پر پہنچنے کے لئے مشکلات اور مشقتوں سے دوچار ہے تاہم اس کی پیش قدمی کا عمل جاری ہے جبکہ مغرب کی اقتصادی مشکلات اس گاڑی کی مشکلات جیسی ہیں جو برف کے طوفان میں محصور ہوکر رہ گئی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مشرق وسطی اور شمالی افریقا کے علاقے کے تغیرات کو بھی عینی حقیقت قرار دیا اور فرمایا کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلامی نظام کی طاقت اور صلاحیتوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ آپ نے ملک کے اندر تیل، گیس اور معدنیات کے عظیم ذخائر کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ افرادی قوت، ساڑھے سات کروڑ کی آبادی بالخصوص تعلیم یافتہ اور جوش و جذبے سے سرشار نوجوان نسل بھی ملک کی اہم حقیقت اور بڑی بنیادی قوت ہے جسے پیشرفت و ترقی کے اہم ترین عوامل میں شمار کیا جاتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ایران پر عائد تیل کی پابندیوں سے بیس ممالک کے استثناء اور بعض مغربی ممالک کے ان پابندیوں کو نظر انداز کر دینے کا ذکر کیا اور اسے موجودہ حالات کے تسلسل کے ناممکن ہونے کی دلیل قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ ان حقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ پر توکل، خطرات کا سامنے کرنے کے لئے ہمت و حوصلے میں اضافہ، تدبیر اور سوجھ بوجھ اور استقامت کے اس راستے پر بدستور گامزن رہنا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے چیلنجوں کے مقابلے میں توانائیوں اور صلاحیتوں کے مدبرانہ و ہوشمندانہ استعمال کو بدر و خیبر کے حالات کے مماثل قرار دیا اور فرمایا کہ ملکی مسائل کو اس نقطہ نگاہ سے اور امنگوں اور حقائق کی حوصلہ بخش باہمی ترکیب کے ساتھ دیکھنے کی ضرورت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اقتصادی پابندیوں کے مقابلے کے لئے مزاحمتی معیشت کا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور مزاحمتی معیشت کے لوازمات پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ آئین کی (نجکاری سے متعلق) دفعہ چوالیس کی پالیسیوں پر عمل کرکے معیشت کو عوام پر منحصر معیشت میں تبدیل کرنا، نجی شعبے کو تقویت، تیل پر انحصار میں کمی، اشیاء کے استعمال میں اعتدال پسندی، وقت اور وسائل و امکانات کا بنحو احسن او بھرپور استعمال، منصوبے کے تحت عمل اور قوانین اور پالیسیوں میں یکبارگی تبدیلی سے اجتناب، مزاحمتی معیشت کے بنیادی اصول سمجھے جاتے ہیں۔
رمضان المبارک کی چوتھی تاریخ کو اپنے خطاب میں قائد انقلاب اسلامی نے ماہ رمضان کی صورت میں حاصل ہونے والے پاکیزہ ترین لمحات و ساعات اور اہم ترین موقعے سے کما حقہ مستفیض ہونے کی تاکید فرمائی۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛
بسم‌ اللّه ‌الرّحمن ‌الرّحيم‌
الحمد للّه‌ ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا و نبيّنا ابى‌ القاسم المصطفى محمّد و على ءاله الأطيبين الأطهرين المنتجبين سيّما بقيّة اللّه‌ فى الأرضين.
تمام برادران و خواہران عزیز، ملک کے مختلف اداروں کے معزز و محترم حکام کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ جناب صدر محترم کا اس رپورٹ پر شکریہ ادا کرتا ہوں جو آپ نے ہم سب کے سامنے پیش کی۔
اپنے معروضات کے آغاز میں، میں ان ایام میں حاصل ہونے والے سنہری موقعے سے بھرپور مستفیض ہونے کی نصیحت و سفارش کرنا چاہوں گا۔ ان بابرکت راتوں اور دنوں، ان مسعود ساعتوں اور لمحات سے ہم سب کو کما حقہ استفادہ کرنا چاہئے، عالم معنی اور عالم ملکوت سے اپنے رابطے کو مضبوط کرکے، بارگاہ رب العزت میں راز و نیاز اور گریہ و زاری کے ذریعے، اہل بیت علیہم السلام سے، اس عظیم خاندان سے اپنے رشتے کو مستحکم بنا کر۔ یہ ایسے تمام حسنات اور کارہائے نیک کا سرچشمہ ہے جو ایک صاحب ایمان شخص انجام دے سکتا ہے۔
اگر ہم نے ان ساعتوں سے استفادہ نہ کیا، میسر آنے والے اس موقعے سے فائدہ نہ اٹھایا تو ایک دن ہمیں اس پر کف افسوس ملنا ہوگا، «و انذرهم يوم الحسرة اذ قضى الأمر و هم فى غفلة و هم لا يؤمنون».(۱) پلک جھپکتے یہ موقعہ ہمارے ہاتھ سے اس طرح نکل جائے گا کہ یقین کر پانا مشکل ہوگا اور اس دن جب ہمارے ہر گھنٹے، ہر منٹ، ہر حرکت اور ہر لفظ کا حساب کتاب ہوگا تو ہمیں اپنی غفلت پر نادم ہونا پڑے گا۔ اس وقت موقعہ ہمارے ہاتھ سے جا چکا ہوگا، اذا قضی الامر جب ہمیں ہوش آئے گا اور جب ہم متوجہ ہوں گے اس وقت سب کچھ ختم ہو چکا ہوگا۔
(معروف عارف ربانی) جناب میرزا جواد آقا ملکی رضوان اللہ علیہ اپنی عظیم کتاب مراقبات میں شب قدر کے لمحات کے سلسلے میں ایک جملہ تحریر فرماتے ہیں جسے میں نے نوٹ کر لیا ہے۔ البتہ یہ ہمیشہ کے لئے ایک سبق ہے تاہم آپ نے یہ جملہ اس مناسبت سے تحریر فرمایا ہے۔ فاعلم یقینا انّک ان غفلت عن ھذہ الکرامۃ و ضیّعتھا باھمالک اگر ہم نے غفلت کی، ہاتھ آئے اس موقعہ کو گنوا دیا، ضائع کر دیا اور پھر و رئیت یوم القیامۃ ما نال منھا المجتھدون جب روز قیامت ہوگا، انسانوں کے اعمال پیش کئے جائیں گے اور ہمارے اعمال کی ملکوتی شکل وہاں سامنے آئے گی تو ہم دیکھیں گے کہ یہی عمل جو ہم انجام دے سکتے تھے لیکن ہم نے انجام نہیں دیا، یہی حق بات جس میں لوگوں کی بھلائی تھی اور جو ہم اپنی زبان سے کہہ سکتے تھے مگر نہیں کہی، یہی درست قدم جو ہم اٹھا سکتے تھے اور مستحق افراد کو اس کا فائدہ پہنچ سکتا تھا لیکن ہم نے نہیں اٹھایا، یہی معمولی کام کچھ دوسرے لوگوں نے سرانجام دیئے ہیں، ایک جماعت نے محنت کی، لگن سے کام کیا تو اللہ تعالی نے انہیں کیسا عظیم مقام و رتبہ عطا فرمایا ہے؟! اور ہم اس ثواب سے محروم ہیں۔ جب انسان دیکھے گا کہ دوسرے شخص نے یہی عمل انجام دیکر، یہی کار خیر رو بہ عمل لاکر، یہی قدم اٹھا کر، یہی عبادی عمل مکمل کرکے اس دن جب سارے لوگ شدید حاجتمندی میں مبتلا ہیں، کتنی عظیم جزا پائي ہے، مرحوم فرماتے ہیں ابتلیت بحسرۃ یوم الحسرۃ تب انسان حسرت میں ڈوب جائے گا، وہ بھی کیسی حسرت؟! کہ اے کاش میں نے بھی یہ عمل انجام دیا ہوتا، میں نے بھی یہ قدم اٹھایا ہوتا، میں نے بھی یہ بات اپنی زبان سے کہہ دی ہوتی، میں نے فلاں مذموم فعل انجام نہ دیا ہوتا۔ اس کے بعد فرماتے ہیں کہ یوم الحسرۃ کی حسرت معمولی حسرت نہیں ہوگی۔ انسان دنیا میں اگر کبھی کوئی کام سرانجام دیتا ہے تو اسے ایک کامیابی ملتی ہے، انجام نہیں دیتا تو حسرت و ندامت میں مبتلا ہوتا ہے۔ لیکن اس حسرت کا یوم الحسرۃ کی ندامت سے کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ الّتی تصغر عندھا نار الجحیم و العذاب الالیم یہ حسرت و ندامت اتنی سخت اور ایسی ہولناک ہوگی کہ اس کے سامنے آتش جہنم بھی معمولی محسوس ہوگی۔ یہ حسرت پگھلے ہوئے فولاد کی مانند انسان کے پورے باطنی وجود پر پھیل جائے گی۔ فتنادی فی ذالک الیوم مع الخاسرین النّادمین یا حسرتی علی ما فرّطّت فی جنب اللہ لیکن اس دن و لا ینفعک الندم پشیمانی و ندامت سے کوئی فائدہ نہ ہوگا۔
