19 دی 1393 ہجری شمسی مطابق 9 جنوری 2015 عیسوی کو ہونے والی اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا: پیغمبر ختمی مرتبت کی تعظیم اور قدردانی صرف لفظوں اور گفتگو تک محدود نہیں رہنی چاہئے بلکہ آنحضرت کے اتحاد و یکجہتی کے پیغام پر عملدرآوری تمام اسلامی ممالک اور مسلم اقوام کی اولین ترجیح ہونا چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس عظیم دن کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے میلاد پیغمبر اکرم کو علم و خرد، اخلاق، رحمدلی اور وحدت و یگانگت کی نئی شروعات قرار دیتے ہوئے فرمایا: ان عمیق اور تقدیر ساز مفاہیم کو عملی شکل دینا عہدیداروں، سیاستدانوں، علما اور دانشوروں کی بہت اہم ذمہ داری ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے علاقے کے بعض ممالک کی خارجہ پالیسی کے ایران دشمنی پر مرکوز ہو جانے کو بہت بڑی بھول قرار دیا اور فرمایا کہ ان غیر عاقلانہ پالیسیوں کے برخلاف اسلامی جمہوریہ ایران بدستور علاقے کی حکومتوں سمیت تمام مسلم ممالک کے ساتھ دوستی و برادری کی بنیاد پر اپنی خارجہ پالیسی کو آگے بڑھاتا رہے گا۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم ‌الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم (۱)

حضرت نبی اکرم اور امام جعفر صادق علیہما الصلاۃ و السلام کے یوم ولادت با سعادت کی تمام حاضرین کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ملک کے اعلی حکام تشریف فرما ہیں، ہفتہ وحدت (کانفرنس) کے محترم مندوبین موجود ہیں، اسلامی ملکوں کے محترم سفراء بھی نشست میں تشریف رکھتے ہیں۔ آپ سب کو اس عظیم و بابرکت عید کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اسی طرح میں تمام ملت ایران، مسلم امہ، مسلمان اقوام، دنیا کے تمام حریت پسندوں کو جن کی نظر میں انسانیت و آزاد منش زندگی کی اہمیت ہے، تبریک و تہنیت پیش کرتا ہوں کیونکہ یہ دن علم کا پیغام لانے والے کی ولادت کا دن ہے، عقل و خرد کا پیغام لانے والے کی ولادت کا دن ہے، اخلاقیات کے پیغام سنانے والے کی ولادت کا دن ہے، نبی رحمت، پیغمبر وحدت اور اعلی انسانی خصائل کا تحفہ پیش کرنے والے کی ولادت کا دن ہے۔ جو بھی ان اعلی انسانی خصلتوں سے لگاؤ رکھتا ہے، وہ پیغمبر اسلام سے عقیدت بھی رکھتا ہے، آنحضرت سے محبت بھی کرتا ہے۔
ہم اور آپ اور اسی طرح وہ مسلمان جو اس عظیم ہستی کے نقش قدم پر چلنے کے دعویدار ہیں، اس پر ہم فخر بھی کرتے ہیں اور اس راہ میں استقامت کا مظاہرہ کرنے اور جان و مال قربان کر دینے پر آمادہ ہیں، سب کے لئے لازمی ہے کہ خود کو ان تعلیمات کا، جو اسلام کے پیغام سے ہمیں ملی ہیں یعنی علم و عقل و حکمت و وحدت، انسانی خصائل اور رحمدلی کی تعلیم کو جن پر پیغمبر اسلام کا پیغام استوار ہے اور حضرت ابو عبد اللہ جعفر بن محمد الصادق علیہ الصلاۃ و السلام نے جن کی ترویج اور جنہیں عملی جامہ پہنانے کے لئے انتہائی وسیع پیمانے پر کوششیں کیں، پیروکار سمجھیں اور ان کے لئے محنت کریں۔ یہ آج تمام مسلمانوں کا فرض ہے۔ بیشک ملکوں میں عوام اپنے حکام کے راستے پر چلتے ہیں۔ لہذا اس سلسلے میں بنیادی ذمہ داری حکومتوں، رہنماؤں، دانشوروں، علماء اور سیاستدانوں کے دوش پر عائد ہوتی ہے۔ آج جب میں اپنے اسلامی معاشرے اور اسلامی دنیا کے مسائل کا جائزہ لیتا ہوں تو یہ نظر آتا ہے کہ عالم اسلام کی جو سب سے اہم اور اولیں ترجیح ہے وہ اتحاد و یکجہتی ہے۔ بیشک دوسرے بھی اہم امور ہیں جن کی عالم اسلام کو ضرورت ہے، مثال کے طور پر علم اہم ہے، فکر و تدبر اہم ہے، اخلاقیات اہم ہیں، (مگر اتحاد سب سے بڑی ضرورت ہے۔ ہم مسلمان ایک دوسرے سے بہت دور ہو گئے ہیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس سلسلے میں جو پالیسیاں اختیار کی گئیں وہ کامیاب رہیں اور مسلمانوں کو، مسلم جماعتوں کے دلوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنے میں کامیاب رہیں۔ آج ہمیں اتحاد کی سخت ضرورت ہے۔
اگر اس طویل و عریض علاقے میں اسلامی ملکوں میں آباد اقوام جو دنیا کی کل آبادی کے خاصے بڑے حصے پر مشتمل ہیں، تفصیلات اور تمام جزوی باتوں میں نہ سہی صرف کلی موقف اور کلی سمت و جہت میں ایک دوسرے کے ہمراہ ہو جائیں، تو عالم اسلام اوج ثریا پر پہنچ جائے گا۔ اگر کلی مسائل میں ہی وہ ایک ساتھ کھڑی نظر آئیں تو یہی ایک ساتھ کھڑا ہونا بھی حد درجہ موثر واقع ہوگا۔ اگر اسلامی ممالک کے سربراہان یا مفکرین و دانشور ایک دوسرے کے خلاف بیان دیں، صرف الفاظ کی حد تک، تب بھی اس سے دشمن کی جرئت بڑھتی ہے، اس کے اندر امید پیدا ہوتی ہے، آج یہی حقیقت امر ہمارے سامنے ہے۔ اگر بیانات کی حد تک بھی ہم ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے دکھائی دیں تو اس سے عالم اسلام کی عظمت بڑھے گی، اس سے امت اسلامیہ کے تشخص کا وقار بڑھے گا۔ ہم نے جہاں بھی اس اجتماعیت کے نمونوں کا مشاہدہ کیا ہے، و لو یہ اجتماع صرف لوگوں کے جسمانی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہو جانے کی حد تک ہو تب بھی دنیا میں اس کا انعکاس اسلام اور مسلمانوں کے وقار کا باعث بنا ہے، اس سے آنحضرت کا شکوہ بڑھا ہے۔ جب ہم نماز عید پڑھتے ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں اور ایک آواز ہوکر کہتے ہیں۔:اَلَّذی جَعَلتَهُ لِلمُسلِمینَ عیداً وَ لِمُحَمَّدٍ صلّی‌الله‌علیه‌وآله ذُخراً وَ شَرَفاً وَ کَرامَتاً وَ مَزیداً؛(۲) تو نماز میں لوگوں کا جسمانی طور پر ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑا ہو جانا بھی پیغمبر اکرم کے لئے باعث شوکت و عزت ہے، اس سے امت اسلامیہ کا اعزاز و احترام بڑھتا ہے۔ حج کا اجتماع بھی اسی طرح ہے۔ اس سال آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ 'اربعین حسینی' میں دسیوں لاکھ انسان ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے نظر آئے۔ خود یہ عظیم اجتماع، مسلمانوں کا بڑی تعداد میں جمع ہو جانا، اس میں صرف شیعہ نہیں تھے اہل سنت بھی شامل تھے، دنیا بھر میں اس کی گونج سنی گئی، لوگوں نے اس کی تعظیم کی، اسے پرشکوہ قرار دیا، دنیا کا سب سے عظیم اجتماع قرار دیا۔ کن لوگوں نے؟ ان لوگوں نے جو اسلامی امور اور تغیرات پر ہمیشہ نظر رکھتے ہیں۔