آج آپ زندگی کی نعمت سے بہرہ مند ہیں، آپ میں بہت سے افراد جوانی کی نعمت سے بھی سرشار ہیں۔ بحمد اللہ آپ سب یا آپ کی اکثریت بھرپور جسمانی و فکری توانائیوں اور قابلیتوں کی مالک ہے۔ آپ کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، ان ساعتوں سے کما حقہ استفادہ کر سکتے ہیں، ان شبوں سے، ان دعاؤں سے، ان مناجاتوں سے، راتوں کی عبادتوں سے، ان نوافل سے، (خوب مستفیض ہو سکتے ہیں)۔ کبھی ایک معمولی سے فعل کا اتنا عظیم اجر مل جاتا ہے کہ انسان اس مادی دنیا اور اس مادی ماحول میں اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ و ھم لا یومنون (2) لیکن یہ حقیقت ہے۔ ایک طرف ماہ رمضان کی صورت میں حاصل ہونے والا موقعہ ہے اور دوسری جانب خدمت (فرائض منصبی کی ادائیگی) کا موقعہ، انتطامی امور کی انجام دہی کا موقعہ ہے، آپ کام کر سکتے ہیں، اس موقعہ کو بھرپور طریقے سے عمل میں لا سکتے ہیں۔ حاصل شدہ ساعتوں اور لمحات سے خوب استفادہ کر سکتے ہیں۔ اس اسلامی نظام کے اندر، اس اسلامی ملک کے اندر ہر اقدام جو وطن عزیز کی خدمت کی نیت سے انجام دیا جائے معنوی و مادی لحاظ سے اس کا اجر ہے۔ اب اگر روز قیامت ایک انسان نے دیکھا کہ دوسرے افراد اس اجر سے بہرہ مند ہیں اور وہ اس سے محروم رہ گیا ہے تو اسی حسرت میں مبتلا ہوگا۔ یہ تو رہی ایک بات جو میرے خیال میں میرے آج کے معروضات کا سب سے اہم حصہ ہے۔ آپ سب سے زیادہ خود مجھے اس نصیحت اور سفارش پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کو اس کی توفیق عنایت فرمائے۔
آج میں جو بات عرض کرنا چاہتا ہوں، یہ ہے کہ انقلاب کی حفاطت و پاسداری کے تعلق سے ملت ایران کی طاقت و توانائی کی بڑی اہمیت و عظمت ہے۔ شاید یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ خود انقلاب کی اہمیت سے اس کی قدر و قیمت کمتر نہیں ہے۔ ملت ایران نے ان تینتیس برسوں میں اس عظیم کامیابی کی بنحو احسن حفاظت و پاسبانی کی ہے۔ اس ڈیڑھ سال کے اندر علاقے میں جو انقلاب رونما ہوئے آپ ان پر ایک نظر ڈالئے! آپ مجموعی طور پر جائزہ لیجئے تو بآسانی فیصلہ کر سکتے ہیں کہ یہ انقلابات صحیح سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں یا نہیں۔ دشمن طاقتیں، استکباری طاقتیں، اور بھی واضح طور پر کہہ دوں کہ صیہونی حکومت، امریکی حکومت اور مغربی حکومتیں ان انقلابوں کی لگام اپنے ہاتھ میں لے لینا چاہتی ہیں، انہیں صحیح راستے سے منحرف کر دینا چاہتی ہیں۔ آپ دیکھئے کہ ان انقلابات کو کیسے کیسے چیلنجوں کا سامنا ہے؟!
ان چیلنجوں کو دیکھنے کے بعد انسان سمجھ سکتا ہے کہ ہمارے ملک میں کیسا عظیم کام انجام پایا ہے کہ انقلاب اپنی سمت و جہت اور امنگوں کی جانب پیش قدمی کے تسلسل کو قائم رکھنے میں کامیاب رہا ہے۔ اقدار اور امنگوں کی پٹری سے ہٹا نہیں بلکہ بلندیوں کی جانب اس کا سفر جاری ہے۔ حالانکہ چیلنج اور خطرات بھی بدستور بڑھتے ہی رہے ہیں۔ روز اول سے وطن عزیز اور اسلامی انقلاب کو جن چیلنجوں اور خطرات کا سامنا ہوا وہ دائمی طور پر پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتے گئے ہیں۔ ٹارگٹ کلنگ بھی تھی، نسلی بغاوت بھی تھی، جنگ بھی تھی، پابندیاں بھی تھیں، بائیکاٹ کی سختیاں بھی تھیں۔ ہم جیسے جیسے آگے بڑھے، خطرات اور مسائل کی پیچیدگی بھی بڑھتی گئی۔ نظام کے دشمن سر ابھارتے رہے۔ جولائی سنہ 1999 کے واقعات، سنہ دو ہزار نو کے حوادث، یہ سب بھانت بھانت کے خطرات ہیں جو اس انقلاب، وطن عزیز اور ملت ایران کو در پیش ہوئے۔ قوم ان تمام رکاوٹوں کو عبور کرتی آگے بڑھتی رہی اور آج ثابت قدمی کے ساتھ اپنا راستہ طے کر رہی ہے۔ یہ ایسے حقائق ہیں جن کی بار بار ورق گردانی کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے ہمیں مدد ملے گی، دشوار گزار راستوں کو طے کرنے میں، سخت نشیب و فراز اور خطرناک موڑ سے گزرنے میں۔
تینتیس سال کے اس عرصے میں جو چیز صاف طور پر نظر آتی ہے، انقلاب اور امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ سے جو سبق ہمیں ملا ہے وہ یہ ہے کہ ان تینتیس برسوں میں اسلام نے ہمارے دلوں میں جن عظیم امنگوں کا القاء کیا ہے اور جن کی تعلیم دی ہے وہ کبھی بھی ہماری نگاہ سے دور نہیں ہونے پائے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ معاشرے اور دنیا کے زمینی حقائق پر بھی ہماری پوری توجہ رہی۔ اس سے ہمیں اپنا سفر جاری رکھنے میں کامیابی ملی۔ یعنی بلند امنگوں اور حقیقت پسندی کی باہمی ترکیب۔ ایک شگوفہ چھوڑ دیا گيا اور اس کے بارے میں شد و مد کے ساتھ لکھا گيا، تقریریں کی گئیں، آج بھی گوشہ و کنار سے کبھی کبھار کوئی آواز سنائی دے جاتی ہے کہ صاحب! سماج اور دنیا کے حقائق بلند امنگوں سے میل نہیں کھا سکتے۔ انہوں نے بلند امنگوں کو خوابوں کی دنیا میں گم ہو جانا سمجھ لیا۔ ہم جس چیز کے متلاشی اور جس کی جستجو میں محو کاوش ہیں، وہ یہ ہے کہ حقیقت پسندی، سماج اور دنیا کے زمینی حقائق کے ادراک کا ملت ایران کی بلند امنگوں اور ان امنگوں کے لئے جاری جد و جہد کے ساتھ کوئی تضاد نہیں ہے۔ ان میں آپس میں کوئی منافات نہیں ہے۔ اگر ہم بلند امنگوں کو حقیقت پسندی سے وابستہ کرنے میں کامیاب ہو گئے تو اس کا عملی نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم تدبیر و تدبر کو مجاہدت کا جامہ پہنائیں گے۔ یعنی ہم جدوجہد بھی کریں گے، مجاہدانہ انداز میں حرکت بھی کریں گے تاہم ہماری یہ مجاہدانہ پیش روی تدبیر و شعور کے دائرے میں ہوگی۔ یہ چیز عمومی بیداری، متعلقہ ذمہ داروں کی آگاہی اور تمام شعبوں میں باہمی ہمدلی اور ہم خیالی کی متقاضی ہے۔
بعض لوگ یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ حقیقت پسندی اور بلند امنگوں میں آپس میں تال میل قائم نہیں ہو سکتا۔ ہم سختی سے اس کی تردید کرتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کی متعدد امنگیں اور عوامی مطالبات سماجی حقائق کا جز ہیں۔ عوام قومی وقار کے خواہاں ہیں، عوام دینداری اور ایمان کے ساتھ زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں، عوام ملک کے انتظامی امور اور وطن عزیز کے نظم و نسق میں باقاعدہ شراکت یعنی جمہوریت چاہتے ہیں، سیاسی و معاشی خود انحصاری چاہتے ہیں۔ یہ قوم کے عمومی مطالبات ہیں، یہ مطالبات معاشرے کے حقائق ہیں اور یہ حقائق من و عن ہماری امنگیں ہیں۔ یہ کوئی ذہنی بازیگری اور مغالطہ پیدا کرنے والا تجزیہ نہیں ہے، یہ کوئی موہوم بات نہیں ہے، یہ صرف ذہنی حدوں تک محدود خیالات نہیں بلکہ معاشرے میں موجود حقائق ہیں۔ زندہ اور دولت ایمان سے مالامال معاشرہ ان چیزوں کی جستجو میں رہتا ہے، وہ قومی وقار کا خواہاں ہوتا ہے، خود مختاری کا متلاشی ہوتا ہے، پیشرفت کا طالب ہوتا ہے، عالمی ساکھ کا خواہشمند ہوتا ہے، یہ عوام کے مطالبات ہیں اور یہی امنگیں بھی ہیں، یہ مطالبات معاشرے کے حقائق عینی ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ حقائق بلند امنگوں کے لئے مددگار اور ان سے ہم آہنگ ہو سکتے ہیں۔ بیشک حقائق پر کوئی توجہ دیئے بغیر اور امنگوں تک رسائی کے انتظامات اور منطقی و معقول مقدمات پر توجہ دیئے بغیر امنگوں کی مالا جپتے رہنا، خوابوں کی دنیا میں گم رہنے کے مساوی ہے، ایسے میں یہ امنگیں بس نعروں کی حد تک محدود رہیں گی۔ لیکن اگر ملک کے ذمہ دار افراد منطقی طریقے سے اور پروقار انداز میں امنگوں اور آرزوؤں کے حصول کے لئے جدوجہد کریں اور عوام بھی ان کا ساتھ دیں تو پھر معاشرے کے حقائق اور امنگوں میں بھرپور ہم آہنگی قائم ہو جاتی ہے۔ یہ ملک کی حرکت و پیش قدمی کے لئے ایک بنیادی امر اور اساسی نکتہ ہے۔
میں معاشرے کے کچھ حقائق کی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں۔ ایسے حقائق موجود ہیں جنہیں ہم اگر مد نظر نہ رکھیں تو فیصلہ سازی کے عمل میں یقینی طور پر غلطی کریں گے اور راستے کے انتخاب میں بھی ہم سے بھول چوک ضرور ہوگی۔ لہذا ان حقائق پر نظر رکھنا ضروری ہے۔ میں جن حقائق کا ذکر کرنے جا رہا ہوں یہ کوئی تجزیہ اور ذہنی بحث نہیں بلکہ ہماری نظروں کے سامنے موجود خارجی و عینی حقائق ہیں۔
میں پہلے بھی یہ بات عرض کر چکا ہوں کہ اگر ہم حقیقت پسندی کے ساتھ اور حقائق پر نظر رکھتے ہوئے بلند امنگوں اور آرزوؤں کی جانب بڑھنا چاہتے ہیں، یعنی حقائق کا جائزہ لینے کے بعد انہی حقائق کے مطابق اپنی حکمت عملی وضح کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان لغزشوں کی جانب سے ہوشیار رہنا چاہئے جو اس سفر میں ممکنہ طور پر پیش آ سکتی ہیں۔ لغزش کے کچھ مقامات ہوتے ہیں۔ لغزش کا ایک مقام، فرضی حقیقت ہے۔ ایسی چیزیں جو حقیقت نہیں رکھتیں انسان ان کو حقیقت فرض کر لے۔ ہمارے جن دشمنوں نے، وطن عزیز کے خلاف، ہمارے انقلاب کے خلاف اور ہماری قوم کے سامنے مجاذ تشکیل دیا ہے وہ حقیقت تراشی اور حقیقت نمائی کی کوشش کرتے ہیں۔ کچھ چیزوں کو ہمارے سامنے مسلمہ حقیقت کے طور پر پیش کرتے ہیں جبکہ حقیقت سے ان کا دور تک کوئی تعلق نہیں ہے، ہمیں بہت محتاط رہنا چاہئے کہ کہیں حقیقت کے برخلاف کی جانے والی حقیقت تراشی کے جھانسے میں نہ آ جائیں۔ فرض کیجئے کہ اگر ہم اپنی قوت و طاقت کو اس سے زیادہ سمجھنے لگے جتنی وہ ہے یا اس سے کمتر تصور کریں تو یقین رکھئے کہ ہم سے غلطی ضرور ہوگی۔ اسی طرح اگر ہم دشمن کی طاقت کو جتنی وہ ہے اس سے زیادہ یا کمتر فرض کر لیں گے تو یقینی ہمارے اندازوں اور تخمینوں میں غلطی ہوگی۔ یہ وہ حربے ہیں جنہیں دشمن استعمال کرتا ہے۔ آپ غور کیجئے! ہمارے دشمنوں کی وسیع تشہیراتی یلغار میں یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ ہمارے ملک کی داخلی توانائی اور صلاحیت کو معمولی قرار دیا جائے اور دوسری جانب دشمن کی قوت و طاقت کو اس سے کہیں زیادہ ظاہر کیا جائے جتنی وہ ہے۔ یہ لغزش کا ایک مقام ہے۔ ہم نے اگر دشمن کی توانائیوں کو منطقی و معقول حد سے زیادہ فرض کر لیا اور اس سے خوفزدہ ہو گئے تو ہم سے یقینا اندازے کی غلطی ہوگی، ہم غلط سمت میں مڑ جائیں گے۔ یہ لغزش کا مقام ہے۔
حقیقت کے ادراک میں ایک لغزش کا تعلق خود ہمارے باطن سے بھی ہے۔ کبھی ہماری قلبی خواہشات مفلوج کن ثابت ہوتی ہیں، ہماری قلبی وابستگی باعث ہوتی ہے کہ ہم ایسی چیزوں کو حقیقت مان لیں جن میں کوئی سچائی نہیں ہے، یہ در حقیقت ایسی غلطی ہے جو ہمارا آرام طلب اور مادی امور سے ربط رکھنے والا نفس ہمارے ذہن پر مسلط کر دیتا ہے، حالانکہ حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
لغزش کا ایک مقام یہ ہے کہ انسان اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جائے کہ بغیر قیمت چکائے بھی امنگوں کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ جدوجہد کے دور میں بھی ہم نے دیکھا کہ بعض لوگ تحریک کے اہداف سے متفق تھے لیکن اس تحریک کی راہ میں کوئی قربانی دینے پر تیار نہ تھے، کوئی قدم اٹھانے کے روادار نہ تھے۔ آج بھی ایسے افراد موجود ہیں جو مانتے ہیں کہ ہدف کا حاصل کرنا ضروری ہے لیکن بغیر کوئی قیمت چکائے۔ لہذا جب بھی کوئی قیمت ادا کرنے کی بات آتی ہے قدم پیچھے کھینچ لیتے ہیں۔ بار بار کی یہ پسپائی متعدد مقامات پر انسان کو تخمینے کی غلطی میں مبتلا کر دیتی ہے اور انسان دشمن کے مقابل جس سمت میں چلنا چاہئے نہیں چل پاتا۔
لغزش کا ایک اور مقام یہ ہے کہ ہم حقیقت کا ایک پہلو تو دیکھیں لیکن دیگر پہلوؤں کو نظر انداز کر دیں۔ یہ بھی غلطی کا باعث ہے۔ اس سے بھی اندازے کی غلطی ہو جاتی ہے۔ حقیقت کے تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھنا چاہئے۔
میں یہاں کچھ حقائق کا ذکر کر رہا ہوں۔ میرا یہ دعوی نہیں کہ میں ملک کے تمام حقائق کو بیان کر رہا ہوں بلکہ یہ ایک دریچہ ہے جس سے ہماری نگاہیں گوناگوں حقائق کی ایک جھلک دیکھ سکتی ہیں۔ ہم کس پوزیشن میں ہیں؟ کس مقام پر کھڑے ہیں؟ ہمارے پاس کیا کچھ ہے؟ کن چیزوں کا ہمارے یہاں فقدان ہے؟ ان تمام حقائق پر نظر دوڑانے کے بعد یہ حقیر جس نتیجے پر پہنچا وہ تو بہت امید بخش ہے۔ جب ہم تمام حقائق کو ایک دوسرے کے پہلو میں رکھ کر ایک ساتھ دیکھتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ بلند امنگوں اور آرزوؤں کی جانب جانے والا ملت ایران کا راستہ پوری طرح کھلا ہوا ہے۔ بیشک اس راستے میں کچھ دشواریاں ہیں، لیکن راستہ بند نہیں ہے، کھلا ہوا ہے۔ اسلامی نطام اور اسلامی انقلاب کے مخالف محاذ اور ہمارے دشمنوں کی یہ باور کرانے کی کوشش ہے کہ راستہ مسدود ہے۔ وہ خود کہتے ہیں کہ ہمیں یہ اقدامات کرنے ہیں، اس طرح سے دباؤ ڈالنا ہے، ناکہ بندی کرنا ہے، پابندیاں عائد کرنی ہیں تا کہ اسلامی جمہوریہ کے حکام اپنے تخمینوں اور فیصلوں پر نظر ثانی کریں۔ میں یہیں عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ حقائق کے جائزے سے ہم نہ صرف یہ کہ اپنے اب تک کے فیصلوں اور اندازوں پر نظر ثانی کرنے پر مجبور نہیں ہوں گے بلکہ اس کے برخلاف ہمیں اب تک کے سفر اور انقلاب کے راستے کی حقانیت کا اور بھی یقین و اطمینان ہو جائے گا۔