میں یہیں پر مناسب سمجھتا ہوں بلکہ ضروری سمجھتا ہوں کہ اس عظیم اجتماع کا ذکر آ گیا ہے تو عراق کی حکومت، عراق کے عوام اور عراق کے قبائل کا شکریہ ادا کر دوں جنہوں نے اس عظیم امتحان میں، فداکاری و قربانی، بزرگی اور پرتپاک خدمت کی مثال قائم کر دی۔ واقعی عجیب واقعہ ثابت ہوا، اس سال کربلا کا چہلم بڑا حیرت انگیز رہا۔ دشمنان اسلام اور دشمنان اہل بیت نے بخیال خویش اس راستے کو مسدود کر دیا تھا۔ مگر آپ دیکھئے کہ کیسا عظیم منظر نمودار ہوا! تو اگر صرف جسمانی طور پر لوگ ایک جگہ جمع ہو جائیں تو ایسے عظیم مناظر وجود میں آتے ہیں۔ اگر ہم ایک ساتھ ہو جائیں، اسلامی ممالک، مسلم اقوام، سنی و شیعہ اسی طرح اہل سنت اور اہل تشیع کے گوناگوں فرقے ایک دوسرے کی طرف سے دل صاف کر لیں، ایک دوسرے کے بارے میں بدگمانی نہ رکھیں، سوء ظن نہ رکھیں، ایک دوسرے کی توہین نہ کریں تو پھر دیکھئے کہ دنیا میں کیا انقلاب برپا ہوتا ہے، اسلام کا وقار کیسے بڑھتا ہے؟! اتحاد، اتحاد۔
آج اہل تسنن میں بھی اور شیعوں کے درمیان بھی، کچھ ہاتھ اپنا کام کر رہے ہیں کہ ان کو ایک دوسرے سے دور کر دیں، ان ہاتھوں پر اگر آپ نظر رکھئے تو سب کے تار دشمنان اسلام یعنی صرف دشمنان ایران نہیں، صرف دشمنان تشیع نہیں بلکہ دشمنان اسلام کے جاسوسی اداروں اور خفیہ ایجنسیوں سے جڑے نظر آئیں گے۔ جس شیعہ کا رابطہ برطانیہ کی 'ایم آئي6' سے ہو اور جس سنی کے تعلقات امریکا کی 'سی آئي اے' سے ہوں، وہ نہ تو شیعہ ہے اور نہ سنی۔ دونوں ہی اسلام کے دشمن ہیں۔ ہم اسلامی جمہوریہ ایران میں 35 سال سے یہی نعرہ لگا رہے ہیں اور صرف نعرہ نہیں لگا رہے ہیں بلکہ اس پر عمل بھی کر رہے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے عالم اسلام میں اپنے بھائیوں کی اب تک جو مدد کی ہے اس کا بیشتر حصہ سنی بھائیوں کو گيا ہے۔ ہم فلسطینیوں کی مدد کے لئے کھڑے ہو گئے، ہم نے علاقے کے ملکوں کے مومن عوام کی مدد کی، کیونکہ ہم جانتے تھے کہ اتحاد بین المسلمین کا مسئلہ اس وقت اسلامی دنیا کا سب سے بنیادی مسئلہ ہے۔ میں عالم اسلام کے علمائے کرام، دانشوروں اور سیاسی رہنماؤں سے سفارش کرتا ہوں، یہ تاکید کرتا ہوں کہ اتنی تفرقے کی باتیں نہ کریں۔ دنیا میں کچھ لوگ اسلاموفوبیا پھیلانے کے لئے پیسے خرچ کر رہے ہیں، دنیا میں اسلام کی مسخ شدہ تصویر پیش کرنے کی کوشش میں ہیں، ایسے حالات میں ہم آپس میں ایک دوسرے کی شبیہ خراب کرنے پر تل جائیں، لوگوں کو ایک دوسرے سے ہراساں کریں! یہ دانشمندی کے خلاف ہے، یہ سیاست کے تقاضوں کے خلاف ہے۔