ملک کی ایک زمینی سچائی سختیوں اور دھمکیوں کی شدت ہے۔ جسے گزشتہ برسوں کی نسبت اس وقت کچھ زیادہ ہی جتانے اور باور کرانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ملک کو چند استکباری طاقتوں اور حکومتوں کی زور آزمائی کا سامنا ہے۔ میں نے یہ بات بار بار کہی ہے کہ ہمارا مقابلہ عالمی برادری سے نہیں ہے، تمام حکومتوں اور قومں سے نہیں بلکہ ہمارے مقابل چند حکومتیں ہیں۔ تاہم ان کے پاس طاقتور میڈیا ہے۔ ہمیں اس بات کا اعتراف کرنا ہوگا کہ امریکا اور دیگر مغربی ممالک میڈیا کے میدان میں واقعی بہت طاقتور ہیں۔ ان کے پاس میڈیا کی طاقت ہے، تشہیراتی طاقت اور پروپیگنڈا پاور ہے۔ اسے وہ خود بھی بیان کرتے ہیں۔ ہم اس کا اقرار کرتے ہیں کہ یہ ممالک جس میدان میں بہت طاقتور ہیں وہ میڈیا کا میدان، تشہیراتی میدان اور پروپیگنڈے کا میدان ہے۔ آج یہ ممالک اپنی وسیع تشہیراتی طاقت کو بروئے کار لاتے ہوئے پوری شدومد سے یہ پروپیگنڈا کر رہے ہیں، اس کا پرچار کر رہے ہیں (کہ وہی عالمی برادری ہیں)۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ صرف چند حکومتیں ہیں لیکن اپنی اسی تشہیراتی طاقت کے ذریعے اسی میڈیا پاور کی بنا پر خود کو عالمی برادری کی حیثیت سے متعارف کراتے ہیں، یہ ان کا کذب محض ہے، یہ عالمی برادری نہیں ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمیں چند حکومتوں اور استکباری طاقتوں کی محاذ آرائی کا سامنا ہے ان کے ارد گرد ان کے کچھ مہرے بھی ہیں۔ یہ مہرے بھی ہمارے خلاف سرگرم عمل ہیں تاہم ان کی اپنی کوئی بساط نہیں ہے، کوئی طاقت و توانائی نہیں ہے۔ اگر امریکا جیسی طاقتوں کی مدد ملنا بند ہو جائے تو ان کی کوئی وقعت نہیں رہ جائے گی۔ عالمی معاملات میں وہ کسی شمار میں نہیں رہیں گے۔ اس وقت وہ امریکا، صیہونی حکومت اور عالمی صیہونزم کی پیشت پر پیادوں کی حیثیت سے حرکت کر رہے ہیں۔ یہ ایک اٹل سچائی ہے جو ہماری نظروں کے سامنے ہے۔ یہ سلسلہ اوائل انقلاب سے ہی شروع ہو گیا تھا اور اس میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی بلکہ وسعت پیدا ہوئی ہے۔ البتہ اس سلسلے میں مبالغہ آرائی سب مل کر کرتے ہیں۔ یہ بھی لغزش کا ایک مقام ہے۔ ان کی کوشش یہ ہے کہ اس حقیقت کو بہت بڑھا چڑھا کر اور انتہائی سخت اور دشوار بنا کر پیش کریں۔ ہم یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ ہمیں سختیوں کا سامنا ہے، بیشک ہم پر پابندیاں ہیں، اس اسٹریٹیجی کے پیچھے اقتصادی توانائیاں، سیاسی اثر و رسوخ اور سیکورٹی کے وسائل سب بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔ خاص طور پر میڈیا کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ ایک سچائی ہے۔
اس کے ساتھ ہی ایک اور حقیقت یہ بھی ہے کہ یہ تاثر دینے کی بہت کوشش ہوتی ہے کہ ساری محاذ آرائی صرف جوہری مسئلے یا انسانی حقوق کے معاملے کے لئے ہے۔ جبکہ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ یہ سچائی ہے کہ یہ دعوی غلط ہے۔ یہ صرف ہم نہیں کہتے بلکہ آج دنیا میں کوئی بھی یہ یقین کرنے کو تیار نہیں ہے کہ امریکا کو انسانی حقوق کی بڑی فکر رہتی ہے، اسے قوموں کے حقوق سے بڑا لگاؤ ہے یا یہ کہ نسل کشی اور طفل کشی کرنے والی صیہونی حکومت کو دنیا کے ممالک میں جمہوریت کے نفاذ کا درد ہے۔ امریکا کا ریکارڈ، صیہونی حکومت کا ریکارڈ، اسلامی جمہوریہ کے مقابل کھڑی ان چند طاقتوں کا ریکارڈ انسانی حقوق کے لحاظ سے، قوموں کے حقوق کی پاسبانی کے لحاظ سے سیاہ ریکارڈ ہے۔ ساٹھ سال سے فلسطین میں جاری نسل کشی کیا انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے؟ غاصب صیہونی حکومت کو جوہری ہتھیار کی فراہمی عالمی امن و سلامتی کے خلاف اقدام نہیں ہے؟ جن لوگوں نے یہ گل کھلائے ہیں کیا امن عالم کے محافظ ہونے کا دعوی کر سکتے ہیں؟ صدام جیسے درندے کو کیمیاوی ہتھیار پکڑا دینا انسانی حقوق کی پامالی نہیں ہے؟ ابو غریب، گوانتانامو، افغانستان، عراق اور دنیا کے دیگر مقامات پر امریکیوں نے جو حرکتیں کی ہیں، مغرب والوں نے جن چیزوں کا ارتکاب کیا ہے اور برطانیہ کے ذریعے جو کچھ انجام پایا ہے اس کے بعد انسانی حقوق کے دفاع کے دعوے کی کوئی گنجائش باقی رہ گئی ہے؟ بنابریں ان کا یہ دعوی کہ اسلامی جمہوریہ سے ہماری مقابلہ آرائی انسانی حقوق کی وجہ سے ہے سراسر جھوٹ ہے۔ ان کی یہ بات بھی حقیقت کے برخلاف ہے کہ اسلامی جمہوریہ سے ان کی مقابلہ آرائی کی وجہ ایٹمی مسئلہ ہے۔ پہلے تو ہم یہ بات اندازے سے کہتے تھے لیکن بعد میں بین الاقوامی مذاکرات اور معاملات میں ہمارے سامنے یہ حقیقت کھل گئی کہ انہیں بھی علم ہے کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش میں نہیں ہے۔ اس کا انہیں بھی یقین ہے اور اسے تسلیم کرتے ہیں، حقیقت بھی یہی ہے۔ لیکن اس سب کے بعد بھی وہ ایٹمی مسئلے پر سینہ کوبی کرتے ہیں۔ معلوم یہ ہوا کہ یہ دعوی کہ تمام دباؤ، یہ پابندیاں، یہ اقتصادی محاصرہ، یہ دشمنیاں اور خصومتیں ایٹمی مسئلے اور ایٹمی توانائی کی وجہ سے ہیں، کذب محض ہے اور اس کا جھوٹ ہونا عین حقیقت ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ان کی خصومت اور ان کا عناد ہمارے انقلاب اور اسلامی نظام کے وجود سے ہے۔ یہ طاقتیں اس علاقے میں آسودہ خاطر ہوکر حکمرانی کر رہی تھیں۔ اتنے وسیع ذخائر اور بے پناہ وسائل سے مالامال ایران ان کی مٹھی میں تھا، جو چاہتی تھیں کرتی تھیں، اپنی مرضی کے مطابق فیصلے کرتی تھیں، اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے اس ملک کے وسائل کو بے فکری کے ساتھ استعمال کرتی تھیں۔ لیکن آج وہ اس سے محروم ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ یہ نئی فکر اور نیا رجحان پورے عالم اسلام میں انگڑائیاں لینے لگا ہے اور آج اس کے آثار شمالی افریقا میں، مشرق وسطی میں اور دیگر ممالک اور اقوام میں ہم دیکھ رہے ہیں۔ یہ طاقتیں اس صورت حال پر پیچ و تاب کھا رہی ہیں۔ اسلامی جمہوریہ محور کی حیثیت حاصل کر چکی ہے۔ وہ اسلامی جمہوریہ پر ضرب لگانا چاہتی ہیں اور اسے دوسروں کے لئے عبرت کا نشان بنا دینا چاہتی ہیں۔ یہ ہے ان کا اصلی منصوبہ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے۔
ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ اسلامی جمہوریہ کو آج جن مشکلات اور چیلنجوں کا سامنا ہے وہ نئے نہیں ہیں۔ یہ کوئی تجزیہ اور اندازہ نہیں بلکہ عین حقیقت ہے۔ یہ تو سب کی نظروں کے سامنے ہے اور ہر کوئي دیکھ رہا ہے۔ ایک زمانہ وہ تھا کہ خلیج فارس میں ہمارے تیل ٹینکروں اور جہازوں کو دشمن بآسانی نشانہ بنا لیتے تھے، ایک زمانہ تھا کہ ہماری خارک جیٹی پر بمباری کر دیا کرتے تھے، ایک زمانہ وہ تھا کہ ہمارے تمام صنعتی مراکز دشمن کی بمباری کی زد میں تھے۔ یہ چیزیں تو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہیں، وہ دن ہم نے گزارے ہیں، یہ ہمارے لئی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ لیکن آج دشمن کے پاس اتنی جرئت نہیں ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے قریب بھی آ سکے۔ اس نکتے پر میں ابھی گفتگو کروں گا، یہ بھی ایک حقیقت ہے۔ ایک دن وہ تھا کہ ان کی گستاخیاں اس درجہ برھ گئي تھیں کہ آتے تھے، حملے کرتے تھے اور لوٹ جاتے تھے۔ ہمارے خلاف صدام کی جنگ کسی ایک حکومت کی جنگ نہیں تھی، یہ ہمارے خلاف ایک عالمی لشکر کشی تھی۔ بنابریں آج جو چیلنج ہیں، یہ دھمکیاں، یہ طاقت کی نمائش اور یہ مبالغہ آرائی اسلامی جمہوریہ کے لئے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔
ایک اور حقیقت یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ان تمام دشواریوں اور دشوار گزار نشیب و فراز کو عبور کرتا رہا ہے۔ کیا ہم نے عبور نہیں کیا؟ کیا کبھی ہماری پیش قدمی رکی؟ کیا وہ اسلامی جمہوریہ پر ضرب لگانے میں کامیاب ہو سکے؟ کیا وہ اسلامی جمہوریہ کے اصولوں اور امنگوں میں کوئی خلل ڈالنے میں کامیاب ہوئے؟ وہ ناکام رہے۔ یہ بھی ایک سچائی ہے۔ یہ حقائق ہمیشہ ہمارے پیش نظر رہنے چاہئے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہم نے انہیں پابندیوں اور دشواریوں کے عالم میں ترقی کی منزلیں طے کی ہیں۔ ان برسوں میں ہم تمام شعبوں میں نئی اونچائیوں پر پہنچے ہیں۔ پیچیدہ اور سخت علوم میں ہم نے نئے ریکارڈ قائم کئے ہیں، ملک کی ضرورت کی ٹکنالوجیوں کے میدان میں ہم نے کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ دواسازی کے شعبے میں، ٹرانسپورٹ کے شعبے میں، تعمیرات کے شعبے میں، پانی کی سپلائی اور سڑکوں کی تعمیر کے شعبے میں نمایاں کامیابیاں ملی ہیں۔ اس سلسلے میں کچھ اعداد و شمار صدر محترم نے پیش کئے اور آپ نے سنے۔ ان تمام پابندیوں اور سختیوں کے باوجود ملک ان برسوں کے دوران بلا وقفہ پیشرفت کرتا رہا ہے۔ بعض بے بدیل ٹکنالوجیوں میں، لیزر ٹکنالوجی نینو ٹکنالوجی، اسٹم سیلز سے متعلق ٹکنالوجی اور جوہری صنعت میں ملک نے اہم پوزیشن حاصل کی ہے۔ یہ عالم اسلام کے سامنے ایک نمونہ عمل ہے۔ یہ بڑی اہم حقیقت ہے۔ ہمارے قدم کبھی رکنے نہیں پائے، ہم نے مسلسل پیش قدمی کی۔ اسلامی جمہوری نظام ان تمام مسائل کے باوجود، پابندیوں، دھمکیوں، دیگر گوناگوں سیاسی و فوجی چالوں کے باوجود ہمیں یہ کامیابیاں ملی ہیں۔ یہ بہت اہم حقیقت ہے۔ یہ بھی کوئی تجزیہ اور تحلیل نہیں بلکہ واضح طور پر محسوس کی جانے والی اور نگاہوں کے سامنے موجود سچائی ہے۔ آپ محترم حکام کو عوام الناس سے زیادہ اس حقیقت کا علم اور ادراک ہے۔
ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ چیلنجوں اور خطرات کا سامنا کرنے کی قوت و طاقت کے اعتبار سے اوائل انقلاب کی نسبت موجودہ دور میں ملک زیادہ بہتر حالت میں ہے۔ اوائل انقلاب کی نسبت آج ہم خطرات سے نمٹنے پر زیادہ قادر ہیں۔ ہماری خود اعتمادی بھی بہت بڑھ چکی ہے اور اللہ تعالی کی ذات پر ہمارا توکل بھی کم نہیں ہے، اسی طرح نمایاں طور پر دکھائی دینے والی ہماری توانائیاں بھی ماضی کی نسبت بہت زیادہ ہیں۔ استکباری طاقتیں اپنی پوری توانائی صرف کر رہی ہیں، لیکن انہیں اعتراف ہے کہ آگے نہیں بڑھ سکتیں، اپنے منصوبے کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتیں۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ ہمارا مد مقابل محاذ ان برسوں میں کافی کمزور ہو چکا ہے۔ یعنی اگر ہم اس محاذ کے دو اہم نمونوں کے طور پر امریکا اور صیہونی حکومت کو پیش کریں اور مغربی ممالک کو ان کا حامی و پشت پناہ قرار دیں تو ہم واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ یہ دونوں کمزور ہوئے ہیں۔ آج صیہونی حکومت بیس سال اور تیس سال قبل کی نسبت کافی کمزور ہو چکی ہے۔ شمالی افریقا میں ہونے والے تغیرات کے بعد اور مصر میں ہونے والی تبدیلی کے بعد صیہونی حکومت کے ہاتھ پاؤں کٹ گئے ہیں، وہ اندرونی سطح پر بھی اور بیرونی سطح پر بھی لا تعداد مشکلات میں گرفتار ہے۔ آج کا امریکا ریگن کے زمانے کا امریکا نہیں رہا، بہت پیجھے جا چکا ہے۔ عراق میں ان کی کیا حالت ہوئی، افغانستان میں روز بروز ان کی حالت دگرگوں ہوتی جا رہی ہے، انہیں مشرق وسطی سے متعلق اپنے عزائم میں سخت ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ تینتیس روزہ جنگ میں صیہونی حکومت کو جو ان کی پروردہ ہے سخت شکست کا سامنا کرنا پڑا، بائیس روزہ جنگ غزہ میں ان کی گماشتہ صیہونی حکومت ایک ملین اور چند لاکھ نہتے انسانوں کے مقابلے میں بھی بے بس نظر آئی۔ یہ بہت اہم حقائق ہیں۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ و شدید اضمحلال میں مبتلا ہیں، بیس سال قبل اور تیس سال قبل کی نسبت آج وہ بہت کمزور ہیں۔ یہ زمینی سچائی ہے۔
ایک اور حقیقت یہ ہے کہ اسلامی جمہوری نظام کی دشمن حکومتیں بحرانوں میں مبتلا ہیں۔ یہی چند مغربی حکومتیں خود بھی اور ان کی ہمنوا حکومتیں بھی دلدل میں پھنس کر رہ گئی ہیں۔ یورپ میں آج جو معاشی بدحالی پھیلی ہوئی ہے اس کے باعث یورپی یونین کو سنگین خطرہ لاحق ہے، یورو کو سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ امریکا الگ قسم کے بحران سے دست بگریباں ہے۔ سرسام آور بجٹ خسارہ، بے پناہ غیر ملکی قرضہ، عوام الناس کا دباؤ، وال اسٹریٹ مخالف تحریک، بقول خود اہل مغرب کے ننانوے فیصدی عوام کی تحریک۔ یہ سب بڑے فیصلہ کن واقعات ہیں۔ یورپ کی حالت امریکا سے زیادہ ناگفتہ بہ ہے۔ یورپ کی کئی حکومتیں سرنگوں ہو چکی ہیں۔ اس وقت کئی یورپی ملکوں میں گہرا عدم استحکام پھیلا ہوا ہے۔
ان کی اور ہماری مشکلات کی نوعیت مختلف ہے۔ یورپ کا اقتصادی بحران اور معاشی مشکلات گاہے بگاہے پیدا ہونے والی ہماری اقتصادی مشکلات سے مختلف ہیں۔ ہماری مشکلات کوہ پیمائی کرنے والی ٹیم کی مشکلات جیسی ہیں جو اپنے راستے پر آگے بڑھ رہی ہے۔ راستہ کٹھن ہے، مشکلات بھی ہیں، کبھی پانی کی ضرورت پڑتی ہے، کبھی غذا کی ضرورت پڑتی ہے، کبھی کوئی مشکل پیش آ جاتی ہے، کبھی کوئی رکاوٹ سامنے آ جاتی ہے لیکن ٹیم آگے بڑھ رہی ہے۔ بلندی پر چڑھ رہی ہے۔ ہماری مشکلات کچھ اس نوعیت کی ہیں۔ یورپی ممالک کی مشکلات اس بس کی مانند ہیں جس پر برف کا تودہ گر پڑا ہے اور وہ پھنس کر رہ گئی ہے۔ انہوں نے لا علمی میں برسوں تک اس مشکل کے مقدمات فراہم کئے۔ یہ طبقاتی فاصلہ، مادی امور میں یہ سودخوری، مادی طاقت رکھنے والوں کی مسلسل تقویت، مال پرست صیہونیوں کے اثر و نفوذ کے جال میں ان کا پھنستے جانا اس ہولناک بحران پر منتج ہوا ہے اور برف کا یہ پہاڑ ان پر ٹوٹ پڑا ہے۔ تو ان کی مشکلات اور ہماری مشکلات میں یہ بنیادی فرق ہے اور یہ ایک حقیقت ہے۔
ایک اور حقیقت شمالی افریقہ کے تغیرات اور ہمارے علاقے میں رونما ہونے والی تبدیلیاں ہیں۔ بعض جگہوں پر یہ تغیرات حکومتوں اور نظاموں کی سرنگونی پر منتج ہوئے ہیں۔ بعض جگہوں پر حکومتیں ابھی گری نہیں لیکن خطرہ ان کے سر پر منڈلا رہا ہے۔ میں اس بحث کو یہیں پر روکتے ہوئے آگے بڑھنا چاہوں گا۔