میں نے سنا ہے کہ علاقے کی بعض حکومتوں نے اپنی خارجہ پالیسی ایران دشمنی پر استوار کر رکھی ہے! آخر کیوں؟ یہ تو خلاف عقل اقدام ہے، خلاف حکمت فعل ہے، یہ کام تو احمقانہ ہے۔ انسان کیوں اتنی بڑی غلطی کا ارتکاب کرے؟ ہم اس کے بالکل برعکس عمل کرتے ہیں، ہم نے اپنی خارجہ پالیسی کو تمام مسلم ممالک، علاقے کے ممالک، ہمسایہ و غیر ہمسایہ سب سے دوستانہ و برادرانہ تعلقات کی بنیاد پر وضع کیا ہے۔ یہ ہماری پالیسی ہے، ہم نے اسی روش پر کام کیا ہے، اور آئندہ بھی یہی روش جاری رہے گي۔ آج بحمد اللہ ملت ایران کے اندر یہ بصیرت، یہ شعور اور یہ ادراک پروان چڑھ چکا ہے کہ اس کے ملک کے مستقبل کی بہتری کا انحصار وحدت اسلامی، مسلم اقوام سے اتحاد اور دیگر ممالک سے دوستانہ تعلقات پر ہے۔ البتہ کچھ لوگ ہیں جو کوشش کرتے ہیں کہ رخنہ اندازی کریں، بدگمانی پیدا کریں، غلط وسوسے پیدا کریں لیکن بحمد اللہ ہمارے عوام اور ہماری قوم نے اس حقیقت کو بخوبی سمجھ لیا ہے۔ ہمارے عظیم الشان قائد (امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) نے اسلامی انقلاب کی فتح سے پہلے اور اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل کے بعد اتحاد بین المسلمین کا جو نعرہ لگایا اس نے اپنا اثر دکھایا، ہمارے عوام میں آگاہی پیدا ہوئی، یہ ذمہ داری سب کی ہے۔ آج دنیا کے گوشہ و کنار میں آباد تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ امت اسلامیہ کے موضوع پر غور کریں، اسلامی اتحاد کے بارے میں سوچیں۔ اگر ہم مسلم امہ کی فکر کریں گے تو ہمارے اپنے اپنے ملکی مفادات بھی پورے ہوں گے۔ دشمن کی کوشش یہ ہے کہ ہمیں ایک دوسرے سے الگ رکھے، ایک ملک پر حملہ کرے اور اس حملے میں دوسرے کی مدد لے، دشمن کی مصلحت اس میں ہے، ہمیں چاہئے کہ ہم ایسا نہ کرنے دیں۔ دشمن کون ہے؟ دشمن امریکی سرمایہ دارانہ نظام اور عالمی استکبار ہے اور اس عالمی استکبار میں سب سے اوپر امریکا اور صیہونی ہیں، صیہونی عناصر اور مقبوضہ فلسطین میں موجود صیہونی حکومت اس خطرناک نیٹ ورک اور مہلک سرطان کا ایک جز ہے جسے صیہونیوں نے عالمی سطح پر تشکیل دیا ہے۔ ان کے مقابلے میں ہمیں ڈٹ جانا چاہئے۔ ان کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیں اسلام کا سہارا لینا چاہئے، قرآن کی تعلیمات سے رجوع ہونا چاہئے۔
بعض باتیں دیکھنے میں آتی ہیں، کچھ تحریریں دکھائی پڑتی ہیں، لوگ بعض باتیں کہتے ہیں اور لکھتے ہیں جن میں قرآنی آیات پر توجہ نہیں دی جاتی ہے۔ قرآن تو فرماتا ہے: «قولوا ءامَنّا بِاللهِ وَ مآ اُنزِلَ اِلَینا وَ ما اُنزِلَ اِلی‌ اِبرهیمَ وَ اِسمعیلَ وَ ... و ما اوتِیَ موسی و عیسی‌ و ما اوتِیَ‌ النَّبیّون»،(۳) تمام گزشتہ شریعتوں کا ذکر کرنے کے بعد جن پر ایمان رکھنا مسلمان کا فرض ہے، ارشاد ہوتا ہے: فَاِن ءامَنوا بِمِثلِ مآ ءامَنتُم به‌ فَقَدِ اهتَدَوا.(۴) اسلام پلورلزم (کثرتیت) کو قبول نہیں کرتا۔ بعض لوگ جو اس فکر کی ترویج کرتے ہیں کہ اسلام نے چونکہ حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت موسی علیہ السلام کی تعظیم پر تاکید ہے لہذا وہ پلورلزم (کثرتیت) کا قائل ہے۔ انہیں چاہئے کہ قرآن سے رجوع ہوں، اسلامی متون کا مطالعہ کریں۔ غفلت میں اور لا علمی میں ایک بات کہہ جاتے ہیں۔ اسلام یہ ہے: فَاِن ءامَنوا بِمِثلِ مآ ءامَنتُم به‌ فَقَدِ اهتَدَوا وَ اِن تَوَلَّوا فَاِنَّما هُم فی شِقاقٍ فَسَیَکفیکَهُمُ الله؛(۵) یہ ہے قرآن کا مفہوم۔ اور پھر مسلمانوں کے درمیان «حَریصٌ عَلَیکم»؛(۶) پیغمبر اسلام کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے: «حَریصٌ عَلَیکم بِالمُؤمِنینَ رَءوفٌ رَحیم».(۷) مومنین کے لئے بڑی رحمدلی ہے۔ مگر اَشِدّاءُ عَلَی الکُفّارِ رُحَمآءُ بَینَهُم؛(۸) ان لوگوں کے مقابلے میں جو تم سے دشمنی کرتے ہیں اور تمہارے دشمن ہیں «اَشِدّاء» انتہائی سخت بنو، ریت کی طرح نرم نہ رہو کہ دشمن جہاں سے بھی چاہئے دراندازی کر لے۔ محکم رہو، مستحکم رہو۔ لیکن جب آپسی معاملہ ہو تو «رُحَمآءُ بَینَهُم»، ایک دوسرے کی طرف سے دل صاف رکھو، آپس میں مہربان رہو، نہ نام تمہیں ایک دوسرے سے الگ کرے، نہ سرحدیں تمہارے اندر جدائی ڈال سکیں، جغرافیائی سرحدیں تمہیں ایک دوسرے کا دشمن نہ بنا سکیں۔ یہ پیغمبر اکرم سے ملنے والا درس ہے۔ آج نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت کے دن بہت بہتر ہے کہ ہم سبق حاصل کریں، حضور اکرم کی صرف مدح کرنا اور نعت پڑھنا کافی نہیں ہے۔ ہمیں سبق لینا چاہئے، ہمیں وہ ہدف سمجھنا چاہئے جس کے لئے آنحضرت کو مبعوث برسالت کیا گيا اور پھر اس ہدف کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرنا چاہئے۔ میں نے عرض کیا کہ آج عالم اسلام کی سب سے اہم ترجیح ہے اتحاد۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو یہ توفیق دے کہ اپنی کہی ہوئی باتوں پر عمل بھی کریں۔ پالنے والے! عالم اسلام اور امت اسلامیہ کو روز بروز زیادہ سے زیادہ مستحکم اور سرفراز کر۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته

۱) قائد انقلاب اسلامی کی تقریر شروع ہونے سے قبل صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے چند اہم نکات بیان کئے۔
۲) الاقبال صفحہ 289 نماز عید الفطر کے قنوت کا ایک حصہ
۳) سوره‌ بقره، آیه‌‌۱۳۶کا ایک حصہ؛ « کہو کہ ہم اللہ تعالی پر، اور جو ہم پر نازل ہوا اس پر اور جو ابراہیم و اسماعیل کو عطا کیا گيا اس پر اور جو تمام پیغمبروں کو دیا گيا اس پر ایمان لائے۔»
۴) سوره‌ بقره، آیت ۱۳۷ کا ایک حصہ؛ « پھر اگر وہ بھی اس پر ایمان لائیں جس پر تم ایمان لائے ہو تو یقینی طور پر وہ ہدایت یافتہ ہو گئے۔»
۵) سوره‌ بقره، آیت ۱۳۷ کا ایک حصہ ؛ «لیکن اگر روگردانی کی تو اس کا واحد مطلب یہ ہے کہ انہوں نے سرپیچی کی اور بہت جلد اللہ تعالی تمہیں ان کے شر سے محفوظ بنا دے گا۔»
۶) سوره‌ توبه، آیت ۱۲۸ کا ایک حصہ؛ « تمہاری ہدایت پر مصر ہے»
۷) سوره‌ توبه، آیت ۱۲۸ کا ایک حصہ ؛ « اور مومنین کے لئے دلسوز اور مہربان ہے»
۸) سوره‌ فتح، آیت ۲۹ کا ایک حصہ؛ « کفار کے لئے بہت سخت اور آپس میں ایک دوسرے کے لئے بڑے مہربان ہیں۔ »