ایک اور حقیقت اسلامی جمہوریہ کی اندرونی قوت و طاقت میں ہونے والا زبردست اضافہ ہے۔ ہمارا ملک ایک طاقتور ملک ہے۔ ہمارا ملک ایک قدرت مند اور دولتمند ملک ہے۔ دنیا میں ہم بہت اونچے مقام پر ہیں۔ بعض ذخائر کے اعتبار سے دنیا میں ہمارا پہلا نمبر ہے۔ تیل اور گیس کے ذخائر کو مجموعی طور پر دیکھا جائے تو دنیا میں ہم پہلی پوزیشن کے مالک ہیں۔ جن ممالک کے پاس تیل ہے یا گیس ہے اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ان ممالک میں ہمارے تیل اور گیس کے ذخائر زیادہ ہیں۔ کلیدی اور اہم ترین معدنیات اور ذخائر کے لحاظ سے ہمارا ملک ایک مالدار ملک ہے۔ افرادی قوت کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ہمارے پاس ساڑھے سات کروڑ کی آبادی ہے۔ یہ آبادی بھی بہت اہم عنصر ہے۔ میں یہیں پر یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ ملک کی نوجوان، اعلی تعلیم یافتہ اور جوش و نشاط سے سرشار آبادی اس وقت ملک کا بہت اہم عنصر اور سرمایہ ہے۔ یہی اعداد و شمار جو سامنے آتے ہیں ان میں آپ پرجوش، شاداب، بیدار اور اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں کے کلیدی کردار کو نمایاں طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ ہمیں فیملی پلاننگ یا خاندانی منصوبہ بندی کی پالیسی پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی زمانے میں خاندانی منصوبہ بندی کی پالیسی صائب اور مناسب پالیسی تھی، اس کے کچھ معینہ اہداف تھے۔ اس شعبے سے تعلق رکھنے والے ماہر اور باخبر محققین نے جو تحقیق کی اور جو رپورٹ تیار کی اس کے مطابق ہم سنہ انیس سو بانوے میں ان اہداف کو حاصل کر چکے ہیں جو خاندانی منصوبہ بندی کے لئے معین کئے گئے تھے۔ ہمیں انیس سو بانوے کے بعد سے اپنی اس پالیسی میں تبدیلی کرنا چاہئے تھی، ہم سے یہ غلطی ہوئی کہ ہم نے اپنی یہ پالیسی نہیں بدلی۔ اب ہمیں اس غلطی کا تدارک کرنا چاہئے۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ ملک میں نوجوان نسل کی پرکشش اور خوبصورت اکثریت، اقلیت میں تبدیل ہو جائے۔ اگر ہم اسی موجودہ روش پر چلتے رہے تو یہ اکثریت ختم ہو جائے گی۔ یہ ماہرین کی تحقیق اور مطالعے سے سامنے آنے والی رپورٹ ہے۔ یہ خطابت کے نکتے نہیں، یہ ماہرانہ علمی تحقیق کی رپورٹ ہے۔ اگر ہم اسی نہج پر چلتے رہے تو آئندہ چند برسوں میں ہماری نوجوان نسل کم ہو جائے گی۔ آج ہماری آبادی کا بیشتر حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے جو رفتہ رفتہ ضعیفی کی جانب بڑھے گا۔ چند سال گزرنے کے بعد ملک کی آبادی میں کمی ہوگی، کیونکہ آبادی میں اگر بوڑھوں کی اکثریت ہو تو تولد و پیدائش کی شرح میں کمی آتی ہے۔ اندازوں اور تخمینوں کی بنیاد پر ایک وقت ایسا آ سکتا ہے جب ہماری آبادی موجودہ آبادی سے کم ہوگی۔ یہ خطرناک صورت حال ہے۔ اس پر ملک کے حکام کو سنجیدگی سے توجہ دینے اور اس کا تدارک کرنے کی ضرورت ہے۔ خاندانہ منصوبہ بندی کی پالیسی پر حتمی طور پر نظر ثانی ہونا چاہئے اور درست فیصلہ کیا جانا چاہئے۔ نسل کے اضافے کا موضوع بہت اہم اور کلیدی ہے جس پر ملک کے تمام ذمہ دار افراد، یعنی صرف سرکاری حکام نہیں بلکہ علماء اور صاحبان منبر کو بھی کام کرنے اور ماحول سازی کی ضرورت ہے۔ صرف ایک بچہ یا دو بچوں پر اکتفاء کرنے کا جو رواج ہے اسے ملک میں ختم کرنا چاہئے۔ امام خمینی نے پندرہ کروڑ اور بیس کروڑ کی آبادی کی بات کہی تھی اور آپ نے بالکل بجا فرمایا تھا۔ ہمیں اس تعداد تک خود کو پہنچانا چاہئے۔
ایک حقیقت یہ ہے کہ ہم نے جب بھی دشمن محاذ کے مقابلے میں نرمی دکھائی یا مختلف توجیہات کی بنیاد پر پسپائی اختیار کی، مثلا کبھی ہم نے یہ کہا کہ چلو یہ کر لیتے ہیں تا کہ دشمن کے پاس کوئی بہانہ نہ رہے، کبھی کہا کہ اپنے بارے میں دشمن کی بدگمانی کو دور کر دیا جائے، تو دشمن نے جواب میں اور بھی گستاخانہ موقف ہمارے خلاف اختیار کیا۔ جس زمانے میں ہمارے ملک کے حکام کے لہجے میں مغرب اور مغربی ثقافت کے تعلق سے تملق اور چاپلوسی کا انداز پیدا ہو گیا تھا، اسی زمانے میں دشمن نے ہمیں شیطنت کا محور کہا تھا! کس نے یہ فرمایا تھا؟ اس شخص نے جو خود شیطنت کا مجسمہ تھا۔ سراپا شیطنت امریکا کے سابق صدر نے اسلامی جمہوریہ ایران کو شیطنت کا محور کہا تھا! ایسا کب ہوا تھا؟ اس وقت ہوا تھا جب ہمارے بیانوں میں، ہمارے اظہار خیال میں، مغرب کے لئے اور امریکا کے لئے تملقانہ انداز پیدا ہو گیا تھا اور ہم یہ بیان بار بار دے رہے تھے۔ یہ لوگ اس قماش کے ہیں۔ اسی ایٹمی مسئلے میں جب ہم ان کی ہمراہی کر رہے تھے، ہم نے اپنے موقف سے پسپائی اختیار کر لی تھی، وہ اور بھی چڑھے چلے آ رہے تھے، یہ ہمارے لئے ایک تجربہ ہو گیا، یہ عین حقیقت ہے۔ نوبت یہ ہوئی کہ وہ ہماری جان کو آ گئے۔ تب میں نے اسی امام بارگاہ میں اعلان کیا کہ اگر ان کا یہ رویہ اسی طرح جاری رہا تو میں خود اس قضیئے میں مداخلت کروں گا۔ پھر مجھے مداخلت کرنا پڑی، میں مجبور ہو گیا، یہ میرا کام نہیں تھا۔
آپ نرمی دکھائیے اور ان کے سامنے پسپائی اختیار کر لیجئے تو وہ اور بھی گستاخ ہو جاتے ہیں، ان کے مطالبات بڑھ جاتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ ہمارے ملک کے حکام ملک کے اندر صرف پچیس سنٹری فیوج مشین چلانے کی اجازت مانگ رہے تھے۔ مغربی ممالک نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا۔ ہمارے حکام نے اپنے موقف سے پسپائی اختیار کی اور پانچ سنٹری فیوج مشینوں کا مطالبہ شروع کر دیا۔ انہوں نے اس کی بھی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ ہمارے حکام نے تین سنٹری فیوج مشینیں چلانے کی اجازت مانگی انہوں نے اس سے بھی منع کر دیا۔ آج آپ نے رپورٹ سنی کہ ہمارے پاس گیارہ ہزار سنٹری فیوج مشینیں ہیں۔ اگر ہم وہ پسپائی وہ عقب نشینی جاری رکھتے تو آج ایٹمی پیشرفت کا کوئی نام و نشان نہ ہوتا، ملک کے اندر گزشتہ چند برسوں میں جو علمی رونق پھیلی ہے وہ بھی نہ ہوتی۔ یہ علمی تحریک، یہ نوجوان، یہ اختراعات، یہ ایجادات، مختلف شعبوں میں یہ ترقی یقینا متاثر ہوتی۔ کیونکہ دشمن ان میں سے ہر شعبے کے لئے کوئی نہ کوئی شیطنت ضرور کرتا، دوسری بات یہ ہے کہ ایٹمی صنعت میں ترقی در حقیقت کسی بھی ملک کی پیشرفت کا آئینہ اور مظہر ہے۔ تو یہ بھی یہ زمینی سچائی ہے۔
ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ اگر ہمارا ملک دشمن کے دباؤ اور سخت گیرانہ انداز کو دیکھ کر ان پابندیوں اور دیگر سختیوں کو دیکھ کر بھی اپنی مدبرانہ مزاحمت و استقامت کو ترک نہ کرے تو نہ صرف یہ کہ دشمن کے یہ حربے کند ہو جائیں گے بلکہ آگے چل کر ان حربوں کو دوبارہ استعمال کرنے کے امکانات سرے سے معدوم ہو جائیں گے۔ کیونکہ یہ ایک گزرگاہ ہے، یہ ایک عبوری دور ہے، ملک اس گزرگاہ اور اس دور سے گزر جائے گا۔ یہ جو آج دھمکیاں دی جا رہی ہیں، یہ جو پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں اس کا فائدہ امریکا اور صیہونی حکومت کے علاوہ کسی کو ملنے والا نہیں ہے۔ دوسرے ملکوں کو انہوں نے طاقت کے زور پر، دباؤ ڈال کر یا کسی اور طریقے سے اس میں گھسیٹا ہے۔ ظاہر ہے کہ رواداری، دباؤ اور زبردستی کا سلسلہ زیادہ دنوں تک جاری نہیں رہ سکتا۔ یہ محدود وقت کی چیزیں ہیں۔ اس کی دلیل یہی ہے کہ وہ بیس ملکوں کو ان پابندیوں سے مستثنی کرنے پر مجبور ہو گئے۔ جو ممالک مستثنی نہیں کئے گئے ہیں ان کی ہم سے زیادہ یا جتنا ہم چاہتے ہیں اتنی ہی ان کی بھی خواہش ہے کہ کوئی راہ حل نکل آئے۔ لہذا ہمیں استقامت کرنا چاہئے۔ یہ نمایاں حقائق ہیں۔ یہ جو باتیں میں نے عرض کیں یہ حقائق ہیں، اندازے اور تخمینے نہیں ہیں، یہ تحلیل نفسی اور تصویر خیالی نہیں ہے، یہ ایسی چیزیں ہیں جن کا ہم اپنی آنکھ سے مشاہدہ کر رہے ہیں۔
البتہ ان حقائق کے ساتھ ہی یہ زمینی سچائی بھی ہے کہ ہم اپنے کام میں اور خود اپنے اندر وہ ضروری اسلامی انداز پیدا نہیں کر سکے ہیں۔ ہم کہیں کہیں تساہلی کر رہے ہیں، یہ ملک پر آمرانہ دور اور استبدادی نظام کے تسلط کے زمانے سے ملنے والا ورثہ ہے۔ جب ملک کے اندر ڈکٹیٹر شپ ہو تو عوام سست پڑ جاتے ہیں۔ استعداد اور صلاحیتوں کو میدان عمل میں اپنے جوہر دکھانے کا موقعہ نہیں مل پاتا۔ تو یہ استبدادی دور کی میراث ہے جو اب تک ہمارے اندر باقی رہ گئی ہے۔ ہمیں تساہلی چھوڑ دینی چاہئے۔ معاشرے کے ہر شعبے میں نئے نئے اقدامات کا جوکھم اٹھانے اور خطرہ مول لینے کا سلسلہ شروع نہیں ہوا ہے۔ ہمیں اللہ پر توکل کرتے ہوئے اور ضروری تدبر اور فہم و شعور کے ساتھ خود کو خطرہ مول لینے کے لئے تیار کرنا چاہئے۔ یہ کام ہم سب کو کرنا چاہئے۔
البتہ موجودہ حالات کے سلسلے میں میں عرض کر چکا ہوں کہ یہ بدر و خیبر کے حالات ہیں، بدر و خیبر کے حالات سے مراد یہ ہے کہ چیلنج ہیں، مشکلات کا سامنا ہے، لیکن راستہ مسدود نہیں ہے۔ جنگ بدر میں وسائل بہت محدود تھے لیکن پھر بھی غلبہ حاصل ہو گیا، دشمن کے وسائل سپاہ اسلام کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ تھے ان کا آپس میں کوئی مقابلہ ہی نہیں تھا۔ خیبر میں بھی سختیاں تھیں، سپاہ اسلام وہاں جاکر ایک مدت تک خیمہ زن رہا، دشمن کی مزاحمت شدید تھی، لیکن سپاہ اسلام کو فتح ملی۔ تو چیلنج بیشک موجود ہے، لیکن اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کی ہماری قوت و طاقت اور استعداد و صلاحیت بھی کم نہیں ہے۔ بدر و خیبر کے حالات سے یہ مراد ہے۔ اگر ہم اپنی ان صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہیں، اگر ہم اپنی خامیاں دور کر لیتے ہیں تو ہم یقینا پیشرفت حاصل کریں گے۔
وقت تمام ہوا چاہتا ہے، میں اپنے معروضات کے آخری حصے میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ برادران و خواہران عزیز! عہدیداران محترم! ہمیں ملکی امور کو اس زاویہ نگاہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہماری امنگیں اور اعلی اہداف ہماری نگاہوں کے سامنے ہمیشہ رہیں! تحریک اور ترغیب دلانے والے حقائق ہمیشہ ہمارے پیش نظر رہیں! ہمیں منفی سوچ پیدا کرنے والے حقائق کے جال میں نہیں پھنسنا چاہئے جو بسا اوقات نمائشی حقیقت کے علاوہ کچھ اور نہیں ہوتے۔ البتہ ہمیں دشمن کی طاقت کو کم بھی نہیں سمجھنا چاہئے، سادہ لوحی اور سطحی فکر سے گریز کرنا چاہئے۔ یہ بہت اہم اور اساسی مسئلہ ہے۔ آپ ایک ریاضی داں کی مانند جو ریاضیات کی کوئی اہم گتھی سلجھانا چاہتا ہے اس معاملے میں دلجمعی کے ساتھ اپنی کوشش کیجئے۔ آپ لیاقت مند ریاضیداں ہیں اور آپ کے سامنے ریاضی کا یہ اہم مسئلہ ہے۔ مختلف مسائل کو اس نگاہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ خوشی کا مقام ہے کہ ہم مختلف شعبوں میں یہی طرز فکر دیکھ رہے ہیں۔ معاشی مسئلے کو بھی اسی نقطہ نگاہ سے دیکھنا چاہئے۔
ہم نے چند سال قبل مزاحمتی معیشت کا نظریہ پیش کیا۔ جو افراد مختلف امور پر گہری نظر رکھتے ہیں وہ پہلے ہی بھانپ چکے تھے کہ دشمن ہمارے ملک پر اقتصادی دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ پہلے ہی اس کا اندازہ ہو گيا تھا اور منصوبوں سے ثابت ہو چکا تھا کہ دشمن کے نشانے پر ہمارے ملک کی معیشت ہے۔ ہمارے ملک کی معیشت ان کے لئے بہت اہم نشانہ ہے۔ دشمن کا منصوبہ یہ تھا کہ ہماری معیشت کو نشانہ بنائے، ہماری قومی پیداوار کو نقصان پہنچائے، روزگار کو نقصان پہنچائے، جس کے نتیجے میں قوم کے رفاہی امور مشکلات سے دوچار ہو جائیں، لوگ دل برداشتہ ہو جائیں اور اسلامی نظام سے کنارہ کشی کر لیں۔ دشمن کی جانب سے معاشی دباؤ کا مقصد یہ ہے۔ یہ چیز پہلے ہی محسوس کر لی گئي تھی اور ہم اس کی تشخیص دینے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ میں نے سنہ تیرہ سو چھیاسی ہجری شمسی کے آغاز پر فرزند رسول حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے روضہ اقدس میں اپنی تقریر میں کہا تھا کہ دشمن ہماری معیشت پر نظریں گاڑے ہوئے ہے، اس کے بعد ہم نے ہر سال کے لئے (معیشت پر استوار) جو نعرے معین کئے اس سے کوئي بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ یہ مکمل نظام کی الگ الگ کڑیاں تھیں۔ معیار صرف کی اصلاح کا نعرہ اسراف اور فضول خرچی سے اجتناب کے لئے تھا۔ بلند ہمتی اور زیادہ محنت کا نعرہ اقتصادی جہاد کے تحت تھا۔ اس سال ایرانی کام اور سرمائے کی حمایت اور قومی پیداوار کا نعرہ ہے۔ ہم نے یہ نعرے محدود وقت کے لئے نہیں پیش کئے بلکہ یہ ایسے نعرے ہیں جو معاشی شعبے میں ملک کی عمومی حرکت کو صحیح سمت و جہت عطا کرتے ہیں۔ یہ ہمیں آگے لے جا سکتے ہیں ۔ ہمیں اسی راستے پر چلنا ہے۔
معیشت کا مس‍ئلہ بہت اہم ہے۔ مزاحمتی معیشت بہت اہم ہے۔ البتہ مزاحمتی معیشت کے کچھ تقاضے اور لوازمات ہیں۔ معیشت کو زیادہ سے زیادہ عوامی سطح پر لانا مزاحمتی معیشت کا اہم اصول ہے۔ آئین کی دفعہ چوالیس کی (نجکاری سے متعلق) جن پالیسیوں کا اعلان کیا گيا ہے ان سے ایک انقلاب آ سکتا ہے۔ اور ایسا ضرور ہونا چاہئے۔ کچھ کام ہوا ہے لیکن مزید محنت اور لگن سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پرائيویٹ سیکٹر کو تقویت پہنچانے کی ضرورت ہے، معاشی سرگرمیوں کو بھی فروغ دینے کی ضرورت ہے، بینکنگ سسٹم کو بھی مضبوط بنانے کی ضرورت ہے، ملک کے سرکاری اداروں کو، مددگار ثابت ہونے والے دیگر محکموں جیسے عدلیہ، مقننہ اور مجریہ کو چاہئے کہ مدد کریں اور عوام کو معاشی میدان میں پہنچائیں۔ مزاحمتی معیشت کا ایک اور تقاضہ تیل کی آمدنی پر انحصار میں کمی لانا ہے۔ یہ گزشتہ سو سالہ اقتدار کی بدبختانہ میراث ہے جو ہمیں ملی ہے۔ آج اگر ہم دستیاب موقعہ کا بھرپور استفادہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور دیگـر نفع بخش اقتصادی سرگرمیوں سے ہونے والی آمدنی کو تیل کی آمدنی کی جگہ پر لانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو گویا ہم نے معاشی شعبے میں بہت بنیادی اور اساسی کام انجام دیا ہے۔ آج نالج بیسٹ انڈسٹریز کی روش بھی اس خلاء کو کافی حد تک پر کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔ ملک کے اندر بے پناہ صلاحیتیں موجود ہیں جن سے اس خلاء کو بھرا جا سکتا ہے۔ ہمیں اپنی ہمت اور قوت ارادی اس نکتے پر مرکوز کرنا چاہئے۔ بیرونی دنیا پر اپنے انحصار کو جہاں تک ممکن ہو کم کرنا چاہئے۔ اخراجات اور اشیاء کے استعمال پر کنٹرول مزاحمتی معیشت کا بنیادی اصول ہے۔ یعنی اخراجات میں اعتدال پسندی کو اختیار کیا جائے اور اسراف و فضول خرچی سے اجتناب کیا جائے۔ سرکاری ادارے، غیر سرکاری ادارے، عوام الناس اور خاندانوں سب کو چاہئے کہ اس مسئلے پر توجہ دیں کہ یہ عمل حقیقی معنی میں جہاد ہے۔ معروضی حالات میں اسراف سے پرہیز اور اشیاء کے استعمال میں اعتدال پسندی دشمن کے مقابل واقعی مجاہدانہ فعل ہے۔ یہ دعوی بالکل بجا ہے کہ اس عمل کا ثواب جہاد فی سبیل اللہ کا ثواب ہے۔ اخراجات اور صرف میں اعتدال پسندی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہم داخلی مصنوعات کے استعمال کو ترجیح دیں۔ اس پر تمام حکومتی اداروں کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مجریہ، مقننہ اور عدلیہ تینوں سے وابستہ تمام محکمے تہیہ کر لیں کہ غیر ایرانی اشیاء کا ہرگز استعمال نہیں کریں گے۔ عوام الناس بھی داخلی مصنوعات کو امپورٹڈ اشیاء پر ترجیح دیں۔ بعض افراد واقعی صرف نمائش کے لئے، دکھاوے کے لئے، خود نمائی کے لئے امپورٹڈ اشیاء کا استعمال کرتے ہیں۔ عوام الناس کو چاہئے کہ غیر ملکی اشیاء کے استعمال کا راستہ وہ خود بند کر دیں۔
میں اس سے اتفاق کرتا ہوں کہ مزاحمتی معیشت سے متعلق منصوبے کارساز واقع ہوں گے۔ پٹرول کی راشننگ کا منصوبہ جس کا ذکر کیا گيا کارساز واقع ہوا۔ اگر راشننگ نہ کی گئی ہوتی تو آج ملک میں پیٹرول کا استعمال دس کروڑ لیٹر یومیہ سے زیادہ ہوتا۔ اس کو کنٹرول کر لیا گیا اور نتیجے میں آج ایندھن بہت مناسب حد میں استعمال ہو رہا ہے۔ ہمیں اس مقام پر پہنچنا تھا کہ باہر سے پیٹرول خریدنے کی کوئی ضرورت باقی نہ رہے اور بحمد اللہ آج ہم اس مقام پر پہنچ چکے ہیں۔ دشمن پیٹرول پر پابندی عائد کرنا چاہتے تھے، مزاحمتی معیشت کے منصوبے نے اس پیٹرول کی پابندی کو ناکام بنا دیا۔ اسی طرح ملک کی ضرورت کی جو دیگر اشیاء ہیں۔ سبسیڈی کی منصفانہ تقسیم کا منصوبہ ملکی معیشت کو بہترین شکل اور پیرائے میں لانے کا منصوبہ ہے۔ اس سے اقتصادی رونق بڑھے گی۔ پیداوار کے شعبے میں بھی اور روزگار کے مواقع ایجاد کرنے کے شعبے میں بھی۔ اس منصوبے سے رفاہی امور کی صورت حال بہتر ہوگی، یہ قومی پیداوار کے نمو کا باعث ہے، اقتصادی رشد و ارتقاء کی بنیاد ہے، ملک کی قوت و طاقت میں اضافے کا راستہ ہے۔ قومی پیداوار میں نمو کے نتیجے میں دنیا میں ملک کی طاقت بڑھتی ہے اور اس کی عالمی ساکھ بہتر ہوتی ہے۔ یہ کام انجام دیا جانا چاہئے۔
وقت، وسائل اور امکانات کا بھرپور استعمال؛
دستیاب وقت سے حد اکثر استفادہ کرنا چاہئے۔ ایسے منصوبے جن میں برسوں کا وقت درکار ہوتا ہے بحمد اللہ اس وقت ہم دیکھ رہے ہیں کہ بہت محدود مدت میں پورے ہو رہے ہیں، کوئی کارخانہ دو سال میں، کوئی اٹھارہ مہینے میں کام شروع کر رہا ہے۔ ملک کے اندر اس سلسلے کو تقویت پہنچانے کی ضرورت ہے۔
منصوبے کے تحت اقدامات کرنا بھی کلیدی چیز ہے۔ آنا فانا میں کئے جانے والے فیصلے اور قوانین کی بار بار تبدیلی مزاحمتی معیشت پر ضرب لگانے والی چیزیں ہیں اور اس سے قوم کی استقامت بھی متاثر ہوتی ہے۔ اس پر حکومت اور پارلیمنٹ دونوں کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ وہ ملکی معیشت سے متعلق پالیسیوں کو بے نتیجہ تبدیلیوں کے ذریعے کبھی بھی تذبذب اور غیر یقینی صورت حال سے دوچار نہ ہونے دیں۔
ایک اور اہم مسئلہ اتحاد و ہمدلی کا ہے۔ ملک کے اندر الحمد للہ عوام متحد ہیں۔ یہ بہت بڑی نعمت ہے۔ اس کی حفاظت و پاسداری کرنا چاہئے، اسے ضائع نہیں ہونے دینا چاہئے۔ یہ اختلافات جو بعض اوقات ملک کے حکام کے اندر پیدا ہو جاتے ہیں اور بلا وجہ میڈیا میں اچھالے جاتے ہیں، ان سے قومی اتحاد متاثر ہوتا ہے۔ کچھ لوگ ایک فریق کے طرفدار بن جاتے ہیں اور کچھ دیگر دوسرے فریق کی حمایت کرنے لگتے ہیں، ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی کرتے ہیں۔ کچھ لوگ حکومت کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں، کچھ مقننہ کو کٹہرے میں کھڑا کر دیتے ہیں، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ غلطی عدلیہ کی ہے۔ غلطی ایک دوسرے کے سر ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ بہت خطرناک چیز ہے۔ ہمارے محترم دوستوں کو، ملک کے عہدیداروں کو یاد رکھنا چاہئے کہ اس سے عوام کے اندر کوئی اچھا پیغام نہیں جاتا کہ ہم مشکلات اور خامیوں کو کبھی کسی کے سر اور کبھی کسی اور کے سر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ درست نہیں ہے۔ مشکلات موجود ہیں تو ان کا حل تلاش کرنا چاہئے۔ ہم انہیں حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہم اپنی مشکلات کے حل کے سلسلے میں نااہل نہیں ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ یہ ملک کے زمینی حقائق ہیں جو ہماری نگاہوں کے سامنے ہیں۔
ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالی اس مہینے اور ان ساعتوں کی برکت سے ہمارے عزیز عوام اور ملک کے حکام پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔
پروردگارا! محمد و آل محمد کا صدقہ ملت ایران کو، ہمارے عوام کو، ملک کے حکام کو اس مہینے کی برکتوں سے کما حقہ مستفیض فرما۔ پالنے والے! محمد و آل محمد کا صدقہ ملت ایران کو اور اسلامی جمہوری نظام کو تمام میدانوں میں دشمنوں پر فتحیاب و کامران فرما۔ پالنے والے! ہمارے دلوں کو غلط جذبات اور نادرست احساسات سے پاک و مبرا رکھ۔ پالنے والے! حضرت بقیۃ اللہ امام زمانہ علیہ السلام کی دعائیں ہمارے شامل حال رکھ۔ ہمیں حضرت کی دعاؤں کے لائق بنا۔ پالنے والے! ہم نے جو کچھ کہا، جو کچھ انجام دیا اور جو کچھ سنا اسے اپنی راہ میں قرار دے اور اسے اپنی نظر کرم سے قبول فرما۔
والسّلام عليكم و رحمةاللّه و بركاته‌

۱) مریم: ۳۹
۲) مریم: ۳۹